Category Archives: دین

دوسرا ستون ۔ اخلاق یعنی سلوک برتاؤ

رُکن اور ستون “کے وضاحت کے بعد پہلا ستون ” ایمان ” کا بیان پہلے ہو چکا ہے

عصرِ حاضر میں ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی جار رہی ہے کہ اسلام انتہاء پسندی اور دہشتگردی سکھاتا ہے اور عِلم سے محروم اسناد کے حامل مسلمان ہموطن اُن کی آواز میں آواز ملانے لگتے ہیں مگر اتنی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ جس دین کے وہ خود بھی نام لیوا ہیں کم از کم پڑھ تو لیں کہ وہ ہے کیا ؟

سورت ۔ 2 ۔ البقرۃ ۔ آیت 263 ۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو ۔ اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اس کی صفت ہے

سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 19 تا 21 ۔ مومنو! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔ اور (دیکھنا) اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو انہیں (گھروں میں) میں مت روک رکھنا ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں (تو روکنا مناسب نہیں) اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی پیدا کردے ۔ اور اگر تم ایک عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت کرنی چاہو۔ اور پہلی عورت کو بہت سال مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا۔ بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اس سے واپس لے لوگے؟ اور تم دیا ہوا مال کیونکر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کرچکے ہو۔ اور وہ تم سے عہد واثق بھی لے چکی ہے
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 34 ۔ مرد عورتوں پر ایک درجہ مقدم ہیں اس لئے کہ اللہ نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے اللہ کی حفاظت میں (مال وآبرو کی) خبرداری کرتی ہیں اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی (اور بدخوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کردو اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو زدوکوب کرو اور اگر فرمانبردار ہوجائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈو بےشک اللہ سب سے اعلیٰ (اور) جلیل القدر ہے
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 36 ۔ اور تم سب اللہ کی بندگی کرو ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ۔ ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ۔ قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ۔ اور پڑوسی رشتہ دار سے ۔اجنبی ہمسایہ سے ۔ پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں احسان کا معاملہ رکھو ۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 86 ۔ اور جب تم کو کوئی سلام کرے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) سلام کرو یا انہیں لفظوں سے سلام کرو بےشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 148 ۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور اللہ (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے

سورت ۔ 5 ۔ المآئدہ ۔ آیت 8 ۔ اے ایمان والوں! اللہ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے

سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ آیت 152 ۔ اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتہ دار ہی ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کرو ان باتوں کا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم نصحیت پکڑو

سورت ۔ 16 ۔ النّحل۔ آیت 126 ۔ اور اگر تم بدلہ لو تو اُسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو لیکن اگر صبر کرو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں کے حق ہی میں بہتر ہے

سورت ۔ 17 ۔ الاسرآء یا بنی اسرآءیل ۔ آیت 23 ۔ اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا

سورت ۔ 57 ۔ الحدید ۔ آیت 23 ۔ ” ۔ ۔ ۔ اور جو تم کو اس نے دیا ہو اس پر اترایا نہ کرو۔ اور اللہ کسی اترانے اور شیخی بگھارنے والے کو دوست نہیں رکھتا”

سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 68 ۔ جو اللہ کے سوا کسی اور کو معبود نہیں پکارتے ۔ اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا

سورت ۔ 31 ۔ لقمان ۔ آیت 14 ۔ اور ہم نے انسان کو جسے اُس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اُٹھائے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلاتی ہے) اور( آخرکار) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے
سورت ۔ 31 ۔ لقمان ۔ آیات 18 ، 19 ۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر۔ نہ زمین میں اکڑ کر چل ۔ اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ ۔ سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے

سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 58 ۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا

سورت ۔ 41 ۔ فُصلت یا حم السجدہ ۔ آیت 34 ۔ اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے

سورت ۔ 42 ۔ الشورٰی ۔ آیات 40 ، 41 ۔ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے۔ مگر جو درگزر کرے اور (معاملے کو) درست کردے تو اس کا بدلہ اللہ کے ذمے ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ اور جس پر ظلم ہوا ہو اگر وہ اس کے بعد انتقام لے تو ایسے لوگوں پر کچھ الزام نہیں

