چھ دہائیوں سے زائد قبل ریڈو پر سُنی ایک نظم مجھے پسند آئی اور میں نے زندگی بھر اسے عملی طور پر یاد رکھا
سو برس کی زندگی میں ایک پل
تو اگر کر لے کوئی اچھا عمل
تجھ کو دنیا میں ملے گا اس کا پھل
آج جو کچھ بوئے گا کاٹے گا کل
غم کو سینے سے لگانا سیکھ لے
غیر کو اپنا بنانا سیکھ لے
زخم کھا کر مُسکرانا سیکھ لے
چھوڑ خودغرضی خُدا کی راہ چل
آج جو کچھ بوئے گا کاٹے گا کل
ایک آدم کی سبھی اولاد ہیں
کچھ تو خوش ہیں اور کچھ ناشاد ہیں
جُرم ان کا کیا ہے جو برباد ہیں
تُو زمانے کے اصولوں کو بدل
آج جو کچھ بوئے گا کاٹے گا کل
دوسروں کے واسطے زندہ رہو
جان بھی جائے تو ہنس کر جان دو
معصیّت کے واسطے شرمندہ نہ ہو
تُو سدا انسانیت راہ چل
آج جو کچھ بوئے گا کاٹے گا کل