Category Archives: ذمہ دارياں

تبدیلی لیکن کیسے ؟

میں بھی چاہتا ہوں کہ میرے وطن میں خوشگوار تبدیلی آئے اور میرا وطن سکون و ترقی کی ایک مثال بن جائے لیکن یہ تبدیلی آئے گی کیسے ؟
کیا صرف تقریروں سے ؟
یا
صرف سینٹ اور اسمبلیوں میں بیٹھنے والوں کو تبدیل کرنے سے ؟

تقریر کا اثر ماضی میں بھی اُس میدان تک ہی ہوتا تھا جہاں تقریر کی جاتی تھی ۔ اب تو اس میدان میں موجود لوگوں پر بھی کم کم ہی اثر ہوتا ہے ۔ سینٹ اور اسملیاں بھی کئی بار تبدیل ہوئیں مگر نتیجہ ؟

بطور نمونہ ایک سرکاری محکمہ کے بہت سے واقعات میں سے ایک واقعہ بعد میں پہلے ایک تازہ ترین

پچھلے 4 ماہ سے نَیب کے چیئرمین کے تقرر کی بحث چل رہی تھی تو تحریکِ انصاف نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈر سے ایک بار بھی رابطہ نہ کیا ۔ اگر کیا تھا اور اس نے تحریک انصاف کی بات مانے سے انکار کیا تھا تو کوئی آج تک نہ بولا ۔ جونہی نیب کے چیئرمین کے نام پر اتفاق ہوا ۔ تحریکِ انصاف نے اسے مُک مُکا قرار دے کر مسترد کر دیا ۔ کیا اس سے سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے یا تماش بینی کا ؟

اب نمونہ

ایک بڑے صنعتی ادارے کی ایک چھوٹی سی شاخ ایک ڈبہ فیکٹری ۔ ایک انڈسٹریل ہوم ۔ ایک پٹرول پمپ و سروس سٹیشن اور لوکل ٹرانسپورٹ پر مشتمل تھی ۔ ڈبہ فیکٹری میں سٹیل شیٹ کے ڈبے بنتے تھے جن میں اس ادارے میں بنا کچھ مال پیک ہوتا تھا ۔ انڈسٹریل ہوم میں بیوہ عورتوں سے اس ادارے میں استعمال ہونے والی کچھ وردیاں سلوائی جاتی تھیں اور اُجرت سلائی فی وردی کے حساب سے دی جاتی تھی ۔ ٹرانسپورٹ سیکشن 10 بسوں اور 4 ٹیکسیوں پر مشتمل تھا

ادارے کا سربراہ نیا آیا تو ادارے کے بڑے اور اہم حصوں سے فارغ ہونے پر اس نے اس چھوٹی سی شاخ کی طرف توجہ کی اور اس کا نیا منیجر مقرر کیا ۔ نئے منیجر نے سب کام کا مشاہدہ بلکہ مطالعہ کیا تو مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئے

ڈبہ فیکٹری کا انچارج ایک ریٹائرڈ میجر تھا جس نے صرف ایم او ڈی سی (موجودہ ڈیفنس گارڈز) سروس کی تھی ۔ اس فیکٹری کو زیادہ فعال نہیں ہونے دیا جاتا تھا کہ کہیں بیچارے ٹھیکیدار کو نقصان نہ ہو جو اس ڈبہ فیکٹری کے مقابلہ پر ڈبے سپلائی کرتا تھا ۔ ڈبہ فیکٹری کا منیجر سرکاری گاڑی گھر لیجا کر اس کا پٹرول نکال کر اپنی گاڑی میں ڈالا کرتا تھا
انڈسٹریل ہوم کی سربراہ ایک سرکاری ملازم عورت تھی ۔ وہ صرف اُن عورتوں کو کام دیتی جن کی سفارش ہوتی یا جو اس کے ذاتی کام آتیں ۔ ان میں بعض اوقات ایسی عورتیں ہوتیں جن کے خاوند زندہ تھے ۔ مزید اپنے بڑے افسروں کو راضی رکھنے کیلئے انڈسٹریل ہوم سے گدیاں اور رضائیاں وغیرہ بنوا کر دیتی جس کیلئے وہ بیواؤں سے بغیر اُجرت کام کرواتی
پٹرول پمپ و سروس سٹیشن سے چند افسران مفت پٹرول لیتے اور اپنی گاڑیوں کی مُفت سروس کرواتے
ٹرانسپورٹ مقامی (local bus service) طور پر چلتی تھی ۔ 3 بسیں بند پڑی تھیں اور باقی سب مرمت طلب تھیں ۔ 2 کی چھتیں بارش میں بے تحاشہ ٹپکتی تھیں ۔ بسوں میں ٹرانسپورٹ میں کام کرنے والوں کے احباب وغیرہ مفت سفر کرتے ۔ کنڈکٹروں اور ڈرائیوروں کی تنخواہیں کم تھیں ۔ جب بھیڑ ہوتی تو کچھ سواریوں کو پیسے لے کر ٹکٹ نہ دیتے ۔ ٹیکسیاں بارسوخ لوگوں کو مُفت مہیاء کی جاتیں ۔ کوئی بہت خیال کرتا تو پٹرول اپنی جیب سے ڈلوا لیتا ۔ کنڈکٹروں کی کچھ معقول پریشانی بھی تھی کہ بس کا ٹکٹ 75 پیسے اور ایک روپیہ 50 پیسے تھا ۔ بقایا ادا کرنے کیلئے کنڈکٹر 125 روپے دے کر 100 روپے کی ریزگاری بازار سے لیتے تھے ۔ دوسرے بقایا واپس کرنے کے چکر میں کئی لوگ بغیر ٹکٹ سفر کرتے اور زیادہ تر یہی کہتے پچھلے سٹاپ سے بیٹھا ہوں تاکہ 1 روپیہ 50 پیسے نہ دینا پڑیں

نئے منیجر نے دو تین کالی بھیڑوں کو رُخصت کر کے ان کی جگہ بہتر لڑکے رکھے ۔ اور حرام خوری پر پابندی لگا کر خود معائنہ کرتا رہا ۔ کنڈکٹر کی تنخواہ جو 600 روپے ماہانہ تھی 800 روپے کی ۔ کمیشن جو سب کو 2 فیصد ملتا تھا اس کو روزانہ کی بنیاد پر منازل میں تقسیم کیا ۔ 300 روپیہ پر کوئی کمیشن نہیں ۔ اس سے اُوپر 300 پر 0.5 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 1 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 1.5 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 2 فیصد ۔ اس سے اُوپر 300 پر 2.5 فیصد ۔ اس سے اُوپر 3 فیصد ۔ ڈرائیوروں کی تنخواہ کنڈکٹروں کی نسبت زیادہ بڑھائی مگر اُن کا کمیش 600 روپے کے اُوپر شروع کیا ۔ 2 ٹکٹوں کی بجائے پورے سفر کا ایک روپیہ ٹکٹ کر دیا

اس اثناء میں سربراہ ادارہ تبدیل ہو گیا ۔ نئے سربراہ سے کافی بحث اور منت کے بعد ویلفیئر فنڈ کے بیکار پڑے فنڈ میں سے 5 نئی بسیں اور 3 کوسٹر خریدیں ۔ بسوں کی قیمت پیشگی ادا کرنا تھی ۔ نئے منیجر نے کسی طرح اس سے چھٹکارا حاصل کر لیا اور اس بڑی رقم کو اپنے استعمال میں لانے یا بنک کو موج اُڑانے دینے کی بجائے بنک کے زونل چیف کے پاس جا کر خاص منافع کا معاہدہ حاصل کیا ۔ روپیہ 10 ماہ بنک میں رہا ۔ اس کے منافع سے جو خراب بسیں بند پڑی تھیں اُنہیں نیا کیا ۔ باقی بسوں کی باڈیاں درست کروا کے پینٹ کروایا
ان اصلاحات کے نتیجہ میں ٹرانسپورٹ کی آمدنی جو پچھلے 6 سال میں 69000 ماہانہ سے زیادہ کبھی نہ ہوئی تھی بڑھتے بڑھتے 6 ماہ بعد ایک لاکھ ہو گئی اور ڈیڑھ سال بعد 3 لاکھ ماہانہ ہو گئی

