Category Archives: ذمہ دارياں

ہم محبِ وطن یا مُلک دُشمن ؟ ؟ ؟

میں کبھی کبھی سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کہ ہم لوگ محبِ وطن ہونے کی بجائے کیا وطن دُشمن ہیں ؟

گو میں وطن (پاکستان) سے باہر درجن بھر ممالک میں رہاہوں لیکن بھارتی باشندوں سے میرا واسطہ صرف 4 ممالک (جرمنی ۔ سعودی عرب ۔ متحدہ عرب امارات اور لبیا) میں پڑا ۔ جرمنی میں سکھوں سے واسطہ پڑا جو ہر حال میں خوش رہتے ہیں ۔ متحدہ عرب امارات میں جن سے واسطہ پڑا وہ زیادہ تر ہندو تھے ۔ سعودی عرب میں صرف بھارتی مسلمانوں سے واسطہ پڑا اور لبیا میں بھارتی ہندو اور مسلمان دونوں سے

میں نے دیکھا کہ

بھارتی باشندے کبھی اپنی زبان پر اپنے مُلک (بھارت) کے خلاف کوئی بات نہیں آنے دیتے اور اگر کسی دوسرے مُلک کا باشندہ بھارت یا بھارت کے لوگوں کے خلاف کوئی بات کرے تو اُس کی بھرپور مخالفت اور اپنے وطن اور اپنے ہموطن کی زور دار حمایت کرتے تھے ۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف اُن کے پاس مصدقہ یا خیالی الزامات ہوتے تھے جس سے وہ پاکستانیوں پر بھرپور وار کرتے تھے

میں نے اپنے ہموطنوں کو دیکھا کہ سب کے سامنے اپنے مُلک اور ہموطنوں سے برملا شکایات کا اظہار کرتے تھے ۔ لبیا میں میرا قیام کافی لمبا ہونے کی وجہ سے میں نے دیکھا کہ میرے بعض مسلمان ہموطن اپنے مُلک اور ہموطنوں کی مخالفت میں لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتے تھے اور بھارتی ہندوؤں سے دوستی رکھتے تھے

یہ تو خاکہ تھا مُلک سے باہر کردار کا ۔ اب دونوں ممالک کے اندر کے حالات کا منظر نامہ

بھارت میں لوگ آپس میں جھگڑا اور تکرار ہم پاکستانیوں کی نسبت زیادہ کرتے ہیں ۔ بھارت میں مار دھاڑ بھی پاکستان ک نسبت زیادہ ہے لیکن جب معاملہ بھارت بمقابلہ غیر مُلک (بالخصوص پاکستان) کا ہو تو ایک دوسرے کے جانی دُشمنوں سمیت بلا امتیاز سب بھارتی یک زبان ہو کر محبِ وطن بن جاتے ہیں

میرے پاکستانی بھائی جن میں سے ہر ایک اپنے آپ کو سب سے زیادہ ایمان دار اور دیانتدار سمجھتا ہے وہ کوئی موقع اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں پر تنقید کا ضائع نہیں ہونے دیتا یہاں تک کہ وہ قومی اور مُلکی معاملات جن کی یک زبان ہو کر ببانگ دُہل ہمیں حمایت کرنا چاہیئے اُسے غلط طور یا کج فہم کی بنا پر گندھی سیاست کا نُقطہ بنا کر میڈیا ۔ سوشل میڈیا اور ذاتی محفلوں میں اپنے مخالف سیاستدانوں کی ہِجو شروع کر دیتے ہیں ۔ اس عمل میں صرف عام یعنی کم عِلم آدمی ہی نہیں بلکہ سیاسی سربراہ بھی بڑے کرّ و فر سے شامل ہوتے ہیں ۔ یہ ایسے وقت میں ہوتا ہے جب ہماری قوم اور ہمارے مُلک کا دُشمن اسی بات پر ہمارے خلاف معاندانہ پروپیگنڈہ میں مشغول ہوتا ہے ۔ اور ہماری قوم کا تمسخر اُڑا رہا ہوتا ہے

