Category Archives: خبر

سری لنکا کے کھلاڑوں پر حملہ ۔ ایک تجزیہ

میں قارئین کا شکرگذار ہوں جنہوں نے میری صبح کی تحریر پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ میں صبح کچھ سودا سلف لینے گیا تھا ۔ واپس پہنچا تو میری ایک بھتیجی آئی بیٹھی تھی جو اسلام آباد ہی میں رہتی ہے ۔ اُس نے بتایا کہ” لاہور میری بھانجی کے گھر کے قریب فائرنگ ہو رہی ہے”۔ قذافی سٹیڈیم کے قریب میرا ایک پھوپھی زاد بھائی بھی رہتا ہے ۔بھانجی سے رابطہ کیا تو اُس نے بتایا کہ اُس کا خاوند بچی کو صبح سکول چھوڑنے نکلا تو کوئی 15 منٹ بعد دو گرینیڈ چلنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی متواتر فائرنگ شروع ہو گئی جو کہ 25 منٹ جاری رہی ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے”۔ اس کے بعد ہم ٹی وی دیکھنے لگ گئے ۔

اب تک جو کچھ مختلف ٹی وی چینلز پر دکھایا اور کہا گیا ہے اس سے مندجہ ذیل عمل واضح ہوتے ہیں

1 ۔ حملہ آور 25 منٹ منظر پر موجود رہے اور پوری تسلی سے کاروائی کرتے رہے ۔ پھر فرار ہو گئے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ کوئی حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے اور نہ ایسے واقعات سے نبٹنے کی کوئی تیاری تھی ۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ حکومت کا کہیں وجود ہی نہیں ہے

2 ۔ پنجاب میں اپنے ہی پیدا کردہ بحران پر غور کرنے کیلئے گورنر ہاؤس میں روزانہ رات گئے تک اجلاس ہوتے رہے مگر اس میں کرکٹ ٹیموں اور شائقین کی حفاظت کے بندوبست کا ذکر تک نہ آیا

3 ۔ صدر ۔ گورنر پنجاب اور اُن کے حواری صوبائی اسمبلی کے ارکان کی جوڑ توڑ اور سرکاری اہلکاروں کی اُکھاڑ پچھاڑ میں اس قدر محو تھے کہ اُن میں سے کسی کو لاہور میں ہونے والے کرکٹ میچ کی سکیورٹی کا خیال ہی نہ آیا

4 ۔ سب کچھ ہو جانے کے بعد بیان دیئے جا رہے ہیں کہ حملہ آوروں کو جلد زندہ یا مردہ گرفتار کر لیا جائے گا ۔ کسی مسکین غریب کی شامت آئی لگتی ہے ۔ جو حکومتی اہلکار 25 منٹ کی کاروائی ڈالنے والوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے وہ غائب ہو جانے والوں کو کہاں سے پکڑ لائیں گے ؟
5 ۔ حسب سابق اسلحہ کے ساتھ کچھ خودکُش حملہ میں استعمال ہونے والی جیکٹیں برآمد کی گئی ہیں ۔ کیا یہ قرینِ قیاس ہے کہ جو جیکٹیں استعمال ہی نہ کرنا تھیں کیونکہ پہنی ہوئی نہ تھیں وہ حملہ آور ساتھ کیوں لائے تھے ۔ کیا اپنا بوجھ بڑھانے کیلئے یا پولیس کو تحفہ دینے کیلئے ؟ نمعلوم کب تک ہمارے نااہل حکمران ہمیں اور اھنے آپ کو دھوکہ دیتے رہیں گے

6 ۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ جن شخص کو سلمان تاثیر نے زرداری کی منظوری سے پنجاب کا انسپیکٹر جنرل پولیس لگایا ہے یہ وہی شخص ہے جو اُن دنوں گوجرانوالہ کا ڈپٹی انسپیکٹر جنرل پولیس تھا جب نانو گورایہ نے ٹھگی کا بازار گرم کر رکھا تھا اور یہ صاحب اس لوٹ مار کے حصہ دار بھی تھے ۔ یہ تو گیدڑ کو چوزوں کی رکھوالی پر لگانے کے مترادف ہے

7 ۔ اگر ممبئی حملوں سے اب تک کے بھارتی حکومت کے وزراء اور دوسرے اہلکاروں کے بیانات پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ کام بھارتی حکومت کے علاوہ کسی کا نہیں ہے لیکن ہماری حکومرانوں کے پاجامے اور پتلونیں خراب ہوئی جا رہی ہیں

