سُنا ہے کہ سپیرے اس وقت سانپ کے ڈسنے سے مرتے ہیں جب سانپ سے پیار کرنے لگ جاتے ہیں ۔ پرویز مشرف نے بھارت سے دوستی کی خاطر يکطرفہ جنگ بندی کی اور بھارت نے پاکستان میں آنے والے دریاؤں پر بند باندھ لئے جس کا نتیجہ قوم بھگت رہی ہے ۔ زرداری بھی بھارت کی دوستی کا دم بھرتے ہیں اور پاکستان کے اندر کی گئی کاروائیوں پر پردہ ڈالے ہوئے ہیں کہ کہیں بھارت ناراض نہ ہو جائے ۔ بھارت ہمارے حکمرانوں کی مہربانیوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک بہت خطرناک چال چل چکا ہے جس کا احوال لکھتے ہیں احمد قریشی
بھارت نے اپنے سرمائے اور وسائل سے کم و بیش پانچ سو دہشت گردوں کا ایک جتھہ تیار کیا ہے۔ ان دہشت گردوں کو افغانستان میں زبردست نوعیت کی خصوصی ٹریننگ سے آراستہ کیا گیا ہے اس فورس کی تیاری کا کام ”را“ اور حامد کرزئی کے گرگوں کے تعاون سے کیا گیا جس کے لئے بھارت نے ڈھائی کروڑ ڈالر فراہم کئے۔ پانچ سو کی ایک خصوصی تربیت یافتہ فورس میں پاکستانی، افغان اور کچھ بھارتی بھی شامل ہیں۔ یہ فورس ایک ایسے منصوبے پر عمل درآمد میں مرکزی کردار ادا کرے گی جس کے خدوخال بڑی ہنرمندی سے تیار کر لئے گئے ہیں۔ منصوبہ ان اجزاء پر مشتمل ہے
1 ۔ ایک ٹیم یا کئی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں پاکستان کی مختلف ایٹمی تنصیبات پر اچانک یلغار کریں گی اور کوشش کریں گی کہ ان کے اندر گھس جائیں
2 ۔ دہشت گردوں کی ان ٹولیوں میں چند ایک جدید ترین ہتھیاروں سے لیس اور خصوصی تربیت سے آراستہ ہوں گے تاکہ وہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکیں
3 ۔ جہاں کہیں ممکن ہوا، یہ دہشت گرد ممبئی حملوں کے انداز میں عمارت کے اندر جاکر مورچے سنبھال لیں گے۔ وہ زیادہ سے زیادہ دیر تک قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے تاکہ اس دوران عالمی میڈیا اس خوفناک واقعے پر توجہ مرکوز رکھے اور پاکستان کی رسوائی کے چرچے ہوتے رہیں۔
4 ۔ بین الاقومی ذرائع ابلاغ خصوصاً امریکی اور برطانوی نشریاتی ادارے اسے ایک ”عالمی بحران“ کا درجہ دیتے ہوئے آسمان سر پر اٹھالیں گے
5 ۔ یہ واقعہ عالمی سطح پر ہیجان بپا کردے گا جس کے نتیجے میں یہ تاثر پایہ ثبوت کو پہنچ جائے گا کہ پاکستان اپنے ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کی صلاحیت نہیں رکھتا لہٰذا اس پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ان تنصیبات کے تحفظ کے بین الاقوامی بندوبست کو قبول کرلے
6 ۔ اس واقعے کے چند دنوں یا چند ہفتوں بعد، افغانستان میں امریکی یا نیٹو افواج کے خلاف یا کسی اور مقام پر ایک چھوٹا سا ایٹمی ہتھیار استعمال کیا جائے گا تاکہ اس امر کا ٹھوس ثبوت ”فراہم کردیا جائے کہ عالمی خدشات کے عین مطابق پاکستان کے ایٹمی ہتھیار اسلامی عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگ گئے ہیں
اس چھ نکاتی منصوبے کا مرکزی سوال یہ ہے کہ وہ چھوٹا سا جوہری ہتھیارکہاں سے آئے گا جسے ”اسلامی عسکریت پسند“ امریکی یا نیٹو افواج کے خلاف استعمال کریں گے؟ ظاہر ہے کہ اس کا اہتمام بھی منصوبہ ساز ہی کریں گے۔کچھ عرصہ قبل بھارت کا ایک سینئر ایٹمی سائنسدان لوکاناتھن مہالنگم لاپتہ ہوگیا۔ مئی میں سینتالیس سالہ سائنسدان کی لاش ایک تالاب سے برآمد ہوئی۔ اس پر نہ تو بھارتی حکومت نے کوئی طوفان اٹھایا نہ میڈیا نے زیادہ اہمیت دی۔ قیاس کیا جارہا ہے کہ شاید اس سائنسدان کو منصوبے کی بھنک پڑ گئی تھی اور وہ جان گیا تھا کہ بھارتی جوہری اسلحہ خانہ سے ایک یا اس سے زیادہ چھوٹے جوہری ہتھیار چوری ہونے والے ہیں
اسرائیل اس منصوبے میں پوری طرح شامل ہے۔ ماضی میں اسرائیل اور بھارت پاکستان کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانے کی مشترکہ کوششیں کرچکے ہیں۔ کیا امریکہ اس پلان سے بے خبر ہے؟ کیا اسرائیل اور بھارت ، امریکیوں کو اعتماد میں لئے بغیر کسی ایسے منصوبے کو بروئے کار لاسکتے ہیں؟ ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کے لئے ہمیں بہت زیادہ غور و فکر اور عرق ریزی کی ضرورت نہیں۔ 16 مئی کو اسرائیلی سیکورٹی ویب سائٹ نے ایک اسٹوری جاری کی جس میں بتایا گیا ہے کہ ”بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے امریکی صدر بارک حسین اوباما کو بتادیا ہے کہ صوبہ سرحد میں واقع پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پہلے ہی جزوی طور پر”اسلامی انتہا پسندوں“ کے ہاتھ لگ چکی ہیں۔ یہ اسٹوری معروف بھارتی اخبار ”ٹائمز آف انڈیا“ میں شائع ہوچکی ہے جس کی تردید بھارت کی طرف سے نہیں کی گئی۔ چند دن قبل صدر اوباما کے مشیر بروس رائیڈل کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کا مجموعی تاثر یہی ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ نہیں ہیں۔ بروس رائیڈل نے راولپنڈی میں ایک بس پر خودکش حملے کو ”کے آر ایل“کی بس پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک لحاظ سے پاکستان کی جوہری صلاحیت پہلے ہی انتہاپسندوں کے نشانے پر ہے۔ سابق امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کے اس بیان کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ”ہم نے پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے لئے ایک خصوصی پلان تیار کرلیا ہے لیکن فی الحال اس کی تفصیلات نہیں بتائی جاسکتیں“
مجھے یقین ہے کہ قومی سلامتی کے متعلقہ ادارے اس صورت حال سے پوری طرح باخبر ہوں گے۔ انہوں نے اس مکروہ منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے بھی تیاری کر لی ہوگی۔ ماضی میں اسرائیل اور بھارتی گٹھ جوڑ کی ریشہ دوانیاں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ کہوٹہ پر فضائی حملہ عین وقت پر ناکام بنادیا گیا۔ پاکستان کے ایٹمی اثاثے انتہائی موثر اور جامع کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے تحت ہیں۔ پورے وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے جوہری اثاثوں کے تحفظ کے لئے تمام دیگر ایٹمی ممالک سے کہیں زیادہ کڑا بندوبست کر رکھا ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے دشمن پہلے ہی کی طرح اب بھی ناکام رہیں گے
لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو ”دشمن“ کا پتہ بھی ہے؟ آئے دن کسی نہ کسی دربار سے یہ بیان جاری ہوتا ہے کہ ہمیں بھارت سے کوئی خطرہ نہیں۔ یہ شگوفہ سب سے پہلے مشرف کے ذہن میں پھوٹا تھا اور اب تو یہ پورا چمنستان بن چکا ہے۔ پہلے امریکہ سے صدا بلند ہوتی ہے ”پاکستان کو بھارت سے کوئی خطرہ نہیں“۔ پھر اس صدا کی گونج برطانیہ سے بلند ہوتی ہے، پھر چابی بھرے کھلونوں کی طرح ہمارے حکمران بولنے لگتے ہیں ”ہمیں بھارت سے کوئی خطرہ نہیں، صرف دہشت گردوں سے ہے“
امریکی کروسیڈ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ یہاں تک کہ دوست دشمن کی پہچان تک جاتی رہی ہے۔ زیاں کاری اور سود فراموشی کے ان موسموں میں یہ بنیادی حقیقت بھی بھلادی گئی کہ بھارت کا خبثِ باطن پہلے کیا کچھ کرچکا ہے، اب کیا کچھ کررہا ہے اور آئندہ کیا کچھ کرنے کے ناپاک منصوبے بنارہا ہے؟ کیا دنیا بھر میں کوئی قوم ایسی بھی ہوگی جس کے رہنما دوستوں اور دشمنوں کا تعین بھی دوسروں کے اشارے پر کریں؟