پٹرول پمپ جو کچھ منافع نہ دیتا تھا 6 ماہ بعد 5000 روپیہ ماہانہ دینے لگا جو ایک سال بعد 10000 روپیہ ماہانہ پر پہنچ گیا باوجودیکہ پٹرول پمپ کا فرش جو کچا تھا پکا کروایا گیا اور عمارت کو رنگ روغن کرایا گیا

مگر کچھ افسران اور بارسوخ لوگ اس منیجر کے دشمن بن گئے جس کے نتیجہ میں منیجر کی ملازمت ختم کر دی گئی

نیا منیجر نئے سربراہ ادارہ کا چہیتا تھا ۔ یہ شخص انڈسٹریل ہوم سے گدیوں کا تحفہ وصول کر چکا تھا اور ٹیکسی بھی مفت لیتا تھا ۔ اُس نے آتے ہی کمیشن ختم کر دیا ۔ جس نے اعتراض کیا اُسے ملازمت سے نکال دیا ۔ 3 لاکھ ماہانہ کی آمدنی ایک سال میں ایک لاکھ پر آ گئی ۔ ٹکٹ بڑھا کر 2 روپے کر دیا پھر لمبے سفر کیلئے 3 روپے کر دیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا ۔ بسوں کی حالت خراب ہوتی گئی کیونکہ دیکھ بھال کیلئے پیسہ نہ تھا

یہ صرف ایک نمونہ ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سرکاری تحویل میں چلنے والے ادارے بالخصوص پی آئی اے اور پاکستان ریلوے کا بُرا حال کیوں ہے

یہ تو معلوم ہو گیا ہو گا کہ تبدیلی لانا کتنا مُشکل ہے ۔ اب بتایئے کہ تبدیلی لانے کیلئے کیا ضروری ہے ؟

یومِ آزادی مبارک

پہلے معذرت ۔ 13 اور 14 اگست کو میں تیز بخار اور اسہال میں مبتلاء تھا جس کے باعث اُٹھنے کی ہمت نہ تھی ۔ اللہ کے فضل سے آج بہتر ہوں تو پیغام لکھا ہے

تمام ہموطنوں کو یومِ آزادی مبارک

آیئے سب صدق دل سے دعا کریں

کُل کائنات کو پیدا کرنے والے ۔ آپ رحمٰن و رحیم ہو اور قادر و کریم بھی
ہمیں ایک قوم بنا دے جو سب مل کر ایک ٹھوس دیوار کی طرح مضبوط بن جائے
ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور مِل جُل کر محنت کرنے کی توفیق عطا فرما
ہمارے وطن کو امن کا گہوارہ بنا دے
یہ وطن پاکستان آپ ہی نے ہمیں عنائت فرمایا ہے ۔ اس کی ہر قسم کے دُشمن سے حفاظت فرما
آمین ثم آمین یا رب العالمین

یہ میرا پوتا ابراھیم (4 سال 3 ہفتے) اور پوتی ھناء (ڈیڑھ سال سے ہفتہ کم) ہیں ۔ انہوں نے پاکستان کے جھنڈے کی نقل میں کپڑے پہنے ہیں ۔ ابراھیم بسکٹوں پر پاکستان کا جھنڈا بنا رہا ہے ۔ نیچے 3 میں سے ایک بسکٹ ہے جس پر ابراھیم نے پاکستان کے جھنڈے بنائے ہیں
Ebrahim

Hana

Flag

ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے

پاکستان میں سزائے موت ختم کرنے کی خواہش مند این جی اوز اور وکلاء کمیونٹی بھی بنگلہ دیش میں پاکستان کا ساتھ دینے کے جرم میں تھوک کے حساب سے موت کی سزائیں دینے کی کارروائی پر خاموش ہیں اور صرف حکمران ہی نہیں سیاستدان، انسانی حقوق کے ادارے اور ظلم ، زیادتی، ناانصافی کے خلاف بڑھ چڑھ کر لکھنے، بولنے اور تڑپنے والے دانشور، قلمکار اور کالم نگار بھی منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھے ہیں ۔ کچھ سیاسی و مذہبی تعصب کے سبب، کسی کو بھارت کاخوف دامن گیر اور کوئی فوج سے بغض و عناد کی وجہ سے خوش ہیں کہ ”ہَور چُوپو“۔

