سوچ آدمی کو انتہائی بلندیوں پر پہنچا سکتی ہے
سوچ پستی کی گہرائیوں میں بھی پہنچا سکتی ہے
سوچ درست ہو تو دُشمن بھی دوست بن سکتا ہے
سوچ بیمار ہو تو اچھی چیز بھی بُری لگتی ہے
سوچ ایسی نازک چیز ہے جس کے بیمار ہو جانے کا بہت زیادہ خدشہ ہوتا ہے
سوچ آدمی کو انتہائی بلندیوں پر پہنچا سکتی ہے
سوچ پستی کی گہرائیوں میں بھی پہنچا سکتی ہے
سوچ درست ہو تو دُشمن بھی دوست بن سکتا ہے
سوچ بیمار ہو تو اچھی چیز بھی بُری لگتی ہے
سوچ ایسی نازک چیز ہے جس کے بیمار ہو جانے کا بہت زیادہ خدشہ ہوتا ہے
ہے بہارِ باغِ دنیا چند روز
دیکھ لو اس کا تماشہ چند روز
لاکھ دارا اور سکندر ہو گئے
آج بولو وہ کہاں سب کھو گئے
آئی ہچکی موت کی اور سو گئے
ہر کسی کا ہے بسیرا چند روز
کل تلک رنگیں بہاریں تھیں جہاں
آج کب روح کے وہاں دیکھے نشاں
رنگ بدلے ہر گھڑی یہ آسماں
عیش و غم جو کچھ بھی دیکھا چند روز
کیا ملے گا دل کسی کا توڑ کے
لے دعا ٹوٹے دلوں کو جوڑ کے
جا مگر کچھ یاد اپنی چھوڑ کے
ہو جائے تیرا چرچا چند روز
ہے بہارِ باغِ دنیا چند روز
دیکھ لو اس کا تماشہ چند روز
سطحی نظر انسان کو حقیقت سے روشناس نہیں ہونے دیتی اور اس کی سوچ کو اس طرح ڈھال دیتی ہے کہ اسے اپنی بولی یا زبان بھی ناقص لگنے لگتی ہے یعنی ایک لفظ اس کی اپنی زبان میں بولا جائے تو اس کو فحش یا غیر مہذّب محسوس ہوتا ہے خواہ وہ خود اسی لفظ کو انگریزی میں کہتے ہوئے کوئی عار محسوس نہ کرتا ہو ۔ یہ بھی منافقت کی ایک قسم ہے ۔ اسی طرح میں اگر کسی فعل کو منافقت کہوں تو کئی صاحبان مجھ سے ناراض ہو جائیں گے مگر ہِپوکریسی کہنے سے ناراض ہونے کا امکان بہت کم ہو گا
الله سُبحانُهُ و تعالٰی نے انسان کا ذہن ایسے تخلیق کیا ہے کہ بنیادی طور پر وہ اپنا عمل اور عقیدہ یا سوچ ایک رکھنا چاہتا ہے یعنی منافقت سے دُور رہنا چاہتا ہے ۔ اسی وجہ سے بچوں کو معصوم سمجھا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ سب بچے جنت میں جائیں گے
الجبراء کے قاعدہ سے
اگر سوچ = عمل تو منافقت = صفر
منافقت کی ایک شکل یہ ہے کہ بیان کردہ عقائد کا عمل کے ساتھ ٹکراؤ ہو
منافقت کی دوسری شکل یہ ہے کہ بیان کردہ عقائد وہ نہ ہوں جو کہ حقیقی دِلی عقائد ہیں
منافقت کی تیسری شکل یہ ہے کہ حقیقی دِلی عقائد کا عمل کے ساتھ ٹکراؤ ہو
جتنی عقائد اور عمل میں تفاوت ہو گی منافقت اتنی ہی زیادہ اور گہری ہو گی
علاج
اِنہماک کے ساتھ حقائق کا ادراک کرنا چاہیئے
خلوصِ نیّت سے سچ کو ڈھونڈنا اور سمجھنا چاہیئے
اخلاقیات اور فرائضِ انسانی کا حقیقی ادراک کرنا چاہیئے
18 سال قبل 12 اور 13 جنوری کی درمیانی درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نيچے تھا سردی لگنے سے مجھے بخار ہو گيا ۔ ليٹے ليٹے ميرا دماغ چلنا شروع ہو گيا ۔ ذہن سے جو شعر نکلے تھے وہ نذرِ قارئين ہيں
ميں دنيا ميں ہوں تو کيا ہوا ۔ گر نہ ہوتا تو کيا ہوتا
بچايا گناہوں سے الله نے ۔ مجھ پہ ہوتا تو کيا ہوتا
