Category Archives: خبر

اِک نئی مصيبت

آج لاہور ماڈل ٹاؤن میں دہشتگرد قادیانیوں کی عبادت گاہ میں داخل ہو گئے اور لوگوں کو محصور بنا لیا ۔ پنجاب کی پولیس اور ایلیٹ فورس کی بھاری نفری پہنچ گئی اور دو طرفہ فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ 5 حملہ آور ہلاک ہوئے اور ایک کو زندہ گرفتار کر کے اُس کی خودکش جیکٹ کو ناکارہ بنا دیا گيا۔ حملہ آوروں کی فائرنگ سے 5 افراد ہلاک اور 10 زخمی ہوگئے ۔ پولیس حکام اور ریسکیو ٹیمیں امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔

اسی طرح کا حملہ گڑھی شاہو میں بھی ہوا ہے جس ميں دو دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں۔ پولیس کے جوانوں نے قریبی عمارتوں پر پوزیشنیں سنبھال لی ہیں جبکہ بکتر بند گاڑی کے ذریعے عبادت خانے کے قریب جانے کی کوشش کی جارہی ہے

تعليم يافتہ دہشتگرد

گذشتہ شام کراچی کے مختلف علاقوں میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں
23 افراد ہلاک
21 سے زائد زخمی
5 گاڑیاں اور کئی کھوکھے نذرآتش
تمام تعلیمی ادارے بند ۔ آج ہونے والے تمام پرچے بھی ملتوی
کاروبارزندگی مفلوج
مسلح افراد نے فائرنگ کرکے پولیس اہلکار کو ہلاک کردیا
دکانیں اور کاروبار بند کرا دیا
ابتداء مختلف جگہوں پر اے اين پی کے 3 کارکن ہلاک کرنے سے ہوئی

کيا فرنگی بھی ايسا ہی کرتے ؟

اگر خدا نخواستہ کوئی پاکستانی يورپ يا امريکہ ميں کوئی معمولی سی ايسی حرکت کر بيٹھتا جو کسی عيسائی يا يہودی کو پسند نہ ہوتی تو اُس پاکستانی کو اگر دہشتگرد قرار دے کر قيد نہ کر ديا جاتا تو ناپسنديدہ شخص قرار دے کر دو تين گھنٹوں ميں مُلک بدر کر ديا جاتا

ايک فرنگی ملک کی صحافی عورت جو اُس گُستاخ اخبارکيلئے کام کرتی ہے جس ميں رسولِ اکرم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم کے جعلی خاکے چھپے تھے اور اُس نے معافی مانگنے سے بھی انکار کيا تھا پاکستان آئی ہوئی ہے اور متذکرہ مطعون خاکوں کی نقول تقسيم کرتے ہوئے پکڑی گئی ۔ متعلقہ پاکستانی حکام نے قانون کے مطابق اُس کا ويزہ منسوخ کر ديا اور اُسے فوری طور پر پاکستان چھوڑنے کا حُکم ديا ۔ جمعہ 14 مئی 2010ء کو ايف آئی اے کے اہلکار اُسے ايئرپورٹ پہنچانے کيلئے اُس کی رہائش گاہ پر پہنچ گئے ليکن ۔ ۔ ۔

آخری لمحات ميں اسلام آباد پوليس کے ايک اعلٰی عہديدار کو کسی غيرملکی نے کہا کہ “صحافی عورت کو بے عزت نہ کيا جائے اور اُسے تين چار دن بعد باعزت طريقہ سے جانے ديا جائے”۔ اسلام آباد پوليس کے اُس اعلٰی عہديدار نے جو بڑا خوش اخلاق مشہور ہے اُس غيرمُلکی کی حُکم بجا آوری کرتے ہوئے اُس گُستاخ صحافی عورت کے خلاف کاروائی روک دی ۔ کيا خوش اخلاقی مُلکی قوانين سے زيادہ اہم ہے ؟
بشکريہ ۔ دی نيوز

مجھے 40 سال پرانا ايک واقعہ ياد آيا جب ميں پروڈکشن منيجر تھا ۔ ميں نے اپنے ماتحت ڈيزائن آفس کے فورمين کو ايک خاص تربيت کيلئے 3 ماہ کيلئے جرمنی بھجوايا ۔ 3 ہفتے گذرے تھے کہ ايک اعلٰی عہديدار نے بتايا کہ اُسے واپس بھيجا جا رہا ہے ۔ ميں نے فوری طور پر ايک خط جرمنی اپنے سفارتخانے کو تفصيل معلوم کرنے کيلئے بھيجا ۔ ہفتہ ميں ايک بار ڈپلوميٹک بيگ جاتا تھا جو کہ دو دن قبل جا چکا تھا اسلئے ميرا خط ايک ہفتہ بعد ملا اور اس وقت تک اُسے واپس بھيجا جا چکا تھا جو پيسے وہ خرچ کر چکا تھا واپس کرنا پڑے چنانچہ وہ مقروض ہو گيا

