Category Archives: تجزیہ

مسلمان بدنام کيوں ہيں ۔ لمحہءِ فکريہ

کِسی مُلک کا قانون وہ ہوتا ہے جو کہ اُس مُلک کا مجاز حاکم بناتا ہے اور یہ بھی تمام ممالک کے قوانین کی کتابوں میں لکھا ہوتا ہے کہ قانون سے لاعلمی بریّت یا معافی کا جواز نہیں ۔ کوئی ذی شعور آدمی يہ نہيں کہتا کہ قانون وہ ہے جس طرح لوگ کر رہے ہيں ۔ ايک روزمرّہ کی مثال ديتا ہوں ۔ ہمارے ملک ميں قوانين کی کھُلم کھُلا خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔ ٹريفِک کے قوانين ہی کو لے ليجئے ۔ مقررہ رفتار سے تيز گاڑی چلانا ۔ غلط طرف سے اوورٹيک کرنا اور چوراہے ميں بتی سُرخ ہوتے ہوئے گذر جانا عام سی بات ہے ۔ 90 فيصد لوگ ٹريفک قوانين کی خلاف ورزی کرتے ہيں مگر کبھی کِسی نے نہيں کہا کہ قانون وہی ہے جيسا لوگ کرتے ہيں ۔ ليکن دین اسلام کا معاملہ ہو تو بڑے سمجھدار اور پڑھے لکھے لوگ مسلمان کہلوانے والوں کے کردار کو اسلام کا نام دے کر اسلام کی ملامت کرتے ہيں يا اسے رَد کرتے ہيں

اِسلام کے قوانین قرآن الحکیم میں درج ہیں ۔ قرآن شریف میں اللہ کا حُکم ہے کہ اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو ۔ اِسلئے حدیث اور سنتِ رسول بھی اِسلام کے قوانین کا حصّہ ہيں ۔ قرآن الحکيم اور حديث کا مطالعہ کيا جائے تو اس میں نہ صرف يہ کہ کوئی بُرائی نظر نہيں آتی بلکہ اچھائياں ہی اچھائياں نظر آتی ہيں اور کئی غيرمُسلم مفکّروں نے بھی اسے بہترين قانون قرار ديا ۔ سياسی ليڈروں ميں چين کے ايک وزيراعظم اور بھارت کے ايک صدر نے دو اميرالمؤمنين اور خليفہ ابوبکر صِدّيق رضی اللہ عنہ اور عُمر رضی اللہ عنہ کی حکومتوں کو انسانوں کے لئے بہترين قرار ديا حالانکہ ان دونوں شخصيات کا مسلک اسلام سے عاری تھا ۔ جسٹس کارنيليئس جو عيسائی تھے مگر اعلٰی پائے کے قانون دان تھے نے آسٹريليا ميں ورلڈ چيف جسٹسز کانفرنس ميں کہا تھا کہ دنيا کا بہترين اور قابلِ عمل قانون اسلامی قانون ہے اور يہ انتہائی قابلِ عمل بھی ہے اور اس کے حق ميں دلائل بھی ديئے ۔ دنيا کے کسی چيف جسٹس نے اُن کے اس استدلال کو رد کرنے کی کوشش نہ کی

رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کا کردار ايسا تھا کہ اُن کے دين کے دُشمن بھی اُنہيں صادق ۔ امين اور مُنصِف سمجھتے تھے ۔ اُن کے پاس اپنی امانتيں رکھتے ۔ اُن سے اپنے معاملات ميں فيصلے کرواتے ۔ يہاں تک کہ يہودی اور مُسلمان ميں تنازع ہو جاتا تو يہودی فيصلہ کے لئے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے پاس جاتے اور جو وہ فيصلہ کرتے اُسے بخوشی قبول کرتے

خلفائے راشدين کو بھی ديکھیئے ۔ عمر رضی اللہ عنہ اميرالمؤمنين اور خليفہ ہيں ۔ ساتويں صدی عيسوی ميں بيت المقدّس پر بازنطینی [عيسائی] حکومت تھی جس نے 636ء میں مذہبی پیشوا کے کہنے پر بغیر جنگ کے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو محافظ اور امن کا پیامبر قرار دے کر بیت المقدس ان کے حوالے کر دیا تھا

اب سوال پيدا ہوتا ہے کہ آخر آج مُسلمان بدنام کيوں ہيں ؟ اگر ديکھا جائے تو ہم اپنے دين اسلام کی بدنامی کا باعث ہيں ۔ حقيقت يہ ہے کہ جس طرح کسی مُلک کا قانون وہ نہیں ہوتا جس طرح وہاں کے لوگ عمل کرتے ہیں بلکہ وہ ہوتا ہے جو مجاز حاکم بناتا ہے ۔ اسی طرح اِسلام بھی وہ نہیں ہے جس طرح کوئی عمل کرتا ہے بلکہ وہ ہے جو اللہ نے قرآن شریف میں اور اللہ کے رسول صلّی اللہ علیہ اٰلِہِ و سلّم نے اپنی حدیث اور عمل کے ذریعہ سمجھایا ہے

