Category Archives: خبر

کراچی کے طالبان

میں نے ہفتہ عشرہ قبل ایک بارسوخ شخص کو ایک یاد داشت انگریزی میں لکھ کر دی تھی ۔ میرا نہیں خیال کہ اس پر کوئی عمل ہوا ہے لیکن اتفاق سے ایسا عمل شروع کرنے کا نتیجہ سامنے ہے ۔ کیا یہی ہیں وہ طالبان جن کا ایم کیو ایم کے مُلک چھوڑ سربراہ ہر دوسرے چوتھے روز کرتے رہتے ہیں ؟

تفصیلات کے مطابق کے ای ایس سی کی ٹیم نے علاقہ پولیس کے ہمراہ بدھ کی دوپہر گلستان جوہر میں واقع پنک ریذیڈنسی کے غیرقانونی کُنڈوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ۔ جس پر غیرقانونی کُنڈوں کے خلاف کارروائی کرنے والی ٹیم کا مکینوں سے تصادم ہو گیا اور اُنہوں نے بعض کے ای ایس سی ملازمین کی پٹائی کر دی ۔ کے ای ایس سی نے 140 غیرقانونی کُنڈے کاٹ دیئے ۔ بعد میں کے ای ایس سی کو کچھ یا سب کنکشن بحال کرنا پڑے اور یہ بیان بھی دینا پڑا کہ کسی ملازم کی پٹائی نہیں ہوئی

قومی تعلیمی پالیسی اور لفافہ

لفافہ چِٹھی یا اجناس ڈالنے کیلئے استعمال ہوتا ہے اور از خود اسے خاص اہمیت حاصل نہیں ہوتی ۔ اصل اہمیت اس چِٹھی یا جنس کی ہوتی ہے جو لفافے کے اندر ہوتی ہے ۔ اسی لئے بے عِلم یا بے عمل آدمی کو بھی لفافہ کہا جاتا ہے ۔ ہماری بار بار عوام دوست اور ترقی پسند ہونے کا دعویٰ کرنے والی حکومت ایک لفافہ قسم کی قومی تعلیمی پالیسی وضح کر کے قوم کے بچوں کو لفافہ ہی بنانا چاہتی ہے

موجودہ حکومت نے دس سالہ قومی تعلیمی پالیسی 2009ء کا مسؤدہ تیار کیا ہے جو بُدھ 8 اپریل 2009ء کو کابینہ کے سامنے منظوری کیلئے پیش ہونا تھی لیکن پیش نہ ہو سکی کیونکہ کئی وزراء اس کا مطالعہ کر کے نہیں آئے تھے ۔ اب اسے کابینہ کے اگلے اجلاس میں پیش کیا جائے گا ۔

قومی تعلیمی پالیسی 1999ء کی جو شِقات مجوزہ قومی تعلیمی پالیسی 2009ء کے مسؤدہ میں موجود نہیں ہیں
قومی تعلیمی پالیسی 1999ء کا باب نمبر 3 جو خالصتاً اسلامی تعلیم کیلئے مختص ہے

قومی تعلیمی پالیسی 1999 ء میں ” اغراض و مقاصد“ کی دفعات جس کے مطابق پاکستان کے مسلمانوں کے حوالے سے ریاست پوری کوشش کریگی کہ
الف ۔ قرآن کریم اور اسلامیات کو لازمی کرےا
ب ۔ عربی زبان سیکھنے کیلئے سہولت فراہم کرے اور حوصلہ افزائی کرے
ج ۔ قرآن کریم کی بالکل ٹھیک اور درست اشاعت و طباعت کرنے کا بندوبست کرے
د ۔ اسلامی اخلاقی اصولوں کی پابندی اور اتحاد کو فروغ دنے کا بندوبست کرے

قومی تعلیمی پالیسی 2009 ء کے مسؤدہ میں سے 1999ء کی پالیسی کی جو اولین بات غائب ہے

قرآنی اصولوں اور اسلامی تعلیمات کو نصاب کا جزلاینفک بنانا کہ [الف] قرآن کریم کے پیغام کو تعلیم و تربیت کے عمل میں فروغ دیا جا سکے [ب] پاکستان کی مستقبل کی نسلوں کی ایک سچے باعمل مسلمان کے طور پر تعلیم و تربیت کی جائے ۔ تاکہ وہ نئے ہزاریئے [millennium] میں حوصلے ۔ اعتماد ۔ دانش اور متحمل ہو کر داخل ہو سکیں