پاکستان میں دہشت گردی، تخریب کاری اور قتل و غارت گری کے مرتکب کسی مستند جاسوس کو عدالتی سزا ملے تو بھارتی حکومت باضابطہ احتجاج کرتی ہے ۔ توہین رسالت کے مرتکب افراد کی مدد کو امریکہ برطانیہ اور دنیا جہاں کے ادارے آتے ہیں اور پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں کا جذبہ انسانی ہمدردی عود کر آتا ہے ۔ مگر ڈھاکہ میں ہزاروں سیاسی قیدیوں، معمر افراد کو عمر قید اور موت کی سزا دینے اور سڑکوں پر عوام کو گولیوں سے بھوننے پر کسی کو اعتراض نہیں ۔ کوئی اپنے اردگرد موجود بھارتی شردھالوؤں اور نام نہاد ترقی پسندوں سے مرعوب ہے اور کسی کو امریکہ و یورپ کی ناپسندیدگی کا خدشہ ہے

بنگلہ دیش میں ان دنوں دارورسن کا موسم ہے ۔ 1971ء میں اپنے وطن کو متحد رکھنے، بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے اور پاکستان کا ساتھ دینے کے جُرم میں مولانا دلاور حسین سعیدی، مولانا غلام اعظم، محمد قمر الزمان اور احسن مجاہد کو سزائے موت سنائی گئی ہے اور درجن بھر افراد عمر قید کے مستحق ٹھہرے۔ جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھر چکی ہیں۔ فوج کے 70 کے قریب میجر جنرل سے میجر تک کے افسروں کو نام نہاد بغاوت کی آڑ میں ذبح کرنے کے علاوہ ان کی بیوییوں، بچیوں، ماؤں، بہنوں کی آبروریزی اور قتل کے واقعات ہو چکے ہیں تاکہ فوج کو بھارت مخالف عناصر سے پاک کیا جاسکے مگر پاکستان میں کسی کو ان واقعات کا تفصیلی علم ہے نہ مظلوموں سے ہمدردی اور نہ پاکستان سے وفاداری کے تقاضے نبھانے والوں کی کوئی فکر ۔ کیوں؟ اس لئے کہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے کہ فلسفے اور تصور سے ہم نے توبہ کرلی ہے اور ایک طرف آرام سے بیٹھ کر دہی کھانے میں مگن ہیں

مصر میں ڈاکٹر محمد مرسی کی منتخب حکومت کے خاتمے اور فوجی مداخلت پر بھی ہمارا رویہ کم و بیش یہی رہا ۔ جن لوگوں کو 12 اکتوبر اور 3 نومبر کے اقدامات پر آرٹیکل 6 یاد آتا ہے اور وہ جنرل پرویز مشرف کو فوجی مداخلت پر سزائے موت سنانے کا مطالبہ کرتے ہیں انہیں بھی جنرل عبدالفتاح السیسی کے اقدام پر مذمت تو کیا لب کشائی کی توفیق نہیں ہوئی ۔ غلام اعظم اور مرسی کا قصور اس کے سوا کیا ہے کہ ” اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں“۔

واقعی پاکستان کبھی ایسا تھا مولانا ظفر علی خان کے الفاظ ”اخوت اس کو کہتے ہیں۔ چبھے کانٹا جو کابل میں تو دہلی کا ہر اک پیر و جواں بے تاب ہو جائے “۔
ترکی کی فوجی حکومت نے سابق وزیراعظم عدنان میندریس کو سزائے موت سنائی تو اُس وقت کے وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو ، صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا خط لے کر انقرہ پہنچ گئے کہ ”سزائے موت پر عمل نہ کیا جائے“۔
اخوان المسلمون کے مرشد سیّد قطب کو کرنل جمال عبدالناصر نے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا اور سولی پر لٹکایا تو پاکستان کے حکمران، سیاستدان، دانشور، قلمکار اور صحافی تڑپ اٹھے۔ اخبارات میں اداریئے، مضامین اور کالم شائع ہوئے اور اس اقدام کی مذمت کی گئی

