Category Archives: روز و شب

پچھتانے سے بچیئے

محاورے ہیں

گرے دودھ پر رونا کیا ؟
اب پچھتائے کیا ہوئے جب چِڑیاں چُگ گئیں کھیت

تین چیزیں کبھی ہاتھ نہیں آتیں

وہ لمحہ جو گذر گیا
وہ لفظ جو کہہ دیا
وہ وقت جو ضائع ہو گیا

کیوں نہ پہلے ہی احتمام کریں تاکہ پچھتانا نہ پڑے

سبق
جوانی ہی میں عدم کے واسطے سامان کر غافل
مسافر شب کو اُٹھتے ہیں جو جانا دُور ہوتا ہے

اے بندے

اے بندے

کیا تم اس زندگی میں اپنی مرضی سے آئے تھے ؟

کیا تم اپنی مرضی سے اس دنیا کو چھوڑ کے جاؤ گے ؟

تم اچھی طرح جانتے ہو کہ ” نہیں ”

پھر کیوں تم اپنی اس زندگی کو اُس اللہ کی مرضی کے مطابق نہیں ڈھالتے
جس کی مرضی سے تم آئے اور جس کی مرضی سے تم جاؤ گے ؟

آج کی دنيا ۔ ایک غور طلب کہانی

ایک صاحب بہادر اپنے بیوی بچے لے کر سیر کو نکلے کہ دنیا کی رنگینیاں دیکھیں ۔ راستے میں ایک شخص کھڑا ملا
صاحب بہادر نے پوچھا “تم کون ہو؟”
اس نے کہا “میں مال ہوں”
” صاحب بہادر نے اپنے بیوی بچوں سے پوچھا “کیا خیال ہے ہم اسے ساتھ بٹھا لیں ؟
سب نے کہا “ضرور کیونکہ ہمیں اس سفر میں اس کی ضرورت پڑے گی اور اس کی موجودگی میں ہم سب کچھ حاصل کرسکتے ہیں”
صاحب بہادر نے مال کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور آگے بڑھے ۔ جب تھوڑا آگے گئے تو ایک اور شخص کھڑا نظر آیا
صاحب بہادر نے پوچھا ” تم کون ہو ؟”
اس نے جواب دیا “میں منصب ہوں”
صاحب بہادر نے اپنے بیوی بچوں سے پوچھا “کیا خیال ہے اسے ساتھ بٹھا لیں ؟”
سب نے کہا “کیوں نہیں ۔ ہمیں اس سفر میں اس کی ضرورت پڑے گی اور دنیا کی لذتوں کا حصول اس کی موجودگی میں بہت آسان ہو جائے گا”
صاحب بہادر نے اسے بھی اپنے ساتھ بٹھا لیا اور مزید آگے بڑھے ۔ اس طرح اس سفر میں طرح طرح کی لذتوں سے ملاقات ہوئی اور صاحب بہادر سب کو ساتھ بٹھاتے آگے بڑھتے رہے ۔ آگے بڑھتے بڑھتے ایک اور شخص سے ملاقات ہوئی
صاحب بہادر نے پوچھا “تو کون ہے ؟”
اس نے جواب دیا” میں دین ہوں”
صاحب بہادر نے اپنے بیوی بچوں سے پوچھا “کیا اسے بھی ساتھ بٹھا لیں ؟”
سب نے کہا “ابھی نہیں یہ وقت دین کو ساتھ لے جانے کا نہیں ہے ابھی ہم سیر کرنے اور انجوائے کرنے جارہے ہیں اور دین ہم پر بلاوجہ ہزار پابندیاں لگادے گا حلال حرام کو دیکھو نمازوں کی پابندی کرو وغیرہ وغیرہ اور ہماری لذتوں میں رکاوٹ بنے گا ہم انجوائے نہیں کر سکیں گے ۔ ایسا کرتے ہیں کہ سیر سے واپسی پر ہم اسے ساتھ بٹھا لیں گے”
اور اس طرح وہ دین کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتے ہیں چلتے چلتے آگے چیک پوسٹ آ تی ہے ۔ وہاں کھڑا شخص صاحب بہادر سے کہتا ہے “گاڑی سے اترو”
صاحب بہادر گاڑی سے اترتے ہیں تو وہ شخص صاحب بہادر سے کہتا ہے “تمھارے سفر کا وقت ختم ہو چکا۔ مجھے تمھارے پاس دین کی تفتیش کرنا ہے”
صاحب بہادر نے کہا “دین کو میں کچھ ہی دوری پر چھوڑ آیا ہوں میں ابھی جاکر اسے ساتھ لے آتا ہوں”
” اُس شخص نے کہا ہے “اب واپسی ناممکن ہے تمہارا وقت ختم ہو چکا اب تمہیں میرے ساتھ چلنا ہوگا
صاحب بہادر نے کہا “مگر میرے ساتھ مال منصب اور بیوی بچے ہیں”
اُس شخص نے کہا “اب تمہیں تمھارا مال منصب اور اولاد کوئی بھی نہیں بچا سکتے ۔ صرف دین تمھارے کام آسکتا تھا جسے تم پیچھے چھوڑ آئے”
” صاحب بہادر نے پوچھا “تم ہو کون ؟
اُس نے کہا “میں تمہاری موت ہوں جس سے تم مکمل غافل تھے اور عمل کو بھولے رہے”
صاحب بہادر نے ڈرتی نظروں اور ڈوبتے دل کے ساتھ گاڑی کی طرف دیکھا اس کے بیوی بچے اس کو اکیلا چھوڑ کر مال اور منصب کو لئے اپنے سفر کو مکمل کرنے کے لئے آگے بڑھ گئے اور کوئی ایک بھی صاحب بہادر کی مدد کے لئے اس کے ساتھ نہ اترا