اپنائی نہ زمانے کی روِش کھائی ٹھوکريں زمانہ کی
چلتا ڈگر پر زمانے کی تو ترقی کر کے بھی تباہ ہوتا
لمبی تقريريں کرتے ہيں اوروں کو سبق دينے والے
خود کرتے بھلائی دوسروں کی تو اُن کا بھی بھلا ہوتا
کرو اعتراض تو کہتے ہيں تجھے پرائی کيا اپنی نبيڑ تو
اپنا بھلا سوچنے والے سوچتے دوسروں کا تو کيا ہوتا
کر کے بُرائی اکڑ کے چلتے ہيں ذرا ان سے پوچھو
نہ ہوتا اگر الله رحمٰن و رحيم و کريم تو کيا ہوتا
ياد رکھنا ميرے بچو ۔ ميرے مرنے کے بعد بھی
چلنے والا صراط المستقيم پر ہے کامياب ہوتا
یہ نظم میں نے آٹھویں جماعت میں اُردو کی کتاب ”مرقع ادب“ میں پڑھی تھی
کیا خطا میری تھی ظالم تُو نے کیوں توڑا مجھے
کیوں نہ میری عمر ہی تک شاخ پہ چھوڑا مجھے
جانتا گر اِس ہَنسی کے دردناک انجام کو
میں ہوا کے گُگُدانے سے نہ ہَنستا نام کو
شاخ نے آغوش میں کِس لُطف سے پالا مجھے
تُو نے مَلنے کے لئے بِستر پہ لا ڈالا مجھے
میری خُوشبُو سے بسائے گا بچھونا رات بھر
صبح ہو گی تو مُجھ کو پھینک دے گا خاک پر
پَتیاں اُڑتی پھِریں گی ۔ مُنتشِر ہو جائیں گی
رَفتہ رَفتہ خاک میں مِل جائیں گی کھو جائیں گی
تُو نے میری جان لی دَم بھَر کی زِینت کے لئے
کی جَفا مُجھ پر فقط تھوڑی سی فرحت کے لئے
دیکھ میرے رنگ کی حالت بدل جانے کو ہے
پَتی پَتی ہو چلی بے آب ۔ مر جانے کو ہے
جس کی رونق تھا میں بے رونق وہ ڈالی ہو گئی
حَیف ہے بچے سے ماں کی گود خالی ہو گئی
تِتلیاں بے چین ہوں گی جب مجھے نہ پائیں گی
غَم سے بھَنورے روئیں گے اور بُلبلیں چِلائیں گی
دُودھ شبنم نے پلایا تھا ۔ ملا وہ خاک میں
کیا خبر تھی یہ کہ ہے بے رحم گُلچیں تاک میں
مہر کہتا ہے کہ میری کِرنوں کی محنت گئی
ماہ کو غم ہے کہ میری دی ہوئی سب رنگت گئی
دیدہ حَیراں ہے کیاری۔ باغباں کے دِل میں داغ
شاخ کہتی ہے کہ ہے ہے گُل ہوا میرا چراغ
میں بھی فانی تُو بھی فانی سب ہیں فانی دہر میں
اِک قیامت ہے مگر مرگِ جوانی دہر میں
شوق کیا کہتے ہیں تُو سُن لے سمجھ لے مان لے
دِل کِسی کا توڑنا اچھا نہیں ۔ تُو جان لےکلام ۔ احمد علی شوق
جن جوتوں کو پہننے سے آپ کے پاؤں میں تکلیف محسوس ہو اُنہیں پہننے سے دوسررں کو بھی تکلیف ہی ہو گی
ہمیشہ خیال رکھیئے کہ دوسرے کے لئے وہی پسند کیجیئے جو آپ کو اپنے لئے پسند ہو
دعا جو یکم اکتوبر 1947ء سے 17 دسمبر 1947ء تک میرے دل کی آواز تھی جب میں اور میری 2 بہنیں اپنوں سے بچھڑنے کے بعد جموں میں رہ گئے تھے
اے دو جہاں کے والی دے دے ہمیں سہارا
مُشکل میں ہم نے تیری رحمت کو ہے پُکارا
حاجَت روا بھی تُو ہے مُشکل کُشا بھی تُو ہے
دُنیا میں تیری رحمت کا کوئی نہیں کنارہ
زندگی ہماری اب تو بس تیرے ہاتھ میں ہے
دنیا میں تیرے سوا نہیں کوئی محافظ ہمارا
مالک تیرے کرم پر ہے کامل ایمان ہمارا
تُو چاہے تو مِلا دے بِچھڑے ہوئے دِلوں کو
اپنے پیاروں سے ملادے احسان ہو گا تمہارا
بدل جائے پھر زمانہ گر تیرا ہو جائے اِک اشارہ
اے دو جہاں کے والی دے دے ہمیں سہارا