ہماری سیاسی، مذہبی، سماجی قیادت کی اس کوتاہ اندیشی، بے حمیتی اور بزدلی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ گیدڑوں کی طرح 100 سال جینے کی آرزو نے ہمیں اس حال کو پہنچا یا ہے ورنہ پاکستان ہمیشہ ایسا نہ تھا ۔ کابل میں سردار داؤد نے ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے بیان دیا تو بھٹو صاحب نے ملک میں ہڑتال کرائی اور قومی اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلا کر مذمت کی ۔ شیخ عبداللہ کی گرفتاری اور مقبول بھٹ کی پھانسی پر بھی تاریخی ہڑتال سب کو یاد ہے اورویت نام، فلسطین،افریقی ممالک میں حریت پسندوں کے حق میں مرثیے، نوحے اور رزمیہ
نظمیں کل کی باتیں ہیں ۔ تب ہم اسلامی اور عالمی برادری کا حصہ تھے اور حق کا علم بلند کرنے والوں کے ساتھ، ظلم ، جبر، ناانصافی اور استحصال کے خلاف۔ تب ہماری سب سنتے تھے۔ اب ہم حال مست ہیں اس لئے بولنے کے قابل نہ کوئی سننے کو تیار

ارشاد احمد عارف کی تحریر سے اقتباس

رمضان کریم

سب مُسلم بزرگوں بہنوں بھائیوں بھتیجیوں بھتیجوں بھانجیوں بھانجوں پوتيوں پوتوں نواسيوں نواسوں کو اور جو اپنے آپ کو اِن میں شامل نہیں سمجھتے اُنہیں بھی رمضان کريم مبارک

اللہ الرحمٰن الرحيم آپ سب کو اور مجھے بھی اپنی خوشنودی کے مطابق رمضان المبارک کا صحیح اہتمام اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے

روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ کے احکام پر مکمل عمل کا نام ہے ۔ اللہ ہمیں دوسروں کی بجائے اپنے احتساب کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حِلم ۔ برداشت اور صبر کی عادت سے نوازے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حُکم

سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آيات 183 تا 185

اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ
چند روز ہیں گنتی کے پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا مسافر تو اس پر ان کی گنتی ہے اور دِنوں سے اور جن کو طاقت ہے روزہ کی ان کے ذمہ بدلا ہے ایک فقیر کا کھانا پھر جو کوئی خوشی سے کرے نیکی تو اچھا ہے اس کے واسطے اور روزہ رکھو تو بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم سمجھ رکھتے ہو
‏ مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن راہ پانے کی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی سو جو کوئی پائے تم میں سے اس مہینہ کو تو ضرور روزے رکھے اسکے اور جو کوئی ہو بیمار یا مسافر تو اس کو گنتی پوری کرنی چاہیے اور دِنوں سے اللہ چاہتا ہے تم پر آسانی اور نہیں چاہتا تم پر دشواری اور اس واسطے کہ تم پوری کرو گنتی اور تاکہ بڑائی کرو اللہ کی اس بات پر کہ تم کو ہدایت کی اور تاکہ تم احسان مانو

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے رمضان کی فضيلت سورت ۔ 97 ۔ القدر ميں بيان فرمائی ہے

بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے
اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے
شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے
اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حُکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اُترتے ہیں
یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے

تبدیلی مگر کیسے ؟

حالیہ انتخابات سے قبل تبدیلی تبدیلی کا بہت شور تھا ۔ تبدیلی لانے کے بلند بانگ دعوے کئے جا رہے تھے
میں سوچتا ہوں کہ کیسے تبدیلی لائی جائے گی ؟
کس کس کو تبدیل کیا جائے گا ؟
پنجابی کی ضرب المثل ہے ” اِٹ نئیں آوے دا آوا ای وگڑیا اے“ (بھٹے کی ایک اینٹ نہیں بٹھے کی سب اینٹیٹں ہی خراب ہیں)
کوئی وعدہ کرے تو کم ہی وفا کرتا ہے
کوئی آپ کی چیز سنبھال کر رکھے تو حیرت ہوتی ہے
اگر کوئی کتاب لے کر گیا وہ واپس کم ہی آتی ہے
جس نے کہا میں فلاں وقت آؤں گا وہ کم ہی اس وقت پر پہنچا ۔ زیادہ تر تو ایک سے دو گھنٹے دیر سے آتے ہیں
سوائے چند لوگوں کے ۔ جس نے کوئی کام کرنے کا وعدہ کیا وہ نہ ہوا
ضلعی عدالتوں کا تو ذکر ہی نہیں اعلٰی بلکہ عدالتِ عظمٰی کے احکامات پر کوئی عمل نہیں کرتا ۔ میری ذاتی مثال یہ کہ پچھلے سال میری پوری پنشن بحال ہونا تھی تو درخواستیں دے کر اس سال یعنی 10 ماہ بعد بحال ہوئی مگر کیا ؟ 1992ء میں جو 3217 روپے کمیُوٹ ہوئے تھے وہ 20 سال بعد ویسے ہی یعنی 3217 تھما دیئے گئے جبکہ 5 جنوری 2012ء کو فیڈرل سروس ٹرِبیونل نے فیصلہ دیا تھا کہ سالانہ اضافے بھی دیئے جائیں ۔ اس کے خلاف حکومتِ پاکستان نے اپیل کی تھی جو عدالتِ عظمٰی (سپریم کورٹ آف پاکستان) نے 24 اپریل 2012ء کو مسترد کر دی تھی ۔ یہ صرف میرے ساتھ نہیں ہزاروں پنشنروں کے ساتھ ہوا ہے ۔ یہ ظالمانہ حُکم پرویز مشرف شوکت عزیز حکومت نے 2001ء میں دیا تھا اور پی پی پی (زرداری) حکومت نے اسے بحال رکھا ۔ اس سے پہلے کی حکومتیں پنشن کی بحالی تمام اضافوں کے ساتھ کرتی تھیں

کسی ادارے میں انتطامات درست نہیں ۔ اس کی بھی ایک ذاتی مثال جو صرف میری نہیں لاکھوں پاکستانیوں کی ہے ۔ جس بنک کے ذریعہ میں پنشن لیتا ہوں اُنہوں نے اس سال مارچ میں میری پنشن کا جھگڑا ڈال دیا ۔ میں نے کہا میری فائل نکالئے ۔ 4 دن بعد فائل نکلی تو اس میں سوائے پہلے خط کے جو 1992ء کا تھا اور کوئی خط نہ تھا ۔ وہ خطوط بھی نہیں تھے جو میں نے اس سال جنوری اور فروری میں دیئے تھے ۔ منیجر صاحب کے پاس گیا تو بولے ”آپ کی تو فائل مل گئی ہے ۔ یہاں تو بہت سے پنشروں کی فائلیں بنی ہی نہیں ہیں“۔ گویا یہ شرم کی بات نہیں بلکہ فخر کی بات ہے

یہ دیگ میں سے نمونے کے چند چاول ہیں ۔ ہماری بد اعمالیوں کی فہرست تو بہت لمبی ہے

کون کرے گا ان سب کو تبدیل ؟ ؟ ؟

کون آگے ؟

کون آگے ؟
مغرب یا مشرق ؟
حساب خود لگایئے

چین میں ایک نیا قانون نافذ کیا گیا ہے جس کے تحت نوجوانوں کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ
وہ اپنے والدین کی ضرورتوں کو پورا کریں
ان کا خیال رکھیں
وہ افراد جو اپنے والدین سے الگ یا دور رہتے ہیں وہ با قاعدگی سے انہیں ملنے جائیں اور فون کال کریں

لاپروائی برتنے پر انہیں جیل بھی بھیجا جاسکتا ہے

بجٹ کون سا اچھا ؟ ؟ ؟

”بجٹ“ انگریزی ہے ”تخمینہ“ کی ۔ یعنی آمدنی اور خرچ کا تخمینہ ۔ میرے پاس اگر آمدنی ہو گی تو میں خرچ بھی کر سکوں گا ۔ پھر میں کس طرح سوچ سکتا ہوں کہ حکومت بغیر آمدنی کے خرچ کرے گی ؟ مجموعی طور پر کوئی بجٹ نہ بُرا ہوتا ہے نہ اچھا ۔ اسے اچھا یا بُرا اس کا نفاذ اور تکمیل بناتے ہیں جس میں سب سے اہم عنصر عوام ہیں جن میں صنعتکار ۔ تاجر ۔ ٹھیکیدار ۔ دکاندار اور سرکاری اور غیر سرکاری ملازمین شامل ہیں

