Category Archives: روز و شب

میری کہانی 8 ۔ ذائقہ

میں ذائقہ گھی کی بات نہیں کر رہا اور نہ اُس ذائقہ کی جو ٹی وی کے اشتہاروں میں بہت بتایا جاتا ہے لیکن ہوتا نہیں ہے
بات ہے اُس ذائقہ کی جو آدمی کوئی چیز کھا کے از خود محسوس کرتا ہے ۔ جیسے برفی کا ذائقہ ۔ بیگن کا ذائقہ ۔ سیب کا ذائقہ وغیرہ وغیرہ ۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ذائقہ زبان بتاتی ہے اور میں بھی کم از کم ساڑھے 3 سال قبل تک یہی سمجھتا تھا ۔ مگر معلوم یہ ہوا کہ زبان تو صرف پیغام رسانی کا کام کرتی ہے جس طرح ٹیلیفون ۔ ٹیلیفون کیا جانے کہ بولنے والے نے کیا کہا اور سُننے والے نے کیا سمجھا ۔ وہ تو صرف ادھر سے پکڑتا ہے اور اُدھر پہنچا دیتا ہے ۔ اصل کام تو دماغ کرتا ہے جو آنے والے پیغام کا تجزیہ ایک ثانیئے (second) کی بھی کسر (fraction) میں کر کے بتاتا ہے کہ ذائقہ کیسا ہے اور اگر پہلے بھی وہ چیز چکھی ہو تو یہ بھی بتا دیتا ہے کہ فلاں چیز کا ذائقہ ہے ۔ دماغ یہ تجزیہ دو سگنل وصول ہونے پر کرتا ہے ایک زبان سے اور دوسرا سونگنے سے ۔ ساڑھے تین سال قبل میری سونگنے کی حس ختم ہو گئی تھی ۔ تب سے نہ خُوشبُو کا پتہ چلتا ہے نہ بد بُو یا کسی اور بُو کا

اگر دماغ کا متعلقہ حصہ کسی صدمے یا حادثے کے نتیجہ میں کام کرنا چھوڑ دے تو پھر انسان کو کدو کی ترکاری اور بیگن کی ترکاری میں کوئی فرق ذائقہ کے لحاظ سے پتہ نہیں چلتا

تو جناب ۔ بندے بشر پر اس حقیقت کا انکشاف اُس وقت ہو گیا جب اللہ کی عطا کردہ اس نعمت سے محروم ہو گیا ۔ جناب ۔ 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے بعد جب میں بظاہر تندرست ہو گیا تو میں نے محسوس کیا کہ مجھے میٹھا ۔ نمکین اور مرچ والا کے سوا کسی کھانے میں کوئی فرق ذائقہ کے لحاظ سے محسوس نہیں ہوتا یہاں تک کہ ناشپاتی اور سیب کا ذائقہ بھی ایک جیسا ہی لگتا ہے ۔ بندے نے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اُس نے بتایا کہ حادثہ میں میرے سر کو جو شدید چوٹ لگی تھی اُس کے نتیجہ میں دماغ کا وہ حصہ درست کام نہیں کر رہا جو اس حِس کو کنٹرول کرتا ہے اور اسی وجہ سے ذائقہ کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا

انسان بڑا ناشکرا ہے ۔ بغیر کسی معاوضہ اور محنت کے اللہ کی انسان کو عطا کردہ نعمتوں میں سے کوئی چھِن جاتی ہے تو پھر انسان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنی بڑی نعمت سے محروم ہو گیا ہے

اللہ مجھے اور سب کو توفیق دے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہیں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ پسند کا حصول

کسی چیز یا کسی انسان کی اچھائی کیلئے شکرگذار اور قدر دان ہونا
انسان کی اپنی زندگی میں ایسی اور چیزوں کو کھینچ لاتا ہے
جو اُس کیلئے اہم ہوں یا جن کی وہ قدر کرتا ہو

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Angel Face and The Open Prison

بے نظیر ۔ بے مثال

اُس نے سُنانا شروع کیا تو میرا جسم جیسے سُن ہوتا گیا اور اُس کی آواز نے میرے دماغ کو مکمل طور پر قابو کر لیا ۔ جب تک وہ بولتا رہا میری آنکھوں سے موصلہ دار بارش جاری رہی ۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ آنسو اپنی حالت پر پشیمانی کے تھے یا اپنے گناہوں کی باری تعالٰی سے معافی کی عاجزانہ درخواست یا کچھ اور

قارئین شاید جانتے ہوں کہ سعودی عرب کا قانون یا رسم ہے کہ وقف جائیداد پر اسے وقف کرنے والے کا نام لکھا جاتا ہے ۔ لیکن ان حقائق سے بہت کم قاری واقف ہوں گے کہ
مدینہ منورہ کے ایک بنک میں عثمان ابن عفّان (رضی اللہ عنہ) کے نام کا کرنٹ اکاؤنٹ ہے
مدینہ منورہ کی میونسپلٹی میں عثمان ابن عفّان (رضی اللہ عنہ) کے نام کا جائیداد کا رجسٹر ہے اور اُن کے نام پراپرٹی ٹیکس ۔ بجلی ۔ پانی ۔ وغیرہ کے بل جاری ہوتے ہیں اور ادا بھی کئے جاتے ہیں
عثمان ابن عفّان (رضی اللہ عنہ) کے نام پر ایک عالی شان ہوٹل زیرِ تعمیر ہے

