یکم مئی 2004 بروز ہفتہ سعودی عرب کے دارالحکومت میں ایک انوکھا، مگر دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ اس ملک میں ابھی تک الحمدللہ حدود اسلامی کا نظام نافذ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتوںاور حاسدین کے حسد کے باوجود ابھی تک سعودی عرب میں خیروبرکات غالب ہیں۔
یہ 18 ستمبر 2002 ء کی بات ہے جب سترہ سالہ شہزدہ فہد بن نایف بن سعود بن عبدالعزیز نے اپنے ایک دوست پندرہ سالہ منذر بن سلیمان القاضی کو اپنے بھائی پندرہ سالہ شہزادہ سلطان بن نایف سے لڑتے ہوئے دیکھا۔ غصے میں وہ کلاشنکوف اٹھا لایا اور منذر پر فائرنگ کردی۔ منذر کو تین گولیاں لگیں اور وہ وہیںجان بحق ہوگیا۔ شہزادے کو فوری طور پر گرفتار کرلیا گیا۔ سعودی وزارت عدل کے قانون کے مطابق ہر قتل کے کیس کو تیرہ قاضی دیکھتے ہیں، چنانچہ اس مقدمے کا فیصلہ بھی 14 جولائی 2003ء کو صادر کردیا گیا کہ اگر مقتول کے ورثاء قاتل کو معاف نہیں کرتے تو اس کی گردن تلوار سے اڑا دی جائے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 178 ۔ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِصَاصُ فِی الۡقَتۡلٰی ؕ اَلۡحُرُّ بِالۡحُرِّ وَ الۡعَبۡدُ بِالۡعَبۡدِ وَ الۡاُنۡثٰی بِالۡاُنۡثٰی ؕ فَمَنۡ عُفِیَ لَہٗ مِنۡ اَخِیۡہِ شَیۡءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیۡہِ بِاِحۡسَانٍ ؕ ذٰلِکَ تَخۡفِیۡفٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰی بَعۡدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ
ترجمہ ۔ اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے۔ آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے، عورت عورت کے بدلے۔ ہاںجس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے۔ تمھارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے، اس کے بعد بھی جو شرکشی کرے اسے دردناک عذاب ہوگا۔
زمانہ جاہلیت میںقصاص کا کوئی مستحکم دستور اور قانون نہ تھا، اس لئے زور آور لوگ کمزوروں پر جس طرحچاہتے ظلم کرتے۔ ظلم کی ایک شکل یہ تھی کہ ایک آدمی کے قتل کے عوض بسا اوقات قاتل کے پورے قبیلے ہی کو تہس نہس کردینے کی کوشش کی جاتی اور عورت کے بدلے مرد کو غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرڈلتے۔ بعض لوگ طاقت اور دولت کے بل بوتے پر مقتول کے کمزور وارثوں کا مقدمہ دبا کر رکھتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس سارے فرق وامتیاز کو ختم کرتے ہوئے یہ قانون جاری کردیا کہ جو قاتل ہوگا، قصاص میںاسی کو قتل کیا جائے گا۔ قاتل آزاد ہے تو بدلے میںوہی آزاد، غلام ہے تو بدلے میںوہی غلام اور عورت ہے تو بدلے میںوہی عورت قتل کی جائے گی نہ کہ غلام کی جگہ آزاد اور عورت کی جگہ مرد یا ایک آدمی کے بدلے میں متعدد آدمی۔
