Category Archives: روز و شب

اتوار کو کیا ہو گا ؟

اتوار 23 دسمبر کو جو ہوگا وہ تو بعد میں پتہ چلے گا لیکن اس سلسلہ میں پچھلے آٹھ دس دنوں سے جو ہو رہا ہے وہ یہ ہے کہ ٹی وی چینلز پر وقفے وقفے سے طاہر القادری صاحب کی مووی فلم بطور اشتہار دکھائی جا رہی ہے ۔ مزید برآں اخبارات میں رنگین اشتہار چھپ رہے ہیں اور اسلام آباد کی اہم سڑکوں پر (اور سُنا ہے لاہور میں بھی) نصب ہر کھمبے کے ساتھ کپڑے کے رنگین مشین پرنٹد اشتہار (banner) لٹکے ہوئے ہیں اور اہم چوراہوں پر بہت بڑے شاید 10 فٹ 12 فٹ کے بورڈ آویزاں ہیں جن سب میں طاہر القادری صاحب کی تصویر ہے اور اُن کی آمد اور 23 دسمبر کو لاہور میں جلسہ کا ذکر ہے ۔ موضوع ہے ”سیاست نہیں ۔ ریاست بچاؤ“۔

طاہر القادری صاحب اپنے آپ کو شیخ الاسلام کہلواتے ہیں ۔ اگر بات اپنے ایمان کو بچانے کی جاتی تو بھی اسے اسلامی کہا جا سکتا تھا مگر نعرہ ریاست بچانے کا لگایا گیا ہے جبکہ اسلام میں ریاست کا تصوّر ہے ہی نہیں ۔ اُمت کا تصوّر ہے ۔ پھر یہ جلسہ اور تقریر بہر طور سیاسی ہے اور یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے کہ سیاست کے بغیر ریاست نہیں ہو سکتی ۔ خیر ۔ طاہر القادری صاحب تقریر کا فن جانتے ہیں ۔ اپنا جادو جگا لیں گے

دو تِیکھے سوال ذہن میں اُبھرتے ہیں

ایک ۔ طاہر القادری صاحب کئی سال قبل پاکستان کو خیرباد کہہ کر کنیڈا جا بسے اور وہاں کے شہری بن گئے تھے ۔ کئی عشروں بعد انہیں پاکستان اور وہ بھی لاہور (جو پاکستان کا دل ہے) میں تقریر کرنے کی کیا سُوجھی ؟

دو ۔ یہ لاکھوں بلکہ کروڑوں روپیہ جو اشتہار بازی پر خرچ ہو رہا ہے کیا دین اسلام اس کی اجازت دیتا ہے ؟ اور یہ روپیہ کہاں سے آ رہا ہے ؟

یہاں کلک کر کے اسی سلسلہ میں ایک دلچسپ مضمون پڑھنا نہ بھولئے گا

ایک پریشانی جوانی کی

پچھلے دنوں ارتقاءِ حیات پر استنجہ کے متعلق پڑھا تو مجھے پرانی بات یاد آئی

شروع مارچ 2012ء میں میرے ایک محترم قاری نے مجھے باعِلم اور بااعتماد ہونے کا اعزاز بخشا (جس کیلئے میں اُن کا ممنونِ احسان ہوں) اور اپنی ذاتی پریشانی سے متعلق مشورہ مانگا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اُسے کامل شفاء و صحت عطا فرمائے

محترم قاری کی پریشانی
مجھے ایک عرصے سے ایک شک سا ہے جو دُور کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کا مطالعہ زیادہ ہے اس لیے تکلیف دے رہا ہوں۔ کبھی کبھار جنسی تحریک کی وجہ سے سفید رنگ کی رطوبت کا اخراج ہو جائے، میں منی کی بات نہیں کر رہا۔ یہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔ جیسا کہ یہاں آخری لائن میں یہی سوال ہے ۔ سفید رنگ یا شفاف کہہ لیں قسم کا مادہ جو دودھیا نہیں ہوتا، کسی بھی قسم کے ارادی فعل کی وجہ سے خارج نہیں ہوتا بلکہ غیر ارادی انداز میں، غالباً اس کی وجہ کمزوری ہوتی ہے۔ کیا اس کے اخراج کے بعد غسل کرنا واجب ہے؟

میں نے جواب لکھا
“میں نہ تو مُفتی ہوں اور نہ ماہرِ فقہ ۔ سکول کالج وغیرہ میں سائنس پڑھی ہے ۔ اسلئے میں ہر معاملے کو سائنسی لحاظ سے پرکھتا ہوں ۔ کسی چیز یا معاملہ کا مطالعہ کرنے کیلئے اس کا تجزیہ کیا جاتا ہے یا محرکات کا ادراک ۔ منی کے خارج ہونے پر نہانا واجب ہے ۔ جس مادے کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کا محرک وہی ہے جو منی خارج ہونے کا ہے پھر اس مادے کے اخراج پر نہانا واجب نہ ہو ۔ یہ میری سمجھ سے باہر ہے ۔ جب اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے حرام اشیاء کا بتاتے ہوئے بتایا ہے “اور وہ چیز جس سے گھِن آ جائے” یعنی جی خراب ہو وہ بھی حرام ہے ۔ تو اس اصول سے بات واضح ہو جاتی ہے کہ احتیاط لازم ہے ۔ اللہ مجھے سیدھی راہ پر قائم کرے”

جواب دینے کے بعد ایک نئے قاری نے میری ایک تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنی ویب سائٹ پر مدعو کیا جو اسی قسم کے دین کے متعلق وضاحتی سوالات و جوابات تھے ۔ میں نے موصوف کو متذکرہ بالا سوال لکھ بھیجا تو اُن کا مندرجہ ذیل جواب آیا جو وہ قبل ازیں کسی اور سائل کیلئے اپنی ویب سائٹ پر لکھ چکے تھے

موصوف کا جواب
ایک بھائی نے پہلے بھی مذی سے متعلق سوال کیا تھا۔ وہی آپ کو بھیج رہا ہوں۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ مذی یا ودی کے نکلنے سے غسل لازم نہیں ہوتا۔ صرف عضو تناسل کو دھونا اور وضو کرنا ہی لازم آتا ہے۔ غسل صرف اسی صورت میں واجب ہوتا ہے جب مادہ منویہ شہوت کے ساتھ نکلے

