Category Archives: ذمہ دارياں

میری تحریر ”اسلام اور ہم“ انتشار کا نیا کھیل ہے ؟

میری تحریر ”اسلام اور ہم“ پر تبصرہ کرتے ہوئے دہلی سے ایک محترمہ لکھتی ہیں ”پہلا پیراگراف نئی آڈیالوجی ۔ ۔ ۔ اِنتشار کا نیا کھیل ۔ بقیہ عمدہ تحریر “

قبل اس کے کہ میں اس تبصرہ کے سلسلے میں کچھ لکھوں میں اس دنیا میں رائج انسان کے بنائے قوانین کی بات کرنا چاہتا ہوں ۔ کسی مُلک کا دستور یا آئین جب منظور ہو جاتا ہے تو اُس مُلک کے تمام باشندے (صدر اور وزیرِ اعظم سے لے کر ایک عام آدمی یا مزدور تک) اس کے ماننے اور اس پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں ۔ کسی کو اس بات پر کوئی چھُوٹ حاصل نہیں کہ اُس نے پڑھا نہیں تھا یا اُسے معلوم نہیں تھا ۔ دستور یا آئین دراصل ایک قوم یا ایک گروہ کا لائحہءِ عمل ہوتا ہے جس کی پابندی لازم ہوتی ہے ۔ بھُول چُوک پر آدمی سزا کا مستوجب قرار دیا جاتا ہے اور دستور یا آئین کو نہ ماننے والا غدار یا مُنحِرف اور مُنحرف کی سزا عام طور پر ”موت“ ہوتی ہے

میری تحریر ”اسلام اور ہم“ کا پہلا بند نجیب صاحب کی تحریر سے نقل کیا گیا ہے جو نہ تو نئی بات ہے (کُجا کھیل) اور نہ اس سے انتشار کا کوئی پہلو نکلتا ہے ۔ دین کے معنی ہیں دستور ۔ آئین ۔ لائحہءِ عمل ۔ اسلام دین ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم جسے اپنے تمام عوامل میں درست سمجھتے ہیں دین کے معاملے میں اسے اختیار کرنے سے احتراز کرتے ہیں

ہو سکتا ہے کہ محترمہ عِلمِ دین کی عالِم فاضل ہوں ۔ میں ایک طالب عِلم ہوتے ہوئے اتنا جانتا ہوں کہ حاکمِ اعلٰی اللہ ہے ۔ سب پر اُس کا حکم چلتا ہے اور اُس کے سامنے انسان یا کسی اور مخلوق کا بس نہیں چلتا ۔ جب اللہ نے دین اسلام کو مکمل کر کے نافذ کر دیا تو پھر اسے کسی اور کے نافذ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ دین اللہ کا بنایا ہوا ہے اور اللہ نے اپنے رسول سیّدنا محمد ﷺ کے ذریعہ نافذ کیا ہے ۔ یہ بات قرآن شریف میں درج اللہ کے فرمان سے ثابت ہے ۔ میں متعلقہ آیت اور اُس کا ترجمہ اس بند کے بعد نیچے نقل کروں گا ۔ پہلے بات مکمل کر لوں ۔ خطبہ حجۃ الوداع سے واضح ہے کہ رسول اللہ سیّدنا محمد ﷺ نے دین اسلام کو نافذ کر دیا تھا اور اس پر عمل کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرایا تھا ۔ رسول اللہﷺ اور خُلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے دور کے مطالع سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام مسلمانوں کے کردار و عمل کی وجہ سے پھیلا ۔ کسی حاکم یا سپہ سالار کے حُکم سے نہیں ۔ اگر اسلام انسانی حُکم سے پھیلنا ہوتا تو آج یورپ اور امریکہ جہاں اسلام دشمن حاکم ہیں لوگ اسلام قبول نہ کر رہے ہوتے ۔ البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اگر حکومت بناتے ہیں تو مسلمان حاکم کا فرض ہے کہ مسلمانوں کیلئے اپنے دین پر عمل کو آسان بنانے کیلئے قوانین وضع کرے اور اللہ کے حُکم یعنی دین اسلام کے خلاف تمام قوانین کو ختم کر دے اور یہ حُکم پاکستان کے آئین میں موجود ہے گو اس پر ماضی میں پوری طرح عمل نہیں کیا گیا ۔ عُلماء کا فرض ہے کہ عوام کی درست رہنمائی کریں ۔ دین کے دائرے میں رہتے ہوئے فرقہ بندی کو روکیں ۔ ایسا اُسی صورت میں ممکن ہے جب حاکم اور عالِم پہلے دین کا نفاذ اپنے اُوپر کریں