بات چند سو چند ہزار یا چند لاکھ کی نہیں بلکہ میرے وطن کے کروڑوں باسیوں کی ہے جو پچھلی 4 دہائیوں سے اپنی سوچ کو سُلا کر دولت جمع کرنے کی دوڑ میں لگے ہیں اور اُنہیں احساس نہیں کہ وہ بدعنوانی (corruption) میں ملوّث ہو رہے ہیں

شروع میں کم از کم بدعنوانی کو بُرا سمجھا جاتا تھا ۔ پھر دور آیا جنرل پرویز مشرف کا جس نے اقتدار سنبھالتے وقت کرپشن کے خاتمے کے بلند بانگ دعوے کئے ۔ مگر پھر اپنی کرسی کے لئے سب قربان کر دیا ۔ کرپشن کا پھل لاکھوں گھرانوں تک پہنچنے لگا اور کرپشن کو بُرا سمجھنے کا رجحان بھی معاشرے سے ناپید ہوتا گیا۔ پچھلے پانچ سالوں میں قومی دولت کو بے دریغ لُوٹا گیا ۔ مُلک اندھیروں میں ڈوب رہا تھا اور بجلی پیدا کرنے کیلئے شروع کئے گئے منصوبوں جن میں نندی پور اور چیچوکی ملیاں بھی شامل ہیں کے اربوں روپوں سے حکمرانوں نے اپنی جیبیں بھریں ۔ یہاں تک کہ حکمرانی کے آخری 3 دنوں میں دیامیر بھاشا ڈیم کیلئے مُختص رقم کے اربوں روپے اُڑا لئے ۔ ہر سطح پر بدعنوانی کو ذاتی استحقاق اور اسلوبِ کار بنا دیا گیا

سڑکوں پر دوڑتی پھرتی بیش قیمت گاڑیوں ۔ لاکھوں کی تعداد میں موٹرسائیکلوں اور دن بدن عام ہوتی ڈیزائنر شاپس اور مہنگے ترین ریستورانوں کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بدعنوانی خاص و عام کا دستورالعمل بن چکی ہے ۔ دفاتر میں چند منٹ کے انتظار سے بچنے کیلئے اچھے خاصے پڑھے لکھے ”شکل سے شریف“ آدمی جائز کام بھی رشورت دے کر کرواتے ہیں ۔ ناجائز کام کروانے والوں نے دفاتر اور اداروں میں ایسا ماحول بنا دیا ہے کہ جائز کام کیلئے بھی چائے پانی کے نام سے رشوت مانگی جاتی ہے ۔ سرکاری اداروں ہی میں نہیں پرائیویٹ اداروں میں بھی رشوت اور بدعنوانی کا ڈیرہ ہے

کہا جاتا ہے کہ حکمران بدعنوان ہیں ۔ اگر سیاستدان بدعنوان ہیں اور بدعنوانی کے ذمہ دار ہیں تو سوال یہ ہے کہ عوام بار بار انہیں ووٹ دے کر منتخب کیوں کرتے ہیں ؟ اپنے تئیں دانشور سمجھنے والے کہتے ہیں کہ عوام جاہل ہیں اسلئے درست فیصلہ کرنے کی قوت نہیں رکھتے مگر یہ دلیل بے معنی ہے ۔ جو عوام برسرِ عام سیاستدانوں کو بدعنوان کہتے پھرتے ہیں وہ ووٹ ڈالتے ہوئے اپنا مؤقف کیوں بھول جاتے ہیں ؟

حکومت کوئی بھی آئے ۔ حکمران کوئی بھی ہوں جب تک ہم عوام اپنا قبلہ درست نہیں کریں گے اور اپنی ذاتی خواہشات کیلئے جو ہیرا پھیریاں اور لاقانونیاں کی جاتی ہیں اُنہیں نہیں چھوڑیں گے کچھ بہتر نہیں ہو گا ۔ اللہ کا فرمان اٹل ہے

سورت 13 الرعد آیت 11 إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ ( اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے)

سورت 53 النّجم آیت 39۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ ( اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)

لازم ہے کہ ہم سب جذباتیت اور دوسروں کی عیب جوئی کو چھوڑ کر معاشرہ کی اصلاح کیلئے کوشش کریں اور اس سے پہلے اپنی اصلاح کریں ۔ اس کے بغیر کوئی بہتری نہیں آئے گی