Category Archives: دین

انسانوں سے بدلہ

ہم اپنی روز مرّہ کی زندگی ميں خود ہی کچھ مفروضے بنا کر اپنا اوليں حق سمجھتے ہوئے اُن پر بے دھڑک عمل کرتے ہيں ۔ ان ميں سے ايک ہے بدلہ ۔ جب ہم کوئی بھی جنس ليتے ہيں مثال کے طور پر گوشت ۔ گاجريں ۔ سيب ۔ چنے کی دال ۔ وغيرہ تو اس کے بدلے ميں وہی کچھ ديتے ہيں جو اس جنس کے برابر ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر چنے کی دال کا نرخ اگر 50 روپے فی کيلو گرام ہے تو ايک کيلو دال کے بدلہ ميں ہم 50 روپے ہی ديں گے ۔ کبھی 51 روپے يا زيادہ دينا تو کُجا دينے کا سوچيں گے بھی نہيں
جب اختيار ہمارے ہاتھ ميں آجاتا ہے تو ہمارا طرزِ عمل يکسر تبديل ہو جاتا ہے مثال کے طور پر

انسانوں کے ساتھ سلوک
اگر کسی نے ايک گالی دی تو ہم جب تک اُسے حتٰی الوسعت دو چار گلياں دو چار تھپڑ دو چار گھونسے رسيد نہيں کر ليں گے ہمار بدلہ پورا نہيں ہو گا
کسی نے غلطی سے يا جان بوجھ کر ہمارے گھر کے آس پاس کوڑا پھينک ديا ۔ يہ ان کے نوکر کی غلطی ہو سکتی ہے تو بجائے اس کے کہ ہم ہمسائے سے آرام سے بات کر کے اسے بہتری کی طرف مائل کريں ہمارا بدلہ کم از کم يہ ہوتا ہے کے ہمسائے کو بلا کر بے عزت کيا جائے يا گلی ميں اس کے مکان کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا گلا پھاڑ پھاڑ کر اُسے گالياں دی جائيں
ہم اپنے گھر کے اندر سے ديوار کے اُوپر سے کوڑا لُڑھکا ديں ۔ وہ ہمسائے کے گھر کے اندر گرے اور ہمسايہ وہ کوڑا واپس پھينک دے تو ہمارے دل کو اس وقت تک اطمينان نہيں آتا جب تک اور کچھ نہيں تو دو چار گالياں واپس پھنکنے والے کو اس کے منہ پر نہ دے ليں
مندرجہ بالا واقعات سب حقائق کی بنياد پر ہيں اور ملک کے بڑے بڑے شہروں سے متعلق ہيں ۔ اب ايک ايسا واقعہ جس نے مجھے ورطے ميں ڈال ديا تھا ۔ ہم 2005ء ميں ڈيفنس فيز 5 کراچی کی ايک کوٹھی ميں کرائے پر رہ رہے تھے ۔ ميں قريبی مارکيٹ سے ايک سرکٹ بريکر لينے گيا ۔ ميں سرکٹ بريکرز ديکھ رہا تھا کہ ايک گاہک نے آکر دکاندار سے کہا کہ “اليکٹريشن چاہيئے” ۔ دکاندار نے خشکی سے کہا کہ “نہيں ہے” ۔ گاہک نے برہمی دکھائی تو دکاندار نے اسے کھری کھری سُنا ديں ۔ نوبت گندھی گاليوں تک پہنچی ۔ جب گاہک چلا گيا تو ميں نے دکاندار کو کہا “ديکھئے آپ دکاندار ہيں ۔ آپ کو گاہک کے ساتھ ايسا سلوک نہيں کرنا چاہيئے”۔ دکاندار بولا “صاحب ۔ پچھلے ماہ انہوں نے اليکٹريشن مانگا ۔ ميں نے اُجرت طے کر کے بھيج ديا ۔ کام کرنے کے بعد اليکٹريشن نے اُجرت مانگی تو آدھے پيسے ديئے ۔ اليکٹريشن نے اسرار کيا تو اُسے تھوڑے سے اور پيسے دے کر دھکا ديا اور کہا جا اب يہاں سے ۔ اليکٹريشن نے پھر اسرار کيا تو تين بھائيوں نے مل کر اس کی درگت بنا دی اور دھکے دے کر باہر نکال ديا

اللہ کا فرمان ۔ جسے ہم شايد زيرِ غور نہيں لاتے
سورت 16 النحل آيت 126 ۔ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِهِ ۖ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصَّابِرِينَ
اور اگر بدلہ لو بھی تو بالکل اتنا ہی جتنا صدمہ تمہیں پہنچایا گیا ہو اور اگر صبر کر لو تو بیشک صابروں کے لئے یہی بہتر ہے
سورت 42 الشورٰی آيات 40 تا 43
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ
وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ سَبِيلٍ
إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۚ أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ
اور برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کردے اور اصلاح کر لے اس کا اجر الله کے ذمے ہے، (فی الواقع) الله تعالٰی ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔
‏اور جو شخص اپنے مظلوم ہونے کے بعد (برابر کا) بدلہ لے لے تو ایسے لوگوں پر (الزام) کا کوئی راستہ نہیں۔‏
یہ راستہ صرف ان لوگوں پر ہے جو خود دوسروں پر ظلم کریں اور زمین میں ناحق فساد کرتے پھریں، یہی لوگ ہیں جن کے لئے دردناک عذاب ہے۔‏
اور جو شخص صبر کرلے اور معاف کر دے یقیناً یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے (ایک کام) ہے۔‏
سورت 2 البقرہ آيت 263 ۔ قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى ۗ وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ
نرم بات کہنا اور معاف کر دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذاء رسانی ہو ، اور اللہ تعالٰی بےنیاز اور بردبار ہے۔
سورت 41 حٰمٓ السّجدہ يا فُصّلَت آيات 34 تا 36 ۔ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ
وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ
وَإِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ ۖ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی ، برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔
اور یہ بات انہیں نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں ، اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پا سکتا
اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو ، یقیناً وہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے

دوسرے کا مذاق اُڑانا

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فِسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے ۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہی ظالم ہیں
(سُوۡرَةُ 49 الحُجرَات آية 11)

جس نے حرمین شریفین توسیع کا ڈیزائن کیا

وہ ایک مصری انجینئر اور آرکیٹیکٹ ڈاکٹر محمد کمال اسماعیل (1908ء تا 2008ء) تھا جس نے ظاہری دنیاوی بُود و باش سے دُور اور نامعلوم رہنے کو ترجیح دی
وہ مصر کی تاریخ کا سب سے کم عمر شخص تھا جس نے ہائی سکول سرٹیفکیٹ حاصل کیا
پھر رائل سکول آف انجینئرنگ کا سب سے کم عمر طالب علم جس نے وہاں سے گریجوئیشن کی
پھر سب سے کم عمر جس کو یورپ سے اسلامک آرکیٹیکچر میں ڈاکٹریٹ کی 3 ڈگریاں لینے کے لئے بھیجا گیا
اس کے علاوہ وہ سب سے کم عمر نوجوان تھا جس نے بادشاہ سے ”نائل“۔ ”سکارف“ اور ” آئرن“ کے خطابات حاصل کئے
وہ پہلا انجینئر تھا جس نے حرمین شریفین کے توسیعی منصوبے کی تعمیر اور عمل درآمد کے لئے اختیارات سنبھالے
اس نے شاہ فہد اور بن لادن کمپنی کے باربار اصرار کے باوجود انجینیرنگ ڈیزائن اور آرکیٹچرل نگرانی کیلئے کسی قسم کا معاوضہ لینے سے انکار کردیا اور کہا ”میں دو مقدس مساجد کے کاموں کیلئے کیوں معاوضہ لوں ۔ قیامت کے دن الله تعالٰی کا کیسے سامنا کروں گا“۔

اس نے 44 سال کی عمر میں شادی کی اور اس کی بیوی نے بیٹا جنم دیا اور زچگی کے بعد فوت ہو گئی اس کے بعد وہ مرتے دم تک عبادت الٰہی میں مصروف رہا ۔ اس نے 100 سال سےزیادہ عمر پائی ۔ اُس نے دنیا اور میڈیا کی چکا چوند سے ہٹ کر گمنام رہ کر حرمین شریفین کی خدمت کی

اس عظیم آدمی کی حرمین شریفین میں نصب کئے گئے سفید پتھر کے حصول کی بھی بڑی دلچسپ کہانی ہے ۔ یہ وہ پتھر ہے جو حرم الشریف مکہ میں مطاف ۔ چھت اور باہر صحن میں لگا ہے اس کی خصوصیت یہ ہے کہ گرمی کو جذب کرکے فرش کی سطح کو ٹھنڈا رکھتا ہے یہ پتھر ملک یونان میں ایک چھوٹے سے پہاڑ میں دستیاب تھا ۔ وہ سفر کرکے یونان گیا اور حرم کیلئے کافی مقدار میں تقریباً آدھا پہاڑ خریدنے کا معاہدہ کیا ۔ معاہدہ پر دستخط کرکے وہ واپس مکہ لوٹا ۔ سفید پتھر سٹاک میں آگیا تو حرمِ مکہ میں پتھر کی تنصیب مکمل کرائی

پندرہ سال بعد انجینئر محمد کمال کو سعودی بادشاہ نے مسجد نبوی الشریف میں ویسا ہی ماربل لگانے کا کہا تو وہ بہت پریشان ہوا کیونکہ کرہ ارض پر واحد جگہ یونان ہی تھی جہاں یہ پتھر دستیاب تھا جو کہ آدھا پہاڑ تو وہ پہلے ہی خرید چکا تھا ۔ انجینئر محمد کمال بتاتا ہے کہ وہ یونان میں اسی کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کے پاس گیا اور ماربل کی بقایا مقدار جو بچ گئی تھی اس کے بارے میں پوچھا تو چیف ایگزیکٹو نے بتایا ”وہ ماربل تو ہم نے آپ کے جانے کے بعد بیچ دیا تھا اب تو 15 سال ہو گئے ہیں“۔ کمال بہت افسردہ ہوا ۔ جاتے ہوئے وہ آفس سیکرٹری سے ملا اور گزارش کی کہ مجھے اس شخص کا اتہ پتہ بتاؤ جس نے بقیہ ماربل خریدا ۔ اس نے کہا ”پرانا ریکارڈ تلاش کرنا بہت مشکل ہے لیکن آپ مجھے اپنا فون نمبر دے جائیں میں تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہوں“۔ اس نے اپنا نمبر اور ہوٹل کا پتہ دیا اور اگلے دن آنے کا وعدہ کرکے چلا
گیا۔
اگلے دن ایرپورٹ جانے سے چند گھنٹے قبل اسے فون کال آئی کہ ماربل کے خریدار کا ایڈریس مل گیا ہے ۔ کمال دفتر پہنچا تو سیکرٹری نے کمپنی کا پتہ دیا جس نے ماربل خریدا تھا ۔ کمال نے پتہ دیکھا ۔ کمپنی جس نے ماربل خریدا تھا وہ سعودی تھی ۔ کمال نے سعودیہ کی فلائیٹ پکڑی اور سعودی عرب پہنچا ۔ سیدھا اس کمپنی کے دفتر پہنچ کر ڈائریکٹر ایڈمن کو ملا اور پوچھا ” آپ نے اس ماربل کا کیا کیا جو گریس سے خریدا تھا ؟“ اس نے کہا ”مجھے یاد نہیں“۔ پھر اس نے سٹاک روم سے رابطہ کیا اور ان سے پوچھا کہ وہ سفید ماربل جو گریس سے منگوایا تھا کدھر ہے ؟ انہوں نے بتایا کہ ساری مقدار موجود ہے ۔ کمال ایک بچے کی طرح رونے لگا اور کمپنی کے مالک کو پوری کہانی سنائی ۔ اس نے کمپنی کے مالک کو بلَینک چیک دیا اور کہا اس میں جتنی رقم بھرنی ہے بھر لو اور ماربل کی تمام مقدار میرے حوالے کردو ۔ جب کمپنی کے مالک کو پتہ چلا کہ یہ تمام ماربل مسجد نبوی میں استعمال ہونا ہے تو اس نے کہا ”میں ایک ریال بھی نہیں لوں گا ۔ الله نے یہ ماربل مجھ سے خرید کروایا اور پھر میں بھول گیا ۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ یہ ماربل مسجد نبوی الشريف میں استعمال ہونا ہے“۔

الله سُبحانُهُ و تعالٰی انجینئر محمد کمال کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین

جنت میں کس مذہب کے لوگ جائیں گے ؟

سوال تھا کہ جنت میں کس مذہب کے لوگ کے لوگ داخل کئے جائیں گے ۔ یہود ۔ عیسائی یا مسلمان ؟
اس سوال کے جواب کے لئے تینوں مذاہب کے علماء کو مدعو گیا گیا
مسلمانوں کی طرف سے بڑے عالم امام ﻣﺤﻤﺪ ﻋﺒﺪﮦ ۔
عیسائیوں کی طرف سے ایک بڑے پادری اور یہودیوں کی طرف سے ایک بڑے ربی کو بُلا کر ان کے سامنے یہی سوال رکھا گیا کہ جنت میں کون جائے گا ؟ یہودی ۔ عیسائی یا مسلمان ؟

امام محمد عبدہ نے کھڑے ہو کر فرمایا ” اگر یہودی جنّت میں جائیں گے تو ہم بھی جائیں گے کیونکہ ہم سیّدنا موسٰی علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ کہ انہیں الله تبارک و تعالٰی کی طرف سے اپنے بندوں پر نبی مبعوث کیا گیا ۔ اگر عیسائی جنّت میں جائیں گے تو ہم بھی جائیں گے کیونکہ ہم سیّدنا عیسٰی علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں اور یہ کہ انہیں الله تبارک و تعالٰی کی طرف سے اپنے بندوں پر نبی مبعوث کیا گیا ۔ اگر مسلمان جنّت میں گئے تو ہم صرف الله کی رحمت کے ساتھ اکیلے ہی جائیں گے ۔ ہمارے ساتھ کوئی یہودی یا عیسائی نہیں جائے گا کیونکہ انہوں نے ہمارے نبی اکرم سیّدنا محمد صلی الله عليه و آله وسلم کو نہیں مانا اور نہ ہی ان پر ایمان لائے“۔

معمار کون ہے ؟

ﺣﯿﻮﻧﺎﺕ ﮨﻮﮞ ﯾﺎ ﻧﺒﺎﺗﺎﺕ ، ﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﯿﺞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺍﻥ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﻧﻘﺸﮧ ﺑﻨﺪ ﮨﮯ، ﯾﮧ ﮐﺲﮐﯽ ﻧﻘﺸﮧ ﺑﻨﺪﯼ ﮨﮯ؟

ﺧﻮﺭﺩﺑﯿﻦ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﺳﮯ ﻧﻈﺮ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺳﯿﻞ ﺍﯾﮏ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﺗﻮﺍﻧﺎ ﻋﻘﻞ ﻭ ﮨﻮﺵ ﻭﺍﻻ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﮐﺲ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﻭﭦ ﮨﮯ ؟
ﮨﻮﻧﭧ، ﺯﺑﺎﻥ، ﺍﻭﺭ ﺗﺎﻟﻮ ﮐﮯ ﺍﺟﺰﺍ ﮐﻮ ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺣﺮﮐﺖ ﺩﯾﻨﺎ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ؟

ﺍﻥ ﺣﺮﮐﺎﺕ ﺳﮯ ﻃﺮﺡ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﻋﻘﻞﻣﻨﺪ ﺁﻭﺍﺯﯾﮟ ﮐﻮﻥ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ؟
ﺍﻥ ﺁﻭﺍﺯﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﻌﻨﯽ ﮐﻮﻥ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ؟
ﻻﮐﮭﻮﮞ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺍﻭﺭ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺯﺑﺎﻧﻮﮞ ﮐﺎ ﺧﺎﻟﻖ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ؟

لا الٰه الا الله

انسانی جسم میں بہترین کمپیوٹر

ﺩﻣﺎﻍ ﮐﻮ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺑﻨﺎﯾﺎ؟ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﮨﮉﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺪ ، ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺗﯿﺮﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﻋﻘﻞ ﮐﺎ ﺧﺰﺍﻧﮧ، ﻣﻌﻠﻮﻣﺎﺕ ﮐﺎ ﺳﭩﻮﺭ، ﺍﺣﮑﺎﻣﺎﺕ ﮐﺎ سینٹر، ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺭﺍﺑﻄﮧ ﮐﺎ ﺫﺭﯾﻌﮧ ، ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﻤﭙﯿﻮﭨﺮ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﻭﭦ ﺍﻭﺭ ﮈﯾﺰﺍﺋﻦ ﮐﻮ ﺍﺑﮭﯽ ﺗﮏ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﺎﯾﺎ، ﻻﮐﮫ ﮐﻮﺷﺸﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﻭﺭ ﺫﮨﻦ ﮐﺎ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﮨﻮﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﺳﭙﺮ ﮐﻤﭙﯿﻮﭨﺮ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ کے ﻋﺸﺮ ﻋﺸﯿﺮ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﭘﮩﻨﭻ ﺳﮑﺘﺎ۔

ﮨﺮ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﮭﺮﺑﻮﮞ ﺧﻠﯿﺎﺕ ‏( Cell ‏) ﮐﺎ ﻣﺠﻤﻮﻋﮧ ﮨﮯ۔ ﺍﺗﻨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﮐﮧ ﺧﻮﺭﺩﺑﯿﻦ ﮐﯽ ﻣﺪﺩ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﺳﺐ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ۔ ﯾﻮﮞ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﮨﺮ ﺍﯾﮏ ﺧﻠﯿﮧ ﺷﻌﻮﺭ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺟﻮﺩ ﻣﯿﮟ ﻣﮑﻤﻞ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮨﮯ ۔ ﺍﻥ ﺟﯿﻨﺰ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﭘﻮﺭﯼ پروگرامنگ لکھی ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﺱ ﭘﺮﻭﮔﺮﺍﻡ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺧﻮﺩﺑﺨﻮﺩ چلتی ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ۔ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﭘﻮﺭﺍ ﺭﯾﮑﺎﺭﮈ، ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻋﻘﻞ ﻭ ﺩﺍﻧﺶ ، ﻏﺮﺽ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﺳﮯ ﺍﻥ ﺧﻠﯿﺎﺕ ﭘﺮ ﻟﮑﮭﺎ ﺟﺎ ﭼﮑﺎ ﮨﮯ۔

ﯾﮧ ﮐﺲ ﮐﯽ پروگرامنگ ہے؟

لا الٰه الا الله

کُلُ عام انتم بخیر

اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی طرف سے آپ کو اور آپ کے اہلِ خانہ کو آنے والی عيد مبارک
الله کریم آپ سب کو کامِل ایمان کے ساتھ دائمی عمدہ صحت ۔ مُسرتوں اور خوشحالی سے نوازے ۔ آمين ثم آمين
اُنہیں نہ بھولیئے جنہیں الله نے آپ کے مقابلہ میں کم نوازہ ہے ۔ ایسے لوگ دراصل آپ کی زیادہ توجہ کے حقدار ہیں
رمضان کا مبارک مہینہ بخیر و عافیت گزر گیا ۔ الله سُبحانُهُ و تعالٰی سب کے روزے اور عبادتيں قبول فرمائے
عیدالفطر کی نماز سے قبل اور بہتر ہے کے رمضان المبارک کے اختتام سے پہلے فطرانہ ادا کر دیا جائے ۔ کمانے والے کو اپنا اور اپنے زیرِ کفالت جتنے افراد ہیں مع گھریلو ملازمین کے سب کا فطرانہ دینا چاہیئے

عید کے دن فجر کی نماز سے مغرب کی نماز تک یہ ورد جاری رکھیئے ۔ نماز کیلئے جاتے ہوئے اور واپسی پر بلند آواز میں پڑھنا بہتر ہے
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْا الله وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لا اِلهَ اِلالله و اللهُ اکبر اللهُ اکبر و للهِ الحمد
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لا اِلهَ اِلالله و اللهُ اکبر اللهُ اکبر و للهِ الحمد
اللهُ اکبر اللهُ اکبر لا اِلهَ اِلالله و اللهُ اکبر اللهُ اکبر و للهِ الحمد
ا اللهُ اکبر کبِیرا والحمدُللهِ کثیِرا و سُبحَان اللهُ بکرۃً و أصِیلا

آیئے سب انکساری ۔ رغبت اور سچے دِل سے دعا کریں
اے مالک و خالق و قادر و کریم و رحمٰن و رحیم و سمیع الدعا
رمضان المبارک میں ہوئی ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں سے درگذر فرما اور ہمارے روزے اور دیگر عبادتیں قبول فرما
اپنا خاص کرم فرماتے ہوئے ہمارے ہموطنوں کو آپس کا نفاق ختم کر کے ایک قوم بننے کی توفیق عطا فرما
ہمارے ملک کو اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھ
جدِ امجد سیّدنا ابراھیم علیه السّلام کی سُنّت پر عمل کرتے ہوئے ہم بھی دعا کرتے ہیں کہ یا الله ہمارے مُلک کو امن کا گہوارہ بنا دے اور سب کے رزقِ حلال میں کُشائش عطا فرما
ہمیں ۔ ہمارے حکمرانوں اور دوسرے رہنماؤں کو سیدھی راہ پر چلا
ہمارے ملک کو صحیح طور مُسلم ریاست بنا دے
آمین ثم آمین یا رب العالمین

وَاِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّ اجۡعَلۡ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارۡزُقۡ اَهۡلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنۡ اٰمَنَ مِنۡهُمۡ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ‌ؕ قَالَ وَمَنۡ كَفَرَ فَاُمَتِّعُهٗ قَلِيۡلًا ثُمَّ اَضۡطَرُّهٗۤ اِلٰى عَذَابِ النَّارِ‌ؕ وَبِئۡسَ الۡمَصِيۡرُ ۔ (سُوۡرَةُ البَقَرَة ۔ آیة 126)
اور یہ کہ ابراہیمؑ نے دعا کی: “اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا دے، اور اس کے باشندوں میں جو الله اور آخرت کو مانیں، انہیں ہر قسم کے پھلو ں کا رزق دے”۔
اس کے جواب میں اس کے الله نے فرمایا ”اور جو نہ مانے گا، دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اُسے بھی دوں گا مگر آخرکار اُسے عذاب جہنم کی طرف گھسیٹوں گا، اور وہ بد ترین ٹھکانا ہے“۔