مُسلمانوں کی بدقسمتی يہ ہے کہ اُنہوں نے دنيا کی ظاہری چکاچوند سے مرغوب ہو کر اپنے دين پر عمل کرنا چھوڑ ديا ہے ۔ ناجائز ذاتی مفاد کيلئے جھوٹی گواہی ديتے ہيں ۔ اپنی خوبی جتانے کيلئے دوسروں کی عيب جوئی کرتے ہيں ۔ نہ تجارت ميں نہ لين دين ميں نہ باہمی سلوک ميں کہيں بھی اسلامی اصولوں کو ياد نہيں رکھا جاتا اور حالت يہ ہو چکی ہے کہ آج کا ايک اچھا مُسلمان تاجر ايک غير مُسلم تاجر پر تو اعتبار کر ليتا ہے مگر مُسلمان پر نہیں کرتا ۔ مُسلمان اس خام خيالی ميں مبتلا ہو گئے ہيں کہ سب کچھ کرنے کے بعد حج کر ليں گے تو بخش ديئے جائيں گے يا کسی پير صاحب کے پاس جا کر يا کسی قبر پر چڑھاوا چڑھا کر بخشوا ليں گے ۔ ہماری قوم کی اصل بيماری محنت کرنے کا فُقدان ہے ۔ صرف دين ہی نہيں دنيا ميں بھی شارٹ کَٹ ڈھونڈ لئے ہوئے ہيں ۔ امتحان پاس کرنے کيلئے کتابوں کی بجائے نوٹس پڑھ لئے وہ بھی اپنے لکھے ہوئے نہيں فوٹو کاپياں کالجوں ميں بِکتی ہيں ۔ والدين مالدار ہوں تو ممتحن اساتذہ کی جيبيں بھر نے سے بالکل آسانی رہتی ہے ۔ زيادہ مال بنانے کيلئے ہيراپھيری کرتے ہيں ۔ تولتے ہوئے ڈنڈی مارتے ہيں ۔ اشياء خوردنی ميں ملاوٹ کرتے ہيں ۔ افسوس صد افسوس ۔ بننا تو امريکن چاہتے ليکن اتنی تکليف نہيں کرتے کے اُن سے محنت کرنا ہی سِيکھ ليں البتہ اُن کی لغويات سيکھ لی ہيں ۔

يہ ہنسنے کی باتيں نہيں پشيمان ہونے اور اپنے آپ کو ٹھيک کرنے کی سوچ کی باتيں ہيں ۔ ہم خود تو اپنے کرتوُتوں سے بدنام ہوئے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے ہمارے پيارے نبی محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے ذريعہ آئے ہوئے دين کی بدنامی کا باعث بھی بن رہے ہيں

اللہ ہمیں قرآن الحکیم کو پڑھنے ۔ سمجھنے ۔ اس پر عمل کرنے اور اپنے پيارے نبی محمد صلّی اللہ علیہ و اٰلہِ و سلّم کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔ ومَا عَلَيْنَا اِلْالّبلَاغ المبین

حاکم کا کردار

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ روزانہ نمازِ فجر کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ غائب ہو جاتے ہیں
ایک روز عمر فاروق رضی اللہ عنہ چُپکے سے اُن کے پیچھے چل پڑے ۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ چلتے چلتے مدینہ سے باہر نکل گئے اور شہر سے باہر ایک خیمہ میں داخل ہو کر کچھ دیر اندر رہنے کے بعد واپس مدینہ کی طرف چل پڑے
بعد میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ خیمے میں گئے تو وہاں ایک بُڑھیا کو پایا
پوچھنے پر بڑھیا نے بتایا ”میں نابینا اور مُفلس عورت ہوں ۔ میرا اور میرے دو بچوں کا اللہ کے سوا کوئی نہیں ۔ یہ آدمی روزانہ آ کر جھاڑو دیتا ہے اور کھانا بنا کر چلا جاتا ہے“۔
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور فرمایا ”اے ابو بکر ۔ تُو نے بعد والوں کو بہت مُشکل میں ڈال دیا“۔

ہمارے دعوے اور حقیقت

ہم میں سے ہر ایک کا دعوٰی یہ ہے کہ ”مجھ جیسا کوئی نہیں“۔
اگر یہ کہہ دیا جائے ”مجھ جیسا کوئی نہ پیدا ہوا ہے اور نہ پیدا ہو گا“
تو شاید حقیقت سے قریب تر ہو
میں ایسے مُلک کے باشندوں جنہیں ہم جاہل یا کم علم یا ظالم سمجھتے ہیں کا دوسروں کے ساتھ سلوک کے اپنے چند تجربات بیان کرتا ہوں ۔ اِنہیں پڑھ کر ہم سب کو اپنے کردار و عمل کا جائزہ لینا چاہیئے

1 ۔ جس عمارت کے ایک اپارٹمنٹ میں ہم رہائش پذیر ہیں ۔ اس کے درمیان میں بہت بڑا صحن ہے جس میں 2 سوِمِنگ پُول اور بچوں کیلئے پلے لینڈ ہیں جن کے آس پاس کافی کھُلی جگہ ہے ۔ درمیان والی جگہ پر باربِیکیو کرنے کا بندوبست ہے اور وہاں 6 میزیں اور 24 سے زیادہ کرسیاں پڑی رہتی ہیں ۔ بچے اور بڑے شام کو یہاں آتے ہیں ۔ کچھ لوگ جاتے ہوئے اپنی کئی چیزیں وہاں چھوڑ جاتے ہیں ۔ کوئی چوکیدار یا گارڈ وغیرہ وہاں نہیں ہوتا ۔ یہ چیز یں ایک سے 4 دن تک وہاں پڑی رہتی ہیں ۔ مجال ہے کہ بڑا تو درکنار کوئی بچہ بھی اِن میں سے کِسی چیز کو اُٹھانا تو درکنار ہاتھ بھی لگائے

2 ۔ ایک دن ہم کسی کی مزاج پُرسی کیلئے ہسپتال گئے ۔ واپسی پر سڑک کے کنارے ٹیکسی کی انتظار میں کھڑے تھے ۔ ایک کار ہمارے پاس آہستہ ہوئی اور مناسب جگہ پر جا کر کھڑی ہوئی ۔ اس میں سوار صاحب نے آ کر ہمیں پوچھا ” کیا آپ ٹیکسی کی انتظار میں کھڑے ہیں ؟“
ہم نے کہا ”ہاں“۔
پھر وہ صاحب بولے ” یہاں ٹیکسی آسانی سے نہیں ملے گی ۔ آپ نے کہاں جانا ہے؟“
ہمارے بتانے پر کہا ” معذرت ۔ میں مخالف سمت میں جا رہا ہوں ۔ مال آف ایمِیریٹس کے پاس بڑا ٹیکسی سٹیڈ ہے ۔ میں آپ کو وہاں پہنچا دیتا ہوں“۔ اور پہنچا دیا
(ہم شہر سے باہر نئی آبادی میں رہتے ہیں جو شہر سے بہت دُور ہے)۔

3 ۔ ہمارے پوتا پوتی سکول سے بس پر پونے 4 بجے واپس پہنچتے ہیں ۔ اُنہیں لینے کیلئے میں اور بیگم نیچے جاکر فُٹ پاتھ پر کھڑے ہوتے ہیں ۔ کئی بار راہ گذر پوچھتے ہیں ”میں آپ کی کوئی مدد کر سکتا / سکتی ہوں ؟“

4 ۔ میں سڑک کے کنارے پیدل جاتے ہوئے سڑک پار کرنے کیلئے سڑک ک طرف منہ کر کے سڑک کے کنارے کھڑا ہوتا ہوں اگر گاڑیاں تیز جا رہی ہیں تو ایک دو گذرنے کے بعد باقی کھڑی ہو جائیں گی ورنہ پہلی گاڑی کھڑی ہو جائے گی اور میرے سڑک کے پار پہنچنے تک سب گاڑیاں کھڑی رہیں گی

5 ۔ یہاں سڑک پر گاڑیاں داہنی طرف چلتی ہیں ۔ اگر میں کار پر جا رہا ہوں تو ہر چوک (چوراہے یا چورنگی) پر میرے داہنی جانب سے آنے والی سب گاڑیاں رُک کر مجھے جانے دیں گی

6 ۔ سڑک پر کوئی گاڑی بغیر اشارہ دیئے اور میرے اُس کو راستہ دیئے بغیر بائیں یا داہنی جانب سے میری گاڑی کے سامنے آنے کی کوشش نہیں کرے گی

جسمانی درد جذباتی حالت کا نتیجہ

ماہرین کہتے ہیں کہ مشق طب مٖغربی (Western medicine practice) نے انسان کے جسم کے ذہن ۔ روح اور جذبات کے ساتھ تعلق کو بالکل نظر انداز کیا ہے ۔ جسم اور جذبات کے درمیان تعلق انسان اکثر محسوس کرتا ہے لیکن اس پر توجہ نہیں دیتا

انسان کے جسم میں 9 قسم درد ایسے ہیں جن کا تعلق انسان کی جذباتی حالت سے ہوتا ہے
1 ۔ سر درد ۔ دن بھر کی جد و جہد ۔ کشمکش یا سختی کا نتیجہ ہوتا ہے جو آرام کرنے سے ٹھیک ہو جاتا ہے
2 ۔ گردن میں درد ۔ دوسروں اور اپنے آپ کو معاف نہ کرنے کی عادت سے پیدا ہوتا ہے ۔ درگذر کرنا سیکھیئے
3 ۔ کندھے میں درد ۔ زیادہ جذباتی وزن اُٹھانے کے نتیجے میں ہوتا ہے یعنی ساری ذمہ داریوں کو اپنے ہی کندھوں پر اُٹھائے رکھنا ۔ دوسروں پر بھروسہ کرنا سیکھیئے
4 ۔ پُشت کے اُوپری حصے میں درد ۔ اس وجہ آپ کو جذباتی سہارا نہ ملنا یا آپ کا سمجھنا کہ آپ کی مدد کوئی نہیں کرتا یا کہ آپ کا کوئی نہیں ۔ چنانچہ اگر آپ کنوارے ہیں تو شادی کرنے کا سوچیئے ۔ اگر شادی شدہ ہیں تو بے غرض ہو کر دوسروں کو سمجھنے کی کوشش کیجئے
5 ۔ پُشت کے نِچلے حِصے میں درد ۔ روزی یا دولت کی فکر رہنے سے پیدا ہوتا ہے ۔ اس درد سے نجات کیلئے اپنے اخراجات کی بہتر منصوبہ بندی کیجئے ۔ محنت کیجئے اور نتیجہ کیلئے پریشان نہ ہویئے
6 ۔ کوہنی میں درد زندگی میں تبدیلی کے خلاف مزاحمت کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ مناسب مفاہمت کا راستہ اختیار کیجئے
7 ۔ ہاتھوں میں درد کا مطلب ہے کہ آپ دوسروں کے ساتھ تعلقات یا تعاون سے ہچکچاتے ہیں ۔ دوستانہ رویّہ اپنایئے
8 ۔ کولہے میں درد ۔ گھومنے پھرنے یا نقل مکانی یا ملازمت یا کاروبار کی جگہ تبدیل کرنے سے گبھرانے کی یا پھر فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کی عادت سے پیدا ہوتا ہے ۔ حالات جیسے ہوں اُنہیں قبول کرنا سیکھیئے
9 ۔ گھُٹنے میں درد ۔ یہ درد اَنا یا اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے ۔ چاہیئے کہ اَنا سے بیئے اور رضاکارانہ کاروئیوں میں حصہ لیجئے ۔ دوسروں کی رضاکارانہ طور پر مدد کیجئے ۔ اس کی طفیل آپ فانی سے لافانی بھی ہو جائیں گے

عمل ۔ نہ کہ حسب نسب

نوح علیہ السلام کا بیٹا جہنم میں گیا
ابراھیم علیہ السلام کا والد جہنم میں گیا
لوط علیہ السلام کی بیوی جہنم میں گئی
اور
فرعونِ مصر کی بیوی جنت میں گئی

یہ مشاہدات اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہمیں اس لئے کرائے کہ ہم سمجھ جائیں کہ ہر آدمی کے کام صرف اُس کے اپنے اعمال آئیں گے نہ کہ کسی بخشے ہوئے اللہ کے نیک بندے سے تعلق یا نیک آدمی کی اولاد ہونا

ویب سائٹ نے راز افشا کر دیئے

گذشتہ 6 نومبر کو دِل اُچاٹ تھا ۔ کچھ کرنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا ۔ لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گیا ۔ عقل کام نہیں کر رہی تھی ۔ ایسے ہی فیس بُک کھول لی اور دیکھنے لگ گیا ۔ ایک جگہ لکھا نظر آیا ” What’s your problem “۔ اِس پر کلِک کر دیا ۔ کہا گیا ”فیس بُک کے اکاؤنٹ سے لاگ اِن ہو جاؤ “۔ ہو گیا ۔ چند لمحے بعد جو تصویر سامنے نظر آئی ۔ اسے دیکھ کر حیرت ہوئی کہ میری یہ عادت جو میں نے آج تک کسی سے بیان نہیں کی اسے کیسے معلوم ہو گئی
whats-your-problem
میں آگے بڑھا تو نظر آیا ” What is your dark side“۔ سوچا اپنی بُرائی بھی معلوم کی جائے ۔ تو یہ نکلا
dark-side
اس کے بعد کچھ مزید معلومات حاصل کرنے کی جُستجُو میں یہ کچھ ملا
img_20161108_105720personalityone-word-summarizes-youphilosophystrengthcannot-domade-offname-meaningspresident