زرداری کے چہیتے کی عمدہ انتظامی اہلیت

صدر آصف زرداری نے 25 فروری کو پنجاب میں غیر آئینی اور غیرقانونی گورنر راج قائم کر دیا تھا جس کے بعد زرداری کے چہیتے گورنر سلمان تاثیر نےلاہور کے انسپیکٹر جنرل اور چیف سیکریٹری سمیت تمام اعلٰی عہدیداروں کو تبدیل کر دیا

اس عمدہ کار کردگی کا نتیجہ آج صبح سامنے آیا جب پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی سری لنکا کی کرکٹ ٹیم میچ کھیلنے کیلئے قذافی سٹیڈیم جا رہی تھی تو گلبرگ کے علاقے لبرٹی چوک کے قریب نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے سری لنکن کرکٹ ٹیم کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی ۔ پولیس اور نامعلوم مسلحہ افراد کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا ۔

اس فائرنگ کے نتیجے میں 6 پولیس اہلکاروں سمیت 8 افراد جاں بحق اور 6 سری لنکن کھلاڑیوں اور 3 پولیس اہلکاروں سمیت 10 افراد زخمی ہوگئے ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ نامعلوم افراد علاقے میں کھُلے عام فائرنگ کرتے پھر تے رہے

حکومت پنجاب کا کہنا ہے کہ فائرنگ کا واقعہ دو قبضہ گروپوں کی باہمی چپقلش کا نتیجہ ہے اور اس کا سری لنکن ٹیم سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس بیان کا غلط ہونا یوں ثابت ہو جاتا ہے کہ سری لنکا کی ٹیم کی گاڑی پر فائرنگ کے کچھ دیر بعد میچ کیلئے آنے والے امپائرز کی وین پر بھی فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں امپائرز کے رابطہ افسر عبد السمیع زخمی ہو گئے

نواز شریف اور شہباز شریف نااہل

آج سپریم کورٹ عمارت میں تین رکن بنچ نے جسٹس موسیٰ کے لغاری کی سربراہی میں شریف برادارن کی انتخابی اہلیت کے حوالے سے کیس کی سماعت کی جس میں اٹارنی جنرل آف پاکستان لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ

شریف برادران اہلیت کیس میں چیف سیکرٹری اور اسپیکر پنجاب متاثر ہ فریق نہیں ہیں ۔ اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ تمام ججز نے آئین کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے ۔ عبوری آئین کا حلف غیر متعلقہ بات ہے ۔ نواز شریف کے تجویز و تائید کنندہ اس وقت فریق بن سکتے ہیں جب عدالت انہیں اجازت دے ۔ تجویز اور تائید کنندہ کا فریق ہونا ضروری نہیں ۔ عدالتی بینچ کی دست برداری کا فیصلہ جج کی صوابدید پر ہوتا ہے ۔ اسے کوئی دست بردار ہونے کی ہدایت نہیں دے سکتا

دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے کچھ دیر کا وقفہ دیا اور بعد میں شریف برادارن اہلیت کیس نمٹاتے ہوئے تین رکنی بنچ نے نواز شریف اور شہباز شریف کونااہل قراردیا

اس فیصلے اور بالخصوص اٹارنی جنرل لطیف کھوسہ کے بیان نے ثابت کر دیا ہے کہ آصف علی زرداری نہ صرف نواز شریف بلکہ پوری قوم کو دھوکہ دیتا رہا ہے اور سب کو لے کر چلنے کی بات جھوٹ پر مبنی تھی

