Category Archives: تجزیہ

سوچ کردار کا پیمانہ ہے

ہر آدمی کا عمل اُس کی سوچ کا تابع ہوتا ہے ۔ کسی کی سوچ کا درست قیاس عام طور پر ممکن نہیں ہوتا ۔ البتہ سوچ کا کچھ اندازہ اُس وقت لگایا جا سکتا ہے جب مذکورہ آدمی کو اچانک کوئی بڑی خوشی ملے یا بڑا دھچکا لگے
اس کی ایک عام فہم مثال کرکٹ کے بارے میں ہے کیونکہ کرکٹ وہ کھیل ہے جس میں ساری دنیاکے لوگ دلچسپی رکھتے ہیں

پاکستان نے 1992ء میں کرکٹ ورلڈ کپ جیتا تھا ۔ جیتنے کے بعد اُس وقت کے پاکستانی ٹیم کے کپتان سے اُس کا تاءثر پوچھا گیا تو اُس کے منہ سے نکلا
” My ambition, Shaukat Memorial Trust “
ٹیم جس نے کپتان کو یہ اعزاز لینے کا اہل بنایا تھا اُس کا خیال تک نہ آیا

امسال یعنی 2016ء میں پاکستان کی ٹیم کو بہترین ٹیسٹ کرکٹ ٹیم اور کپتان کو بہترین کپتان قرار دیا گیا
کپتان سے اُس کا تاءثر پوچھا گیا تو اُس نے برملا کہا ” Captain is nothing without team “

اوّل الذکر کپتان کے اظہار سے خود غرضی عیاں ہے جبکہ مؤخر الذکر نے حقیقت کا اظہار کیا

عوام کے دوست یا دُشمن ؟

یہ جو 3 نومبر 2016ء کو اسلام آباد بند کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ کیا یہ عوام کے دوست ہیں یا دُشمن ؟

2014ء میں جب عمران خان ۔ طاہر القادری ۔ شیخ رشید اور اُن کے پیروکار اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر دھرنا دیئے ہوئے تھے ۔ میرے کئی کام اُن دفاتر میں نہ جا سکنے کی وجہ سے رُکے رہے جن کے راستے پر وہ بیٹھے تھے
اُن علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے بچے تین چار ماہ سکول نہ جا سکے اور خواتین گھروں میں قید ہو کر رہ گئیں
اُن علاقوں کے دکانداروں کا کاروبار بند رہا ۔ کھوکھے ۔ ریڑھی اور خوانچے والوں کے بیوی بچے فاقوں تک پہنچ گئے تھے
عمران خان شام کو آ کر لڑکیوں کو نچا کر گھر چلا جاتا تھا
خیبر پختونخوا کے وزیر اور اراکین اسمبلی سرکاری گاڑیوں پر آتے سرکاری خرچ پر رہتے اور شام کو میلہ سجانے شاہراہِ دستور پر پہنچ جاتے
طاہر القادری کے پیروکار وہاں 24 گھنٹے موجود رہتے تھے ۔ عمران خان اور شییخ رشید کے مقامی پیروکار شام کو میلہ سجانے آتے تھے البتہ خیبر پختونخوا سے لائے گئے عوام وہاں موجود رہتے تھے
ایسے جلسوں میں آنے والے زیادہ تر 3 قسم کے لوگ ہوتے ہیں ۔ سرکاری خرچ پر آئے ہوئے لوگ ۔ کرائے کے لوگ اور تماش بین جو ہر جلسے میں پہنچے ہوتے ہیں

شاہراہِ دستور کے طویل دھرنے پر کروڑوں روپیہ خرچ کیا گیا تھا ۔ ناجانے وہ پیسہ کہاں سے آیا تھا ۔ لوگوں کی شوکت خانم ہسپتال کیلئے دی ہوئی زکوٰۃ اور صدقات کا تھا یا کسی پاکستان دُشمن غیرمُلکی ایجنسی نے دیا تھا
اپنی حلال کی کمائی تو کوئی ایسے ضائع نہیں کرتا

اب عمران خان اور شیخ رشید اسلام آباد بند کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں گویا اسلام آباد کے 6 لاکھ لوگ جن میں بوڑھے ۔ عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں کو قید کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ہزاروں لوگ جو روزانہ روزگار کے سلسلہ میں اسلام آباد آتے ہیں اُن کا روزگار بند کرنا چاہتے ہیں

جس الزام کی بنیاد پر عمران خان اسلام آباد بند کرنا چاہتا ہے اُسی کا مقدمہ سپریم کورٹ اورالیکشن کمیشن میں کیا ہوا ہے جن پر کاروائی کیلئے یکم اور 2 نومبر کو حاضر ہونے کے نوٹس عمران خان اور نواز شریف کے ساتھ باقی متعلقہ لوگوں کو پہنچ چکے ہیں ۔ پھر سڑکوں پر احتجاج اور اسلام آباد بند کرنے کا کیا جواز ہے ؟

جو آدمی دفتر نہ جائے ۔ دفتر کا کام نہ کرے ۔ کیا اُسے تنخواہ ملتی ہے ؟ کیا وہ تنخواہ کا حقدار ہوتا ہے ؟
عمران خان کا انصاف اور دیانتداری یہ ہے کہ جس اسمبلی کو وہ نہیں مانتا اور جس میں وہ کبھی کبھار صرف رُونمائی کیلئے جاتا ہے ۔ اُس کی ہر ماہ پوری تنخواہ لیتا ہے اور اُس کی ساری مراعات بھی لیتا ہے
اپنے اس کردار کے ساتھ عمران خان دوسروں پر بد دیانتی کے الزامات لگاتا ہے

شاید اِسی لئے پرانے زمانے میں جو شخص بہت چالباز ہو اُسے ”سیاستدان“ کہتے تھے

خوش اخلاق و سمجھدار لوگ

٭ محتاط
٭٭ مُنفَرَد مُشتاق
٭٭٭ کھُلے ذہن والے
٭٭٭٭ متحمّل مزاج اور رحمدِل
٭٭٭٭٭ خوش اُمید (Optimistic)

(مُنفَرَد مُشتاق ۔ انفرادی طور پر شوق رکھنے والے)

ذرائع ابلاغ اور ہم

ذرائع ابلاغ کسی قوم کو کردار کی بلندی پر لے جا سکتے ہیں اور پَستی کی اتھاہ گہرایوں میں بھی

پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے پہلے مسلمانانِ ہند کے ترجمان صرف دو اخبار تھے
1 ۔ زمیندار اخبار لاہور ۔ جس نے مسلمانوں کی بیداری اور ان کے سیاسی شعور کی تربیت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا باوجود اس حقیقت کے کہ اس کی اشاعت محدود تھی اور مسلمانوں کے پاس نہ صنعت تھی نہ تجارت جس کی وجہ سے اشتہارات کی تعداد اتنی کم تھی کہ اخبار کو چلانا جان جوکھوں کا کام تھا۔ بعض اوقات ایسی صورت بھی پیدا ہو جاتی تھی کہ عملے کو تنخواہ دینے کے لیے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے
2 ۔ پیسہ اخبار دہلی ۔ یہ چھوٹے سائز کے کاغذ والا اخبار تھا جو ہفتہ وار تھا ۔ اس کی مالی حالت بھی زمیندار اخبار جیسی بلکہ اُس سے بھی ابتر تھی مگر اس نے بھی مسلمانوں کی بیداری اور ان کے سیاسی شعور کی تربیت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا
اِن کی بدولت مُسلمانانِ ہند جوک در جوک قائد اعظم محمد علی جناح کی سرپرستی میں ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہوتے چلے گئےجن کی لگن اور یکسُوئی اور یقین کے نتیجہ میں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمیں یہ مُلک پاکستان عنائت فرمایا ۔

عصرِ حاضر میں ہمارے نام نہاد قومی ذرائع ابلاغ جنہوں نے دولت کے انبار لگا لئے ہوئے ہیں کا کردار کچھ اس طرح ہے ۔ فیصلہ ہر شخص نے خود کرنا ہے کہ وہ کس طرف جانا چاہتا ہے
Media today

اللہ کا دیا تحفہ

ہمارا ملک پاکستان بلا شُبہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا دیا ایک تحفہ ہے ۔ اس میں دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ۔ برف پوش پہاڑ ۔ سرسبز پہاڑ ۔ چٹیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفح ۔ زرخیز میدان اور صحرا ۔ جھیلیں ۔ دریا ۔ نہریں اور سمندر سب کچھ موجود ہے ۔ ہر قسم کے پھل ۔ ہر قسم کی سبزیاں ۔ ہر قسم کا اناج کیا نہیں دیا اللہ نے ہم کو ۔ صرف محنت ہمیں کرنا ہے اور اس کے جنّت نظیر مناظر کو بھرپور بنانا ہےChilasHandrap Ghizer ValleyHunza and Nager Valley
Apples - Hunza ValleyHunza Ulter1, Ultar2 as seen from a height of 4000 metersKaghan ValleyLaspur Upper ChitralNaran547169_343282605741138_413812059_nimage002image004image009KimariRestaurant Do Darya Karachi

”بھائیجان کا تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ اور سیاست

سیاست آجکل نہ صرف اَوڑھنا بچھونا بلکہ کھانا پینا بھی بن چُکی ہے ۔ لیکن سیاست کی بات بعد میں ۔ پہلے بات ”بھائیجان کا تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ کی
ہم نے آٹھویں جماعت (1950ء تا 1951ء) میں محاورے پڑھے تھے ۔ ایک محاوہ تھا ” اُسی سے ٹھنڈا ۔ اُسی سے گرم “۔ آٹھویں جماعت ہی میں رسالہ تعلیم و تربیت میں ایک کارٹون دیکھا تھا کہ میز پر حلوے کی بھری پلیٹ پڑی ہے ۔ بچہ کہتا ہے ” امّی اگر یہ حلوہ میرا ہے تو اتنا کم اور اگر بھائیجان کا ہے تو اِتنا زیادہ“۔

کارٹون کو تو ہم نے مذاق سمجھ کر اِدھر اُدھر کر دیا تھا لیکن محاورہ نہ ہمارے دل میں گھُس سکا تھا نہ دماغ میں بیٹھا ۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ” اُسی سے ٹھنڈا ۔ اُسی سے گرم “ ہو
خیر ۔ وقت گذرتا گیا ۔ ہم لڑکے سے جوان بنے ۔ تعلیم سے فارغ ہو کر عملی زندگی میں کود گئے ۔ نان و نفقہ کی فِکر نے بہت کچھ بھُلا دیا مگر نہ یہ کارٹون بھُولا اور نہ محاورے نے ہماری جان چھوڑی ۔ عملی زندگی کے چند سالوں نے ہمارا دل صاف کرنا شروع کیا اور دماغ بھی محاورے کیلئے دوستانہ ہونے لگا ۔ بال بچے دار بننے تک ہمیں کارٹون اور محاوہ دونوں کی کچھ کچھ سمجھ آنے لگی
آج ہم بڑے طمطراق سے کہہ سکتے ہیں کہ دونوں ہی عقل و فہم اور باریک بینی کا عمدہ نمونہ ہیں

اب آتے ہیں سیاست کی طرف ۔ میں سیاست کا مطلب بتانے کی کوشش کرتا ہوں ۔ بڑے بڑے سمجھدار اور بڑے بڑے اپنے آپ کو دیانتدار کہنے والے سیاستدانوں پر آپ زیادہ نہیں بس تھوڑا سا غور فرماتے جایئے

میں گیارہویں یا بارہویں جماعت میں پڑھتا تھا کہ والد صاحب کے ساتھ کسی عزیزکے ہاں گیا ۔ وہاں کسی خاندانی مسئلہ پر بات شروع ہو گئی ۔ اچانک ایک فقرے نے مجھے چَونکا دیا ”بھائی جی ۔ وہ بڑا سیاستدان ہے“۔

اُس زمانہ میں بزرگوں کی باتوں میں چھوٹے نہیں بولا کرتے تھے ۔ اسلئے خاموش رہا ۔ کچھ عرصہ بعد اُن بزرگ کے گھر جانا ہوا جنہوں نے یہ فقرہ کہا تھا ۔ عرض کی ”فلاں دن آپ نے کہا تھا ۔ وہ بڑا سیاستدان ہے ۔ اس کا کیا مطلب ہے ؟“
مُسکرا کر بولے ”فی الحال تم اپنی پڑھائی کی طرف دھیان دو“۔