سورت ۔ 49 ۔ الحجرات ۔ آیات 11 ، 12 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ آپس میں ایک دوسرے پہ طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے ۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں ۔ اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں۔ اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے۔ (تو غیبت نہ کرو) اور اللہ کا ڈر رکھو بےشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے

سورت ۔ 61 ۔ الصّف ۔ آیات 2 ، 3 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟ اللہ کے نزدیک یہ سَخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ۔

پہلا ستون ۔ ایمان

یہ تحریر ” رُکن اور ستون ” کی دوسری قسط ہے
کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان تو ہو جاتا ہے ۔ مگر ۔ ۔ ۔
میں کوئی عالم فاضل نہیں اس لئے میں ہر چیز کو اپنے روزمرّہ کے اصولوں پر پرکھتا ہوں ۔ میں سکول میں داخل ہوا پڑھائی کی ۔ کئی مضامین یاد کئے ۔ اَن گنت امتحان دیئے اور سب محنت کر کے پاس کئے اور دس سال کا عرصہ اس طرح گذارنے کے بعد مجھے میٹرک پاس کی سند دی گئی ۔ میٹرک کی بنیاد پر کوئی خاطر خواہ ملازمت نہ مل سکتی تھی چنانچہ پھر اسی رَٹ میں جُت گیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ پڑھائی اور امتحان مشکل ہوتے گئے اور اتنے مشکل ہوۓ کہ رات کی نیند اور دن کا چین حرام ہو گیا ۔ محنت کرتے اور اللہ سے دعائیں کرتے رہے آخر بی ایس سی انجنئرنگ کی سند مل گئی ۔ نوکری کے لئے امتحان دیئے انٹرویو دیئے تو نوکری ملی اور اپنا پیٹ پالنے کے قابل ہوۓ

یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوا کہ اکیس بائیس سال کے لئے کھانے پینے پہننے اور پڑھائی کا خرچ والدین نے دیا ۔ ملازمت میں سارا سارا دن محنت کی پھر بھی باس [Boss] کم ہی خوش ہوۓ ۔ جو سکول یا کالج سے غیرحاضر رہتے رہے یا جنہوں نے امتحان نہ دیا یا ملازمت کے دوران محنت نہ کی وہ پیچھے رہتے گئے اور نالائق اور ناکام کہلائے

یہ سب کچھ جانتے ہوۓ نماز روزہ اور اللہ کے باقی احکام کی پابندی کئے بغیر صرف والدین کے مسلمان ہونے کی وجہ سے کوئی اپنے آپ کو مسلمان سمجھے ۔ کیا یہ دانشمندی ہے ؟ کلمہ طیّبہ جسے پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں اس یقین کا اظہار ہے کہ میں سواۓ اللہ کے کسی کو معبود نہیں مانتا اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اس کے پیامبر ہیں ۔ چنانچہ مسلمان تب بنتا ہے جب اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرے ۔ علامہ اقبال نے کہا ہے

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

ایمان کے پانچ رُکن ہیں ۔ یہاں میں نماز ۔ روزہ ۔ زکٰوت اور حج کے حوالہ جات نہیں دے رہا کہ مسلمان جانتے ہی ہیں

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیات 135 تا 137 ۔ اور (یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں کہ یہودی یا عیسائی ہو جاؤ تو سیدھے رستے پر لگ جاؤ۔ (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو، (نہیں) بلکہ (ہم) دین ابراہیم (اختیار کئے ہوئے ہیں) جو ایک اللہ کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے ۔ (مسلمانو) کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اتری، اس پر اور جو (صحیفے) ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ان پر اور جو (کتابیں) موسیٰ اور عیسی کو عطا ہوئیں، ان پر، اور جو اور پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملیں، ان پر (سب پر ایمان لائے) ہم ان پیغمروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی (اللہ واحد) کے فرمانبردار ہیں ۔ تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہو جائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (تمھارے) مخالف ہیں اور ان کے مقابلے میں تمھیں اللہ کافی ہے۔ اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے
سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 177 ۔ نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کو (قبلہ سمجھ کر ان) کی طرف منہ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر اور روز آخرت پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں (کے چھڑانے) میں (خرچ کریں) اور نماز پڑھیں اور زکوٰت دیں۔ اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں۔ اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو (اللہ سے) ڈرنے والے ہیں

سورت ۔ 3 ۔ آل عمران ۔ آیات 31 ، 32 ۔ (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ کہہ دو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا

سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 60 ۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے

سورت ۔ 9 ۔ التوبہ ۔ آیت 23 ۔ اے اہل ایمان! اگر تمہارے (ماں) باپ اور (بہن) بھائی ایمان کے مقابل کفر کو پسند کریں تو ان سے دوستی نہ رکھو۔ اور جو ان سے دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہیں
سورت ۔ 9 ۔ التوبہ ۔ آیت 71 ۔ اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰت دیتے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا۔ بےشک اللہ غالب حکمت والا ہے

سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 63 ۔ اور اللہ کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں
سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 67 ۔ اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بےجا اُڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ۔ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم
سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 72 ۔ اور وہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزرتے ہیں

سورت ۔ 29 ۔ العنکبوت ۔ آیت 2 ۔ کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور اُن کی آزمائش نہیں کی جائے گی

سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 36 ۔ اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا

سورت ۔ 63 ۔ المنافقون ۔ آیت 9 ۔ مومنو! تمہارا مال اور اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے۔ اور جو ایسا کرے گا تو وہ لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں

قربانی ؟ ؟ ؟

سعدیہ سحر صاحبہ اخبار میں قربانی پر لکھا کوئی مضمون پڑھ کر پریشان ہو گئیں ۔ موصوف نے لکھا ہے

رسولِ کریم کی سوانح حیات کا مطالعہ کیا میں نے کہیں یہ نہیں پایا کہ رسولِ کریم نے ان ایام میں جب آپ نے حج نہیں کیا مکہ معظمہ یا مدینہ منورہ میں قربانی کا فریضہ ادا کیا ھو — قرآن میں بھی جو آیات قربانی سے متعلق ھیں وہ بھی حج سے ھی وابستہ ھیں

آجکل نجانے کیسے کیسے لوگ عالِم بن بیٹھے ہیں ۔ دورِ حاضر میں مسند دِینی کُتب آسانی سے دستیاب ہیں ۔ اصول یہ ہونا چاہیئے کہ اخبار رسالے وغیرہ کو عِلم کا منبع نہ سمجھا جائے اور عِلم حاصل کرنے کیلئے مستند کُتب سے استفادہ کیا جائے

قربانی

قربانی کے لئے قرآن کریم میں عموماً تین لفظ استعمال ہوئے ہیں
1 ۔ اذقربا قربانا ۔ جب دونوں نے قربانی کی

وَاتْلُ عَلَیہھمْ نَبَأَ ابْنَيْ آدَمَ بِالْحَقِّ إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِن أَحَدِھِمَا وَلَمْ يُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّكَ قَالَ إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللّہُ مِنَ الْمُتَّقِينَ

اور (اے محمد) ان کو آدم کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) کے حالات (جو بالکل) سچے (ہیں) پڑھ کر سنا دو کہ جب ان دونوں نے اللہ (کی جناب میں) کچھ نیازیں چڑھائیں تو ایک کی نیاز تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی (تب قابیل ہابیل سے) کہنے لگا کہ میں تجھے قتل کروں گا اس نے کہا کہ اللہ پرہیزگاروں ہی کی (نیاز) قبول فرمایا کرتا ہے

2 ۔ منسک : (الحج، 22 : 34) ۔

وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَى مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ

اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر فرمائی کہ اللہ کا نام لیں، اس کے دیئے ہوئے بے ز بان چوپائیوں پر۔

3 ۔ نحر: (الکوثر، 108 : 1 – 3) ۔

إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر 0 فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ 0 إِنَّ شَانِئَكَ ھُوَ الْأَبْتَر

(اے محمد) ہم نے تم کو کوثر عطا فرمائی ہے ۔ تو اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو ۔ کچھ شک نہیں کہ تمہارا دشمن ہی بےاولاد رہے گا

احادیث مبارکہ کی روشنی میں

٭ امام ترمذی وابن ماجہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
(مشکوٰۃ ص 128 باب الاضحیہ) ’’ابن آدم نے قربانی کے دن خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ خدا کے حضور پسندیدہ کوئی کام نہیں کیا اور بے شک وہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں بالوں اور کھروں کے ساتھ آئے گا اور بے شک خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ کے ہاں مقام قبول میں پہنچ جاتا ہے۔ لہذا خوش دلی سے قربانی کیا کرو‘‘۔
٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو چتکبرے سینگوں والے مینڈھے اپنے ہاتھ سے قربانی کے لئے ذبح فرمائے۔ بسم اللہ پڑھ کر اور اللہ اکبر کہہ کر (بسم اللہ اللہ اکبر) کہتے ہیں، میں نے حضور کو ان کے پہلوؤں پر قدم رکھے دیکھا اور فرماتے جاتے بسم اللہ، اللہ اکبر۔ (بخاری، مسلم، مشکوۃ ص 127)
٭ امام مسلم سے بھی اسی طرح کی روائت ہے
٭ امام بخاری نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی۔
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عید گاہ میں قربانی کے جانور ذبح فرمایا کرتے تھے‘‘۔ (مشکوۃ ص 127)
٭ حنش کہتے ہیں میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دو مینڈھے قربانی کرتے دیکھا، میں نے پوچھا یہ کیا؟ فرمایا
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اس بات کی وصیت فرمائی تھی کہ میں حضور کی طرف سے قربانی کروں۔ سو میں سرکار کی طرف سے (بھی) قربانی کرتا ہوں‘‘۔ (ابوداؤد، ترمذی وغیرہ، مشکوۃ ص 128)
٭ حضرت براء کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عید بقر کے دن ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا۔
’’آج کے دن سب سے پہلا کام جو ہم کریں گے وہ یہ ہے کہ نماز پڑھیں پھر واپس آ کر قربانی کریں۔ سو جس نے یہ کرلیا اس نے ہمارا طریقہ پالیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کرلیا سو وہ گوشت کی بکری تھی جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لئے جلدی تیار کرلیا۔ اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں‘‘۔ (بخاری ومسلم، مشکوۃ ص 126)
’’جس نے نماز عید سے پہلے جانور ذبح کیا، اس کی جگہ دوسرا ذبح کرے‘‘۔ (بخاری ومسلم)
٭ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال قیام پذیر رہے اور قربانی کرتے رہے‘‘۔ (ترمذی)
٭ زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام نے عرض کی یارسول اللہ! یہ قربانیاں کیا ہیں؟ فرمایا تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے انہوں نے عرض کی یارسول اللہ ہمارے لئے ان میں کیا ثواب ہے؟ فرمایا ہر بال کے بدلے نیکی عرض کی یارسول اللہ! اون کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ فرمایا اون کے بدلے نیکی ہے‘‘۔ (احمد، ابن ماجہ، مشکوۃ)
٭حضرت براء سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’جس نے نماز عید کے بعد جانور ذبح کیا۔ اس کی قربانی مکمل ہوگئی اور اس نے مسلمانوں کا طریقہ پالیا‘‘۔ ( متفق علیہ، مشکوۃ ص 126)

مدد درکار ہے

میں کسی کا امتحان نہیں لے رہا بلکہ ایک معاشرتی مسئلہ حل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ اسلئے مندرجہ ذیل معلومات فراہم کردیں تو نوازش ہو گی خواہ اس کے لئے مطالع کرنا پڑے یا کسی عالِم کی مدد لینا پڑے ۔ میں اپنے گھر اسلام آباد میں ہوتا تو شاید یہ اشتہار نہ دینا پڑتا

سوال ۔ 1 ۔ اگر مندرجہ ذیل کے علاوہ کوئی اور مستند مجموعات حدیث اُردو ترجمہ کے ساتھ ہیں تو ان کے نام اور ان کے مصنفین کے نام بتایئے اور اگر انٹرنیٹ پرچاہے انگریزی میں ہوں تو ربط دے دیجئے
1 ۔ صحیح بخاری
2 ۔ صحیح مُسلم
3 ۔ سُنن ابو داؤد
4 ۔ سنن ترمذی
5 ۔ سنن ابنِ ماجہ
6 ۔ موطاء عبدالمالک

سوال ۔ 2 ۔ میرے علم کے مطابق اگر فرض نماز شروع ہو جائے یا فرض نماز کی تکبیر اقامت شروع ہو جائے تو پھر کسی اور نماز یعنی نفل یا سُنت کی نیّت کرنا منع ہے ۔ یہ بھی واقعہ ہے کہ اگر 4 رکعت سُنّت نماز شروع کر لی ہو اور تکبیر اقامت شروع ہو جائے تو 2 رکعت مکمل کر کے سلام پھیر کر جماعت میں شامل ہو جانا چاہیئے ۔ کیا یہ شرط فجر کی نماز پر لاگو نہیں ہوتی ؟ اگر لاگو نہیں ہوتی تو مستند حدیث کا حوالہ دیجئے ۔ اگر انٹرنیٹ پرچاہے انگریزی میں ہو تو ربط دے دیجئے

قباحتیں

کچھ ایسی قباحتیں ہیں جو شاید غیرمحسوس طور پر ہماری خصلت بنتی جا رہی ہیں ۔ اچھی بات ہے کہ کم از کم رمضان مبارک میں مسجدوں میں رونق زیادہ ہوتی ہے لیکن جتنا نظم و ضبط ہمارے دین کا خاصہ ہے اتنا ہی کم ہم لوگ اس کی طرف توجہ دیتے ہیں

کسی دعوت پر جانا ہو تو ہم سج دھج کر اچھے سے اچھے کپڑے پہن کر جاتے ہیں ۔ کائنات کے مالک کے حضور پیش ہونے کیلئے کچھ حضرات نے ایسے کپڑے پہن رکھے ہوتے ہیں جو پہن کر وہ شاید کسی اور جگہ جانا پسند نہ کریں ۔ پھر آجکل کے فیشن کے مطابق تصویر والی بنیان جسے آجکل شرٹ کہا جاتا ہے پہن کر آ جاتے ہیں جسے پہننا ہی غلط ہے کُجا کہ مسجد میں پہن کر جائیں

کچھ حضرات کو پچھلی صفوں میں بیٹھنے کا شوق ہے جس کے باعث بعد میں آنے والوں کو دقت ہوتی ہے ۔ جماعت کھڑے ہونے پر ان حضرات کو اگلی صفیں پُر کرنے پر مجبور کرنا پڑتا ہے

کچھ مساجد ایسی ہیں جہاں لاؤڈسپیکر پر اذان سے قبل کچھ پڑھا جاتا ہے ۔ بالخصوص رمضان میں مغرب کی اذان سے قبل اگر کچھ پڑھا جائے اور کوئی اذان سمجھ کر روزہ کھول لے تو اس روزہ ٹوٹنے کا گناہ کس کے سر ہو گا ؟

رکوع یا سجدہ میں جاتے ہوئے کوہنیاں پھیلانا نامعلوم کونسی کتاب میں لکھا ہے مگر جب کسی کے پیٹ یا چھاتی یا منہ پر کُہنی لگتی ہے تو اس فعل کو کیا کہا جائے گا ؟

عِلم والے

ایک عیسائی بادشاہ نے مندرجہ ذیل سوالات عمر رضی اللہ عنہ کو ارسال کئے اور ان کا جواب مانگا

1 ۔ ایک ماں کے شِکم سے دو بچے ایک ہی وقت ایک ہی دن پیدا ہوئے اور اُن کا ایک ہی روز انتقال ہوا ۔ ایک کی عمر سو سال بڑی اور دوسرے کی عمر سو سال چھوٹی ہے ۔ یہ کون تھے اور ایسا کیونکر ہو سکتا ہے ؟

2 ۔ وہ کون سی زمین ہے جہاں ابتدائے پیدائش سے قیامت تک صرف ایک وقت سورج نکلا ۔ نہ پہلے کبھی نکلا اور نہ آیئندہ کبھی نکلے گا ؟

3 ۔ وہ کونسی قبر ہے جس کا مدفون بھی زندہ تھا اور قبر بھی زندہ تھی ۔ قبر اپنے مدفون کو سیر کراتی رہی پھر مدفون قبر سے باہر آیا اور زندہ رہ کر فوت ہو گیا ؟

4 ۔ وہ کونسا قیدی ہے جس کے قیدخانے میں سانس لینے کی اجازت نہیں اور وہ بغیر سانس لئے زندہ ہے ؟

