Category Archives: تجزیہ

تعلیم ۔ انگریزی اور ترقی پر نظرِ ثانی

میں نے پچھلے سال 16 مئی کو “تعلیم ۔ انگریزی اور ترقی” پر لکھا تھا جسے القمر آن لائین پر اسی ہفتہ دوہرایا گیا ۔ اس پر ایک ہماجہتی تبصرہ کی وجہ سے یہ تحریر ضروری سمجھی ۔

اعتراض کیا گیا ” آپ نے اپنے اردو کے مضمون میں بے شمار خود بھی انگریزی کے الفاط استعمال کئے ہیں ۔جیسے میڈیکل کالج ۔ ریٹائرڈ ۔ جرنیل ۔ میڈیم ۔ جرمنی ۔ فرانس ۔ جاپان ۔ کوریا ۔ سکول ۔ ٹیسٹ وغیرہ وغیرہ آپ جانتے ہیں یہ سب انگلش الفاظ ہیں ۔ جاپانی اپنی زبان میں جاپان نہیں کہتا؟

میں بھی اسی معاشرہ کا ایک فرد ہوں ۔ ساری زندگی معاشرہ کی جابر موجوں کے خلاف لڑتا قریب قریب تھک گیا ہوں اور اُردو میں انگریزی لکھنا میری مجبوری بن گیا ہے کیونکہ صحیح اُردو لکھوں تو اُردو بولنے والے قارئین کی اکثریت منہ کھولے رہ جاتی ہے اور مجھے برقیے آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ “اُردو سمجھ میں نہیں آئی”۔

بہر کیف متذکرہ الفاظ میں چار ممالک کے نام ہیں جو ہند و پاکستان میں ایسے ہی بولے جاتے ہیں ۔ میڈیکل کالج ۔ کُلیہ طِبی ۔ ۔ ریٹائرڈ۔ سُبک دوش ۔ ۔ جرنیل۔ سالار ۔ ۔ میڈیم ۔ وسیلہ یا ذریعہ ۔ ۔ سکول ۔ مدرسہ ۔ ۔ ٹیسٹ ۔ پرَکھ یا کَسوَٹی یا امتحان یا معیار یا تمیز ۔ ۔ ممالک کے نام یہ ہیں ۔ جرمنی ۔ المانیہ ۔ ۔ جاپان ۔ نپوں ۔

سوال کیا گیا کہ ٹیلی ویذن۔ ریڈیو۔گلاس ۔کمپیوٹر ۔ ریل ۔ بس ۔ وغیرہ وغیرہ کی اردو کرکے تو بتائیں کہ ہم ان کی جگہ کون سے الفاظ استمعال کریں ؟ پھر سائینس ۔ میڈیکل ۔ ٹیکنکل ۔ انجنئیرنگ کی دنیا الگ پڑی ہے وہاں کون کون سے الفاظ لگائیں گے ؟”

پہلی بات تو یہ ہے کہ میں مترجم نہیں ہوں ۔ دوسری یہ کہ اعتراض کرنے والے کو پہلے متعلقہ مخزن الکُتب یعنی لائبریری سے رجوع کرنے کے بعد ایسے سوال کرنا چاہیئں ۔ خیر میرے جیسا دو جماعت پاس بھی جانتا ہے کہ ریڈیو کا ترجمہ مذیاع ہے ۔ بس کا ترجمہ رکاب ۔ گلاس کی اُردو شیشہ ہے ۔ پانی پینے والا برتن جسے گلاس کہا جاتا ہے اس کا نام آب خورہ ہے ۔ گلاس انگریزی کا لفظ نہیں تھا ۔ یہ المانی لفظ تھا جو کہ انگریزی میں گلِیس تھا لیکن اس کا مطلب شیشہ ہے ۔ جب شیشے کے آب خورے بننے لگے تو فلاں مشروب کا گلاس یا فلاں مشروب کا گلاس انگریزی میں مستعمل ہوئے کیونکہ مختلف قسم کی شرابوں کے آب خوروں کی شکل مختلف تھی ۔ بعد میں ابتدائیے غائب ہو گئے اور صرف گلاس رہ گیا ۔ اسی طرح کئی لوگ اُردو میں شیشے کی بنی چیز کو شیشہ یا شیشی کہتے ہیں ۔

ٹیکنیکل سے کیا مراد لی گئی ہے یہ میری سمجھ میں نہیں آیا ۔ ٹیکنیکل جس کا اُردو فنّی ہے کوئی بھی چیز ہو سکتی ہے ۔ سائنسی علوم جن میں طِب یعنی میڈیکل اور ہندسہ یعنی انجنیئرنگ بھی شامل ہیں پاکستان میں کم از کم دسویں جماعت تک اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں اور میڈیکل اور انجنیئرنگ کو چھوڑ کر باقی تمام مضامین گریجوئیشن تک اُردو میں پڑھائے جاتے رہے ہیں ۔ اب پاکستان کے ایک شہر اسلام آباد میں ایک اُردو یونیورسٹی ہے اور ہندوستان کے شہر حیدرآباد میں عرصہ دراز سے ایک اُردو یونیورسٹی ہے ۔ ان یونیورسٹیوں میں تمام مضامین اُردو میں پڑھائے جاتے ہیں ۔

لکھا گیا کہ “اُردو زبان مکمل زبان نہیں اس میں انگریزی اردو فارسی ہندی عربی وغیرہ وغیرہ زبانیں شامل ہیں “۔

پہلی بات یہ کہ اُردو زبان کی ابتداء براہمی عربی اور فارسی کے آمیزے سے ہوئی تھی ۔ بعد میں تُرکی شامل ہوئی جس کے بہت استعمال ہونے والے الفاظ پلاؤ ۔ کباب اور سیخ ہیں ۔ اُردو میں انگریزی کا بیجا استعمال احساسِ کمتری کے نتیجہ میں ہوا ۔ ہندی کوئی زبان نہیں ہے ۔ اُردو کو ہی ہندی کہا جاتا تھا کیونکہ یہ ہند کی زبان تھی ۔ جب ہند کے مسلمانوں نے الگ وطن کا نعرہ لگایا تو کٹّر ہندوؤں نے ردِ عمل کے طور پر اُردو کو سنسکرت رسم الخط میں لکھنا شروع کیا ۔ پاکستان بننے کے بعد اس میں سنسکرت کے الفاظ بھی شامل کئے گئے اور بہت سے اُردو الفاظ کا حُلیہ بگاڑ دیا گیا ۔

اُردو سیکھے بغیر اُردو کو نامکمل کہنا مُستحسن نہیں ۔ اُردو کم از کم انگریزی سے زیادہ وسیع اور جامع ہے ۔ میں اُردو میں روزمرّہ مستعمل کچھ الفاظ اور افعال درج کرتا ہوں ۔ ان کا مُنفرد انگریزی ترجمہ ڈھونڈنے سے احساس ہو جاتا ہے کہ انگریزی وسیع ہے یا کہ اُردو ۔

تُو ۔ تُم ۔ آپ ۔ جناب ۔ جنابعالی ۔ حضور ۔ حضورِ والا ۔ دام اقبال ۔ روح پرور ۔ روح افزاء ۔ روح قبض ۔ روح دِق ۔ روح فرسا ۔ سوہانِ روح ۔ طالبِ خیریت بخیریت ۔ الداعی الخیر ۔ مُتمنّی ۔ آؤ ۔ آئیے ۔ تشریف لایئے ۔ قدم رنجہ فرمائیے ۔ خیر ۔ احسان ۔ احسانمند ۔ شکر گذار ۔ متشکّر ۔ ممنون ۔ لیٹ جاؤ ۔ لیٹ جائیے ۔ دراز ہو لیجئے ۔ استراحت فرما لیجئے ۔ کھاتا ہے ۔ کھاتی ہے ۔ کھاتے ہیں ۔ کھاتی ہیں ۔ کھاتے ہو ۔ کھا تا ہوں ۔ کھاتی ہوں ۔ کھاؤ ۔ کھائیے ۔ تناول فرمائیے ۔

دنیا میں سب سے زیادہ لوگ چینی بولتے ہیں ۔ اس سے کم لوگ عربی بولتے ہیں ۔ اس سے کم انگریزی ۔ اس سے کم ہسپانوی اور اس سے کم اُردو بولنے والے ہیں ۔ باقی زبانیں ان کے بعد آتی ہیں ۔