اب یہ بھارتی ایجنسی ” را “ کے ایجنٹ کلبوشن یادیو کا قصہ ہی لیجئے ۔ اُس بلوچستان آمد اور کارستانیوں کی معلومات فوج کی کسی ایجنسی نے حاصل کر کے اپنی ہائی کمان کو اطلاع کی ۔ فوج ہی نے اُسے گرفتار کیا اور آئین و قانون کے مطابق اُس پر مقدمہ بھی فوجی عدالت میں چلایا گیا اور پھانسی کی سزا مقرر ہوئی ۔ اگر بھارت اُس کا مقدمہ بین الاقوامی عدالت میں لے گیا اور بین الاقوامی عدالت نے حسبِ معمول تعصب کا ارتکاب کرتے ہوئے بھارت کی درخواست برائے امتناع مان لی تو بجائے اس کے کہ سب سیاسی سربراہ قومی مفاد میں تمام اختلاف کو ایک طرف رکھتے ہوئے وہی آواز اُٹھاتے جو مؤقف پاکستان کے وکیل نے وہاں پر اختیار کیا تھا حکومت کے خلاف محاذ جنگ بنا کر قوم اور مُلک کو دُسمنوں ک نظر مں مذاق بنا دیا

مسلمان بدنام کيوں ہيں ۔ لمحہءِ فکريہ

کِسی مُلک کا قانون وہ ہوتا ہے جو کہ اُس مُلک کا مجاز حاکم بناتا ہے اور یہ بھی تمام ممالک کے قوانین کی کتابوں میں لکھا ہوتا ہے کہ قانون سے لاعلمی بریّت یا معافی کا جواز نہیں ۔ کوئی ذی شعور آدمی يہ نہيں کہتا کہ قانون وہ ہے جس طرح لوگ کر رہے ہيں ۔ ايک روزمرّہ کی مثال ديتا ہوں ۔ ہمارے ملک ميں قوانين کی کھُلم کھُلا خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔ ٹريفِک کے قوانين ہی کو لے ليجئے ۔ مقررہ رفتار سے تيز گاڑی چلانا ۔ غلط طرف سے اوورٹيک کرنا اور چوراہے ميں بتی سُرخ ہوتے ہوئے گذر جانا عام سی بات ہے ۔ 90 فيصد لوگ ٹريفک قوانين کی خلاف ورزی کرتے ہيں مگر کبھی کِسی نے نہيں کہا کہ قانون وہی ہے جيسا لوگ کرتے ہيں ۔ ليکن دین اسلام کا معاملہ ہو تو بڑے سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ مسلمان کہلوانے والوں کے کردار کو اسلام کا نام دے کر اسلام کی ملامت کرتے ہيں يا اسے رَد کرتے ہيں

اِسلام کے قوانین قرآن الحکیم میں درج ہیں ۔ قرآن شریف میں اللہ کا حُکم ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو ۔ اِسلئے حدیث اور سنتِ رسول بھی اِسلام کے قوانین کا حصّہ ہيں ۔ قرآن الحکيم اور حديث کا مطالعہ کيا جائے تو اس میں نہ صرف يہ کہ کوئی بُرائی نظر نہيں آتی بلکہ اچھائياں ہی اچھائياں نظر آتی ہيں اور کئی غيرمُسلم مفکّروں نے بھی اسے بہترين قانون قرار ديا ۔ سياسی ليڈروں ميں چين کے ايک وزيراعظم اور بھارت کے ايک صدر نے دو اميرالمؤمنين اور خليفہ ابوبکر صِدّيق رضی اللہ عنہ اور عُمر رضی اللہ عنہ کی حکومتوں کو انسانوں کے لئے بہترين قرار ديا حالانکہ ان دونوں شخصيات کا مسلک اسلام سے عاری تھا ۔ جسٹس کارنيليئس جو عيسائی تھے مگر اعلٰی پائے کے قانون دان تھے نے آسٹريليا ميں ورلڈ چيف جسٹسز کانفرنس ميں کہا تھا کہ دنيا کا بہترين اور قابلِ عمل قانون اسلامی قانون ہے اور يہ انتہائی قابلِ عمل بھی ہے اور اس کے حق ميں دلائل بھی ديئے ۔ دنيا کے کسی چيف جسٹس نے اُن کے اس استدلال کو رد کرنے کی کوشش نہ کی

رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کا کردار ايسا تھا کہ اُن کے دين کے دُشمن بھی اُنہيں صادق ۔ امين اور مُنصِف سمجھتے تھے ۔ اُن کے پاس اپنی امانتيں رکھتے ۔ اُن سے اپنے معاملات ميں فيصلے کرواتے ۔ يہاں تک کہ يہودی اور مُسلمان ميں تنازع ہو جاتا تو يہودی فيصلہ کے لئے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے پاس جاتے اور جو وہ فيصلہ کرتے اُسے بخوشی قبول کرتے

خلفائے راشدين کو بھی ديکھیئے ۔ عمر رضی اللہ عنہ اميرالمؤمنين اور خليفہ ہيں ۔ ساتويں صدی عيسوی ميں بيت المقدّس پر بازنطینی [عيسائی] حکومت تھی جس نے 636ء میں مذہبی پیشوا کے کہنے پر بغیر جنگ کے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو محافظ اور امن کا پیامبر قرار دے کر بیت المقدس ان کے حوالے کر دیا تھا

اب سوال پيدا ہوتا ہے کہ آخر آج مُسلمان بدنام کيوں ہيں ؟ اگر ديکھا جائے تو ہم اپنے دين اسلام کی بدنامی کا باعث ہيں ۔ حقيقت يہ ہے کہ جس طرح کسی مُلک کا قانون وہ نہیں ہوتا جس طرح وہاں کے لوگ عمل کرتے ہیں بلکہ وہ ہوتا ہے جو مجاز حاکم بناتا ہے ۔ اسی طرح اِسلام بھی وہ نہیں ہے جس طرح کوئی عمل کرتا ہے بلکہ وہ ہے جو اللہ نے قرآن شریف میں اور اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ اٰلِہِ و سلّم نے اپنی حدیث اور عمل کے ذریعہ سمجھایا ہے

مُسلمانوں کی بدقسمتی يہ ہے کہ اُنہوں نے دنيا کی ظاہری چکاچوند سے مرغوب ہو کر اپنے دين پر عمل کرنا چھوڑ ديا ہے ۔ ناجائز ذاتی مفاد کيلئے جھوٹی گواہی ديتے ہيں ۔ اپنی خوبی جتانے کيلئے دوسروں کی عيب جوئی کرتے ہيں ۔ نہ تجارت ميں نہ لين دين ميں نہ باہمی سلوک ميں کہيں بھی اسلامی اصولوں کو ياد نہيں رکھا جاتا اور حالت يہ ہو چکی ہے کہ آج کا ايک اچھا مُسلمان تاجر ايک غير مُسلم تاجر پر تو اعتبار کر ليتا ہے مگر مُسلمان پر نہیں کرتا ۔ مُسلمان اس خام خيالی ميں مبتلا ہو گئے ہيں کہ سب کچھ کرنے کے بعد حج کر ليں گے تو بخش ديئے جائيں گے يا کسی پير صاحب کے پاس جا کر يا کسی قبر پر چڑھاوا چڑھا کر بخشوا ليں گے ۔ ہماری قوم کی اصل بيماری محنت کرنے کا فُقدان ہے ۔ صرف دين ہی نہيں دنيا ميں بھی شارٹ کَٹ ڈھونڈ لئے ہوئے ہيں ۔ امتحان پاس کرنے کيلئے کتابوں کی بجائے نوٹس پڑھ لئے وہ بھی اپنے لکھے ہوئے نہيں فوٹو کاپياں کالجوں ميں بِکتی ہيں ۔ والدين مالدار ہوں تو ممتحن اساتذہ کی جيبيں بھر نے سے بالکل آسانی رہتی ہے ۔ زيادہ مال بنانے کيلئے ہيراپھيری کرتے ہيں ۔ تولتے ہوئے ڈنڈی مارتے ہيں ۔ اشياء خوردنی ميں ملاوٹ کرتے ہيں ۔ افسوس صد افسوس ۔ بننا تو امريکن چاہتے ليکن اتنی تکليف نہيں کرتے کے اُن سے محنت کرنا ہی سِيکھ ليں البتہ اُن کی لغويات سيکھ لی ہيں ۔