قومی تعلیمی پالیسی کا باب 3 جو قومی تعلیمی پالیسی 2009ء کے مسودے سے مکمل طور پر غائب ہے وہ اسلامی تعلیم کیلئے مختص تھا ۔ اس حذف کئے جانے والے باب میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے لہٰذا ملک کی تعلیمی پالیسی میں اسلامی نظریئے ۔ قرآن و سنت کی تعلیم کو محفوظ بنانا اور فروغ دیا جانا چاہیئے

قومی تعلیمی پالیسی 1999ء کم از کم 45 شقوں پر مشتمل ہے جس میں تفصیل سے اس بات پر بحث کی گئی ہے کہ
الف ۔ پاکستان کے مسلمان کو کس طرح تعلیم دی جائے کہ وہ باعمل مسلمان بن سکیں اور اپنی زندگی قرآن و سنت کے مطابق گزار سکیں
ب ۔ پاکستان سیکولر ریاست نہیں ہے لہذا اس کا تعلیمی نظام لازمی طور پر اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہونا چاہیئے

اسی باب میں جو 2009ء کی قومی تعلیمی پالیسی کے مسؤدہ سے حذف کر دیا گیا ہے اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ طالب علم کو کس طرح قرآن کی تعلیم دی جائے گی اور اس کے لئے حکمت عملی بھی تجویز کی گئی ہے

موجودہ وزارت تعلیم کے ترجمان کے مطابق قومی تعلیمی پالیسی 2009 ء کے مسؤدے پر بنیادی کام جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں کیا گیا تھا جبکہ موجودہ حکومت میں اس پر ایک مرتبہ وفاقی اور تین صوبوں کے وزراء تعلیم نے تبادلہ خیال کیا تھا ۔ [پنجاب کے وزیر تعلیم جو اس وقت صوبے میں موجود تھے کو مدعو نہیں کیا گیا تھا] ۔ ترجمان کے مطابق ان تین صوبوں نے اسلامی شقوں اور قومی تعلیمی پالیسی 1999ء سے اسلامی تعلیم کے مکمل باب کو نکالنے پر اعتراض نہیں کیا تھا

قومی تعلیمی پالیسی 1999ء درست اسلامی تعلیم کی راہ متعین کرنے والی تمام شِقات حذف کر کے مجوزہ قومی تعلیمی پالیسی 2009ء کے باب نمبر 2 ” انتہائی اہم چیلنجز اور ان کا جواب “ میں ایک اسلامی شق شامل کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ” قومی تعلیمی پالیسی اسلامی اقدار کی اہمیت کو تسلیم کرتی ہے اور اس سلسلے میں اتفاق کئے گئے اصولوں پر کاربند ہے ۔ پالیسی میں تمام تر مداخلت 1973 ء کے آئین پاکستان کی دفعہ 29، 30، 33، 36، 37 اور 40 میں طے کردہ پالیسی کے اصولوں کے دائرہ کار کے اندر ہی رہے گی ۔ اس میں مسلمان بچوں کیلئے اسلامیات میں ہدایات فراہم کرنے کی ضرروت بھی شامل ہے تا کہ انہیں خود کو اچھا مسلمان بننے کے قابل بنایا جا سکے ۔ اسی طرح اقلیتوں کو بھی ان کے اپنے مذہب کی تعلیم حاصل کرنے سہولتیں فراہم کی جانی چاہئیں“

مجوزہ پالیسی میں اس تکلّف کی ضرورت بھی کیا تھی ؟ کون کرے گا ؟ کس طرح کرے گا ؟ کہاں کرے گا ؟ یہ کون بتائے گا ؟
ہر وہ شخص جو مسلمان گھرانے میں پیدا ہوتا ہے اتنا تو جانتا ہے کہ اُسے اسلامیات پڑھنا ہے لیکن آج تک جو مسئلہ ہموطنوں کو درپیش ہے وہ قرآن شریف کی درست تعلیم اور مسلمان ہونے کی حیثیت میں درست تربیت کا ہے جس کا بندوبست پورے ملک میں کہیں نظر نہیں آتا

