Category Archives: خبر

کامیابی کی نشانی

لانگ مارچ کی لاہور سے ابتداء آج ہونا تھی لیکن چوبیس گھنٹے پہلے ہی مندرجہ ذیل شعر کی مصداق ابھی کمر ہی باندھی گئی تھی کہ کامیابی کی پہلی نشانی ظاہر ہوئی

اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے
پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے
کر ڈال جو دل میں ٹھانی ہے
اب تُجھے کیوں حیرانی ہے

چوبیس گھنٹے پہلے زرداری کی بہت محبوب وزیر شیری رحمان مستعفی ہو گئی ۔ آج تمام تر رکاوٹوں ناکہ بندیوں اور پولیس کی بھاری نفری کے باوجود لاہور میں لانگ مارچ کا مؤثر آغاز ہوا جس کے نتیجے میں اپنے اپنے ضمیر کی آواز پر اب تک ترتیب وار مندرجہ ذیل اعلٰی سرکاری عہدیداران مستعفی ہو چکے ہیں

سجاد بھٹہ صاحب ۔ ڈی سی او ۔ لاہور

عبدالحئ گیلانی صاحب ۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل آف پاکستان

امجد سلیمی صاحب ۔ ڈپٹی انسپیکٹر جنرل ایلیٹ فورس ۔ پنجاب

راولپنڈی اور اسلام آباد کا حال یہ ہے کہ ٹرک ۔ بس ۔ ویگن ۔ کار ۔ موٹر سائیکل ۔ سائیکل حتٰی جہ پیدل کو بھی داخل نہیں ہونے دیا جا رہا ۔ چاروں طرف سب راستے بند ہیں اور ان گنت پولیس اور رینجرز پھرہ دے رہے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت اس طرح لانگ مارچ کو روک سکے گی ۔ جو لاکھ یا اس سے زیادہ لوگوں پر مشتمل ہو گا جبکہ لاہور میں جگہ جگہ بنائی گئی رکاوٹیں اور کھڑی پولیس چند ہزار لوگوں کو نہ روک سکی ؟ اس وقت نواز شریف کے جلوس کا ایک سرا مزنگ چونگی پہنچ چکا ہے اور دوسرا سرا کلمہ چوک پر ہے یعنی تین کلو میٹر سے زیادہ لمبا اور اس میں اکثر لوگ پیدل چل رہے ہیں ۔ مزگ سے مزید لوگ شامل ہوں گے کیونکہ یہ نواز شریف کا آبائی حلقہ ہے ۔

اہم اطلاع

حکومت نے اسلام آباد میں تمام موبائل کمپنیوں کو ایس ایم ایس سروس تین دن کیلئے بند کرنے کا حُکم جاری کر دیا اور اب اسلام آباد سے ایس ایم ایس نہیں کیا جا سکتا

یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ آنے والی رات کے دوران تمام موبائل فون سروس دو دن کیلئے بند کر دی جائے گی

کیا منافق کے سر پر سینگ ہوتے ہیں ؟

منافق کا سب سے نمایاں وصف یہ ہے کہ اُس کے کلام اور عمل میں تضاد ہوتا ہے یعنی جو وہ کہتا ہے اُس کے خلاف کام کرتا ہے ۔ صدر ۔ وزیرِاعظم اور پی پی پی کے وزراء گذشتہ شام تک بیان دے رہے تھے کہ لانگ مارچ اور احتجاج سب کا جمہوری حق ہے ۔ ہم جمہوری لوگ ہیں اس میں رکاوٹ نہیں ڈالیں گے ۔ آج بروز بدھ 11 مارچ 2009ء کی صبح 11 بجے تک کی صورتِ حال یہ ہے

پورے صوبہ پنجاب میں منگل اور بُدھ کی درمیانی رات 12 بجے سے دفعہ144کے نفاذ کے ساتھ ہی چھاپوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ۔ 30 اضلاع میں فوج اور 11 میں رینجرز تعینات کئے جا رہے ہیں ۔ بعض اضلاع میں فوج اور رینجرز دونوں تعینات کی جائیں گی ۔ 12 مارچ سے آرمی اور رینجر کا فلیگ مارچ شروع ہوگا ۔ پنجاب میں اپوزیشن جماعتوں اور وکلا کی اے کلا س لیڈر شپ کی نظربندی جبکہ بی اور سی کلاس کے رہنماوں کو حراست میں لئے جانے کا فیصلہ کیا گیاہے ۔ مختلف شہروں میں سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کیلئے فہرستیں حکام کو موصول ہوگئی ہیں