سوال جو اُن سے کیا گیا تھا ۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ بعض اوقات پیشاب کے بعد عضو سے ایک خاص قسم کی رطوبت جسے غالباً مذی کہا جاتا ہے خارج ہونے لگتی ہے اور یہ سلسلہ کچھ دیر تک وقفہ وقفہ سے جاری رہتا ہے جب دیکھ لیتا ہوں تو اسی وقت دھونے لگ جاتا ہوں مگر بعض اوقات معلوم بھی نہیں ہوتا اور وہی رطوبت خارج ہوجاتی ہے اور پھر جلد ہی خشک ہوجاتی ہے تو براہ کرم اس سلسلے میں میری رہنمائی فرمائیں کہ جب رطوبت خشک ہوجائے تو اس کو دھونے کی حاجت پڑتی ہے یا نہیں؟ میں اپنے اجتہاد کی بدولت خشک رطوبت جو کسی بھی صورت نظر نہیں آتی دھونے کی زحمت نہیں کرتا اور بار بار ڈریس بدلنے کی تکلیف سے جان چھڑانے کیلئے خشک ہونے کے بعد نہیں دھوتااور پھر مجھےمعلوم بھی نہیں ہوتا کہ رطوبت کہاں کہاں پر لگی ہے ۔۔۔۔براہ کرم آپ اس سلسلہ میں اپنا نقطہ نظر بیان فرمادیں

موصوف نے جو جواب دیا تھا ۔ یہ بہت سے لوگوں کا مسئلہ ہے۔ اسے مذی نہیں بلکہ ودی کہتے ہیں۔ مذی شہوت کے ساتھ نکلتی ہے جبکہ ودی پیشاب کے بعد آتی ہے۔ یہ دونوں ناپاک ہوتی ہیں۔ اس مسئلے کا سادہ سا حل یہ ہے کہ آپ اپنے انڈر ویئر کے اندر مخصوص مقام پر ایک ٹشو پیپر یا چھوٹا سا کپڑا رکھ لیا کریں۔ جو ودی نکلے گی، وہ اس میں جذب ہوتی رہے گی اور آپ کا لباس محفوظ رہے گا۔ ہر نماز سے پہلے آپ اسے نکال دیں۔ اگر عضو کو نہ بھی دھوئیں تو حرج نہیں کیونکہ یہ ٹشو وہی کام کرے گا جو مٹی کا ڈھیلا کرتا ہے یعنی رطوبت سے آپ کے عضو اور لباس کو پاک کر دے گا”۔

میں نے اُنہیں لکھا
مندرجہ ذیل استدلال میرے دماغ میں نہیں گھُس رہا
“اگر عضو کو نہ بھی دھوئیں تو حرج نہیں کیونکہ یہ ٹشو وہی کام کرے گا جو مٹی کا ڈھیلا کرتا ہے یعنی رطوبت سے آپ کے عضو اور لباس کو پاک کر دے گا”
میرے مطالعہ اور تعلیم کے مطابق
اوّل ۔ مٹی کا استعمال اس وقت کافی ہے جب پانی میسّر نہ ہو یا پانی کے استعمال سے صحت بگڑنے کا اندیشہ ہو
دوم ۔ مٹی کے ڈھلے سے خود صاف کرنے اور سامنے ٹِشُو پیپر رکھ دینے میں فرق ہے ۔ ٹِشُو رطوبت کو چُوس کر عضوء کی بیرونی سطح پر پہنچا دے گا جس کے باعث دھونا واجب ہو جاتا ہے ۔ یہ ٹِشُو جب گیلا ہو گا تو انڈر ویئر کو بھی گیلا نہیں کرے گا اس کا کیا ثبوت ہے ؟

موصوف کا جواب آیا
دین میں اتنی سختی نہیں ہے کہ انسان کی زندگی مشکل بن جائے۔ عہد رسالت میں پانی ذرا مشکل سے دستیاب ہوتا تھا اس وجہ سے عام طور پر لوگ استنجا کے لیے ڈھیلے ہی استعمال کیا کرتے تھے۔ پانی سے دھونا ایک اضافی چیز تھی جسے ضروری نہیں سمجھا گیا۔ اگر ٹشو سے احتمال ہو کہ یہ نجاست کو پھیلا دے گا تو پھر میں آپ سے متفق ہوں کہ دھونا ضروری ہے۔ ویسے اب اس قسم کے ٹشو آ گئے ہیں جو نجاست کو پھیلاتے نہیں ہیں بلکہ اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ انڈر ویئر کو گیلا کرنے کے معاملے میں بھی احتیاط کی جا سکتی ہے۔ مذی اتنی زیادہ نہیں ہوتی کہ وہ پیشاب کی طرح ہر چیز کو گیلا کر دے۔ ایک آدھ قطرہ ہی ہوتا ہے جو اگر مناسب انداز میں تہہ کیے ہوئے ٹشو ہوں تو انڈر ویئر کو متاثر نہیں کرتے۔ اس معاملے میں میں آپ کو یہ مشورہ دوں گا کہ دیگر اہل علم سے بھی ڈسکس کر لیجیے اور پھر جس رائے پر آپ کا ذہن مطمئن ہو، اسے اختیار کر لیجیے۔ اصل چیز ہمارا اطمینان ہے۔ اگر میری رائے سے آپ کا اطمینان نہیں ہو رہا تو آپ بلا تکلف وہ رائے اختیار کیجیے جس پر آپ کا اطمینان ہو۔ ہم میں سے کوئی بھی معصوم پیغمبر نہیں ہے اور غلطی کر سکتا ہے”۔

میں نے لکھا
قبل اس کے کہ میں مزید کچھ لکھوں میں کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہوں
میں نہ تو مُفتی ہوں اور نہ ماہرِ فقہ . میں طالب علم ہوں اور پچھلی سات دہائیوں سے علم سیکھنے کی اپنی سی کوشش کر رہا ہوں . میں عملی زندگی میں یقین رکھتا ہوں اور دوسرے فرد سے وہی کہتا ہوں جس پر میں خود عمل کروں
میں آپ سے اختلاف کی کوشش نہیں کر رہا بلکہ مجھ سے پوچھے جانے والے یا اپنے ذہن میں اُٹھنے والے سوالات کے جواب ڈھونڈ رہا ہوں
بلا شُبہ دین میں سختی نہیں ہے . سختی کی تعریف ذرا مُشکل ہے . آدمی سے آدمی تک بدل سکتی ہے اور اپنی اپنی سوچ کے مطابق بھی بدلی جاتی ہے
میں ایک سادہ سی مثال دیتا ہوں . مجھے سات سال قبل زمین پر بیٹھنے اور جھُکنے سے منع کر دیا گیا . میں نے فرض کے سامنے اس عُذر کو چھوٹا سمجھتے ہوئے اس پر عمل نہ کیا اور تکلیف برداشت کرتا رہا جو میری برداشت سے باہر نہ تھی ۔ ساڑھے تین سال قبل میں نے زمین پر بیٹھنا اور جھُکنا چھوڑ دیا ۔ تب سے میں کُرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں ۔ ایسا میں نے “دین میں سختی نہیں ہے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کیا
اب آتے ہیں ٹِشو پیپر کے استعمال کی طرف
ٹِشو پیپر جہاں آدمی رکھے گا کیا وہ بعین ہی وہیں رہے گا ؟
درست کہ آجکل بہت اچھے جاذب ٹشو پیپر ملتے ہیں ۔ بات صرف اتنی ہے کہ ٹی وی کے اشتہار والا وہ پیمپر بھی دنیا میں کہیں نہیں ملتا جو سوتے بچے کا سارا پیشاب یوں جذب کر لیتا ہے کہ بچہ گیلا نہیں ہوتا
مٹی سے صاف کرنے کے بعد پانی سے دھونا اضافی کیسے ہوا ؟ از راہِ کرم اس کا حوالہ قرآن یا حدیث یا صحابہ کرام یا تابعین سے دیجئے
مذی یا مدی کی مقدار جس کا ذکر ہوا وہ اتنی تھی کہ کپڑوں کو لگ جائے
آپ کے اس استدال سے میں متفق ہوں کہ وہی اختیار کیا جائے جس سے اطمینان ہو

موصوف کا جواب آیا
مٹی کے ڈھیلوں سے استنجا تو معروف عمل ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی “کتاب الطہارۃ” دیکھ لیجیے۔ اس پر بہت سی احادیث مل جائیں گی جن میں پتھروں سے استنجا کا عمل بیان ہوا ہے۔ ان سب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عربوں کے ہاں عام پریکٹس تھی۔

میں نے اُنہیں لکھ بھیجا
میں نے صرف مجموعہ حدیث مسلم سے چند حوالے دیئے ہیں ۔ مزید مسلم میں اور بخاری میں بہت ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ مٹی صرف مجبوری کی حالت میں استعمال کی جائے

References From Hadith Muslim
Chapter# 45, Book 7, Number : 2941
Kuraib, the freed slave of Ibn Abbas, narrated from Usama b. Zaid (Allah be pleased with him) that he had heard him saying: Allah’s Messenger (may peace be upon him) proceeded from Arafa, and as he approached the creek of a hill he got down (from his camel) and urinated, and then performed a light ablution. I said to him: Prayer, whereupon he said: The prayer awaits you (at Muzdalifa) So he rode again, and as he came to Muzdalifa, he got down and performed ablution well. Then Iqima was pronounced for prayer and he ‘observed the sunset prayer. Then every person made his camel kneel down there, and then Iqama was pronounced for ‘Isha’ prayer and he observed it, and he (the Holy Prophet) did not observe any prayer (either Sunan or Nawifil) in between them (He observed the Fard of sunset and ‘Isha’ prayers successively

Book 7, Number: 2943
Usama b. Zaid (Allah be pleased with him) narrated: Allah’s Messenger (may peace be upon him) was on his way back from ‘Arafat and as he reached the creek (of a hillock) he got down and urinated (Usama did not say that he poured water), but said: He (the Holy Prophet) called for water and performed ablution, but it was not a thorough one. I said: Messenger of Allah, the prayer! Thereupon he said: Prayer awaits you ahead (at Muzdalifa). He then proceeded, until he reached Muzdalifa and observed sunset and ‘Isha’ prayers (together) there.

Book 4, Number: 1671
Ibn ‘Abbas reported: I spent a night with my maternal aunt (sister of my mother) Maimuna. The Apostle of Allah (may peace be upon him) got up during the night and relieved himself, then washed his face and hands and went to sleep. He then got up again, and came to the water skin and loosened its straps, then performed good ablution between the two extremes. He then stood up and observed prayer. (I also stood up and stretched my body fearing that he might be under the impression that I was there to find out what he did at night). So I also performed ablution and stood up to pray, but I stood on his left. He took hold of my hand and made me go round to his right side. The Messenger of Allah (may peace be upon him) completed thirteen rak’abs of his night prayer. He then lay down and slept and snored (and it was his habit to snore while asleep). Then Bilal came and he informed him about the prayer. He (the Holy Prophet) then stood up for prayer and did not perform ablution, and his supplication included there words:” O Allah, place light in my heart, light in my sight, light in my hearing, light on my right hand light on my left hand, light above me, light below me, light in front of me light behind me, and enhance light for me.” Kuraib (the narrator) said There are seven (words more) which are in my heart (but I cannot recall them and I met some of the descendants of ‘Abbas and they narrated these words to me and mentioned in them: (Light) in my sinew, in my flesh, in my blood, in my hair, in my skin, and made a mention of two more things”.

اُنہوں نے جواب دیا

Thanks for sharing Ahadith. I shall look into them and if found convincing evidence, will change my views. Anyway, thanks for sharing.

اُس وقت حدیث کا حوالہ تھا تو حدیث سے ہی دلیل پیش کی تھی ۔ قرآن شریف کو بیچ میں لانا مناسب نہ سمجھا تھا ۔ اب یہ 2 حوالے ضروری سجمھتا ہوں

سورت 4 النّسآء ۔ آیت 43 ۔ اے ایمان والو ۔ تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو اور نہ حالتِ جنابت میں (نماز کے قریب جاؤ) تا آنکہ تم غسل کر لو سوائے اس کے کہ تم سفر میں راستہ طے کر رہے ہو، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے لوٹے یا تم نے (اپنی) عورتوں سے مباشرت کی ہو پھر تم پانی نہ پاسکو تو تم پاک مٹی سے تیمم کر لو پس اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں پر مسح کر لیا کرو، بیشک اللہ معاف فرمانے والا بہت بخشنے والا ہے
سورت 6 المآئدۃ ۔ آیت 6 ۔ اے ایمان والو! جب نماز کیلئے کھڑے ہو تو اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفعِ حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو ۔ پس اس سے اپنے چہروں اور اپنے ہاتھوں کا مسح کر لو ۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ

تبصرہ بلاگر ۔ سورت المآئدہ کی آیت 6 کے آخر میں اللہ کا فرمان ہے ”اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے“۔ لیکن اس سے پہلے جو اللہ کا فرمان ہے اس پر غور کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ نرمی بحالتِ مجبوری ہے نہ کہ اپنی مرضی سے جو چاہا نرمی کے تحت کر لیا

ڈاکٹر نہیں مانتے

ڈاکٹر نہیں مانتے لیکن یہ حقیقت ہے کہ جو سائنس ایلوپیتھِک میڈیسن کے نام سے بنائی گئی ہے یہ ابھی تک نامکمل ہے ۔ میں اس کے نامکمل ہونے کی وجہ سے کئی بار تکلیف اُٹھا چکا ہوں ۔ حالیہ مثال 11 دسمبر 2012ء کی ہے ۔ ہوا یوں کہ کچھ دنوں سے پیٹ میں درد تھا اور عجیب سی گڑ بڑ تھی ۔ میں صبح ساڑھے 8 بجے معدہ کے معالج (Gaestroentrologist) کے پاس پہنچا اور اپنی حالت بیان کی ۔ ڈاکٹر صاحب نے 3 قسم کی گولیاں صبح شام کھانے کو کہا ۔ اُسی دن ایک ایک گولی صبح اور ایک ایک رات کو کھا کر سویا ۔ رات کے دوران نیند کھُل گئی اور بائیں آنکھ کے نیچے تکلیف محسوس ہوئی ۔ ہاتھ لگایا تو ایسے محسوس ہوا کہ کھال اُتر جائے گی ۔ باقی رات سو نہ سکا

اُوپر والی تصویر دوائی کے استعمال سے پہلے کی ہے ۔ 12 دسمبر کو تو کچھ سُوج نہ رہا تھا ۔ 13 دسمبر کی رات تک افاقہ ہوا تو رات 9 بجے کی تصویر کھینچی جو نیچے والی ہے (موبائل فون سے خود ہی لی ہے اسلئے واضح نہیں ہے) ۔ داہنی آنکھ کے نیچے کم سوجن ہے ۔ بائیں آنکھ کے نیچے زیادہ ہے جس میں درد ہے اور خون ملی رطوبت غیرمحسوس طور پر رِستی ہے اور جلد پر سخت چھلکا سا بن رہا ہے ۔ اُبھری سطح سُرخ سے کلیجی رنگ کی ہوتی ہوئی ایک نقطے پر کالی ہو گئی ہے ۔ آگے کیا ہو گا وہ اللہ جانتا ہے

میرے ساتھ یہ پہلا نہیں آٹھواں واقعہ ہے ۔ یوں کہنا چاہیئے کے ڈاکٹر صاحبان نے اب آٹھویں بار مجھے ہاتھ دکھایا ہے

پہلی بار تو میں بچہ تھا یعنی 1948ء میں ڈاکٹر صاحب نے مجھے پنسلین کا ٹیکہ لگایا ۔ 10 منٹ بعد میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانا شروع ہوا ۔ بالآخر میں گر پڑا ۔ اُٹھا کر اُنہی ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے ۔ جب مجھے ہوش آیا تو اُنہوں نے کہا ”دل کا کمزور ہے ڈر گیا ہے”۔ میں بول پڑا ”اگر میں ڈر جاتا تو ٹیکہ لگنے کے 2 منٹ بعد ہی بیہوش ہو جاتا“۔ اگلے پندرہ سولہ سال میں جب ردِ عمل عام ہوا تو مانٹو ٹیسٹ کر کے پنِسلِیں کا ٹیکہ لگانا شروع کیا گیا ۔ پھر کچھ سال بعد پنسِلِین ہمیشہ کیلئے غائب ہو گئی

1957ء میں ڈاکٹر صاحب نے مجھے سلفاڈایا زین شاید زیادہ دن کھِلا دی ۔ علاج کے بعد میں صاحب فراش ہوا ۔ انجیئرنگ کالج کی پڑھائی بھی غارت ہوئی ۔ پہلے میرے ہونٹ اور آنکھیں سُوج گئے ۔ اُس کے بعد چند ماہ میں میرے ہونٹوں ۔ ہونٹوں کے نیچے ۔ بازوؤں کے اندر کی طرف اور ٹانگوں کے اندر کی طرف جہاں جلد نرم ہوتی ہے کاسنی نشان (Violet pigments) بن گئے ۔ اس کے بعد میں جب بھی بیمار ہوتا متعلقہ ڈاکٹر صاحب سے عرض کرتا کہ ”مجھے سلفا نام کی کوئی دوا نہ دیں ۔ اس کا شدید ردِ عمل ہوتا ہے“ لیکن ڈاکٹر علم والے ہوتے ہیں اور مریض جاہل اور جاہل کی کون سُنتا ہے ؟ آخر 1962ء میں ان نشانوں کے علاج کے سلسلہ میں ایک ڈاکٹر صاحب کے پاس گیا ۔ اُنہوں نے کہا”یاد کرو کہ یہ نشان پڑنے سے ایک سال قبل تک تمہیں کیا بیماری ہوئی اور اس کیلئے کون کونسی دوا کھائی ۔ ایک ہفتہ بعد آ کر مجھے بتاؤ”۔ ایک ہفتہ بعد سب سُن کر ڈاکٹر صاحب نے ھدائت کی ”یاد رکھو ۔ ساری زندگی تم نے وہ دوائی نہیں استعمال کرنا جس میں سلفا آتا ہو”۔