قومی تعلیمی پالیسی 1999ء [جس میں تعلیمی طریقہ کار کو پاکستان کے آئین میں دی گئی دفعات کے تحت ترتیب دیا گیا تھا] پر نواز شریف حکومت نے عمل شروع کر دیا تھا ۔ تاہم زیادہ پیش رفت نہ ہوسکی تھی کیونکہ 12 اکتوبر 1999ء کو پرویز مشرف نے مارشل لاء لگا کر اس پر عمل روک دیا تھا ۔ پھر امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے روشن خیال اعتدال پسندی [Enlightened Moderation] کے نام سے نئی تعلیمی پالیسی تیار کروائی تھی جس کی منظوری سے قبل ہی سالہا سال سے مروج اسلامیات کی کُتب سے جہاد اور یہود و نصاریٰ کے متعلق آیات حذف کر دی گئی تھیں ۔ اس پر والدین کی طرف سے شدید احتجاج کے باعث پرویزمشرف کی مجوزہ پالیسی منظوری کیلئے کابینہ کو پیش نہ کی گئی تھی سو اب موجودہ حکومے یہ سہرا اپنے سر پر سجانے کیلئے تیار ہے

Reality is Often Bitter – – http://iabhopal.wordpress.com

– – حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے

جگ والا میلہ

یہ کہانی نہیں ۔ آپ بیتی ہے ایک خاتون کی جس کی پیدائش کے ساتھ ہی تقدیر سے مُڈبھیڑ شروع ہو گئی ۔ 2 سال کی تھی تو پاکستان معرض وجود میں آیا ۔ ضلع فیروز پور طے شدہ اصول کے مطابق پاکستان کا حصہ ہونا تھا مگر بھارت کو جموں کشمیر کی طرف راستہ دینے کیلئے ضلع کو تقسیم کر دیا گیا جس کی خبر گورداسپور کے رہنے والوں کو پاکستان بننے کے بعد ہوئی جب ہندو اور سکھ بلوائیوں نے مار دھاڑ شروع کر دی ۔ اس کے خاندان نے پاکستان کی طرف ہجرت کی ۔ والدہ شہید ہو گئیں ۔ وہ اور اس کا 11 سالہ بھائی والد کے ساتھ پاکستان پہنچے ۔ ابھی 4 سال کی تھی کہ والد کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا ۔ بھائی بہن کو اُن کے ماموں اپنے ساتھ لے گئے ۔ بھائی نے کسی طرح ایف ایس سی پاس کی اور شپ یارڈ کراچی میں ملازمت کے ساتھ فاؤنڈری کا ڈپلومہ شروع کیا ۔ بھائی نے بہن کو اپنے ساتھ رکھا ۔ ڈپلومہ کرنے کے بعد بھائی کو پاکستان آرڈننس فیکٹری میں ملازمت مل گئی تو بھائی بہن واہ چھاؤنی منتقل ہو گئے

وہ محنتی اور شاکرہ لڑکی تھی ۔ کسی طرح ایم ایس سی میتھے میٹکس پاس کر لیا اور سرکاری سکول میں پڑھانا شروع کیا ۔ 1971ء میں بھائی نے اس کا نکاح ایک فوجی افسر سے کر دیا جو مشرقی پاکستان بھیج دیا گیا اور اور دو تین سال بعد معلوم ہوا کہ وہ وہاں شہید ہو گیا تھا ۔ اُس نے مزید شادی کی بجائے اپنی ساری توجہ دوسروں کی تعلیم پر لگا دی ۔ واہ میں جس لڑکی نے بھی اس سے پڑھا وہ اس کی تعریف ہی کرتی رہی ۔ اُس نے بہت سی بچیوں کو بغیر معاوضہ بھی پڑھایا ۔ اپنی محبت اس نے طالبات کے علاوہ اپنی ایک بھتیجی اور 2 بھتیجوں پر وقف کر دی ۔ کہا کرتی تھیں “میں نے ماں باپ نہیں دیکھے ۔ خاوند نہیں دیکھا ۔ میرا سب کچھ میرا بھائی ہے ۔ بھتیجی اور 2 بھتیجے ہی میرے بچے ہیں”

