ڈاکٹر غلام جیلانی برق برصغیر کا عظیم دماغ تھے ۔ یہ 1901ء میں کیمبلپور (موجودہ اٹک) میں پیدا ہوئے ۔ والد گاؤں کی مسجد کے امام تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے اِبتدائی تعلیم مدارس میں حاصل کی ۔ مولوی فاضل ہوئے ۔ مُنشی فاضل ہوئے اور ادِیب فاضل ہوئے ۔ میٹرک کیا اور میٹرک کے بعد اسلامی اور مغربی دونوں تعلیمات حاصل کیں ۔ عربی میں Gold Medal لیا ۔ فارسی میں ایم اے کیا اور 1940ء میں پی ایچ ڈی کی ۔ امام ابن تیمیہ پر انگریزی زبان میں Thesis لکھا ۔ امامت سے عملی زندگی شروع کی ۔ پھر کالج میں پروفیسر ہو گئے ۔ آپ کے Thesis کو Oxford اور Harvard یونیورسٹی نے قبولیت بخشی ۔ اسلام پر تحقیق شروع کی ۔ 1949ء میں پاکستان کی تشکیل سے 2 سال بعد ”دو اسلام“ کے نام سے معرکۃ الآراء کتاب لکھی اور پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ۔ یہ کتاب ۔ کتاب نہیں تھی ایک عالمی انقلاب تھا ۔ ”دو اسلام“ کے بعد ”دو قرآن“ اور ”من کی دنیا“ لکھی اور اسلامی دنیا کے پیاسے ذہنوں کو سیراب کیا
”دو اسلام“ اور ”دو قرآن“ کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ آج کے پاکستان کی عدم برداشت ۔ مذہبی تشدد اور مکالمے کے قبرستان کے مقابلہ میں ماضی کا پاکستان دانش ۔ برداشت ۔ عِلم اور مکالمے میں آج کے پاکستان سے کتنا آگے تھا ۔ ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور ان کا پاکستان کس قدر بالغ تھا ۔ جاننے کیلئے ”دو اسلام“ کا صرف ابتدائیہ ملاحظہ کیجئے ۔ آج کا مسلمان ڈاکٹر برق کے مسلمانوں سے بہت پیچھے ہے ۔ ڈاکٹر صاحب جیسے دانشوروں اور مُسلم scholars کی باتیں صرف ماضی میں ہی لکھی اور بیان کی جا سکتی تھیں ۔ ہم لوگ آج ان کا تصور تک نہیں کر سکتے ۔ کیوں ؟ کیونکہ آج کے مسلمان میں سب کچھ ہے اگر نہیں ہے تو اسلام نہیں
ڈاکٹر غلام جیلانی برق لکھتے ہیں
یہ 1918 ء کا ذکر ہے ۔ میں والد صاحب کے ساتھ امرتسر گیا ۔ میں چھوٹے سے گاؤں کا رہنے والا جہاں نہ بلند عمارات ۔ نہ مصفّا سڑکیں ۔ نہ کاریں ۔ نہ بجلی کے قُمقُمے اور نہ اس وضع کی دکانیں ۔ دیکھ کر دنگ رہ گیا ۔ لاکھوں کے سامان سے سَجی دکانیں اور بورڈ پر کہیں رام بھیجا سنت رام لکھا تھا ۔ کہیں دُنی چند اگروال ۔ کہیں سَنت سنگھ سبل اور کہیں شادی لال فقیر چند ۔ ہال بازار کے اِس سِرے سے اُس سِرے تک کسی مسلمان کی کوئی دکان نظر نہیں آئی ۔ ہاں مسلمان ضرور نظر آئے ۔ کوئی بوجھ اٹھا رہا تھا ۔ کوئی گدھے لاد رہا تھا ۔ کوئی کسی ٹال پہ لکڑیاں چیر رہا تھا اور کوئی بھیک مانگ رہا تھا ۔ غیر مسلم کاروں اور فٹنوں پر جا رہے تھے اور مسلمان اڑھائی من بوجھ کے نیچے دبا ہوا مشکل سے قدم اٹھا رہا تھا ۔ ہندوؤں کے چہرے پَر رونق ۔ بشاشَت اور چَمَک تھی اور مسلمان کا چہرہ فاقہ ۔ مُشقّت ۔ فکر اور جھُریوں کی وجہ سے افسردہ اور مسخ
میں نے والد صاحب سے پوچھا ”کیا مسلمان ہر جگہ اسی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں؟“
والد صاحب نے کہا ” ہاں“۔
میں نے عرض کیا ”الله نے مسلمان کو بھی ہندو کی طرح دو ہاتھ ۔ دو پاؤں اور ایک سر عطا کیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے ہندو تو زندگی کے مزے لوٹ رہا ہے اور مسلمان ہر جگہ حیوان سے بدتر زندگی بسر کر رہا ہے ؟“
والد صاحب نے جواب دیا ”یہ دنیا مُردار سے زیادہ نجس ہے اور اس کے مُتلاشی کُتوں سے زیادہ ناپاک ہیں ۔ الله نے یہ مُردار ہندوؤں کے حوالے کر دیا ہے اور جنت ہمیں دے دی ہے ۔ کہو کون فائدے میں رہا ؟ ہم یا وہ؟“
میں بولا ”اگر دنیا واقعی مُردار ہے تو پھر آپ تجارت کیوں کرتے ہیں اور مال تجارت خریدنے کے لئے امرتسر تک کیوں آئے ؟ ایک طرف دنیاوی ساز و سامان خرید کر منافع کمانا اور دوسری طرف اسے مُردار قرار دینا ۔ عجیب قِسم کی مَنطق ہے“
والد صاحب ”بیٹا ۔ بزرگوں سے بحث کرنا سعادت مندی نہیں ۔ جو کچھ میں نے تمہیں بتایا ہے وہ ایک حدیث کا ترجمہ ہے“۔
حدیث کا نام سن کر میں ڈر گیا اور بحث بند کر دی ۔ سفر سے واپس آ کر میں نے گاؤں کے مُلا سے اپنے شبہات کا اظہار کیا ۔ اس نے بھی وہی جواب دیا
میرے دل میں اس معمے کو حل کرنے کی تڑپ پیدا ہوئی لیکن میرے قلب و نظر پہ تقلید کے پہرے بیٹھے تھے ۔ عِلم کم تھا اور فہم محدود ۔ اس لئے معاملہ اُلجھتا گیا ۔ میں مسلسل 14 برس تک حصول علم کے لئے مختلف علماء و صوفیاء کے ہاں رہا ۔ درس نظامی کی تکمیل کی ۔ سینکڑوں واعظین کے واعظ سُنے ۔ بِیسِیوں دینی کتب پڑھیں اور بالآخر مجھے یقین ہو گیا کہ اسلام رائج کا ماحاصل یہ ہے ۔ توحید کا اقرار اور صلوٰۃ ۔ زکوٰۃ ۔ صوم اور حج کی بجا آوری ۔ اذان کے بعد ادب سے کلمہ شریف پڑھنا ۔ جمعرات ۔ چہلم ۔ گیارہویں وغیرہ کو باقاعدگی سے ادا کرنا ۔ قرآن کی عبارت پڑھنا ۔ الله کے ذکر کو سب سے بڑا عمل سمجھنا ۔ قرآن اور درُود کے ختم کرانا ۔ حق ہو کے ورد کرنا ۔ مرشد کی بیعت کرنا ۔ مرادیں مانگنا ۔ مزاروں پر سجدے کرنا ۔ تعویذوں کو مشکل کُشا سمجھنا ۔کسی بیماری یا مصیبت سے نجات کے لئے مولوی جی کی دعوت کرنا ۔ گناہ بخشوانے کے لئے قوالی سننا ۔ غیر مسلم کو ناپاک و نجس سمجھنا ۔ طبیعیات ۔ ریاضیات ۔ اقتصادیات ۔ تعمیرات وغیرہ کو کفر خیال کرنا ۔ غور و فکر اور اجتہاد و استنباط کو گناہ قرار دینا ۔ صرف کلمہ پڑھ کر بہشت میں پہنچ جانا اور ہر مشکل کا علاج عمل اور محنت کی بجائے دعاؤں سے کرنا
میں علمائے کرام کے فیض سے جب تعلیمات اسلامی پر پوری طرح حاوی ہو گیا تو یہ حقیقت واضح ہوئی خدا ہمارا ۔ رسول ہمارا ۔ فرشتے ہمارے ۔ جنت ہماری ۔ حوریں ہماری ۔ زمین ہماری ۔ آسمان ہمارا ۔ الغرض سب کچھ کے مالک ہم ہیں اور باقی قومیں اس دنیا میں جھک مارنے آئی ہیں ۔ ان کی دولت ۔ عیش اور تنعم محض چند روزہ ہے ۔ وہ بہت جلد جہنم کے پست ترین طبقے میں اوندھے پھینک دیئے جائیں گے اور ہم کمخواب و زربفت کے سوٹ پہن کر سرمدی بہاروں میں حوروں کے ساتھ مزے لوٹیں گے
