پاکستان میں طالبان نام کی کوئی مجتمع یا جامع تحریک کا وجود نہیں ہے ۔ اس سلسلہ میں اسلام دُشمن طاقتوں کے زیرِ اثر معاندانہ پروپیگنڈہ نے حقائق پر پردہ ڈال رکھا ہے ۔ قبائلی علاقہ میں مُختلف العقیدہ گروہ ہیں ۔ آپس کی ذاتی لڑائیاں ان کی بہت پرانی عادت ہے ماضی بعید میں اگر ان کی آپس کی لڑائی بڑھ جاتی تو حکومت مداخلت کر کے صلح صفائی کرا دیتی تھی ۔ مگر مسلکی فساد ان کے درمیان ماضی قریب کی پیداوار ہے ۔
شمالی علاقہ جات اور ملحقہ قبائلی علاقہ میں ہمیشہ سے کچھ سیّد رہتے تھے جن میں کچھ شیعہ مسلک کے تھے مگر سب لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے ۔ 1970ء کی دہائی میں اُس وقت کے حکمرانوں کو ان علاقوں میں سیاست کی سُوجھی اور انہوں نے شیعہ لوگوں کو اپنے مقصد کیلئے اُبھارا ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد پرنس کریم آغا خان کو بھی اپنے پیروکار اس غُربت زدہ علاقے میں بنانے کا خیال آیا اور اس کیلئے اُس نے اپنی دولت کا سہارا لیا ۔ ان مہربانیوں نے آخر بھائی کو بھائی کے مقابلہ پر لا کھڑا کیا ۔ پچھلے 8 سال میں حکومت نے اس کی طرف بالکل توجہ نہ دی جس کے نتیجہ میں اب ایک دوسرے کا قتل روزانہ کا معمول بن گیا ہے ۔ اس فساد کا تعلق نہ تو افغان جہاد سے ہے نہ اوسامہ بن لادن سے ۔
افغانستان میں جب سوویٹ یونین کے خلاف جنگ جاری تھی تو اس میں سُنّی اور شیعہ کی تفریق کے بغیر سب حصہ لے رہے تھے ۔ لیکن نجانے کونسی پسِ پردہ قوت تھی جس نے شیطانی کردار ادا کیا اور شیعہ ۔ اہلِ سُنّت اور اہلِ حدیث کے آوازے بلند ہوئے ۔ قبائلی علاقے تو ایک طرف ۔ واہ چھاؤنی جیسے 97 فیصد تعلیم یافتہ لوگوں والے وطنِ عزیز کے سب سے مہذب شہر کی ایک معروف مسجد کے اندر نمازیوں کا ایک گروہ دوسرے پر لاٹھیاں لے کر پَل پڑا ۔ کچھ لوگوں نے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بنتے ہوئے کچھ مسجدوں میں لاؤڈ سپیکر پر اذان سے فوراً پہلے درود اور نعت پڑھنا شروع کر دیا ۔ کچھ مساجد میں طاقتور لاؤڈ سپیکر لگا کر ہر ماہ میں ایک دن نعت خوانی ہونے لگی اور زیادہ تر نعتیں فلمی گانوں کا چربہ ہوتیں ۔ محلہ کےلوگوں کا آرام اور ان کے بچوں کا پڑھنا ناممکن ہو گیا ۔ کسی کو یہ خیال نہ رہا کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ظہر اور عصر کی نمازیں بغیر آواز کے پڑھنے کا کیوں حُکم دیا ہے ۔