عمر رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جوابات لکھ دیں ۔

جوابات

1 ۔ دو بھائی عزیز علیہ السلام اور عزیر علیہ السلام ہیں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے عزیر علیہ السلام پر ایک سو سال موت طاری رکھی پھر زندہ ہو کر گھر گئے ۔ کچھ دن زندہ رہ کر اپنے بھائی عزیز علیہ السلام کے ساتھ فوت ہوئے

2 ۔ وہ زمین دریائے قلزم کی تہہ ہے موسٰی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو فرعون سے بچانے کیلئے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے حُکم سے سورج نے بہت جلد خُشک کر دیا ۔ اس کے بعد پانی پھر بھر گیا اور فرعون مع اپنی فوج کے غرق ہو گیا

3 ۔ وہ مدفون اور قبر جو دونوں زندہ تھے یونس علیہ السلام اور مچھلی تھے ۔ مچھلی نے یونس علیہ السلام کو نگل لیا تھا اور سمندر یا دریا کی سیر کراتی رہی

4 ۔ جو قیدی سانس نہیں لیتا وہ ماں کے شِکم میں بچہ ہے ۔ اللہ نے ماں کے شکم میں بچے کے سانس لینے کا ذکر نہیں کیا

یہ جوابات پاکر عیسائی بادشاہ بولا “”شاید ابھی مسلمانوں میں کوئی نبی زندہ ہے کیونکہ یہ جوابات نبی کے علاوہ کوئی اور نہیں بتا سکتا” [احسن القصص صفحہ 262]

إِنَّا لِلہِ وَإِنَّـا إِلَيْہِ رَاجِعونَ

ایک صاحب نے اپنی پریشانی بیان کی تو بلا اختیار میرے مُنہ سے إِنَّا لِلہِ وَإِنَّـا إِلَيْہِ رَاجِعونَ نکل گیا ۔ موصوف نے اس کا بُرا منایا ۔ میں نے وضاحت کی کوشش کی تو یہ کہہ کر چل دیئے “میں ابھی زندہ ہوں اور تم نے إِنَّا لِلہِ کہہ دیا ہے”

میرے ہموطن مسلمانوں کی اکثریت إِنَّا لِلہِ وَإِنَّـا إِلَيْہِ رَاجِعونَ صرف اُس وقت کہتی ہے جب کوئی مسلمان مر جائے یا اس کے مرنے کی خبر ملے ۔ شاید میرے ہموطنوں کی اکثریت یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ ہم مسلمان ہیں اسلئے ہم چھوٹی موٹی سزا کے بعد بخش دیئے جائیں گے اور جنت میں داخل ہو کر مزے لوٹیں گے اور شاید اسی لئے ہماری اکثریت کوشش ہی نہیں کرتی کہ اللہ کے کلام یعنی قرآن شریف کو سمجھ کر پڑھیں تاکہ معلوم ہو کہ اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے

إِنَّا لِلہِ وَإِنَّـا إِلَيْہِ رَاجِعونَ حصہ ہے سورت البقرہ کی آیت 156 کا جو دراصل چار آیات پر مشتمل اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے ایک پیغام کا حصہ ہے

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیات ۔ 153 تا 156
اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو بےشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں [وہ مردہ نہیں] بلکہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے
اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میوؤں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے توصبر کرنے والوں کو [اللہ کی خوشنودی کی] بشارت سنا دو
ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں

چنانچہ کوئی بھی مُشکل یعنی تنگدستی ۔ بیماری ۔ کوئی چیز کھو گئی ہو ۔ راستہ بھول گیا ہو ۔ کوئی پیارا بچھڑ جائے ۔ کوئی مر جائے ۔ یعنی کسی قسم کی بھی پریشانی ہو تو إِنَّا لِلہِ وَإِنَّـا إِلَيْہِ رَاجِعونَ کہا جا سکتا ہے

آجکل جس طرح کے حالات ہیں ہو پاکستانی مسلمان کو چاہیئے کہ
إِنَّا لِلہِ وَإِنَّـا إِلَيْہِ رَاجِعونَ
اور
سورت ۔ 21 ۔ الانبیاء ۔ آیت 87 ۔ کا آخری حصے ۔ لَّا إِلَہَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّی كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ
تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے [اور] بےشک میں قصوروار ہوں
کا ورد کرتا رہے

ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ قرآن شریف کو سمجھ کر پڑھے اور اس پر عمل کرے ۔ اللہ ہمیں قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین