Category Archives: دین

میری تحریر ”اسلام اور ہم“ انتشار کا نیا کھیل ہے ؟

میری تحریر ”اسلام اور ہم“ پر تبصرہ کرتے ہوئے دہلی سے ایک محترمہ لکھتی ہیں ”پہلا پیراگراف نئی آڈیالوجی ۔ ۔ ۔ اِنتشار کا نیا کھیل ۔ بقیہ عمدہ تحریر “

قبل اس کے کہ میں اس تبصرہ کے سلسلے میں کچھ لکھوں میں اس دنیا میں رائج انسان کے بنائے قوانین کی بات کرنا چاہتا ہوں ۔ کسی مُلک کا دستور یا آئین جب منظور ہو جاتا ہے تو اُس مُلک کے تمام باشندے (صدر اور وزیرِ اعظم سے لے کر ایک عام آدمی یا مزدور تک) اس کے ماننے اور اس پر عمل کرنے کے پابند ہوتے ہیں ۔ کسی کو اس بات پر کوئی چھُوٹ حاصل نہیں کہ اُس نے پڑھا نہیں تھا یا اُسے معلوم نہیں تھا ۔ دستور یا آئین دراصل ایک قوم یا ایک گروہ کا لائحہءِ عمل ہوتا ہے جس کی پابندی لازم ہوتی ہے ۔ بھُول چُوک پر آدمی سزا کا مستوجب قرار دیا جاتا ہے اور دستور یا آئین کو نہ ماننے والا غدار یا مُنحِرف اور مُنحرف کی سزا عام طور پر ”موت“ ہوتی ہے

میری تحریر ”اسلام اور ہم“ کا پہلا بند نجیب صاحب کی تحریر سے نقل کیا گیا ہے جو نہ تو نئی بات ہے (کُجا کھیل) اور نہ اس سے انتشار کا کوئی پہلو نکلتا ہے ۔ دین کے معنی ہیں دستور ۔ آئین ۔ لائحہءِ عمل ۔ اسلام دین ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم جسے اپنے تمام عوامل میں درست سمجھتے ہیں دین کے معاملے میں اسے اختیار کرنے سے احتراز کرتے ہیں

ہو سکتا ہے کہ محترمہ عِلمِ دین کی عالِم فاضل ہوں ۔ میں ایک طالب عِلم ہوتے ہوئے اتنا جانتا ہوں کہ حاکمِ اعلٰی اللہ ہے ۔ سب پر اُس کا حکم چلتا ہے اور اُس کے سامنے انسان یا کسی اور مخلوق کا بس نہیں چلتا ۔ جب اللہ نے دین اسلام کو مکمل کر کے نافذ کر دیا تو پھر اسے کسی اور کے نافذ کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ یہ دین اللہ کا بنایا ہوا ہے اور اللہ نے اپنے رسول سیّدنا محمد ﷺ کے ذریعہ نافذ کیا ہے ۔ یہ بات قرآن شریف میں درج اللہ کے فرمان سے ثابت ہے ۔ میں متعلقہ آیت اور اُس کا ترجمہ اس بند کے بعد نیچے نقل کروں گا ۔ پہلے بات مکمل کر لوں ۔ خطبہ حجۃ الوداع سے واضح ہے کہ رسول اللہ سیّدنا محمد ﷺ نے دین اسلام کو نافذ کر دیا تھا اور اس پر عمل کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہرایا تھا ۔ رسول اللہﷺ اور خُلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے دور کے مطالع سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام مسلمانوں کے کردار و عمل کی وجہ سے پھیلا ۔ کسی حاکم یا سپہ سالار کے حُکم سے نہیں ۔ اگر اسلام انسانی حُکم سے پھیلنا ہوتا تو آج یورپ اور امریکہ جہاں اسلام دشمن حاکم ہیں لوگ اسلام قبول نہ کر رہے ہوتے ۔ البتہ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اگر حکومت بناتے ہیں تو مسلمان حاکم کا فرض ہے کہ مسلمانوں کیلئے اپنے دین پر عمل کو آسان بنانے کیلئے قوانین وضع کرے اور اللہ کے حُکم یعنی دین اسلام کے خلاف تمام قوانین کو ختم کر دے اور یہ حُکم پاکستان کے آئین میں موجود ہے گو اس پر ماضی میں پوری طرح عمل نہیں کیا گیا ۔ عُلماء کا فرض ہے کہ عوام کی درست رہنمائی کریں ۔ دین کے دائرے میں رہتے ہوئے فرقہ بندی کو روکیں ۔ ایسا اُسی صورت میں ممکن ہے جب حاکم اور عالِم پہلے دین کا نفاذ اپنے اُوپر کریں

