يا رب وہ نہ سمجھے ہيں نہ سمجھيں گے ميری بات
دے اور دل اُن کو جو نہ دے مجھ کو زباں اور
پاکستان کی سالانہ آمدن سے سالانہ خرچ ايک ٹريلين يا 10 کھرب [10,00,00,00,00,000] روپے زيادہ ہے يعنی سالانہ خسارہ 10 کھرب روپيہ ہے يعنی سال ميں ہر دن کا خسارہ 3 ارب روپے يعنی ہر گھنٹہ ميں خسارہ 11 کروڑ روپے يعنی سال کے ہر منٹ ميں خسارہ 20 لاکھ روپے
آپ کا ہر منٹ جو گذر رہا ہے اس ميں آپ کا مُلک 20 لاکھ روپے کا نقصان اُٹھا رہا ہے ۔ اگر آپ 5 منٹ ميں ايک قُلفی کھاتے ہيں يا پيپسی پيتے ہيں تو جتنی دير ميں آپ قُلفی يا پيپسی ختم کرتے ہيں آپ کا مُلک ايک کروڑ روپيہ نقصان اُٹھا چکا ہوتا ہے ۔ کھايئے قُلفی پيجئے پيپسی اور پيچھ مُڑ کر نہ ديکھيئے ۔ کہيں اس عياشی ۔ ہاں عياشی ۔ کا پھر موقع نہ ملے
اس بے تحاشہ نقصان ميں سے 400 بلين يا 4 کھرب روپيہ وفاقی حکومت اور اتنا ہی سرکاری ملکيت ميں چلنے والے کارخانوں کے حصہ ميں آتا ہے ۔ يہ بنا کل خسارہ کا 80 فيصد ۔ سرکاری کارخانوں ميں سے سرِ فہرست ہيں پيپکو 180 بلين يا ايک کھرب 80 ارب کا خسارہ ۔ پی آئی اے 77 بلين يا 77 ارب کا خسارہ اور پاکستان سٹيل کراچی 44 بلين يا 44 ارب کا خسارہ
کيا ہم اس کھائی [Black Hole] ميں سے باہر نکل سکتے ہيں ؟ بجٹ بن رہا ہے
صدرِ پاکستان نے مطالبہ کيا ہے کہ اُنہيں اپنے 72 ماليوں 175 دوسرے ملازمين اور 263 گھريلو ملازمين کيلئے 36 کروڑ روپے سالانہ اور صدر کے غيرمُلکی دوروں کيلئے 22 کروڑ روپے سالانہ ديا جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ صدر صاحب کہتے ہيں کہ وہ 42 کروڑ روپے سالانہ کے بغير زندہ نہيں رہ سکتے
وزيرِ اعظم نے اپنے غير مُلکی دوروں کيلئے 120کروڑ يا ايک ارب 20 کروڑ روپے سالانہ کا مطالبہ کيا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وزير اعظم صاحب کہتے ہيں کہ 50 کروڑ روپے سالانہ کے بغير زندہ نہيں رہ سکتے
وفاقی وزراء کی فوجِ ظفر موج ميں سے ہر ايک نے 2 ارب روپے سالانہ يعنی 16 کروڑ 67 لاکھ روپے ماہانہ مانگے ہيں
کيبنٹ سکريٹيريئٹ 12 ارب روپے سالانہ يعنی ايک ارب روپيہ ماہانہ کھا جاتا ہے ۔ 100 سينٹرز 342 اراکين قومی اسمبلی اور 728 اراکين صوبائی اسمبلی کو ڈيويلوپمنٹ فنڈ کے نام پر جو تحفہ ديا جاتا ہے وہ 36 ارب روپيہ سالانہ بنتا ہے
يہ سلانہ 10 کھرب روپے کا خسارہ صرف نوٹ چھاپ کر پورا کيا جا رہا ہے ۔ معاشيات کے طالب عِلم جانتے ہيں کہ جتنے زيادہ نوٹ چھاپے جائيں اتنی پاکستانی روپے کی قدر کم ہوتی جاتی ہے اور اتنی ہی قساد بازاری [Inflation] بڑھ جاتی ہے ۔ جتنی قساد بازاری بڑھتی جائے اتنی مہنگائی بڑھتی جاتی ہے
چنانچہ جب تک حکمران اسی طرح عياشياں کرتے رہيں گے تب تک قوم غريب سے غريب تر اور غريب تر سے غريب ترين ہوتی جائے گی ۔ موجودہ حکمرانوں نے خود ہی بڑے طمطراق سے آئين ميں اٹھارہويں ترميم منظور کی ہے جس کے مطابق وزراء کی تعداد اسمبلی کے کل اراکين کی تعداد کا 11 فيصد سے زيادہ نہيں ہونا چاہيئے ۔ خود حکومت ہی اس آئين کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے ۔ پی پی پی ۔ ق ليگ ۔ ايم کيو ايم اور اے اين پی سب ميلہ لُوٹ رہے ہيں اور نام نہاد عوام ان کيلئے آپس ميں لڑ لڑ کے مرتے جا رہے ہيں
ميرے مولا تيرے يہ پاکستانی کہلانے والے بندے کدھر جائيں ؟
مواد يہاں اور يہاں سے حاصل کيا گيا