Category Archives: ذمہ دارياں

رمضان کریم

سب مُسلمانوں کو رمضان کريم مبارک
اللہ الرحمٰن الرحيم آپ سب کو اور مجھے بھی اپنی خوشنودی کے مطابق رمضان المبارک کا صحیح اہتمام اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے
روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ کے احکام پر مکمل عمل کا نام ہے ۔ اللہ ہمیں دوسروں کی بجائے اپنے احتساب کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حِلم ۔ برداشت اور صبر کی عادت سے نوازے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حُکم
سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آيات 183 تا 185
اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ
چند روز ہیں گنتی کے پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا مسافر تو اس پر ان کی گنتی ہے اور دِنوں سے اور جن کو طاقت ہے روزہ کی ان کے ذمہ بدلا ہے ایک فقیر کا کھانا پھر جو کوئی خوشی سے کرے نیکی تو اچھا ہے اس کے واسطے اور روزہ رکھو تو بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم سمجھ رکھتے ہو
‏ مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن راہ پانے کی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی سو جو کوئی پائے تم میں سے اس مہینہ کو تو ضرور روزے رکھے اسکے اور جو کوئی ہو بیمار یا مسافر تو اس کو گنتی پوری کرنی چاہیے اور دِنوں سے اللہ چاہتا ہے تم پر آسانی اور نہیں چاہتا تم پر دشواری اور اس واسطے کہ تم پوری کرو گنتی اور تاکہ بڑائی کرو اللہ کی اس بات پر کہ تم کو ہدایت کی اور تاکہ تم احسان مانو

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے رمضان کی فضيلت سورت ۔ 97 ۔ القدر ميں بيان فرمائی ہے
بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے
اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے
شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے
اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حُکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اُترتے ہیں
یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے

یومِ اِسلامی جمہوریہ پاکستان

flag-1
ہمارے وطن پاکستان میں 23 مارچ کو یومِ اِسلامی جمہوریہ پاکستان منایا جاتا ہے
جنتری کے مطابق بروز ہفتہ 12 صفر 1359ھ اور گریگورین 23 مارچ 1940ء لاہور میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی شمال کی طرف اُس وقت کے منٹو پارک میں جو پاکستان بننے کے بعد علامہ اقبال پارک کہلایا مسلمانانِ ہِند کے نمائندوں نے ایک مُتفِقہ قرارداد منظور کی جس کا عنوان” قراردادِ مقاصد“ تھا لیکن وہ minar-i-pakistanقرارداد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے قراردادِ پاکستان ثابت
ہوئی ۔ مینارِ پاکستان علامہ اقبال پارک میں ہی کھڑا ہے ۔ مینار پاکستان پاکستان بننے کے بعد بطور ”یادگار قراردادِ پاکستان“ تعمیر کیا گیا تھا ۔ کچھ لوگوں نے اِسے ”یادگارِ پاکستان“ کہنا شروع کر دیا جو کہ مناسب نہ تھا ۔ چنانچہ اسے مینارِ پاکستان کا نام دے دیا گیا

مندرجہ بالا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اتحاد و یکجہتی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو 5 دہائیوں سے ہمارے ملک سے غائب ہے ۔ اللہ قادر و کریم کے حضور میں دعا ہے کہ ہماری قوم کو سیدھی راہ پر گامزن کرے ۔ اِن میں مِلّی یکجہتی قائم کرے اور قوم کا ہر فرد اپنے ذاتی مفاد کو بھُول کر باہمی اور قومی مفاد کیلئے جد و جہد کرے اور مستقبل کی دنیا ہماری قوم کی مثال بطور بہترین قوم دے ۔ آمین

میرے مشاہدے کے مطابق بہت سے ہموطن نہیں جانتے کہ 23 مارچ 1940ء کو کیا ہوا تھا ۔ متعلقہ حقائق کا مختصر ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں

آل اِنڈیا مسلم لیگ نے اپنا سالانہ اِجتماع منٹو پارک لاہور میں 22 تا 24 مارچ 1940ء کو منعقد کیا ۔ پہلے دن قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا ”ہندوستان کا مسئلہ راہ و رسم کا مقامی معاملہ نہیں بلکہ صاف صاف ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اِس کے ساتھ اِسی طرز سے سلوک کرنا لازم ہے ۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اِختلافات اِتنے شدید اور تلخ ہیں کہ اِن دونوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت اکٹھے کرنا بہت بڑے خطرے کا حامل ہے ۔ ہندو اور مسلمان واضح طور پر علیحدہ قومیں ہیں اسلئے ایک ہی راستہ ہے کہ اِنہیں اپنی علیحدہ علیحدہ ریاستیں بنانے دی جائیں ۔ کسی بھی تصریح کے مطابق مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ اپنے عقیدہ اور فہم کے مطابق جس طریقے سے ہم بہترین سمجھیں بھرپور طریقے سے روحانی ۔ ثقافتی ۔ معاشی ۔ معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے ترقی کریں“۔

قائد اعظم کے تصَوّرات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ابُو القاسم فضل الحق (المعروف اے کے فضل الحق جن کے نام پر اسلام آباد بلیو ایریا میں جناح ایوَینِیو کے متوازی سڑک کا نام رکھا گیا ہے) جو اُن دنوں بنگال کے وزیرِ اعلٰی تھے نے تاریخی ” قراردادِ مقاصد“ پیش کی جس کا خلاصہ یہ ہے

” کوئی دستوری منصوبہ قابل عمل یا مسلمانوں کو منظور نہیں ہو گا جب تک جغرافیائی طور پر مُنسلِک مسلم اکثریتی علاقے قائم نہیں کئے جاتے ۔ جو مسلم اکثریتی علاقے شمال مغربی اور مشرقی ہندوستان میں ہیں کو مسلم ریاستیں بنایا جائے جو ہر لحاظ سے خود مختار ہوں ۔ ان ریاستوں میں غیرمسلم اقلیت کو مناسب مؤثر تحفظات خاص طور پر مہیا کئے جائیں گے اور اِسی طرح جن دوسرے علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اُن کو تحفظات مہیا کئے جائیں“۔

اس قراداد کی تائید پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ۔ سرحد سے سردار اورنگزیب ۔ سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسٰی ۔ یونائیٹڈ پراونس (اب اُتر پردیش) سے چوہدری خلیق الزمان کے علاوہ اور بہت سے رہنماؤں نے کی ۔ اس قراداد کے مطابق مغرب میں پنجاب ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان اور مشرق میں بنگال muslim-majority-map اور آسام پاکستان کا حصہ بنتے ۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اِس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ۔ یہ قراداد 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دستور کا حصہ بنا دی گئی

مندرجہ بالا اصُول کو برطانوی حکومت نے مان لیا مگر بعد میں کانگرس اور لارڈ مؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو تقسیم کر دیا گیا اور آسام کی صورتِ حال بھی بدل دی گئی ۔ بنگال اور پنجاب کے صوبوں کو نہ صرف ضلعی بنیاد پر تقسیم کیا گیا بلکہ پنجاب کے ایک ضلع گورداسپور کو تقسیم کر کے بھارت کو جموں کشمیر میں داخل ہونے کیلئے راستہ مہیا کیا گیا

مسلم اکثریتی علاقے ۔ اس نقشے میں جو نام لکھے ہیں یہ چوہدری رحمت علی کی تجویز تھی ۔ وہ لندن [برطانیہ] میں مقیم تھے اور مسلم لیگ کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوئے ۔ اِس نقشے میں ہلال کے ساتھ 10 ستارے دکھائے گئے ہیں یعنی پاکستان کی مملکت 10 مُسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل دکھائی گئی ہے جس میں (1) مغربی پاکستان (جسے پاکستان لکھا گیا ہے) ۔ (2) مشرقی پاکستان (جسے بنگالستان لکھا گیا ہے) ۔ (3) جنوبی پاکستان (جس میں ریاست حیدر آباد اور ملحقہ مُسلم علاقے شامل ہیں) ۔ (4) گجرات کاٹھیا واڑ اور منادور وغیرہ ۔ اور مزید 6 چھوٹے چھوٹے علاقے شامل ہیں
m-l-working-committee

مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی

۔

۔
welcome-addr-22-march-1940
شاہنواز ممدوٹ سپاسنامہ پیش کر رہے ہیں

چوہدری خلیق الزمان قرارداد کی تائید کر رہے ہیں
seconding-reson-march-1940

۔

۔
quaid-liaquat-mamdot
قائدِ ملت لیاقت علی خان اور افتخار حسین خان ممدوٹ وغیرہ قائد اعظم کے ساتھ

نیکی اور بدی

سورة 41 سورة حٰمٓ السجدة / فُصّلَت آیت 34 و 35
وَلَا تَسۡتَوِى الۡحَسَنَةُ وَ لَا السَّيِّئَةُ ؕ اِدۡفَعۡ بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُ فَاِذَا الَّذِىۡ بَيۡنَكَ وَبَيۡنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِىٌّ حَمِيۡمٌ
وَمَا يُلَقّٰٮهَاۤ اِلَّا الَّذِيۡنَ صَبَرُوۡا‌ۚ وَمَا يُلَقّٰٮهَاۤ اِلَّا ذُوۡ حَظٍّ عَظِيۡمٍ‏

اور اے نبیؐ، نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں تم بدی کو اُس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گیا ہے
یہ صفت نصیب نہیں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہیں، اور یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصیبے والے ہیں

شِفاء اور شفا میں فرق

جو الفاظ ہم روز مرّہ بولتے ہیں اِن میں سے کچھ ہم غلط تلفّظ کے ساتھ بولتے ہیں اور ہمیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم غلط معنی والا لفظ بول رہے ہیں جبکہ بعض اوقت وہ معنی قابل سر زنش یا ندامت ہوتے ہیں
میں ایک سے زیادہ بار لکھ چکا ہوں کہ پڑھنے اور مطالعہ کرنے میں فرق ہوتا ۔ پڑھنے سے آدمی پڑھ پُخت تو بن جاتا ہے لیکن عِلم سے محروم رہتا ہے ۔ ہر آدمی کو چاہیئے کہ ہر لفظ جو وہ پڑھے اس کے معنی اُسی وقت تلاش کر کے ذہن نشین کر لے ۔ جب وہ لفظ عادت بن جائے تو اپنی غلطی کا احساس ختم ہو جاتا
اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کے احتساب میں تو سرگرداں رہتے ہیں لیکن خود احتسابی کے قریب نہیں جاتے
مسلمان ہونے کے ہم بڑے دعویدار ہیں لیکن الله کریم کا فرمان یا ہم غور سے پڑھتے ہی نہیں یعنی فر فر پڑھ جاتے ہیں اس پر غور نہیں کرتے کیونکہ الله عزّ و جل ہمیں خود احتسابی کا حکم دیا ہے اور عیب جُوئی سے منع فرمایا ہے

دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ہم غَلَط کو بھی غَلَط بولتے ہوئے غَلَط کی بجائے غَلط کہتے ہیں
ہمیں قرآن شریف کو غور سے پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے

اب ایک لفظ جسے غلط بولنے میں بہت سے لوگ ملوّث ہیں
شِفاء کا مطلب ہے صحت ۔ تندرستی
سُوۡرَةُ 17 بنیٓ اسرآئیل / الإسرَاء آیة 82
وَنُنَزِّلُ مِنَ الۡـقُرۡاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّرَحۡمَةٌ لِّـلۡمُؤۡمِنِيۡنَ‌ۙ وَلَا يَزِيۡدُ الظّٰلِمِيۡنَ اِلَّا خَسَارًا
ہم اِس قرآن کے سلسلہ تنزیل میں وہ کچھ نازل کر رہے ہیں جو ماننے والوں کے لئے تو شِفا اور رحمت ہے، مگر ظالموں کے لئے خسارے کے سوا اور کسی چیز میں اضافہ نہیں کرتا

