Category Archives: ذمہ دارياں

آزادی مبارک

تمام ہموطنوں کو (دنیا میں جہاں کہیں بھی ہیں) آزادی کی سالگرہ مبارک my-id-pakاللہ ہمیں آزادی کے صحیح معنی سمجھنے اور اپنے مُلک کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

یہ وطن ہمارے بزرگوں نے حاصل کیا تھا کہ مسلمان اسلام کے اصولوں پر چلتے ہوئے مل جل کر اپنی حالت بہتر بنائیں ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں یا نہیں البتہ پاکستانی نہیں بنے ۔ کوئی سندھی ہے کوئی پنجابی کوئی بلوچ کوئی پختون کوئی سرائیکی کوئی پاکستان میں پیدا ہو کر مہاجر ۔ کوئی سردار کوئی مَلک کوئی خان کوئی وڈیرہ کوئی پیر ۔ اس کے علاوہ مزید بے شمار ذاتوں اور برادریوں میں بٹے ہوئے ہیں

بڑے بڑے روشن خیال بھی پیدا ہو گئے ہیں جو قائد اعظم کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا صرف ایک فقرہ سیاق وسباق سے علیحدہ کر کے کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے پاکستان کو ایک اسلامی نہیں سیکولر ریاست بنایا تھا ۔ ان روشن خیالوں سے کوئی پوچھے کہ کیا قائد اعظم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ان کی باقی ساری تقریریں اور اقوال بھول جائیں ؟ ایک نعرہ جو تحریک پاکستان کا لازمی جزو تھا ”پاکستان کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللہ“۔ وہ بھی ان روشن خیالوں نے کہیں نہیں پڑھا ؟

قائداعظم 1942ء میں الہ آباد میں تھے تو وکلاء کے ایک وفد کی ملاقات کے دوران ایک وکیل نے پوچھا ”پاکستان کا دستور کیسا ہوگا اور کیا آپ پاکستان کا دستور بنائیں گے ؟“
قائداعظم نے جواب میں فرمایا ”پاکستان کا دستور بنانے والا میں کون ہوتا ہوں ۔ پاکستان کا دستور تو تیرہ سو برس پہلے بن گیا تھا“۔

قائداعظم کی 11 اگست 1947 کا خطاب بھی رسول اکرم صل اللہ علیہ و سلم کے خطبہ الوداع کے ان الفاظ کی غمازی کرتا محسوس ہوتا ہے ۔ تمام انسان آدم اور حوا سے ہیں ۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر ۔ نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر ۔ سوائے اس کے کہ کوئی پرہیزگاری اور اچھے عمل کی وجہ سے بہتر ہو

ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
برسوں کے بعد پھر اُڑے پرچم ہلال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
دیکھو کہیں اُجڑے نہ ہمارا یہ باغیچہ ۔ ۔ ۔ اس کو لہو سے اپنے شہیدوں نے ہے سینچا
اس کو بچانا جان مصیبت میں ڈال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
دنیا کی سیاست کے عجب رنگ ہیں نیارے ۔ ۔ ۔ چلنا ہے مگر تم کو تو قرآں کے سہارے
ہر اک قدم اُٹھانا ذرا دیکھ بھال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے
تُم راحت و آرام کے جھُولے میں نہ جھُولو ۔ ۔ ۔ کانٹوں پہ ہے چلنا میرے ہنستے ہوئے پھُولو
لینا ابھی کشمیر ہے یہ بات نہ بھُولو ۔ ۔ ۔ کشمیر پہ لہرانا ہے جھنڈا اُچھال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے ۔ ۔ ۔ ہم لائے ہیں طوفان سے کشتی نکال کے
اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے ۔ ۔ ۔ اس ملک کو رکھنا میرے بچو سنبھال کے

پاکستان کیلئے انتخابات

my-id-pakآج ہمارے ملک کی عمر 69 شمسی سال ہونے میں 3 دن باقی ہیں اور قمری مہينوں کےحساب آج پاکستان بنے 71 سال ایک ماہ اور 13 دن ہو گئے ہیں ۔ قارئين کی معلومات کيلئے تاريخی کُتب سے ايک مختصر ترين خاکہ رقم کر رہا ہوں

پاکستان اور بھارت میں شائع ہونے والی تاریخی کُتب کے مطابق دسمبر 1945ء میں مرکزی قانون ساز اسمبلی کے نتائج کا اعلان ہوا تو مسلم لیگ کو 90 فیصد مسلمان ووٹ ملے تھے اور اس نے 30 مسلم نشستوں میں سے 30 ہی حاصل کر لی تھیں ۔ ان میں غیر مسلم علاقے (صوبے) بھی شامل تھے ۔ کانگریس نے 62 عمومی (ہندو) نشستوں میں سے 57 جیتی تھیں

مسلم لیگ کی 100فیصد کامیابی تاریخ کا ایک حیرت انگیز واقعہ تھا
جب 1946ء کے آغاز میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تو یو پی کی 66 مسلم نشستوں میں سے 54 ۔ سی پی کی 14 میں سے 13 ۔ اُڑیسہ کی 4 میں سے 4 ۔ بمبئی کی 30 میں سے 30 ۔ آسام کی 34 میں سے 33 اور بہار کی 40 میں سے 34 مسلم لیگ نے حاصل کر لیں ۔ 1946ء کے انتخابات میں یو پی کے شہری علاقوں میں کانگریس کو ملنے والے مسلمان ووٹ ایک فیصد سے بھی کم تھے
مسلم لیگ نے یہ انتخابات ایک ہی انتخابی نعرے پر لڑے اور وہ تھا ” پاکستان “