ریٹارئرمنٹ کے وقت سے کچھ سال قبل اُنہوں نے واہ میں اپنا مکان بنوایا اور اُس میں رہنے لگیں ۔ بہت سال ہیڈ مسٹریس رہنے کے بعد 2005ء میں ریٹائر ہوئیں تو وہ نہیں جانتی تھیں کہ وہ ایک اور صدمہ سے دوچار ہونے والی ہیں ۔ تین سال قبل عیدالاضحٰے کے دن اچانک ان کے بھائی راہی مُلکِ عدم ہوئے ۔ انہوں نے عام خواتین کی طرح واویلا نہ کیا مگر اس دن سے ان کے چہرے کی بشاشت اُن کا ساتھ چھوڑ گئی ۔ بھتیجے اور بھابھی اُن کے پاس جاتے رہتے تھے لیکن چند ماہ قبل انہوں نے اپنے دونوں بھتیجوں کو بالخصوص اکٹھے بُلایا اور انہیں کچھ کاغذات دے کر کہنے لگیں “میرا سب کچھ تم ہو ۔ یہ مکان میں نے تم دونوں کے نام کر دیا ہے ۔ تمہاری بہن کا نام نہیں لکھا کہ وہ تو امریکہ میں ہے”

ہمیں معلوم ہوا کہ ان کی طبعیت ٹھیک نہیں تو ہم اتوار 5 اپریل 2009ء کو اسے ملنے گئے ۔ طبیعت خراب ہونے کے باوجود وہ اپنے کمرے سے چل کر آئیں اور بیٹھک میں ہمارے ساتھ بیٹھی رہیں اور ہم سے باتیں کرتی رہیں ۔ شام کو ہم واپس آ گئے ۔ آج فجر کی نماز سے قبل ان کے چھوٹے بھتیجے کا ٹیلیفون آیا کہ وہ راہی مُلکِ عدم ہو گئیں ہیں ۔ اِنَّا لِلّهِ وَاِنَّآ اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ ۔ مسلمان ہونے کی تمام صفات کی حامل خاتون پوری منصوبہ بندی کے ساتھ رخصت ہوئیں ۔ یہ ہماری عزیز اور ہردل عزیز خاتون میری بڑی بہو بیٹی کی پھوپھی تھیں ۔ الله سُبحانُهُ و تعالٰی اُنہیں جنت میں اعلٰی مقام عطا کرے ۔ آمین ثم آمین

جگ والا میلہ اے یارو ۔ تھوڑی دیر دا
ہسدیاں رات لنگے ۔ پتہ نئیں سویر دا

یہ پہلا واقعہ نہیں

سوات کے طالبان پچھلے 2 سال میں اپنی عدالتیں قائم کرنے کے بعد برسرِ عام کوڑے لگانے کی سزا 25 بار مردوں کو 2 بار عورتوں کو دے چکے ہیں ۔ یہ تمام واقعات جن میں ایک عورت کی وڈیو عام دکھائی گئی ہے سوات کے طالبان سے معاہدہ سے پہلے کے ہیں ۔ خبر یہ ہے

The videotape shown on television and displayed on websites Friday wasn’t the only time that a woman was publicly canned by the Swati Taliban. However, no videotape of the other incident, which took place on October 20, 2008, is available in which a woman and her father-in-law were flogged in Ser-Taligram village near Manglawar in Charbagh tehsil. The woman had been divorced by her husband but her father-in-law kept her in his house. The two were accused by the Taliban of having illicit relations. Villagers said the man was whipped 50 times while the woman was given 30 lashes.

The canning of the 17-year-old girl, who according to certain accounts was 16, shown by television channels on Friday was reportedly filmed by someone with a mobile phone. A reporter of a private TV channel in Swat said the two-minute footage was in their possession for sometime and was being transferred to a large number of people through cell phones. “To be honest, we didn’t want to send it to our TV channels for use due to fear of Taliban and also on account of concern that this would bring a bad name to Swat and endanger the peace accord,” he said while requesting anonymity.

The girl who was publicly canned in Kala Killay village in Kabal tehsil was reportedly named Chand. An Indian TV channel coined a couplet while reporting the incident on Friday by figuratively referring to Chand, which is the Urdu word for the moon. The boy, who like the girl was also lashed 30 times, was named Adalat Khan, son of Muslim Khan.

Incidentally, the Taliban spokesman in Swat who defended the public flogging in several interviews on Friday is also named Muslim Khan. He apparently mixed up the two incidents of public lashing of women in Swat on Taliban orders by saying that the girl videotaped during her canning was convicted of having illicit relations with her father-in-law. That incident happened in Ser-Taligram village in Charbagh tehsil while the videotape is of the girl belonging to Kala Killay in Kabal area.