زمانہ گزرتا گیا ۔ انگریزی پڑھنے کے بعد علُوم جدیدہ کا مطالعہ کیا ۔ قلب و نظر میں وسعت پیدا ہوئی ۔ اقوام و مِللّ کی تاریخ پڑھی تو معلوم ہوا مسلمانوں کی 128 سلطنتیں مِٹ چُکی ہیں ۔ حیرت ہوئی کہ جب الله ہمارا اور صرف ہمارا تھا تو اس نے خلافت عباسیہ کا وارث ہلاکو جیسے کافر کو کیوں بنایا ؟ ہسپانیہ کے اسلامی تخت پہ فرونیاں کو کیوں بٹھایا ؟ مغلیہ کا تاج الزبتھ کے سر پر کیوں رکھ دیا ؟ بلغاریہ ۔ ہنگری ۔ رومانیہ ۔ سرویا ۔ پولینڈ ۔ کریمیا ۔ یوکرائین ۔ یونان اور بلغراد سے ہمارے آثار کیوں مٹا دیئے ؟ ہمیں فرانس سے بیک بِینی دو گوش کیوں نکالا اور تیونس ۔ مراکو ۔ الجزائر اور لیبیا سے ہمیں کیوں رخصت کیا ؟
میں رفع حیرت کے لئے مختلف علماء کے پاس گیا لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ میں نے اس مسئلے پر پانچ سات برس تک غور و فکر کیا لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا ۔ ایک دن میں سحر کو بیدار ہوا ۔ طاق میں قرآن شریف رکھا تھا ۔ میں نے اُٹھایا ۔ کھولا اور پہلی آیت جو سامنے آئی وہ یہ تھی ”(ترجمہ) کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے ہم ان سے پہلے کتنی اقوام کو تباہ کر چکے ہیں ۔ ہم نے انہیں وہ شان و شوکت عطا کی تھی جو تمہیں نصیب نہیں ہوئی ۔ ہم ان کے کھیتوں پر چھما چھم بارشیں برساتے تھے اور ان کے باغات میں شفاف پانی کی نہریں بہتی تھیں لیکن جب انہوں نے ہماری راہیں چھوڑ دیں تو ہم نے انہیں تباہ کر دیا اور ان کا وارث کسی اور قوم کو بنا دیا”۔
میری آنکھیں کھُل گئیں ۔ اندھی تقلید کی وہ تاریک گھٹائیں جو دماغی ماحول پر محیط تھیں یک بیک چھٹنے لگیں اور الله کی سُنّت جاریہ کے تمام گوشے بے حجاب ہونے لگے ۔ میں نے قرآن میں جا بجا یہ لکھا دیکھا ”یہ دنیا دار العمل ہے ۔ یہاں صرف عمل سے بیڑے پار ہوتے ہیں ۔ ہر عمل کی جزا و سزا مقرر ہے جسے نہ کوئی دعا ٹال سکتی ہے اور نہ دوا“۔ ”لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی (انسان کیلئے وہی ہے جس کی کوشش خود اُس نے کی)“۔
میں سارا قرآن مجید پڑھ گیا اور کہیں بھی محض دعا یا تعویذ کا کوئی صِلہ نہ دیکھا ۔ کہیں بھی زبانی خوشامد کا اجر زمردیں محلات ۔ حوروں اور حجوں کی شکل میں نہ پایا ۔ یہاں میرے کانوں نے صرف تلوار کی جھنکار سُنی اور میری آنکھوں نے غازیوں کے وہ جھُرمَٹ دیکھے جو شہادت کی لازوال دولت حاصل کرنے کے لئے جنگ کے بھڑکتے شعلوں میں کود رہے تھے ۔ وہ دیوانے دیکھے جو عزم و ہمت کا علَم ہاتھ میں لئے معانی حیات کی طرف باانداز طوفان بڑھ رہے تھے اور وہ پروانے دیکھے جو کسی کے جمالِ جاں افروز پہ رہ رہ کے قربان ہو رہے تھے
قرآن مجید کے مطالعے کے بعد مجھے یقین ہو گیا مسلمان ہر جگہ محض اس لئے ذلیل ہو رہا ہے کہ اس نے قرآن کے عمل ۔ محنت اور ہیبت والے اسلام کو ترک کر رکھا ہے ۔ وہ اوراد و اوعیہ کے نشے میں مست ہے اور اس کی زندگی کا تمام سرمایہ چند دعائیں اور چند تعویذ ہیں اور بس ۔ اور ساتھ ہی یقین ہو گیا کہ اسلام دو ہیں ”ایک قرآن کا اسلام جس کی طرف الله بُلا رہا ہے اور دوسرا وہ اسلام جس کی تبلیغ ہمارے اسّی لاکھ ملا قلم اور پھیپھڑوں کا سارا زور لگا کر کر رہے ہیں“۔
برق کیمبل پور ۔ 25 ستمبر 1949ء