سورۃ 5 المآئدہ آیۃ 3 ۔ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا

تراجم ۔ (مجھے میسّر تمام تراجم اسلئے نقل کر رہا ہوں کہ شک پیدا نہ ہو میں نے اپنے مطلب کا ترجمہ لکھ دیا ہے)
(جالندھری) ۔ ‏ آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا
(محمودالحسن‏) ۔١٤آج میں پورا کر چکا تمہارے لئے دین تمہارا ف۱۵ اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین ‏
‏(جوناگڑھی) ۔ ‏ آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا نام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا
(ابوالاعلٰی مودودی) ۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے

(YUSUFALI) – This day have I perfected your religion for you, completed My favour upon you, and have chosen for you Islam as your religion.
(PICKTHAL) – This day have I perfected your religion for you and completed My favour unto you, and have chosen for you as religion al-Islam.
(SHAKIR) – This day have I perfected for you your religion and completed My favor on you and chosen for you Islam as a religion;
(Taqi Usmani) – Today, I have perfected your religion for you, and have completed My blessing upon you, and chosen Islam as Din (religion and a way of life) for you.

میاں بیوی ایک دوسرے کی بات کم سمجھتے ہیں

میاں بیوی کے رشتے کو دنیا بھر میں سب سے قریبی سمجھا جاتا ہے اور عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی بات کسی اور کی نسبت زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ۔ حالیہ سائنسی تحقیق اس نظریئے کی نفی کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ دو اجنبی ایک دوسرے کی بات سمجھ سکتے ہیں مگر میاں بیوی نہیں

ہر شوہر (اور ہر بیوی) یہ دعوٰی کرتا (یا کرتی) ہے کہ وہ اپنے شریکِ حیات کے بارے میں سب سے زیادہ جانتا (یا جانتی) ہے ۔ اس کے باوجود اکثر بیویاں اپنے شوہروں کے بارے میں کہتی ہیں کہ شوہر ان کی بات نہیں سُنتے ۔ اس کے برعکس اکثر شوہروں کو یہ شکائت ہوتی ہے کہ ان کی بیگم ان کی بات دھیان سے نہیں سُنتی ۔ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ اس کا سبب ایک دوسرے کو نہ جاننا ہے

اکثر میاں بیوی طے کر لیتے ہیں کہ ان کی (یا کے) شریکِ حیات ان کے بارے میں سب کچھ جانتی (یا جانتے) ہیں لہٰذا آپس میں کچھ بتاتے ہوئے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔ لیکن جب کسی دوسرے سے بات ہوتی ہے تو اُسے بات تفصیل سے بتائی جاتی ہے چنانچہ عام طور پر میاں بیوی کی نسبت دوسرے بات سمجھ لیتے ہیں ۔ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے بارے میں یہ فرض کر لینا کی وہ ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے جس کا نتیجہ بسا اوقات فاصلوں اور تنازعات کی صورت نکلتا ہے

قریبی تعلق یا رشتے کی خوش فہمی کے باعث ہم گفتگو کرتے وقت تفصیل کی بجائے اشارے کنائے یا مختصر جُملے سے کام لیتے ہیں اس گمان میں کہ سمجھ آجائے گی اور جب ایسا نہیں ہوتا تو نہ صرف یہ کہ ذہن کو جھٹکا لگتا ہے بلکہ شکوے شکائتیں بھی شروع ہو جاتی ہیں ۔ اس کے بر عکس جب ہم کسی اجنبی سے بات کرتے ہیں تو ہم ذہن میں رکھتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں جانتا اور اُسے ہر چیز اچھی طرح سے سمجھاتے ہیں

یہ مسئلہ صرف میاں بیوی کا ہی نہیں گہرے دوستوں کا بھی ہے جو اسی زعم میں ہوتے ہیں کہ دوسرا اُسے اچھی طرح جانتا ہے اور بات وضاحت کے ساتھ نہیں کرتا ۔ نتیجہ غلط فہمیوں اور جھگڑوں میں نکلتا ہے

یومِ آزادی اور ہمارا کردار

Flag-1 عصرِ حاضر میں یہ روائت بن گئی ہے کہ شاید اپنے آپ کو اُونچا دکھانے کیلئے اپنے وطن پاکستان کو نِیچا دکھایا جائے
یہ فقرے عام سُننے میں آتے ہیں

” اس مُلک نے ہمیں کیا دیا ہے “۔
”کیا رکھا ہے اس مُلک میں“۔

بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مُلک کے اندر ہی نہیں مُلک کے باہر بھی میرے کچھ ہموطن اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کو بُرا کہتے ہیں ۔ وہ بھی صرف آپس میں نہیں بلکہ غیر مُلکیوں کے سامنے بھی ۔ حقیقت میں ایسے لوگ عقلمند نہیں بلکہ بیوقوف ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ خود اپنے آپ کو بدنام کر رہے ہیں

اس مُلک پاکستان نے ہمیں ایک شناخت بخشی ہے
اس سے مطالبات کرنے کی بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہیئے
کہ
ہم نے اس مُلک کو کیا دیا ہے اور کیا دینا ہے
ہم نے ہی اس مُلک کو بنانا ہے اور ترقی دینا ہے جس کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے ۔ اسی میں ہماری بقاء ہے

یہ وطن پاکستان اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ کا عطا کردہ ایک بے مثال تحفہ بلکہ نعمت ہے
میرے وطن پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں
دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ۔ ہر وقت برف پوش رہنے والے پہاڑ ۔ سرسبز پہاڑ اور چٹیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفع ۔ سرسبز میدان اور صحرا
چشموں سے نکلنے والی چھوٹی ندیوں سے لے کر بڑے دریا اور سمندر بھی
ہر قسم کے لذیز پھل جن میں آم عمدگی اور لذت میں لاثانی ہے
بہترین سبزیاں اور اناج جس میں باسمتی چاول عمدگی اور معیار میں لاثانی ہے
میرے وطن پاکستان کی کپاس مصر کے بعد دنیا کی بہترین کپاس ہے
میرے وطن پاکستان میں بننے والا کپڑا دنیا کے بہترین معیار کا مقابلہ کرتا ہے
میرے وطن پاکستان کے بچے اور نوجوان دنیا میں اپنی تعلیمی قابلیت اور ذہانت کا سکّہ جما چکے ہیں
پاکستان کے انجنیئر اور ڈاکٹر اپنی قابلیت کا سکہ منوا چکے ہیں
سِوِل انجنیئرنگ میں جرمنی اور کینیڈا سب سے آگے تھے ۔ 1961ء میں پاکستان کے انجنیئروں نے پری سٹرَیسڈ پوسٹ ٹَینشنِنگ ری اِنفَورسڈ کنکرِیٹ بِیمز (Pre-stressed Post-tensioning Re-inforced Concrete Beams) کے استعمال سے مری روڈ کا نالہ لئی پر پُل بنا کر دنیا میں اپنی قابلیت ۔ ذہانت اور محنت کا سکہ منوا لیا تھا ۔ اس پُل کو بنتا دیکھنے کیلئے جرمنی ۔ کینیڈا اور کچھ دوسرے ممالک کے ماہرین آئے اور تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے ۔ یہ دنیا میں اس قسم کا پہلا تجربہ تھا ۔ یہ پُل خود اپنے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ پچھلے 54 سال میں اس پر ٹریفک زیادہ وزنی اور بہت زیادہ ہو چکی ہے لیکن اس پُل پر بنی سڑک میں بھی کبھی ہلکی سی دراڑ نہیں آئی

آیئے آج یہ عہد کریں کہ
ہم اپنے اس وطن کو اپنی محنت سے ترقی دیں گے اور اس کی حفاظت کیلئے تن من دھن کی بازی لگا دیں گے
اللہ کا فرمان اٹل ہے ۔ سورت ۔ 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39

وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی

(اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)

سورت ۔ 13 ۔ الرعد ۔ آیت ۔ 11

إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ

( اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے

قومی زبان اور ہم

پیش لفظ از بلاگر
ہم کیسے لوگ ہیں کہ ہمیں اپنی کوئی چیز پسند نہیں ۔ اپنے مُلک میں بنی اشیاء کو ہم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ کمال یہ کہ اپنے مُلک کی بنی اشیاء دھوکہ کھا کر مہنگے داموں خریدتے ہیں ۔ اپنی قومی زبان بولنا شاید ہتک خیال کرتے ہیں ۔ قومی زبان بولتے ہوئے انگریزی کا تڑکا لگانا شاید ترقی کا نشان سمجھا جاتا ہے

1973ء میں اُردو کو 20 سال میں مُلک کے تمام اداروں میں ہر سطح پر رائج کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن ہوا یہ کہ وعدہ کرنے والوں نے اس پر پہلا قدم بھی نہ اُٹھایا ۔ ضیاء الحق کی آمریت کے دوران اس پر زور دیا گیا اور تمام قوانین اور دستاویزات کا اُردو میں ترجمہ کرنے کیلئے مقتدرہ قومی زبان کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا ۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں کے سینیئر پروفیسر صاحبان کی ایک کمیٹی بنائی گئی جس کے ذمہ تمام غیر مُلکی زبانوں میں موجود تدریسی کُتب کا اُردو میں ترجمہ کرنا لگایا گیا ۔ جنہوں نے احسن طریقہ سے کام شروع کر دیا
میں نے 1984ء میں دائرہ معارف الاسلامیہ اور فقہ اربعہ مذاہب خریدی تھیں اور میرے پاس ہیں یہ دو مجموعے اس کمیٹی کی قابلیت اور محنت کا ثبوت ہیں ۔ دائرہ معارف الاسلامیہ جو اینسائیکلوپیڈیا آف اسلام کا ترجمہ تھا کو مکمل بھی کیا گیا تھا چنانچہ 8 جلدوں کی 22 جلدیں بن گئیں تھیں
ضیاء الحق کی حکومت کے بعد تدریسی کُتب کا ترجمہ کرنے والی کمیٹی کو ختم کر دیا گیا ۔ مقتدرہ قومی زبان کا ادارہ یتیم کر دیا گیا اور اب شاید موجود ہی نہیں ہے

اب پڑھیئے تازہ خبر
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اُردو اور مقامی زبانوں میں قوانین اورزبانوں کی ترویج سے متعلق مقدمے کی سماعت کی
وفاق کی طرف سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ
صدر، وزیر اعظم اور وفاقی وزراء سرکاری تقریبات میں اندرون اور بیرونِ مُلک اُردو زبان میں تقاریر کریں گے،
تمام سرکاری ادارے 3 ماہ کے اندر اپنی پالیسیوں اور قوانین کا اُردو ترجمہ شائع کریں گے
الیکشن کمیشن، ڈرائیونگ لائسنسنگ اتھارٹی کےفارم ا اوریوٹیلیٹی بلوں سمیت اس نوع کی تمام تر دستاویزات 3 ماہ کے اندر صارفین کو اُردو میں فراہم کی جائیں گی
پاسپورٹ کے تمام تر مندرجات انگریز ی کے ساتھ ساتھ اُردو میں بھی منتقل کئے جائیں گے
تمام وفاقی ادارے اپنی ویب سائٹس بھی 3 ماہ کے اندر اندر اُردو میں منتقل کریں گے
پورے ملک میں تمام شاہراہوں پر نصب سائن بورڈ بھی انگریزی کے ساتھ اُردو میں لکھے جائیں
تمام سرکاری تقریبات، استقبالیوں کی کارروائی بھی مرحلہ وار اُردو میں شروع کی جائے
اُردو کے نفاذ و ترویج کے سلسلہ میں ادارہ فروغ قومی زبان کو مرکزی حیثیت دی جائے گی تاکہ اس قومی مقصد کی بجا آوری کے راستے میں رکاوٹوں کو مؤثر طریقے سے جلد از جلد دور کیا جاسکے

میری دعا

جاہ و جلال کی طلبِ نہیں ۔ مجھ کو صرف اتنا کمال دے
رمضان سے ہُوں میں مُستفید ۔ ایسی سوچ و استقلال دے
میرے ذہن میں تیری فکر ہو ۔ میری سانس میں تیرا ذکر ہو
مجھے مال و زر کی ہوس نہیں ۔ مجھے بس رزق حلال دے
میرا ہر قدم تیری راہ میں ہو ۔ میرا ہر عمل تیری رضا میں ہو
تیرا خوف میری نجات ہو ۔ سبھی خوف دل سے نکال دے
اپنی راہ پہ مجھے یوں ڈال دے کہ زمانہ میری مثال دے
تیری رحمتوں کا نزول ہو ۔ میرے دل کو ہردم سکون ملے
تیری بارگاہ میں اے خدا ۔ میری روز و شب ہے یہی دعا
تو رحیم ہے تو کریم ہے ۔ مجھے مُشکلوں سے نکال دے

مذاق میں گناہ

ٹی وی چینلز کھُمبوں کی طرح اُبھرے اور جنگلی گھاس کی طرح پھیل گئے ۔ بازی جیتنے کی دوڑ میں خبر ساز ۔ ملمع ساز اور جُگت باز ماہرین بھرتی کئے گئے ۔ اتنے سارے کھیل تماشے یکدم شروع ہوئے تو حضرتِ انسان ان میں کھو کر رہ گیا ۔ اُس کا احساس جاتا رہا کہ جسے وہ جبِلّت یا حظِ مزاح سمجھ رہا ہے وہ انسانی اقدار کی تضحیک ہے ۔ پھر مرغوبیت اتنی بڑھی کہ اس فعل کا دہرانا اپنے ذمہ لے لیا ۔ چنانچہ ٹی وی کے پھیلائے یہ جراثیم پہلے فیس بُک پر پہنچ کر عام ہوئے ۔ پھر واٹس اَیپ اور دوسرے سماجی ذرائع ابلاغ پر دہرائے جانے لگے ۔ نوبت بایں جا رسید کہ مرض بلاگستان (جو سُنا تھا کہ اُردو زبان کی ترویج یا فلاح کیلئے ہے) پر بھی پہنچ گیا ۔ ۔ ۔ پھر بجائے اس کے کہ درست رہنمائی کی جائے آفرین و مرحبا کے ڈونگرے برسائے جانے لگے یا پھر تُرکی بہ تُرکی دوسری انتہاء اختیار کی گئی

کوئی پوچھے کہ اللہ کے بندوں اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہو ۔ کم از کم قرآن شریف میں اللہ کے واضح طور پر لکھے احکامات کی خلاف ورزی تو نہ کرو

سورت 4 ۔ النسآء ۔ آیت 148 ۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ بُرا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو ۔ اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
سورت 49 ۔ الحجرات۔ آیت 11 ۔ اے ایمان والو ۔ مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ۔ ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو بُرے لقب دو ۔ ایمان کے بعد فسق بُرا نام ہے ۔ اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں

سرکاری اداروں میں دھونس اور دھاندلی (Bluff & Corruption) کیسے شروع ہوئی

میں 3 وجوہات کی بنیاد پر آج اپنی 14 مارچ 2009ء کی تحریر دہرا رہا ہوں
1 ۔ یہ تحریر آج بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی 6 یا زیادہ سال قبل تھی
2 ۔ پچھلے 6 سال میں بلاگستان پر بہت سے نئے چہرے طلوع ہوئے ہیں اور بہت سے پرانے نظر نہیں آتے
3 ۔ عصرِ حاضر کی پڑھی لکھی نسل کو ان حقائق سے اِن کے اساتذہ نے کم ہی متعارف کرایا ہو گا

نوکری ۔ چاکری یا ملازمت ۔ کچھ کہہ لیجئے ۔ ویسے آجکل رواج جاب [job] کہنے کا ہے ۔ ملازمت نجی ادارے کی ہو یا سرکاری محکمہ کی اس کے کچھ اصول و قوانین ہوتے ہیں جن کی پاسداری ہر ملازم کا فرض ہوتا ہے ۔ دورِ حاضر میں ہماری قوم کی خواری کی بنیادی وجہ ادارے کے قوانین کی بجائے حاکم کی ذاتی خواہشات کی تابعداری ہے جس کی پنیری 1973ء میں لگائی گئی تھی اور اب یہ جنگلی پودا تناور درخت بن چُکا ہے

میں نے جب 1962ء میں ملازمت اختیار کی تو سرکاری ملازمین پر 1955ء میں شائع کئے گئے اصول و ضوابطِ ملازمت کا اطلاق ہوتا تھا ۔ اس میں قائداعظم کی 25 مارچ 1948ء کو اعلٰی سرکاری عہدیداروں کو دی گئی ہدایات پر مبنی اہم اصول یا قوانین مندرجہ ذیل تھے

(الف) ۔ ہر عہدیدار قوم کا حاکم نہیں بلکہ خادم ہے ۔ حکومت کا وفادار رہے گا اور اس سلسلہ میں دوسرے عہدیداران سے تعاون کرے گا
(ب) ۔ تعاون کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دوسرے عہدیدار کے ہر عمل میں تعاون کرےگا یا اپنے اعلٰی عہدیدار کے ہر حُکم کو مانے گا بلکہ اگر دوسرا عہدیدار کوئی کام مروجہ قانون کے خلاف کرے یا اعلٰی عہدیدار کوئی ایسا حُکم دے جو قانون کے مطابق نہ ہو تو ان سے عدمِ تعاون وفاداری اور تعاون ہو گا
(ج) ۔ اوسط کارکردگی ہی مطلوب ہے ۔ اس سے اُوپر اور نیچے معدودے چند ہوتے ہیں جن کی طلب نہیں ہے
(د) ۔ ترقی کیلئے کارکردگی کی سالانہ رپورٹ (Annual Confidential Report)کے تمام حصوں کو برابر التفات (consideration/ weightage) دی جائے
(قارئین کی سہولت کیلئے قائداعظم کے متذکرہ خطاب کا متن اس تحریر کے آخر میں بھی نقل کیا گیا ہے)

زمیندار ۔کاشتکار ۔ باغبان اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے گھر میں چھوٹے چھوٹے باغیچے بنا رکھے ہیں جانتے ہیں کہ اگر ایک جنگلی پودہ اُگ جائے اور اسے نکالا نہ جائے اور وہ بڑھتے بڑھتے درخت بن جائے تو پھر اسے تلف کرنا اگر ناممکن نہیں تو نہائت مُشکل ضرور ہو جاتا ہے ۔ اگر اس درخت کو کاٹ دیا جائے تو زیرِزمین اس کی جڑیں پھیلی ہونے کی وجہ سے کئی جگہ سے وہ پھوٹ پڑتا ہے اور ایک کے کئی درخت بن جاتے ہیں ۔ ہمارے مُلک میں اب یہی حالت ہو چکی ہے

ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کے 1973ء میں وضع کردہ انتظامی اصلاحات [Administrative Reforms] کے نفاذسے 1955ء کے سرکاری ملازمت کے قوانین کالعدم ہو گئے ۔ گو نئے قوانین کی روح بھی وہی ہے کہ سرکاری عہدیدار قوانین کے مطابق کام کرے گا لیکن اس کی تشریح اُس طرح نہیں کی گئی جس طرح 1955ء کے قوانین میں موجود تھی ۔ بالخصوص ترقی کیلئے جو اصول اُوپر (ج) کے تحت درج ہے کی بجائے کر دیا گیا
Below everage, Average, above Average, Good, Very Good, Exellant
اور ان کے نمبر رکھ دیئے گئے ۔ ترقی کیلئے جو نمبر رکھے گئے اُن کے مطابق اوسط (Average) رپورٹ پانے والا ترقی نہیں پا سکتا تھا ۔ اور ستم ظریفی یہ کہ متعلقہ افسر کو پرانے قوانین کے مطابق صرف Below Average رپورٹ کی اطلاع دی جاتی تھی چنانچہ افسر کو اپنی نااہلی کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب اُس کے جونیئر ترقی پا جاتے ہیں اور وہ بیٹھا رہ جاتا ہے ۔ ساتھ ہی یہ ستم بھی کہ بی پی ایس 19 کا افسر اگر 3 اوسط رپورٹیں پا لے تو وہ مستقبل میں گُڈ (Good) رپورٹیں لے کر بھی ترقی نہیں پا سکتا

(د) کے تحت لکھا گیا کی بجائے کر دیا گیا کہ
Grading and recommendation in the Fitness column given by the reporting officer shall be final

سرکاری عہدیداروں کی مُلک کے قوانین کی بجائے بڑے صاحب یا اس وقت کے حُکمران کی خوشنودی حاصل کرنے کا عمل شروع ہونے کی
دوسری بڑی وجہ مُلکی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بغلی داخلہ (Lateral Entry) کے ذریعہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور دوسرے منظورِ نظر لوگوں کی سینکڑوں کی تعداد میں اعلٰی عہدوں پر بھرتی بھی ہے جو ذولفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں کی گئی ۔ پیپلز پارٹی کے جیالے وکیل ضلعی اور اعلٰی عدالتوں میں بھی جج بنائے گئے ۔ ان عہدیداروں اور ججوں میں سے کوئی دس فیصد ہوں گے جو متعلقہ عہدوں کے قابل ہو سکتے تھے باقی سب نااہل تھے ۔ ان لوگوں نے حکومتی مشینری اور عدلیہ کو ہر جابر حکمران کے ہاتھ کا کلپرزہ بنا دیا

متذکرہ بغلی داخلہ کے ذریعہ سے وفاقی حکومت میں بھرتی کئے گئے درجنوں ڈپٹی سیکریٹریوں اور جائینٹ سیکریٹریوں سے میرا واسطہ پڑا ۔ ان میں سے صرف ایک ڈپٹی سیکریٹری کو اپنے عہدے کے قابل پایا ۔ ایک ایسے ڈپٹی سیکریٹری سے بھی واسطہ پڑا جس سے ہر شخص نالاں تھا ۔ اُسے نہ بولنے کی تمیز تھی نہ کسی اور آداب کی ۔ ماتحتوں کو گالیاں بھی دیتا تھا ۔ نہ انگریزی درست بول یا لکھ سکتا نہ اُردو ۔ اُس کے پاس بی اے ایل ایل بی کی سند تو تھی لیکن کسی قانون کا اُسے علم نہ تھا ۔ ڈپٹی سیکریٹری بنائے جانے سے پہلے وہ فیصل آباد کے کسی محلہ میں پیپلز پارٹی کا آفس سیکریٹری تھا

میری قوم کب جاگے گی یا رب ۔ میرے مولٰی ۔ جھنجھوڑ دے میری قوم کو کہ وہ جاگ اُٹھے اور اپنی بھلائی کیلئے جدوجہد کرے

DO YOUR DUTY AS SERVANTS ADVICE TO OFFICERS
Address to the Gazetted Officers of Chittagong on 25th March, 1948

I thank you for giving me this opportunity to see you collectively. My time is very limited and so it was not possible for me to see you individually. I have told you two things: I have already said what I had to say to the Gazette Officers at Dhaka. I hope you should read an account of what I said there in the newspapers. If you have not I would request you to take the trouble of reading what I said there. One cannot say something new everyday. I have been making so many speeches and I expect each one of you to know my views by now.

Ladies and Gentlemen, I want you to realize fully the deep implications of the revolutionary change that has taken place. Whatever community, caste or creed you belong to you are now the servants of Pakistan. Servants can only do their duties and discharge their responsibilities by serving. Those days have gone when the country was ruled by the bureaucracy. It is people’s Government, responsible to the people more or less on democratic lines and parliamentary practices. Under these fundamental changes I would put before you two or three points for your consideration:

You have to do your duty as servants; you are not concerned with this political or that political party; that is not your business. It is a business of politicians to fight out their case under the present constitution or the future constitution that may be ultimately framed. You, therefore, have nothing to do with this party or that party. You are civil servants. Whichever gets the majority will form the Government and your duty is to serve that Government for the time being as servants not as politicians. How will you do that? The Government in power for the time being must also realize and understand their responsibilities that you are not to be used for this party or that. I know we are saddled with old legacy, old mentality, old psychology and it haunts our footsteps, but it is up to you now to act as true servants of the people even at the risk of any Minister or Ministry trying to interfere with you in the discharge of your duties as civil servants. I hope it will not be so but even if some of you have to suffer as a victim. I hope it will not happen –I expect you to do so readily. We shall of course see that there is security for you and safeguards to you. If we find that is in anyway prejudicial to your interest we shall find ways and means of giving you that security. Of course you must be loyal to the Government that is in power.

The second point is that of your conduct and dealings with the people in various Departments, in which you may be: wipe off that past reputation; you are not rulers. You do not belong to the ruling class; you belong to the servants. Make the people feel that you are their servants and friends, maintain the highest standard of honor, integrity, justice and fair-play. If you do that, people will have confidence and trust in you and will look upon you as friends and well wishers. I do not want to condemn everything of the past, there were men who did their duties according to their lights in the service in which they were placed. As administrator they did do justice in many cases but they did not feel that justice was done to them because there was an order of superiority and they were held at a distance and they did not feel the warmth but they felt a freezing atmosphere when they had to do anything with the officials. Now that freezing atmosphere must go and you must do your best with all courtesy and kindness and try to understand the people. May be sometimes you will find that it is trying and provoking when a man goes on talking and repeating a thing over and over again, but have patience and show patience and make them feel that justice has been done to them.

Next thing that I would like to impress upon you is this: I keep or getting representations and memorials containing grievances of the people of all sorts of things. May be there is no justification, may be there is no foundation for that, may be that they are under wrong impression and may be they are misled but in all such cases I have followed one practice for many years which is this: Whether I agree with anyone or not, whether I think that he has any imaginary grievances whether I think that he does not understand but I always show patience. If you will also do the same in your dealings with an individual or any association or any organization you will ultimately stand to gain. Let not people leave you with this bearing that you hate, that you are offensive, that you have insulted or that you are rude to them. Not one per cent who comes in contact with you should be left in that state of mind. You may not be able to agree with him but do not let him go with this feeling that you are offensive or that you are discourteous. If you will follow that rule believe me you will win the respect of the people.

With these observations I conclude what I had to say. I thank you very much indeed that you have given me this opportunity to say these few words to you and if you find anything good in it follow, if you do not find anything good in it do not follow.

Thank you very much.

Pakistan Zindabad