دسمبر 1964ء میں مجھے بخار ہوا تو مجھے ملیریا کی دوا دی گئی نام اس وقت ذہن میں نہیں آ رہا ۔ 2 دن دوا کھانے کے بعد میری حالت غیر ہونے لگی ۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو ٹیلیفون پر بتایا تو گویا ہوئے ”یہ دوا ایک مشہور امریکی کمپنی نے بڑی تحقیق کے بعد تیار کی ہے ۔ اس کا ردِ عمل ہو ہی نہیں سکتا ۔ اگر آپ علاج شروع نہ کرتے تو اس سے زیادہ بُرا حال ہوتا“۔ میں نے تیسرے دن بھی دوا کھا لی ۔ چوتھے دن صبح بہت مشکل سے اُٹھ کر پیشاب کرنے غسلخانہ گیا ۔ کموڈ پر بیٹھا نہیں کہ اُٹھنے کیلئے کوئی سہارا نہ تھا ۔ دیوار تھام کر کھڑے کھڑے پیشاب کرنے لگا ۔ دیکھا کہ پیشاب کلیجی رنگ کا ہے ۔ فارغ ہو کر گھر سے نکلا اور بڑی مشکل سے چل کر ٹانگے تک پہنچا اور ہسپتال گیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے لیبارٹری بھیجا ۔ جار میں پیشاب کیا تو جیسے جار خون سے بھرا ہو ۔ جار لیبارٹری میں دیا اور ڈاکٹر صاحب کی طرف رُخ کیا ۔ اس کے بعد کا معلوم نہیں ۔ جب آنکھیں کھولیں تو ہسپتال کے کمرے میں بستر پڑا تھا ۔ میرے ایک بازو میں نالی لگی تھی ۔ خون چڑھایا جا رہا تھا ۔ تھوڑی دیر بعد نرسنگ سپاہی آیا اور بتایا کہ میں 3 دن سے بے سُدھ پڑا تھا۔ میں نے سر اُٹھانے کی کوشش کی تو دنیا پھر آنکھوں سے اوجھل ہو گئی ۔ مزید 7 دن اسی طرح گزرے ۔ ہو ش آیا تو گھنٹی کا تکیئے کے پاس پڑا بٹن دبایا ۔ ایک آدمی آیا ۔ اُسے ڈاکٹر صاحب کو بلانے کا کہا ۔ شام کا وقت تھا ۔ رات کی ڈیوٹی پر ڈاکٹر صاحب آئے ۔ وہ میرے دوست کیپٹن کرامت اللہ تھے (اب ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل) ۔ انہوں نے کافی خوش گپیاں کیں ۔ اللہ نے پھر بچا لیا ۔ 15 دن ہسپتال میں رہنے کے بعد 7 دن آرام کی ھدائت کے ساتھ گھر بھیج دیا گیا ۔ ہسپتال میں سوائے ایک بوتل خون چڑھانے کے اور کچھ نہ کیا گیااور نہ اُنہیں میری تکلیف کا سبب سمجھ میں آیا ۔ دسمبر 1965ء تک پاکستان میں کئی اور اسی طرح کے کیس ہوئے اور سب نے وہی دوا کھائی تھی جو مجھے دی گئی تھی ۔ حکومت حرکت میں آئی اور متعلقہ دوا کا استعمال ممنوع قرار دے دیا گیا اور دوا تمام ہسپتالوں اور دکانوں سے اُٹھا لی گئی

ایک دہائی قبل میں بیمار ہوا تو دوسری دوا کے ساتھ ڈاکٹر صاحب نے مجھے کئی چھوٹی سی نئی قسم کی گولیاں دیں رات سونے قبل ایک کھانے کا کہا ۔ میرے پوچھنے پر بتایا کہ طاقت کی دوا ہے ۔ پہلی رات میری نیند کچھ خراب رہی ۔ دوسری رات مجھ نیند نہ آئی ۔ تیسری رات نیند نہ آنے سے طبیعت بالکل اُچاٹ ہو گئی ۔ ایک عزیز ملنے آئے ۔ میرا حال سُن کر دوائیں دیکھنے لگے اور ایک گولی دکھا کر پوچھا ”یہ دوا کھائی تھی ؟“ میرے ہاں کہنے پر بولے ”کمال ہے ۔ یہ تو نیند آور گولیاں ہیں“۔ ڈاکٹر صاحب سے اگلے روز مل کر شکائت کی کہ میرے ساتھ جھوٹ کیوں بولا ۔ بولے ”آپ ہر قسم کے نشے کے بہت خلاف ہیں اسلئے میں نے سوچا تھا کہ نفسیاتی اثر نہ ہو“۔

سَیپٹرین ۔ سَیپٹران ۔ بَیکٹرین پہلے ہی بند کی جا چکی تھیں ۔ ایمپسلین کا ردِ عمل بھی بُرا ہوا ۔ کو ایکسیلین کا بھی غلط ردِ عمل ہوا ۔ اَوگمَینٹِن سے بھی بھاگنا پڑا ۔ قصور کس کا ہوا ؟ کیا یہ میرا قصور ہے ؟

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ پسند

ہر آدمی کو آزادی ہے کہ
* * * * * جو چاہے پسند کرے

لیکن

وہ اپنی پسند کے نتائج سے آزاد نہیں ہے

عقلمند پسند کا اختیار بھی سوچ سمجھ کر استعمال کرتا ہے

میرا دوسرا بلاگ ” حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter“۔
” پچھلے 8 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھر پور چلا آ رہا ہے ۔ اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔ 2010ء ميں ورڈ پريس نے اسے 10 بہترين بلاگز ميں سے ايک قرار ديا تھا

اسلامی نظامِ حکومت ۔ قسط ۔ 2

قسط ۔ 1 کیلئے یہاں کلک کیجئے

منقول ہیں پروفیسر حافظ محمد عبداللہ بہاولپوری کے کتابچہ(مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے نام) میں سے چند اقتباسات

وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرائیل۔81) ’’اور اعلان کردے کہ حق آچکا اور باطل نابود ہوگیا، یقیناًباطل تھا بھی نابود ہونے والا‘‘

اسلام میں خلافت کا تصور
خلافت کا تصور جس سے کفر خائف ہے یہ ہے کہ حاکم اعلیٰ اللہ ہے اور انسان جو حقیقت میں ایک صحیح مسلمان ہی ہو سکتا ہے روئے زمین پر اس کا خلیفہ ہے۔سب انسان اپنی خلقت کے اعتبار سے برابر ہیں۔کیونکہ سب آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں۔کسی کو کسی پر فوقیت نہیں۔فوقیت صرف نیکی اور تقویٰ سے ہے۔

جیسے اللہ کی حاکمیت وسیع ہے اسی طرح اس کے خلیفے کی خلافت بھی روئے زمین پر وسیع ہے۔اسلام کے لیے کوئی ملکی حدود نہیں۔روئے زمین پر اسلام پھیلانا خلیفہ کا فرض ہے۔خلافت کے اس تصور سے مسلمانوں میں وحدت اور ایک مرکز کا احساس پیدا ہوتا ہے۔جہاد کا جذبہ ابھرتا ہے ۔جب سب مسلمان برابر ہیں تو قومی اور علاقائی عصبیتوں کا خاتمہ ہوتا ہے۔خلافت کا یہ تصور کفر کے لیے الٹی میٹم ہے اور اسلام کے لیے توسیع کا پروگرام جس کے لیے جہاد کی ضرورت ہے اور جہاد کا حکم یہ ہے کہ جب تک کفر مٹ نہ جائے جہاد جاری رکھو ۔ وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ ۖ فَإِنِ انْتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ (البقرۃ ۔193) ‘‘ان سے لڑو جب تک کہ فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب نہ آجائے۔ ’’