یہ استدلال درست نہیں ہے کہ “دنیا کے کمپیوٹر کسی بھی زبان میں ہوں مگر ان کے نیچے انگلش زبان ہی کی پروگرامنگ ہوتی ہے”۔

کمپیوٹر کی بُنیادی زبان کے حروف ایک قدیم زبان لاطینی سے لئے گئے ہیں جو بڑے سے بڑے انگریزی دان کو بھی سمجھ نہیں آئیں گے ۔ صرف اُسے سمجھ آئے گی جو اس زبان کا ماہر ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جرمنی میں آئین کہا جاتا ہے جلا ہوا یا انگریزی کے آن کو اور آؤس کہا جاتا ہے بجھا ہوا یا انگریزی کا آف ۔ آئین کا نشان یعنی سِمبل ہے جرمن یا انگریزی کا آئی اور آؤس کا نشان ہے اَو ۔ کمپیوٹر صرف یہ دو حرف سمجھتا ہے ۔ باقی جو کچھ لکھا جاتا ہے وہ وسیلہ ہیں ۔

یہ کسی حد تک صحیح قرار دیا جا سکتا ہے کہ وسیلہ انگریزی کو بنایا گیا ہے ۔ وجہ عیاں ہے کہ پچھلی ایک صدی سے انگریزی بولنے والوں کا راج ہے ۔ یہاں عرض کرتا چلوں کہ ایلوگرتھم جس کا اصل نام کُلیہ خوارزم ہے کمپیوٹر کا پیش رو تھا اور اس سے قبل موتی تختہ جسے آجکل ابیکَس کہتے ہیں بھی کمپوٹر کی بنیاد ہے ۔ کمپیوٹر المانیہ کے مہندسین یعنی جرمن انجنیئرز کی کاوش کا نتیجہ ہے ۔ ایلوگرتھم مسلمان ریاضی دان یعنی مَیتھے مَیٹِیشِیئن کی دریافت ہے جو کہ خوارزم کے رہنے والے محمد بن موسٰی الخوارزمی (وفات 840ء) تھے اور ابیکِس اصحابِ شینا یعنی چینیوں کی دریافت ہے ۔

دلیل پیش کی گئی “پاکستان میں نہ تو ہماری زبان مکمل اور نہ ہی ہم نے سائنس اور ریسرچ پر توجہ دی ۔ معمولی اسپرین بنانے کےلئے ہم یورپ کے محتاج ہیں ۔اب ہم کس زبان میں اپنے فارمولے یا کلیئے استمعال کریں ۔ہم سب مل کر صرف ایک خالص اردو کا مضمون نہیں لکھ سکتے” ۔

اگر میں یا دوسرے پاکستانیوں نے قوم کیلئے حتی کہ اپنی زبان کیلئے کچھ نہیں کیا تو اس میں اُردو زبان کا کیا قصور ہے ؟ اگر ہم خالص اُردو میں ایک مضمون نہیں لکھ سکتے تو کیا یہ اُردو کا قصور ہے یا کہ ہماری نا اہلی ؟

یہ خیال بھی غلط ہے کہ پاکستانیوں نے سائنسی تحقیق نہیں کی اور کچھ تخلیق نہیں کیا ۔ نظریں غیروں سے ہٹا کر اپنے ہموطنوں پر ڈالی جائیں تو بہت کچھ نظر آ جائے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی تحقیق اور تخلیقات کرنے والوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا گیا ۔ ایسے بہت سے محسنِ ملت میں سے صرف کچھ زندوں میں چوٹی کے میٹالرجیکل انجیئر “ڈاکٹر عبدالقدیر خان” اور گذر جانے والوں میں چوٹی کے ریاضی دان پروفیسر عبدالرحمٰن ناصر اور مکینیکل انجنیئر پروفیسر سلطان حسین ۔ جن کے ساتھ جو کچھ کیا گیا نامعلوم پوری قوم مل کر بھی اس کا کوئی کفّارہ ادا کر سکتی ہے یا نہیں ۔ جو کچھ باقی پاکستانیوں نے کیا اس کی تفصیل میں جاؤں تو کئی دن صرف لکھنے میں لگیں گے ۔

سوال کیا گیا کہ “ہم کس زبان میں اپنے کُلیئے استعمال کریں ؟”

تین دہائیاں قبل مقتدرہ قومی زبان کے نام سے ایک ادارہ بنایا گیا تھا جس کا کام مفید علوم جو دوسری زبانوں بالخصوص انگریزی میں موجود ہیں اُن کا ترجمہ کرنا تھا جو کام اس ادارہ نے خوش اسلوبی سے شروع بھی کر دیا تھا لیکن 1988 میں اس ادارہ کو غیر فعال کر دیا گیا ۔ اُردو میں ترجمہ بہت مشکل نہیں ہے ۔ اللہ کی مہربانی سے عربی اور فارسی میں اکثر تراجم موجود ہیں جہاں سے ایسے الفاظ آسانی سے اپنائے جا سکتے ہیں جن کا اُردو میں ترجمہ نہ ہو سکے ۔

سوال کیا گیا کہ ” آخر انگلش سیکھنے میں نقصان ہی کیا ہے ؟”

میں انگریزی یا المانی یا شینائی یا دوسری زبانیں سیکھنے کا مخالف نہیں اور نہ ہی میں نے اس قسم کا کوئی تاثر اپنی متذکرہ تحریر میں دیا بلکہ میں زیادہ سے زیادہ زبانیں سیکھنے کا حامی ہوں ۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ جو لوگ اپنی زبان اور اپنے مُلک کیلئے کچھ نہیں کر سکے اُنہیں اپنی زبان اور اپنے مُلک کو بُرا یا ادھورہ کہنا زیب نہیں دیتا ۔

زندگی کیا ہے ؟

زندگی ہر انسان کی اپنی سوچ ہے ۔ اس کا کوئی صورت اختیار کرنا ہر انسان کی اپنی عقل اور عمل کے تابع ہوتا ہے ۔

کچھ لوگ اپنی خوشی کو دوسروں کی خوشی پر مقدّم رکھتے ہیں اور کچھ دوسروں کو خوش رکھنے میں مسرت محسوس کرتے ہیں جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو دوسروں کو دُکھی دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔ کچھ لوگ اپنی زندگی کو جہنم بنا لیتے ہیں اور کچھ دوسروں کی زندگی کو عذاب بنا دیتے ہیں ۔ ان میں سب سے اچھے بلکہ خوش قسمت وہ ہیں جو دوسروں کی خوشی پر خوش ہوتے ہیں ۔ اُن کی صحت ٹھیک رہتی ہے اور وہ اطمینان کی نیند بھی سوتے ہیں ۔

ستم ظریفی دیکھیئے کہ عام طور پر انسان اپنی خوشی تو اپنی محنت کا ثمرہ گِنتا ہے اور دُکھ ملے تو اسے اللہ کی مرضی کہہ کر فارغ ہو جاتا ہے ۔ حالانکہ کہ خالق نے اپنی مخلوق کو دُکھ دینے کیلئے پیدا نہیں کیا ۔ دُکھ اور تکلیف انسان کی اپنی کوتاہیوں اور غلط سوچ کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے ہر وقت ایک ہی موسم رہے یا ہر وقت دن یا ہر وقت رات رہے تو زندگی اجیرن ہو جائے ۔ اگر بیماری نہ آئے تو صحت کی قدر نہ ہو ۔ تکلیف نہ آئے تو آسائش کا احساس جاتا رہے ۔ غُربت نہ ہو تو دولت بے قدر ہو جائے ۔ کوئی بے اولاد نہ ہو تو اولاد کی اہمیت نہ رہے ۔ امتحان نہ ہو تو محنت کون کرے ۔

سب سے قیمتی وہ لمحہ ہے جو بلا روک ٹوک گذر جاتا ہے کوئی اس سے فائدہ اُٹھائے یا نہ اُٹھائے ۔

دولت کو اہمیت دینے والے اپنی اصلیت سے ناواقف ہیں ۔ ہمارے بزرگ کہا کرتے تھے “دولت ہاتھ کا مَیل ہے ۔ اسے اپنے ہاتھوں سے صاف کر دو”۔ دولت نہ خوشی خرید سکتی ہے نہ اطمینان اور نہ صحت ۔ میں نے اپنی زندگی میں کئی بار بھرے گھر اُجڑتے دیکھے ہیں اور کئی ایسے انسانوں کے پاس دولت کی ریل پیل آتے دیکھی ہے جن کو دو وقت کی سوکھی روٹی بھی مشکل سے ملتی تھی ۔ دولت آنی جانی چیز ہے اس پر بھروسہ نادانی ہے ۔

