Category Archives: خبر

آج اور اے آر وائی کے بعد جیو نیوز کی نشریات بند

جیسا کہ میں 3 مئی کو لکھ چکا ہوں ٹی وی چینلز ” آج ” اور ” اے آر وائی ون ” اسلام آباد ۔ پشاور ۔ لاہور اور ان کے گرد و نواح شہروں کیلئے جمعہ یکم مئی سے بند ہیں ۔ سوائے ڈراموں اور ناچ گانے کے ۔ اتوار 3 مئی کو جیو نیوز چینل تقریباً تمام ملک کیلئے بند کر دیا گیا ۔ جنگ گروپ اس حقیقت کو اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہے

ڈاکٹر شاہد مسعود کا مقبول پروگرام ”میرے مطابق“ دکھانے پر حکومت نے ”جیو نیوز“ کی نشریات ملک بھر میں بند کر دی ہیں۔ واضح رہے کہ ریکارڈ شدہ یہ پروگرام نشر ہونے سے دو گھنٹے قبل اتھارٹیز نے ”جیو“ کی انتظامیہ کو پروگرام نشر نہ کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ پروگرام چلایا گیا تو ہم اسے خود بند کر دیں گے اور ایسا ہی کیا گیا جبکہ باقی ساری دُنیا امریکا، کینیڈا، یورپ، برطانیہ، ایشیا، مشرق وسطیٰ وغیرہ میں پروگرام نشر ہوا۔ اس پروگرام میں ملک کے نامور دانشوروں جسٹس [ریٹائرڈ] ناصر اسلم زاہد، ۔ سابق چیف آف آرمی اسٹاف اسلم بیگ اور حکمران مسلم لیگ کے رہنما کبیر علی واسطی نے ملک کے موجودہ حالات پر روشنی ڈالی تھی اور ملک کو بحران سے نکالنے کیلئے گرانقدر تجاویز پیش کی تھیں۔

پروگرام نشر ہونے سے پہلے ڈاکٹر شاہد مسعود کو دو فون بھی موصول ہوئے جن میں دھمکی دی گئی کہ ہم نے آپ کے لئے لٹھا تیار کرلیا ہے۔ آپ ویسے بھی لمبے چوڑے آدمی ہیں آپ کیلئے کتنا لٹھا چاہئے ہوگا بتا دیں۔ علاوہ ازیں چند روز قبل ”جیو“ کی انتظامیہ سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا تھا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کو چھٹی پر بھیج دیا جائے۔ یاد رہے کہ ٹی وی چینل ”آج“ کی پنڈی، اسلام آباد اور قریبی علاقوں میں نشریات بند ہیں۔ اسی طرح چینل اے آر وائی کی نشریات بھی پنڈی، اسلام آباد، پشاور وغیرہ میں روک دی گئی ہیں۔

ڈاکٹر شاہد مسعود کے اس پروگرام میں جو ریکارڈڈ تھا جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ نے جواب دیتے ہوئے کہا تھاکہ میں سمجھتا ہوں کہ اب حالات جس نہج پر پہنچ گئے ہیں اور ہر شخص کو سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کا آنے والا فیصلہ صدارتی ریفرنس کے متعلق ایک تاریخی فیصلہ ہوگا۔ آج ہمارے بار اور بنچ نے اور ان کے ساتھ ہمارے عوام نے مل کر اس تحریک کو جس مقام پر پہنچایا ہے اس سے حکومت خوفزدہ ہے اور یہ تمام نشانیاں ہیں اس کی خوف کی اور ڈر کی جب اقتداران کے ہاتھ سے جانے والا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج پہلی دفعہ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آرمی ، چیف اپنے ماتحت فارمیشن کمانڈر سے اپنے اقتدار کی ضمانت مانگ رہا ہو یہ بڑے تعجب کی بات ہے یعنی میں تو اسے اعتراف شکست کہتا ہوں۔ آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا ، بھٹو صاحب جب وزیراعظم تھے تو ان سے فوج نے کہا کہ ہم اس حکومت کے ساتھ ہیں اور آخر وقت تک ساتھ رہیں گے لیکن چند دنوں بعد مارشل لاء لگا دیا ۔ بھٹو صاحب کی حکومت ختم ہوگئی، آج کون کور کمانڈر یا فارمیشن کمانڈر یہ ہمت کر سکتا ہے کہ صدر کے سامنے کہہ دے کہ میں آپ سے اختلاف کرتا ہوں۔ کور کمانڈروں کا حالیہ بیان بے معنی ہے اور اعتراف شکست ہے کسی آرمی چیف کو اپنے فارمیشن کمانڈرز سے سفارش کی ضرورت نہیں ہوتی