ہم ٹھہرے پیدائشی تابعدار ۔ خاموش ہو گئے ۔ لیکن اپنے دماغ میں ایک کِیڑا ہے جو اُس وقت تک کاٹتا رہتا ہے جب تک اُسے سوال کا جواب نہ مل جائے ۔ سال گزرتے گئے ۔ ہم انجنیئر بن گئے ۔ لاہور سے کامیاب ہونے کی سَنَد لے کر پَلٹے تو والد صاحب نے کہا ”فلاں تمیں یاد کر رہے تھے ۔ جا کر اپنی کامیابی کا بتا کر دعائیں لے آؤ“۔
ہم نے جا کر اپنے انجنیئر بننے کا بتایا ۔ شاباش کے بعد دعائیں سمیٹیں ۔ خاطر مدارات بھی کرائی ۔ مگر ہمارے دماغ کے کیڑے کو چین نہ آیا ۔ سو عرض کی ” آپ نے اتنے سال قبل فرمایا تھا کہ ”فلاں بڑا سیاستدان ہے ۔ اب عملی زندگی میں داخل ہونے والا ہوں ۔ مہربانی کر کے اس کا مطلب بتا دیجئے“۔
بزرگ نے مُسکرا کر میری طرف دیکھا اور گویا ہوئے ” اِس کا مطلب ہے کہ وہ اتنا ہوشیار ہے کہ پکڑائی نہیں دیتا “۔
میں نے وضاحت چاہی ”اچھائی میں “۔
فرمایا ” ہر لحاظ سے“۔

تو جناب ۔ آپ سیاستدانوں کی ہوشیاریوں اور ہیرا پھیریوں پر پریشان کیوں ہوتے ہیں کہ وہ پکڑے کیوں نہیں جاتے ؟
اگر وہ پکڑے جائیں تو پھر وہ سیاستدان تو نہ ہوئے

اب آپ کہیں گے کہ میں نے آپ کا وقت ” اُسی سے ٹھنڈا ۔ اُسی سے گرم “ اور ”بھائیجان کا تو ۔ ۔ ۔ ۔“ پر کیوں ضائع کیا

محترمات و محترمان ۔ ٹھنڈے دِل سے غور فرمایئے
کیا ایسا نہیں ہوتا کہ جب کسی سیاستدان کو موقع ملتا ہے تو خوب ہاتھ رنگتا ہے لیکن جب اپوزیشن میں ہوتا ہے تو دیانتدار بن کر حکمرانوں کے خلاف سڑکوں اور چوراہوں پر اُدھم مچاتا ہے
اِسے کہتے ہیں ”اُسی سے ٹھنڈا ۔ اُسی سے گرم“۔

اب پانامہ لِیکس کو دیکھ لیں
وزیرِ اعظم کے بچوں کے حوالے سے استعفٰے مانگنے والوں کی اپنی جماعتوں کے سربراہوں کی آف شوئر کمپنیاں ہیں جنہیں وہ اپنا حق سمجھتے ہیں
اِسے کہتے ہیں ”اگر یہ حلوہ میرے لئے ہے تو اِتنا کم اور بھائیجان کیلئے ہے تو اِتنا زیادہ“۔

یہ مت خیال کیجئے کہ ایسا صرف ہمارے مُلک پاکستان میں ہوتا ہے ۔ ساری دُنیا کے تمام جمہوری مُلکوں میں یہی کچھ ہوتا ہے ۔ جمہوریت کتابوں میں تو لکھی ہے ”عوام کی حکمرانی ۔ عوام کے ذریعہ ۔ عوام کیلئے ۔ Government of the people, by the people, for the people“۔ مگر عملی طور پر وہی ہے جو آپ اور میں دیکھ رہے ہیں یعنی مالداروں کی حکمرانی ۔ عوام پر ۔ عوام کی مدد سے
امریکہ کی انسان دوستی کا بڑا ڈھنڈورا پِیٹا جاتا ہے ۔ پچھلی کم از کم 5 دہائیوں میں کوئی ایک صدر یا وزیر امریکہ کا بتا دیجئے جو عوام میں سے تھا ۔ سب ہی ایک سے ایک بڑھ کے دولتمند ہو گا اور عوام کو لُوٹے بغیر دولت اکٹھی نہیں ہو سکتی
امریکی حکمرانوں نے دولت اکٹھی کرنے کے اپنے ذرائع بڑھانے کی خاطر وسطی ایشاء کے تیل پیدا کرنے والے مُلکوں پر قبضہ کیا جس کیلئے عوام سے اکٹھا کیا ہوا ٹیکس کا پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے اور عوام کو عین جمہوری طریقے سے بیوقوف بنایا جا رہا ہے کہ سب کچھ عوام کی حفاظت کیلئے کیا جا رہا ہے