جمعہ 17 جنوری 2014ء کو جب میں اسلام آباد میں تھا تو میرے ساتھ ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا ۔ سوچا کہ اسے عام کر دیا جائے تاکہ سادہ لوح جوان کہیں نقصان نہ اُٹھا لیں ۔ سہ پہر کے وقت مجھے بتایا گیا کہ باہر کوئی شخص آیا ہے ۔ میں گھر کے دروازہ سے نکل کر گیٹ کی طرف روانہ ہوا ۔ وہ شخص مجھے دیکھ کر بے تکلفی سے گیٹ کھول کر میری طرف چل پڑا ۔ میں نے قریب پہنچ کر سلام کیا تو بولا
اجنبی ”آپ نے پہچانا نہیں ؟“۔
میں ”نہیں“
اجنبی ”آپ کہاں سے ریٹائر ہوئے تھے ؟“
میں ”کیوں تمہارا تعلق واہ سے ہے ؟“
اجنبی ”میں کریم داد کا بیٹا ہوں“
اجنبی نے بال کالے اور داڑھی مہندی رنگ کی ہوئی تھی اور اُس کی عمر ساٹھ سال یا زیادہ تھی ۔ پاکستان آرڈننس فیکٹری میں ایک ڈرائیور کریم داد تھا ۔ اُس کا بیٹا اتنی زیادہ عمر کا نہیں ہو سکتا تھا ۔ لیکن اصل بات یہ تھی کہ کیا یہ اُسی کریم داد کی بات کر رہا ہے ؟ اگر ہے بھی تو میرا اُس سے کیا تعلق ؟ مجھے پی او ایف چھوڑے ہوئے بھی 19 سال سے زیادہ ہو چکے ہیں ۔ خیر ۔ میں نے نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا
”کیسے آئے ہیں ؟“
اجنبی نے مزید قریب ہو کر مدھم آواز میں رازداری کے انداز میں کہا ”بیٹی کے ہاں بچہ ہونے والا ہے جو آپریشن سے ہو گا ۔ ہسپتال میں پیسے جمع کرانے ہیں ۔ بھائی گاؤں چلا گیا ہے ۔ کل صبح آ جائے کا ۔ میری وقتی ضرورت ہے کل صبح واپس کر دوں گا“
نہ جان نہ پہچان ۔ میں تیرا مہمان ۔ میرے پاس رقم ہو تو میں بغیر کسی واسطے کے مدد کرنے کا عادی ہوں لیکن میرے پاس اُس وقت فالتو رقم نہ تھی
میں نے کہا ”میرے پاس اس وقت پیسے نہیں ہیں“
اجنبی بڑے قربت کے انداز میں بولا ”گھر سے پتہ کر لیں ۔ اتنے زیادہ نہیں ہیں نکل ہی آئیں گے ۔ میں صبح سویرے واپس کر دوں گا“
میں ” میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔ گھر سے کیا مطلب ؟ میں گھر میں شامل نہیں ؟“
اسکے بعد میں واپس آ گیا ۔ وہ واپس چلا گیا ۔ اُس کے چہرے پر مجھ سے بات کرنے سے قبل اور ناکام واپس جاتے ہوئے کسی قسم کی پریشانی یا فکر کے تاءثرات نہیں تھے