جمعرات 27 جنوری 2011ء کو امريکيوں کے ہاتھوں 3 پاکستانيوں کے بر سرِ عام قتل کے سلسلہ ميں ڈاکٹر منير عباسی صاحب نے سوال کيا ہے کہ “کیا تین پاکستانیوں کے قتل عمد میں ملوث امریکیوں کو سزا ہو گی؟”
اس سوال کا جواب دينے کيلئے واردات کی مکمل تفصيل اور ماضی ميں ايسے واقعات پر کی گئی حکومتی کاروائی مدِ نظر ہونا ضروری ہے ۔ ميں اپنی سی کوشش کرتا ہوں کہ دونوں کو بالکل مختصر يکجا کروں
واردات کے اجزاء
1 ۔ ريمنڈ ڈيوس نے پوليس کو بتايا تھا کہ وہ امريکی قونصليٹ ميں ٹيکنيکل ايڈوائزر ہے مگر بعد ميں معلوم ہوا کہ وہ بزنس آفشل کے ويزہ پر پاکستان آيا ہوا ہے ۔ وہ ڈِپلوميٹ نہيں ہے
2 ۔ جہاں ريمنڈ ڈيوس گھوم رہا تھا اُس علاقہ ميں کسی امريکی کو جانے کی اجازت نہيں ہے
3 ۔ ريمنڈ ڈيوس جو کار چلا رہا تھا اُس پر نمبر پليٹ جعلی تھی
4 ۔ کسی غير مُلکی بشمول امريکيوں کے پاکستان کی حدود کے اندر اسلحہ ساتھ لے کر چلنے کی اجازت نہيں ہے ۔ ريمنڈ ڈيوس کے پاس اسلحہ تھا جس کا اُس نے بيدردی سے استعمال کر کے دو پاکستانی جوانوں کی جان لے لی
5 ۔ کسی غير مُلکی بشمول امريکيوں کے پاکستان کی حدود کے اندر وائرليس سيٹ رکھنے کی اجازت نہيں ہے ۔ ريمنڈ ڈيوس کے پاس وائرليس سيٹ تھا جسے استعمال کر کے اُس نے اپنے قونصليٹ سے مدد منگائی
6 ۔ ريمنڈ ڈيوس کا مؤقف ہے کہ اُس نے اپنے دفاع ميں گولی چلائی ۔ ہسپتال ميں موٹر سائيکل چلانے والے فيضان حيدر کے جسم سے 9 گولياں اور پيچھے بيٹھے فہيم کے جسم سے 5 گولياں نکالی گئيں ۔ کيا اپنے دفاع ميں 14 گولياں چلائی جاتی ہيں جبکہ ريمنڈ ڈيوس کو کوئی گولی نہ لگی اور نہ کوئی گولی باہر سے اُس کی کار کو لگی
7 ۔ فيضان حيدر اور فہيم کو ہلاک کرنے کے بعد ريمنڈ ڈيوس کار سے باہر نکلا اور ہلاک ہونے والوں کی تصويريں بناتا رہا ۔ جس پر ڈاکو حملہ کريں کيا وہ ايسا کرتا ہے ؟
8 ۔ ريمنڈ ڈيوس کو پوليس نے گرفتار کر ليا
9 ۔ ريمنڈ ڈيوس کے وائرليس پر پيغام دينے کے نتيجہ ميں امريکی قونصليٹ کی ايک گاڑی پر ڈرائيور کے ساتھ دو آدمی آئے جو سب امريکی تھے
10۔ اس گاڑی کی نمبر پليٹ بھی جعلی تھی
11 ۔ سڑک پر ٹريفک زيادہ ہونے کی وجہ سے قونصليٹ کی گاڑی کو سُست چلنا پڑ رہا تھا ۔ ڈرائيور جانے اور آنے والی سڑکوں کی درميانی پٹڑی کے اوپر سے گاڑی کو جمپ کرا کے آنے والی سڑک پر ٹريفک کے مخالف گاڑی چلانے لگا جس کے نتيجہ ميں ايک موٹر سائيکل سوار عبادالرحمٰن کو ٹکر ماری جو ہلاک ہو گيا