چنانچہ سعودی عرب میںنافذ شرعی قوانین پر عمل کرتے ہوئے انصاف پرور ججوں نے یہ فیصلہ سنادیا کہ اگر مقتول کے ورثاء قاتل کا خون بہا لے کر یا اللہ کے لئے معاف کردیں تو ٹھیک ورنہ قاتل بہرحال شرعی حدود کے مطابق گردن زنی ہے۔ اس مقدمے میں شاہی خاندان کے کسی فرد نے عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور نہ جج صاحبان نے عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑا جیسے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ہم دیکھتے ہیں، بلکہ انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ قصاص کا حکم جاری کردیا گیا کیونکہ ان اسلامی ججوںکو خوب معلوم ہے اللہ تعالیٰ نے قصاص ہی میں اصل زندگی رکھی ہے اور اس کے نفاذ ہی سے ملک میں امن اور آشتی کے سائے تلے انسان راحت کے سانس لے سکتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد برحق ہے
وًلًکُم فِی القِصَاصِ حَیاۃ یَاُولِی الاَلبَابِ لَعَلَکُم تَتَقُون سورۃ البقرۃ آیت 179 ۔
ترجمہ: عقلمندو! قصاص ہی میں تمھارے لئے زندگی ہے، تاکہ تم ( قتل وغارت سے) بچو۔
چونکہ اس واقعے میںمضرم شاہی خاندان کا فرد تھا اور شاہ فہد کے بھائی سعود کا پوتا تھا، اس لئے اس مقدمہ نے اور زیادہ اہمیت اختیار کرلی۔ واضح رہے کہ اس شہزادے کے دادا شاہ سعود بن عبدالعزیز سعودی عرب کے دوسرے حکمران تھے۔ مقتول سلیمان منذر بن سلیمان قاضی بھی ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا نسب نامہ بنو تمیم سے جا ملتا ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف فرمائی تھی۔ محمد بن عبدالوھاب بھی اس خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مقدمے کے دوران بہت سے با اثر لوگوں نے کوشش کی کہ مقتول کے ورثاء خون بہا لے لیں اور شہزادے کو معاف کردیں مگر مقتول کے والد سلیمان نے ہر قسم کی پیشکش کو ٹھکرادیا ۔ ہر چند کہ
معاملہ ایک سعودی شہزادے کا تھا مگر اس دوران میں مقتول کے خاندان پر قطعی طور پر دباؤ نہیں ڈالا گیا اور نہ ہی قاضیوں پر کسی قسم کا دباؤ تھا، چنانچہ عدالت نے آزادانہ کاروائی کی اور سپریم کورٹ نے بھی یکم دسمبر 2003ء کو اپیل کورٹ کے فیصلے کی توثیق کردی۔ مقدمے کے دوران میں شہزادے کو ریاض کے اصلاحی مرکز میں رکھا گیا تھا اور بعد ازاں اسے ریاض کی سینٹرل جیل بھیج دیا گیا۔ اس دوران میں اس کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا گیا۔
صرف ایک مرتبہ اس کی اپنے والد نایف بن سعود کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ یاد رہے قاتل مرحوم شاہ سعود کا پوتا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم
نامے میں لکھا کہ قاتل کو یکم مئی 2004ء کی صبح قصاص میں قتل کردیا جائے گا۔ یکم مئی، ہفتے کا دن، ریاض کے شہزادے کے لئے انتہائی حیرانی کا دن تھا۔ صبحسویرے بے شمار لوگ قصر الحکم کے پہلو میں میدانِ قصاص میں جمع تھے۔ ان میں شہزادے بھی تھے
اور مختلف بڑے بڑے قبائل کے سردار بھی۔ شہزادے کو بھی پہلے سے بتادیا گیا تھا کہ ہفتے کے دن اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اس کے پیروں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔ صبح آٹھ بجے اس کو پولیس کی گاڑی سے نیچے اتارا گیا۔ اس نے قیدیوں کا مخصوص لباس پہنا ہوا تھا۔ صبح سویرے گورنر ریاض امیر سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے دفتر میں مقتول کے والد اور اس کے رشتہ داروںسے ملاقات کی اور بتایا کہ آج قاتل سے قصاص لیاجارہا ہے۔