خاوند اور بیوی

ہر عورت (بیوی) کو معلوم ہونا چاہیئے کہ

جو مرد (خاوند) اُس سے سچا پیار کرتا ہے
حالات خواہ اُس کیلئے کتنے ہی مُشکل ہوں
وہ اُسے کبھی تنہاء نہیں چھوڑے گا

ہر مرد (خاوند) کو معلوم ہونا چاہیئے کہ

جو عورت (بیوی) اُس سے سچا پیار کرتی ہے
وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اُس سے خفا ہوتی رہے گی
لیکن رہے گی اُس کے ساتھ ہی

پيار کا کاروبار

سُنا ہے کہ پيار اچانک ہو جاتاہے
مسئلہ يہ ہے کہ پتہ کيسے چلے کہ پيار ہو گيا ہے ؟

1 ۔ فلموں اور ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے
جب سانسيں تيز ہونے لگيں
يا
دِل زيادہ دھڑکنے لگے
يا
رات کی نيند اور دن کا چين جاتا رہے

تو سمجھو پيار ہو گيا

مشورہ
مندرجہ بالا ميں سے کوئی بھی عارضہ ہو تو بہتر ہو گا کہ امراضِ قلب کے ڈاکٹر سے رجوع کيا جائے ۔ کہيں ايسا نہ ہو کہ دير ہو جائے ۔ محبت دھری رہ جائے اور بندہ پار ہو جائے

2 ۔ ایک گانا ہے

جب پيار کسی سے ہوتا ہے
اِک درد سا دل ميں ہوتا ہے

کچھ پيار کرنے والوں اور واليوں کو انٹر ويو کيا تو اُنہوں نے دل کے درد سے انکار کيا البتہ اتنا بتايا کہ زيادہ سموسے يا گول گپّے کھا جانے سے پيٹ ميں درد ہوا تھا

3 ۔ پيار کی گلی سے گذر کر آرام کرنے والوں اور واليوں سے تبادلہ خيال کيا تو بتايا گيا

جب لڑکا جان چھُڑائے
لڑکی پيچھے بھاگی آئے
تو سمجھو پيار ہو گيا
:lol:

تہذيب ۔ ۔ ۔ ؟

تہذیب کے موضوع سے انصاف کرنے کیلئے ضروری تھا کہ ثقافت کے معنی پوری طرح واضح کئے جائیں کیونکہ تہذیب اور ثقافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے البتہ تہذیب ثقافت سے جنم نہیں لیتی بلکہ تہذیب ثقافت پر اثر انداز ہوتی ہے اور اس کی راہ متعین کرتی ہے ۔ تہذیب کسی گروہ کے عقائد کے تابع ہوتی ہے ۔ ایسا اس لئے ہوتا ہے کہ افراد کو گروہ میں قائم رکھنے کیلئے کچھ مشترک باہمی عوامل لازم ہیں اور یہ عوامل ہی دراصل عقائد کا روپ دھارتے ہیں ۔ فطری طور پر یہ عوامل ان کے مذہبی اصول ہی ہوتے ہیں ۔ جيسا کہ ميں پہلے لکھ چکا ہوں ثقافت بھی مادر پدر آزاد نہیں ہوتی بلکہ اس کی حدود و قیود ہوتی ہیں

رہی تہذیب تو مؤرخین نے کم از کم وسط اُنیسویں صدی عیسوی تک اسے مذہب کے زیرِ اثر ہی گردانا ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عیسائی اور یہودی بہترین اوصاف کا منبع زبور تورات اور انجیل کو قرار دیتے تھے اور یہ استدلال درست بھی تھا گو متذکرہ کُتب تحریفات کے سبب الہامی نہ رہی تھیں ۔ پھر جب غیرمسلم دنیا اپنے عقائد سے بالکل اُچاٹ ہو گئی تو اُنہوں نے تہذیب کی تعریف میں سے لفظ مذہب کو حذف کر دیا ۔ اس کے باوجود اب بھی کچھ ڈکشنریاں ایسی ہیں جن میں تہذیب کا تعلق مذہب سے بتایا گیا ہے یا مذہب کا نام لئے بغیر اس طرف اشارہ کیا ہے

تہذیب رکھنے والے کو مہذب کہا جاتا ہے ۔ کوئی بھی مہذب گروہ ہو وہ اپنے بنیادی عقائد سے ضرور متاءثر ہوتا ہے چنانچہ مُسلمان کا مہذب ہونے کیلئے اپنے دین اسلام سے متاءثر ہونا اچنبہ کی بات نہیں ہے بلکہ ایسا ہونا ایک لازمی امر ہے ۔ باعمل مسلمانوں کا مقابلہ دورِ حاضر کے عیسائیوں اور یہودیوں سے اسلئے نہیں کیا جا سکتا کہ وہ لوگ پہلے اپنے دین سے منحرف ہوئے اور جب کلیسا ہی برائیوں کا گھر بن گیا تو انہوں نے مذہب سے کھُلم کھُلا بغاوت کر کے مذہب کو اپنی زندگی کے تمام عملی پہلوؤں سے نکال کر کلیسا میں محبوس کر دیا ۔ اس نئے خود تراشیدہ نظام کو سہارا دینے کیلئے سیکولرزم کا نظریہ ایجاد کیا گیا

عصرِ حاضر میں مسلمانوں کے تنزل کا سبب اُن کا دین نہیں بلکہ سبب یہ ہے کہ ان کی بھاری تعداد نے دین اسلام کو بھی وہی صورت دے رکھی ہے جو کئی صدیاں قبل کلیسا کے پاسبانوں نے دی تھی ۔ یعنی نماز پڑھتے نہیں اور پیروں کے آستانوں اور مزاروں پر حاضری اور تعویز گنڈے کو معمول بنا رکھا ہے ۔ زکوات اور صدقہ سے عاری ہیں مگر گیارہویں کا ختم نافذ کر رکھا ہے ۔ وغیرہ

دورِ حاضر کا مناسب دینی تعلیم سے محروم مسلمان جب ترقی اور جدیدیت کی علمبردار قوموں سے اپنی قوم کا موازنہ کرتا ہے تو بھٹک جاتا ہے ۔ ہمارے لوگ تاریخ پر تحقیق کرنا تو کُجا تاریخ پر نظر ڈالنا بھی گوارا نہیں کرتے ورنہ سب کچھ کھُل کر سامنے آ جائے ۔ یہاں تک کہ جس کتاب [قرآن شریف] کی بے حرمتی پر وہ مرنے مارنے پر تُل جاتا ہے اسے سمجھ کر پڑھنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتا ۔ قرآن شریف میں اللہ تعالٰی نے واضح الفاظ میں انسان کے ہر فعل کو دین کا تابع کرنے کا حُکم دیا ہے ۔ اسلئے مسجد ہو یا گھر ۔ دفتر ہو یا بازار ۔ تجارت ہو یا سیاست سب کو اللہ کے احکام کے تابع رکھنے سے ہی مسلمان بنتا ہے ۔ چنانچہ یورپ اور امریکہ میں رہنے والوں کے طور طریقے مسلمان نہیں اپنا سکتا سوائے ان اچھی عادات کے جو دین اسلام سے متصادم نہ ہوں بلکہ اچھی چیزیں اپنانا ہی چاہئیں ۔ ہمارے دین کی صلاح یہی ہے

میرے تہذیب اور مذہب کے درمیان رشتہ بیان کرنے پر خرم صاحب نے فرمایا تھا کہ اُردو والی تہذیب کا تعلق مذہب سے ہو سکتا ہے لیکن انہوں نے انگریزی والی civilization کی بات کی تھی جس کا تعلق مذہب کے ساتھ نہیں بنتا ۔
بہت خُوب ۔ دیکھ لیتے ہیں کہ انگریزی والی civilization کیا ہوتی ہے

سب سے بڑی انگریزی سے اُردو آن لائین ڈِکشنری
تمدن ۔ تہذیب ۔ شائستگی

انگریزی اُردو لغت آن لائین
تہذیب ۔ تمدن ۔ تربیت ۔ انسانیت

ایک اور انگریزی اُردو لغت آن لائین
تہذیب و تمدن

مریم ویبسٹر ڈکشنری
مقابلتاً اعلٰی سطحی ثقافت اور فنی ترقی بالخصوص وہ ثقافتی ترقی جس میں تحریر اور تحاریر کو محفوظ رکھنے کا حصول مقصود ہو ۔ خیالات عادات اور ذائقہ کی شُستگی یا آراستگی

کیمبرج ڈکشنری
اچھی طرح ترقی یافتہ ادارے رکھنے والا انسانی گروہ یا کسی گروہ کے رہن سہن کا طریقہ

رھائیمیزون
اعلٰی سماجی ترقی کا حامل گروہ [مثال کے طور پر پیچیدہ باہمی قانونی اور سیاسی اور مذہبی تنظیم]

اینکارٹا آن لائین انسائیکلوپیڈیا
تاریخی اور ثقافتی یگانگی رکھنے والا ترقی یافتہ گروہ ۔ قرونِ وسطہ سے اُنیسویں صدی تک اکثر یورپی مؤرخین نے مذہبی پسِ منظر لیا ہے

الٹرا لِنگوا
ایک گروہ مخصوص ترقی کی حالت میں ۔ کوئی گروہ جو قانون کا پابند ہو اور وحشت کا مخالف ۔ ثقافت کا اعلٰی درجہ

امید ہے بات واضح ہو گئی ہو گی ۔ مندرجہ بالا سب جدید ڈکشنریاں ہیں پھر بھی اگر غور سے دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ کچھ میں مذہب کا لفظ غائب کر دیا گیا ہے لیکن اشارہ مذہب ہی کی طرف ہے ۔ پانج سات دہائیاں پرانی ڈکشنریوں میں civilization کو مذہب کے زیرِ اثر ہی لکھا جاتا رہا ہے کیونکہ یہودیوں اور عیسائیوں کے مطابق بھی ہر بھلائی کا سرچشمہ زبور تورات اور انجیل تھیں گو کہ ان کُتب میں بہت تحریف کی جا چکی تھی