سوال یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ کیسے ہوا یا ہو رہا ہے ؟ عثمان ابن عفّان رضی اللہ تو ساڑھے تیرہ سو سے زائد قبل (656ء میں) وفات پا گئے تھے

اکثر قارئین کنویں کا واقعہ تو سُن یا پڑھ چکے ہوں گے بہرحال میں مختصر طور پر دوہرا دیتا ہوں
جب رسول اللہ سیّدنا محمد ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے یثرب (مدینہ منورہ) پہنچے وہاں ایک ہی کنواں تھا جو ایک یہودی کی ملکیت تھا ۔ وہ یہودی پانی مسلمانوں کو بہت مہنگا فروخت کرتا تھا
رسول اللہ سیّدنا محمد ﷺ کی خدمت میں یہ بات پہنچائی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا ”کون ہے جو یہ کنواں خرید کر وقف کر دے گا ۔ اللہ اُسے جنت میں ایک چشمے سے نوازے گا“۔
عثمان ابن عفّان رضی اللہ نے اُس یہودی کے پاس جا کر کنواں خریدنے کیلئے منہ مانگی قیمت کی پیشکش کی ۔ وہ یہودی کسی صورت کنواں بیچنے پر راضی نہ ہوا تو کہا ”چلو آدھا کنواں بیچ دو یعنی ایک دن پانی تمہارا اور ایک دن میرا“۔
یہودی 4000 سکہ رائج الوقت کے عوض آدھا کنواں دینے پر راضی ہو گیا ۔ عثمان رضی اللہ نے ادائیگی کر کے اپنے دن کا پانی سب کیلئے بغیر معاوضہ کر دیا ۔ ہوا یہ کہ سب لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے دن کنویں سے پانی لینے لگے اور یہودی کے دن کوئی پانی نہ لیتا ۔ تنگ آ کر یہودی نے باقی کنواں بیچنے کا عندیہ دیا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے مزید 4000 سکہ رائج الوقت کے عوض باقی آدھا کنواں بھی خرید لیا اور پھر روزانہ سب کو بغیر معاوضہ پانی ملنے لگا

اس کے بعد ایک یہودی نے عثمان رضی اللہ سے کہا ”میں تمہیں دو گنا رقم دیتا ہوں کنواں مجھے بیچ دو“۔
عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا ”میرے پاس اس سے زیادہ کی پیشکش ہے“۔
یہودی نے کہا ”میں تمہیں تین گنا رقم دیتا ہوں “۔
عثمان رضی اللہ عنہ نے پھر کہا ”میرے پاس اس سے زیادہ کی پیشکش ہے“۔
یہودی نے کہا ”میں تمہیں چار گنا رقم دیتا ہوں “۔
عثمان رضی اللہ عنہ کا جواب پھر وہی تھا
یہودی نے پانچ گنا کہا
عثمان رضی اللہ عنہ کا جواب پھر وہی تھا
آخر یہودی نے کہا ”تمہارے پاس کتنی پیشکش ہے ؟“
تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا ”دس گنا کی“۔
یہودی بولا ”وہ کون ہے جو تمہیں دس گنا دینے کو تیار ہے ؟“
تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا ”میرا اللہ“۔

اس کنویں کے پانی سے لوگ پانی لیتے رہے اور ملحقہ زمین سیراب ہوتی رہی ۔ وقت گذرتا گیا ۔ اُس زمین پر کھجور کا ایک بڑا باغ بن گیا ۔ آخر خلافتِ عثمانیہ (1299ء تا 1922ء) کے زمانہ میں کنویں اور باغ کی دیکھ بال شہر کی میونسپلٹی کے حوالے کر دی گئی

انحراف کیلئے معذرت ۔ ایک اہم بات ہے کہ بنیادی قوانین کی ترویج دنیا میں پہلی بار عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہءِ خلافت میں شروع ہوئی اور خلافتِ عثمانیہ کے دوران مکمل ہوئی ۔ خلافتِ عثمانیہ کے زمانہ میں خلافت کے آئین اور بنیادی قوانین کو تحریری شکل میں نافذ کیا گیا

خیر ۔ آج تک عثمان رضی اللہ کی وقف کردہ املاک کا نظام مدینہ منورہ کی میونسپلٹی چلا رہی ہے ۔ اس باغ کی آمدن سے اتنی رقم جمع ہو گئی ہے کہ زمین کا ایک ٹکڑا خرید کر اس پر ایک عالی شان رہائشی ہوٹل بنایا جا رہا ہے جس کا نام عثمان ابن عفّان ہے

سُبحان اللہ ۔ آخرت میں تو دس گنا کا وعدہ ہے ہی اس دنیا میں بھی اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے عثمان رضی اللہ عنہ کو کتنی عزت بخشی ہے ۔

ہے پوری دنیا میں اس کی کوئی نظیر یا مثال ؟
ایک ہم ہیں کہ اس فانی دنیا کے چھوٹے چھوٹے لالچوں میں گھرے ہیں
اللہ الرّحمٰن الرّحیم مجھے اپنے پیاروں کی راہ پر گامزن کرے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خود اعتمادی

خود اعتمادی اس سے نہیں آتی
کہ
جب آدمی کے پاس تمام سوالات کے جوابات موجود ہوں
بلکہ
اس سے آتی ہے
کہ
آدمی تمام سوالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” The War in New Phase“

میری کہانی 7 ۔ سمجھ کی بات

آجکل جب کبھی رات کو سونے کیلئے بستر پر لیٹے ہوئے اپنے ماضی پر نظر پڑتی ہے تو ایک بات پر میں تعجب کئے بغیر نہیں رہتا کیونکہ اس کا سبب میری سمجھ میں نہیں آتا ۔ چنانچہ میں مندرجہ ذیل شعر بار بار پڑھتا ہوں اور اشک باری کرتا ہوں کہ اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہوں

سب کچھ دیا ہے اللہ نے مجھ کو
میری تو کوئی بھی چیز نہیں ہے
یہ تو کرم ہے فقط میرے اللہ کا
مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے

میں ایک عام دنیا دار آدمی ہوں ۔ زندگی کا بیشتر حصہ ناشتہ ۔ دو وقت کا کھانا اور چند جوڑے کپڑے ہی میری متاعِ کُل رہی ۔ دولت کی ہوس تو نہ تھی البتہ دولت کی ضرورت ہمیشہ رہی ۔ لیکن سمجھ میں نہیں آیا کہ بچپن سے لے کر آج تک مجھ پر اتنا اعتبار کیوں کیا جاتا رہا ۔ پہلے کا تو کچھ یاد نہیں سکول میں آٹھویں جماعت (1950ء) سے انجنیئرنگ کالج تک اور پھر ملازمت کے دوران بھی اگر پیسے رکھنے کیلئے کسی کو خزانچی بنانا ہوتا تو ساتھی میرے گرد ہو جاتے اور انکار کے باوجود مجبور کر دیتے ۔ کہیں ذاتی طور پر یا کالج کی طرف سے دورے پر جاتے تو کچھ لڑکے اکٹھے ہو کر اپنے اپنے پیسے مجھے دے دیتے اور کہتے ہم اکٹھے ہی ہر جگہ جائیں گے ۔ خرچ تم کرتے جانا

سکول کالج اور جوانی میں بھی میں صنفِ مخالف کے ساتھ بہت روکھا بولا کرتا تھا ۔ گیارہویں اور بارہویں جماعت میں آزاد خیال لڑکیوں کے سوا (جو اُس زمانہ میں بہت کم تھیں) کسی لڑکی کو کسی لڑکے سے کوئی کام ہوتا تو مجھے قاصد بنا دیتی

اُستاد کوئی تفتیش کر رہے ہوتے تو آخر میں مجھے بُلا کر پوچھتے کہ درست بات کیا ہے ؟ انجنیئرنگ کالج میں ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ صاحب جو مکینیکل انجنیئرنگ کے سربراہ بھی تھے اور بعد میں وائس چانسلر بنے خود آڈٹ کرنے کی بجائے خُفیہ طور پر مجھ سے کرواتے اور جو میں کرتا اُس پر دستخط کر دیتے

ذاتی معاملات میں بھی کئی اصحاب مجھ سے مشورہ طلب کرتے ۔ میں عام طور پر یہی کہتا کہ ”یہ آپ کا ذاتی یا خانگی معاملہ ہے ۔ اس پر میں کیا رائے دے سکتا ہوں ۔ آپ اپنے معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں“۔ لیکن وہ مصر رہتے اور ذاتی یا خانگی تفصیلات بیان کر دیتے
میں اُس وقت سوچا کرتا کہ میں اتنا اچھا آدمی نہیں ہوں پھر یہ صاحب مجھ پر اتنا بھروسہ کیوں کر رہے ہیں ۔ کبھی میں اتنا ڈر جاتا کہ میرے مشورے کے نتیجہ میں ان کا کوئی نقصان ہو گیا تو میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کر سکوں گا

بلاشُبہ اللہ بے نیاز ہے ۔ ایک دانہ بونے سے جو پودا اُگتا ہے اُسے بہت سی پھلیاں پڑتی ہیں اور ہر پھلی میں کئی کئی دانے ہوتے ہیں
اگر اللہ ہماری محنت کا برابر صلہ دینا شروع کرے تو ہمارا کیا بنے ؟