آيئے سب ميری اس دعا ميں شامل ہو جايئے

اے نگارِ وطن تو سلامت رہے ۔ ۔ ۔ مانگ تیری ستاروں سے بھر دیں گے ہم
ہو سکی تیرے رُخ پہ نہ قرباں اگر ۔ ۔ ۔ اور کس کام آئے گی یہ زندگی
اپنے خوں سے بڑھاتے رہیں گے سدا ۔ ۔ ۔ تیرے گُل رنگ چہرے کی تابندگی
جب تجھے روشنی کی ضرورت پڑے ۔ ۔ ۔ اپنی محفل کے شمس و قمر دیں گے ہم
سبز پرچم تیرا چاند تارے تیرے ۔ ۔ ۔ تیری بزمِ نگاری کے عنوان ہیں
تیری گلیاں، تیرے شہر، تیرے چمن ۔ ۔ ۔ تیرے ہونٹوں کی جنبش پہ قربان ہیں
جب بھی تیری نظر کا اشارہ ملا ۔ ۔ ۔ تحفَہِ نفسِ جاں پیش کر دیں گے ہم
اے نگارِ وطن تو سلامت رہے

قابلِ اعتماد دوست ؟

my-id-pakلوگ وہی ہیں بہترین اور قابلِ اعتماد جو آپ جیسے کیسے بھی ہیں آپ کو قبول کرتے ہیں
نہ کہ وہ
جو آپ کی حیثیت دیکھ کر آپ سے محبت کا اظہار کرتے ہیں
اور نہ وہ
جو اس توقع سے آپ کے ساتھ محبت کرتے ہیں کہ آپ اُن کیلئے کچھ کر سکیں گے

سچ کو آنچ نہیں

شاید 2005ء میں کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ایک بین الجامعات (inter universities) تقریری مقابلہ منعقد ہوا تھا جس میں طالب علم عدنان خان جدون کی تقریر کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی تھی
اس کے بعد مئی 2006ء میں کنونشن سینٹر اسلام آباد میں ہی سٹوڈنٹس کنونشن منعقد ہوا جس میں مُلک کے تمام تعلیمی اداروں کے طلباء کو اپنے خیالات کے اظہار کا موقع دیا گیا ۔ اِس کنونشن کی صدارت اُس وقت کے حاکم جنرل پرویز مشرف نے کی اور تمام اراکین قومی اسمبلی نے بھی اس کنونشن کو رونق بخشی تھی
اس کنونشن میں طالب علم سیّد عدنان کاکا خیل کی تقریر کو بہت پذیرائی حاصل ہوئی تھی ۔ خیال رہے کہ سیّد عدنان کاکا خیل کی تقریر پاکستان میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور پرویز مشرف کا زوال شروع ہوا

یہ دونوں تقاریر کئی سال قبل میں علیحدہ علیحدہ شائع کر چکا ہوں ۔ کئی ماہ و سال گذر جانے کے بعد بہت سے بلاگرز اور قارئین بدل چکے ہیں ۔ اسلئے متذکرہ دونوں تقاریر پیشِ خدمت ہیں
پہلے عندنان خان جدون پھر سیّد عدنان کاکا خیل

عِلم کی طلب ؟ ؟ ؟

ایک بزرگ عالم کسی بستی میں پہنچے جہاں انہوں نے 2دن قیام فرمایا ۔ تیسرے دن صبح سویرے انہوں نے اپنے شاگرد سے کہا”اپنا سامان فوراً باندھ لو ، ہمیں یہاں سے جانا ہے ابھی”
شاگرد نے پوچھا “یہاں آنے کے لئے آپ نے طویل سفر کی مشقت اٹھائی، اب یہاں سے اتنی جلدی کیوں روانہ ہونا چاہتے ہیں؟”
عالم نے فرمایا “مجھے اس بستی میں آئے 2 دن ہو گئے ہیں ۔ سب کو میرے آنے کی اطلاع بھی ہے، پھر بھی کوئی علم کا طالب میرے پاس نہیں آیا ۔ جس بستی کے لوگوں کو علم کا شوق نہ ہو وہاں عذاب الہٰی نازل ہو کر رہتا ہے۔اس لئے جلدی سے اس زمین سے دور نکل چلو”

بلا عنوان

بدقسمتی نہیں تو اور کیا کہیں ۔ ہمارے دعوے تو مُسلمان ہونے کے ہیں لیکن Indian atrocities in Kashmir July07, 2016 نہ ہم میں خالد بن ولید پیدا ہوتا ہے نہ طارق بن زیاد اور نہ محمد بن قاسم ۔ ہم اپنی کرسی کی خاطر چار چار ماہ دھرنے دے کر اور سڑکین بند کر کے عوام کیلئے روزی کمانا تو محال کر سکتے ہیں لیکن ہمارا نام لینے کی بناء پر خون میں نہلائے جانے والے مُسلمان بھائیوں کیلئے اگر ہم ہمدردی کے چند الفاظ بھی کہتے ہیں تو ووٹ لینے کی خاطر