Category Archives: دین

گناہِ بے لذّت

گناہِ بے لذّت اس عمل کو کہا جاتا ہے جس کے کرنے سے فائدہ کچھ نہ ہو لیکن نقصان ہوتا ہو ۔

اگر کوئی شخص میڈیکل کی ایک یا دو کتابیں سرسری طور پر پڑھ لے اورپھر اتنے پر بھی عمل کئے بغیر دعوٰی کرے کہ وہ ڈاکٹر بن گیا ہے تو کوئی شخص اس کو ڈاکتر نہیں سمجھے گا بلکہ اس کی دماغی حالت پر شک کیا جائے گا ۔ اسی طرح کسی بھی موضوع پر بولنے یا لکھنے سے پہلے اس کے متعلق گہرا مطالعہ ضروری ہوتا ہے ۔ لیکن حیرت ہے کہ ہمارے مُلک میں مسلمان باوجود مندرجہ بالا مثال سے متفق ہونے کے دین اسلام کا صحیح طور سے علم حاصل کئے بغیر اسکے بارے میں جو جی میں آتا ہے کہہ یا لکھ دیتے ہیں ۔

مزید آجکل فيشن ہو گيا ہے کہ کچھ لوگ اپنی قابليت يا دريا دلی يا نام نہاد روشن خيالی دکھانے کيلئے ايسی ايسی تحارير لکھتے ہيں جن سے اُن کو کوئی فائدہ پہنچے نہ پہنچے البتہ نقصان ضرور ہوتا ہے جس کا اُنہيں احساس تک نہيں ہوتا ۔ کوئی اللہ کے احکامات کے مخالف لکھتا ہے تو کوئی اللہ کے احکام کو مُلّاؤں کی اختراع قرار ديتا ہے ۔ کچھ ايسے بھی ہيں جو اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حدوں کو نُعُوذ بِاللہِ مِن ذالِک انسانی حقوق کے خلاف اور ظالمانہ لکھتے ہيں ۔ گويا وہ اللہ سے زيادہ انسانيت پسند ہيں ۔

کوئی مزيد آگے بڑھتا ہے اور 1400 سال پرانے اسلام کو سائنس کے اس دورِ جديد ميں ناقابلِ عمل قرار دے ديتا ہے ۔ کيا ان لوگوں کے خيال ميں نُعُوذ بِاللہِ مِن ذالِک اس کائنات کے خالق اور اس کے نظام کو چلانے والے کے عِلم ميں نہ تھا کہ چودہ سو سال بعد کيا ہونے والا ہے ؟ اور کيا يہ لوگ سمجھتے ہيں کہ نُعُوذ بِاللہِ مِن ذالِک وہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سے زيادہ سمجھدار ہيں يا زيادہ جانتے ہيں ؟

مندرجہ بالا برتاؤ کے برعکس کچھ لوگ ایسے اعمال کو قرآن کا حکم قرار دے دیتے ہیں جو کہ قرآن میں موجود نہیں ہوتے ۔ سب سے عام فقرہ جو شادی کے دعوت ناموں پر بھی چھپا ہوتا ہے “رشتے آسمان پر بنتے ہیں اور زمین پر ان کے تکمیل کی جاتی ہے ۔ القرآن “۔ ایسی کوئی آیت نہیں ہے چناچہ ایسا عمل دین میں غلُو کے زمرے میں آتا ہے ۔

کيا آج کے مسلمانوں نے کبھی سوچا کہ اللہ کے بتائے ہوئے اصولوں کے خلاف اس طرح لکھ کر يا ان ميں ترميم کر کے وہ گناہِ بے لذّت کے علاوہ کچھ حاصل نہيں کر رہے ؟

طاغوت کیا ہوتا ہے ؟

سورت 2 الّبَقَرَہ آیت 256 ۔ لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ڐ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَنْ يَّكْفُرْ بِالطَّاغُوْتِ وَيُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقٰى ۤ لَا انْفِصَامَ لَهَا ۭ وَاللّٰهُ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ

ترجمہ ۔ دین کے معاملہ میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے ۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے ۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں اور اللہ (جس کا سہارا اُس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے

سورت 2 الّبَقَرَہ آیت 257 ۔ اَللّٰهُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۙيُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ڛ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَوْلِيٰھُمُ الطَّاغُوْتُ ۙ يُخْرِجُوْنَـھُمْ مِّنَ النُّوْرِ اِلَى الظُّلُمٰتِ ۭ اُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ھُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ

ترجمہ ۔ جو لوگ ایمان لاتے ہیں اُن کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے ۔ اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کے حامی اور مددگار طاغوت ہیں اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لیجاتے ہیں ۔ یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے

طاغوت سے مراد ہے حد سے بڑھ جانے والی سرکش ۔ ظالم اور راہِ حق سے ہٹانے والی قوت ۔ طاغوت فرد بھی ہو سکتا ہے ۔ قوم بھی ۔ شیطان یا ابلیس بھی ۔ نظریہ یا نظام بھی ۔ کوئی چیز بھی یا کام بھی ۔ حتٰی کہ عِلم بھی

کافروں کا ہدف ۔ نصب العین اور وہ خاص نعرہ بھی طاغوت ہے جس کے تحت وہ جنگ لڑتے ہیں جیسے بھارت ماتا ۔ اکھنڈ بھارت ۔ آزاد خیالی (Liberalism)۔ نئی ترکیبِ دنیا (New World Order)۔ نسل پرستی ۔ قوم پرستی ۔ صیہونیت (Zionism)۔ بے جا رواداری (Excessive compromising)۔ اشتراکیت (Communism)۔ سرمایہ داری نظام (Capitalism)۔ کیونکہ یہ تمام نظام وحیِٔ الٰہی پر مشتمل نظام کے مدِمقابل کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ قرآن و سنّت پر مَبنی قوانین کی مخالفت کرتے ہیں اور اِسلامی ممالک میں اِسلامی قوانین کے نفاذ کے خلاف ایڑھی چَوٹی کا زور لگا دیتے ہیں اور اپنا باطل نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں

توہّمات بھی طاغوت ہیں ۔ ان میں جادو ۔ جیوتش ۔ فال گیری ۔ ٹُونے ٹَوٹَکے ۔ شگُون ۔ جَنَم پَتری (Horoscope)۔ ستاروں سے فال ۔ وغیرہ شامل ہیں
کچھ جدید ایجادات جو عصرِ حاضر میں انسانی استعمال کیلئے لازم سمجھی جاتی ہیں جیسے T.V., Computer ۔ یہ بھی بعض اوقات طاغوت کا درجہ اختیار کر لیتی ہیں ۔ انسان ان میں گم ہو کر دینی فرائض ہی بھول جاتا ہے ۔ میں نماز کی بات نہیں کر رہا ۔ حقوق العباد کی بات کر رہا ہوں

شاید یہ بات لَغَو یا کم اَز کم تعجب خیز محسوس ہو کہ عِلمِ دین بھی طاغُوت بَن سکتا ہے ۔ اِسے سمجھنے کیلئے نیچے دِیئے مکالمہ پر نطر ڈالیئے

”کیا عِلم طاغوت بن سکتا ہے ؟“
”جی ۔ ہاں“۔
”وہ کیسے ؟“
”حضرت ۔ میں بہت زیادہ عِلم حاصل کرنا چاہتا ہوں ۔ بہت زیادہ“۔
” تو حاصل کرلو ۔ کس نے روکا ہے ؟“
”جناب مسئلہ یہ ہے کہ عِلم بعض اوقات تکبّر پیدا کرتا ہے ۔ مجھے ڈر ہے کہیں وہی سب کچھ نہ ہو جو شیطان کے ساتھ ہوا کہ وہ اپنے عِلم کے زعم میں اللہ کے سامنے کھڑا ہوگیا؟“
”دو ہدایات پر عمل کرو ۔ پہلی یہ کہ جو علم حاصل کرو ۔ اس کی تمام اچھائیوں کو مِن جانب اللہ سمجھو ۔ ہر اچھی Quote, Article یا کتاب لکھو تو اس کے اچھے پہلووں کو مِن جانب اللہ سمجھو ۔ اس کا سارا Credit اللہ کے Account میں ڈال دو۔ اس سے ملنے والی تعریفوں پر یوں سمجھو کہ لوگ تمہاری نہیں بلکہ اس توفیق کی تعریف کررہے ہیں جو اللہ نے تمہیں عطا کی“۔
”بہت عمدہ بات کہی آپ نے حضرت ۔ دوسری ہدایت کیا ہے؟“
” دوسری ہدایت یہ کہ جب کسی کو عِلم سکھاؤ تو استاذ نہیں طالب عِلم بن کر سکھاؤ ۔ اس کو سمجھانے کی بجائے اس سے طالب عِلم بن کر سوال کرو ۔ اس کے سوالوں کے جواب ایک طالب عِلم کی حیثیت سے دو ۔ اپنی کم عِلمی اور غلطیوں کا کھُل کر اعتراف کرو ۔ اس طرح تم خود کو عالِم نہیں طالب عِلم سمجھو گے اور تکبّر پیدا نہیں ہوگا“۔
”بہت شکریہ حضرت ۔ آپ نے بہت اچھے طریقے سے بات کو سمجھایا”۔

