لبرٹی حملہ کے مصدقہ واقعات مختصر طور پر لکھ دیتا ہوں ۔ قارئین سے التماس ہے کہ اپنے ذہنوں کو ہر خبر اور تبصرہ سے صاف کر کے اسے پڑھیں اور پھر نیچے درج شدہ میرے سوالات کا جواب دیں
1 ۔ جب بھارت سمیت تمام ممالک نے پاکستان میں آ کر کھیلنے سے انکار کر دیا تھا تو سری لنکا کی ٹیم نے پاکستان آ کر کھیلنے کا اعلان کیا ۔ بھارت نے سری لنکا پر بہت زور ڈالا کہ ٹیم پاکستان نہ بھیجے کیونکہ وہاں ان کی جان کو خطرہ ہو گا لیکن سری لنکا نے بھارت کا مشورہ نہ مانا
2 ۔ صدرِ پاکستان نے سری لنکا کو یقین دلایا کہ سری لنکا کی ٹیم کو وہ سکیورٹی مہیا کی جائے گی جو صدرِ پاکستان کو مہیا کی جاتی ہے
3 ۔ لاہور میں ایک روزہ میچ 25 جنوری کو تھا پھر ٹیسٹ میچ مارچ کے پہلے ہفتہ میں ہونا تھا
4 ۔ پاکستان کے ایک خفیہ ادارے کو اطلاع ملی کہ بھارت کی راء نے سری لنکا کی ٹیم پر حملہ کی منصوبہ بندی کی ہے اور حملہ ہوٹل سے سٹیڈیم جاتے ہوئے ہو گا چنانچہ اس ادارے کے سربراہ ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل پولیس نے 22 جنوری کو تحریری طور پر مندرجہ ذیل اعلٰی عہدیداروں کو اس سے آگاہ کیا
مرکزی حکومت کے سیکریٹری داخلہ
پنجاب کے چیف سیکریٹری ۔ سیکریٹری داخلہ ۔ وزیرِاعلٰی کے سیکریٹری اور انسپیکٹر جنرل پولیس
لاہور کے کمشنر اور سی سی پی او
5 ۔ وزیرِ اعلٰی پنجاب نے 23 جنوری کو اعلٰی سطح کا اجلاس بُلایا جس میں اس صورتِ حال پر غور کر کے لائحہ عمل تیار کیا گیا اور متعلقہ عہدیداروں نے مجوزہ ہوٹل سے سٹیڈیم تک کا جائزہ لے کر مناسب انتظامات کئے
6 ۔ خاطر خواہ حفاظتی تدابیر کے باعث 25 جنوری کو سری لنکا کے ساتھ ایک روزہ میچ خیر خیریت سے ہوا
7 ۔ صدر نے 25 فروری کو پنجاب میں گورنر راج نافذ کر کے اسمبلی کی تالہ بندی کر دی جس سے پورے پنجاب اور سب سے زیادہ لاہور میں زبردست کھلبلی مچ گئی ۔ ارکان اسمبلی اور سینکڑوں دوسرے افرادکو گرفتار کرنے کے باعث بحران مزید بڑھ گیا
8 ۔ گورنر نے 27 فروری تک پنجاب بالخصوص لاہور کی انتظامیہ اور پولیس کے تمام اعلٰی افسران بشمول تھانیداروں کو تبدیل کر دیا جن میں سے کئی کو او ایس ڈی بنا دیا ۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے لیڈر پنجاب اسمبلی کے 371 اراکان میں سے 250 ارکان کی حمائت کا دعوٰی کر کے گورنر پنجاب اور ایک گمنام قسم کے سینیٹر کی سربراہی میں ارکان پنجاب اسمبلی کے گھیراؤ ۔ ڈراؤ ۔ خرید اور جوڑ توڑ میں مشغول ہو گئے