میں نے ایسا آدمی بھی دیکھا ہے جو دولت کے انبار لئے پھر رہا تھا کہ کوئی سب لے لے اور اُس کے بیٹے کو صحت و زندگی بخش دے ۔

عرصہ گذرا میرے ایک واقفِ کار ایک تبلیغی ٹولے کے ساتھ امریکہ گئے ۔ ان لوگوں نے ایک بڑے اور ترقی یافتہ شہر کی انتظامیہ سے شہر سے باہر خیمہ لگانے کی اجازت لی اور بیان و تبلیغ کا سلسلہ شروع کر دیا ۔ وہ بتاتے ہیں کہ روزانہ مغرب کے بعد جب پورا گروہ خیمے میں اکٹھا ہوتا تو قرآن شریف کی تلاوت اور ترجمہ عشاء کے کافی بعد تک ہوتا ۔ اس دوران روزانہ دو اُدھڑ عمر گورے امریکن پیدل سیر کرتے ہوئے وہاں سے گذرتے ۔ ایک دن اُنہوں نے بیٹھ کر سننے کی اجازت مانگی جو بخوشی دے دی گئی ۔ حالانکہ تلاوت عربی میں ہو رہی تھی اور تفسیر اُردو میں لیکن وہ دونوں بڑے انہماک سے سُنتے رہے ۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ لیٹ کر سو گئے ۔ گروہ کے دو آدمیوں نے اپنے سلیپِنگ بیگ ان پر ڈال دئیے اور خود کوٹ وغیرہ پہن کر سو گئے ۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد گروہ کے آدمی اپنے تبلغی دورے پر چلے گئے اور ایک آدمی کو ان دو امریکیوں کی دیکھ بھال کیلئے چھوڑ گئے ۔ 9 بجے کے بعد جب سورج بلند ہوا اور ان پر دھوپ آئی تو وہ دونوں جاگ اُٹھے اور حیران ہوئے کہ وہ زمین پر سوئے ہوئے تھے ۔ شام کو وہ جلدی آ گئے اور کہنے لگے “یہ جو کچھ تم پڑھتے ہو ہمیں بھی سکھاؤ گے ؟” اُن کو بتایا گیا کہ گروہ میں سے ایک شخص ہے جو انگریزی میں ترجمہ اور تفسیر کرتا ہے ۔ وہ کہنے لگے “ہم دونوں بِلینیئر [Billionaire] ہیں ۔ آپ ہماری ساری دولت لے لیں اور ہمیں یہ علم سِکھا دیں”۔ اُن سے کہا گیا “سِکھانا تو ہمارا فرض ہے ہم اس کیلئے کوئی معاوضہ نہیں لیں گے مگر آپ اتنی ساری دولت لُٹانے پر کیسے آ گئے ہیں ؟” امریکیوں میں سے ایک بولا ۔ میرے گھر میں ہر آسائش موجود ہے آرام دہ کمرہ اور بہت آرام دہ بستر ۔ موسیقی ۔ سب کچھ مگرہمیں نیند نہیں آتی ۔ ہم ڈاکٹروں سے مشورہ لیتے ہیں ۔ پِلز [Pills] بھی کھاتے ہیں ۔ یہ سیر بھی اسی لئے کرتے ہیں کہ نیند آ جائے لیکن تقریباً ساری ساری رات جاگتے ہیں اور صبح جسم تھکاوٹ سے چور ہوتا ہے ۔ رات ہم 11 گھنٹے سے زیادہ سوئے ۔ سردی میں گھر سے باہر اور سخت زمین پر ۔ ہماری دولت کس کام کی جو ہمیں چند گھنٹے روزانہ کی نیند بھی نہیں دے سکتی ؟” وہ امریکن روزانہ تلاوت اور انگریزی ترجمہ سُنتے رہے اور تبلیغی گروہ کے وہاں قیام کے دوران ہی اُنہوں نے اپنی ساری جائیداد ایک ویلفیئر ٹرسٹ کے نام کر دی اور اسلام قبول کر لیا ۔

ساس بہو یا نند بھابھی کا رشتہ بہت اُلجھاؤ والا ہے ۔ کہیں ایک قصور وار ہوتی ہے اور کہیں دونو ۔ اللہ میری بڑی خالہ جو کہ میری ساس بھی تھیں کو جنت میں جگہ دے ۔ میں نے اُنہیں ایک خاتون کو جو اپنی بہو کی بدتعریفی کر رہی تھی کہتے سُنا ۔ دو عورتوں کی کئی سال بعد ملاقات ہوئی تو ایک نے دوسری سے اس کے داماد کے متعلق پوچھا تو اُس نے جواب دیا کہ “داماد بہت اچھا ہے دفتر جانے سے پہلے میری بیٹی کیلئے ناشتہ تیار کر کے جاتا ہے پھر دفتر سے آ کر میری بیٹی کے کپڑے استری کرنے کے بعد فٹا فٹ کھانا پکا لیتا ہے اور بیوی کو ساتھ لے کر سیر کرنے جاتا ہے ۔ واپس آ کر کھانا کھاتے ہیں اور برتن دھو کر سوتا ہے ۔ پھر اس عورت نے بیٹے کا پوچھا تو کہنے لگی “وہ بچارا تو مشکل میں ہے ۔ تھکا ہارا دفتر سے آتا ہے اور بچے سنبھالنا پڑتے ہیں”۔ عورت نے پوچھا “بہو کہاں ہوتی ہے ؟” اس نے جواب دیا “کھانا پکا رہی ہوتی ہے”۔ پھر عورت نے پوچھا “تمہارے گھر کا باقی کام کون کرتا ہے ؟” تو منہ بنا کر جواب دیا “بہو کرتی ہے”۔

ہمیشہ کام آنے والی اور قابلِ اعتماد صرف دو چیزیں ہیں ۔
ایک ۔ علمِ نافع سیکھنا ۔
دوسرا ۔ وہ عمل جس سے دوسرے کو بے لوث فائدہ پہنچایا جائے ۔

سیکھنا بھی ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ۔ اللہ جنت میں اعلٰی مقام دے میرے دادا جان کو کہا کرتے تھے “جس نے سیکھنا ہو وہ گندی نالی کے کیڑے سے بھی کوئی اچھی بات سیکھ لیتا ہے اور جس نے نہ سیکھنا ہو وہ عطّار کی دُکان پرساری عمر بیٹھ کر بھی خُوشبُو کی پہچان نہیں کر پاتا”۔

سورت 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39 ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔ ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

محنت کامیابی کی کُنجی ہے ۔ محنت کا پھل مِل کر رہتا ہے ۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو منصوبے تو بہت بناتے ہیں مگر عملی طور پر کرتے کچھ نہیں ۔ ان کی مثال یوں ہے

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے

خوش فہمی میں رہنا اچھی بات نہ سہی لیکن ہر چیز یا بات کا روشن پہلو دیکھنے سے انسان نہ صرف خود اپنی صحت ٹھیک رکھتا ہے بلکہ دوسرے بھی اُس کو زبان سے نہ سہی لیکن دلی سچائی میں اچھا سمجھتے ہیں ۔ ہاں حسد کریں تو الگ بات ہے مگر حسد سے اپنا خُون جلانے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔ بچپن سے مندرجہ ذیل شعر میرے مدِنظر رہے ہیں اور میں نے ہمیشہ ان کی روشنی میں جد و جہد کی اور اللہ کے فضل سے کبھی محروم نہیں رہا ۔

تُندیِٔ بادِ مخالف سے نہ گبھرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تُجھے اُونچا اُڑانے کے لئے

پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مُسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تُو ہے

یقینِ محکم عملِ پیہم پائے راسخ چاہئیں
استقامت دل میں ہو لب پر خدا کا نام ہو

یہ آخری شعر میں نے علامہ اقبال کے شعر میں ترمیم کر کے بنایا تھا جب میں دسویں جماعت میں پڑھتا تھا [1953]