کیا اعلٰی عہدیداروں میں شامل غداروں کے بغیر یہ ممکن ہے ؟

چند روز قبل ہی بازار میں فروخت کیلئے پیش ہونیوالی ڈیوڈ ای سینگر کی تحریر کردہ کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے پاک فوج کے افسران کی ٹیلیفون پر بات چیت سن رہے تھے اور جاسوس طیاروں کے ذریعے حملوں کا فیصلہ ایسی ہی اعلیٰ سطح کی گفتگو سننے کے بعد کیا گیا جس میں طالبان کو پاکستان کیلئے ”اسٹریٹجک اثاثہ“ قرار دیا گیا تھا۔ ”دی اِن ہیریٹنس ۔ امریکی طاقت کو درپیش چیلنجز اور وہ دنیا جس کا اوباما کو سامنا ہے“ کے نام سے تحریر کردہ کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی علاقوں پر حملوں کا فیصلہ اس وقت کیا گیا جب سی آئی اے اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ آئی ایس آئی مکمل طور پر طالبان کا ساتھ دے رہی ہے۔ نیشنل سیکیورٹی ایجنسی [این ایس اے] نے ایسے پیغامات کا سراغ لگایا جن سے اشارہ ملتا تھا کہ آئی ایس آئی کے افسران افغانستان میں ایک بہت بڑا بم حملہ کرانے کیلئے منصوبہ بندی میں طالبان کی مدد کر رہے ہیں تاہم اس کا ہدف واضح نہیں تھا۔ چند روز کے بعد قندھار جیل پر طالبان نے حملہ کیا ا ور سیکڑوں طالبان کو رہا کرالیا۔

اگر کتاب میں عائد کردہ الزامات درست ہیں تو جنرل اشفاق پرویز کیانی پاکستانی فوج کے دوسرے سربراہ ہونگے جن کی گفتگو امریکیوں نے سنی ہے۔ قبل ازیں ایف بی آئی نے صدر پرویز مشرف کی بینظیر بھٹو کیساتھ ہونیوالی وہ گفتگو سنی تھی جب پرویز مشرف نے انہیں دھمکی دی تھی کہ پاکستان میں ان کی سلامتی کا انحصار انکے [پرویز مشرف] ساتھ تعلقات پر ہے۔ بھارتیوں نے بھی جنرل پرویز اور جنرل عزیز کی گفتگو اس وقت ریکارڈ کی تھی جب کارگل جنگ کے دوران جنرل پرویز مشرف بیجنگ میں تھے۔ مصنف، جنہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 20 جنوری کو جارج بش کے صدارت چھوڑنے سے قبل وائٹ ہاؤس میں منعقد ہونیوالے متعدد اجلاسوں میں خفیہ ریکارڈ تک براہِ راست رسائی دی گئی تھی، نے کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ این ایس اے پہلے بھی ایسی گفتگو سن چکی ہے کہ پاکستان آرمی کے یونٹس قبائل میں اسکول کو نشانہ بنانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ پیشگی انتباہ کر رہے ہیں کہ کیا ہونیوالا ہے۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے لازماً 1-008-HAQOANI
ڈائل کیا ہوگا۔ یہ بات اس شخص نے کہی ہے جو اس سے آگاہ تھا۔

ایک اور پیرا گراف کے مطابق اسکول کو بھیجی گئی وارننگ کی تفصیلات تقریباً مضحکہ خیز تھیں۔ اس میں کہا گیا تھاکہ ”اوئے! ہم تمہاری جگہ کو چند روز میں نشانہ بنانے والے ہیں لہٰذا اگر وہاں کوئی اہم آدمی موجود ہے تو اس سے کہو کہ وہ چیخ و پکار کرے“۔ کتاب میں یہ بھی دعویٰ کیاگیا ہے کہ امریکا کو ان زمینی حقائق سے پوری آگاہی تھی اور انہوں نے پاکستانی علاقوں میں اس وقت حملے کرنا شروع کئے جب انہوں نے سوچا کہ پاکستانی فوج اور خُفیہ ادارے طالبان سے لڑنے میں مزید دلچسپی نہیں رکھتے۔

کتاب کے باب نمبر 8 ”کراسنگ دی لائن“میں پاکستان کے حوالے سے مصنف نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ کس طرح پاک فوج کے ایک میجر جنرل نے امریکی جاسوسی ادارے کے سربراہ مائیک میک کونیل کے سامنے دانستہ پاک فوج کے پورے خفیہ منصوبے کو کھول کر رکھ دیا تھا۔ کتاب میں کہا گیا ہے کہ امریکا کے خفیہ ادارے یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ پرویز مشرف ان کیساتھ ڈبل گیم کھیل رہے ہیں ۔ ایک جانب تو وہ امریکا کو یقین دلاتے تھے کہ صرف وہی طالبان کے خلاف لڑ سکتے ہیں تو دوسری جانب وہ عسکریت پسندی اور عسکریت پسندوں کی پشت پناہی کر رہے تھے۔ پرویز مشرف کے دُہرے معیار کا ریکارڈ جانا پہچانا تھا۔
مصنف نے پاکستان پر یہ باب امریکا کے دو اعلیٰ خفیہ اداروں کے سربراہان مائیک میک کونیل اور مائیکل ہیڈن جن کی عرفیت ” Two Mikes
” تھی کے خفیہ دوروں کی بنیاد پر تحریر کیا ہے۔ انہوں نے جنرل پرویز مشرف سمیت پاک فوج کے اعلیٰ افسران کے ساتھ متعدد ملاقاتیں کی تھیں۔ مصنف نے تحریر کیا ہے کہ مئی 2008ء کے آخر میں میک کونیل نے پاکستان کا خفیہ دورہ کیا جو نیشنل انٹیلی جنس کا ڈائریکٹر بننے کے بعد ان کا چوتھا یا پانچواں دورہ تھا اور اس کے نتیجے میں بش انتظامیہ کے آخری دنوں میں پاکستان میں سرحد پار سے خفیہ ایکشن بہت زیادہ بڑھ گیا تھا