ہوا يوں کہ وہ فورمين اسلامی شرع کا پابند تھا ۔ وہ حرام سے بچنے کيلئے پھل انڈے مکھن ڈبل روٹی بند وغيرہ کھاتا تھا ۔ دفتری اوقات کے دوران ظہر اور عصر کی نمازوں کا وقت ختم ہو جاتا تھا ۔ يہ دونوں نمازيں وہ ڈيزائن آفس ميں پڑی ايک الماری کے پيچھے پڑھتا تھا تا کہ دوسرے ڈِسٹرب نہ ہوں ۔ اس کے باوجود اُس کو ناپسند کيا گيا اور اُسے پاکستان واپس بھيج ديا گيا ۔ بہانہ يہ بنايا گيا کہ وہ کچھ کھاتا پيتا نہيں ہے اسلئے مر جائے گا ۔ ميں اُس فورمين کا انچارج تھا اور ميں نے ہی اُسے حکومت سے منظوری لے کر بھجوايا تھا اور جس کمپنی ميں وہ تربيت لے رہا تھا وہ مجھے 4 سال سے جانتے تھے ۔ جرمنی ميں پاکستانی سفارتخانے ميں ايک ٹيکنيکل اتاشی بالخصوص ہمارے ادارے کے معاملات کو ديکھنے کيلئے موجود تھا ۔ کمال يہ ہے کہ نہ مجھ سے کسی نے بات کی اور نہ ٹيکنيکل اتاشی سے اور اُسے واپس بھيج ديا گيا

چالاک مگر بيوقوف شخص

ميں 9 مئی 2010ء کی صبح اسلام آباد چلا گيا تھا اور 11 مئی 2010ء کی شام کو واپس لاہور پہنچا ہوں ۔ اسلام آباد ميں مصروفيت اتنی زيادہ تھی کہ ميں کمپيوٹر پر کام کرنا تو کُجا اس کا سوچ بھی نہ سکا

ايک شخص نے 10 مئی 2010ء کو بعد دوپہر ايک بج کر 43 منٹ 41 سيکنڈ پر ميرے بلاگ اور ای ميل ايڈريس کو استعمال کر کے ميری ہی تحرير پر فضول تبصرہ کيا ۔ اُس نے اپنا سب کچھ پوشيدہ رکھنے کی کوشش کی ليکن اُسے يہ شايد خبر نہيں کہ ايک ايسا نمبر ہے جو کوئی پوشيدہ نہيں رکھ سکتا ۔ وہ نمبر ميں نے محفوظ کر ليا ہے ۔ اگر ميں 10 مئی کو ہی يہ تبصرہ ديکھ ليتا تو اُس شخص کے متعلق زيادہ معلومات حاصل ہو سکتی تھيں

بہرکيف اس شخص نے اپنا چھوٹا پن ظاہر کر ديا ہے ۔ اُسے يہ بھی احساس نہيں ہے کہ جب تک اللہ نہ چاہے کوئی کسی کا کچھ نہيں بگاڑ سکتا ۔ اللہ ہميں سيدھی راہ پر چلنے کی توفيق عطا فرمائے

جب عورت ہی عورت کی دُشمن ہو جائے

قومی اسمبلی کے بدھ کو ہونیوالے اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران مسلم لیگ ن کی خاتون رکن قومی اسمبلی طاہرہ اورنگزیب نے کاسمیٹکس کی درآمد سے متعلق سوال کیا ۔ وفاقی وزیر نے جواب ميں کہا “خواتین اپنے آپ کو جوان رکھنے کیلئے لپ اسٹک ،لوشن اورکریم با ہرسے منگواتی ہیں جن کی ماليت 70 کروڑ روپے سے زائد ہے”

پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی بیگم یاسمین رحمان نے کہا ” اگر حکومت کاسمیٹکس کی درآمد پرپابندی لگادے تو پھر ملک کاخزانہ بچایا جاسکتا ہے”۔ جس پر سید خورشید شاہ نے کہا “پابندی لگائی گئی تو خواتین حکومت کیخلاف احتجاجی جلوس نکالنا شروع کردینگی”

سچ

ميرے انگريزی والے بلاگ کا عنوان ہے “حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے“۔ مختصر کہيں تو ” کڑوا سچ “۔ آج ايک مضمون سے کچھ اقتباسات