روپوش ہونے والے پاکستان مسلم لیگ ن کے ایم این اے۔ ایم پی اے اور وکلا رہنماؤں کو ان کے موبائل فون سے ٹریس کرنے کے لئے خفیہ اداروں کی مدد لی جارہی ہے

لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے مسلم لیگ ن کی جانب سے لانگ مارچ کے حوالے سے لگائے گئے بینرز اور پوسٹرز اتار دیئےگئے ہیں ۔ شہر کے داخلی و خارجی راستوں سمیت معروف شاہراوں پر پولیس نے گاڑیوں کی چیکنگ شروع کردی ہے۔ گاڑیوں کو روک کی انکی تلاشی بھی لی جا رہی ہے۔ ارکان قومی اسمبلی بلال یاسین ،چوہدری نصیربھٹہ،سابق صوبائی وزیرچوہدری عبدالغفور،ارکان پنجاب اسمبلی خواجہ عمران نذیراورشمسہ گوہرکی گرفتاری کے لیے ان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے۔

رائیونڈ میں مسلم لیگ ن اورجماعت اسلامی کے کارکنوں کیخلاف کریک ڈاؤن کے دوران کئی ارکان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

قصوراورکھڈیاں میں چھاپے مارکرمسلم لیگ(ن)کے متعددمقامی رہنماؤں اورکارکنوں کوگرفتاکرلیا گیا ہے

راولپنڈی میں لانگ مارچ روکنے کیلئے گذشتہ شب شروع سے پولیس سیاسی کارکنوں اور وکلاء کو گرفتار کرنے کیلئے چھاپے مار رہی ہے

سرگودھامیں مسلم لیگ ن کے رہنما چوہدری عبدالمحید کے بیٹے اور ملازم کو گرفتار کرلیاگیا
کبیر والامیں مسلم لیگ(ن)کے مقامی صدر ملک عبد الرؤف کوگرفتار کر لیا گیا
گجرات میں مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے حاجی ناصر،تحصیل صدر تنویر گوندل اورچیمبر کے صدر جاوید بٹ کے گھروں پر چھاپے مارے گئے تاہم وہ موجودنہ تھے۔دیگرمقامات سے چار کارکنوں کو پولیس پکڑ کر لے گئی

جھنگ میں مسلم لیگ ن کے سینئر نائب صدر سیف اللہ شیروانی کے بھائی سمیت 3 کارکنان گرفتار کرلئے گئے ۔ مسلم لیگ (ن)کے ایم پی اے افتخار احمد بلوچ کے گھر پر چھاپاماراگیااوران کے ڈرائیور اور گن مین سمیت 8 افرادکوگرفتارکرلیاگیا ۔ پولیس چھاپے میں دیگر 7 افراد بھی گرفتار کئے گئے ہیں ۔ پولیس مسلم لیگ ن کے گھروں میں دروازے توڑ کر داخل ہورہی ہے اور گھر والوں کے ساتھ بد سلوکی کی جارہی ہے ۔ جھنگ ہی میں بھکر روڈ کے علاقے سے مسلم لیگ کے دو کارکن گرفتار کئے گئے ہیں ۔ شباب ملی کے ضلعی صدر میر قاسم نیازی کے گھر پر چھاپہ مار کر ان کے والد کوگرفتار کرلیا گیا ہے ۔ ایم ایس ایف ڈویژنل چیف آرگنائزر کے گھر پر چھاپہ مارا گیا اور ان کے پہلے سے زخمی بھائی کوگرفتار کرلیا گیا۔ جبکہ دیگر سیاسی کارکنوں کی گرفتاری کیلئے ضلع بھر میں چھاپے مارے جارہے ہیں