سورۃ 5 المآئدہ آیۃ 3 ۔ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا

تراجم ۔ (مجھے میسّر تمام تراجم اسلئے نقل کر رہا ہوں کہ شک پیدا نہ ہو میں نے اپنے مطلب کا ترجمہ لکھ دیا ہے)
(جالندھری) ۔ ‏ آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا
(محمودالحسن‏) ۔١٤آج میں پورا کر چکا تمہارے لئے دین تمہارا ف۱۵ اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین ‏
‏(جوناگڑھی) ۔ ‏ آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا نام بھرپور کر دیا اور تمہارے لئے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا
(ابوالاعلٰی مودودی) ۔ آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے

(YUSUFALI) – This day have I perfected your religion for you, completed My favour upon you, and have chosen for you Islam as your religion.
(PICKTHAL) – This day have I perfected your religion for you and completed My favour unto you, and have chosen for you as religion al-Islam.
(SHAKIR) – This day have I perfected for you your religion and completed My favor on you and chosen for you Islam as a religion;
(Taqi Usmani) – Today, I have perfected your religion for you, and have completed My blessing upon you, and chosen Islam as Din (religion and a way of life) for you.

راقم الحروف پر جملہ معترضہ

قیاس ہے کہ موضوع عام قارئین کی دلچسپی کا ہے اسلئے سرِ ورق جواب لکھنے کا سوچا

میری تحریر ” چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ شریکِ حیات“ شائع کرتے وقت مجھ سے غلطی ہوئی تھی جس کی میں نے تصحیح شائع کی ۔ اس پر عبدالرؤف صاحب نے لکھا ہے ۔
”محترم نہایت نازک موضوع چھیڑ دیا ہے ۔ سورۃ النساء کی آیات نمبر35 ۔ 34 کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں ۔ اگرچہ کہ اس آیت کے درست مفہوم کے بارے میں عصرحاضر کے اہل علم کی رائے دوسرے سے مختلف ہیں ۔ لیکن کم سے کم اس آیت میں یہ تو بلکل (بالکل) واضح ہے کہ ازواجی معاملات میں مردوں کو عورتوں پر کچھ فضیلت حاصل ہے ۔ اب یہ اور بات ہے کہ کسی مخصوص مرد میں اپنی فضیلت قائم اور برقرار رکھنے کا کمال نہیں ہو تو اسکی مثال سبھی پر حُجت نہیں بنائی جاسکتی ہے ۔ افسوس آجکل بے کمال مردوں کی بہتات ہوگئی ہے اور اپنی خفگی (خِفّت) مٹانے یا چھپانے کے لیے بقول حالی
خود بدلتے نہیں دین کو بدل دیتے ہی“۔

بلا شُبہ میری عقل نامکمل اور عِلم محدود ہے

مجھے ایک ہی بات سجمھ میں آئی ہے کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور انسان کی فطرت اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے بنائی ہے ۔ میں نے تاریخ میں پڑھا کہ رسول اللہ سیّدنا محمد ﷺ ۔ پانچوں خُلفائے راشدین رضی اللہ عنہُم اور اُن کی رعایا کے درمیان ہر لحاظ سے برابری کا تعلق تھا سوائے چند عوامل کے ۔ رعایا کو تحفظ اور رزق فراہم کرنا حاکم کے ذمہ تھا جس کے بدلے میں حاکم کی اطاعت رعایا کے ذمے تھی ۔ آنکھ کھولنے کے بعد جو کچھ ہم نے دیکھا ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے جس کا میں حوالہ بھی دینا نہیں چاہتا

