Category Archives: ذمہ دارياں

نصیب اور دولت ۔ ایک کہانی ۔ ایک حقیقت

بہادر شاہ ظفر نے ناجانے کس ترنگ میں یہ شعر کہا تھا لیکن میں یہ سوال اپنے معاشرے سے پوچھتا ہوں

بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی
جیسی اب ہے تیری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی

آج کے پڑھے لکھے طعنہ دیتے ہیں کہ پرانے زمانہ کے لوگ کام کچھ نہیں کرتے تھے اور کہانیاں سناتے رہتے تھے ۔ اللہ کی دی ہوئی توفیق سے میں 7 دہائیوں سے کچھ اُوپر اس معاشرے میں گذار چکا ہوں ۔ پرانے لوگوں کو دیکھا تھا اور نئے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں اور دونوں کے گفتار و عمل دونوں ہی میں نمایاں فرق پاتا ہوں

ہمارے ایک دُور کے رشتہ دار راولپنڈی امام باڑہ روڈ پر کریانہ کی دکان کرتے تھے ۔ سُنا تھا کہانی بہت اچھی کہتے ہیں سو اُنہیں دعوت دی گئی جو 1952ء اور 1953ء کے درمیانی موسمِ سرما میں ہر اتوار سے پچھلی رات کا معمول بن گئی ۔ وہ مغٖرب کے وقت دکان بند کر کے نماز پڑھ کر اپنے گھر جا کر کھانا کھاتے اور عشاء کی نماز پڑھ کر ہمارے ہاں پہنچ جاتے ۔ کہانی سنانے کا فن واقعی اُن میں کما حقہُ موجود تھا ۔ بڑے چھوٹے سب پورے انہماک کے ساتھ کہانی سُنتے تھے ۔ ہر کہانی میں مناسب مقامات پر اُنہوں نے اپنی طرف سے فقرے لگائے ہوتے تھے جیسے ایک تھا بادشاہ کے بعد کہتے ”میرا تیرا اللہ بادشاہ“۔ کہانیاں کہنے کو تو بادشاہ ۔ شہزادہ ۔ پری یا جِن کی ہوتیں لیکن ہر کہانی اپنے اندر ایک سبق لئے ہوتی تھی جو کہ بڑے لطیف انداز میں بیچ میں رکھا گیا ہوتا تھا ۔ اُن کی سنائی ایک کہانی ”نصیب اور دولت“۔ (اختصار کی خاطر میں دلچسپ فقرے نہیں لکھ رہا)

نصیب اور دولت میں بحث ہو گئی ۔ دولت کہتی ”انسان کی خوشی اور آسائش مجھ سے ہے“۔
نصیب کہتا ہے ”دولت کچھ نہیں کر سکتی ۔ اگر آدمی خود محنت کر ے تو میں اُس کی یاوری کرتا ہوں“۔

ایک لکڑ ہارا لکڑیاں کاٹنے جنگل کو جا رہا تھا ۔ دولت نے اسے بُلا کر ایک بڑا سا ہیرا دیا اور کہا ”یہ لے لو ۔ آج کے بعد تمہیں لکڑیاں کاٹنے کی ضرورت نہیں“۔ راستہ میں ایک ندی پڑتی تھی ۔ خیال کیا کہ ہاتھ منہ دھو لوں کیونکہ بازار جا کر اسے بیچنا ہے ۔ کنارے پر پاؤں پھسلا اور ہیرا ہاتھ سے ندی میں گھر گیا ۔ ہیرے کی تلاش میں ندی میں کود گیا ۔ بہت دیر تک کوشش کے باوجود ہیرہ نہ ملا تو اتنا تھک چکا تھا کہ جنگل میں جا کر لکڑیاں کاٹنا مشکل تھا ۔ گھر چلا گیا اور گھر میں جو بچہ کھچا تھا کھا کر سوگئے

اگلے روز لکڑ ہارے نے پھر جنگل کا رُخ کیا ۔ جنگل کے قریب اُسے وہی نصیب اور دولت ملے ۔ لکڑ ہارے نے واقعہ بیان کیا ۔ اب کے دولت نے اُسے قیمتی لال موتیوں کا ہار دیا ۔ لکڑ ہارے نے ہار اپنی پگڑی میں رکھ لیا اور گھر کی طرف چل دیا ۔ گھر کے قریب پہنچا تو اُڑتی ہوئی چیل لال موتیوں کو گوشت سمجھ کر جھپٹی اور پگڑی سمیت ہار اُچک کر لے گئی ۔ چنانچہ میاں بیوی رات بھوکے سوئے