جب میں سنتا ہوں کہ حکمران جماعت کا سربراہ یہ کہتا ہے کہ فوج کے خلاف بات کرنے والوں کو گولی مار دی جائے تو مجھے حیرت ہوتی ہے یہ پاگل پن ہے ۔ چوہدری شجاعت یہ بات کئی دفعہ کہہ چکے ہیں اسی طرح سے اگر کوئی عدلیہ کی بے عزتی کرتا ہے اس کو بھی کہنے کا
حق ہوگا کہ ہر اس شخص کو گولی مار دو جو عدلیہ کے ساتھ اور چیف جسٹس کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرتا ہے یہ بڑی خطرناک ذہنیت ہے ایسے لوگوں سے دور رہنے کی ضرورت ہے۔

حکمران مسلم لیگ کے سینئر نائب صدر کبیر علی واسطی نے بتایا کہ اسلام آباد میں صورتحال اچھی نہیں ہے اور بہت ابہام ہے۔ جب سے چیف جسٹس کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے حکومت بلاوجہ بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ ایوان صدر میں اس بات کا بہت زیادہ احساس کیا جا رہا ہے اور غلطیاں بھی ایوان صدر ہی کی ہیں کسی نے کوئی سازش نہیں کی ہے نہ ہی کوئی ایجنسی ، کوئی شخص یا ادارہ اس میں شامل ہے اس بحران کے ذمہ دار صدر مشرف ہیں جنہوں نے خود قبول کیا ہے کہ یہ میں نے کیا ہے، ریفرنس میں نے بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صدر کا یہ کہنا غلط ہے کہ چیف جسٹس پر الزامات تھے اس لئے ان کے خلاف ریفرنس بھیجا گیا۔ قوم ان باتوں کو قبول نہیں کر رہی ۔ انہوں نے کہا کہ کمانڈروں کی طرف سے جو بیان دلوایا گیا وہ بلاضرورت تھا اگر اس کی ضرورت تھی تو صدر صاحب اپنی کمزوری کا اظہار کر رہے ہیں۔ فوج کا ادارہ قومی ادارہ ہے قوم اس کی عزت کرتی ہے اور جس طرح صدر نے اس ادارے کو اپنے معاملات میں دھکیلنے کی کوشش کی ہے وہ بلاضرورت تھا۔ صدر صاحب کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا انہیں عوام کی حمایت دکھانی چاہئے کہ عوام ان کے ساتھ ہیں۔ کبیر واسطی نے کہا کہ وہ مسلم لیگ کے سینئر عہدیدار ہونے کے باوجود یہ کہہ رہے ہیں کہ ساری صورتحال کے ذمہ دار صدر اور ان کے مشیر ہیں۔ وزیراعظم کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے جو اختیارات انہیں ڈکٹیٹ کرائے گئے ہیں ان ہی کے مطابق وہ چل رہے ہیں ان کو یہ اختیار بھی نہیں کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس بھیج سکیں۔ وزیراعظم ازخود کوئی ریفرنس نہیں بھیج سکتے ، چیف جسٹس کے بیان حلفی نے قوم کی آنکھیں کھول دی ہیں،اس میں بہت کچھ آگیا ہے،یہ پڑھنے والوں پر ہے کہ وہ اسے کیسے پڑھتے ہیں۔ ذمہ داری ہر طرح سے صدر کی ہے۔ ہم صدر صاحب کی بہت عزت کرتے ہیں ، بہت احترام کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ صدر صاحب اس ملک میں اپنا رول ادا کریں اور اگلے 5 سال بھی ان کو ملیں لیکن ہم چاہتے ہیں کہ وہ وردی اتاردیں اور اگلی اسمبلی سے انتخاب لڑیں تو ہم ان کے ساتھ ہیں اگر صدر نے موجودہ اسمبلی سے انتخاب لڑا تو بہت تباہی ہوگی۔ ایسی تباہی جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔

ایک جنرل کہتا ہے

سابق کور کمانڈر کوئٹہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر نے کہا کہ وفاقی حکومت گوادر کو اسلام آباد کا ایک سیکٹر بنانا چاہتی تھی جس کی انہوں نے مخالفت کی تھی اور ان کو استعفی دینے پر مجبور اس لیے کیا گیا کیونکہ وہ نواب اکبر بگٹی سے بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کر رہے تھے ۔ جنرل عبدالقادر کا کہنا ہے کہ ان کے دور میں وفاقی حکو مت میں ایسی سمری پیش کی گئی تھی جس میں گوادر کو اسلام آباد کا ایک سیکٹر بنائے جانے کی تجویز تھی جس پر اس وقت کے وزیر اعظم ظفراللہ جمالی نے کابینہ میں بحث کرنے کا کہا تھا۔ جنرل (ر) عبدالقادر نے کہا کہ بلوچستان کے گورنر کے طور پر انہوں نے اس کی مخالفت کی تھی جبکہ وزارت داخلہ کا مؤقف تھا کہ اس کے بغیرگوادر میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہیں کی جا سکتی جو غیر ملکیوں کو سرمایہ کاری کے لیے چاہیے۔

جنرل عبدالقادر نے کہا کہ گوادر کے حوالے سے قوم پرستوں کے خدشات دور کیے جا سکتے ہیں کیونکہ بقول ان کے اس وقت کراچی کی طرح کوئی بڑی آبادی گوادر آنے والی نہیں ہے اور نہ ہی یہاں بڑی صنعتکاری کی توقع ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گوادر در اصل فوجی ضروریات کے حوالے سے اہم ہے کیونکہ پاکستان کو کراچی کے علاوہ ایک اور بندرگاہ کی ضرورت ہے جوگوادر بہتر طور پر پورا کر سکتا ہے۔ جنگ کی صورت میں گوادر بندرگاہ کا محاصرہ نہیں کیا جا سکتا جبکہ کراچی بندرگاہ کو بلاک کیا جا سکتا ہے۔

بلوچستان میں فوجی کارروائی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ستائیس اٹھائیس جولائی سال دو ہزار تین کو انہوں نے نواب اکبر بگٹی سے مذاکرات کیے اور مسئلہ سوئی گیس فیلڈ میں ایک سو دو ملازمین کو مستقل کرنے کا تھا جسے انہوں نے حل کر دیا اور وہ خوش تھے کہ صدر پرویز مشرف اس کامیابی پر خوش ہوں گے۔ لیکن ان کے بقول جب تین اگست کو وہ اسلام آباد پہنچے تو وہاں کوئی اور ان کا انتظار کر رہا تھا جس نے ان سے کہا کہ سوری ہم مزید ساتھ نہیں چل سکتے۔

جنرل عبدالقادر نے کہا کہ نواب اکبر بگٹی کے ساتھ مذاکرات میں جو دیگر لوگ شامل تھے شاید وہی پہلے پہنچ گئے اور انہوں نے آگے کیا بتایا کہ انہیں بطور گورنر بلوچستان استعفی دینے پر مجبور کیاگیا ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اسی لیے تعینات کیا گیا تھا کہ بات چیت شروع کی جائے لیکن حکومت میں سخت گیر رویہ (ہاکش اٹیچیوڈ) رکھنے والے لوگ مذاکرات پر نہیں بلکہ ڈنڈے کا استعمال چاہتے تھے۔
اس کے بعد حالات بگڑتے گئے اور شازیہ خالد کیس اور گیس پائپ لائن پر حملوں کے بعد دو ہزار پانچ میں کارروائی شروع کی گئی ۔ جنرل عبدالقادر نے بتایا کہ ان کے دور میں نواب اکبر بگٹی اسلام آباد جانے کو تیار ہو گئے تھے اور سوئی ایئر پورٹ پر چار گھنٹے تک جہاز کا انتظار کرتے رہے لیکن جہاز نہیں آیا اور وہ واپس چلے گئے اور اس کو نواب اکبر بگٹی نے اپنی بے عزتی تصور کیا۔ انہوں نے کہا کہ نواب اکبر بگٹی نے کبھی پاکستان کے خلاف بات نہیں کی اور اس کا اعتراف ان کے مخالف بھی کرتے ہیں۔

