نہیں نا اُمید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
علامہ محمد اقبال صاحب کے مندرجہ بالا قول کی عملی مثالیں گاہے بگاہے سامنے آتی رہتی ہیں ۔ آج ان میں سے ایک واقعہ نقل کر رہا ہوں جو آج کے نوجوانوں کے عِلم میں شاید آیا ہی نہ ہو اور بڑوں کی اکثریت شاید بھول چکے ہوں
یہ اچھوتا اور مغربی دنیا میں ناقابلِ یقین واقعہ آج سے 18 سال 5 ماہ اور 4 دِن قبل 25 اکتوبر 1998ء کو بلوچستان اور سندھ کی فضاؤں میں رونما ہوا تھا
پی آئی اے کا چھوٹا ہوائی جہاز (فوکر فرینڈشپ 27) گوادر ایئر پورٹ سے کراچی روانہ ہونے کو تیار کھڑا تھا ۔ روانگی سے قبل جہاز میں معمول کے مطابق اعلان کیا گیا ”خواتین و حضرات اپنے حفاظتی بند باندھ لیجئے ۔ ہم اپنے سفر پر روانہ ہونے والے ہیں”۔
جہاز میں 33 مسافر اور عملہ کے 5 افراد سوار تھے ۔ شام ساڑھے 5 بجے جہاز منزل کی جانب روانہ ہوا ۔ زمین سے اُٹھنے کے 20 منٹ بعد ایک درازقد جوان اُٹھا اور کاک پِٹ کی جانب بڑھا ۔ ایئر ہوسٹس خالدہ آفریدی نے سامنے آتے ہوئے گذارش کی ”سر آپ تشریف رکھیں ۔کاک پٹ میں جانے کی اجازت نہیں“۔
وہ شخص اُسے دھکا دے کر کاک پِٹ میں داخل ہو گیا اور پستول پائلٹ عزیر خان کی گردن پر رکھتے ہوئے خبردار کیا کے وہ اسکے حکم کا پابند ہے ۔ اسی لمحے ہائی جیکر کے 2 ساتھیوں نے کھڑے ہو کر مسافروں پر پستول تان لئے ۔ اِن میں سے ایک نے خود کُش جیکٹ پہن رکھی تھی ۔ ہائی جیکر نے کیپٹن عزیر کو حکم دیا ” یہ جہاز کراچی نہیں دہلی جائے گا“۔
کیپٹن نے جہاز میں مسافروں کو آگاہ کیا ”معزز خواتین و حضرات جہاز ہائی جیک ہو چکا ہے اور اب یہ انڈیا جائے گا“۔
پھر ہائی جیکر نے کیپٹن عزیر کو انڈین ایئر بیس رابطہ کر کے اُترنے کی اجازت مانگنے کا کہا ۔ کیپٹن نے بظاہر اجازت حاصل کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ہی جہاز کی سِمت بدل دی ۔ راڈار پر جہاز کی سِمت بدلتے ہی پاکستانی ایئر پورٹ ہیڈ کوارٹر میں کھلبلی مچ گئی ۔ چند منٹ بعد پاکستان ایئر فورس کے 2 فائٹر جیٹ فضا میں بلند ہوئے اور فوکر کو گھیر لیا ۔ ایئر پورٹ ہیڈ کوارٹر میں اعلی حکام کا اجلاس ہوا جس میں لائحہءِ عمل تیار کیا گیا ۔ فیصلہ ہوا کہ فوکر کو حیدرآباد (سندھ) ایئرپورٹ پر اُتارا جائے ۔ تربیت یافتہ پولیس اور فوج کے کمانڈوز کے دستے منگوا لئے گئے ۔ رینجرز کا دستہ بھی ہائی الرٹ کر دیا گیا
اب اصل ڈرامہ شروع ہونے کو تھا
کیپٹن عزیر خان جان چکے تھے 2 فائٹر جیٹ جہاز کو گھیرے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے بہانہ بناتے ہوۓ کہا ”ہمارے پاس ایندھن اتنا نہیں ہے کہ ہمیں دہلی لے جاسکے ۔ ہمیں قریبی ائیر پورٹ سے ایندھن لینا پڑے گا“۔
ہائی جیکرز ہر صورت جہاز دہلی لے جانا چاہتے تھے ۔ ان کے پاس نقشہ تھا ۔ انڈیا کی بھوج ائیربیس کو نقشے میں دیکھ کر آپس میں باتیں کر رہے تھے جو سُن کر کیپٹن نے کہا ”انڈیا کا بھوج ائیر بیس قریب پڑتا ہے ۔ وہاں تک جہاز جا سکتا ہے لیکن اس کیلئے انڈین ہیڈ کوارٹر سے اجازت لینا ہوگی“۔