کیا پورے پاکستان میں خون خرابہ کرنا ہو گا ؟

مالاکنڈ بشمول سوات میں تباہی اور خُون خرابہ بسیار کے بعد کل یعنی 15 فروری 2009ء کو صوبہ سرحد کے حکومتی اہلکاروں نے صوفی محمد کے ساتھ مذاکرات کئے جس کے نتیجہ میں 10 روز کی جنگ بندی کا اعلان کیا گیا ۔ آج صبح پشاور میں جرگہ ہوا جس میں معاہدہ طے پایا کہ نظام عدل ریگولیشنزکے تحت مالاکنڈ ڈویژن میں شرعی عدالتیں قائم کی جائیں گی ۔ عدالتوں میں شرعی قوانین کا علم رکھنے والے ججز کو تعینات کیا جائے گا ۔ شرعی عدالتیں دیوانی مقدمات کا فیصلہ 6 ماہ اورفوجداری کا فیصلہ 4 ماہ میں کریں گی ۔ مالاکنڈ میں شریعت سے متصادم قوانین کالعدم ہونگے اور شریعت کے خلاف کوئی قانون قابل قبول نہیں ہوگا ۔ اللہ کرے اب اس معاہدے پر نیک نیّتی سے عمل کیا جائے اور اس کا حشر پچھلے معاہدوں کی طرح نہ ہو ۔

یہ مت سمجھا جائے کہ ریاست کے اندر ریاست قائم ہو رہی ہے جیسا کہ دین بیزار لوگ کہتے آئے ہیں ۔ یہ اقدام پاکستان کے آئین کے عین مطابق پہلا قدم ہے ۔ ملاحظہ ہوں آئین کی متعلقہ شقات اس تحریر کے آخر میں

اگر ایس قانون مالاکنڈ جو کہ پاکستان کا حصہ ہے مین نافذ ہو سکتا ہے تو پورے پاکستان مین کیوں نافذ نہیں ہو سکتا ؟
کیا پورے پاکستان میں شرعِ اسلام کا نظامِ عدل نافذ کرنے کیلئے پورے پاکستان میں بھی خُون خرابہ کرنا ہو گا ؟
کیا اسلامی نظامِ عدل نافذ کرنے پاکستان کے تمام صوبوں اور شہروں کی سڑکوں ۔ گلیوں اور گھروں کو مسلمان مردوں ۔ عورتوں ۔ بوڑھوں ۔ جوانوں اور بچوں کے خون سے سینچنا ضروری ہے ؟

کون دے گا ان سوالوں کا جواب ؟

آئینِ پاکستان سے متعلقہ اقتباسات

Preamble

Whereas sovereignty over the entire Universe belongs to Almighty Allah alone, and the authority to be exercised by the people of Pakistan within the limits prescribed by Him is a sacred trust;
Wherein the principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice, as enunciated by Islam, shall be fully observed;
Wherein the Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings and requirements of Islam as set out in the Holy Quran and Sunnah;
Wherein the independence of the judiciary shall be fully secured;
Faithful to the declaration made by the Founder of Pakistan, Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah, that Pakistan would be a democratic State based on Islamic principles of social justice;

Article 62

(d) he is of good character and is not commonly known as one who violates Islamic Injunctions;
(e) he has adequate knowledge of Islamic teachings and practises obligatory duties prescribed by Islam as well as abstains from major sins ;
(f) he is sagacious, righteous and non-profligate and honest and ameen;
(g) he has not been convicted for a crime involving moral turpitude or for giving false evidence;
(h) he has not, after the establishment of Pakistan, worked against the integrity of the country or opposed the Ideology of Pakistan