پچھلے 7 سال میں شمالی اور قبائلی علاقہ جات میں مسلمانوں کی مزید کچھ قسمیں بنا دی گئیں ۔ حکومت کے وفادار طالبان ۔ لشکرِ اسلام ۔ انصار الاسلام ۔ وغیرہ ۔ اصلی طالبان کے پاس تو پہلے ہی اسلحہ موجود تھا ۔ دوسرے گروہوں کو جدید اسلحہ کس نے مہیا کیا کہ وہ ایک دوسرے کو ہلاک کریں ؟ جہاں تک صوبہ سرحد کے کچھ علاقوں میں شریعت نافذ کرنے کا سوال ہے اس کیلئے مولویوں کی حکومت آنے سے قبل سرحد اسمبلی میں قانون منظور کیا گیا تھا اور اس قانون کی منظوری بعد میں پرویز مشرف کی حکومت نے دی تھی مگر یہ قانون آج تک نافذ العمل نہیں ہوا ۔ سُننے میں آتا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف لڑنے والے پرویز مشرّف حکومت نے تیار کئے ۔ اسی طرح باڑہ ۔ جمرود اور تیراہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایک گروہ جس میں منگل باغ بھی شامل ہے پرویز مشرّف حکومت کا تیار کردہ ہے ۔
ہموطنوں کی اکثریت نے اپنی تمام تر توجہ مُلّا کو ہدفِ تنقید بنانے پر لگا رکھی ہے ۔ ذرائع ابلاغ نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ ہر داڑھی والا مّلّا یا طالبان ہے اور شِدّت پسند یا دہشتگرد ہے ۔ ہر داڑھی والے کو طالبان یا مُلا کہنا کہاں کی دانشمندی ہے ؟ کیا سِکھ ۔ ہندو ۔ یہودی ۔ عیسائی اور دہریئے داڑھی نہیں رکھتے ؟ اور کیا چوروں اور ڈاکوؤں کی داڑھیاں نہیں ہوتیں ؟ داڑھی والا تو ایک طرف نماز اور روزے کے پابند کو بھی وطنِ عزیز میں روشن خیال لوگ تضحیک کے ساتھ مولوی یا مُلا کہہ کر پکارتے ہیں ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وطنِ عزیز میں نماز اور روزہ کا تارک بھی سینے پر ہاتھ مار کر کہتا ہے “میں مُسلمان ہوں ۔ کوئی دوسرا کون ہوتا ہے مجھے اسلام سکھانے والا ؟”
جب افغانستان میں پاکستان کی فوجی حکومت کی اعانت سے سوویٹ یونین کے خلاف جنگ جاری تھی تو اس جنگ میں شامل ہونے والوں میں افغانیوں کے ساتھ کچھ غیر ملکی بھی شامل تھے جن کا تعلق امریکہ اور برطانیہ سمیت پوری دنیا سے تھا ۔ ان میں پاکستان کے تمام صوبوں اور آزاد جموں کشمیر کے لوگ بھی تھے ۔ یہ لوگ نہ القاعدہ تھے نہ طالبان بلکہ سب انفرادی حیثیت میں شامل ہوئے تھے ۔
فی زمانہ یہ رواج بن چکا ہے کہ چوہدری کے میراثی کی طرح ہر بُرائی طالبان یا مُلّا کے نام لکھ دی جاتی ہے ۔ اور اگر کسی وجہ سے طالبان یا مُلّا کا نام لینا ناممکن ہو تو مسلمان کے نام تھوپ دی جاتی ہے ۔ افسوس کہ ہموطنوں میں حقائق کا ادراک کرنے کا حوصلہ نہیں ۔ اگر تھوڑی سی محنت کی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقہ میں امریکہ نے اور امریکہ کی خوشنودی کیلئے وطنِ عزیز کے حکمرانوں نے جو قتل عام کیا ہے اس کا بدلہ لینے کیلئے وہ لوگ فوجی یا متعلقہ تنصیبات پر تو حملے کرتے ہیں لیکن شہری لوگوں پر وہ لوگ عام طور پر ہاتھ نہیں اُٹھاتے ۔ البتہ حالات کا فائدہ اُٹھا کر جرائم پیشہ لوگ کھُل کر کھیلنے لگے ہیں اور ان جرائم پیشہ میں سے جب کوئی پکڑا جاتا ہے تو وہ بیان دیتا ہے یا اُس سے بیان دلوایا جاتا ہے کہ اُس کا تعلق طالبان یا فلاں اسلامی تحریک سے ہے ۔ یعنی ایک تیر سے دو نشانے لگائے جاتے ہیں ۔ ایسے آدمیوں کو کبھی کھُلی عدالت میں بیان دینے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ اگر گڑبڑ کا خدشہ ہو یا پکڑا جانے والا مطلب کا بیان نہ دے تو جعلی پولیس مقابلہ میں اُسے ہلاک کر دیا جاتا ہے ۔