يہ ہنسنے کی باتيں نہيں پشيمان ہونے اور اپنے آپ کو ٹھيک کرنے کی سوچ کی باتيں ہيں ۔ ہم خود تو اپنے کرتوُتوں سے بدنام ہوئے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے ہمارے پيارے نبی محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے ذريعہ آئے ہوئے دين کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہيں

اللہ ہمیں قرآن الحکیم کو پڑھنے ۔ سمجھنے ۔ اس پر عمل کرنے اور اپنے پيارے نبی محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔ ومَا عَلَيْنَا اِلْالّبلَاغ المبین

پارلیمنٹیرین کی انسانیت کیلئے قربانی

ہَیلن جو آن کاکس (Helen Joanne Cox) المعروف جو کاکس (Jo Cox) مئی 2015ء میں لیبر پارٹی کی طرف سے برطانوی پارلمنٹ کی رُکن منتخب ہوئی ۔ اُس کی انسانیت دوستی اور اصول پرستی کی وجہ سے اُسے 16 جون 2016ء کو قتل کر دیا گیا

جو کاکس 22 جون 1974ء کو باٹلی (ویسٹ شائر) میں پیدا ہوئی ۔ تعلم مکمل کرنے کے بعد 2001ء میں آکس فام میں شمیولیت اختیار کی

سیاستدانوں کے نام

رُلاتا ہے تمہارہ نظارہ پاکستانیوں مجھ کو
عبرت خیز ہے یہ ا فسانہ سب فسانوں میں
چھپا کر آستین میں بجلیاں رکھی ہیں غیروں نے
رہنما قوم کے غافل ۔ لڑتے ہیں دونوں ایوانوں میں
وطن کی فکر کرو نادانوں ۔ مصیبت آنے والی ہے
تمہاری بربادیوں کے مشورے ہیں دُشمنوں میں
نہ سمجھو گے تو مٹ جاوگے اے پاکستان والو
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی پھر داستانوں میں

محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کِیا ہے اپنے بختِ خُفتہ کو بیدار قوموں نے
محبت کے شَرَر سے دل سراپا نُور ہوتا ہے
ذرا سے بیج سے پیدا ریاضِ طور ہوتا ہے

پاکستان کے دُشمنوں سے
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو ۔ وہ اب زر کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ۔ وہ نا پائیدار ہو گا

حاکم کا کردار

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ روزانہ نمازِ فجر کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ غائب ہو جاتے ہیں
ایک روز عمر فاروق رضی اللہ عنہ چُپکے سے اُن کے پیچھے چل پڑے ۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ چلتے چلتے مدینہ سے باہر نکل گئے اور شہر سے باہر ایک خیمہ میں داخل ہو کر کچھ دیر اندر رہنے کے بعد واپس مدینہ کی طرف چل پڑے
بعد میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ خیمے میں گئے تو وہاں ایک بُڑھیا کو پایا
پوچھنے پر بڑھیا نے بتایا ”میں نابینا اور مُفلس عورت ہوں ۔ میرا اور میرے دو بچوں کا اللہ کے سوا کوئی نہیں ۔ یہ آدمی روزانہ آ کر جھاڑو دیتا ہے اور کھانا بنا کر چلا جاتا ہے“۔
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور فرمایا ”اے ابو بکر ۔ تُو نے بعد والوں کو بہت مُشکل میں ڈال دیا“۔

دہشت گردی ختم ہو سکتی ہے اگر ۔ ۔ ۔

آدھی صدی قبل میں نے یہ نظم کہیں پڑھی ۔ زندگی کے لائحہءِ عمل کیلئے پسند آئی اور اپنے پاس لکھ کر اِسے اپنا نصب العین بنانے کی کوشش شروع کر دی ۔ کس حد تک کامیاب ہوا ؟ یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے

آج کے حالات تقاضہ کرتے ہیں کہ اِس نظم کو سب تک پہنچایا جائے تاکہ میرے ہموطنوں کیلئے چین و سُکھ کی زندگی کا حصول ممکن ہو سکے ۔ مجھے یقین ہے کہ اِسے اپنانے سے دہشتگردی پر قابو پانے میں بھی کامیابی ہو سکتی ہے

کوشاں سبھی ہیں رات دن اِک پل نہیں قرار
پھِرتے ہیں جیسے ہو گرسنہ گُرگِ خونخوار
اور نام کو نہیں انہیں ۔ انسانیت سے پیار
کچھ بات کیا جو اپنے لئے جاں پہ کھیل جانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

سِیرت نہ ہو تو صورتِ سُرخ و سفید کیا ہے
دل میں خلوص نہ ہو ۔ تو بندگی رِیا ہے
جس سے مِٹے نہ تیرگی وہ بھی کوئی ضیاء ہے
ضِد قول و فعل میں ہو تو چاہيئے مٹانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

بھِڑ کی طرح جِیئے ۔ تو جینا تيرا حرام
جِینا ہے یہ کہ ہو تيرا ہر دل میں احترام
مرنے کے بعد بھی تيرا رہ جائے نیک نام
اور تجھ کو یاد رکھے صدیوں تلک زمانہ
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

وعدہ ترا کسی سے ۔ ہر حال میں وفا ہو
ایسا نہ ہو کہ تجھ سے انساں کوئی خفا ہو
سب ہمنوا ہوں تیرے تُو سب کا ہمنوا ہو
یہ جان لے ہے بیشک گناہ ۔کسی کو ستانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

تو زبردست ہے اگر ۔ تو قہرِ خدا سے ڈرنا
اور زیردست پر کبھی ظلم و ستم نہ کرنا
ایسا نہ ہو کہ اِک دن گر جائے تو وگرنہ
پھر تُجھ کو روند ڈالے پاؤں تلے زمانہ
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

مِل جائے کوئی بھوکا کھانا اسے کھلانا
مل جائے کوئی پیاسا پانی اسے پلانا
آفت زدہ ملے ۔ نہ آنکھیں کبھی چرانا
مضرُوبِ غم ہو کوئی مَرہَم اُسے لگانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

دل میں ہے جو غرور و تکبر ۔ نکال دے
اور نیک کام کرنے میں اپنی مثال دے
جو آج کا ہو کام وہ کل پر نہ ڈال دے
دنیا نہیں کسی کو دیتی سدا ٹھکانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

ایمان و دِین یہی ہے اور بندگی یہی ہے
یہ قول ہے بڑوں کا ہر شُبہ سے تہی ہے
اِسلاف کی یہی ۔ روشِ اولیں رہی ہے
تُجھ سے ہو جہاں تک اپنے عمل میں لانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

نفرت رہے نہ باقی نہ ظلم و ستم کہیں ہو
اِقدام ہر بَشَر کا پھر ۔ اُمید آفریں ہو
کہتے ہیں جس کو جنت کیوں نہ یہی زمیں ہو
اِقرار سب کریں کہ تہہِ دل سے ہم نے مانا
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

”پہلی بار ؟ ؟ ؟“۔

ایک شخص کا اقرار
والدہ سے آخری بار بلند آواز سے بات کئے کئی برس بیت گئے ۔ تب ابا جی نے ایک جملہ کہا تھا جس کے بعد میری آواز گلے میں ہی کہیں دب گئی
کہنے لگے ”بیٹا اگر اتنا پڑھ لکھ کر بھی یہ نہ سیکھ پائے کہ بزرگوں سے بات کیسے کرنی ہے تو کل سے کالج نہ جانا ۔ جو تعلیم اچھا انسان نہ بنا پائے اس کا مقصد ہی کیا ہے ۔ کمائی تو سنیارے کی دکان کے باہر گندی نالی سے کیچڑ چھاننے والا اَن پڑھ بھی کئی پڑھے لکھوں سے زیادہ کر لیتا ہے“۔