لکڑ ہارا اگلی صبح پَو پھٹتے ہی لکڑیاں کاٹنے جنگل کو چل دیا ۔ جنگل کے پاس پھر نصیب اور دولت ملے ۔ دولت اپنا خالص سونے کا کنگن دینے لگی ۔ لکڑ ہارے نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ ”اپنی محنت سے کمائی سوکھی روٹی فاقے سے بہتر ہے“۔ نصیب نے قہقہہ لگا کر دولت کی طرف دیکھا اور کہا ”اب دیکھو کیا ہوتا ہے“۔

لکڑ ہارا جنگل میں داخل ہو کر ایک درخت پر لکڑیاں کاٹنے چڑھا ۔ درخت کی اُونچی شاخ پر چیل کا گھونسلہ تھا ۔ لکڑ ہارے نے دیکھا کہ گھونسلے سے ایک کپڑا لٹک رہا ہے ۔ اُس نے سوچا کہیں اُس کی پگڑی نا ہو ۔ لکڑ ہارا اُوپر چڑھا تو اس کی نظر گھونسلے میں پڑے لال موتیوں کے ہار پر پڑی ۔ لکڑ ہارا پگڑی اور ہار لے کر نیچے اُترا اور گھر کی راہ لی ۔ راستہ میں ندی سے مچھلی پکڑی اور گھر پہنچا ۔ بیوی کو ہار دکھایا اور کہا ”جلدی سے مچھلی پکاؤ میں کھا کر اسے بیچنے شہر جاؤں گا“۔ بیوی نے مچھلی کا پیٹ چاک کیا تو بیچ میں سے وہ ہیرا نکل آیا جو لکڑ ہارے کا ندی میں گرا تھا“۔ دونوں بہت خوش ہوئے انہیں بیچ کر مکان بنایا ۔ زمین خرید کر کھیتی باڑی شروع کر دی اور بہت دولتمند ہو گئے

میرے حقوق ۔ ایک فتنہ

موضوع پر آنے سے پہلے متعلقہ حوالہ پرانے زمانے سے
میں 1950ء میں مسلم ہائی سکول اصغر مال راولپنڈی میں آٹھویں جماعت میں داخل ہوا ۔ بہت جلد چند ہمجاعتوں سے میری دوستی ہو گئی ۔ منصوبہ بنایا گیا کہ ہم سب پیسے ڈال کر رسالہ تعلیم و تربیت لیا کریں اور اس میں دی اچھی باتوں سے مستفید ہوں ۔ یقینی طور پر ہمارے سدھار میں اس رسالے کا اہم کردار رہا ۔ اس رسالے میں ایک کارٹون چھپا کہ
ماں بیٹے سے کہتی ہے ”بات کرنے سے پہلے سوچا کرو“۔
بیٹا کہتا ہے ”اور سوچنے سے پہلے ؟“
ماں کہتی ہے ”یہ کہ سوچنا چاہیئے یا نہیں“۔

کچھ شماروں کے بعد ایک کارٹون چھپا جس میں ماں نے حلوے کی پلیٹ بھر کر میز پر رکھی تو
بیٹا کہتا ہے ”امی ۔ بھائیجان کیلئے اتنا زیادہ حلوہ“۔
ماں کہتی ہے ”یہ تمہارے لئے ہے“۔
بیٹا کہتا ہے ”اتنا کم“۔

کہنے کو یہ دو کارٹون یا لطیفے ہیں مگر مجھے زندگی کے ہر قدم پر یاد رہے ۔ میں نے پچھلی چار دہایئوں میں اکثر لوگوں کو ان دو بچوں کی مانند پایا ۔ اب آتے ہیں موضوع کی طرف