یاد رکھو ۔ عِلم وہ ہتھیار ہے جس کا غلط استعمال خود کو ہی ہلاک کرنے کا سبَب بَن سکتا ہے ۔ شیطان سب سے زیادہ آسانی سے عالِم ہی کو پھانستا ہے ۔ پہلے اسے یہ یقین دلاتا ہے کہ ” تُم تو عالِم ہو ۔ تُمہیں سب پَتا ہے“۔
جب سب پتا ہے تو یہ کل کے بچے تمہارے سامنے کیا بیچتے ہیں؟ اس کے بعد لوگوں کو حقِیر دِکھاتا ہے ۔ لوگوں کے واہ واہ (Likes) کو استعمال کرکے انسان میں ” تکبّر “ اور ” اَنا “ کو مضبوط کرتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ انسان خود کو عقلِ کُل سمجھنے لگ جاتا ہے ۔ پھر اپنی اور دنیا والوں کی نظر میں عالِم اور مُتّقی نظر آتا ہے لیکن اللہ کی کتاب میں اسے ” ابوجہل“ لکھ دیا جاتا اور فرشتوں کی محفل میں اسے شیطان کا ساتھی گردانا جاتا ہے لیکن اسے خبر تک نہیں ہوتی

عمومی غلطیاں

ہمارا ملک دین اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا لیکن آزادی کے چھ سال بعد ہی ذہنی طور پر انگریز کے غلام ۔ شرابی اور مفاد پرست اس کے حکمران بننے میں کامیاب ہو گئے ۔ تعلیمی نصاب میں دینیات یا اسلامیات صرف خانہ پُری کیلئے شامل کیا گیا ۔ دین کی تعلیم کیلئے مناسب علم رکھنے والوں کو استاذ نہ رکھا گیا ۔ دینیات کے استاذ کی تنخواہ اتنی کم رکھی گئی کہ اگر دین کا علم رکھنے والا اُستاذ بننا بھی چاہے تو نہ بن سکے ۔

آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے پاکستانی مسلمان بہن بھائیوں میں سے اکثریت کو دین کا صحیح علم نہیں ۔ لگ بھگ ایک تہائی ایسے ہیں جن کو نماز نہیں آتی ۔ مگر میں آج صرف اُن پڑھے لکھے بہن بھائیوں کی بات کروں گا جو نماز پڑھتے ہیں ۔ نماز پڑھتے ہوئے چھوٹی چھوٹی غلطیاں کی جاتی ہیں جُن سے نماز ناقص ہو جاتی ہے ۔

1 ۔ ابو داؤد میں رقم حدیث کے مطابق سورت فاتحہ کی تلاوت کے دوران ہر آیت کے بعد وقفہ ضروری ہے ۔ اسے ایک ہی سانس میں پڑھنا غلط ہے ۔ نماز تو ساری ہی تسلّی اور تحمل کے ساتھ پڑھنا چاہئیے لیکن سورت فاتحہ کی ہر آیت کے بعد وقفہ دینا ضروری ہے ۔

2 ۔ صحیح مُسلم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے رکوع اور سجدہ میں کوہنیاں جسم کے ساتھ لگانے سے منع فرمایا ہے ۔

3 ۔ حدیث مسلم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے قیام کے دوران سامنے دیکھنے سے منع فرمایا ہے ۔ نظریں اُس جگہہ پر مرکوز ہونا چاہئیں جہاں سجدہ کے دوران ماتھا رکھا جاتا ہے ۔

4 ۔ سجدے میں صرف تھوڑا سا ماتھا  زمین پر رکھنا غلط ہے ۔ صحیح مسلم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا مجھے حُکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں ۔ ماتھا مع ناک ۔ دونوں ہاتھ [ہتھلیاں] ۔ دونوں گھُٹنے اور دونوں پاؤں ۔

5 ۔ تسلّی کے ساتھ رکوع اور سجود نہ کرنا غلط ہے ۔ اس کے متعلق کئی احادیث ہیں ۔ ایک حدیث تقریباً سب مجموعوں میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا ۔ جس نے رکوع و سجود مکمل نہ کئے اُس کی نماز باطل ہے ۔ رکوع میں آرام سے اس طرح جائیے کہ پُشت زمین کے متوازی ہو جائے پھر رُک رُک کر تسبیح پڑھنے کے بعد آرام سے سیدھے یعنی عموداً کھڑے ہونا ضروری ہے ۔ اسی طرح سجدہ میں کیجئے ۔ ایک سجدے کے بعد سیدھا یعنی عموداً بیٹھے بغیر دوسرا سجدہ کرنا غلط ہے ۔

سب سے لمبی نماز عشاء کی ہے جو تسلّی اور تحمل سے پڑھی جائے تو 10 منٹ سے زیادہ نہیں لگتے ۔ ہم لوگ فضولیات میں گھینٹے ضائع کر دیتے ہیں لیکن نماز اسطرح پڑھتے ہیں کہ کوئی ہمیں قتل کرنے کیلئے آ رہا ہے اور ہم نے جان بچانے کیلئے بھاگنا ہے ۔ شاید اسی کئے ہماری نمازیں ہمیں برائی سے نہیں بچاتیں ۔ اللہ سبحانہُ و تعالٰی کا یہ فرمان غلط نہیں ہو سکتا نماز برائی سے روکتی ہے ۔

6 ۔ تسبیح بائیں ہاتھ سے نہیں کرنا چاہئیے صرف داہنے ہاتھ کی انگلیوں پر یا داہنے ہاتھ سے موتی چلانا چاہئیں ۔

7 ۔ کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اس کے آگے سے نہیں گذرنا چاہئیے ۔ اس سے بچنے کیلئے ایک تو جسے جانا ہو اُسے صبر سے کام لینا چاہئیے دوسرے سنت یا نفل پڑھنے والے کو چاہئیے کہ با جماعت نماز ختم ہونے کے بعد تھوڑا وقفہ دے کر سنت یا نفل شروع کرے تاکہ جس نے فرض پڑھ کر جانا ہے چلا جائے ۔ اس کے علاوہ بالخصوص جماعت سے پہلے سنت یا نفل پڑھنے والا باہر سے آنے اور جانے کے راستہ کے پیچھے نماز نہ پڑھے ۔

8 ۔ جان بوجھ کر جماعت میں تاخیر سے شامل ہونا نماز کو ناقص کر دیتا ہے ۔ جب فرض نماز کیلئے تکبیر اقامت شروع ہو جائے تو پھر سنت یا نفل نماز شروع نہ کرنا چاہئیے اس خیال سے کہ جلدی پڑھ کے جماعت کے ساتھ شامل ہو جاؤں گا ۔ اگر فرض جماعت کھڑی ہونے میں اتنا کم وقت رہ گیا ہو کہ اس میں سنتیں نہ پڑھی جا سکتی ہوں تو پھر سنتیں نہیں پڑھنا چاہئیں ۔

9 ۔ نماز تراویح میں کئی حضرات 2 تراویح خود علیحدہ پڑھ کر جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں اور یہ عمل دہراتے رہتے ہیں حتٰی کہ جب امام صاحب نے 10 تراویح پڑھی ہوتی ہیں تو وہ 20 پڑھ لیتے ہیں ۔ یہ غلط طریقہ ہے ۔ علماء کے مطابق ایسی تراویح ناقص ہے ۔ کچھ لوگ دیر سے آتے ہیں اور پھر بیچ میں اُوپر والا عمل دہرا کر تراویح کی تعداد پوری کرتے ہیں ۔ یہ بھی غلط ہے ۔ اگر کسی مجبوری کے تحت دیر ہو جائے تو جتنی تراویح امام کے ساتھ ہوں پڑھ لیجئے ۔ دل میں کمی کی کسک ہو تو وتر پڑھ کر گھر جائیں اور سو جائیں پھر سحری کا وقت شروع ہونے سے پہلے پہلے 8 یا اس سے زیادہ جتنی چاہیں رکعت پڑھ لیجئے ۔