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ
ایک عورت جو رسول اللہ ﷺ کی ھدائت میں یقین نہیں رکھتی تھی اور جب حضور ﷺ گذرتے تو اُن پر کوڑا پھنکتی تھی ۔ اُس عورت نے چند دن اپنا فعلِ بد نہ دُہرایا تو حضور ﷺ اُس کی خیریت دریافت کرنے گئے
امیرالمؤمنین (مسلمانوں کے حاکم) جناب عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ اپنے علاقہ کا جائزہ لے رہے تھے تو ایک گھرانے سے بچوں کے رونے کی آوازیں آئیں ۔ وجہ پوچھنے پر عورت نے کہا ”بھوکے ہیں ۔ عمر کی جان کو رو رہے ہیں“۔عمر رضی اللہ عنہ پلٹے اور باوجود خادم کی تھیلا اُٹھانے کی پیشکش کے بیت المال سے آٹے کا تھیلا اپنے کندھے پر یہ کہتے ہوئے رکھا ”پوچھ عمر سے ہوگی“ اور اُس گھرانے میں پہنچایا

ایسے عوامل سے تاریخِ اسلام بھری پڑی ہے ۔ ان عوامل کی روشنی میں ہم جب خاوند کو بیوی پر حاکم کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہو ہی نہیں سکتا کہ بیوی غلام ہے ۔ میری صاحبِ علم خواتین و حضرات سے عرض ہے کہ قرآن شریف کی کسی آیت کا مطلب الگ سے نہ لیا کریں بلکہ پورے قرآن شریف اور رسول اللہ ﷺ اور ان کے رفقاء رضی اللہ عنہم کے عمل کی بنیاد پر لیا کریں ۔ مزید جب بھی کسی بات کو سمجھنا ہو تو اپنی عقل کو مثبت سمت میں استعمال کیا کریں

عبدالرؤف صاحب نے متذکرہ آیات کا مکمل ترجمہ نہیں لکھا اور نہ ساری متعلقہ آیات کا احاطہ کیا ہے اس سلسلہ میں ”رشتہءِ ازداج“ کے موضوع پر میری 1984ء میں پیش کردہ تقریر کو بھی پڑھ لیں ۔ ہو سکتا ہے میں نے اس میں اپنا مدعا عام فہم طریقہ سے بیان کیا ہو اور سب کی سمجھ میں آ جائے
اللہ ہم سب کو سیدھی راہ پر قائم کرے

قرآن شریف کا قدیم ترین نُسخہ برمنگھم یونیورسٹی میں دریافت

سُبحان اللہ ۔ نہ مُلک مسلمانوں کا ۔ نہ یونیورسٹی مسلمانوں کی ۔ نہ محقق مُسلم ۔ اور ثبوت کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے زمانہ سے آج تک قرآن کی عبارت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ تفصیل کچھ یوں ہے

اتحادیوں کی سلطنت عثمانیہ پر 1908ء سے 1918ء تک یلغار کے نتیجہ میں شرق الاوسط (مشرقِ وسطہ) اتحادیوں کے قبضہ میں چلا گیا ۔ آج کا عراق اُن دنوں تعلیم کا گڑھ تھا ۔ 1920ء میں کلدائی قوم کا ایک پادری (بابل کا باشندہ) الفانسو مِنگانا (Alphonse Mingana) مُوصل سے عربی کے 3000 قلمی نُسخے برطانیہ لے کر گیا تھا ۔ یہ نُسخے 95 سال سے مِنگانا کا ذخیرہ (Mingana Collection) کے نام سے برمنگھم یونیورسٹی کی لائبریری میں گُمنام حیثیت میں پڑے تھے اور کسی کے عِلم میں نہ تھا کہ ان میں قرآن شریف کا دنیا کا قدیم ترین نُسخہ بھی ہے

قرآن شریف کے اس نُسخے کی عمر کا تعین ریڈیو کاربن ڈیٹنگ (Radiocarbon dating) یعنی جدید سائنسی طریقہ کے ذریعہ کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ نسخہ کم از کم 1370 سال پرانا ہے ۔ چنانچہ یہ قرآن شریف کے دنیا میں اب تک حاصل کئے گئے قدیم ترین نسخوں میں سے ایک ہے ۔ برطانیہ کے لائبریری ماہر ڈاکٹر محمد عیسٰے والے کا کہنا ہے کہ یہ ایک حیران کُن دریافت ہے جس سے مسلمانوں کو مُسرت ہو گی
1یہ اوراق بھیڑ یا بکرے کی کھال کے ہیں

