خلیل اللہ سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام کی ایک قربانی سے مسلمان آگاہ ہیں ۔ جو ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر واجب کر دی گئی اور ہر سال ذوالحج کی 10 تاریخ سے 12 کے نصف النہار تک بکرہ ۔ دُنبہ ۔ گائے یا اونٹ ذبح کئے جاتے ہیں ۔ سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام اللہ کے دین کی خاطر کئی قربانیاں اس سے قبل دے چکے تھے
پہلی قربانی ۔ سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام ابھی نوجوان ہی تھے کہ بتوں کی پوجا کی مخالفت کرنے کی وجہ سے اُن کے ہموطنوں نے اُنہیں آگ میں پھینکنے کا فیصلہ کیا جس کیلئے بہت بڑا الاؤ تیار کیا گیا ۔ عام آدمی ایسی صورت میں شہر سے بھاگ جاتا یا کہیں چھپ جاتا لیکن سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام اللہ کے دین کی خاطر آگ میں زندہ جلنے کیلئے تیار ہو گئے ۔ جب اُنہیں آگ میں پھینکا گیا تو اللہ کے حُکم سے وہ سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام کیلئے ٹھنڈی ہو گئی ۔ اسی کے متعلق علامہ اقبال صاحب نے لکھا ہے
بے خطر کُود گيا آتشِ نمرود ميں عِشق
عقل ہے محوِ تماشہ لبِ بام ابھی
دوسری قربانی مُلک بدری ہے ۔ کُفّار کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا اور اُنہوں نے سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام کو مُلک بدر کر دیا
تیسری قربانی ۔ ایک اور امتحان سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام پر آیا جب اللہ نے اُنہیں اپنی بیوی اور ننھے بچے سمیت اُنہيں مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کا حُکم دیا اور اُنہوں نے بغیر پس و پیش اس پر عمل کیا۔ یہ ننھا بچہ سیّدنا اسمٰعیل علیہ السّلام تھے
چوتھی قربانی ۔ مکہ مکرمہ اس زمانہ میں بے آب و گیاہ صحرا تھا ۔ وہاں پہنچ کر سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام کو اللہ کی طرف سے حُکم ہوا کہ بیوی اور بچے کو وہیں چھوڑ کر واپس چلے جائیں ۔ اُن کے چلے جانے کے بعد اُن کی واجب صد احترام بیوی ہاجرہ نے بچے کو ایک جگہ لٹا دیا اور خود اس کیلئے پانی کی تلاش کرنے لگیں ۔ اسی جُستجُو میں وہ قریب ہی ایک چھوٹی سی پہاڑی کی چوٹی پر چڑھ گئیں جب پانی نظر نہ آیا تو نیچے اُتر کر دوسری چوٹی کی طرف گئیں ۔ اس طرح اُنہوں نے سات بار کیا ۔ اس کے بعد بی بی ہاجرہ نے دیکھا کہ جہاں اُن کے ننھے بچے نے ایڑیاں ماری تھیں وہاں سے چشمہ پھوٹ پڑا ہے ۔ اُنہوں نے آ کر پانی کو اکٹھا کرنے کیلئے روکنے کی کوشش کی اور اپنی زبان میں زم زم کہا یعنی رُک جا ۔ اللہ نے اس چشمہ کو ہمیش کر دیا اور پانی کو متبرک بنا دیا ۔ یہ چوٹیاں صفا اور مروہ ہیں ۔ اللہ نے بی بی ہاجرہ کے عمل کو ہر عمرہ یا حج کرنے والے پر فرض کردیا
پانچویں قربانی جس کا شروع ميں ذکر ہو چکا ہے ۔ جب سیّدنا اسمٰعیل علیہ السّلام نو سال کے ہو گئے تو سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام نے تین راتیں متواتر خواب میں دیکھا کہ بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں ۔ نبی کا خواب مُہمل نہیں ہوتا اسلئے وہ اپنے بیٹے کو لے کر چل دیئے کہ اللہ کا حُکم پورا کریں ۔ منٰی کے میدان میں پہنچے تو شیطان نے ورغلانے کی کوشش کی ۔ آپ نے اسے سات کنکریاں ماریں ۔ چند قدم چل کر پھر شیطان نے ورغلانے کی کوشش کی ۔ اُنہوں نے پھر سات کنکریاں ماریں ۔ مزید چند قدم چلے تو شیطان نے تیسری بار ورغلانے کی کوشش کی اور آپ نے پھر سات کنکریاں شیطان کو ماریں ۔ اس کے بعد بیٹے کو لٹایا ۔ اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ لی مبادہ ترس آ جائے ۔ چھُری چلانے لگے تو اللہ کا حُکم آ گیا “ہم نے تیرا عمل قبول کر لیا”۔ چھُری اللہ کے حُکم سے سیّدنا اسمٰعیل علیہ السّلام کے گلے پر پھرنے کی بجائے فرشتوں کے لائے ہوئے دُنبے کے گلے پر پھر گئی ۔ اللہ نے سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام کے کنکریاں مارنے کے عمل کو حج کا رُکن بنا دیا اور قربانی ہر صاحبِ نصاب مسلمان پر واجب کر دی
آج فجر کی نماز کے بعد سے عازمينِ حج مکہ مکرمہ سے مُنی کی طرف رواں دواں ہيں ۔ عيد پر گوشت کھايئے ليکن قربانی کا مقصد بھی ياد رکھيئے
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا