Category Archives: خبر

ج جنجوعہ زندہ ہو گیا

جنجوعہ کے نام سے بلاگر واقف ہونگے ۔ وطن واپسی پر حالات میں گم ہو گئے تھے ۔ اب اُنہوں نے ایک تحریر لکھی ہے جس میں مجھے مندرجہ ذیل زیادہ اچھے لگے ۔

ہے حکم ربِ جلال کا .
اُترے گا طوق غلامی کا .
اور اب دور سُنہرا آئے گا .
محکوموں کی شاہانی کا .
ہم اہلِ صفا، مردودِ حرم .
بس چاہتے ہیں انصاف ہو .
تجھ سے کہتے ہیں اے رب .
گھر جمھوریت کا آباد ہو .
اے رب . ابر کرم کا برسادے .
تو ہی اپنا جلوہ دکھلا دے .
جو ہاتھ اُٹھے تیری خلقت پر .
اُسے نشان عبرت کا بنا دے .
گر نہ ملی ۔ جو برحق ہے .
اذانِ جبریل و پیمبر ہے .
پڑھ لو نوشتہءِ دیوار کو .
ہم چھین کے لیں گے آزادی .

جیو ٹی وی کے دفتر پر حملہ

آج بعددوپہر ساڑھے چار کے قریب جیو ٹی وی کے دفتر واقع بلیو ایریا اسلام آباد پر مسلح پولیس نے ہلہ بول دیا شیشے توڑ دئیے سٹاف کو گالیاں دی اور  زد و کوب بھی کیا ۔ دفتر کے سربراہ نے وجہ پوچھی تو اسے دھکے دیئے گئے اور کہا گیا کہ اسلام آباد میں ہونے والے واقعات کیوں دکھا رہے ہو ؟  پہلے تھوڑے پولیس والے تھے تو سٹاف نے مزاحت کی اور ڈنڈے کھاتے رہے پھر درجنوں پولیس والے آ گئے اور دفتر میں آنسو گیس کے گولے بھی پھینکے ۔

اسلام آباد میں جی سکس تھری اور جی اور جی سکس فور سے لے کر شاہراہ دستور تک یعنی آبپارہ ۔ لال مسجد ۔ شاہراہ اتاترک ۔ بلیو ایریا کا مشرقی علاقہ وغیرہ میدانِ کارزار بنا ہوا ہے اور مظاہرین اور پولیس کے درمیان جنگ جاری ہے ۔ پولیس آنسو گیس ۔ ربڑ کی گولیاں اور پتھر استعمال کر رہی ہے جب کہ مظاہرین پتھروں سے جواب دے رہے ہیں ۔ ہر طرف آنسو گیس کا دھوآں دھوآں ہے ۔ یہ سلسلہ جمعہ کی نماز کے بعد یعنی تقریباً 2 بجے بعد دوپہر شروع ہوا تھا ۔ سب سے پہلے قاضی حسین احمد اور حافظ حسین احمد کو جمعہ کی نماز کے بعد گرفتار کیا گیا ۔ اس کے بعد تحریکِ انصاف ۔ مسلم لیگ [نواز] اورمتحدہ مجلس عمل کے کئی لیڈر اور کارکن گرفتار کئے گئے ۔ مظاہرین میں سے ایک کی پولیس تشدد سے ٹانگ ٹوٹ گئی ہے اور کئی زخمی ہوئے ہیں ۔

گرفتاریوں کا سلسلہ جمعرات سے ہی شروع ہو گیا تھا اور مسلم لیگ [نواز] اور متحدہ مجلس عمل کے 100 کے قریب ارکان گرفتار کر لئے گئے تھے ۔ راولپنڈی اور اسلام آباد آنے والے تمام راستوں کی مکمل ناکہ بندی کر دی گئی تھی ۔ روالپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والی تمام سڑکوں کی بھی مکمل ناکہ بندی تھی ۔ اسی طرح اسلام آباد کے اندر شاہراہ دستور کی طرف جانے والے تمام راستے بند کر دیئے گئے تھے ۔ لوگ کھائیوں ۔ نالوں اور نامعلوم کہاں کہاں سے ہوتے ہوئے شاہراہ دستور کے قریب پہنچ گئے اور متواتر پہنچتے رہے ۔

آج دوپہر 12 بجے حکومت نے اسلام آباد میں انٹرنیٹ بند کر دیا تھا جو آئی ایس پیز اور کسٹمرز کے شور مچانے پر ایک گھینٹہ بعد بحال ہوا اور 3 بجے بعد دوپہر پھر بند کر دیا گیا پھر میں کمپوٹر بند کر کے ٹی وی دیکھنے لگ گیا ۔ 5 بجے کمپیوٹر چلایا تو انٹرنیٹ بحال ہو چکا تھا ۔

واقعات

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی معطلی کے خلاف پیر کو پاکستان کے چاروں صوبوں میں وکلاء نے زبردست احتجاج کیا ۔ بی بی سی پر لاٹھی چارج کے مناظر دیکھنے کیلئے یہاں کلک کیجئے ۔ لاہور میں احتجاجی مظاہرے پر پولیس کے لاٹھی چارج سے 40 وکلاء زخمی ہوئے اور 25 کے قریب گرفتار کر لئے گئے ۔

Two private TV channels remained off air for some time on Monday after getting a warning from the government’s media regularity authority for showing pictures of police baton-charge on protesting lawyers in Lahore against the suspension of Chief Justice Iftikhar Mohammad Chaudhry.

It was the Aaj TV which first showed the footage of police chasing and beating the protesting lawyers on the streets of Lahore at around 1pm. The TV channel showed senior Supreme Court lawyer Sardar Latif Khosa with a bleeding head being taken by colleagues for medical treatment. After a while, another private TV channel, Geo News, aired the footage of the same incident.

After some time, the two channels went off the air simultaneously. The transmission of the two channels resumed after several minutes with a different footage of the Lahore incident. Sources told Dawn that an official of the Pakistan Electronic Media Regulatory Authority (Pemra) in Sindh contacted the managements of the channels on telephone and told them not to telecast the scenes of police action against lawyers.

They said the Pemra official was particularly angry over the scenes in which Latif Khosa was shown bleeding from a cut on his head.

بی بی سی کی خبریں اختصار کے ساتھ

تبصرہ خطوط وحدانی یعنی [ ] کے اندر ہے

اگر اس وقت تک سپریم جوڈیشل کونسل غیر مؤثر چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کرسکی تو جسٹس بھگوان داس کی موجودگی سے کونسل کی ہیت کے بارے میں آئینی سوالات اٹھ سکتے ہیں اور یہ بات مضحکہ خیز لگے گی کہ ملک کا سب سے سینئر جج کونسل سے باہر بیٹھا ہو‘۔
[اسی لئے جسٹس بھگوان داس کے چھٹھ پر جانے کے بعد یہ قدم اُٹھایا گیا ہے ورنہ ایسی کوئی ایمرجنسی نہ تھی]

انگریزی اخبار ’دی نیشن‘ کے اداریے کا عنوان ہے: ’سیاست کون چمکا رھا ہے‘۔
اخبار کی رائے ہے کہ ’ایک جانب تو حکومت مسلسل یہ کہہ رہی ہے کہ ایک آئینی اور قانونی مسئلے کو سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔ دوسری جانب سندھ کے وزیرِ اعلیٰ ارباب غلام رحیم دھڑلے سے غیرمؤثر چیف جسٹس کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
[ملک کے آئین اور قانون کے تحت صدر اور چیف آف آرمی سٹاف دونوں کو سیاسی جلسوں میں میں شرکت کی اجازت نہیں اور پرویز مشرف صاحب سیاسی جلسوں میں باقاعدہ تلقین کرتے پھرتے ہیں کہ اُسے ووٹ دیں جو مجھے صدر بنائے]

اخبار نے سوال اٹھایا ہے کہ ’اگر جسٹس افتخار پر کوئی پابندی نہیں تو ان کی صاحبزادی کو اپنی ایک دوست کو یہ ایس ایم ایس کیوں بھیجنا پڑا کہ گھر میں مسلح افراد گھس آئے ہیں اور ہمیں ایک کمرے تک محدود کردیا گیا ہے‘۔

اخبار ’ایکسپریس‘ نے خبر دی ہے کہ ’حکومتِ سندھ کے سو سے زائد افسران اور ملازمین کی فہرست تیار کی گئی ہے جو طلب کرنے پر سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے جسٹس افتخار کے سخت گیر اور نامناسب رویے کے بارے میں گواہی دیں گے۔اس فہرست میں چپڑاسی اور ڈرائیور بھی شامل ہیں‘۔

اخبار دی نیوز میں یہ رپورٹ شائع ہوئی ہے کہ ’سپریم جوڈیشل کونسل میں شامل تین میں سے ایک جج کے خلاف مبینہ طور پر زمین کی ہیراپھیری اور دوسرے جج کے خلاف مالیاتی بے قاعدگیوں کا ریفرنس پہلے ہی سے کونسل میں زیرِ التوا ہے۔ جبکہ تیسرے جج کی صاحبزادی کو ایک چیف منسٹر کے کوٹے پر میڈیکل کالج میں داخلہ ملا ہے‘۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’چونکہ جسٹس افتخار چوہدری پر سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رہائش گاہ کو بلا استحقاق استعمال کرنے کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔ اس لیے صوبائی چیف جسٹس متاثرہ فریق ہیں اور انہیں سپریم جوڈیشل کونسل میں نہیں بیٹھنا چاہیے‘۔

’اسی طرح قائمقام چیف جسٹس جاوید اقبال کے غیر مؤثر چیف جسٹس کے خلاف الزامات کی سماعت سے مفادات کا ٹکراؤ ہوسکتا ہے کیونکہ اگر کونسل ان کی صدارت میں جسٹس افتخار کی بحالی کا فیصلہ دیتی ہے تو پھر جسٹس جاوید اقبال کے مستقل چیف جسٹس بننے کے امکانات ختم ہوسکتے ہیں‘۔

رپورٹ کے مطابق ’اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے ججوں کے خلاف تیئس ریفرنس اور شکایات پڑی ہیں جن میں سے کئی برسوں پرانی ہیں‘۔

اخبار ’ڈیلی ٹائمز‘ کی شہ سرخی ہے: ’ٹی وی، اخبار اور ٹیلی فون۔ چیف جسٹس کے لئے شجرِ ممنوعہ‘۔
[یہ بھی صرف اُس آئین کا حصہ ہے جس کا نام پرویز مشرف ہے]

اخبار نے وفاقی وزیرِ پارلیمانی امور ڈاکٹر شیر افگن کا یہ بیان شائع کیا ہے کہ ’وکیل نعیم بخاری نے اپنے کھلے خط میں جسٹس افتخار کے صاحبزادے سے متعلق کیس کا جو حوالہ دیا ہے وہ سیاق و سباق سے بالکل ہٹ کر ہے اور نعیم بخاری نے اپنے خط کے ذریعے صدر اور چیف جسٹس میں خلیج پیدا کی ہے‘۔
[بھانڈا پھُوٹا چوراہے میں اسی کو کہتے ہیں]

آج کی خبریں

سنا تھا کہ جب ظلم کی انتہاء ہو جائے تو پتھر بھی بول پڑتے ہیں لیکن ہماری قوم نے نہ جانے کونسا نشہ پی رکھا ہے کہ اس کے اْوپر سے شاید ہاتھی بھی گذر جائے تو اسے پتہ نہ چلے ۔ جو کچھ 9 مارچ کو بعد دوپہر اسلام آباد میں ہوا اگر کسی اور ملک میں ہوتا تو وہاں کے تمام باشندے سڑکوں پر نکل آتے ۔ دور کی بات کیا کرنا اگر ایسا واقعہ بنگلہ دیش میں بھی ہوتا تو دو دن کے اندر وہاں کے صدر اور وزیراعظم کو اپنی کرسیاں چھوڑنا پڑ جاتیں ۔

کمال تو یہ ہے کہ سب سے زیادہ شائع ہونے کا دعوٰی کرنے والے اُردو اخبار “جنگ” اور انگریزی اخبار ” دی نیوز” حکومت کا مؤقف انتہائی جانبداری سے نمایاں طور پر شائع کر رہے ہیں ۔ ڈان اور نیشن نے متوازن خبریں باقاعدہ حوالوں کے ساتھ چھاپی ہیں ۔ پڑھئیے ڈان کی خبریں ۔ اور آخر میں جسارت کی ایک چونکا دینے والی خبر ۔

چیف جسٹس صاحب گھر میں نظربند

چیف جسٹس صاحب کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا

انصاف کے آخری نشانات کی بربادی کی طرف

نعیم بخاری کا وکالت کا لائیسنس کینسل کر دیا گیا

لاپتہ افراد کا معاملہ مت چھیڑو ۔ مجھے حکومت کرنے دو ۔

اور اب کُلہاڑا چل گیا

پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام لگاتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو معطل کر کے ان کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کردیا ہے۔ محترم جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب کے عہدے کی میعاد 2011 عیسوی میں ختم ہونا تھی ۔ 

ذرائع کے مطابق ریفرنس دائر کرنے سے پہلے صدر مشرف نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بلا کر ان سے استعفیٰ طلب کیا تھا۔ لیکن جسٹس افتخار چوہدری نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔


ایک ماہ پہلے کی خبر

پاکستان کی پہلی قومی جوڈیشل کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے جج میں احساس تحفظ ضروری ہے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ جج کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ اگر وہ انتظامیہ کی مرضی کے مطابق فیصلہ نہیں بھی دے گا تو اسے برطرف نہیں کیا جا سکے گا اور اس کی مخالفانہ رائے اس کی کسی بلاجواز سزا کا سبب نہیں بنے گی۔

یہ مشترکہ اعلامیہ چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے پڑھ کر سنایا جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے آڈیٹوریم میں ہونے والی تین روزہ قومی جوڈیشل کانفرنس سے اختتامی خطاب کر رہے تھے۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ججوں کے عہدے کی مقررہ معیاد کی ضمانت ہونی چاہیے تاکہ وہ ان مقدمات میں بھی اپنی دیانتدارانہ رائے دے سکیں جن میں ریاست کا کوئی اہم حصہ فریق ہو۔ تاہم انہوں نے عدلیہ کے خود احتسابی کے کڑے نظام کی موجودگی پر بھی زور دیا۔

ہوا یوں کہ ۔ ۔ ۔

میں نے بلاگرز کو 3 مارچ کو مطلع کیا تھا کہ پی ٹی اے نے کچھ اور ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا حُکم دیا اور پی ٹی سی ایل نے متعلقہ ساری ڈومینز بلاک کر دیں ۔ یہ واردات 2 مارچ کو ہوئی تھی ۔ اس کے نتیجہ میں سینکڑوں ویب سائٹس بلاک ہو گئیں اور بہت سی تجارتی کمپنیوں کے کام میں خلل آیا ۔ آئی ایس پیز کو بھی خسارہ کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ وہ والیوم بیس پر چارج کرتے ہیں ۔ یہ خبر 4 مارچ کے دی نیوز میں چھپی تھی ۔

انٹرنیٹ استعمال کرنے والے آئی ایس پیز کے پیچھے پڑ گئے اور آئی ایس پیز کے مالکان پی ٹی اے کے پیچھے پڑ گئے ۔ جس کے نتیجہ میں بلاکنگ کا کام جو ابھی مکمل بھی نہ ہو سکا تھا 4 مارچ کو ختم کر کے بلاکنگ ختم کر دی گئی ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ 4 مارچ سے بلاگسپاٹ کے بلاگ بھی کھُلنے لگے ۔ اللہ کرے پی ٹی سی ایل والوں کا دماغ پھر سے نہ پھر جائے ۔

انٹر نیٹ پر تلوار چل گئی

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے قابلِ اعتراض مواد شائع کرنے کے بہانے سے آئی ٹی آئی کو کچھ ویب سائٹس بلاک کرنے کا حکم دیا جس کے نتیجہ میں اب تک کی معلومات کے مطابق مندرجہ ذیل ویب سائٹس اور ان پر بنے ہوئے بلاگز یا تو کھُلتے نہیں یا بہت سُست رفتار سے کھُلتے ہیں یا مکمل طور پر نہیں کھُلتے ۔

Yahoo
Microsoft
Download.com
Symantec
PC World
MTV
Best Buy
Logitech

لگتا ہے ہماری حکومت ہماری قوم کو تیزی سے جہالت کی طرف دھکیلنا چاہتی ہے