اسی طرح پہلی اور آخری بار روزگار کا خوف تب ختم ہو گیا تھا جب ہم انتہائی سخت حالات کا شکار تھے ۔ چند ہزار کی ایک ملازمت کے دوران کسی نے ایسی بات کر دی جو برداشت نہ کر پایا ۔ دفتر سے ہی ابا جی کو مشورہ کے لئے فون کیا
کہنے لگے ”ملازمت چھوڑنے کے لئے مجھے فون تب کرنا جب خدا پر اعتبار نہ ہو ۔ اس مالک نے رزق کا وعدہ کیا ہے نا تو پھر اس کے وعدے پر یقین بھی رکھو ۔ یا پھر اسے مالک تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہو ؟ یہاں ملازمت کے لئے دل نہیں مانتا تو ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہ کرنا“۔

میں نے فون بند کیا اور اسی وقت استعفٰی لکھ دیا ۔ چار دن میں بے روزگار رہا ۔ ان چار دنوں میں جتنا فکر مند رہا ابا جی اتنے ہی مطمئن نظر آئے ۔ پانچویں دن مجھے ایک ایسے ادارے سے فون کال آ گئی جہاں میں نے ایک سال قبل ایک دوست کے کہنے پر مذاق مذاق میں سی وی بھیجی تھی اور مجھے اب یاد تک نہ تھا ۔ تنخواہ کا پیکج پہلی ملازمت سے تین گنا تھا

اس کے بعد سے یہی ہوتا آیا ہے ۔ جب بھی خدا کے بھروسے کسی ملازمت سے استعفی دیا اللہ نے پہلے سے بڑھ کر نواز دیا ۔ رب کی مہربانیوں کی طویل داستانیں ہیں جن کا عینی شاہد ہوں ۔ ایک بار صورت حال یہ تھی کہ جب ابا جی اپنا گھر تعمیر کر رہے تھے تو ٹائلوں کے لئے لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ کم پڑ گئے ۔ ہم سب قدرے پریشان تھے تو ایک دن ابا جی کہنے لگے ”بیٹا ۔ میں ساری عمر حرام سے بچا ہوں اور تم سب کو بچایا ہے ۔ مجھ سمیت میرے خاندان کے کسی فرد نے کسی کا حق نہیں کھایا تو یہ کیسے ممکن ہے مجھے ضرورت ہو اور رب عطا نہ کرے“۔

تب عجیب سا لگا ۔ نہ کوئی وسیلہ ۔ نہ کہیں سے امید ۔ ابا جی کی ملازمت کے آخری ماہ تھے ۔ اچانک خبر ملی کہ ابا جی کو پنجاب کا بیسٹ آفسر قرار دیا گیا ہے ۔ وزیراعلی کی جانب سے ایوارڈ کے ساتھ ساتھ کیش انعام بھی تھا ۔ اس انعام کے باوجود ابھی بھی پچاس ہزار کم تھے ۔ ابا جی کہنے لگے ”میں مقابلے کی دوڑ میں شامل نہیں ہوا ۔ صرف اپنا فرض ادا کرتا رہا ہوں ۔ اللہ نے اس انعام کا حق دار قرار دلا کر یہ رقم دلوا دی ہے تو باقی رقم کا انتظام بھی وہی کر دے گا ۔ میں اس کے علاوہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلائوں گا“۔

اسی ہفتے اگلی خبر یہ ملی کہ محکمہ کی جانب سے بھی بہترین آفیسر قرار دیتے ہوئے کیش انعام دیا جا رہا ہے ۔ ہمیں جتنی رقم کی ضرورت تھی اس سے زیادہ رقم عزت کے ساتھ آ گئی تھی ۔ اس دن سے ایمان پختہ ہو گیا ۔ ہم کسی کا حق نہ ماریں تو خدا ہمارا خیال رکھتا ہے ۔ ابا جی کی زندگی ایسے ہی معجزوں سے بھری ہوئی ہے ۔ ان بظاہر عام سی باتوں سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے ۔ سو اب ڈر نہیں لگتا۔ نہ کسی سے ہارنے کا اور نہ ہی رزق کی کمی کا ۔ میں گھر میں سب سے زیادہ نکما ہوں ۔ جب سب تہجد کے لئے اٹھتے ہیں تب سوتا ہوں لیکن رب مجھے بھی میری سوچ سے زیادہ نواز دیتا ہے