عصرِ حاضر میں حقوق کا بہت چرچا ہے ۔ انسانی حقوق ۔ عورتوں کے حقوق ۔ بچوں کے حقوق ۔ مریضوں کے حقوق ۔ اور ناجانے کس کس کے حقوق ۔ مسئلہ یہ ہے کہ حقوق پورے کسی کے نہیں ہوتے مگر وقت کے ساتھ ان کی تعداد اور قسمیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں
حقوق کی تکرار سن سن کر مجھے ٹی وی شروع ہونے سے پہلے کا ریڈیو پاکستان کا ایک پروگرام چوہدری نظام دین یاد آیا
ایک آدمی کہتا ہے ” اخبار میں حقوق کی خبر ہے ۔ یہ حقوق کیا ہوتے ہیں ؟“
دوسرا کہتا ہے ”اگر گاؤں کے سارے حقے ایک جگہ جمع کر دیئے جائیں تو ایک حقوق بن جاتا ہے“۔

میری پریشانی یہ ہے کہ مجھے میرے اُستاذ نے پڑھایا تھا کہ ”جو ایک آدمی کا حق ہوتا ہے ۔ وہ دوسرے آدمی کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ اسلئے اگر ہر آدمی اپنی ذمہ داریاں احسن طریقہ سے پوری کرے تو سب کے حقوق خود بخود پورے ہو جائیں گے“۔

میں نے اپنا سبق یاد رکھا ہے اور اللہ سُبحانُہُ تعالٰی نے میری مدد فرمائی چنانچہ میں نے ہمیشہ اپنی ذمہ داریاں تندہی کے ساتھ پوری کیں ۔ اور نتیجہ یہی ہوا کہ میرے ذہن میں کبھی حق یا حقوق قسم کی کوئی آواز پیدا نہیں ہوئی ۔ میں نے اطمینان کی زندگی گذاری اور گذار رہا ہوں

الحمد للہ میں آج اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے اپنی ایک چھوٹی سی ذمہ داری کو پورا کرنے میں کامیاب ہوا جو میرے محترم قارئین اور قاریات کا حق ہے

اگر آپ ؟ ؟ ؟

اگر آپ معاشرے کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو آپ کسی کو درست کرنے کی زحمت نہ کیجئے
صرف اپنے آپ سے مندرجہ ذیل وعدہ کر کے اس پر عمل پیرا ہو جایئے
معاشرہ خود بخود درست ہو جائے گا

1 ۔ میں صفائی کا خوب خیال رکھوں گا
2 ۔ میں ضرورت مند اور بے سہارا لوگوں کی مدد کروں گا
3 ۔ میں دوسروں کی رائے کا احترام کروں گا
4 ۔ میں لڑائی جھگڑا کرنے میں پہل نہیں کروں گا
5 ۔ میں دھوکہ یا فریب نہیں کروں گا
6 ۔ میں نہ رشوت لوں گا اور نہ رشوت دوں گا
7 ۔ میں ملک کے کسی قانون (بشمول ٹریفک قوانین) کی خلاف ورزی نہیں کروں گا

ہمارے ذہن کب آزاد ہوں گے ؟

ہمارے اربابِ اختيار انگريزی دانی پر تُلے رہتے ہيں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ انگريزی کے بغير ترقی نہيں ہو سکتی ۔ ہم لوگ “اپنے ملک پر انگریزوں کے قبضہ سے پہلے کے نظام” کو کوستے اور “ہمارے لئے انگریزوں کے قائم کردہ تعلیمی نظام” کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے ۔ زیادہ تر تو کہتے ہیں کہ مسلمان مقبرے بناتے رہے اور انگریز یونیورسٹیاں ۔ حقیقت یہ ہے کہ قدیم نظام کے مطابق مسجد ہی علم کا گھر ہوا کرتی تھی ۔ مسجد ہی میں دین اور دنیاوی علم سیکھائے جاتے تھے ۔ جس مسجد میں اعلٰی تعلیم اور تحقیق کا کام ہوتا تھا اسے جامعہ یعنی یونیورسٹی کہا جاتا تھا ۔ حکومتِ وقت ان مساجد کے نام جاگیریں کر دیتی تھی تا کہ جامعات خود کفیل ہوں ۔ حاکم تحائف بھی دیتے تھے اور جو دولتمند طالب علم آتا وہ اپنی خوشی سے بھاری معاوضہ دیتا جسے فی زمانہ ہم فِیس کہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نویں سے چودہویں صدی کے مسلمان سائنس دان دینی عالم بھی تھے ۔ ماضی قریب میں یونانی طِب کے معروف ماہر حکیم اجمل خان (1868ء تا 1927ء) نے بھی پہلے مسجد میں تعلیم حاصل کی جس میں اسلامی تعلیم مع حفظِ قرآن اور عربی شامل تھے ۔ پھر اپنے خاندانی علم یونانی طِب کی طرف راغب ہوئے ۔ خیال رہے کہ ہندوستان میں 1857ء میں انگریزوں کی حکومت قائم ہو گئی تھی ۔ لیکن حکیم اجمل خان نے انگریزوں کے بنائے نصاب کے مطابق تعلیم حاصل نہیں کی تھی