جو بات کسی کو بھولنا نہیں چاہیئے یہ ہے کہ پیٹ بھرنا انسان کی سب سے بڑی اور اہم ضرورت ہے ۔ اسی ضرورت کے تحت انسان ظُلم ۔ جُرم اور گناہ بھی کرتا ہے لیکن پیٹ سونے ۔ چاندی یا ہیروں سے نہیں بلکہ گندم ۔ چاول ۔ مکئی ۔ سبزی پھل یا گوشت سے بھرتا ہے ۔

انسان بہتر یا جانور

میں نے 2 اپریل کو درویش اور کُتا کے عنوان کے تحت شیخ سعدی صاحب کی لکھی دو کہانیاں نقل کی تھیں ۔ جو کچھ آجکل دیکھنے کو ملتا ہے اس کے مطابق محسوس ہوتا ہے کہ آجکل انسان اور جنگلی جانور کے خصائل اگر آپس میں بدل نہیں گئے تو گڈ مڈ ضرور ہو گئے ہیں ۔

نیچے دی ہوئی تصاویر دیکھ کر سوچنا پڑتا ہے کہ آج کا انسان اچھا ہے یا جانور ؟

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

  

  

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

لمحۂِ فکریہ

لمحۂِ فکریہ
پچھلے پانچ دنوں میں جو ناگہانی واقعات دیکھنے میں آئے ہیں انہوں نے سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ہر طرف سے پِٹے ہوئے پاکستانی عوام کو جو جمہوریت اور یکجہتی کا سندیسہ دیا گیا تھا اُس کی تعبیر کو روکنے کیلئے سازشیں زور شور سے جاری ہیں ۔

سندھ کی نئی اسمبلی کے ابتدائی اجلاس میں دروازے کا شیشہ توڑ کر اس میں ہاتھ ڈال کر کُنڈی کھول کر زبردستی داخل ہونا ۔
اسمبلی کے اجلاس کے دوران بے جا نعرے اور ہُلڑبازی
سابق وزیرِ اعلٰی کے ساتھ بدتمیزی
دوبارہ سابق وزیرِ اعلٰی کے ساتھ نہ صرف بدتمیزی بلکہ اُن کی پٹائی جس میں جوتیاں بھی استعمال کی گئیں
منگل 8 اپریل کو لاہور میں سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر شیر افگن پر تشدد
بُدھ 9 اپریل کو پورے کراچی میں بلوے ہوئے

اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں سابق وزراء کا کردار بہت ہی غلط رہا اور وہ ناپسندیدہ اشخاص میں شامل ہو گئے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جو کچھ ہوا کیا وہ انسانیت کے کسی کھاتے میں ڈالا جا سکتا ہے ؟
یا اسے ابھی تک نا مکمل سیاسی حکومت یا وکلاء کے کھاتہ میں ڈالا جا سکتا ہے ؟

کراچی میں سندھ اسمبلی کے واقعات

کراچی ارباب غلام رحیم کے ساتھ پہلے دن کے واقعہ پر تو کہا جا سکتا ہے کہ بہت سے لوگ اسمبلی کی عمارت میں گھُس آئے تھے اور اُن میں سے کچھ نے بدتمیزی کی لیکن دوسرے دن جس طرح منصوبہ بندی کے ساتھ بدتمیزی اور غُنڈاگردی کی گئی اُس کا سوائے اسکے کیا جواز ہے کہ کوئی طاقت ہے جو رنگ میں بھنگ ڈالنے کا جامع منصوبہ رکھتی ہے ۔

لاہور کے 8 اپریل کا واقعہ

کیا 18 فروری کے بعد اور 8 اپریل سے قبل ڈاکٹر شیر افگن لاہور نہیں آئے تھے ؟
وہ ایک ذاتی کام کے سلسلہ میں اپنے وکیل سے ملنے گئے اس کا علم مخالفین کو کیسے ہوا ؟
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر انور کمال اور لاہور بار ایسوسی ایشن کے صدر منظور قادر کی ہاتھ جوڑ کر التجائیں ہجوم پر اثر نہ کر سکیں تو اعتزاز احسن کو بلایا گیا ۔
وہ وکلاء جو انور کمال ۔ منظور قادر اور اعتزاز احسن کا ہر مشکل سے مشکل مشورہ خندہ پیشانی سے مانتے چلے آرہے تھے ۔ اُن کے کپڑے پھٹتے رہے جسم لہو لہان ہوتے رہے اوراپنے رزق کو داؤ پر لگا کر انور کمال ۔ منظور قادر اور اعتزاز احسن کے ماتحت متحد رہے اور کسی املاک کو یا انسان کو نقصان نہ پہنچایا ۔ پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اعتزاز آحسن سمیت اپنے تینوں رہنماؤں کی ہاتھ جوڑ کر کی گئی التجائیں ٹھُکرا دیں ؟
اعتزاز احسن نے پاکستان بار ایسوسی ایشن کی صدارت سے اور منظور قادر نے لاہور بار ایسوسی ایشن کی صدارت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا مگر تشدد کرنے والوں پر کوئی اثر نہ ہوا ۔ اسلئے کہ وہ وکلاء نہیں تھے ۔

سوال پیدا ہوتاہے کہ
پولیس کو جائے واردات پر پہنچنے میں 3 گھنٹے کیوں لگے جب کہ یہ واقعہ لاہور شہر کے وسط میں ہوا اور کوئی سڑک بند نہ تھی ؟
تین گھنٹے بعد بھی پولیس کی بہت کم نفری بھیجی گئی ۔
اعتزاز احسن کی زیادہ پولیس بُلانے کی درخواست پر کوئی عمل نہ کیا گیا ۔
سابق وزیرِ اعلٰی پنجاب پرویز الٰہی کی بنوائی ہوئی اِیگل سکواڈ کہاں تھی جو مخالف سیاسی جماعتوں اور وکلاء مظاہرین پر تشدد کرنے کیلئے پندرہ بیس منٹ میں پہنچ جایا کرتی تھی ؟
ریسکیو 1122 یا ایگل سکواڈ کی بجائے ڈاکٹر شیر افگن کو لیجانے کیلئے ایدھی ٹرسٹ کی ایمبولنس کیوں بلائی گئی جس کی حفاظت کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا اورجسے آسانی سے نقصان پہنچایا جا سکتا ہے ؟
جس آدمی نے ایدھی ایمبولنس کے اندر ڈاکٹر شیر افگن کی پٹائی کی وہ ایمبولنس کے ڈرائیور والے حصہ میں تھا ۔ ڈرائیور کہاں تھا اور ڈرائیور والے حصہ کو کھُلا کیوں چھوڑا گیا تھا ؟
پولیس افسروں کی یقین دہانی پر کہ پولیس کی کافی نفری سادہ کپڑوں میں موجود ہے اور یہ کہ کوئی شخص ڈاکٹر شیر افگن کو گزند نہیں پہنچا سکے اعتزاز احسن ڈاکٹر شیر افگن کو لے کر آئے ۔
جن لوگوں نے ڈاکٹر شیر افگن پر تشدد کیا وہ سب سادہ کپڑوں میں تھے ۔ ڈاکٹر شیر افگن کو بچانے کی کوشش میں اعتزاز احسن ۔ دوسرے دو رہنما اور دیگر وکلاء خود بھی دھکے اور تھپڑ کھاتے رہے ۔ ان کی مدد صرف دو پولیس والوں نے کی ۔
کیا ڈاکٹر شیر افگن پر تشدد کرنے والے سادہ کپڑوں میں لوگ ہی ایجنسیوں کے آدمی تھے ؟
کیا پولیس بھی اس سازش کا حصہ تھی ؟

یہ حقیقت کھُل کر سامنے آ چکی ہے کہ جو ہجوم لاہور میں جمع ہوا اُس میں کم از کم آدھے لوگ وکیل نہیں تھے کیونکہ جب اعتزاز احسن نے کہا کہ سب وکلاء حلف کیلئے ہاتھ اُوپر اُٹھائیں کہ وہ ڈاکٹر شیر افگن کو کوئی گزند نہیں پہنچائیں گے تو ہاتھ اُٹھانے والوں کی تعداد ہجوم کے 50 فیصد سے زیادہ نہ تھی ۔