بینظیر بھٹو کے قتل میں بیت اللہ محسود کے نام کی ایف آئی آر کاٹ دی گئی ۔ ثبوت کیلئے کچھ دن بعد ایک 15 سالہ لڑکا کہیں سے اُٹھا کر اسے ماسٹر مائنڈ قرار دے دیا اور بتایا گیا کہ وہ لڑکا بیت اللہ محسود کا آدمی ہے ۔ (میں نہیں کہتا کہ بیت اللہ محسود اچھا آدمی ہے)
بینظیر کے قتل کے چند گھنٹوں کے اندر موقع سے تمام ثبوت غائب کر کے ساری جگہ کی دُھلائی بھی کر دی گئی تھی
ڈاکٹروں کو بینظیر اور 22 دوسرے مرنے والوں کا باقاعدہ معائنہ کر کے صحیح رپورٹ تیار نہ کرنے دی گئی
تمام مرنے والوں کو جلد دفنانے پر زور دیا اور دفنا دیا گیا
قانون کے مطابق وقوعہ کے بعد فوری طور پر وقوعہ کے عینی شاہدوں کے بیانات قلمبند کر کے وقوعہ کے وقت سے دو ہفتے کے اندر تفتیشی رپورٹ عدالت میں پیش کرنا ہوتی ہے ۔ رپورٹ تو کُجا کسی عینی شاہد کا آج تک بیان قلمبند نہیں کیا گیا جبکہ عینی شاہد معروف تھے ۔
بیت اللہ محسود یا اُس کے کسی معتبر ساتھی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی نہ گئی حالانکہ اُسے ملزم ٹھہرایا گیا تھا ۔
انٹرپول کی ٹیم آئی اور غریب ہموطنوں کا مال کھا کر کوئی اہم کاروائی کئے بغیر چلی گئی ۔
کیا متذکرہ سب قانونی کاروائیاں بیت اللہ محسود یا اُسکے آدمیوں نے کروائیں یا رُکوائیں ؟
کوئی انصاف پسند اگر ہے تو بتائے کہ ایک شخص کے اپنے گھر پر کوئی آ کر حملہ کرے اور اُس کے خاندان کے کئی افراد جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوں ہلاک کر دے یا اُن کے ہاں شادی ہو رہی ہو اور سب رشتہ دار اور دوست جمع ہوں اور ان پر حملہ کر کے لوگوں کو ہلاک اور زخمی کر دے یا اُن کے بچے مدرسہ میں پڑھنے گئے ہوں اور اُنہیں میزائل مار کر ہلاک کر دیا جائے اور پھر بڑے طمطراک سے اعلان کیا جائے کہ دہشتگرد مار دیئے تو کیا مرنے والوں کے رشتہ دار اور دوست حملہ آور کو پھولوں کے ہار پہنائیں گے ؟
کیا افغانستان میں امریکا اس سے زیادہ ظُلم نہیں کر رہا اور کیا پاکستان کے قبائلی علاقہ میں امریکا اور وطنِ عزیز کے حُکمران ایسا ہی ظُلم نہیں کرتے آ رہے ؟
کمال یہ ہے کہ ہر شہری دھماکہ کو دھماکہ ہوتے ہی خُودکُش قرار دیدیا جاتا ہے ۔ پھر اُسی دن یا چند دن بعد خُودکُش حملہ آور کا سر مل جاتا ہے اور ڈی این اے ٹسٹ کا اعلان کر دیا جاتا اور دھماکہ کا تعلق طالبان یا انتہاء پسند جنگنوؤں کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ۔ اس پر اکتفاء کر کے حکومت کے متعلقہ محکموں کے اہلکار اپنی ذمہ داری سے اپنے آپ کو سُبکدوش سمجھتے ہیں ۔ اگر کبھی یہ لوگ اپنے دماغوں کو صاف کر کے درست طریقہ سے تحقیق کرتے تو یقینی طور پر معلوم ہو چکا ہوتا کہ اسلام کی آڑ میں اسلام کو کون بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے
بغیر پارلیمنٹ یا حلیف جماعتوں کے سربراہوں کو اعتماد میں لئے جون کے آخری ہفتہ میں پشاور کے قریب باڑہ کے علاقہ میں جو فوجی کاروائی کی گئی اس کی افادیت کسی کی سمجھ میں نہیں آئی ۔ عام خیال یہی ہے کہ امریکا کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ رچرڈ باؤچر کی پاکستان آمد سے پہلے یہ کاروائی اپنی وفاداری کے ثبوت کے طور پر کی گئی کیونکہ پچھلی یعنی پرویز مشرّف حکومت کے دور میں ہمیشہ امریکا کے کسی بڑے کی پاکستان آمد سے پہلے کسی نہ کسی قبائلی علاقہ پر یلغار کی جاتی رہی ہے اور قبائلی مع بیوی بچوں کے ہلاک ہوتے رہے ہیں ۔ اس کاروائی کی اہم حقیقت یہ ہے کہ جن کے خلاف کاروائی کی گئی تھی وہ بغیر ایک گولی چلائے علاقہ خالی کر گئے تھے لیکن اپنے آقا امریکا کی ایما پر کاروائی جاری رکھی گئی ۔ نتیجہ میں قبائیلی ہلاک ہونا شروع ہوئے تو اُنہوں نے بھی ردِ عمل شروع کیا جس میں ہلاک ہونے والوں میں وطنِ عزیز کے سپاہییوں کی تعداد ہلاک ہونے والے قبائیلیوں سے زیادہ ہے ۔ دونوں طرف غریب پاکستانی مر رہے ہیں ۔ اس کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے ؟ جرنیل اور حکمران تو اپنے ایئرکنڈیشنڈ گھروں میں آرام فرما رہے ہیں یا پھر دوسرے ممالک کی سیر و سیاحت کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔
جون کے آخری ہفتہ میں پاکستان کے ایک سابق سفیر ایاز وزیر نے قبائلی علاقہ پر طاقت کے استعمال کی پُرزور مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مقامی جرگہ سسٹم بحال کیا جائے اور مشاورت سے تنازعات حل کئے جائیں ۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ آج تک حکومت نے قبائلی علاقہ میں کوئی ترقیاتی عمل نہیں کیا ۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ طالبان نام کی کوئی تحریک وزیرستان میں نہیں ہے اور اگر ہے تو پھر ڈاکٹر بھی طالبان ہے انجنیئر بھی طالبان ہے میں بھی طالبان ہوں اور آپ بھی طالبان ہیں ۔
اُنہی دنوں میں خیبر ایجنسی کے پولٹیکل ایجنٹ جو کہ سرکاری ملازم ہوتا ہے نے کہا کہ جمرود کے علاقہ میں لڑائی ہو یا قبائلی اور پُرامن شہری علاقوں میں دھماکے ہیروئین کے بادشاہ کرواتے ہیں ان کا وزیرستان یا سو ات سے کوئی تعلق نہیں ۔ اُس نے مزید کہا کہ اس بدامنی سے فائدہ اُٹھا کر افغانستان میں تیار ہونے والی ہیروئین کی پاکستان کے راستے دوسرے مُلکوں کو ترسیل ممکن بنائی جاتی ہے ۔