کیپٹن عزیر جانتے تھے قریبی ایئرپورٹ حیدرآباد (سندھ) کا تھا ۔ انہوں نے رابطہ کرتے ہوئے کہا ”کیا یہ بھوج ائیر پورٹ ہے ؟ کیا آپ مجھے سن سکتے ہیں ؟ “ جواب میں کسی نے ہندی زبان میں ہائی جیکروں کے ساتھ بات کرانے کا کہا اور ہائی جیکروں نے بات شروع کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بلوچستان کی طلباء تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں ۔ جہاز میں 33 مسافر اور 5 عملہ کے لوگ ہیں ۔ وہ پاکستان کے انڈیا کے مقابلہ میں ایٹمی تجربہ کرنے کے خلاف ہیں اور پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں تاکہ وہ یہ تجربہ نہ کریں ۔ پھر جئے ہند کا نعرہ لگا کر کہا کہ وہ انڈیا کی مدد کریں گے اور پاکستان کا یہ جہاز دہلی لے جانا چاہتے ہیں ۔ انہیں بھوج ائیر بیس پر اُترنے دیں کیونکہ جہاز کو ایندھن چاہیئے
ہائی جیکروں کے ساتھ بات کرنے والا پاکستان ایئر فورس کا خصوصی تربیت یافتہ آفیسر تھا ۔ اُس نے ان کی شناخت پوچھی ۔ ہائی جیکر نے اپنے پورے نام اور پتے بتا دیئے ۔ کچھ وقفہ کے بعد ہائی جیکروں کو بتایا گیا ”پردان منتری سے بات کرنے کے بعد آپ کا مطالبہ منظور کر لیا گیا ہے اور بھوج ایئرپورٹ پر اُترنے کی اجازت ہے“۔ خوشی سے ہائی جیکروں نے جئے ہند کے نعرے لگائے ۔ دوسری جانب سے بھی جے ہند کے نعرے کی آواز آئی
کیپٹن عزیر یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ اب وہ انڈیا کی طرف جا رہے جہاز کو حیدرآباد ایئر پورٹ پر گھماتے رہے ۔ پاکستان کے سیکورٹی افسران نے متعلقہ اداروں سے ہائی جیکروں کا ڈیٹا حاصل کر لیا ۔ رات کا اندھیرہ چھا چکا تھا ۔ ہنگامی طور پر حیدرآباد ایئر پورٹ سے تمام جہاز ہٹا دیئے گئے ۔ پولیس نے ائیر پورٹ کی طرف جانے والے تمام راستے بند کر دیئے ۔ حیدرآباد ایئر پورٹ پر لائٹس بند کر دی گئیں ۔ شہر کی بجلی بھی بند کر دی گئی تاکہ ہائی جیکر علاقہ نہ پہچان سکیں ۔ ایئر پورٹ کی عمارت سے پاکستان کا جھنڈا اُتار کر انڈیا کا جھنڈا لہرا دیا گیا
کچھ دیر بعد جہاز حیدر آباد ایئر پورٹ پر اُتر گیا ۔ وہاں انڈیا کا پرچم لہراتے دیکھ کر ہائی جیکروں نے پھر جئے ہند کا نعرہ لگایا ۔ کمانڈوز اور رینجرز تیار کھڑے تھے ۔ جہاز کھڑا ہوتے ہی گاڑیاں اس کے آگے کھڑی کر دیں گئیں کہ جہاز ٹیک آف نہ کرسکے ۔ ایئر پورٹ عملہ کے روپ میں انڈین آرمی کی وردی پہنے 3 پاکستانی کمانڈوز بغیر ہتھیاروں کے جہاز میں داخل ہوئے اور بات چیت کے دوران جہاز کے اندر کی صورتحال کا مکمل جائزہ لے لیا ۔ آخر ہائی جیکروں سے کہا ”آپ چِنتا نہ کریں ۔ آپ بھوج ایئر بیس پر ہیں اور محفوظ ہیں ۔ عورتوں ۔ بچوں اور ان کے ساتھی مردوں کو یہیں اُتار کر آپ دہلی پدھاریں“۔
مسافروں کے جہاز سے اُترنے کی دیر تھی کہ کمانڈوز ”اللہ اکبر“ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ایک ہی ہلے میں دونوں دروازوں سے جہاز میں داخل ہو گئے اور ہائی جیکروں کو قابو کر کے باندھ دیا
کپیٹن عزیر اور باقی عملہ مسکراتے ہوئے جہاز سے اُتر گئے
کپیٹن عزیر کی ذہانت اور چُست فیصلہ سازی نے مُلک کو ایک عظیم نقصان سے بچا لیا
اس واقعہ کے بعد جب صحافیوں نےان سے پوچھا تو بولے ” اگر دشمن یہ سمجھتے ہیں کے ہم موت سے ڈرتے ہیں تو سُن لیں مسلمان موت سے نہیں ڈرتا اور شہادت تو مسلمان کے لئے انعام ہے“۔
ہائی جیکروں پر سول عدالتوں میں مقدمہ چلتا رہا اور پھانسی کا حُکم سنا دیا گیا لیکن حکومتِ وقت نے غیر ملکی طاقتوں کے دباؤ میں آ کر سزا روکے رکھی ۔ بالآخر ان ہائی جیکروں کو 28 مئی 2015ء کو پھانسی دے دی گئی
پاکستان کے دشمنوں کو خبر ہو کے جس وطن کے بیٹے اتنے دلیر اور جانثار ہوں اس سرزمین کو کوئی شکست نہیں دے سکتا
پاکستان اِن شاء اللہ ہمیشہ قائم و دائم رہنے کے لئے ہے