گرجا جسے انگریزی میں چرچ کہتے ہیں بھی کسی زمانہ میں تعلیم کا گھر تھا ۔ جب سرمایہ داروں کی حکمرانی ہو گئی تو گرجا سے علم کی روشنی چھین لی گئی تھی ۔ یقین نہ آئے تو تیرہویں سے اٹھارہویں صدی کے عیسائی سائنس دانوں کی سوانح کا مطالعہ کیجئے

اب ملاحظہ ہو ایک تاریخی حقیقت جو شائد صرف چند ایک پاکستانیوں کے علم میں ہو گی ۔ ہندوستان کے گورنر جنرل کی کونسل کے پہلے رُکن برائے قانون لارڈ میکالے (Lord Macaulay) کے برطانیہ کی پارلیمنٹ کو 2 فروری 1835ء کے خطاب سے اقتباس
” میں ہندوستان کے طول و عرض میں گیا ہوں ۔ میں نے ایک بھی آدمی نہیں دیکھا جو گداگر ہو یا چور ہو ۔ ایسی خشحالی میں نے اس ملک میں دیکھی ہے ۔ لوگوں کے اخلاق بہت بلند ہیں ۔ ایسے اعلٰی معیار کے لوگ ہیں کہ ہم انہیں کبھی مغلوب نہیں کر سکتے جب تک ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی کو نہیں توڑ دیتے جو کہ ان کی روحانی اور ثقافتی اساس ہے ۔ چنانچہ میں تجویز کرتا ہوں کہ ان کے قدیم تعلیمی نظام کو تبدیل کر دیا جائے کیونکہ اگر لوگ سمجھیں کہ وہ سب کچھ جو غیرملکی اور انگلش ہے وہ ان کے اپنے نظام سے بہتر ہے تو خوداعتمادی اور فطری ثقافت کو چھوڑ دیں گے اور وہ وہی بن جائیں گے جو ہم بنانا چاہتے ہیں یعنی ایک صحیح معنوں میں مغلوب قوم“ ۔
Macaulay

اگر ترقی انگريزی پڑھنے سے ہو سکتی ہے تو پھر جرمنی ۔ فرانس ۔ چين ۔ جاپان ۔ ملائشيا وغيرہ نے کيسے ترقی کی ؟ وہاں تو ساری تعليم ہی ان کی اپنی زبانوں ميں ہے ۔ بارہويں جماعت ميں ہمارے ساتھ 5 لڑکے ايسے تھے جو کہ خالص انگريزی سکول سينٹ ميری (Saint Marry) ميں پڑھ کے آئے تھے ۔ ان ميں سے 3 لڑکے بارہويں کے امتحان ميں فيل ہوگئے ۔ اور باقی دو بھی انجنيئرنگ يا ميڈيکل کالج ميں داخلہ نہ لے سکے ۔ جب کہ ہمارے کالج کے اُردو ميڈيم والے 12 لڑکوں کو انجنيئرنگ کالجوں ميں داخلہ ملا ۔ ميڈيکل کالجوں ميں بھی ہمارے کالج کے کئی لڑکوں اور لڑکيوں کو داخلہ ملا جو سب اُردو میڈیم کے پڑھے ہوئے تھے ۔ کمال یہ کہ ان میں 2 لڑکے انگریزی کے مضمون میں بھی فیل ہوئے تھے