بورے والا میں پولیس اور ایلیٹ فورس کی جانب سے سیاسی کارکنوں کیخلاف شروع کئے گئے کریک ڈاوٴن کے نتیجے میں سٹی ناظم گگو میاں احد سمیت متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے

ملتان میں پولیس جگہ جگہ چھاپے مار رہی ہے

فیصل آباد میں مسلم لیگ ن کے رکن صوبائی اسمبلی خلیل طاہر سندھو اور رہنما میاں عبدالمنان کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارا ہے مگر کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے

ضلع رحیم یار خان میں کریک ڈاؤن جاری ہے اور پولیس سیڑھیاں لگا کر گھروں میں داخل ہورہی ہے

پولیس کے مطابق صادق آباد میں مسلم لیگ ن کے مقامی رہنما ارشد تاج کے گھر پر پولیس نے چھاپہ مارکر ان کے بیٹے کو گرفتار کرلیا ہے

ساہیوال میں تحریک انصاف کے ضلعی صدر حاجی حفیظ الحق کے گھرپر پولیس کا چھاپاماراگیا اور پولیس نے خواتین اور اہل خانہ کے ساتھ بدسلوکی کی

ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن ڈیرہ غازی خان کے صدر اظہر ترمذی ۔ جنرل سیکرٹری وسیم جسکانی سمیت متعدد سرگرم وکلا کے گھروں پر چھاپے مارے گئے ۔ مسلم لیگ ن کے جنرل سیکرٹری میرمرزا تالپور ۔ تحریک انصاف کے صدر فہیم سعید اور جمعیت اہل حدیث کے رہنماؤں سمیت کئی سیاسی کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے گئے تاہم ان کی روپوشی کے باعث کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی ۔ ضلع کی دیگر صوبوں سے ملنے والی سرحدوں پر بھاری پولیس تعینات کر دی گئی ہے

اسلام آباد میں مسلم لیگ ن کے راہ نما ظفر علی شاہ ،ایم این اے ڈاکٹر طارق ،انجم عقیل کے گھروں پرچھاپے مارے گئے تاہم وہ گھروں پر نہیں تھے،پولیس ڈاکٹر طارق کے بھائی کوگرفتارکرکے لے گئی۔ راولپنڈی میں وکیل رہنماجسٹس ریٹائرڈطارق محمود،مسلم لیگ ن کے رہنماؤں حنیف عباسی ،شاہدخاقان عباسی،ضیااللہ شاہ،شباب ملی کے صدر سید شاہد گیلانی،جماعت اسلامی کے رہنم ادبیراحمدخان کے گھر وں پر چھاپے مارے گئے تاہم وہ گھرپرنہیں تھے ۔ ویمن ایکشن فورم کی سربراہ طاہرہ عبداللہ کو ایم پی او کے tahira-arrestedتحت 90 روز کے لئے اڈیالہ جیل بھیجنے کا فیصلہ کے بعد گرفتار کیا گیا لیکن 3گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد ویمن پولیس اسٹیشن اسلام آباد سے رہا کر دیا گیا ہے ۔ خیال رہے کہ مس طاہرہ عبداللہ بین الاقوامی شہرت کی حامل ہیں اور انہوں نے انسانی حقوق کیلئے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے ۔ یہ ڈاکٹر عبداللہ کی بیٹی ہیں جو دو دہائیاں اقوامِ متحدہ کے پینل پر بطور ڈاکٹر کام کرتے رہے

توہینِ عدالت

المعروف عوامی دور میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے ایک بدنام جج کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مقرر کیا تو اردو ڈائجسٹ کے الطاف حسن قریشی صاحب نے توہینِ عدالت کے موضوع کے تحت اس جج کی کرامات لکھ کر نتیجہ نکالا کہ اس جج کو چیف جسٹس بنانا توہینِ عدالت ہے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت نے الطاف حسن اور اس کے بھائی ڈاکٹر اعجاز حسن کو گرفتار کر لیا اور ان کا رسالہ اُردو ڈائجسٹ بند کر دیا ۔ مکافاتِ عمل دیکھیئے کہ بعد میں اعلٰی عدالت کے جس بنچ نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دی اُس میں متذکرہ بالا جج بھی شامل تھا

فرح حمید ڈوگر کے ایف ایس سی کے نمبر بڑھانے کے واقع سے سب واقف ہو چکے ہیں ۔ اس غلط کام کے خلاف دائر پیٹیشن کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے خارج کرتے ہوئے فرح حمید ڈوگر کی کاپیوں کی ری اسیسمنٹ [re-assessment] کو قانونی قرار دیا تھا ۔ عوامی اور پالیمانی دباؤ سے مجبور ہو کر مرکزی وزیرِ تعلیم نے محکمانہ تحقیقات کا حکم دے رکھا تھا جس کی رپورٹ تیار ہو چکی ہے جو وزیر تعلیم کے دساور سے واپسی پر وزیرِاعظم کی منظوری کے بعد جاری کی جائے گی ۔ اس رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے چیئرمین کو فرح حمید ڈوگر کی جوابی امتحانی کاپیوں کی ری اسیسمنٹ کرانے کا کوئی قانونی اختیار نہیں تھا ۔ غلط فیصلہ دینے والے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس 11 مارچ 2009ء کو ریٹائر ہونے والے تھے ۔ صدر نے اُنہیں سپریم کورٹ کا جج بنا دیا ہے ۔ کیا یہ عدالتِ عظمٰی کی عزت افزائی ہے یا توہین ؟

پچھلے سال کے آخری مہینوں میں ایک خبر سامنے آئی تھی کہ گوجرانوالہ کا مشہور اور طاقتور ٹھگ نانو گورایہ جس نے شہر کے تمام تاجروں کو یرغمال بنا رکھا تھا گرفتار کر لیا گیا تھا ۔ پھر اس سال فروری کے شروع میں یہ بات سامنے آئی کہ گوجرانوالہ کے اُس وقت کے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل پولیس اور لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج کے ساتھ نانو گورایہ کے بہت قریبی تعلقات تھے اور یہ تینوں ہم پیالہ اور ہم نوالہ تھے ۔ اُس ڈی آئی جی کو 25 فروی 2009ء کو پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت ختم کرنے کے بعد انسپیکٹر جنرل پولیس پنجاب لگا دیا گیا تھا ۔ چند دن قبل نانو گورایہ کے دوست جج کو صدر نے لاہور ہائی کورٹ سے اٹھا کر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ لگا دیا ہے ۔ کیا یہ عدالتِ عالیہ کی عزت افزائی ہے یا توہین ؟

پچھلے دو ہفتوں میں سندھ ہائیکورٹ اور لاہور ہائیکورٹ میں جو دو درجن سے زائد نئے جج تعینات کئے گئے ہیں ان میں بھاری اکثریت اُن وکلاء کی ہے جو فروری 2008ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے اُمیدوار تھے لیکن الیکشن جیت نہ سکے ۔ باقی وہ وکلاء ہیں جنہوں نے وکلاء تحریک سے غداری کرتے ہوئے جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف بیانات دیئے ۔ یہ عدل کا سامان ہے یا توہیںِ عدالت ؟

کوئی ہے جو بتائے مجھ کو

سوچ سوچ کے میں مر جاؤں
اس گتھی کو سلجا نہ پاؤں
بات سمجھ نہ آئے مجھ کو
کوئی ہے جو بتائے مجھ کو

لبرٹی حملہ کے بارے میں جُوں جُوں حالات سامنے آ رہے ہیں معاملہ اُلجھتا ہی جا رہا ہے ۔ کچھ حقائق میں کل لکھ چکا ہوں ۔ مشیرِ داخلہ تو بھارت کا نام لینے سے ڈرتے ہیں اور اس واقعہ کا ذمہ دار جماعت الدعوہ ۔ طالبان یا القاعدہ کو ٹھہرانے کی پوری کوشش میں ہیں لیکن حالات و واقعات اس میں حکومتی مشینری کے کسی کل پُرزے کے ان ملک دُشمن سرگرمی میں منسلک ہونے کی طرف جا رہیں اور رحمان ملک ایسے معاملات کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں

مجھے کل بھی کسی نے بتایا تھا لیکن بات ہی کچھ ایسی تھی کہ میری سمجھ میں نہ آ سکی بلکہ کوئی اور بھی ہوتا تو نہ سمجھ پاتا ۔ حملہ شروع ہونے کے بعد ہوا یوں کہ کچھ کھلاڑی زخمی ہوئے لیکن بس کا ڈرائیور بچ گیا اور وہ بس کو چلا کر بحاظت سٹیڈیم پہنچ گیا ۔ کھلاڑیوں کی بس کے پیچھے پولیس کی گاڑی تھی جس میں سوار پولیس کے نوجوان پیچھے آنے والے ایمپائروں اور صحافیوں کی جان بچاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گئے

ایمپائروں کی گاڑی کے ڈرائیور کی گردن میں گولی لگی اور وہ شہید ہو گیا ۔ ایک نوجوان سپاہی جس کی ٹانگ میں گولی لگ چکی تھی وہ ایمپائروں کی گاڑی فرسٹ گیئر میں جتنا تیز ہو سکا چلا کر سٹیڈیم کی طرف روانہ ہوا کیونکہ بائیں ٹانگ زخمی ہونے کی وجہ سے گیئر تبدیل نہ کر سکا ۔ سٹیڈیم کے گیٹ کے قریب پہنچ کر اُسے ایک اور گولی لگی اور وہ شہید ہو گیا ۔ یہ گولی ہاکی سٹیڈیم کی چھت سے آئی تھی جو کرکٹ سٹیڈیم کے قریب ہے

یعنی کرکٹ سٹیڈیم کے بالکل قریب ہی ہاکی سٹیڈیم کی چھت پر حملہ آوروں میں سے کم از کم ایک موجود تھا ۔
یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا ؟

اس سلسلہ میں نواز شریف کا یکم مارچ کا بیان اہم بن جاتا ہے جو جیو نیوز کے حامد میر کے مطابق اُس نے اُسی دن صدر آصف زرداری کو پہنچا دیا تھا اور زرداری صاحب نے مسترد کر دیا تھا ۔ نواز شریف نے کہا تھا کہ لیاری کراچی کے مشہور رحمان ڈکیت کا تربیت یافتہ گروہ پنجاب میں داخل ہو چکا ہے جو کوئی ایسا بڑا واقعہ کر سکتے ہیں جس سے لانگ مارچ کو روکنے کا جواز پیدا ہو ۔ نواز شریف کے مطابق اُن کا ہدف وہ خود بھی ہو سکتے ہیں

لبرٹی حملہ

لبرٹی حملہ کے مصدقہ واقعات مختصر طور پر لکھ دیتا ہوں ۔ قارئین سے التماس ہے کہ اپنے ذہنوں کو ہر خبر اور تبصرہ سے صاف کر کے اسے پڑھیں اور پھر نیچے درج شدہ میرے سوالات کا جواب دیں

1 ۔ جب بھارت سمیت تمام ممالک نے پاکستان میں آ کر کھیلنے سے انکار کر دیا تھا تو سری لنکا کی ٹیم نے پاکستان آ کر کھیلنے کا اعلان کیا ۔ بھارت نے سری لنکا پر بہت زور ڈالا کہ ٹیم پاکستان نہ بھیجے کیونکہ وہاں ان کی جان کو خطرہ ہو گا لیکن سری لنکا نے بھارت کا مشورہ نہ مانا

2 ۔ صدرِ پاکستان نے سری لنکا کو یقین دلایا کہ سری لنکا کی ٹیم کو وہ سکیورٹی مہیا کی جائے گی جو صدرِ پاکستان کو مہیا کی جاتی ہے

3 ۔ لاہور میں ایک روزہ میچ 25 جنوری کو تھا پھر ٹیسٹ میچ مارچ کے پہلے ہفتہ میں ہونا تھا