9 ۔ پنجاب کا گورنر راج پورے انہماک اور جانفشانی سے مسلم لیگ ن کا ساتھ دینے والے ارکان پنجاب اسمبلی کو توڑنے کی ناکام کوشش میں گم تھا کہ لاہور میں سری لنکا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ شروع ہو گیا
10 ۔ بروز منگل بتاریخ 3 مارچ 2009ء سری لنکا کا پاکستان کے ساتھ میچ کا تیسرا دن تھا ۔ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم ہوٹل سے روانہ ہوئی ۔ پچھلے دنوں کے بر عکس مقررہ راستہ کو نمعلوم کس کی ہدائت پر تبدیل کر دیا گیا اور بجائے تیز رفتار راستہ یعنی فیروز پور روڈ سے آنے کے ٹیم کو گلبرگ مین بلیوارڈ سے لایا گیا جس کے نتیجہ میں رفتار تیز نہ ہو سکی اور پھر لبرٹی چوک کے بہت بڑے دائرے [round-about] کے گرد بہت سُست ہونا لازمی تھا جہاں اُنہیں 90 درجے سے زیادہ کا زاویہ بناتے ہوئے مُڑنا بھی تھا
11 ۔ لبرٹی مارکیٹ صبح 10 بجے کے بعد کھُلنا شروع ہوتی ہے اور دوپہر 12 بجے تک پوری کھُلتی ہے ۔ یہاں دفاتر بھی 9 اور 10 بجے کے درمیان کھُلتے ہیں
12 ۔ صدر کے سری لنکا سے کئے ہوئے وعدے کے برعکس سری لنکا کے کھلاڑیوں کو عام بس پر لایا گیا جس کے آگے ایک موٹر سائکل سوار ٹریفک وارڈن تھا ۔ اس کے پیچھے بند گاڑی کے اندر اے ایس پی اور تین پولیس والے بیٹھے تھے ۔ بس کے پیچھے ایک اور پولیس کی بند گاڑی تھی جس میں پانچ پولیس والے بیٹھے تھے ۔
13 ۔ لبرٹی چوک پر صرف ایک ٹریفک وارڈن موجود تھا جو حملہ شروع ہوتے ہی زمین پر لیٹ گیا اور پھر ایک ستوپے کے پیچھے چھُپ کر جان بچائی ۔ اس کے علاوہ وہاں کوئی وردی والا یا بغیر وردی پولیس یا خُفیہ ادارے کا اہلکار موجود نہ تھا جبکہ ایسے مواقع پر درجنوں کی تعداد میں وردی اور بغیروردی والے اس جگہ موجود ہوتے ہیں
14 ۔ یہ قافلہ صبح 8 بج کر 42 منٹ پر چوک میں داخل ہوا تو لبرٹی چوک کے درمیانی دائرے میں اور سڑک کے دوسری طرف 8 حملہ آور جو تین تین اور دو کی ٹولیوں میں اپنی خودکار بندوقیں سنبھالے گھات لگائے بیٹھے تھے نے تین اطراف سے اس پر حملہ کر دیا جس کی ابتداء کھلاڑیوں کی بس پر دو گرینیڈ پھینک کر کی گئی لیکن یہ بس کو نہ لگے پھر گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی ۔ پہلا شہید ٹریفک وارڈن تھا ۔ جو سب سے آگے تھا ۔ اُس کے پیچھے اے ایس پی کی گاڑی کے ٹائر میں گولی لگی لیکن گاڑی روکی نہ گئی ۔ بس پر ایک راکٹ چلایا گیا جو بس کو چھوتا ہوا ایک دکان کو جا لگا ۔ اتنی دیر میں بس کے پیچھے آنے والی پولیس کی گاڑی سامنے آ گئی ۔ ایک پولیس جوان جونہی باہر نکلا وہ گولیوں کا نشانہ بنا ۔ یہ پانچوں پولیس والے شہید ہو گئے