ہماری قوم کی پسماندگی کا اصل سبب ہر دوسرے تيسرے سال بدلتے ہوئے نظامِ تعليم کے علاوہ تعليم کا انتہائی قليل بجٹ اور ہمارے ہاں اساتذہ کی تنخواہيں باقی سب اداروں سے شرمناک حد تک کم ہونا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور ميں سوائے غیر ملکی ملکیت میں چلنے والے تعلیمی اداروں کے سب تعليمی ادارے قوميا کر ان ميں سياست کی پنيری لگا دی گئی اور ملک ميں تعليم کا تنزل تیزتر ہو گيا ۔ پھر انگريزی اور بين الاقوامی معيار کے نام پر مہنگے تعليمی ادارے بننا شروع ہوئے اور سرکاری تعلیمی ادارے یتیم بنا دیئے گئے

سیاسی بصیرت کی ایک مثال

آج 23 مارچ ہے ۔ 74 سال قبل آج کی تاریخ ایک قرارداد لاہور کے اُس میدان میں پیش کی گئی تھی جہاں اب مینارِ پاکستان کھڑا ہے ۔ یہ قراداد پاکستان قائم ہونے کی طرف پہلا قدم ثابت ہوئی ۔ اُس زمانہ کے سیاستدانوں کی کامیا بی کا سبب کیا تھا ۔ اس سلسلے میں ایک کتاب
’’آزادی کی کہانی۔ میری زبانی‘‘ سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں ۔ یہ کتاب تحریک پاکستان کے عظیم رہنما سردار عبدالرب نشتر کی سوانح ہے جسے آغاز مسعود حسین نے تالیف کیا تھااور شاید 56۔1955ء میں شائع ہوئی

سردار عبدالرب نشتر قائد اعظم کے قریبی اور معتمد ساتھیوں میں سے تھے۔ وہ ماؤنٹ بیٹن کی عبوری کابینہ میں مسلم لیگ کے وزیر تھے اور بعدازاں قیام پاکستان کے بعد مرکزی کابینہ کے رکن اور پنجاب کے گورنر بھی رہے۔ اعلیٰ پائے کے مقرر، مخلص لیڈر اور صاف ستھرے انسان تھے۔ اسی لئے قائد اعظم انہیں پسند کرتے تھے۔ ان چند اقتباسات ہی کا مطالعہ ایک ذی شعور انسان کو سردار صاحب مر حوم کی بصیرت ، دور رس نگاہ اور دردمندی کی داد دینے پر مجبور کر دیتا ہے اور محسوس ہوتا جیسے موجودہ سیاستدان اور حکمران سردار صاحب کی قدآور شخصیت کے سامنے طفلان مکتب ہیں یا شاید طفلان مکتب بھی نہیں ۔ سردار صاحب نے جن خطرات کا اظہار 54/1953ء میں کیا تھا وہ بعد ازاں کس طرح صحیح اور سچ ثابت ہوئے اور ہماری کوتاہیوں نے کیا گل کھلائے

کتاب کے صفحہ نمبر 182 پرسردار صاحب فرماتے ہیں ”پاکستان میں ایک اور مرض قیام پاکستان کے بعد سے نمایاں ہوگیا ہے وہ تعصب کا مرض ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ پاکستان کے مختلف صوبوں کے درمیان گہرے تعصبات موجود ہیں حالانکہ تعصب خالصتاً ہندو مزاج ہے۔ پاکستان ایک ملت ہے اور ایک ملت میں لسانی یا مذہبی تعصبات نہیں ہوتے۔ مشرقی پاکستان میں محرومی کااحساس بڑھ رہا ہے۔ انہیں شکایت ہے کہ بنگلہ زبان کو پاکستان کی واحد قومی زبان کیوں نہیں بنایا گیا لیکن ان کا یہ اعتراض غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ قائد اعظم نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان اس لئے بنایا ہے کہ یہ دونوں بازوں کے درمیان رابطے کی اوربول چال کی زبان ہے۔ قائد اعظم نے نہ بنگلہ زبان کے استعمال اور لکھنے پڑھنے کو ممنوع قرار دیا ہے نہ اس کی حیثیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے قیام پاکستان کے لئے عظیم قربانیاں دی ہیں اور انہیں شکایت ہے کہ مغربی پاکستان ان کا معاشی استحصال کررہا ہے۔ مغربی پاکستان کے رہنمائوں کو ان سے فراخدلانہ سلوک کرنا چاہئے اور ان کی شکایتوں کا ازالہ کرنا چاہئے ، ان کے دلوں اور ذہنوں سے یہ احساس ختم کردینا چاہئے اگر مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے رہنما مل کر مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ذہنوں سے ہر قسم کی مایوسیوں کو دور نہیں کرسکے تو ایک دن یہ خلیج طبعی اور جغرافیہ کی خلیج بن جائے گی۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دونوں صوبوں کے درمیان محبتوں کے مضبوط پل تعمیر کریں تاکہ کوئی دشمن ہم دونوں کو جدا نہ کرسکے“۔

(یاد رہے کہ بنگالی مشرقی پاکستان کی سرکاری زبان جبکہ اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ دستورساز اسمبلی کا تھا جسے بنگالی اراکین کی حمایت حاصل تھی۔ قائد اعظم دستور ساز اسمبلی کے فیصلے کی نمائندگی کرتے رہے اور حمایت کرتے رہے)

بدقسمتی سے سردار عبدالرب نشتر کی دردمندانہ تجاویز ، اندیشوں اور گزارشات پر عمل نہ کیا گیا اور پھر 1971ء میں پاکستان ٹوٹ گیا

سردار صاحب مرحوم مزید فرماتے ہیں”مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں یعنی سرحد بلوچستان میں بھی معاشی ناہمواریوں کی شکایتیں پائی جاتی ہیں۔ ان صوبوں کے رہنمائوں کو پنجاب سے شکایت ہے کہ یہاں کی افسر شاہی چھوٹے صوبوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کرنے کو تیار نہیں۔ اس صوبے (پنجاب) کا مزاج جاگیردارانہ ہے۔ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے رہنماؤں کو آپس میں مل بیٹھ کر ایک متحدہ معاشی و سیاسی پروگرام بنانا چاہیئے تاکہ وہ ایک طرف جاگیرداروں اور افسر شاہی کے ملاپ کو کمزور کرسکیں تو دوسری طرف عوام کے اتحاد کو مضبوط بنائیں‘‘۔

جو نقشہ سردار صاحب نے ساٹھ برس قبل کھینچا تھا وہ صورتحال تقریباً آج بھی اسی طرح موجود ہے اور ہم مسلسل زوال اور انتشار کی راہ پر چل رہے ہیں۔ یوں تو سردار صاحب نے قومی زندگی کے سبھی شعبوں پر اظہار خیال کیا ہے جو ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے لیکن آخر میں میں آپ کو اس کہانی کا فقط ایک کردار اور ایک منظر دکھا رہا ہوں جو نہایت دردناک اور عبرت ناک ہے۔ اس منظر میں بیان کئے گئے سردار صاحب کے خدشات کس طرح حقیقت بنے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائد اعظم کے ساتھی حالات کو سمجھنے ، بھانپنے اور مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت بدرجہ اتم رکھتے تھے کیونکہ وہ سیاستدان تھے، سیاسی جدوجہد نے ان کی سیاسی تربیت کی تھی، ان کے دل اقتدار اور دولت کی ہوس سے پاک تھے۔ یاد رکھئے کہ صرف وہ نگاہ دور رس ا ور دور بین ہوتی ہے جو ہر قسم کی ہوس سے پاک ہو، جس کے پیچھے روشن دماغ ہو اور خلوص نیت ہو

سردار صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ ”پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی فوج پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں۔ پاکستان کی حکومت نے ا ن کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مغربی ممالک کے ساتھ دوستی اور خیر سگالی کے جذبات کو فروغ دیا ہے لیکن اپنی آزادی اور خود مختاری کی قیمت پر نہیں۔ پاکستان کی فوج کو بھی چاہیئے کہ وہ پاکستان کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر اور یہ جانتے ہوئے کہ ان کے پڑوس میں بھارت ، افغانستان اور روس ہیں جن کے تعلقات روز اول ہی سے خراب ہیں۔ پاکستان کی فوج کو سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہئے ……. مجھے شبہ ہے کہ پاکستان کی بری فوج کے سربراہ ایوب خان سیاست میں دلچسپی لے رہے ہیں اور انہوں نے کئی جگہوں پر کہا ہے کہ پاکستان میں سویلین حکومت نہیں چلا سکتے۔ ایوب خان کی یہ سوچ نادانی پر مبنی ہے ، اسے معلوم نہیں کہ وہ آج جو کچھ بھی ہے محض پاکستان کی بدولت ہے۔ پاکستان عوام نے اپنے خون سے حاصل کیا ہے……. میرا خیال ہے کہ اگر پاکستان کی فوج نے کبھی بھی سیاست میں آنے کی کوشش کی تو اسی دن سے پاکستان کی فوج اور ملک کا زوال شروع ہوجائے گا۔ ملک کے پیچیدہ معاملات فوجی افسر نہیں چلا سکتے۔ ان کی تربیت زندگی کی شاہراہ پر نہیں ہوتی، وہ ایک مخصوص ماحول میں سویلین سے دور اپنی ذہنی اور جسمانی تربیت حاصل کرتے ہیں …….جس دن فوج سیاست میں داخل ہوگئی، بھارت اس سے فائدہ اٹھائے گا، فوج عوام کی نظروں میں بدنام ہوجائے گی، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان کے ٹوٹنے کا عمل شروع ہوجائے گا……. میں تو اس تصوّر ہی سے ڈر جاتا ہوں کہ پاکستان کی فوج سیاست میں ملوث ہو………. فوج کا کام جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور سیاستدانوں کا کام نظریاتی و تہذیبی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے ………. اگر کسی ایک نے دونوں کام اپنے ذمے لے لئے تو پھر وہ دونوں کام انجام نہیں دے سکے گا “۔

سردار صاحب نے پنجاب کے جاگیرداروں اور نوکر شاہی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا تھا وہ ساٹھ برس گزرنے کے بعد بھی جوں کے توں موجود ہیں۔ انہوں نے چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی پر تشویش کا اظہار کیا تھا لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس پر توجہ نہیں دی یہ احساس محرومی آج بلوچستان میں استحکام پاکستان کے لئے ایک خطرہ بن چکا ہے۔ سردار صاحب نے فوجی جرنیلوں کے جن عزائم پر اضطراب اور خوف کا اظہار کیا تھا وہ 1958ء میں حقیقت بن گئے اور ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرکے نہ ہی صرف فوجی مداخلتوں کا دروازہ کھول دیا بلکہ پاکستان کے ٹوٹنے کی بھی بنیاد رکھ دی ۔ آج تقریباً وہی صورتحال ہے جو سردار صاحب کی چشم تصور نے ساٹھ برس قبل دیکھی تھی اسے کہتے ہیں سیاسی بصیرت

آپ کتنے پانی میں ہیں ؟

”حکمران خراب ہیں“۔ ”زمانہ خراب ہے“۔
یہ فقرے عام سننے میں آتے ہیں
حُکمرانوں کو راہِ راست پر لانے کیلئے پہلا قدم لازم ہے کہ حکومت یا کسی دوسرے پر الزام لگانے والا اپنا جائزہ لے کہ
میں کیا ہوں ؟
میری اس معاشرے میں کیا ذمہ داریاں ہیں ؟
کیا میں وہ ذمہ داریاں نباہ رہا ہوں ؟

تخلیے میں تھوڑا سا اپنا امتحان تو لیجئے

کیا میرے دل میں خدمتِ خلق کا جذبہ ہے ؟
کیا میں کوئی فلاحی کام کرتا ہوں ؟
کیا میرا پڑوسی مجھ سے خوش ہے ؟
کیا میں اپنے بچوں کی شادی اور دیگر خوشی کے مواقع پر یتیموں اور مسکینوں کو یاد رکھتا ہوں ؟
کیا مجھے حرام اور حلال کی سوجھ بوجھ ہے ؟
کیا میں حرام سے بچتا اور حلال کیلئے محنت کرتا ہوں ؟
کیا میں ادھار لے کر وقت پر لوٹاتا ہوں ؟
کیا میں دوسروں کو اسی کام کی تلقین کرتا ہوں جس پر میں خود عمل پیرا ہوتا ہوں ؟

اگر سب سوالوں کا جواب ”ہاں“ میں ملتا ہے تو آپ کی اصلاح کی کوشش ناکام نہیں ہو گی
استقلال کے ساتھ عملی کوشش جاری رکھیئے
بصورتِ دیگر انسان بننے کیلئے کوشش کیجئے قبل اس کے کہ درستگی کا وقت ختم ہو جائے
اللہ مجھے سیدھی راہ پر چلائے