کفر جانتا ہے کہ خلافت الٰہیہ اور جہاد ایسے لفظ ہیں کہ ان سے مسلمانوں کی وہ دینی حس بیدار ہوتی ہے جو سب عصبیتوں کو ختم کر دیتی ہے اور مسلمان جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔اس لیے کفر خلافت کے تصور کو برداشت نہیں کرتا وہ اسے ہر صورت میں مٹانا چاہتا ہے،وہ جمہوریت کا سبق پڑھاتا ہے تاکہ مسلمان اللہ کو بھول کر اپنی حکمرانی کی دوڑ میں لگ جائیں۔مختلف عصبیتیں پیدا کر کے الیکشن لڑیں اور انتشار کا شکار ہوں۔اسلام کی توسیع اور جہاد کا جذبہ ان کے دلوں سے نکل جائے چھوٹی چھوٹی اپنی جمہوریتیں بنا کر دست و
گریباں رہیں۔جب کمزور ہو جائیں تو کفر کے دست نگر رہیں۔

جمہوریت
جمہوریت مستقل ایک علیحدہ نظام ہے اسلام ایک علیحدہ نظام ہے ۔جمہوریت کو کافروں نے ایجاد کیا ہے اسلام اللہ کا نظام ہے جو ساری کائنات میں جاری ہے ۔جمہوریت میں عوام ہی سب کچھ ہوتے ہیں جو چاہتے ہیں کرتے ہیں اللہ کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔جمہوریت میں عوام ہی طاقت کا سر چشمہ سمجھے جاتے ہیں ،ان کی حکمرانی ہوتی ہے،وہ اپنے معاشرے کا خود ہی دستور بناتے ہیں،خود ہی قانون۔جو پارٹی اکثریت میں ہو حکومت کرتی ہے جو اقلیت میں ہو محکوم ہوتی ہے ،اس طرح انسان انسان پر حکومت کرتا ہے

اسلام میں حاکمیت اعلیٰ اللہ کی ہوتی ہے ۔ اب انسان اس کے حکم کے تابع ہوتے ہیں راعی اور رعایا سب اللہ کے سامنے جواب دہ ہوتے ہیں۔اسلام میں قانون اللہ کاہوتا ہے کوئی انسان کسی انسان پر اپنے قانون کے ذریعے حکم نہیں کر سکتا ۔حکومت سب پر اللہ کی ہوتی ہے

جمہوریت میں اکثریت جو چاہتی ہے کرتی ہے۔جمہوریت میں حق نا حق جائز نا جائز اچھا برا فی نفسہ کوئی چیز نہیں۔ جو اکثریت منظور کر دے وہی حق اور جائز حتیٰ کہ اگر اکثریت فعل قوم لوط (sodomy) کو جائز قرار دے دے تو معاشرے میں وہ بھی جائز سمجھا جائے گا ۔جمہوریت میں اکثریت کو بالا دستی ہوتی ہے۔ اکثریت اپنی اکثریت کے بل بوتے پر جو چاہے کرے ،حلال کو حرام کر دے حرام کو حلال،جمہوری نظام میں سب کچھ روا ہے

اسلام میں اقلیت اور اکثریت کوئی چیز نہیں۔ اسلام میں طاقت حق کو حاصل ہوتی ہے جو اللہ کا قانون ہے۔حق اقلیت میں ہو یا اکثریت میں۔بالا دستی حق کی ہوتی ہے ۔جو حق نہیں خواہ وہ اکثریت میں ہو اسلام میں اس کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔ قرآن مجید میں ہے ۔ وَلَوْ اتَّبَعَ وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ ۚ بَلْ أَتَيْنَاهُمْ بِذِكْرِهِمْ فَهُمْ عَنْ ذِكْرِهِمْ مُعْرِضُونَ (المومنون 71)”اگر حق ہی ان کی خواہشوں کا پیرو ہو جائے تو زمین و آسمان اور ان کے درمیان کی ہر چیز درہم برہم ہو جائے“ یعنی اگر حق عوام کے تابع ہو جائے خواہ وہ اکثریت میں ہی ہوں تو سارا نظام درہم برہم ہو جائے اس کاصاف مطلب ہے کہ اسلامی نظام میں جمہوریت چل ہی نہیں سکتی ۔ اسلام میں جوں ہی جمہوریت آئی اسلامی نظام درہم برہم ہوا۔اسلام حق کی برتری چاہتا ہے

جمہوریت میں مذہب (دین) کوئی چیز نہیں مذہب (دین) ہر آدمی کا اپنا ذاتی مسئلہ ہے اور پرائیویٹ مسئلہ ہے ۔ہر کوئی جو مرضی مذہب (دین) رکھے کوئی پابندی نہیں۔جمہوریت کی نظر میں اسلام اور کفر دونوں برابر ہیں۔جمہوریت لادینیت کا دوسرا نام ہے۔جمہوریت کا ذہنوں پر یہ اثر ضرور ہوتا ہے کہ آدمی سیکولر سا ہو جاتا ہے اور نہیں تو دینی غیرت تو ضرور ختم ہو جاتی ہے۔اسلام ایک مستقل مذہب (دین) ہے جسکی بنیاد اللہ ہی کے تصور پر ہے۔اسلام کی نگاہ میں مذہب (دین) صرف اسلام ہے،باقی سب باطل ہے ۔ فَذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ ۖ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلَالُ ۖ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ (یونس 32) ”پھر حق کے بعد اور کیا رہ گیا بجز گمراہی کے“