” سچ یہ ہے کہ ہمیں صرف اپنی پسند کا سچ سننے اور کہنے کی عادت پڑ چکی ہے ۔ جو سچ ہمیں پسند نہ آئے اسے جھوٹ قرار دینے کے لئے ہم ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں ۔ کچھ سچ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں کہنے یا لکھنے کی جرأت ہم میں نہیں ہوتی ۔ جب کوئی دوسرا یہ سچ بول دیتا ہے تو ہم پر ہذیانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور ہم سچ میں سازش کے پہلو تلاش کرنے لگتے ہیں ”

کیا کوئی پاکستانی تحقیقاتی ادارہ یہ کہنے کی گستاخی کرسکتا تھا کہ 27دسمبر 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو کے جائے شہادت کو دھونے کا حکم اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹلی جنس میجر جنرل ندیم اعجاز نے دیا تھا؟ یہ وہ سچ ہے جو ہم نہیں بول سکتے تھے، یہ وہ سچ ہے جو ہم میں سے کئی لوگ سننا بھی نہیں چاہتے کیونہ یہ سچ ان کی پسند کا نہیں لیکن سچ تو سچ ہے اور یہ سچ تو اب اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے ریکارڈ کا حصہ بن گیا ہے

پرویز مشرف نے 29 نومبر 2007ء کو جنرل اشفاق پرویز کیانی کو نیا آرمی چیف مقرر کیا تاہم تین اہم خفیہ اداروں کے سربراہ وہی رہے جو پہلے سے تھے۔ 27دسمبر 2007ء کو جب سانحہ لیاقت باغ پیش آیا تو جنرل کیانی کو آرمی چیف بنے صرف ایک ماہ گزرا تھا

عام طور پر ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلی جنس ہر اہم حکم آرمی چیف کی مرضی سے جاری کرتا ہے لیکن میجر جنرل ندیم اعجاز کا معاملہ ذرا مختلف ہے ۔ وہ 1999ء میں کرنل تھے اور اسی زمانے سے براہ راست جنرل مشرف سے ہدایات لیا کرتے تھے ۔ کرنل کی حیثیت سے انہوں نے لاہور کے مختلف تھانوں میں جاوید ہاشمی، خواجہ سعد رفیق اور سینیٹر پرویز رشید پر وحشیانہ تشدد کیا اور اٹک قلعے مں نواز شریف کی حوالات کے اردگرد سانپ چھوڑ دیئے ۔ انہی موصوف نے رانا ثناء اللہ کے ساتھ بھی زیادتی کروائی اور تشدد کے بعد رانا صاحب کو عالم بے ہوشی میں موٹر وے پر پھینک دیا گیا

مسلم لیگ (ق) کی تشکیل میں ندیم اعجاز نے اہم کردار ادا کیا اور انہی خدمات کے صلے میں انہیں لاہور ہی میں بریگیڈیئر اور پھر میجر جنرل بنادیا گیا ۔ ملٹری انٹیلی جنس کا سربراہ بننے کے بعد انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ نواب اکبر بگٹی کو راستے سے ہٹادیا ۔ اس وقت چوہدری شجاعت حسین نے مذاکرات کے ذریعہ بگٹی صاحب کے ساتھ مفاہمت کا راستہ نکال لیا تھا لیکن ندیم اعجاز نے ان مذاکرات کو کامیاب نہ ہونے دیا

بگٹی صاحب کی شہادت کے بعد ایک اجلاس میں پرویز مشرف نے کہا کہ اب محمود خان اچکزئی کی باری ہے لیکن اس دوران چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے ساتھ معاملات بگڑگئے اور یوں اچکزئی بچ گئے ۔ جسٹس افتخار سے استعفیٰ لینے کا مشورہ بھی ندیم اعجاز کا تھا ۔ جب وکلاء تحریک شروع ہوگئی تو پھر ندیم اعجاز نے میڈیا میں سے مشرف دشمن عناصر کو ملک دشمن قرار دینا شروع کیا اور جس کسی نے ان کی بات نہ مانی اسے اغوا کروایا، تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ غداری کے مقدمات بنانے کی دھمکیاں بھی دیں

چوہدری پرویز الٰہی اعتراف کرچکے ہیں کہ5مئی 2007ء کو جی ٹی روڈ پر اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے جسٹس افتخار اور اعتزاز احسن پر فائرنگ کا منصوبہ بنایا گیا تھا ۔ افسوس کہ چوہدری صاحب کے انکشاف کے بعد بھی کوئی ادارہ حرکت میں نہ آیا، اگر حرکت میں آجاتا تو بہت پہلے پتہ چل جاتا کہ نہ صرف 5 مئی بلکہ 12 مئی 2007ء کو کراچی میں جو کچھ ہوا اس کا ذمہ دار بھی ندیم اعجاز تھا ۔ صرف یہ پتہ کرلیجئے کہ 2 مئی اور 12 مئی 2007ء کے درمیان ندیم اعجاز بیرون ملک کس کے پاس گیا اور واپس آکر کس کس کو ملا؟

بشکريہ ۔ جنگ

دکھائيں گے قوم کو رنگ کيسے کيسے

صدر آصف علی زرداری نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے وزیر داخلہ رحمن ملک کی برطرفی کو ریٹائرمنٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔ اصول و ضوابط کی یہ کھلی خلاف ورزی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب محترمہ قتل کیس میں ان کے کردار پر شدید تنقید ہو رہی ہے۔ رحمن ملک نے اس حوالے سے خود اپیل دائر کی جبکہ درخواست گزار اپنے باس کے ذریعے یا اس نے اگر سروس چھوڑ دی ہے تو وہ اپنے سابقہ باس کے ذریعے ہی اپیل دائر کر سکتا ہے ۔ سیکرٹری داخلہ نے 17 اپریل 2010ء کو 15 نومبر 2002ء سے اپنے باس کی ریٹائرمنٹ کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیاجبکہ رحمن ملک کی پہلی اپیل کو صدر رفیق تارڑ نے 1999ء میں مسترد کر دیا تھا۔ سول سروس رولز کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اپیل کا وقت [30 دن] گزر جانے کی وجہ سے ایوان صدر انہیں معافی نہیں دے سکتااور نہ ہی دوبارہ صدر کو اپيل کی جا سکتی ہے ۔ رحمن ملک کو 4 نومبر 1998ء کو حکومت پاکستان کی ملازمت سے برطرف کیا گیا تھا ۔ ان کے خلاف سات نکاتی چارج شیٹ میں غیر قانونی طور پر دو ہنڈا کاروں کا حصول، سرکاری حیثیت کا غلط استعمال، بجلی چوری جیسے الزامات عائد کئے گئے تھے۔ اس وقت ان کی معطلی کا معاملہ احتساب عدالت نے ختم کر دیا جبکہ ہنڈا کاروں کے حوالے سے ریفرنس ابھی بھی احتساب عدالت میں زیرسماعت ہے۔

متروکہ جائيداد ٹرسٹ بورڈ نے 2007ء ميں سکھوں کے گوردواروں سے ملحق زمين ڈی ايچ اے کو فروخت کرنے کا منصوبہ بنايا اور کيس تيار کر کے وزارتِ اقليتی امور کی رائے لينے کيلئے بھيجا ۔ وزارتِ اقليتی امور نے اس منصوبے پر اعتراضات لگا کر فائل اپنے پاس رکھ لی ۔ پھر مئی 2009ء ميں جب حکومت بھی بدل چکی تھی اور وزارتوں کے سربراہان بھی تو تمام قوانين کو بالائے طاق رکھتے ہوئے متعلقہ سينکڑوں ايکڑ زمين ڈی ايچ اے کو بيچ دی گئی ۔ اس کی خبر اُس وقت ہوئی جب بھارتی پارليمنٹ ميں اس پر اعتراضات اُٹھائے گئے اور بھارت کی حکومت نے پاکستان کی حکومت کو لکھا کہ تحقيقت کی جائے

ڈائریکٹر جنرل ریسکیو 1122 ڈاکٹر رضوا ن نصیر نے انکشاف کیا ہے کہ اس وقت کے پولیس افسر سعود عزیز نے ہمیں سختی سے حکم دیا تھا کہ جلد از جلد جائے حادثہ کو پانی سے دھویا جائے لیکن ریسکیو 1122 نے اس بناء پر کہ جائے شہادت کو دھونے سے تمام شہادتیں اور ثبوت ضائع ہو جائیں گے، یہ کام کرنے سے انکار کردیا جس پر ایس ایس پی سعود عزیز کے حکم پر کارپوریشن کی فائر بریگیڈ گاڑیوں سے جائے شہادت کو دھلوایا گیا تاہم بعدازاں جب ثبوت ضائع ہو گئے تو ریسکیو 1122 نے بھی دھلائی اور صفائی کے کام میں حصہ لیا

ابھی بھی ہماری قوم ميں ايسے افراد موجود ہيں جو کہتے ہيں کہ پرويز مشرف اور زرداری کو بلا وجہ بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے