Category Archives: خبر

حکومتی شعبدہ بازی

صدر پاکستان آصف علی زرداری سے ایک صدارتی آرڈی نینس پر آج یعنی جمعرات 9 جولائی کی علی الصبح دستخط کردیئے ہیں جس کے ذریعے پیٹرولیم کی مصنوعات پر پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی[Petroleum Development Levy] فوری طور پر لگا دی گئی ہے اور پٹرولیم پراڈکٹس [Petroleum Products] کی قیمتیں جنہیں کم کرنے کا نوٹیفیکیشن سپریم کورٹ کے حُکم پر کیا گیا تھا دوبارہ بڑھادی گئی ہیں ۔ یہ نیکی کمانے کیلئے وزارت پٹرولیم ، ایف بی آر ، اوگرا اور وزارت قانون کل سے آج صبح علی الصبح تک کام کرتے رہے

ذرائع کے مطابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی تحریری سفارش پر صدر زرداری نے آرڈیننس پر دستخط کئے اور نئی قیمتوں کا نوٹیفیکیشن فوری طور پر جاری کردیا گیا

اب حکومت کیا کرے گی ؟

پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے بینچ نے کی ۔ سپریم کورٹ نے عبوری حکم دیا ہے کہ درخواستوں کے حتمی فیصلے تک کاربن ٹیکس وصول نہ کیا جائے جبکہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کاربن ٹیکس وصول نہ کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرے ۔

اِک مُٹھ چک تے دوجی تیار

اُٹھ پاکستانی ہو جا تیار
منگلا ڈیم تمام مشینیں فنی خرابی کے باعث بند ہو گئیں ۔ اس سے ملک میں بجلی کا مجموعی شارٹ فال 4000 میگاواٹ تک پہنچ گیا ہے جس سے گجرات ، سیالکوٹ، گوجرانوالہ ، جہلم اور آزاد کشمیر سمیت کئی علاقوں میں شام تک بجلی معطل رہے گی

کیا واقعی قوم تباہ ہونے کو ہے ؟

میں دکھے دِل اور وزنی ہاتھوں سے لکھ رہا ہوں کہ جس قوم نے قوم کے باپ کی عزت نہ کی تاریخ گواہ ہے کہ اس قوم کا انجام عبرتناک ہوا
اب پڑھیئے اور بیٹھ کے رويئے اپنی قسمت کو

ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والی تقریبات میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی تصاویر ہٹادی گئی ہیں۔دو روز قبل صدر آصف علی زرداری نے ایوان صدر میں ٹوئنٹی 20 ورلڈ کپ جیتنے والی کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں ایک استقبالیہ دیا، اس موقع پر کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں نے صدرآصف علی زرداری، اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ایک گروپ فوٹو بنوایا۔ اسے موقع پر گروپ فوٹو کے پس منظر میں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، بلاول بھٹو اور خود صدر زرداری کی تصاویر دیوار پرلگی ہوئی ہیں اسی طرح جمعے کے روز اسلام آباد میں انٹرن شپ ایوارڈ دینے کی تقریب میں وزیر اعظم مہمان خصوصی ہیں۔ اس موقع پر اسٹیج پر ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، صدر زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی تصاویر تو ہیں لیکن بانی پاکستان کی تصویر کہیں نظر نہیں آئی۔ایسی ایک تصویر میں صدر زردرای ڈاکٹر شعیب سڈل سے وفاقی محتسب کے عہدے کا حلف لے رہے ہیں لیکن پس منظر میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی تصویر تو آویزاں نظر آرہی ہے لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کی تصویر غائب ہے۔اسی طرح امریکی وفد سے ملاقات کے دوران بھی قائد اعظم کی تصویر کہیں نظر نہیں آرہی۔قانون کے تحت سرکاری افسران اور صدر اور وزیر اعظم کے دفاتر میں قائد اعظم کی تصاویر آویزاں کرنا لازمی ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

سرکار ۔ اذيّت کار

جن ممالک میں شناختی کارڈ رائج ہیں وہاں صرف غیر مُلکیوں کو جاری کردہ شناختی کارڈ محدود مدت کیلئے ہوتے ہیں اور مدت پوری ہونے پر تجدید کروانا پڑتی ہے لیکن اپنے لوگوں کیلئے ایک ہی بار شناختی کارڈ کا اجراء کیا جاتا ہے جو عمر بھر کیلئے کافی ہوتا ہے ۔ کچھ ممالک میں جن میں لبیا بھی شامل ہے بچے کے پیدا ہوتے ہی اُسے ایک شناختی نمبر دے دیا جاتا ہے ۔ یہ نمبر درسگاہ میں داخلہ سے لے کر علاج ، ملازمت اور پاسپورٹ حاصل کرنے وغیرہ کیلئے استعمال ہوتا ہے

وطنِ عزیز میں بھی شناختی کارڈ کا ایک بار ہی عمر بھر کیلئے اجراء ہوا کرتا تھا اور بآسانی مل بھی جایا کرتا تھا ۔ 2001ء میں حکومتی لال بجھکڑوں کو نمعلوم کیا سوجھی کہ ایک نئی قسم کا سلسلہ شروع کیا اور اس کیلئے جو سانچہ اور سافٹ ویئر خریدے گئے وہ 1970ء کی دہائی کے اوائل میں لبیا میں ڈرائیونگ لائسنس کے لئے استعمال ہوتے تھے اور 1980ء سے قبل ہی مسترد کر دیئے گئے تھے ۔ ڈرائیونگ لائسنس تو سمجھ میں آتا ہے کہ محدود مدت کیلئے ہونا چاہیئے لیکن قومی شناختی کارڈ کیوں ؟ مجھے لبیا میں جو ڈرائیونگ لائسنس 1976ء میں ملا اس کی معیاد 3 سال تھی ۔ 1979ء تک میرا کوئی چلان نہ ہوا تھا سو مجھے جو ڈرائیونگ لائسنس 1979ء میں دیا گیا اُس کی معیاد 10 سال تھی اور اس کا سانچہ اور سافٹ ویئر بدل چکی تھی ۔ اس کی خوبیوں میں سے ایک یہ تھی کہ اس کی نقل نہیں بنائی جا سکتی تھی

نادرا کا کمال یہ ہے کہ ابھی تک یعنی 8 سال گذرنے کے بعد بھی تمام بالغ پاکستانیوں کو شناختی کارڈ کا اجراء نہیں ہو سکا اور ايسے ہزاروں یا لاکھوں شناختی کارڈ جاری کئے گئے ہیں جن میں متعلقہ لوگوں کے کوائف درست نہیں لکھے گئے ۔ اس پر طرّہ یہ کہ جن شناختی کارڈوں کی صلاحیت 7 سال رکھی گئی تھی وہ قابلِ تجدید يعنی دوسرے لفظوں میں ناکارہ ہو چکے ہیں اور ان کی تعداد لاکھوں نہیں کروڑوں میں ہے

بطور نمونہ ملاحظہ ہو میرے خاندان کی صورتِ حال
ہم نے دسمبر 2001 میں 6 افراد کی درخوستیں جمع کرائیں
ہمیں 6 مارچ 2002ء کے اجراء کے ساتھ یہ شناختی کارڈ مارچ 2002ء کے آخر میں ملے
ان میں سے ايک کی مدت صلاحیت 28 فروری 2010ء کو ختم ہو گی
ايک کی 2011ء میں
ایک کی 2013ء میں
ايک کی 2014ء میں
اور 2 کی 2015ء میں
اپنے خاندان کے ساتویں فرد کا شناختی کارڈ 12 اگست 2003ء کو بنا تھا اور اس کی صلاحیت 31 جولائی 2010ء تک ہے
اس گورکھدندھے کی کیا منطق ہے وہ آج تک نادرا سمیت کسی کے علم میں نہیں ہے ۔ میں نے کچھ سال قبل نادرا کے ایک اعلٰی عہدیدار سے پوچھا تو اس نے جواب دیا “کچھ سال بعد لوگوں کی شکلیں بدل جاتی ہیں ۔ اسلئے تجدید ضروری ہے”
ميرا دوسرا سوال تھا کہ “آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ میری شکل 8 سال بعد بدلے گی جبکہ میرے خاندان کے ایک فرد کی شکل 9 سال ، ایک کی 11 سال ، ایک کی 12 سال اور دو کی 13 سال بعد شکل بدلے گی؟”
اس سوال پر وہ پریشان تو ہوئے مگر خاموش رہے

موجودہ شناختی کارڈ سے قبل جو شناختی کارڈ تھا اس میں میرے گھرانے کا ايک ہی خاندان نمبر تھا
اب میرا ، میری بیوی کا ، بیٹی کا اور چھوٹے بیٹے کا خاندان نمبر ايک ہے
بڑے بیٹے اور اس کی بیوی کا خاندان نمبر کچھ اور ہے
اور چھوٹے بیٹے کی بیوی کا خاندان نمبر کچھ اور
اس کا عملی پہلو یہ ہے کہ نادرا سے قبل جو رجسٹریشن کا دفتر تھا وہاں جا کر اپنے خاندان میں سے صرف ایک کے شناختی کارڈ کا نمبر بتائیں تو وہ پورے خاندان کا احوال بتا دیتے تھے ۔ اب اگر نادرا والوں کو کسی خاندان کے تمام افراد کی فہرست چاہیئے ہو تو کئی دن یا ہفتے یا مہینے لگ سکتے ہیں

شناختی کارڈ کی تجدید کا مسئلہ ملک بھر میں اس سال کے شروع ہونے کے ساتھ ہی عوام کے لئے شدید مشکلات اور ناقابل بیان دردسری کا سبب بنا ہوا ہے کیونکہ جن شہریوں کو اپنے شناختی کارڈوں کی تجدید کے لئے نادرا کے دفاتر جانا پڑتا ہے شدید گرمی اور لُو کے موسم میں انہیں اپنی باری کا صرف ٹوکن لینے کے لئے ہی کئی گھنٹے باہر دھوپ میں کھڑا ہونا پڑتا ہے اور جب وہ ٹوکن لے کر نادرا کے متعلقہ اہلکاروں کے پاس پہنچتے ہیں یا تو کھانے وغیرہ کا وقفہ ہو چکا ہوتا ہے یا بجلی بند ہونے یا کسی دوسری وجہ سے کمپیوٹر کام نہیں کر رہے ہوتے ۔ یہ مرحلہ بھی طے ہو جائے تو پھر تجدید کے لئے بھی اعتراضات لگا کر لوگوں کو نئی تاریخ دے دی جاتی ہے

جب شناختی کارڈ شروع ہی میں پوری تصدیق اور تائید کے بعد بنائے جاتے ہیں تو ہر چند سال کے بعد ان کی تجدید کا ڈرامہ رچا کر لوگوں کو بلاوجہ پریشان کیوں کیا جاتا ہے ؟ اگر تجدید کا عمل بھی امریکی امداد کا حصہ ہے کہ مُلک کا حاکمِ اعلٰی بھی جس کی نفی کرنے سے قاصر ہے تو شناختی کارڈ اور کمپیوٹر میں موجود ڈاٹا میں کوئی فرق نہ ہونے کی صورت میں نادرا کی موبائل ٹیمیں شہریوں کے گھروں پربھجوا کر ان کی رہائش اور ضروری کوائف کی تصدیق کر کے انہیں موقع پر تجدید شدہ شناختی کارڈ فراہم کیا جا نا چاہیئے

۔سب سے زیادہ بہتر اور اصولی طریقہ ایک ہی ہے کہ جب ایک مرتبہ تفتیش اور تصدیق کے بعد کسی پاکستانی شہری کو شناختی کارڈ جاری کر دیا جاتا ہے تو پوری عمر اس کی تجدید کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے

اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حُکمران عوام کو کسی نہ کسی بہانے سرکاری دفتروں کے سامنے قطاروں میں کھڑا کرکے ان کی بے بسی اور پریشانی کا نظارہ کرنے کی بے حد شوقین ہیں اور جب تک وہ عام شہریوں کو کسی نہ کسی اذیت یا مصیبت میں مبتلا نہ کر لیں انہیں چین نہیں آتا

بے رسُوخ بندے کدھر جائیں

یکم جون 2008ء تا 31 مئی 2009 کے دوران سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی کی9 ارب روپے کی گیس چوری یا ناقص پائیپوں سے خارج ہوئی ۔ اس سے پچھلے سال کے دوران سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی کی جو گیس چوری یا ناقص پائیپوں سے خارج ہوئی اُس کی قیمت کا 69.375 فيصد صارفین سے وصول کیا گیا ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس 45ہزار ملین کیوبک فٹ گیس چوری ہوئی تھی جبکہ اب 42 ہزار ملین کیوبک فٹ ہے ۔ یعنی اس سال سوا چھ ارب روپے صارفین سے اُس گیس کے وصول کئے جائیں گے جو اُنہوں نے استعمال نہیں کی

سوئی ناردرن گیس پائپ لائن کمپنی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ “گیس مہنگی ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ جتنی مہنگی ہو گی چوری اتنی زیادہ بڑھتی جائے گی”۔ تفصیلات کے مطابق ملک میں اس وقت سینکڑوں سی این جی سٹیشن ، ہزاروں ٹیکسٹائل، فرنیس ، فیکٹریوں اور مِلوں میں گزشتہ دو تین برسوں سے گیس چوری بہت بڑھ گئی ہے ۔ یہ سوئی نادرن کا قصہ تو حکومتِ پنجاب کے اقدام کے باعث سامنے آ گیا ۔ سوئی سدرن کا حال کیا ہے وہ ہم نہیں جانتے

بجلی کا معاملہ اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہے ۔ سب خسارے بے رسُوخ صارفین سے وصول کر لئے جاتے ہیں اسلئے کسی کو حالات کو درست کرنے کی فکر نہیں

بھارت ، کالا باغ ڈيم اور مخالف سندھی

وفاقی حکومت کا 28 برسوں میں کالاباغ ڈیم کی فزیبلٹی ،واپڈا ملازمین کی تنخواہوں،سڑکوں کی تعمیر پر 80 ارب روپے خرچ کرنے کے بعد بھی یہ منصوبہ بنتا نظر نہیں آرہا جس کی وجہ سے بجلی کا بحران حکومتی کوششوں کے باوجود آئندہ 5 برس تک کم نہیں ہوگا۔وفاقی حکومت نے بجٹ میں کوئی رقم مختص نہیں کی گئی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ25 پیسے فی یونٹ کی لاگت سے بجلی پیدا کرنے والے اس منصوبے کی لاگت 10 برس قبل200 ارب روپے لگائی گئی تھی جو سیاست کی نذر ہو کر اب 550 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے ۔ بھارت اگلے 6 برسوں میں دریائے سندھ کے 90 ملین کیوبک فٹ پانی پر قبضہ کرنے کے لئے کشن گنگا ڈیم بنا رہا ہے جو دریائے سندھ کے 80 فیصد پانی کو سٹور کر لے گا۔کیونکہ بھارت کی تین بڑی ڈونر ایجنسیاں گزشتہ 15 برسوں میں سندھ کی مختلف تنظیموں کے لئے 10 ارب روپے گرانٹس مہیا کر چکی ہیں تاکہ سندھ کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں کمی نہ آئے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کالا باغ ڈیم بننے کی وجہ سے سندھ کی فصل خریف اور ربیع کو بہت فائدہ پہنچے گا فی ایکڑ پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہو گا

از نوائے وقت آن لائین