بلوچستان کو اس کے حقوق فراہم کرنے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہے کہ زمین کے اوپر اگنے والی اشیاء پر صوبوں کا کنٹرول ہو اور زمین کے نیچے پیدا ہونے والی اشیاء وفاق کے پاس ہوں۔ بلوچستان میں نہ تو نہریں ہیں اور نہ ہی دریا یہاں تو صرف پہاڑ اور پتھر ہیں۔ اگر یہی فارمولا ہی درست سمجھ لیا جائے تو اس کے تحت کنویں سے نکلنے والی گیس کی قیمت بلوچستان کو صفر اعشاریہ تین آٹھ ڈالر فی ہزار مکعب فٹ کے حساب سے ملتی ہے جو چھ ارب روپے بنتی ہے جبکہ پنجاب کو تین ڈالر فی ہزار مکعب فٹ کے حساب سے دی جاتی ہے۔ اگر پنجاب کو دی جانے والی قیمت ہی لگا دی جائے تو بلوچستان کو چالیس ارب روپے ملیں گے ۔

جنرل عبدالقادر نے کہا کہ بلوچستان میں پانچواں فوجی آپریشن جاری ہے لیکن کسی نے بلوچستان کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ آخر یہاں مسئلہ کیا ہے ۔ ’اگر کوئی غدار ہے اور اس نے جرم کیا ہے تو اسے سزا دی جائے۔ یہ کیا کہ فوجیں بھیج کر آپریشن شروع کر دیا جاتا ہے جس میں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں اور پھر وہ مرکز سے دور ہوتے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت بلوچستان کا نوجوان باہر کی طرف دیکھ رہا ہے۔‘ انہوں نے تجویز دی کہ بلوچستان میں فوجی کارروائی بند کرکے مذاکرات شروع کیے جائیں اور لوگوں کے نقصانات کا ازالہ کیا

کراچی کیا لاہور کیا

کراچی میں کسی کو پستول دکھا کر موبائل فون چھین لیا جائے تو کوئی خبر نہیں ہوتی ۔ کراچی میں میٹرو بس میں سفر کرتے ہوئے میرے بھتیجے کا دو سال میں دو بار موبائل فون چھینا جا چکا ہے ۔ کراچی میں کوئی دن نہیں ہوتا جب کم از کم 50 موبائل فون نہ چھینے جائیں ۔ اب یہ وباء پنجاب میں بھی پھیل رہی ہے ۔ پچھلے سال میرے ایک بھانجے کو موٹر سائیکل سوار نے دھکا دیا وہ زمین پر گرا اور اس کا موبائل ہاتھ سے گر گیا جو موٹر سائیکل سوار لے گیا ۔ آج صبح لاہور میں میرا ایک اور بھانجا جو پیتھالوجسٹ ہے اتفاق ہسپتال اپنی ڈیوٹی کیلئے پہنچا ۔ کار پارک کر کے چلا ہی تھا کہ ایک موٹر سائیکل سوار نے پستول کنپٹی پر رکھ کر کہا “موبائل اور جو کچھ ہے نکال دو” اور بیش قیمت موبائل فون اور بٹوا لے کر چلا گیا ۔ لاء اینڈ آرڈر حکومت کے کنٹرول میں ہونے کے باعث بے کار ہو چکا ہے ۔

مزید وضاحت

 

مسجد الاقصٰی اور مسجد القُبة السّخراء کا درمیانی فاصلہ کوئی 160 میٹر ہو گا ۔ دیکھئے فضاء سے لی گئی  تصویر ۔ مسجد الاقصٰی بائیں جانب کی فصیل کے ساتھ ہے اور مسجد القُبة السّخراء داہنی جانب سنہرے گنبد والی ہے ۔

سپریم کورٹ کا نیا بینچ

سپریم جوڈیشل کونسل کی جسٹس افتخار محمد چودھری کے خلاف صدارتی ریفرنس کی کارروائی معطل کی جا چکی ہے اور اب قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس نے سپریم کورٹ کا فل کورٹ تشکیل دے دیا ہے جو چودہ مئی سے روزانہ صدر مشرف کے خلاف غیر فعال چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی آئینی درخواست کی سماعت کرے گا ۔ سپریم کورٹ میں ججوں کی سینارٹی لسٹ کے مطابق فل کورٹ کی سربراہی جسٹس خلیل الرحمن رمدے کریں گے جبکہ اس کے باقی ارکان میں جسٹس محمد نواز عباسی ۔ جسٹس فقیر محمد کھوکھر ۔  جسٹس فلک شیر ۔ جسٹس میاں شاکر اللہ جان  ۔ جسٹس ایم جاوید بٹر ۔ جسٹس تصدیق حسین جیلانی ۔  جسٹس سید سعید اشہد ۔ جسٹس ناصر الملک  ۔ جسٹس راجہ فیاض  ۔ سٹس چودھری اعجاز احمد  ۔ جسٹس سید جمشید علی  ۔ جسٹس حامد علی مرزا  اور جسٹس غلام ربانی شامل ہوں گے۔

مسجد اقصٰی اور قبة الصخراء

اِسے جہالت کہا جائے ہَڈدھرمی کہا جائے یا معاندانہ پروپیگینڈا ؟ میں پچھلے پانچ چھ سال سے دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے ملکی اخباروں میں جب بھی قبلۂِ اوّل یعنی مسجدالاقصٰی کی خبر کے ساتھ تصویر چھاپی جاتی ہے تو وہ مسجد الاقصٰی کی نہیں ہوتی بلکہ قبة الصخراء کی ہوتی ہے ۔

میں نے ماضی میں دی نیوز اور ڈان جن میں مسجدالاقصٰی کے حوالے سے قبة الصخراء کی تصویر چھپی تھی کے مدیروں کو خطوط لکھے اور ساتھ دونوں مساجد کی تصاویر بھیجیں کہ وہ تصحیح کریں لیں نہ تو تصحیح کی گئی نہ مستقبل میں اس پر کوئی عمل ہوا اور نہ ہی میرے خطوط مدیر کی ڈاک میں شامل کئے گئے ۔ کچھ عرصہ بعد پھر اخبار میں جب مسجد الاقصٰی کا ذکر آیا تو ساتھ تصویر قبة الصخراء کی چھپی ۔

میں نے اپنے ملک میں کئی گھروں میں قبة الصخراء کی تصویر یا ماڈل رکھا ہوا دیکھا جسے وہ مسجدالاقصٰی بتاتے تھے ۔ یہی نہیں میں نے قبة الصخراء کے پلاسٹک ماڈل سعودی عرب میں معمولی قیمت پر عام بِکتے دیکھے ہیں جو کہ ہند و پاکستان کے زائرین قبلہ اول یعنی مسجدالاقصٰی سمجھ کر خرید لاتے ہیں

یہ ہے مسجد الاقصٰی کی تصویر


اور یہ ہے قبة الصخراء کی تصویر

نیچے داہنی جانب قبة الصخراء ہے اور بائیں جانب مسجد الاقصٰی ہے
Al-Aqsa-6 Cropped1

یہاں کلک کر کے قبۃ الصخراء کی تاریخ پڑھیئے

انٹرنیٹ کے دُشمن

میرے پاس مائیکرونیٹ براڈ بینڈ کا ڈی ایس ایل کنیکشن ہے ۔ آج دوپہر کے بعد سے انٹرنیٹ نہیں چل رہا تھا ۔ مغرب کے وقت چلنا شروع ہوا اور وہ بھی مکمل نہیں ۔ اس دوران میں نے آئی ایس پی کو ٹیلیفون کیا اور میں بِیسویں کالر کے طور پر قطار میں لگ گیا ۔ دس منٹ بعد میں نمبر سات پر پہنچا پھر میں نے ٹیلیفون بند کر دیا ۔ مغرب کے وقت جب انٹر نیٹ چالو ہوا تو مجھے نے آئی ایس پی کی ای میل آئی جس کا لُبِ لُباب یہ ہے

پی ٹی اے کے حُکم پر پی ٹی سی ایل نے کچھ سرورز کی آئی پُیز بلاک کر دی ہیں ۔ وجہ یہ بتائی ہے کہ ان سرورز کو استعمال کرنے والی کسی ویب سائیٹ نے قابلِ اعتراض مواد شائع کیا تھا ۔ قارئین کی خاطر مکمل ای میل انگریزی میں نیچے نقل کر دی ہے

On 5/2/07, MBL Support Department  wrote:
Dear Valued Customer,

Kindly note, that on directives of PTA, PTCL has blocked IPs of some of the web servers due to which some of the websites are not opening at all and some of the websites are opening up but their contents are being displayed partially. Please note, sites like Microsoft, Yahoo, etc. pull their content from different servers distributed across different networks. The reason for blocking these web servers IPs is that these web servers are hosting some websites which are displaying objectionable material. PTCL has blocked the web servers which might be hosting sites which are not accessible or partially accessible to our valued customers, instead of blocking the particular website.

We are in constant contact with PTA and have requested them to come up with a mechanism following which PTCL blocks undesirable content websites and not complete web servers, so that connectivity with legitimate content is not disturbed. As soon as we have an update regarding this issue, it will be communicated to our valued customers.

We apologize for the inconvenience and appreciate your patience.
Best Regards
Manager
Technical Assistance Center
Micronet Broadband (Pvt) Ltd.