پرانے ترین نُسخے
جب پی ایچ ڈی کرنے والے محقق البا فیڈیلی (Alba Fedeli) ان اوراق کی باریک بینی کی تو ان کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور نتیجہ حیران کن نکلا ۔ ٹیسٹ کرنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ایکسلریٹر یونٹ (Oxford University Radiocarbon Accelerator Unit) نے بتایا کہ بھیڑ اور بکرے کی کھال پر لکھے گئے قرآن شریف کے نسخے بہت پرانے ہیں ۔ یونیورسٹی کے مخصوص مخازن کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ہم نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ یہ نسخہ اتنا پرانا ہو گا
2

برمنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ تھامس (Prof David Thomas) جو اسلام اور عیسائیت کے پروفیسر ہیں نے کہا ”جس کسی نے بھی اسے لکھا ہو گا وہ ضرور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو قریب سے جانتا ہو گا اور اُس نے اُنہیں بولتے ہوئے بھی سُنا ہو گا ۔ ان ٹیسٹوں سے جو 95 فیصد درست ہوتے ہیں قرآن شریف کے نسخے کے مختلف اوراق کی تاریخیں 568ء اور 645ء کے درمیان نکلتی ہیں ۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ اس کی لکھائی طلوعِ اسلام کے چند سال کے اندر شروع ہوئی“۔

پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے مزید کہا ”مسلمانوں کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم پر قرآن شریف کا نزول 610ء اور 632ء کے درمیان ہوا جبکہ 632 اُن کے وصال کا سال ہے“۔
3

پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے بتایا کہ قرآن شریف کے کچھ حصے کھال کے بنے کاغذ ۔ پتھر ۔ کھجور کے پتوں اور اونٹ کے کشانے کی چوڑی ہڈی پر بھی لکھے گئے تھے ۔ ان سب کو کتابی شکل لگ بھگ 650ء میں دی گئی تھی ۔ متذکرہ نسخے کی عبارت تقریباً وہی ہے جو آج کے قرآن شریف کی ہے ۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے قرآن شریف میں کوئی تحریف نہیں ہوئی یا بہت ہی کم تبدیلی ہوئی ہے“۔

حجازی رسم الخط میں لکھا ہوا قرآن شریف کا نسخہ سب سے پرانے نسخوں میں سے ایک ہے ۔ برمنگھم یونیورسٹی میں موجود نسخہ زیادہ سے زیادہ 645ء کا ہو سکتا ہے

یہ معلومات سین کوفلان (Sean Coughlan) کے 22 جولائی 2015ء کو شائع ہونے والے مضمون سے لی گئیں

رمضان کریم

سب مُسلم بزرگوں بہنوں بھائیوں بھتیجیوں بھتیجوں بھانجیوں بھانجوں پوتيوں پوتوں نواسيوں نواسوں کو اور جو اپنے آپ کو اِن میں شامل نہیں سمجھتے اُنہیں بھی رمضان کريم مبارک

اللہ الرحمٰن الرحيم آپ سب کو اور مجھے بھی اپنی خوشنودی کے مطابق رمضان المبارک کا صحیح اہتمام اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے

روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ کے احکام پر مکمل عمل کا نام ہے ۔ اللہ ہمیں دوسروں کی بجائے اپنے احتساب کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حِلم ۔ برداشت اور صبر کی عادت سے نوازے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حُکم

سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آيات 183 تا 185

اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ
چند روز ہیں گنتی کے پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا مسافر تو اس پر ان کی گنتی ہے اور دِنوں سے اور جن کو طاقت ہے روزہ کی ان کے ذمہ بدلا ہے ایک فقیر کا کھانا پھر جو کوئی خوشی سے کرے نیکی تو اچھا ہے اس کے واسطے اور روزہ رکھو تو بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم سمجھ رکھتے ہو
‏ مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن راہ پانے کی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی سو جو کوئی پائے تم میں سے اس مہینہ کو تو ضرور روزے رکھے اسکے اور جو کوئی ہو بیمار یا مسافر تو اس کو گنتی پوری کرنی چاہیے اور دِنوں سے اللہ چاہتا ہے تم پر آسانی اور نہیں چاہتا تم پر دشواری اور اس واسطے کہ تم پوری کرو گنتی اور تاکہ بڑائی کرو اللہ کی اس بات پر کہ تم کو ہدایت کی اور تاکہ تم احسان مانو

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے رمضان کی فضيلت سورت ۔ 97 ۔ القدر ميں بيان فرمائی ہے

بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے
اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے
شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے
اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حُکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اُترتے ہیں
یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے نظامِ دنیا کے خد و خال کی چند مثالیں

کسی نے سچ کہا ہے
مدعی لاکھ بُرا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

اللہ کا فرمان تو اٹل ہے

سُورۃ آل عِمْرَان ۔ آيۃ 26 و 27
قُلِ اللَّھُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ ۖ بِيَدِكَ الْخَيْرُ ۖ إِنَّكَ عَلَی كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

‏اور کہیئے کہ اے خدا (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخش دے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے (اور) بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے

یاد رکھنے کی باتیں

روائت ہے کہ دوسرے خلیفہ راشد عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو نصیحت کی کہ

کسی ایسی چیز (یا موضوع) پر بات نہ کرو جس کا تم سے تعلق نہ ہو

اپنے دُشمن کو پہچانو اور جو اپنے آپ کو دوست ظاہر کرے اس سے ہوشیار رہو سوائے اس کے کہ وہ قابلِ اعتماد ہو اور سوائے اللہ سے ڈرنے والوں کے اور کوئی قابلِ اعتماد نہیں ہوتا

کسی غلط کار کے ساتھ نہ چلو مبادہ وہ اپنی برائی میں سے کچھ تمہیں بھی سِکھا دے اور ایسے آدمی پر اپنا کوئی راز ظاہر نہ ہونے دو

جب اپنے معاملات پر مشورہ درکار ہو تو ایسے شخص سے رجوع کرو جو اللہ سے ڈرتا ہو

رمضان کریم

سب مُسلم بزرگوں بہنوں بھائیوں بھتیجیوں بھتیجوں بھانجیوں بھانجوں پوتيوں پوتوں نواسيوں نواسوں کو اور جو اپنے آپ کو اِن میں شامل نہیں سمجھتے اُنہیں بھی رمضان کريم مبارک

اللہ الرحمٰن الرحيم آپ سب کو اور مجھے بھی اپنی خوشنودی کے مطابق رمضان المبارک کا صحیح اہتمام اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے

روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ کے احکام پر مکمل عمل کا نام ہے ۔ اللہ ہمیں دوسروں کی بجائے اپنے احتساب کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حِلم ۔ برداشت اور صبر کی عادت سے نوازے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حُکم

سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آيات 183 تا 185

اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ
چند روز ہیں گنتی کے پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا مسافر تو اس پر ان کی گنتی ہے اور دِنوں سے اور جن کو طاقت ہے روزہ کی ان کے ذمہ بدلا ہے ایک فقیر کا کھانا پھر جو کوئی خوشی سے کرے نیکی تو اچھا ہے اس کے واسطے اور روزہ رکھو تو بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم سمجھ رکھتے ہو
‏ مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن راہ پانے کی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی سو جو کوئی پائے تم میں سے اس مہینہ کو تو ضرور روزے رکھے اسکے اور جو کوئی ہو بیمار یا مسافر تو اس کو گنتی پوری کرنی چاہیے اور دِنوں سے اللہ چاہتا ہے تم پر آسانی اور نہیں چاہتا تم پر دشواری اور اس واسطے کہ تم پوری کرو گنتی اور تاکہ بڑائی کرو اللہ کی اس بات پر کہ تم کو ہدایت کی اور تاکہ تم احسان مانو

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے رمضان کی فضيلت سورت ۔ 97 ۔ القدر ميں بيان فرمائی ہے

بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے
اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے
شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے
اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حُکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اُترتے ہیں
یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے