” رُکن اور ستون ” ۔ پہلا ستون ” ایمان ” دوسرا “اخلاق” تیسرا ” انصاف” اور چوتھا “معیشت” کا بیان پہلے ہو چکا ہے
عام طور پر معاشرہ ویسا ہی ہو گا جیسا اس کی اکثریت چاہے گی ۔ معاشرہ میں بہتری لانے کیلئے دو عوامل ضروری ہیں ایک تحریک اور دوسرا رہنما ۔ اگر تحریک کو غلط رہنما مل جائے تو ساری محنت ضائع ہو جاتی ہے ۔ اگر تحریک مفقود ہو تو عام طور پر اچھے سے اچھا سربراہ بھی ناکام رہتا ہے ۔ بعض اوقات کوئی واقعہ یا حادثہ تحریک کا سبب بن جاتا ہے لیکن کبھی کبھی قوموں کو ایسے باکردار رہنما بغیر تحریک کے مل جاتے ہیں جو انہیں اندھیروں سے نکال کر اُجالوں میں لیجاتے ہیں لیکن پھر بھی قوم میں تحریک پیدا نہ ہو یا پیدا ہو کر پانی کے بُلبلے کی طرح جلد ختم ہو جائے تو قوم پھر سے اندھیروں میں بھٹکنے لگتی ہے
اسلام نے معاشرہ کے کچھ بنیادی اصول وضع کئے ہیں جو پہلے چار ستونوں پر تعمیر ہوتے ہیں یعنی ایمان ۔ اخلاق ۔ انصاف اور معیشت ۔
معاشرت کے دو پہلو ہیں ایک عمومی اور دوسرا انتظامی ۔ عمومی کا تعلق ہر فرد سے ہے اور انتظامی کا تعلق صرف منتظمین سے ہے
عمومی
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے اس سلسلہ میں واضح ہدایات اپنی کتاب میں دی ہیں جن میں سےچند یہ ہیں
سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت 36 ۔ اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسائیوں اور اجنبی ہمسائیوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ اللہ (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا
سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت 86 ۔ اور جب تم کو کوئی احترام کے ساتھ سلام کرے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) سلام کرو یا انہی لفظوں سے سلام کرو بےشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے
سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت 148 ۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور اللہ (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے
سورت ۔ 49 ۔ الحجرات ۔ آیت 11 ۔ مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں۔ اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد بُرا نام (رکھنا) گناہ ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں
سورت ۔ 60 ۔ الممتحنہ ۔ آیت 3 ۔ قیامت کے دن نہ تمہارے رشتے ناتے کام آئیں گے اور نہ اولاد۔ اس روز وہی تم میں فیصلہ کرے گا۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھتا ہے
انتظامی
معاشرہ کوئی بھی ہو اس کی حوصلہ افزائی یا مایوسی کا انحصار اس کی انتظامیہ کے گفتار اور عمل میں مماثلت پر ہوتا ہے ۔
اسلامی نظام کی بہت سی مثالیں تاریخ میں مرقوم ہیں جن میں سے دو بطورِ نمونہ پیش ہیں
عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ ہے ریاست 23 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے ۔ لشکرِ اسلام کی کمان خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہے جو صحابی رسول بھی ہیں اور ايک سو سے زائد جنگوں میں حصہ لے چکے ہیں ۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک بڑے معرکہ سے واپس آ رہے ہیں ۔ لوگ ان سے بخشیش مانگتے ہیں ۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ دس ہزار درہم تقسیم کر تے ہیں ۔ اس کی اطلاع خلیفہ دوئم عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کو ملتی ہے ۔ خلیفہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو حُکم دیتے ہیں کہ جا کر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے کمان لے لیں اور ساتھ پیغام دیا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو کہیں “اگر دس ہزار درہم موسم گرما کی خوراک سے دیا ہے تو خیانت کی ہے اور اگر اپنے پاس سے دیئے ہیں تو یہ اعتدال کی حد کو چھوڑنا ہے”۔ جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے تو عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ۔ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شاعر کا یہ قول پڑھا “تو نے ایک کام کیا ہے اور کسی کام کرنے والے نے تمہاری طرح کام نہیں کیا اور لوگ کچھ نہیں کرتے اللہ ہی کرتا ہے”۔ پھر فرمایا “اللہ کی قسم آپ مجھے بڑے ہی عزیز اور محبوب ہیں اور آج کے بعد کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے مجھ پر کچھ واجب ہو جائے”
جب عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ابو موسٰی رضی اللہ عنہ کو بصرہ کا امیر بنا کر بھیجا تو ان کے ہاتھ اہلِ بصرہ کے نام یہ پیغام بھیجا ” میں نے ابو موسٰی کو آپ کا امیر مقرر کیا ہے جو تمہارے طاقتور سے تمہارے کمزور کیلئے لیں گے اور تمہارے ساتھ مل کر تمہارے دشمن سے جنگ کریں گے اور تمہارے فرض کو ادا کریں گے اور تمہاری غنیمت کو تمہارے لئے اکٹھا کریں گے پھر اُسے تمہارے درمیان تقسیم کریں گے”
سورت ۔ 3 ۔ آل عمران ۔ آیت 31 ، 32 ۔ (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔کہہ دو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 59 ۔ مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحبِ حکومت ہیں ان کی بھی ۔ اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے
سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ 164 ، 165 ۔ کہو کیا میں اللہ کے سوا اور پروردگار تلاش کروں اور وہی تو ہر چیز کا مالک ہے اور جو کوئی (بُرا) کام کرتا ہے تو اس کا ضرر اسی کو ہوتا ہے اور کوئی شخص کسی (کے گناہ) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تم سب کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے تو جن جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے وہ تم کو بتائے گا ۔ اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں بخشا ہے اس میں تمہاری آزمائش ہے بےشک تمہارا پروردگار جلد عذاب دینے والا ہے اور بےشک وہ بخشنے والا مہربان بھی ہے