کراچی کے 9 اپریل کا واقعہ

سٹی کورٹ بار ایسو سی ایشن کی جانب سے جنرل باڈی کا اجلاس ہو رہا تھا کہ ایم کیو ایم کے لوگوں نے مظاہرہ کیا اور نعرے لگاتے ہوئے بار میں گھُس گئے جہاں وکلاء کے علاوہ کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ میں راولپنڈی ڈسٹرکٹ کورٹس جاتا رہتا ہوں ۔ وہاں بار روم کے باہر جلی حروف میں لکھا ہے کہ وکلاء کے علاوہ کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں ۔ مظاہرہ کرنے والے ایم کیو ایم کے لوگ ایل ایل بی ہونگے لیکن وکیل نہیں تھے کیونکہ وہ ملازمت پیشہ تھے اور کسی وکیل کو ملازمت کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ۔ وکلاء نے ایم کیو ایم کے آدمیوں کو باہر نکالنے کی کوشش کی جس پر جھگڑا ہوا اور ہاتھا پائی بھی ۔ بعد میں پولیس پہنچ گئی اور احتجاج کرنے والوں کو باہر نکال دیا ۔ سمجھا گیا کہ معاملہ ختم ہوگیا ۔

تھوڑی ہی دیر بعد نقاب پوش کہیں سے وارد ہوئے اور بار پر فائرنگ شروع کر دی ۔ وکلاء نے بھاگ کر جانیں بچائیں ۔ ان حلمہ آوروں نے بار اور لائبریری کو آگ لگا دی ۔ اس کے بعد سٹی کورٹس کے قریب طاہر پلازہ جس میں کئی وکلاء کے دفتر ہیں میں کچھ وکلاء کے دفاتر کو آگ لگا دی جس کے نتیجہ میں 2 خواتین سمیت 6 لوگ زندہ جل کر مر گئے ۔ ملیر کورٹس پر بھی حملہ ہوا اور کراچی میں پرانے شہر سے لے کر نارتھ کراچی تک فائرنگ ۔ بلوے اور آگ لگانے کی وارداتیں شروع ہو گئیں ۔ ایک بنک ۔ کئی دوسری عمارتوں کے علاوہ سٹی بار ایسوسی ایشن کے ایک رہنما نعیم قریشی کی ملکیت ایک گھر اور گاڑی کو بھی آگ لگا دی گئی ۔ درجن بھر انسان ہلاک اور دو درجن کے قریب زخمی ہوئے ۔ 4 درجن کے قریب گاڑیاں جلا دی گئیں ۔
کیا یہ سٹی کورٹ میں ہونے والی وکیلوں کی جھڑپ تھی ؟

ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے اس سارے غدر کو وکلاء کے سر منڈنے کی کوشش کی ۔ کیا اس سب کو وکیلوں کی لڑائی کہا جا سکتا ہے ؟
کیا یہ مانا جا سکتا ہے کہ سال سے زائد عرصہ ریاستی تشدد کے باوجود منظم تحریک چلانے والے وکلاء آن کی آن میں ایسے بگڑ جائیں کہ تصادم تو سٹی کورٹس میں ہو اور پورا کراچی بلوائیوں کا اکھاڑا بن جائے ؟
وکلاء اتنی سُرعت کے ساتھ سارے کراچی میں کیسے پھیل گئے اور کیا وہ اتنا سازو سامان رکھتے ہیں ؟

نقاب پوش کہاں سے آئے اور کس نے بھیجے تھے ؟
سٹی ایڈمنسٹریشن کہاں تھی جو زیادہ تر ایم کیو ایم ہے ؟
جل کر مرنے والے اور گولیوں سے مرنے والوں میں ایک بھی ایم کیو ایم کا نہیں ۔ زخمیوں میں بابر غوری اور فاروق ستار نے 6 ایم کیو ایم کے بتائے جس کی دوسرے ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ۔ اگر اسے درست مان بھی لیا جائے تو باقی لوگوں کو کس نے مارا اور زخمی کیا ؟
کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ماریں بھی وہی اور مریں بھی وہی ؟

کیا مندرجہ بالا واقعات سے آنے والی حکومت یا وکلاء کو کسی قسم کا فائدہ پہنچتا ہے ؟
نہیں بالکل نہیں ۔ بلکہ وکلاء کی ساکھ کو دھچکا لگنے کا اندیشہ ہے ۔
وکلاء کے نظم و ضبط کا ثبوت پچھلے ایک سال میں وکلاء کی منظم تحریک ہے ۔

پھر کون ہو سکتا ہے جو بدتمیزی اور تشدد کے یہ ڈرامے ڈائریکٹ اور پروڈیوس [direct and produce] کر رہا ہے ؟

ماضی قریب کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ آخری دموں پر ہونے والی حکومت اعلان کرتی کہ فلاں علاقہ میں اتنے دہشت گرد گھُس گئے ۔ اُس کے بعد دھماکہ ہوتا اور اس کا ذمہ دار پاکستان کے قبائلیوں یا القاعدہ کو ٹھہرا دیا جاتا ۔
دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موزوں اسلحہ سے لَیس ایک لاکھ اَسی ہزار پاکستانی فوجی متعیّن ہیں ۔ انسان تو کیا چوپائے بھی بغیر پرویز مشرف کی اجازت کے نہ قبائلی علاقوں میں داخل ہو سکتے ہیں نہ وہاں سے باہر جا سکتے ہیں ۔

سندھ اسمبلی کی حلف برداری سے ایک دن قبل وزارتِ داخلہ کی طرف سے [بغیر نئے وزیرِ اعظم کی منظوری کے] اعلان کیا گیا کہ سابق وُزراء کی جان کو خطرہ ہے ۔ جو نام لئے گئے تھے ان میں ڈاکٹر شیر افگن اور ارباب غلام رحیم شامل تھے ۔

مندرجہ بالا حقائق ہر محبِ وطن پاکستانی کو دعوتِ غور و فکر دیتے ہیں کہ کون ہے جو پاکستانیوں کو محروم رکھنا چاہتا ہے اور پاکستان کے بخیئے اُدھیڑنے پر تُلا ہے ؟

صرف تین ہی نام ذہن میں آتے ہیں ۔ پرویز مشرف ۔ ایم کیو ایم اور گجرات کے چوہدی برادران ۔

نُقطہ اور نُکتہ

کچھ تو اُردودانوں نے ہی الفاظ کے استعمال میں احتیاط نہ برتی ۔ مثال کے طور پر لفظ “دقیانوسی” اس کی ایک مثال ہے ۔ دقیانوسی بنا ہے دقیانوس سے جو پرانے زمانہ میں بہت ظالم و جابر اور پتھر دل بادشاہ تھا ۔ دقیانوس ہر شخص کو اپنا مکمل تابع رکھتا ۔ ایسا نہ کرنے والے انسان کو وہ اذیتیں دے دے کر مارتا تھا ۔ کچھ نیک لوگوں [اصحابِ کَہْف] کو اسی کے ظُلم سے بچانے کیلئے اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے ایک صدی سے زائد ایک غار میں سُلا کر چھُپا دیا تھا ۔ دقیانوسی کا مطلب پُرانا یا پُرانے زمانے کا لینا کہاں تک درست ہے ؟

مگر ہماری قوم نے تو کسی بھی قومی چیز کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ۔ اس کا مشاہدہ کرنا ہو تو کسی سڑک ۔ گلی ۔ محلہ ۔ باغ یا عوامی عمارت میں چلے جائیے اور وہاں فرزندانِ قوم کی کارستانیاں ملاحظہ فرمائیے ۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ کارستانیاں اَن پڑھ یا غریب لوگ کرتے ہوں گے لیکن تجربہ نے بتایا کہ یہ کارنامے کرنے والوں کی اکثریت پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے لوگوں پر مشتمل ہے اور ان میں صرف مرد اور لڑکے ہی نہیں صنفِ نازک بھی برابر کی شریک ہے ۔ سب اپنی اپنی حسرتیں اس مُلک کی بگاڑ پر نکالتے ہیں ۔ کوئی پودا ۔ کوئی درخت ۔ کوئی کھمبا ۔ کوئی دیوار ۔ کوئی خالی پلاٹ حتٰی کہ کوئی چیز یا جگہ محفوظ نہیں ۔ معاف کیجئے گا ۔ شاید بوڑھا ہو گیا ہوں اسلئے بھولنے لگا ہوں ۔ کوئی شریف لڑکی لڑکا عورت یا مرد بھی محفوظ نہیں رہا ۔ 

قومی زبان پر بھی ہماری قوم کی اکثریت نے زور آزمائی کی ہے اور متواتر پچھلے ساٹھ سال سے کی ہے ۔ معلوم نہیں سندھی اور پشتو کا کیا حال ہے البتہ اب صحیح پنجابی بولنے والے بھی خال خال ہی ملتے ہیں ۔ یہ تو ایک طویل مضمون ہے فی الحال بات صرف نُقطہ اور نُکتہ کی جو اُردو کے اُن الفاظ میں سے ہیں جن کا استعمال آجکل عام طور پر کسی کی سمجھ میں نہیں آتا اور سمجھا جاتا ہے کہ ایک غلط ہے یا دوسرا ۔

عدم توجہی کی وجہ سے اُردو لغت بجائے افزائش کے انحطاط کا شکار ہو چکی ہے ۔ ہمارے ذرائع ابلاغ بالخصوص اخبارات اور رسائل صرف اُردو ہی نہیں انگریزی بھی غلط لکھتے ہیں ۔ اس کا مجموعی اثر عام آدمی پر ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں زبان بارے علم محدود ہو گیا ہے اور لوگ الفاظ کے صحیح استعمال سے بیگانہ ہو گئے ہیں ۔

میں ان دو لفظوں میں فرق کو واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ نقطہ وہ چیز ہے جسے انگریزی میں پوائنٹ [point] کہتے ہیں ۔ اُردو کی طرف سے لاپرواہی کے نتیجہ میں آج سے چار یا پانچ دہائیاں قبل مرتب ہونے والی فیروزاللغات سے بہتر کوئی اُردو کی قاموس [dictionary] نہیں ہے اور فیروزاللغات بھی ایک پہلی کوشش سے زیادہ نہیں ۔ بہر حال فیروزاللغات نقطہ کی تشریح یوں کرتی ہے ۔

نقطہ کا مطلب ہے ۔ بِندی ۔ صفر ۔
نقطہ اشتعال کا مطلب ہے ۔ گرمی اور کھولاؤ کا وہ نقطہ جس پر آگ بھڑک اُٹھے ۔
نقطہ انتخاب کا مطلب ہے ۔ وہ نقطہ جو کسی کتاب کے حاشیہ پر یا کسی عبارت یا شعر پر پسندیدگی کے طور پر لگایا جائے ۔
نقطہ عروج کا مطلب ہے ۔ کمال ۔ انتہاء ۔ انتہائی بلندی ۔
نقطہ کا فرق نہ ہونا کا مطلب ہے ۔ ذرابھی فرق نہ ہونا ۔
نقطہ گاہ کا مطلب ہے ۔ دائرہ کا مرکز ۔
نقطہ لگانا کا مطلب ہے ۔ عیب لگانا ۔ دھبّہ لگانا ۔
نقطہ نظر کا مطلب ہے ۔ دیکھنے یا سوچنے کا انداز ۔

نقطہ کا ہم عصر انگریزی میں پوآئنٹ [point] ہے جس کی انگریزی کی قاموس میں لمبی تفسیریں ہیں جن میں سے چند موٹی موٹی یہ ہیں

(1) an individual detail (2) a distinguishing detail (3) the most important essential in a discussion or matter (4) a geometric element that has zero dimensions (5) a particular place (6) an exact moment (7) a particular step, stage, or degree in development (8) a definite position in a scale

مندرجہ بالا انگریزی تفسیر کا اُردو ترجمہ حسبِ ذیل ہے
1 ۔ ایک انفرادی تفصیل۔ 2 ۔ ایک منفرد تفصیل ۔ 3 ۔ ایک بحث میں سب سے اہم معاملہ ۔ 4 ۔ علمِ ہندسہ کا ایک جُزو جس کی پیمائش صفر ہو ۔ 5 ۔ ایک خاص جگہ ۔ 6 ۔ ایک خاص وقت ۔ 7 ۔ ایک خاص اقدام ۔ 8 ۔ ایک پیمانے میں ایک خاص مقام ۔

نُکتہ کی فیروزاللغات یوں تشریح کرتی ہے ۔

نکتہ کا مطلب ہے ۔ باریک بات ۔ تہہ کی بات ۔ لطیفہ ۔ چٹکلہ ۔ رخنہ ۔ عیب ۔ چمڑا جو گھوڑے کے منہ پر رہتا ہے ۔
نکتہ بیں کا مطلب ہے ۔ نازک خیال ۔
نکتہ چیں کا مطلب ہے ۔ عیب ڈھونڈنے والا ۔
نکتہ دان کا مطلب ہے ۔ ذہین ۔
نکتہ شناس کا مطلب ہے ۔ جچی تُلی بات کرنے والا ۔ ہوشیار ۔ عقلمند ۔

شاید کہ تیرے دِل میں اُتر جائے میری بات

مرد عورت اختلاط

مرد اور عورت کا اختلاط ایک ایسا مرض ہے جو اپنی ہولناکی یورپ اور امریکہ میں پھیلانے کے بعد پاکستان میں بھی پاؤں جما رہاہے ۔ آجکل ہمارے ملک کے نام نہاد روشن خیال لوگ مرد عورت کے اختلاط کے گُن گاتے ہیں اور اس اختلاط کی عدم موجودگی کو مُلکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بیان کرتے ہیں جو کہ حقیقت نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں عورتیں ماضی میں معاشرے کا بے کار پرزہ کبھی بھی نہ تھیں ۔ وہ ملکی ترقی میں ہمیشہ شامل رہیں ۔ ایک چھوٹی سی مثال 1947ء کی ہے جب لاکھوں کی تعداد میں نادار ۔ بے سہارا ۔ بیمار یا زخمی خواتین اور لڑکیاں بھارت سے پاکستان پہنچیں تو اس دور کی پاکستانی خواتین اور لڑکیاں ہی تھیں جنہوں نے بیگم رعنا لیاقت علی صاحبہ کی سربراہی میں منظم ہو کر نہ صرف ان کی تیمارداری کی اور ڈھارس بندھائی بلکہ انہیں سنبھالا ۔ بسایا ۔ انہیں اپنے گھر چلانے کے قابل کیا اور ہزاروں کی شادی کا اہتمام بھی کیا ۔ رہیں دیہاتی عورتیں جنہیں یہ روشن خیال قیدی کہتے ہیں وہ پہلے بھی پڑھی لکھی شہری عورتوں سے زیادہ کام کرتی تھیں اور آج بھی زیادہ کام کرتی ہیں گھر میں اور گھر سے باہر بھی ۔ بہرکیف یہ ایک علیحدہ موضوع ہے ۔

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مطالعہ اور تحقیق کی خُو مجھے بچپن ہی سے بخشی اور میں نے سنِ بلوغت کو پہنچنے سے قبل ہی عورت مرد کے اختلاط کے عمل کا بغور مطالعہ شروع کر دیا ۔ یہ مرض غیرمحسوس طور پر لاحق ہو جاتا ہے اور بظاہر راحت بخش ہوتا ہے ۔ یہی راحت کا احساس انسان کو ایک دن ڈبو دیتا ہے ۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے لڑکی لڑکے یا عورت مرد کے درمیان ایک خاص قسم کی کشش رکھی ہے ۔ مگر ساتھ ہی حدود و قیود بھی مقرر کر دیں کہ افزائشِ نسل صحیح خطوط پر ہو ۔

آج کی تحریر نہ تو بدکردار عورتوں کے متعلق ہے اور نہ ہی سڑکوں پر اور مارکیٹوں میں گھورنے یا چھڑنے والوں کے متعلق بلکہ شریف زادوں اور شریف زادیوں سے متعلق ہے ۔ جنسی تسکین کی خاطر ایک دوسرے کو ملنے والے لڑکا لڑکی یا مرد عورت کی تعداد بہت کم ہے ۔ اکثریت غیر ارادی طور پر جنسی بے راہروی کا شکار ہوتی ہے ۔ ابتداء عام طور پر تعریف سے ہوتی ہے ۔ بعض اوقات ابتداء جملے بازی سے ہوتی ہے ۔ اختلاط جاری رہے تو بات دست درازی تک پہنچ جاتی ہے اور پھر ایسا لمحہ آنے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے جب دونوں نہ صرف اللہ بلکہ اردگرد کی دنیا کو بھول کر غوطہ لگا جاتے ہیں اور احساس سب کچھ کر گذرنے کے بعد ہوتا ہے ۔ کچھ کو احساس اس وقت ہوتا ہے جب لڑکی یا عورت کا جسم اس کی غلطی کی گواہی دینے لگتا ہے ۔ اس معاملہ میں ہر مرحلہ پر ابتداء عام طور پر لڑکے یا مرد کی طرف سے ہوتی ہے ۔ لیکن کبھی کبھار اس کی ابتداء لڑکی یا عورت کی طرف سے بھی ہوتی ہے ۔

متذکرہ عمل کا شکار صرف جاہل ۔ اَن پڑھ یا غریب ہی نہیں ہوتے اور نہ ہی صرف غیر شادی شدہ ہوتے ہیں بلکہ پڑھے لکھے ۔ آسودہ حال اور شادی شدہ بھی ہوتے ہیں ۔ ہوتا یوں ہے کہ کسی عام ضرورت کے تحت لڑکا لڑکی یا عورت مرد ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ۔ باتوں سے بات کبھی لطیفوں ۔ مذاق یا چوٹوں پر پہنچتی ہے ۔ کبھی کبھی اسی پر جھڑپ بھی ہو جاتی ہے ۔ یہ اس مرض کی ابتدائی علامات ہیں ۔ چاہیئے کہ انسان اسی وقت اپنے آپ کو سنبھالے اور اس راحت یا لذت کے احساس کو ختم کر دے ۔ بالخصوص لڑکی یا عورت کو اس صورتِ حال سے فوری طور پر نکل جانا چاہیئے ورنہ اس مرض کی خطرناکی کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی وقت انسان کیلئے ایک گھمبیر مسئلہ بن سکتا ہے جس کے نتیجہ میں کوئی خودکُشی کر لیتا ہے ۔ کوئی عدالت کے کٹہرے میں پہنچ جاتا ہے اور کوئی قتل کر دیا جاتا ہے ۔ ہلاکت یا کچہری سے بچ جانے والی لڑکیاں یا عورتیں گمنامی کی زندگی گذارتی ہیں ۔ ستم یہ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی ملک ہو مرد یا لڑکا معاشرہ میں اس سانحہ کے بُرے اثرات سے بچا رہتا ہے ۔

زبردستی بدکاری کے جو واقعات اخبارات اور سینہ گزٹ کے ذریعہ ہمارے علم میں آتے ہیں تحقیق کرنے پر افشاء ہوتا ہے کہ ان کی اکثریت اختلاط کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ اس حقیقت سے متعلقہ خاندان کے بزرگ اور وکلاء واقف ہوتے ہیں ۔ ہوتا یوں ہے کہ جب لڑکی یا عورت کو یقین ہو جاتا ہے کہ اس کے گناہ کی سَنَد سب پر عیاں ہونے والی ہے تو وہ اپنی بچت کی کوشش میں اپنے دوست پر زبردستی کا الزام لگا دیتی ہے ۔ دیہات میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ اصل مجرم کی بجائے کسی دشمن کا نام لے کر مقدمہ درج کرا دیا جاتا ہے ۔ میرے علم میں کئی واقعات کی اصل کہانی ہے لیکن ان میں سے دو ایسے ہیں جن کے متعلق میں آج بھی سوچتا ہوں کہ ایسا کیسے ہو گیا ؟ کیونکہ ان کے متعلقہ لوگوں کو میں اچھی طرح جانتا تھا ۔ وہ سب تعلیم یافتہ ۔ ذہین ۔ شریف النفس اور سمجھدار لوگ تھے اور ان سے ایسی حرکت کی کسی کو توقع نہ تھی ۔

ایک گھریلو خاتون ۔ نیک خاندان کی بیٹی ۔ پسند کی شادی ۔ نیک خاندان کی بہو ۔ عمر 40 سال سے زیادہ ۔ دو بیٹوں اور دو بیٹیوں [عمریں علی الترتیب 18 ۔ 10 ۔ 16 اور 13 سال] کی ماں ۔ خاوند بہت خیال رکھنے والا ۔ اس عورت کو موسقی اور ناچ کا شوق چُرایا ۔ اسکے خاوند کا بہترین دوست اس فن کا ماہر تھا ۔ وہ ان کے ہاں آتا جاتا تھا ۔ عورت نے اُس سے سیکھنا شروع کیا ۔ کچھ ماہ بعد ایک دن اس کا خاوند گھر آیا تو اس نے انہیں ایسی حالت میں دیکھا کہ کھڑے کھڑے بیوی کو طلاق دے دی ۔ بیوی کو اپنی غلطی کا احساس تو ہوا لیکن دیر بہت ہو چکی تھی ۔

دوسرا قصہ ایک لیڈی ڈاکٹر کا ہے ۔ جس ہسپتال میں وہ ملازم تھی وہیں ایک ڈاکٹر سے اس کی عام سی گپ شپ ہو گئی ۔ جس رات لیڈی ڈاکٹر کی ڈیوٹی ہو تی کبھی کبھار وہ ڈاکٹر گپ شپ کیلئے آ جاتا ۔ ایک رات وہ ہو گیا جس کا اختلاط میں ہمیشہ خدشہ رہتا ہے ۔ دو تین ماہ بعد گناہ ظاہر ہونے کا اُنہیں یقین ہو گیا تو اپنی عزت کا جنازہ نکلتا محسوس ہوا ۔ دونوں کے خاندان ایک دوسرے کو نہ جانتے تھے اور نہ ان کی ثقافت ایک سی تھی ۔ بہرحال دونوں نے اپنے گھر والوں پر کسی طرح دباؤ ڈالا ۔ لڑکے کی منگنی اپنی کزن سے ہو چکی ہوئی تھی جسے توڑ کر دونوں کی شادی ہو گئی ۔

اس مرض کو سمجھنے کیلئے مرد و عورت کی نفسیات ۔ علم العضاء اور کچھ دیگر عوامل کا مطالعہ ضروری ہے ۔ بالخصوص عورتوں کے بارے میں ۔ عورت کو اللہ تعالٰی نے محبت کا پیکر بنایا ہے ۔ وہ کسی کو تکلیف میں دیکھ کر دُکھی ہو جاتی ہے اور معمولی سے اچھے سلوک سے خوش ہو جاتی ۔ عورت کی یہی خوبیاں اس کیلئے وبال بھی بن سکتی ہیں ۔ دوسرے لڑکی یا عورت کے جسم میں ایک محرک دائرے کی صورت میں نفسیاتی رد و بدل ہوتا رہتا ہے جو کہ اس کی صنف کے لحاظ سے ضروری ہے ۔ ہر چکر کے دوران ایک ایسا وقت آتا ہے کہ مخالف جنس کی کشش بہت زیادہ ہو جاتی ہے ۔ ایسے وقت میں اگر وہ کسی غیر مرد کے قریب ہو جس سے کہ اس کا اختلاط چل رہا ہو تو اس کی عفت ختم ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ اس سے بچنے کا یعنی اپنی عفت و ناموس کو بچانے کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے بتا یا ہے کہ مرد عورت یا لڑکا لڑکی باہمی اختلاط سے بچیں اور لڑکی یا عورت غیر لڑکے یا مرد سے سرد مہری سے پیش آئے ۔

دنیاوی لحاظ سے اگر ملنا مجبوری ہو تو عورت یا لڑکی کو چاہیئے کہ کسی بھی مرد یا لڑکے کو علیحدگی میں نہ ملے بلکہ والدہ یا والد یا بڑی بہن یا بڑے بھائی یا خاوند یا بہت سے لوگوں کی موجودگی میں ملے ۔ کئی والدین اپنی بیٹیوں کو اور خاوند اپنی بیویوں کو آزاد خیال بنانے کی کوشش میں اپنے لئے بدنامی کی راہ ہموار کرتے ہیں ۔ والدین اور خاوندوں کو بھی اپنے کردار پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے ۔ یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ لڑکیوں اور عورتوں کی مناسب حفاظت اور ان کو نان نفقہ ۔ لباس ۔ چھت اور دیگر ضروری سہولیات بہم پہنچانا باپ یا بھائیوں یا خاوند یا بیٹوں پر فرض ہے ۔

منصوبہ بندی کامیاب بھی اور ناکام بھی

اب تک بی بی سی اردو اور کچھ پاکستانی نجی ٹی وی کے نمائندوں کی رپورٹوں اور بلاگرز کے ذاتی تجربہ کی صورت میں بہت کچھ سامنے آچکا ہے ۔ پھر بھی کچھ لوگوں کا 18 فروری کے انتخابات کو شفاف کہنا حیران کُن ہے ۔ انتخابات میں جس قدر بھی دھاندلی ممکن تھی وہ ہوئی ہے ۔

انتخابات سے پہلے دھاندلی

قاف لیگ سال بھر حکومتی سطح پر حکومتی اہلکاروں اور ذرائع کو استعمال کر کے قومی دولت بے دریغ بہاتے ہوئے انتخابی مُہِم چلاتی رہی ۔ اخباروں میں بڑے بڑے اشتہار چھپوائے جاتے رہے اور ٹی وی چینلز پر لمبے لمبے اشتہار دکھائے جاتے رہے ۔ پنجاب کے ہر شہر میں بڑے بڑے جلسے کئے گئے ۔ تمام سڑکوں کو قاف لیگ کے بینرز سے پُر کر دیا گیا ۔

ملک کے قانون کے مطابق کوئی فوجی کسی سیاسی جلسہ میں شریک نہیں ہو سکتا اور نہ سیاسی تقریر کر سکتا ہے مگر قانوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے متذکرہ بالا انتخابی جلسوں میں جنرل پرویز مشرف شامل ہو ئے اور سیاسی تقریریں بھی کیں ۔

آئین کے مطابق ملک کا صدر سب کا صدر ہوتا ہے اور کسی ایک سیاسی جماعت کی حمائت نہیں کر سکتا مگر پرویز مشرف متذکرہ بالا سیاسی انتخابی جلسوں میں آئین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے سامعین کو قاف لیگ کو ووٹ دینے کی تلقین کرتے رہے ۔

نواز شریف 10 ستمبر 2007ء کو پاکستان پہنچا تو اسے زبردستی سعودی عرب بھیج دیا گیا اور نومبر کے آخر اس دن آنے دیا گیا جو انتخابات کیلئے نامزدگی کا آخری دن تھا ۔ اس طرح نواز شریف کو اچھے اُمیدوار چننے سے محروم رکھا گیا ۔ یہ بھی انتخابی دھاندلی تھی ۔

پنجاب میں کے 34 میں سے 22 اضلاع میں مقامی حکومتوں نے مسلم لیگ قاف کی کامیابی کے لئے دن رات کام کیا اور قومی دولت استعمال کر کے قاف لیگ کی انتخابی مہم چلائی ۔ ان 22 میں سے کم از کم 14 اضلاع ایسے تھے جہاں مقامی ناظمین کے رشتہ دار قاف لیگ کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔

جو لوگ اپنے علاقوں میں نہیں جا سکتے تھے انہوں نے اپنا ووٹ ڈاک کے ذریہ بھیجنا تھا ۔ بجائے اسکے کہ یہ لوگ تخلیے میں ٹھپہ لگاتے بڑے افسران ان کو اپنے دفتر میں بُلا بُلا کر اپنے سامنے سائیکل پر ٹھپہ لگواتے ۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں سے قاف لیگ کو ووٹ ملنے کا یقین نہ تھا اسلئے اُنہیں بیلٹ پیپر نہیں بھیجے گئے ۔ انتخابات پر مامور عملہ کے بیلٹ پیپر انہیں دینے کی بجائے حکومتی وڈیروں نے خود ہی ڈال دیئے ۔

منصوبہ بندی کے تحت پورے پاکستان میں ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ لوگ نہ تو حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے جلسوں میں جائیں اور نہ ووٹ دینے کیلئے گھروں سے باہر نکلیں ۔ کمر توڑ مہنگائی ۔ آٹا اور گھی کا بحران ۔ دھماکے اور بجلی کا بار بار بند ہونا ۔

انتخابات کے دن دھاندلی

پورے پاکستان میں ووٹ ڈالنے کے اکثر مقامات جو پچھلے کئی انتخابات سے مقرر تھے انہیں بدل دیا گیا اور اسے مشتہر نہ کیا گیا نہ ہی حکومتی پارٹی کے کارندوں کے کسی اور سیاسی جماعت کو اس کی خبر دی گئی جس کی وجہ سے کئی لوگ خوار ہو کر بغیر ووٹ ڈالے گھروں کو چلے گئے ۔ اس سلسلہ میں میں نے بھی 2 کلو میٹر پیدل سیر کی ۔

کئی ووٹ ڈالنے کے مقامات پر ووٹروں کی فہرستیں غلط پہنچیں اور کئی پر فہرستیں پہنچی ہی نہیں ۔ کئی جگہوں سے کوئی شخص بیلٹ پیپر لے کر بھاگ گیا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے مقامات پراور ان بیلٹ پیپرز پر ووٹ کس نے ڈالے ؟

کراچی میں ایم کیو ایم نے داداگیری کا آزادانہ استعمال کر کے قومی اسمبلی کی 19 نشستیں حاصل کیں ۔ زیادہ تر پولنگ سٹیشنوں پر کسی دوسری جماعت کے پولنگ ایجنٹ کو آنے نہ دیا گیا ۔ ٹھپہ خفیہ طور پر لگانا ہوتا ہے لیکن ایم کیو ایم کا نمائندہ وہاں کھڑا ہو کر دیکھتا رہتا کہ ووٹر نے ٹھپہ کہاں لگایا ۔ کون ایم کیو ایم کے خلاف ووٹ ڈال کر اپنی جان خطرہ میں ڈال سکتا ہے ؟ مرزا اختیار بیگ کی پریس کانفرنس اس کا صرف ادنٰی نمونہ ہے ۔

لاہور میں کئی علاقوں میں قاف کے مخالفوں کو ووٹ ہی نہ ڈالنے دیئے گئے ۔ کئی جگہوں سے بیلٹ پیپر یا بیلٹ بکس غائب کر دیئے گئے ۔ کئی ووٹروں کو یہ کہہ کر واپس بھیج دیا گیا کہ آپ کا ووٹ ہی نہیں ۔

جن علاقوں میں مسلم لیگ نواز یا پیپلز پارٹی کا بہت زور تھا حکومتی کارسازوں کو دھاندلی کا موقع نہ ملا یا جرأت نہ ہوئی جس کے نتیجہ میں راولپنڈی میں قاف کا ضلعی ناظم اپنے حلقے ہی میں مسلم لیگ نواز کے اُمیدوار سے شکست کھا گیا ۔ مضافات میں یا جہاں چھوٹی چھٹی آبادیوں کو ملا کر ایک حلقہ بنایا گیا تھا وہاں حکومتی تحصیل ناظمین ۔ پولیس اور پٹواریوں نے حکومتی اُمیدواروں کی کامیابی میں بڑا مگر گھناؤنا کردار ادا کیا ۔

پولیس اور پٹواری کا ایک کارنامہ اٹک سے پرویز الٰہی کا جیتنا ہے ۔ 18 فروری کو رات گئے تک اٹک شہر اور شہر سے ملحقہ علاقوں کا نتیجہ آ چکا تھا صرف کچھ مضافاتی علاقے رہ گئے تھے ۔ ان کے نتیجہ میں مسلم لیگ نواز کا اُمیدوار سہیل ساڑھے پانچ ہزار کی برتری سے جیت رہا تھا ۔ صبح بتایا گیا کہ پرویز الٰہی تقریباً دس ہزار کی برتری سے جیت گیا ہے ۔

لاہور میں پرویز الٰہی کے بیٹے مُونس الٰہی کے مقابلہ میں 18 فروی کو رات گئے تک مسلم لیگ نواز کا اُمیدوار بھاری اکثریت سے جیت رہا تھا ۔ دوسرے دن معلوم ہوا کہ مونس الٰہی جیت گیا ہے ۔ اس سلسلہ میں لوگوں کا کہنا ہے کہ کہیں سے ووٹوں سے بھرے ڈبے لائے گئے ۔

اس کی راولپنڈی سے مثال ہے شفیق خان کا صوبائی انتخاب میں اس علاقہ سے جیتنا جس کا تحصیل ناظم اس کا بھائی ہے ۔ اس علاقے کو شامل کرتے ہوئے بڑے قومی اسمبلی کے حلقہ میں انہی کا بھائی غلام سرور خان جو پچھلی حکومت میں وزیر تھا مسلم لیگ نواز کے چوہدری نثار علی سے ہار گیا ۔