10 ۔ چند ماہ قبل ایک اچھے خاصے تعلیم یافتہ مسلمان نے بتایا کہ وہ جمعہ کے 2  واجب کے علاوہ ظہر کی پوری نماز پڑھتے ہیں یعنی جمعہ کے وقت وہ 4 سنت ۔ 2 واجب ۔ 4 فرض ۔ 2 سنت اور 2 نفل پڑھتے ہیں ۔ یہ غلط ہے ۔ جمعہ کے وقت 4 سنت ۔ 2 واجب ۔ 2 یا 4 یا 6 سنت اور دو نفل پڑھے جاتے ہیں ۔

ہم لوگ جتنے ناول پڑھتے ہیں اور جتنی فلمیں یا ڈرامے دیکھتے ہیں اگر ان میں سے ایک ناول یا فلم یا ڈرامہ چھوڑ دیں اور اس کی بجائے اپنے دین کا کچھ علم حاصل کر لیں تو ہم مسلمان بن سکتے ہیں ۔
وما علینا الی البلاغ المبین ۔

شراب نوشی ۔ اسلام اور ہماری حکومت

آج کل قومی اسمبلی ۔ اخبارات اور ٹی وی سٹیشنوں پر شراب نوشی زیرِ بحث ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے شراب نوشی کو اللہ نے حرام قرار نہیں دیا ۔ عجب استدال اور مافوق الفطرت دلائل دیئے جا رہے ہیں ۔ اس سے قبل بدکاری کیلئے اللہ کی مقرر کردہ حدود کے خلاف تحفظِ حقوق نسواں کے نام سے قانون بنا کر بدکاروں کو کھُلی چھٹی دی جا چُکی ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ہماری قوم کو بے دین بنانے میں کوشاں ہیں ۔

اسلام سے قبل شراب ایک عام مشروب تھا ۔ لوگ اس کے عادی تھے پھر بھی ایسے لوگ موجود تھے جو شراب پینے کو بُرا سمجھتے ہوئے شراب نوشی نہیں کرتے تھے ۔ مدینہ منوّرہ کو ہجرت کر جانے کے بعد عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی قیادت میں شراب نوشی نہ کرنے والوں کا ایک وفد شراب نوشی کی ممانعت کی سفارش کرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اُس کے کچھ عرصہ بعد یہ آیت اُتری ۔

سُورت 2 ۔ الْبَقَرَہ ۔ آیت 219 ۔ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيھِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُھُمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِھِمَا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ كَذَلِكَ يُبيِّنُ اللّہُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ ۔ آپ سے شراب اور جوئے کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ (دنیاوی) فائدے بھی ہیں مگر ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح اﷲ تمہارے لئے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو

مسلمانوں میں سے کئی نے بڑا گناہ قرار دیئے جانے کے بعد شراب نوشی ترک کر دی ۔ چونکہ کھُلے الفاظ میں شراب نوشی کی ممانعت نہ کی گئی تھی اسلئے کچھ مسلمان شراب نوشی کرتے رہے اور نشہ میں مسجد جانے کے واقعات ہوئے ۔ بعد میں غالباً 4 ہجری کے شروع میں مندرجہ ذیل آیت اُتری ۔

سُورت 4 النِّسَآء ۔ آیت 43 ۔ يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُكَارَى حَتَّی تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُون

ترجمہ ۔ اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو

مندرجہ بالا حُکم کے نتیجہ میں زیادہ تر مسلمانوں نے شراب نوشی ترک کر دی لیکن کچھ اس طرح اوقات بدل کر شراب نوشی کرتے رہے تا کہ نماز کے وقت تک نشہ ختم ہو جائے ۔ کچھ عرصہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبہ فرمایا کہ اللہ تعالٰی کو شراب سخت ناپسند ہے ۔ بعید نہیں کہ اس کی قطعی حُرمت کا حُکم آجائےلہٰذا جن جن لوگوں کے پاس شراب موجود ہو وہ اسے فروخت کر دیں ۔ اس کے کچھ مدت بعد مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی

يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

ترجمہ ۔ اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور [عبادت کے لئے] نصب کئے گئے بُت اور [قسمت معلوم کرنے کے لئے] فال کے تیر [سب] ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے [کلیتاً] پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ

اس کے فوراً بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اعلان کرایا کہ اب جن کے پاس شراب ہے وہ نہ اسے پی سکتے ہیں نہ بیچ سکتے ہیں بلکہ وہ اسے ضائع کر دیں چنانچہ اُسی وقت مدینہ کی گلیوں میں شراب بہا دی گئی ۔ بعض لوگوں نے پوچھا کہ ہم یہودیوں کو تحفہ کیوں نہ دے دیں ؟ آپ نے فرمایا جس نے یہ چیز حرام کی ہے اس نے تحفہ دینے سے بھی منع کر دیا ہے ۔کچھ نے پوچھا کہ ہم شراب کو سرکہ میں کیوں نہ تبدیل کرلیں ؟ آپ نے اس سے بھی منع فرمایا اور حُکم دیا کہ اسے بہا دو ۔ ایک شخص نے پوچھا کہ کیا دوا کے طور پر استعمال کی اجازت ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں وہ دوا نہیں بلکہ بیماری ہے ۔

ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روائت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ” اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی ہے شراب پر اور اسکے پینے والے پر اور پلانے والے پر اور بیچنے والے پر اور خریدنے والے پر اور کشید کرنے والے پر اور کشید کرانے والے پر اور ڈھو کر لیجانے والے پر اور اس شخص پر جس کیلئے وہ ڈھو کر لیجائی گئی ہو” ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں جو شراب پینے والا گرفتار ہو کر آتا اسے جوتے ۔ لات ۔ مُکے ۔ بل دی ہوئی چادر کے سونٹے ۔ یا کھجور کے سونٹے مارے جاتے تھے ۔ زیادہ سے زیادہ 40 ضربیں لگائی جاتیں ۔

خبردار کا جواب

گو مسئلہ خاور کھوکھر صاحب نے پيش کيا ہے مگر ہے سب مسلمانوں کا مسئلہ اسلئے تمام قارئين کی نذر کر رہا ہوں ۔

خاور کھوکھر صاحب لکھتے ہيں کہ وہ مہينہ ايک آدھ بار گريک سنڈوچ يا ڈونر کباب کھاليا کرتے تھے ۔ اس کا نام دراصل شَورما ہے اور يہ مسلمانوں کے کھانوں ميں سے ايک ہے جو کہ بين الاقوامی بن گيا ۔ شَورما بنيادی طور پر بکرے يا دُنبے يا گائے کے گوشت سے بنايا جاتا ہے ۔ آجکل جسے برگر کہتے ہيں اس کا نام پہلے ہَيمبُرگر تھا کيونکہ جرمنی کے شہر ہَيمبُرگ ميں بنايا گيا تھا اور اس سے پہلے اس کا نام وِمپی تھا جو کہ مسلمان ترکو ں نے بنايا تھا ۔ اسلئے اس ميں بھی بکرے ۔ دُنبے يا گائے کا گوشت استعمال ہوتا تھا ۔ اسی طرح ساسيجز ميں بھی کسی زمانہ ميں صرف گائے کے گوشت کا قيمہ ہوتا تھا ۔ مگر اب مغربی ملکوں ميں اس کی گارينٹی نہيں دی جا سکتی ۔ وہاں تو يہ حال ہے کہ 1977 عيسوی ميں ہالينڈ کے شہر ماس ترِکت کے ايک ہوٹل ميں صرف اُبلے ہوئے چاول منگوائے ۔ جب چاول لائے گئے تو اُن پر بالکل چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لال رنگ کے پڑے تھے ۔ پوچھا تو سؤر کا گوشت تھا ۔ پوچھا يہ کيا ؟ جواب ملا ڈيلی کيسی ہے ۔ بغير کھا پيسے دئے اور ايک ريڑی سے کيلے اور سيب ليکر کھا لئے ۔


اب خاور صاحب کی بيماری کا علاج ۔

جناب آپ نے بے خبری ميں کھا ليا اُس کيلئے اللہ سے معافی مانگ ليجئے اور آئيندہ احتياط کيجئے ۔ اللہ رحيم و کريم ہے ۔ رمضان ميں بھول کر کہ روزہ ہے کوئی کچھ کھا لے تو روزہ نہيں ٹوٹتا ۔ يہ تو آپ کے علم ہی ميں نہ تھا ۔ ميرے خيال ميں گناہگار وہ ہے جس نے علم ہوتے ہوئے اسے حلال کے طور بيچا ۔ متعلقہ آيات درج ہيں ۔


سُورت الْبَقَرَہ ۔ آيات 172 اور 173

اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو ۔

اس نے تم پر صرف مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے


سُورت الْمَآئِدَہ ۔ آيات 3 اور 4

تم پر مردار حرام کر دیا گیا ہے اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا اور ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے تم نے ذبح کر لیا، اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ کہ تم پانسوں کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرو یہ سب کام گناہ ہیں۔ آج کافر لوگ تمہارے دین [کے غالب آجانے کے باعث اپنے ناپاک ارادوں] سے مایوس ہو گئے، سو [اے مسلمانو!] تم ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو ۔ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو [بطور] دین [یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے] پسند کر لیا۔ پھر اگر کوئی شخص بھوک کی شدت میں اضطراری حالت کو پہنچ جائے [اس شرط کے ساتھ] کہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو تو بیشک اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے

لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا چیزیں حلال کی گئی ہیں، آپ فرما دیں کہ تمہارے لئے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور وہ شکاری جانور جنہیں تم نے شکار پر دوڑاتے ہوئے یوں سدھار لیا ہے کہ تم انہیں (شکار کے وہ طریقے) سکھاتے ہو جو تمہیں اﷲ نے سکھائے ہیں، سو تم اس [شکار] میں سے [بھی] کھاؤ جو وہ [شکاری جانور] تمہارے لئے [مار کر] روک رکھیں اور [شکار پر چھوڑتے وقت] اس پر اﷲ کا نام لیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ حساب میں جلدی فرمانے والا ہے

رمضان مبارک

 

تمام اہلِ پاکستان اور ساری دنيا کے اہل اسلام کو نزولِ قرآن کے مہينہ رمضان المبارک کی رحمتیں و برکتیں مبارک ہوں ۔ اللہ ہم سب کی عبادات و دعاؤں کو قبول فرمائے اور رمضان المبارک کی رحمتیں و برکتیں سمیٹنے کی توفیق دے ۔ آمین

وصفِ مُسلم

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے جو اوصاف مُسلمانوں کيلئے مقرر کئے ہيں اُن ميں سے روزمرّہ کے کردار کا ايک وصف پيشِ خدمت ہے ۔ خيال رہے کہ مندرجہ ذيل آيات ميں امر کا صيغہ استعمال ہوا ہے يعنی مُسلمانوں کو حُکم ديا گيا ہے ۔ سب جانتے ہيں کہ حُکم عدولی کا نتيجہ کيا ہوتا ہے ۔ بہت دُکھ ہوتا ہے ديکھ کر کہ مُسلمان قرآن شريف ميں دی گئی واضح ہدايات کی طرف تو توجہ کرتے نہيں اور غير مُسلم معاشرے ميں ہدائت تلاش کرتے پھرتے ہيں ۔

سُورت ۔ 4 ۔ النِّسَآء ۔ آيت 36
اور تم سب اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں سے حُسنِ سلوک سے پيش آؤ اور پڑوسی رشتہ دار سے اور اجنبی پڑوسی اور ہم مجلس اور مسافر سے اور جن کے تم مالک ہو چکے ہو سے احسان کا معاملہ رکھو ۔ يقين جانو اللہ ايسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے ۔ 

سُورت ۔ 17 ۔ الْإِسْرَاء يا بَنِيْ إِسْرَآءِيْل ۔ آيت 24
اور تمہارے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو اور ان دونوں کے سامنے نرم دلی سے جھُک کر رہو اور اﷲ کے حضور دعا کرتے رہو کہ اے میرے رب! ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے رحمت و شفقت سے پالا تھا