One of the stories making the rounds in Swat was that a Talib saw the accused, Adalat Khan, who was an electrician by profession, leaving the home of the girl, Chand. He called other Taliban and accused the two of committing adultery. The boy defended himself by arguing that he was asked to fix some electrical appliances in the girl’s house. The Taliban then went ahead with the punishment of 30 lashes awarded to both the boy and the girl. Subsequently, as the story goes the Taliban got the two to marry and even cooked rice to hold a feast for celebrating the occasion.

It is possible that this story is cooked up or is one of the many being told and retold. But it is a fact that Taliban courts punished the two women and about 25 men by lashing them in public. Besides, drug addicts were routinely canned wherever they were found taking drugs.

Among the widely quoted cases, Taliban publicly canned two butchers in Ningolay village for selling meat of dead animals. They also awarded lashes to two men in the same village for committing unnatural sexual offences.

Two Taliban fighters were also publicly whipped 40 times each in Bar Thana village in Matta tehsil after being found guilty by a Shariah court for extorting Rs 360,000 from a goldsmith hailing from Chupriyal village. A Taliban commander known as Khairo was also involved in the same crime as he was the one who imposed the Rs 360,000 fine on the goldsmith after accusing him of running a propaganda campaign against the Taliban. When the Taliban leadership came to know about the incident, they asked the goldsmith to identify the three Taliban who had extorted the money from him. Subsequently, the two Taliban foots-soldiers were lashed in public and their commander, Khairo, was publicly executed in Sinpoora, the village of former provincial minister and JUI-F leader Qari Mahmood, near Matta.

This was Taliban justice, quick and brutal and publicly awarded.

بشکریہ ۔ دی نیوز

لڑکی۔کوڑے؟

بہت پرانی بات ہے کچھ بزرگ بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے ۔ ایک بزرگ جو برمحل اور سچی بات کہنے میں معروف تھے بولے “ہماری قوم کا تو یہ حال ہے کہ کسی نے کہا کُتا کان لے گیا اور کُتے کے پیچھے بھاگنا شروع کر دیا ۔ دیکھا ہی نہیں کہ ہے یا نہیں”۔ اللہ اُنہیں جنت نصیب کرے مجھے اُن کی یہ بات کل پھر یاد آئی جب ساری دنیا کُتے کے پیچھے بھاگ رہی تھی اور کوئی سوچ نہیں رہا تھا کہ کُتا کان لے بھی گیا ہے یا نہیں ۔

کل کے غُوغا کا شاید فائدہ ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے ازخود کاروائی کا اعلان کر دیا ۔ ویسے اگر ثمر من اللہ واقعی ثمر مِن اللہ ہوتی تو متعلقہ وڈیو چیف جسٹس کے نام اپنی درخواست کے ساتھ لگا کر عدالتِ عُظمٰی کے رجسٹرار کے پاس جمع کروا دیتیں پھر بھی یہی کچھ ہوتا اور اُن کی مشہوری بھی ہو جاتی البتہ ایک غیر مُلکی طاقت کا ایجنڈا ادھورا رہ جاتا ۔ اب کچھ سُنیئے اُن کی زبانی جن کے ذرائع ابلاغ نے اس وڈیو اُچھالا

مقامی افراد کے مطابق 17 سالہ اس شادی شدہ خاتون کو بدکاری کے الزام میں کوڑوں کی سزا دی گئی اور یہ واقعہ 6 ماہ پہلے کبل کے علاقے کالا کلے میں پیش آیا۔ ویڈیو میں خاتون کو تین افراد نے پکڑ رکھا تھا۔ ذرائع کے مطابق سر کی طرف بیٹھا ہوا شخص خاتون کا چھوٹا بھائی ہے

صوبہ سرحد کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے کہا کہ اگرچہ یہ واقعہ انتہائی افسوسناک ہے تاہم اس پرانے واقعے کی ویڈیو کا منظر عام پر آنا ایک این جی او کی رُکن ثمر من اللہ کی سازش ہے، جس کا بھائی مشرف کابینہ میں وزیر تھا اور یہ لوگ امن معاہدہ سبوتاژ کرنا چاہتے ہیں۔

طالبان کے ترجمان حاجی مسلم خان نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ ہمیں سزا کے طریقہ کار پر اختلاف ہے تاہم یہ سزا ہمارے کارکنوں نے ناجائز تعلقات کا اقرار جرم کرنے کے بعد مجرموں کو دی

مولانا صوفی محمد کے ترجمان امیر عزت خان نے کہا ہے کہ لڑکی کو کوڑے مارنے کی ویڈیو سوات امن معاہدے کو سبوتاژ کرنے کیلئے ایک منظم مہم کا حصہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ویڈیو کو طالبان کیساتھ منسوب کرنا درست نہیں، یہ ویڈیو سوات کی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوات کے عوام معاشرے میں نفرت پھیلانے والے عناصر کی سازشوں کو ناکام بنا دیں گے

چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے معاملہ 6 اپریل کو لارجر بنچ کے سامنے پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے اس سلسلے میں 8 رکنی لارجر بنچ تشکیل دیدیا جسکی سربراہی وہ خود کرینگے۔ چیف جسٹس نے 6 اپریل کو سرحد کے آئی جی، چیف سیکرٹری اور سیکرٹری داخلہ کو بھی عدالت میں طلب کیا ہے اور سیکرٹری داخلہ کو متاثرہ لڑکی کو بھی 6 اپریل کو پیش کرنیکی ہدایت کی ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے جیو ٹی وی کو حکم دیا ہے کہ وہ واقعہ کی سی ڈی پیش کریں جبکہ جیو اور دیگر ٹی وی چینلز مشترکہ طور پر ویڈیو مواد ترتیب دیکر سماعت کے دوران عدالت میں دکھانے کا انتظام کریں

میرا اس بلاگ سے مُختلِف انگريزی میں بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے
Reality is Often Bitter – – http://iabhopal.wordpress.com – – حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے

تعلیمی ترقی عروج پر

مندرجہ ذیل خبر پڑھ کر قیافہ یہ ہے کہ فیصل کالونی پر الطاف حسین کے جان نثاروں کا راج ہے

کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں واقع العمر فاونڈیشن نامی اسکول میں غیر قانونی امتحانی مرکز کی موجودگی کی اطلاع پر ڈسٹرک ایجوکیشن افسر احمد نواز نیازی کی سربراہی میں ایک اسپیشل وِجِیلَینس ٹیم نے اسکول پر چھاپہ مار ا جہاں مختلف کلاسوں میں درجنوں طلبہ و طالبات میٹرک سائنس گروپ کا انگریزی کا پرچہ کتابوں اور اساتذہ کی مدد سے حل کرنے میں مصروف تھے جبکہ ایک خاتون کسی اور کا پرچہ حل کررہی تھیں ۔ العمر فاونڈیشن کو اس سال میٹرک کے امتحانات کے لیے میٹرک بورڈ کی جانب سے امتحانی مرکز نہیں بنایا گیا تھاجبکہ العمر فاونڈیشن کے طلبہ کا امتحانی مرکز شاہ فیصل کالونی ہی میں واقع ایک اسکول ایگرو ٹیکنیکل میں تھا لیکن اسکول کے طلباء و طالبات ایگرو ٹیکنیکل کی بجائے اپنے ہی اسکول میں نہایت آرام سے پرچہ حل کرنے میں مصروف تھے ۔ چھاپہ پڑتے ہی اسکول میں افراتفری میچ گئی اور طلباء و اساتذہ اسکول کے عقبی راستے سے فرار ہوگئے

طلباء و اساتذہ کے فرار ہونے کے تھوڑی دیر بعد بعض مسلح افراد اسکول پہنچ گئے جس پر وِجِیلَینس ٹیم کو بھی اسکول کے عقبی راستے سے فرار ہونا پڑا

مزید مستعفی

ایلیٹ فورس کے ڈپٹی انسپیکٹر جنرل اسلئے مستعفی ہوئے کہ اُنہیں عوام پر گولی چلانے کا حکم دیا گیا تھا ۔ اُنہوں نے کہا میں اپنے بھائیوں اور بیٹوں کا قتل نہیں کر سکتا اور مستعفی ہو گئے ۔ مزید مندرجہ ذیل اعلٰی عہدیداران بھی مستعفی

ڈپٹی انسپیکٹر جنرل انویسٹی گیشن ۔ پنجاب
سپرنٹنڈنٹ پولیس ۔ لاہور