نیز گورنر نے کہا کہ میں آپ لوگوںکے مقدمے میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی شاہی خاندان نے اس مقدمے کے دوران میں عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ ہاں،البتہ میں آپ کو اسلام میں معاف کرنے کی اہمیت سے ضرور آگاہ کروں گا ۔ اگر آپ
معاف کردیں تو یہ آپ کے اعلیٰ کردار کی دلیل ہوگی، اور اگر آپ قصاص لیتے ہیں تو یہ آپ کا حق ہے۔ امیر سلمان کے دفتر اور میدانِ قصاص کے درمیان کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ ادھر ایک دن پہلے شہزادے کی والدہ سارا دن مقتول کے گھر کے باہر بیٹھی رہی۔ اس نے مقدمے کے دوران میں چھ مرتبہ منذر کی والدہ سے رابطہ کیا اور اسے قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ وہ اپنے بیٹے کے قاتل کو رضائے الٰہی کے لئے معاف کردے ۔ مگر منذر کی والدہ اپنے بیٹے کے قاتل کو معاف کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں تھی۔
منذر (مقتول ) کے والدین جمعہ کے روز سارا دن گھر پر نہیںتھے۔ سلیمان بن عبدالرحمٰن قاضی جن کی عمر ساٹھ سال کے قریب ہے اور شاہ سعود یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں، جاپانی پٹرول کمپنی میں ملازمت کرتے تھے اور اب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے چار بیٹے اور تین بیٹیاںہیں۔ بڑے بیٹے کا نام تمیم ہے۔ جس کے نام پر ان کی کنیت ہے۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے اخبارات کو انٹرویو دیا جو سعودی اخبارات میںشائع ہوا ۔ یہ کوئی ڈرامہ یا فلم کا حصہ نہیںتھا، جب صبح دس بجے کے قریب صلح اور معافی کی تمام تر اُمیدیں ختم ہوگئیں تو شہزادے کو پابجولاں آہستہ آہستہ مقتل کی طرف لایا گیا۔ سیکورٹی کے افراد نے اس کا بازو تھاما ہوا تھا ۔ صبح کے دس بج رہے تھے ۔ عدالت کے اہلکاروں نے مقتول کے والد سلیمان سے پوچھا ۔ کیا آپ قاتل کو پہچان رہے ہیں؟ اس نے، اس کے چچا زاد بھائیوںنے اور قبیلے کے افراد نے گواہی دی کہ یہی شہزادہ قاتل ہے ۔ ادھر جلاد نے تلوار میان سے نکال لی کہ شہزادے نے پکارا ۔ اے ابوتمیم! اللہ کی رضا کی خاطر مجھے معاف کردیں۔ اخباری نمائندوں کو سلیمان نے بتایا کہ میں نے گزشتہ تمام وقت صرف اور صرف قصاص پر زور دیا تھا۔ میرے چچا زاد بھائی عبدالرحمٰن نے مجھے ایک بار پھر کہا کہ پانچ منٹ تک غور کرلو ۔ میں سوچتا رہا۔
پانچ منٹ کے بعد پولیس کے چیف نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ قصاص لیا جائے، چنانچہ اس نے جلاد کو اشارہ کردیا۔ اس دوران میں قبیلے کے بعض افراد نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ایک بار پھر استخارہ کرلوں، اور اپنے رب سے بھی مشورہ طلب کرلوں ۔ میں اس سے پہلے دو مرتبہ استخارہ کرچکا تھا، اور میں اسی نتیجے پر پہنچا کہ مجھے ہر حالت میں قصاص چاہئیے۔ آخری لمحات میں پھر میں نے استخارے کا فیصلہ کرلیا۔ مشہد (قتل گاہ) سے چند میٹر دور میں نے اپنا رخ قبلے کی طرف کرلیا۔ میرے نیچے کوئی مصلیٰ نہ تھا۔ ایک عزیز نے اپنا رومال سجدہ گاہ میں بچھادیا کہ سورج کی تمازت سے بچ سکوں۔ آدھ گھنٹہ میں نماز ادا کرتا رہا اور مسلسل اپنے رب سے مشورہ کرتا رہا۔ (ادھر لوگ دم سادھے سلیمان القاضی کی طرف دیکھ رہے تھے۔) نماز کے بعد میں نے اپنے بیٹے تمیم سے کہا کہ موبائل پر اپنی والدہ سے بات کراؤ ۔ میں نے اس سے پوچھا ۔ تمھارا کیا فیصلہ ہے؟ اس نے کہا ۔ تم جو بھی فیصلہ کروگے مجھے منظور ہے۔ پھر میں نے اپنے بیٹے تمیم اور بھائی عبدالرحمٰن کو بلوایا اور ان کو بتایا کہ نماز استخارہ کے بعد میرا ذہن معاف کرنے پر آمادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آخری فیصلہ تو تمہارا ہے مگر اللہ کے لئے معاف کردینا ہی بہتر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ ہمیں اس کے بدلے میںقیامت کو معاف کردے۔ اب چند لمحات کی بات تھی ۔ ۔ ۔
شہزادہ سر جھکائے ہوئے تھا۔ جلاد تلوار سونتے اشارے کا منتظر تھا کہ اچانک سلیمان القاضی نے پکارا ۔ جاؤ میں نے اللہ کے لئے تمہیں معاف کردیا ۔ مجھے کسی نے مجبور نہیں کیا اور نہ مجھے کوئی مالی لالچ ہے ۔ ہاں، تمہیں قرآن حفظ کرنا چاہیے، بقیہ زندگی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری میںگزارنی چاہیے۔ سلیمان القاضی نے جیسے ہی معاف کرنے کا اعلان کیا، لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور پھر میدان اللہ اکبر کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ لا الہ الا اللہ کتنی ہی زبانوں پر تھا۔ حقیقی بلندی، اللہ کی ہے جس کے قانون پر عمل کرتے ہوئے قصاص لینے کا فیصلہ کیا گیا اور پھر اسی کی رضا کے لئے معافی کا اعلان ہوا اور شہزادہ فہد کو نئی زندگی ملی۔ ۔ ۔ بے شمار لوگوں کی آنکھیں اشکبار تھیں ۔ پھر سلیمان القاضی آگے بڑھا اور شہزادے کو گلے لگالیا۔ شہزادہ فہد نے سلیمان القاضی کے سر کے بوسے لئے، اپنے فعل پر ندامت کا اظہار کیا اور اس کا بار بار شکریہ ادا کیا کہ اس کے معاف کرنے کی بدولت اسے نئی زندگی ملی ہے۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اپنی نئی زندگی اللہ کی اطاعت میں گزارے گا اور خدمت خلق کو اپنا شعار بنائے گا۔
ادھر شہزادے کی والدہ معافی نامہ سے مایوس ہوکر سخت بے چینی واضطراب کی کیفیت میں مبتلا تھی جو اس موقع پر کسی ماںکی
ہوسکتی ہے ۔ اسے ہسپتال میں داخل کرادیا گیا تھا۔ معافی نامہ کے فورا بعد شہزادہ فہد فہد بیڑیاں پہنے ہی سکیورٹی کے عملے کے ہمراہ ہسپتال پہنچ گیا۔ چونکہ معافی ملنے کے بعد ابھی عدالتی کاروائی مکمل نہیں ہوئی تھی، اس لئے شہزادے کو بیڑیوںسمیت ہی اس کی ماں کے پاس ہسپتال لے جایا گیا۔ اس کی والدہ نے اسے دیکھ کر سخت حیرت کا اظہار کیا اور پوچھا کہ کیا فیصلہ ہوا ہے؟ جب انہیں بتایا گیا کہ مقتول کے ورثاء نے قصاص معاف کردیا ہے تو وہ بے اختیار اپنے بیٹے سے چمٹ گئیں ۔ وہ بار بار اللہ تعالیٰ کا اور پھر قاضی فیملی کا شکریہ ادا کررہی تھیں۔ قانون کے مطابق شہزادے کو دوبارہ عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ جہاں مقتول کے ورثاء نے عدالت میں حلفیہ بیان دیا کہ انہوں نے بغیر کسی جبر و اکراہ کے قاتل کو معاف کیا ہے۔ اخبارات کے مطابق سلیمان القاضی نے دیت کی ایک خطیر رقم کو ٹھکرا دیا تھا۔ شاہی فیملی نے 70 ملین ریال تک دیت کی پیش کش کی تھی۔ بعض اخبارات کے مطابق یہ رقم 20 ملین تھی۔ بہرحال رقم 20 ملین ہو یا 70 ملین، بلاشبہ انتہائی زیادہ رقم تھی جسے مقتول کے والد نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ میں اپنے بیٹے کے خون کا سودا نہیںکرسکتا۔
اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے شہزادہ فہد کے والد نایف بن سعود نے بتایا کہ جس دن عدالتی حکم کا نفاذ ہونا تھا، اس روز صبح سویرے ایک عدالتی اہلکار نے فون پر بتایا کہ وہ عدالت پہنچ جائیں کیونکہ آج فیصلہ نافذ کیا جائے گا ۔ اس کے ساتھ گھر کے تمام افراد سخت پریشان اور بے چین ہوگئے ۔ شہزادے کی والدہ تو شدتِ غم سے بیہوش ہوگئیں، جنہیں فورا ہسپتال داخل کرا دیا گیا اور میں ریاض کے گورنر ہاؤس پہنچ گیا جہاں عملے کے ارکان نے مجھے صبر کی تلقین شروع کی ۔ بحیثیت والد اس موقع پر میری قلبی کیفیت کا اندازہ کیا
جاسکتا ہے ۔ اب کوئی معجزہ ہی میرے بیٹے کو بچا سکتا تھا اور بلاشبہ سلیمان القاضی نے عفو و درگذر کا مظاہرہ کرکے ایثار کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔ ادھر شہزادہ فہد نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مقتول منذر کے ایصالِ ثواب کے لیے ایک مسجد بنائے گا تاکہ رہتی دنیا تک اس کا ثواب مرحوم کو ملتا رہے ۔ وہ بار بار جذباتی انداز میں اپنے سابقہ اقدام پر شدید ندامت کا اظہار کررہا تھا اور یہ کہہ رہا تھا کہ اس کی آئندہ
زندگی ایک مثالی مسلمان کی زندگی ہوگی ۔ سلیمان القاضی نے معافی کے بعد دوبارہ ریاض کے گورنر امیر سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی جنہوں نے اس کے جذبہ انسانی کی تحسین کی ۔
دریں اثناء بہت سے افراد اور شہزادوں نے اس عظیم کارِ خیر پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، نیز انہوں نے سعودی عرب میں اسلامی حدود کی تطبیق پر تحسین کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کے واقعے نے ثابت کردیا ہے کہ اس ملک میں انصاف سب کے لئے ہے۔ شہزادہ عبدالرحمٰن بن سعود بن عبدالعزیز نے کہا کہ مملکت کی بنیاد شریعت کے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ آج حق اور انصاف کا بول بالا ہوا ہے، اور حقدار کو حق مل گیا ہے۔ یقیناً اللہ کے شکر کے بعد سلیمان القاضی اور ان کا خاندان فیملی شکریہ کے حقدار ہیں جنہوں نے آخری لمحات میں معافی کا اعلان کرکے ایک شہزادے کی جان بچالی۔ انہوں نے کہا کہ ریاض کے گورنر امیر سلمان بن عبدالعزیز بھی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے شرعی قوانین کو سب کے لیے یکساں رائج کیا اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں بنے اور نہ کوئی دباؤ ڈالا