بھارت نیا مشروب پیش کرتا ہے ۔ گائے کا پیشاب

راشٹریہ سوامی سیوک سَنگھ خالص ہندو مشروب [گائے کا پیشاب] بھارت میں متعارف کرانے کی عملی طور پر تیاری کر رہی ہے ۔ اس مشروب کو پائدار بنانے کیلئے تجربات شروع ہو چکے ہیں جو اگلے دو تین ماہ تک جاری رہنے کی توقع ہے ۔

[سیوک سَنگھ۔ مہاسبھا اور اکالی دل وہ جماعتیں ہیں جن کے تربیت یافتہ جتھوں نے ہندو فوجیوں کی پُشت پناہی سے 1947ء میں جموں ۔ مشرقی پنجاب اور گرد و نواح میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا]

گائے کے پیشاب کو ہندو بہت متبرک جانتے ہیں اور ہندوؤں کے تہواروں پر اکثر ہندو اپنے پاپ [گناہ] جھاڑنے کیلئتے گائے کا پیشاب پیتے ہیں ۔ ہندوؤں کا دعوٰی ہے کہ گائے کے پیشاب میں 70 کے لگ بھگ بیماریوں کا علاج موجود ہے اور اس سے پوری دنیا کے لوگ استفادہ حاصل کر سکیں گے ۔ اسلئے یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ گائے کے پیشاب سے بھری بوتلوں کی ترسیل دنیا کے تمام ممالک کو کی جائے گی ۔

عام رواج ہے کہ بچہ پیدا ہونے پر گٹی یا گڑتی دی جاتی ہے یعنی بچے کے منہ میں پہلی کوئی چیز ڈالنا جو عام طور پر قدرتی شہد کا ایک قطرہ یا مصفّا پانی کی ایک چھوٹی چمچی ہوتا ہے اور کوئی نیک خاتون یا ماں کے علاوہ بچے سے بہت زیادہ نزدیک خاتون دیتی ہیں ۔

ہم نے بچپن میں سُنا تھا کہ جب کسی ہندو کے ہاں بچہ پیدا ہوتا تو اُسے گٹی یا گڑتی کے طور پر گائے کے پیشاب کی ایک چمچی پلائی جاتی ہے ۔ لیکن میرا چشم دید واقع یہ ہے کہ 1947ء کے شروع میں میں بازار میں جا رہا تھا کہ ایک گائے نے پیشاب کیا اور قریب سے گزرتے ہوئے ایک پینتیس چالیس سالہ ہندو کا آدھا پاجامہ گائے کے پیشاب سے بھیگ گیا ۔ میں نے ناک منہ چڑھایا لیکن ہندو شخص بخوشی ‘پاپ جھڑ گئے” کہتا ہوا چلا گیا ۔

حقائق جاں گُداز ہیں یا رب ۔ بڑھا دے حوصلہ میرا

کِسے روئیں اور کِسے دلاسا دیں
یا رب ۔ تیرے بندے کدھر جائیں

پہلے ایک خبر جس کی شاید کسی پاکستانی کو توقع نہ ہو ۔ پھر ایک انٹرویو

خبر
امریکی سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کی چیئر پرسن اور کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی سینئر خاتون سینیٹر ڈیان فائن اسٹائن نے کہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں حملوں کیلئے امریکی ادارے سی آئی اے کے ڈرون [بغیر پائلٹ طیارے] پاکستان سے ہی اڑائے جاتے ہیں۔ کمیٹی کے اجلاس کے دوران چیئرپرسن ڈیان فائن اسٹائن نے قبائلی علاقوں میں امریکی حملوں پر پاکستان کے احتجاج پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا جہاں تک مجھے معلوم ہے یہ طیارے پاکستان ہی سے اڑائے جاتے ہیں۔ سی آئی اے نے ڈیان فائن اسٹائن کے بیان پر تبصرے سے انکار کردیا ہے تاہم سابق انٹیلی جنس افسران نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کمیٹی چیئرپرسن کا موقف درست ہے۔ ادھر فائن اسٹائن کے ترجمان فلپ جے لا ویلے نے کہا ہے کہ کمیٹی چیئرپرسن کا بیان واشنگٹن پوسٹ میں شایع ہونیوالے بیانات پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خبر پہلے ہی اخبار میں شایع ہوچکی ہے کہ جاسوس طیارے اسلام آباد کے قریب ایک ائر بیس سے اڑائے جاتے ہیں۔

انٹرویو
اس نے کہا کہ آپ نے ایک عورت کی کہانی لکھی جو بیوہ تھی اور اپنے بچوں کو پالنے کے لئے نوکری کر رہی تھی لیکن ہم نے اس عورت کو قتل کر دیا ۔ اگر آپ کو جاننا ہے کہ اس بیوہ عورت کو کس نے قتل کیا تو آپ مینگورہ تشریف لائیے ہم آپ کو اس عورت کی بہن اور بہنوئی سے ملوا دیں گے اور وہ آپ کو بتا دیں گے کہ اسے ہم نے نہیں بلکہ اس کے ایک رشتہ دار نے قتل کیا ۔ میں نے فون کرنے والے سے کہا کہ ابھی چند دن قبل سوات سے ہو کر آیا ہوں بار بار اتنا لمبا سفر کرنے کی ہمت نہیں آپ مجھے مقتولہ کے بہنوئی کا فون نمبر دے دیں میں رابطہ کر لوں گا

فون کسی اور نے لے لیا اور پنجابی میں مجھے کہا گیا کہ جب آپ ہمیں دیکھیں گے تو پہچان لیں گے لہٰذا گھبرائیے نہیں ۔ مجھے یہ آواز جانی پہچانی لگی اور میں نے ہمت کر کے ملاقات کے لئے حامی بھر لی لیکن طے ہوا کہ ملاقات بٹ خیلہ میں نہیں بلکہ مردان میں ہوگی۔ اگلی دوپہر مردان اور تخت بھائی کے درمیان ایک چھوٹے سے ہوٹل میں ملاقات ہوئی تو میں نے عبداللہ کو فوراً پہچان لیا۔ یہ گورا چٹا باریش نوجوان مجھے اسلام آباد لال مسجد میں عبدالرشید غازی صاحب کے اردگرد نظر آیا کرتا تھا۔ عبداللہ کے ساتھ تین دیگر افراد بھی تھے جن میں دو کی جیکٹوں کے نیچے چھپا ہوا اسلحہ مجھے نظر آرہا تھا اور تیسرا شخص مقتولہ زینب کا بہنوئی تھا۔ یہ سہما ہوا شخص بالکل خاموش تھا۔ عبداللہ نے اس سہمے ہوئے شخص کو حکم دیا کہ میر صاحب کو بتاؤ کہ تمہاری بیوہ سالی کوطالبان نے نہیں بلکہ اس کے چچا نے قتل کیا۔ خوفزدہ شخص نے محض اثبات میں سر ہلا دیا۔ میں نے پوچھا کہ چچا نے کیوں قتل کیا؟ خوفزدہ شخص نے کہا کہ چچا کہتا تھا کہ ہمارے خاندان کی عورتیں نوکری نہیں کر سکتیں ۔ زینب نوکری سے باز نہ آئی تو چچا نے اسے قتل کر دیا۔

میں ہوٹل کی کھڑکی میں سے بار بار اپنے ڈرائیور اور محافظ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ عبداللہ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ گھبرائیے نہیں، ہم آپ کو اغوا نہیں کریں گے ہم صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سوات کے علاقے میں ہونے والے ہر جرم، قتل، ڈکیتی اور اغوا کی ذمہ داری ہم پر عائد نہیں ہوتی۔ یہ سن کر میں کچھ بے چین ہو گیا اور میں نے کرسی پر پہلو بدل کر عبداللہ سے کہا کہ سوات میں 200 سے زائد گرلز اور بوائز اسکولوں کو تباہ کرنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ عبداللہ کے چہرے سے مسکراہٹ غائب ہو گئی اور اس نے کہا کہ جب ان اسکولوں کو فوج اپنے مورچے بنا لے تو پھر ان اسکولوں کو تباہ کرنا جائز ہے۔ آپ کو ہمارے تباہ کئے ہوئے اسکول تو نظر آتے ہیں لیکن جن اسکولوں میں فوج کے مورچے قائم ہیں آپ دنیا کو وہ کیوں نہیں دکھاتے؟

میں نے اعتراف کیا کہ میڈیا اتنا مضبوط نہیں جتنا اسے سمجھا جاتا ہے لیکن اسکولوں کو تباہ کرنا اور گداگر عورتوں کو قتل کرنا صرف میڈیا کے نزدیک نہیں بلکہ عام پاکستانیوں کے نزدیک بھی غیر اسلامی ہے۔ یہ سن کر عبداللہ نے سخت سرد موسم میں پانی کا گلاس غٹاغٹ پیا اور زہریلے لہجے میں بولا کہ یہ عام پاکستانی اس وقت کہاں تھے جب اسلام آباد کی لال مسجد پر بم برسائے گئے اور جب جامعہ حفصہ پر بلڈوزر چلائے گئے تو کیا وہ سب کچھ اسلامی تھا؟

میرا جواب یہ تھا کہ عام پاکستانی اس وقت بھی بے اختیار تھے اور آج بھی بے اختیار ہیں، عام پاکستانیوں کی بڑی اکثریت نے جامعہ حفصہ کے خلاف آپریشن کو غلط سمجھا اور اس آپریشن کی ذمہ دار حکومت کے خلاف 18 فروری کے انتخابات میں ووٹ کا ہتھیار استعمال کیا لہٰذا لال مسجد اور جامہ حفصہ کے خلاف آپریشن کی سزا عام پاکستانیوں اور ان کی بچیوں کو دینا بالکل ناجائز ہے۔

عبداللہ میری کسی دلیل کو تسلیم کرنے پر راضی نظر نہ آتا تھا۔ اس نے کہا کہ ایک بیوہ عورت کے قتل پر آپ نے پورا کالم لکھ دیا، پاکستان کی این جی اوز مینگورہ کی ایک ڈانسر شبانہ کے قتل پر لانگ مارچ کے اعلانات کر رہی ہیں لیکن جب جامعہ حفصہ کی سینکڑوں بچیوں کو فاسفورس بموں سے جلا کر راکھ کیا گیا اس وقت یہ این جی اوز کہاں تھیں؟ 18 فروری سے پہلے مشرف کی مخالف سیاسی جماعتیں کہتی تھیں کہ وہ اقتدار میں آکر مشرف کا محاسبہ کریں گے اور جامعہ حفصہ کو دوبارہ تعمیر کریں گی لیکن مشرف تو آزادانہ پوری دنیا میں گھوم رہا ہے اور اس کی پالیسی بھی جاری ہے، امریکی جاسوس طیاروں کے حملے بھی جاری ہیں کچھ بھی نہیں بدلا۔ آپ کی نام نہاد پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قرارداد منظور کی گئی کہ قبائلی علاقوں اور سوات سے فوج واپس بلائی جائے گی اور معاملات ڈائیلاگ سے حل کئے جائیں گے لیکن فوج واپس نہیں بلائی گئی بلکہ ہم پر فضائی بمباری ہوگئی لہٰذا ہم بھی وہی کریں گے جو ہمارے ساتھ کیا جا رہا ہے اور یاد رکھیئے کہ ہم اسلام آباد سے زیادہ دور نہیں ہیں۔

میں نے عبداللہ سے کہا کہ تم گوجرانوالہ کے رہنے والے ہو تمہارا خاندان وہاں محفوظ ہے لیکن تم سوات والوں کو غیر محفوظ بنا رہے ہو۔ عبداللہ تنک کر بولا کہ میں لال مسجد کے قتل عام کا انتقام لے رہا ہوں، میرے ساتھ باجوڑ کے وہ نوجوان شامل ہیں جن کے گھر فوجی آپریشن میں تباہ ہوئے اور جب تک انتقام مکمل نہیں ہوتا وہ چین سے نہیں بیٹھے گا۔

میں نے اپنا لہجہ تبدیل کیا اور منت کرتے ہوئے کہا کہ تم اپنے انتقام سے اسلام کو بدنام کر رہے ہواللہ کے واسطے ڈائیلاگ کی طرف آؤ۔ میری بات سن کر وہ ہنسنے لگا اور مجھے یاد دلاتے ہوئے کہنے لگا کہ میر صاحب آپ نے عبدالرشید غازی کو بھی ڈائیلاگ کا مشورہ دیا تھا، انہوں نے ڈائیلاگ شروع کر دیا، بہت کچھ مان بھی گئے لیکن مشرف نے انہیں شہید کروا دیا، مشرف ابھی تک زندہ ہے، ہمیں انصاف نہیں ملا لہٰذا ڈائیلاگ کی بات نہ کرو ہمیں کسی پر اعتبار نہیں رہا۔