اسلامی نظام میں باطل کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔باطل کو مٹانا اسلام کا فرض ہے اور یہی جہاد ہے جو قیامت تک جاری ہے۔جب جمہوریت اور اسلام میں اتنا تضاد ہے تو جمہوریت اسلامی کیسے ہو سکتی ہے ؟ نظام اسلام چلانے والوں کا انتخاب عوام کے ہاتھ میں دینا جمہوریت میں تو جائز ہو سکتا ہے ،اسلام میں جائز نہیں کیونکہ عوام تو کالانعام ہوتے ہیں۔ ان کو دھونس ،دھاندلی اور دھوکے سے ہر وقت ورغلایا جا سکتا ہے وہ کبھی صحیح انتخاب نہیں کر سکتے۔ یہ کام تو وہی لوگ کر سکتے ہیں جو صاحب کردار ہوں اور خود اسلام میں اجتہادی بصیرت رکھتے ہوں ۔ عوام کے سپر دیہ کام کر دینا ایسی ہی حماقت ہے جیسے کسی بڑے کارخانے کی تنصیب کا کام دیہاتیوں کے سپرد کر دینا۔ عوام کو یہ حق دینا گویا اسلام کو عوام کے تابع کرنا ہے کہ وہ جیسا اسلام چاہتے ہیں لائیں گے مزدوروں کا اسلام لائیں گے۔ عوام کا اسلام لائیں گے۔ انھیں یہ معلوم نہیں کہ اسلام ایک ہے۔ اصل میں یہ لوگ اپنی ذہن کی کجی کو بھی اسلام سمجھتے ہیں کیونکہ آج کل کے مسلمانوں کا اسلام کے بارے میں نظریہ بڑا عجیب ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ مسلمانوں میں چل جائے سب کچھ اسلام ہے۔ ان کے نزدیک مسلمان اسلام سے نہیں بلکہ اسلام مسلمانوں سے بنتا ہے۔ جو کچھ مسلمان کرتے جائیں وہ اسلام بنتا جاتا ہے۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ اسلام اللہ کا دین ہے مسلمانوں کا بنایا ہوا نہیں ہے۔ اگر وہ خالص رہے ،ملاوٹ بالکل بھی نہ ہو تو اسلام ہے۔ ذرا بھی ملاوٹ یا رد و بدل ہو جائے تو وہ کفر ہو جاتا ہے۔ لوگ اسلام کے تابع رہیں تو مسلمان ہیں اسلام کو اپنا تابع بنائیں تو کافر ہیں

اسلام کا تو یہ حکم ہے کہ عوام کے کسی حق پر خلیفہ کو ہٹایا نہیں جا سکتا کیونکہ وہ اللہ کا نائب ہے۔ لیکن جمہوریت کہتی ہے کہ ہر پانچ سال بعد ضرور الیکشن ہو گا تاکہ خلیفہ کو بدلاجا سکے اس کا کوئی قصور ہو یا نہ ہو۔ لہٰذا ہر پانچ سال بعد والے الیکشن کروانے میں اسلام کے اس حکم کی صریح مخالفت ہے۔ اللہ کی حاکمیت کا ابطال ہے۔ نظریہ خلافت الٰہیہ کا استیصال ہے۔ آپ احادیث کو دیکھیں پھر اندازہ کریں کہ اس الیکشن بازی میں اسلام کی کتنی مخالفت ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے اسلام میں الیکشن بازی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اسلام میں الیکشن نہ پہلی بار جائز ہے نہ پانچ سال بعد۔ جب اسلام عوام کی حکومت کے حق کو ہی تسلیم نہیں کرتا تو الیکشنوں کی اجازت کیسے دے سکتا ہے ؟ عوام کو الیکشنوں کی اجازت دینے کے معانی یہ ہیں کہ حکومت عوام کا حق ہے۔ عوام کو حکومت کا حق دینے کے معانی یہ ہیں کہ اللہ علی الاطلاق حاکم نہیں۔ زمین پر حکومت عوام کی ہے۔ جب زمین پراللہ کی حاکمیت نہ رہی تو اللہ کے احکام ماننے کا سوال کہاں رہا۔ تو پھر اسلام کہاں رہا اور یہی کفر چاہتا ہے کہ جمہوریت کے ذریعے مسلمانوں کو ملحد اور لا دین بنائے۔ الیکشنوں میں صریحاً اسلام کی مخالفت ہے

1 ۔ الیکشن جمہوری نظام کا ایک عمل ہے تو الیکشن کروانے میں جمہوری نظام کی ترویج ہے۔ چونکہ جمہوری نظام کفر کا نظام ہے لہٰذا الیکشن کروانا گویا کفر کے نظام کو رواج دینا ہے
2 ۔ الیکشن جمہوری عمل ہے اور جمہوریت کفر کا نظام ہے اس نظام کی بنیاد اس عقیدے پر ہے کہ اللہ اور اسکی حاکمیت کوئی چیز نہیں۔ خلافت الٰہیہ کا تصور ملوکیت کا استبدادی تصور ہے۔حکومت عوام کا حق ہے عوام ہی سب کچھ ہیں ۔عوام کو چاہیے کہ الیکشن کے ذریعے اپنے اس حکومت کے حق کو استعمال کریں ۔لہٰذا الیکشن کروانا گویا اس کفریہ عقیدے کو تسلیم کرنا ہے
3 ۔ الیکشنوں کی بنیاد یہ عقیدہ ہے کہ حکومت عوام کا حق ہے اللہ کا حق نہیں،الیکشن کروانا گویا عوام کے اس حق کو تسلیم کرنا ہے۔جس سے اللہ کی حاکمیت کی نفی ہوتی ہے
4 ۔ اسلام کہتا ہے حکومت اللہ کا حق ہے کیونکہ ہر چیز کا خالق و مالک وہی ہے ۔زمین پر بھی حکومت اللہ ہی کی ہے ۔زمین پر اللہ کا نائب خلیفہ ہوتا ہے۔ اس نائب کا کام اللہ کے احکام کو نافذ کرنا ہوتا ہے ۔اس نائب کے لیے عوام کا نمائندہ ہونا ضروری نہیں ،وہ چند ایک کا مقرر کردہ بھی ہو سکتا ہے، وہ غیر ملکی بھی ہو سکتا ہے ،وہ خود قابض بھی ہو سکتا ہے۔جو اللہ کے دین کو نافذ کرے وہ نائب ہے۔عوام اسے منتخب کر سکتے ہیں نہ معزول ۔الا یہ کہ وہ اللہ کا باغی ہو جائے ،عوام اپنے کسی حق کی وجہ سے اسے نہیں ہٹا سکتے۔

اسلامی سیاست
اسلامی سیاست کی راہ اسلامی جمہوریت کی طرح عافیت کی راہ نہیں ، بہت کھٹن ہے ، پر خطر ہے ، جان لیوا ہے ، صبر آزما ہے لیکن ہے یقینی کیونکہ جہاد کی راہ ہے، جب پہنچائے گی خواہ دیر سے پہنچائے، پہنچائے گی ٹھکانے پر۔ جمہوریت کی طرح لٹکائے ٹرخائے گی نہیں۔ اسلامی تاریخ دیکھ لیں۔ اسلام جب آتا ہے کفر کو پچھاڑ کر آتا ہے ۔ یہ نہیں کہ کفر کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر کفر کے ساتھ آئے۔ اس کے آنے کا انداز قرآن بیان کرتا ہے وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۔ ”حق آچکا اور ناحق نابود ہوگیا“۔ اسی لیے جمہوریت خواہ اسلامی ہو اسلام نہیں لا سکتی۔ اگر جمہوریت اپنی بے بسی میں کبھی اسلام لائے بھی تو کفر کے ہاتھوں سمجھوتہ کر کے لائے گی۔ تاکہ کفر کے لیے کاروائی کا موقعہ رہے۔
وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرائیل۔81) ۔ ”اور اعلان کردے کہ حق آچکا اور باطل نابود ہوگیا، یقیناًباطل تھا بھی نابود ہونے والا“۔ والی بات نہ بنے اور جو اسلام اسکے انداز سے نہیں آتا وہ نہیں رہتا

پاکستان کب سے اسلامی بنا ہے؟ قرار داد مقاصد کو پاس ہوئے کتنا عرصہ گزر گیا ہے؟ لیکن چونکہ درمیان میں جمہوریت کا ہاتھ رہا ہے اس لیے آج تک پاکستان کو اسلام کے پاؤں نہیں لگ سکے۔ اسلام کبھی نہیں آتا جب تک کفر کو پچھاڑ نہ دے کفر پر چڑھ نہ جائے کفر کو مسل نہ دے کہ وہ پھر اٹھنے کے قابل نہ رہے اور یہ جمہوریت کے تحت کبھی نہیں ہو سکتا۔ اسلامی سیاست ہی ایسا کر سکتی ہے۔ اسلامی سیاست کیا چیز ہے؟ اسلام لانے کی اسلامی کوشش جو بھٹو اور ایوب جیسے کفر کے آئینوں سے آزاد ہو کر اسلام لانے کی نیت سے کی جائے اور اسلام پر منتج ہو۔ یہ ذہن کا بگاڑ ہے ، یہ جمہوریت کا اثر ہے کہ آئین بھٹو اور ایوب بنائیں اور ہم اسلامی بن کر ان آئینوں کی پابندی کرتے رہیں ۔ اسلام کفر کے آئینوں کے دماغ توڑنے سکھاتا ہے نہ کہ ان کی پابندی کرنا۔قرآن کہتا ہے ۔ بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ ۚ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ (الانبیاء 18) ۔ ”بلکہ ہم سچ کو جھوٹ پر پھینک مارتے ہیں پس سچ جھوٹ کا سر توڑ دیتا ہے۔ اور اسی وقت نابود ہو جاتاہے، تم جو باتیں بناتے ہووہ تمہارے لئے باعث خرابی ہیں“۔

ہمیں اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھنا ہوگا ۔جمہوریت کو چھوڑ کر انکی سیاست اور تدابیر کو اپنانا ہو گا ۔ان جیسے کارنامے انجام دینے ہوں گے۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمیں ان شاء اللہ کامیابی ہو گی اور اگر ہم اپنے اسلاف کو چھوڑ کر کفر کے نظام جمہوریت کے پیچھے پڑے رہے تو خسر الدنیا و الآخرۃ والا ہمارا انجام ہو گا۔
أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ ۖ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَاسِقُونَ (الحدید 16)
”کیا اب تک ایمان والوں کیلئے وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر الٰہی سے اور جو حق اتر چکا ہے اس سے نرم ہو جائیں، اور انکی طرح نہ ہوجائیں جنہیں ان سے پہلے کتاب دی گئی تھی، پھرجب ان پر ایک زمانہ دراز گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے ،اور ان میں بہت سےفاسق ہیں“ ۔

ایک دوسرے اہلِ عِلم کی تحریر اِن شاء اللہ چند دن بعد

بغل میں چھُری ۔ منہ میں رام رام

تھوڑی سی تحقیق کی جائے تو افشا ہوتا ہے کہ امن پسندی کا شور مچانے والے ہی دراصل دہشتگرد ہیں ۔ اسرائیلی افواج فلسطین میں ہوں یا بھارتی افواج جموں کشمیر میں یا امریکی افواج عراق افغانستان اور ملحقہ علاقوں میں

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے ظلم و استبداد کی داستان طویل ہے ۔ اسی سلسلے میں انسانی حقوق کے لئے سرگرم بھارتی رضاکاروں نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں 22 سال سے جاری کاروائی میں فوج ، نیم فوجی دستوں اور پولیس کے 500 افسروں اور اہلکاروں پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کئے ہیں جن میں سے کچھ یہ ہیں

فرضی جھڑپوں ، حراست کے دوران اموات اور جنسی زیادتیوں کے 214 معاملات میں 235 فوجی اہلکاروں ، 123 نیم فوجی اہلکاروں ، 111 مقامی پولیس اہلکاروں اور فوجی اداروں سے وابستہ 31 سابقہ عسکریت پسندوں کو ملوث پایا گیا ہے

ان کارروائیوں ملوث اہلکاروں میں شامل ہیں
فوج کے 2 میجر جنرل ، 3 بریگیڈیئر ، 9کرنل ، 3 لیفٹننٹ کرنل ، 78 میجر اور 25 کیپٹن
نیم فوجی اداروں کے 37 سینیئر افسر
مقامی پولیس کے ایک انسپکٹر جنرل اور ایک ریٹائرڈ سربراہ

رپورٹ کی تفصیلات کا بیشتر حصہ اْن دستاویزات اور معلومات پر مشتمل ہے جو بھارت میں انسانی حقوق کی سرکردہ تنظیم ”کولیشن آف سول سوسائٹیز (Coalition of Civil Societies)“ اور کشمیر کی سرکردہ تنظیم اے پی ڈی پی (Association of Parents of Disappeared People ۔ لاپتہ افراد کے والدین کی تنظیم) اور نجی طور پر بنائے گئے ”بین الاقوامی مسند عدالت (International Tribunal)“نے حکومت سے حقِ اطلاع (Right to Information) کے قانون کے تحت طلب کی ہیں ۔ کولیشن آف سول سوسائٹیز اور اے پی ڈی پی طویل عرصے سے کشمیر میں گم شدہ نوجوانوں اور وہاں پولیس کے ہاتھوں مبینہ فرضی تصادم میں مارے جانے والے معصوم کشمیریوں کے لئے انصاف کا مطالبہ کر رہی ہیں