12 ۔ جب اُس نے بھاگنے کی کوشش کی تو لوگوں نے اُسے روکا جس پر ايک آدمی نے اپنی گن کا رُخ اُن کی طرف کر کے اُنہيں دھمکی دی ۔ لوگ پيچھے ہٹ گئے اور وہ بھاگنے ميں کامياب ہو گيا
ہمارا ماضی کيا بتاتا ہے ؟
لاہور کا واقعہ پچھلے تمام واقعات سے بہت زيادہ سنگين ہے البتہ ماضی کی کچھ مثاليں يہ ہيں جن ميں ہماری حکومت نے کوئی کاروائی نہيں کی تھی
1 ۔ پچھلے سال اسلام آباد ميں دو ڈچ باشندوں کو اپنی گاڑی ميں اسلحہ بشمول ہينڈ گرنيڈز ليجاتے ہوئے پوليس نے پکڑا ۔ امريکی سفارتخانے کے ايک اہکار سنّی کرسٹوفر نے انہيں چھڑانے کی کوشش کی ۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ نے اسے جُرم قرار ديا ۔ سيکريٹيريٹ پوليس نے کيس کا انداج بھی کيا مگر حکومت نے ان کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہونے دی
2 ۔ جون 2009ء ميں ايک ڈبل کيبن پک اپ پشاور سے اسلام آباد آتے ہوئے جب گولڑہ چوک چيک پوسٹ پر پہنچی تو اُسے رُکنے کا اشارہ ديا گيا مگر وہ نہ رُکی ۔ پوليس نے وائرليس پر اگلی چيک پوسٹ کو اطلاع کر دی چنانچہ جی ۔ 9 کے پاس انہيں روک ليا گيا ۔ اس ميں تين امريکی جيفری ۔ جفڈک اور جيمز بل کوئين ۔ چارلی بنزک نامی ڈرائيور کے ساتھ سفر کر رہے تھے ۔ يہ لوگ شلوار قميضيں پہنے تھے ۔ لمبی ڈاڑھياں رکھی تھيں اور پٹھانوں کا حُليہ بنايا ہوا تھا ۔ ان کے پاس 4 ايم ۔ 4 مشين گنز اور 4 پستول 9 ايم ايم کے تھے ۔ ايس پی کی مداخلت سے ان لوگوں کو جانے ديا گيا
3 ۔ اگست 2009ء ميں اسلام آباد پوليس کا انسپکٹر حکيم خان اپنی بيوی کے ساتھ پرائيويٹ کار ميں امريکی سفارتخانے کی قريبی چيک پوسٹ سے گذر رہا تھا ۔ اُسے امريکی سفارتخانے کے سکيورٹی آفيشل جان ارسو نے روکا اور گالياں ديں ۔ جب انسپکٹر حکيم خان نے اُسے کہا کہ وہ شارع عام پر گاڑياں چيک نہيں کر سکتا تو جان ارسو نے پستول نکال ليا اور کہا کہ وہ پاکستان ميں کسی بھی جگہ کوئی بھی چيز چيک کر سکتا ہے ۔ حکيم خان نے اپنے افسرانِ بالا کو اس واقعہ کی باقاعدہ تحريری اطلاع دی ۔ جان ارسو کے خلاف کوئی تاديبی يا قانونی کاروائی نہ کی گئی مگر اسے امريکا واپس بھجوا ديا گيا
4 ۔ اس کے بعد اگست 2009ء ہی ميں ايک پاکستانی جوان جو ڈپلوميٹک اينکليو ميں رہتا تھا دو دوستوں کے ساتھ اپنی کار ميں امريکی سفارتخانے کی چيک پوسٹ سے گزر رہا تھا کہ ايک يو ايس ميرين جو اپنی بيوی کے ساتھ جاگنگ کرتے ہوئے وہاں سے گذر رہا تھا نے اس کی کار کو روکا اور ٹھُڈا مار کر کار کا سائيڈ کا شيشہ توڑ ديا اور صرف پاکستانی جوان کو ہی نہيں پاکستان کو بھی گالياں ديں ۔ پاکستانی جوانوں کے احتجاج کرنے پر يو ايس ميرين نے سکيورٹی گارڈز کو بلا کر انہيں 40 منٹ زيرِ حراست رکھا اور اس شرط پر چھوڑا کہ وہ دوبارہ کبھی اُس سڑک پر گاڑی نہيں چلائيں گے
5 ۔ اگست 2009ء کے ہی آخری دنوں ميں سيکٹر ايف ۔ 6 ميں شيل پٹرول پمپ کے مالک محسن بخاری کو ميريئٹ ہوٹل کے قريب آغا خان روڈ کے ٹريفک سگنل پر 2 امريکيوں نے روک کر اپنی شناخت کرانے کو کہا ۔ پھر اُسے اُس کے پٹرول پمپ پر لے گئے جہاں امريکی سفارتخانے کی سکيوريٹی کی ٹيم بھی پہنچ گئی اور محسن بخاری سے 30 منٹ پوچھ گچھ کی گئی ۔ محسن بخاری سينٹ ميں ليڈر آف دی ہاؤس نيّر بخاری کا بھتيجا ہے
6 ۔ اگست 2009ء کے ہی اواخر ميں امريکی سفارت خانے کی ايک پراڈو اور ايک ڈبل کيبن پک اپ کو کشمير ہائی وے پر پشاور موڑ کے قريب پوليس نے روکا ۔ دونوں گاڑيوں کی رجسٹريشن پليٹيں جعلی تھيں ۔ امريکيوں نے چيکنگ کروانے سے انکار کيا ۔ بعد ميں کچھ افسران آ گئے اور ان سے درخواست کی کہ پوليس کو قانون کے مطابق اپنا کام کرنے ديں ۔ 4 امريکيوں پکل روبن کينتھ ۔ لسٹر ڈگلس مائيکل ۔ کلن ڈينن جيسن رابرٹ اور سٹيل جونيئر نے اپنے آپ کو يو ايس آرمی آفيشلز بتايا ۔ ان کے ساتھ احمد اللہ نامی ايک افغانی بھی تھا جو امريکی سفارتخانہ ميں رہتا تھا اور اُس کے پاس پاسپورٹ يا کوئی ٹريول ڈاکومنٹ نہ تھا ۔ صرف امريکی سفارتخانے کا ايک خط اُس کے پاس تھا ۔ ان کے پاس 4 ايم ۔ 4 رائفليں اور ايميونيشن تھا مگر کسی کے پاس لائسنس يا کوئی اور اٹھارٹی نہ تھی ۔ اُنہوں نے بتايا کہ وہ خيبر پختونخوا کی فرنٹيئر کور کے ساتھ کام کر رہے ہيں مگر اس کا ان کے پاس کوئی ثبوت نہ تھا
موجودہ صورتِ حال يہ ہے کہ اسلام آباد ميں حکومت پر امريکی دباؤ جاری ہے اور امريکی ان قاتلوں کو بغير کسی کاروائی کے امريکا ليجانا چاہتے ہيں ۔ وزارتِ خارجہ انکار کر چکی ہے مگر وزارتِ خارجہ ماضی ميں بھی قانون کے مطابق انکار کرتی رہی ہے ۔ وزيرِ داخلہ نے کہا ہے کہ ان کے ساتھ ملک کے قانون کے مطابق کاروائی عمل ميں لائی جائے گی
پنجاب حکومت نے امريکی قونصليٹ سے کہا ہے کہ موٹر سائيکل سوار کو کچلنے والی گاڑی اور ڈرائيور پنجاب حکومت کے حوالے کيا جائے