4 ۔ پاکستان کے ایک خفیہ ادارے کو اطلاع ملی کہ بھارت کی راء نے سری لنکا کی ٹیم پر حملہ کی منصوبہ بندی کی ہے اور حملہ ہوٹل سے سٹیڈیم جاتے ہوئے ہو گا چنانچہ اس ادارے کے سربراہ ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل پولیس نے 22 جنوری کو تحریری طور پر مندرجہ ذیل اعلٰی عہدیداروں کو اس سے آگاہ کیا
مرکزی حکومت کے سیکریٹری داخلہ
پنجاب کے چیف سیکریٹری ۔ سیکریٹری داخلہ ۔ وزیرِاعلٰی کے سیکریٹری اور انسپیکٹر جنرل پولیس
لاہور کے کمشنر اور سی سی پی او

5 ۔ وزیرِ اعلٰی پنجاب نے 23 جنوری کو اعلٰی سطح کا اجلاس بُلایا جس میں اس صورتِ حال پر غور کر کے لائحہ عمل تیار کیا گیا اور متعلقہ عہدیداروں نے مجوزہ ہوٹل سے سٹیڈیم تک کا جائزہ لے کر مناسب انتظامات کئے

6 ۔ خاطر خواہ حفاظتی تدابیر کے باعث 25 جنوری کو سری لنکا کے ساتھ ایک روزہ میچ خیر خیریت سے ہوا

7 ۔ صدر نے 25 فروری کو پنجاب میں گورنر راج نافذ کر کے اسمبلی کی تالہ بندی کر دی جس سے پورے پنجاب اور سب سے زیادہ لاہور میں زبردست کھلبلی مچ گئی ۔ ارکان اسمبلی اور سینکڑوں دوسرے افرادکو گرفتار کرنے کے باعث بحران مزید بڑھ گیا

8 ۔ گورنر نے 27 فروری تک پنجاب بالخصوص لاہور کی انتظامیہ اور پولیس کے تمام اعلٰی افسران بشمول تھانیداروں کو تبدیل کر دیا جن میں سے کئی کو او ایس ڈی بنا دیا ۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے لیڈر پنجاب اسمبلی کے 371 اراکان میں سے 250 ارکان کی حمائت کا دعوٰی کر کے گورنر پنجاب اور ایک گمنام قسم کے سینیٹر کی سربراہی میں ارکان پنجاب اسمبلی کے گھیراؤ ۔ ڈراؤ ۔ خرید اور جوڑ توڑ میں مشغول ہو گئے

9 ۔ پنجاب کا گورنر راج پورے انہماک اور جانفشانی سے مسلم لیگ ن کا ساتھ دینے والے ارکان پنجاب اسمبلی کو توڑنے کی ناکام کوشش میں گم تھا کہ لاہور میں سری لنکا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ شروع ہو گیا

10 ۔ بروز منگل بتاریخ 3 مارچ 2009ء سری لنکا کا پاکستان کے ساتھ میچ کا تیسرا دن تھا ۔ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم ہوٹل سے روانہ ہوئی ۔ پچھلے دنوں کے بر عکس مقررہ راستہ کو نمعلوم کس کی ہدائت پر تبدیل کر دیا گیا اور بجائے تیز رفتار راستہ یعنی فیروز پور روڈ سے آنے کے ٹیم کو گلبرگ مین بلیوارڈ سے لایا گیا جس کے نتیجہ میں رفتار تیز نہ ہو سکی اور پھر لبرٹی چوک کے بہت بڑے دائرے [round-about] کے گرد بہت سُست ہونا لازمی تھا جہاں اُنہیں 90 درجے سے زیادہ کا زاویہ بناتے ہوئے مُڑنا بھی تھا

11 ۔ لبرٹی مارکیٹ صبح 10 بجے کے بعد کھُلنا شروع ہوتی ہے اور دوپہر 12 بجے تک پوری کھُلتی ہے ۔ یہاں دفاتر بھی 9 اور 10 بجے کے درمیان کھُلتے ہیں

12 ۔ صدر کے سری لنکا سے کئے ہوئے وعدے کے برعکس سری لنکا کے کھلاڑیوں کو عام بس پر لایا گیا جس کے آگے ایک موٹر سائکل سوار ٹریفک وارڈن تھا ۔ اس کے پیچھے بند گاڑی کے اندر اے ایس پی اور تین پولیس والے بیٹھے تھے ۔ بس کے پیچھے ایک اور پولیس کی بند گاڑی تھی جس میں پانچ پولیس والے بیٹھے تھے ۔