15 ۔ بس ڈرائیور نے پہلے بس روکی پھر اُس نے بس بھگائی اور سٹیڈیم کی طرف مُڑ گیا ۔ حملہ آوروں نے بس کا پیچھا کیا ۔ سٹیڈیم کی طرف سے پولیس کا ایگل سکواڈ آیا اور فائرنگ کا جواب دیا اور وہ بھی زخمی ہوئے ۔ حملہ آوروں میں سے کوئی زخمی تک نہ ہوا
16 ۔ فائرنگ کا سلسلہ 25 منٹ جاری رکھنے کے بعد حملہ آور لبرٹی چوک کے بازو والی ایک سڑک کی طرف گئے جہاں وہ بڑے اطمینان سے ٹہلتے ہوئے اپنے تین موٹر سائکلوں تک پہنچے اور یکے بعد دیگرے روانہ ہو گئے ۔ صرف دو نے اپنے تھیلے پھینک دیئے باقی نے نہیں پھنکے ۔ ہر موٹر سائکل پر ایک یا دو کے ہاتھوں میں خود کار بندوقیں موجود تھیں جو صاف نظر آ رہی تھیں ۔ جب تیسرا موٹر سائکل سٹارٹ ہوا تو صبح کے 9 بج کر 44 منٹ ہوئے تھے
17 ۔ جب حملہ آور اپنی 25 منٹ کی کاروائی کے بعد لبرٹی چوک سے روانہ ہو رہے تھے تو یکے بعد دیگرے پولیس کی دو گاڑیا لبرٹی چوک پہنچیں جن میں سے ایک لبرٹی مارکیٹ کی طرف مڑ گئی اور حملہ آوروں کے بالکل قریب سے گذرتی ہوئی گئی ۔ دوسری جدھر سے آئی تھی واپس مُڑ کر اُدھر ہی چلی گئی
سوال
1 ۔ ملکی حالات ٹھیک نہیں ہیں ۔ خفیہ ادارے کی رپورٹ بھی سامنے آ چکی تھی ۔ ایک غیر ملکی ٹیم آئی ہوئی تھی ۔ ویسے بھی سٹیڈیم میں اتنا ہجوم شائقین کا ہونا تھا تو اردگرد کے علاقہ میں پولیس اور خفیہ کے اہلکار کیوں تعینات نہ کئے گئے ؟
2 ۔ کھیل کے تیسرے دن کھلاڑیوں کو لیجانے کیلئے تیز رفتار راستہ چھوڑ کر اچانک سُست پُرہجوم ایسا راستہ کیوں اختیار کیا گیا جس میں ایک گلگوٹ [bottle neck] لبرٹی چوک کا دائرہ [round-about] بھی تھا ؟
3 ۔ کھلاڑیوں کے آگے اور پیچھے چلنے والی پولیس بند گاڑیوں میں بیٹھنے کی بجائے کھُلی گاڑیوں میں تیار حالت [ready to attack position] میں کیوں نہ تھی ؟
4 ۔ اس طرح کا حملہ ہونے کے بعد پولیس اور ایجنسیوں کے اہلکار 15 منٹ میں پورے علاقے کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں ۔ اس واقعہ میں حملہ آوروں نے 25 منٹ کاروائی جاری رکھی جس کے بعد اطمینان سے مزید 37 منٹ جائے واردات کے قریب رہے اور آسانی سے فرار ہو گئے جبکہ پولیس تھانہ بھی وہاں سے قریب ہی تھا اور یقینی طور پر تھانے میں فائرنگ کی آواز سُنی گئی ہو گی ۔ ایسا کیوں کر ہوا ؟
5 ۔ پولیس کی جو دو گاڑیاں حملہ آوروں کے فرار ہوتے وقت لبرٹی چوک میں پہنچیں اُن میں بیٹھی پولیس نے حملہ آوروں کو پکڑنے یا اُن کا تعاقب کرنے کی کوشش کیوں نہ کی ؟