شفا کا مطلب ہے موت ۔ گھڑا
سُوۡرَةُ 3 آل عِمرَان آیة 103
وَاعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰهِ جَمِيۡعًا وَّلَا تَفَرَّقُوۡا وَاذۡكُرُوۡا نِعۡمَتَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ اِذۡ كُنۡتُمۡ اَعۡدَآءً فَاَ لَّفَ بَيۡنَ قُلُوۡبِكُمۡ فَاَصۡبَحۡتُمۡ بِنِعۡمَتِهٖۤ اِخۡوَانًا
ۚ وَكُنۡتُمۡ عَلٰى شَفَا حُفۡرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنۡقَذَكُمۡ مِّنۡهَا ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمۡ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمۡ تَهۡتَدُوۡنَ‏
سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اللہ کے اُس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اُس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ اِن علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آ جائے

پیٹھ پیچھے بات

والد صاحب نے کہا ” انسان کو کسی کی عدم موجودگی میں وہی بات کرنا چاہیئے جو وہ اس کے منہ پر بھی دہرا سکے“۔
بات معمولی سی تھی مگر میں نے اس پر عمل بڑا مشکل پایا ہے۔ ہاں جب کبھی اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق ملی ہے اس وقت زندگی بڑی ہلکی اور آسان محسوس ہوئی ہے

قدرت الله شہاب

سلوک

سورة 4 النِّسَاء آیت 36
وَاعۡبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشۡرِكُوۡا بِهٖ شَيۡــًٔـا‌ ؕ وَّبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا وَّبِذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَ الۡمَسٰكِيۡنِ وَالۡجَـارِ ذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡجَـارِ الۡجُـنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَـنۡۢبِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ ۙ وَمَا مَلَـكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنۡ كَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ۙ‏

اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اُس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ، ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو، قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اور پڑوسی رشتہ دار سے، اجنبی ہمسایہ سے، پہلو کے ساتھی اور مسافر سے، اور اُن لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں، احسان کا معاملہ رکھو، یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کر ے

ہم کیا کر رہے ہیں ؟

آج برِّ صغير ہندوپاکستان کے مُسلمانوں کے عظيم رہنما قائداعظم محمد علی جناح کا يومِ ولادت ہے
قائداعظم کو الله سُبحانُهُ و تعالٰی نے شعور ۔ مَنطق اور اِستقلال سے نوازا تھا جِن کے بھرپُور اِستعمال سے اُنہوں نے ہميں الله کی نعمتوں سے مالا مال مُلک لے کر ديا مگر ہماری قوم نے اُس عظيم رہنما کے عمَل اور قَول کو بھُلا ديا جس کے باعث ہماری قوم اقوامِ عالَم ميں بہت پيچھے رہ گئی ہے
قائداعظم کا ايک پيغام ہے ” کام ۔ کام ۔ کام اورکام ”
مگر قوم نے کام سے دِل چُرانے کی عادت اپنا لی اور اپنی نا اہلی سے نظریں ہٹانے کی کوشش میں دوسرون پر الزام تراشی شروع کر دی

قائداعظم نے آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے پانچویں سالانہ اجلاس کی افتتاحی تقریب ناگپور میں 26دسمبر1941ء کو خطاب کرتے ہوئے کہا فرمایا تھا ” میں آج آپ کو نصب العین دیتا ہوں ” ایمان ۔ اتحاد ۔ نظم”۔
قوم میں وہ لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے قائداعظم کا دیا ہوا نعرہ ہی بدل کر ” اتحاد ۔ یقین ۔ تنظیم” بنا دیا یعنی لوگوں کو ایمان سے دُور کرنے کی کوشش کی
اپنے آپ کو کشادہ ذہن قرار دینے والے کم ظرف کہنے لگے کہ پاکستان اسلام کے نام پر تو بنا ہی نہ تھا بلکہ قائداعظم کو سیکولر قرار دے کر پاکستان کو بھی سیکولر بنانے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنے لگے
کچھ بدبَخت اس سے بھی آگے بڑھے اور قائداعظم کے مسلمان ہونے کو ہی مشکوک بنانے کی ناپاک کوشش کی

آيئے آج سے اپنی بد اعمالیوں کی توبہ کریں اور اپنے الله پر یقین کرتے ہوئے قرآن کی رہنمائی میں قائدِاعظم کے بنائے ہوئے راستہ پر چلیں اور اس مُلک پاکستان کو تنزل کی گہرائیوں سے نکالنے کی جد و جہد کریں