13 ۔ لبرٹی چوک پر صرف ایک ٹریفک وارڈن موجود تھا جو حملہ شروع ہوتے ہی زمین پر لیٹ گیا اور پھر ایک ستوپے کے پیچھے چھُپ کر جان بچائی ۔ اس کے علاوہ وہاں کوئی وردی والا یا بغیر وردی پولیس یا خُفیہ ادارے کا اہلکار موجود نہ تھا جبکہ ایسے مواقع پر درجنوں کی تعداد میں وردی اور بغیروردی والے اس جگہ موجود ہوتے ہیں

14 ۔ یہ قافلہ صبح 8 بج کر 42 منٹ پر چوک میں داخل ہوا تو لبرٹی چوک کے درمیانی دائرے میں اور سڑک کے دوسری طرف 8 حملہ آور جو تین تین اور دو کی ٹولیوں میں اپنی خودکار بندوقیں سنبھالے گھات لگائے بیٹھے تھے نے تین اطراف سے اس پر حملہ کر دیا جس کی ابتداء کھلاڑیوں کی بس پر دو گرینیڈ پھینک کر کی گئی لیکن یہ بس کو نہ لگے پھر گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی ۔ پہلا شہید ٹریفک وارڈن تھا ۔ جو سب سے آگے تھا ۔ اُس کے پیچھے اے ایس پی کی گاڑی کے ٹائر میں گولی لگی لیکن گاڑی روکی نہ گئی ۔ بس پر ایک راکٹ چلایا گیا جو بس کو چھوتا ہوا ایک دکان کو جا لگا ۔ اتنی دیر میں بس کے پیچھے آنے والی پولیس کی گاڑی سامنے آ گئی ۔ ایک پولیس جوان جونہی باہر نکلا وہ گولیوں کا نشانہ بنا ۔ یہ پانچوں پولیس والے شہید ہو گئے

15 ۔ بس ڈرائیور نے پہلے بس روکی پھر اُس نے بس بھگائی اور سٹیڈیم کی طرف مُڑ گیا ۔ حملہ آوروں نے بس کا پیچھا کیا ۔ سٹیڈیم کی طرف سے پولیس کا ایگل سکواڈ آیا اور فائرنگ کا جواب دیا اور وہ بھی زخمی ہوئے ۔ حملہ آوروں میں سے کوئی زخمی تک نہ ہوا

16 ۔ فائرنگ کا سلسلہ 25 منٹ جاری رکھنے کے بعد حملہ آور لبرٹی چوک کے بازو والی ایک سڑک کی طرف گئے جہاں وہ بڑے اطمینان سے ٹہلتے ہوئے اپنے تین موٹر سائکلوں تک پہنچے اور یکے بعد دیگرے روانہ ہو گئے ۔ صرف دو نے اپنے تھیلے پھینک دیئے باقی نے نہیں پھنکے ۔ ہر موٹر سائکل پر ایک یا دو کے ہاتھوں میں خود کار بندوقیں موجود تھیں جو صاف نظر آ رہی تھیں ۔ جب تیسرا موٹر سائکل سٹارٹ ہوا تو صبح کے 9 بج کر 44 منٹ ہوئے تھے

17 ۔ جب حملہ آور اپنی 25 منٹ کی کاروائی کے بعد لبرٹی چوک سے روانہ ہو رہے تھے تو یکے بعد دیگرے پولیس کی دو گاڑیا لبرٹی چوک پہنچیں جن میں سے ایک لبرٹی مارکیٹ کی طرف مڑ گئی اور حملہ آوروں کے بالکل قریب سے گذرتی ہوئی گئی ۔ دوسری جدھر سے آئی تھی واپس مُڑ کر اُدھر ہی چلی گئی

سوال

1 ۔ ملکی حالات ٹھیک نہیں ہیں ۔ خفیہ ادارے کی رپورٹ بھی سامنے آ چکی تھی ۔ ایک غیر ملکی ٹیم آئی ہوئی تھی ۔ ویسے بھی سٹیڈیم میں اتنا ہجوم شائقین کا ہونا تھا تو اردگرد کے علاقہ میں پولیس اور خفیہ کے اہلکار کیوں تعینات نہ کئے گئے ؟

2 ۔ کھیل کے تیسرے دن کھلاڑیوں کو لیجانے کیلئے تیز رفتار راستہ چھوڑ کر اچانک سُست پُرہجوم ایسا راستہ کیوں اختیار کیا گیا جس میں ایک گلگوٹ [bottle neck] لبرٹی چوک کا دائرہ [round-about] بھی تھا ؟

3 ۔ کھلاڑیوں کے آگے اور پیچھے چلنے والی پولیس بند گاڑیوں میں بیٹھنے کی بجائے کھُلی گاڑیوں میں تیار حالت [ready to attack position] میں کیوں نہ تھی ؟

4 ۔ اس طرح کا حملہ ہونے کے بعد پولیس اور ایجنسیوں کے اہلکار 15 منٹ میں پورے علاقے کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں ۔ اس واقعہ میں حملہ آوروں نے 25 منٹ کاروائی جاری رکھی جس کے بعد اطمینان سے مزید 37 منٹ جائے واردات کے قریب رہے اور آسانی سے فرار ہو گئے جبکہ پولیس تھانہ بھی وہاں سے قریب ہی تھا اور یقینی طور پر تھانے میں فائرنگ کی آواز سُنی گئی ہو گی ۔ ایسا کیوں کر ہوا ؟

5 ۔ پولیس کی جو دو گاڑیاں حملہ آوروں کے فرار ہوتے وقت لبرٹی چوک میں پہنچیں اُن میں بیٹھی پولیس نے حملہ آوروں کو پکڑنے یا اُن کا تعاقب کرنے کی کوشش کیوں نہ کی ؟

لبرٹی حملہ نااہلی تھا یا ملی بھگت

سری لنکا کے کھلاڑیوں پر حملہ کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر میں جو کچھ سن چکا تھا دل و دماغ اسے ماننے کیلئے تیار نہ تھا ۔ میں آج دو پہ اور پھر سہ پہر کو یعنی دو بار لکھتے لکھتے ڈر کر رُک گیا کہ قارئین کہیں مجھ پر حملہ کر کے میرا منہ ہی نہ نوچ ڈالیں ۔ اب کہ جیو ٹی نے وہ وڈیو چلا دی ہے جس سے میری سنی ہوئی باتیں درست ثابت ہو گئی ہیں تو لکھنے کی ہمت ہوئی ہے ۔

گذشتہ رات سلمان تاثیر اور رحمان ملک سمیت سرکاری اہلکاروں نے بلند بانگ دعوے کئے تھے اور حملہ آور 12 بتائے تھے ۔ اُن کی کارکردگی کا پول لاہور والوں کے سامنے تو کل ہی کھُل گیا تھا اور مجھے بھی کسی نے بتا دیا تھا ۔ حملہ آور جو کُل 8 تھے اور تین تین اور دو کی ٹولیوں میں حملہ آور ہوئے تھے ۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ کل صبح 8 بج کر 42 منٹ پر حملہ شروع ہوا اور 25 منٹ جاری رہا ۔ اس کے بعد حملہ آور بڑے اطمینان سے ٹہلتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوئے اور ایک قریبی سڑک پر جا کر موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر فرار ہوئے ۔ جب تیسری ٹولی موٹر سائکل پر روانہ ہوئی اس وقت 9 بج کر 44 منٹ ہوئے تھے

لاہور کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ رحمان ملک کی زیرِ نگرانی ہوا ہے ورنہ ایسے ہو ہی نہیں سکتا کہ حملہ ہونے کے بعد پولیس اور ایجنسیاں پورے علاقے کو چاروں طرف سے نہ گھیر لیتیں اور نہ حملہ آور اس آسانی سے فرار ہو سکتے تھے ۔ خیال رہے کہ حملہ سے ایک دن قبل یعنی پیر کے روز رحمان ملک لاہور میں سلمان تاثیر کے ساتھ خصوصی میٹنگ گر کے آئے تھے