Category Archives: تجزیہ

طالبان اور پاکستان قسط6 ۔ پاکستانی طالبان

پاکستان میں طالبان نام کی کوئی مجتمع یا جامع تحریک کا وجود نہیں ہے ۔ اس سلسلہ میں اسلام دُشمن طاقتوں کے زیرِ اثر معاندانہ پروپیگنڈہ نے حقائق پر پردہ ڈال رکھا ہے ۔ قبائلی علاقہ میں مُختلف العقیدہ گروہ ہیں ۔ آپس کی ذاتی لڑائیاں ان کی بہت پرانی عادت ہے ماضی بعید میں اگر ان کی آپس کی لڑائی بڑھ جاتی تو حکومت مداخلت کر کے صلح صفائی کرا دیتی تھی ۔ مگر مسلکی فساد ان کے درمیان ماضی قریب کی پیداوار ہے ۔

شمالی علاقہ جات اور ملحقہ قبائلی علاقہ میں ہمیشہ سے کچھ سیّد رہتے تھے جن میں کچھ شیعہ مسلک کے تھے مگر سب لوگ ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے ۔ 1970ء کی دہائی میں اُس وقت کے حکمرانوں کو ان علاقوں میں سیاست کی سُوجھی اور انہوں نے شیعہ لوگوں کو اپنے مقصد کیلئے اُبھارا ۔ اس کے کچھ عرصہ بعد پرنس کریم آغا خان کو بھی اپنے پیروکار اس غُربت زدہ علاقے میں بنانے کا خیال آیا اور اس کیلئے اُس نے اپنی دولت کا سہارا لیا ۔ ان مہربانیوں نے آخر بھائی کو بھائی کے مقابلہ پر لا کھڑا کیا ۔ پچھلے 8 سال میں حکومت نے اس کی طرف بالکل توجہ نہ دی جس کے نتیجہ میں اب ایک دوسرے کا قتل روزانہ کا معمول بن گیا ہے ۔ اس فساد کا تعلق نہ تو افغان جہاد سے ہے نہ اوسامہ بن لادن سے ۔

افغانستان میں جب سوویٹ یونین کے خلاف جنگ جاری تھی تو اس میں سُنّی اور شیعہ کی تفریق کے بغیر سب حصہ لے رہے تھے ۔ لیکن نجانے کونسی پسِ پردہ قوت تھی جس نے شیطانی کردار ادا کیا اور شیعہ ۔ اہلِ سُنّت اور اہلِ حدیث کے آوازے بلند ہوئے ۔ قبائلی علاقے تو ایک طرف ۔ واہ چھاؤنی جیسے 97 فیصد تعلیم یافتہ لوگوں والے وطنِ عزیز کے سب سے مہذب شہر کی ایک معروف مسجد کے اندر نمازیوں کا ایک گروہ دوسرے پر لاٹھیاں لے کر پَل پڑا ۔ کچھ لوگوں نے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بنتے ہوئے کچھ مسجدوں میں لاؤڈ سپیکر پر اذان سے فوراً پہلے درود اور نعت پڑھنا شروع کر دیا ۔ کچھ مساجد میں طاقتور لاؤڈ سپیکر لگا کر ہر ماہ میں ایک دن نعت خوانی ہونے لگی اور زیادہ تر نعتیں فلمی گانوں کا چربہ ہوتیں ۔ محلہ کےلوگوں کا آرام اور ان کے بچوں کا پڑھنا ناممکن ہو گیا ۔ کسی کو یہ خیال نہ رہا کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ظہر اور عصر کی نمازیں بغیر آواز کے پڑھنے کا کیوں حُکم دیا ہے ۔

پچھلے 7 سال میں شمالی اور قبائلی علاقہ جات میں مسلمانوں کی مزید کچھ قسمیں بنا دی گئیں ۔ حکومت کے وفادار طالبان ۔ لشکرِ اسلام ۔ انصار الاسلام ۔ وغیرہ ۔ اصلی طالبان کے پاس تو پہلے ہی اسلحہ موجود تھا ۔ دوسرے گروہوں کو جدید اسلحہ کس نے مہیا کیا کہ وہ ایک دوسرے کو ہلاک کریں ؟ جہاں تک صوبہ سرحد کے کچھ علاقوں میں شریعت نافذ کرنے کا سوال ہے اس کیلئے مولویوں کی حکومت آنے سے قبل سرحد اسمبلی میں قانون منظور کیا گیا تھا اور اس قانون کی منظوری بعد میں پرویز مشرف کی حکومت نے دی تھی مگر یہ قانون آج تک نافذ العمل نہیں ہوا ۔ سُننے میں آتا ہے کہ ان لوگوں کے خلاف لڑنے والے پرویز مشرّف حکومت نے تیار کئے ۔ اسی طرح باڑہ ۔ جمرود اور تیراہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ایک گروہ جس میں منگل باغ بھی شامل ہے پرویز مشرّف حکومت کا تیار کردہ ہے ۔

ہموطنوں کی اکثریت نے اپنی تمام تر توجہ مُلّا کو ہدفِ تنقید بنانے پر لگا رکھی ہے ۔ ذرائع ابلاغ نے یہ وطیرہ بنا لیا ہے کہ ہر داڑھی والا مّلّا یا طالبان ہے اور شِدّت پسند یا دہشتگرد ہے ۔ ہر داڑھی والے کو طالبان یا مُلا کہنا کہاں کی دانشمندی ہے ؟ کیا سِکھ ۔ ہندو ۔ یہودی ۔ عیسائی اور دہریئے داڑھی نہیں رکھتے ؟ اور کیا چوروں اور ڈاکوؤں کی داڑھیاں نہیں ہوتیں ؟ داڑھی والا تو ایک طرف نماز اور روزے کے پابند کو بھی وطنِ عزیز میں روشن خیال لوگ تضحیک کے ساتھ مولوی یا مُلا کہہ کر پکارتے ہیں ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وطنِ عزیز میں نماز اور روزہ کا تارک بھی سینے پر ہاتھ مار کر کہتا ہے “میں مُسلمان ہوں ۔ کوئی دوسرا کون ہوتا ہے مجھے اسلام سکھانے والا ؟”

جب افغانستان میں پاکستان کی فوجی حکومت کی اعانت سے سوویٹ یونین کے خلاف جنگ جاری تھی تو اس جنگ میں شامل ہونے والوں میں افغانیوں کے ساتھ کچھ غیر ملکی بھی شامل تھے جن کا تعلق امریکہ اور برطانیہ سمیت پوری دنیا سے تھا ۔ ان میں پاکستان کے تمام صوبوں اور آزاد جموں کشمیر کے لوگ بھی تھے ۔ یہ لوگ نہ القاعدہ تھے نہ طالبان بلکہ سب انفرادی حیثیت میں شامل ہوئے تھے ۔

فی زمانہ یہ رواج بن چکا ہے کہ چوہدری کے میراثی کی طرح ہر بُرائی طالبان یا مُلّا کے نام لکھ دی جاتی ہے ۔ اور اگر کسی وجہ سے طالبان یا مُلّا کا نام لینا ناممکن ہو تو مسلمان کے نام تھوپ دی جاتی ہے ۔ افسوس کہ ہموطنوں میں حقائق کا ادراک کرنے کا حوصلہ نہیں ۔ اگر تھوڑی سی محنت کی جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقہ میں امریکہ نے اور امریکہ کی خوشنودی کیلئے وطنِ عزیز کے حکمرانوں نے جو قتل عام کیا ہے اس کا بدلہ لینے کیلئے وہ لوگ فوجی یا متعلقہ تنصیبات پر تو حملے کرتے ہیں لیکن شہری لوگوں پر وہ لوگ عام طور پر ہاتھ نہیں اُٹھاتے ۔ البتہ حالات کا فائدہ اُٹھا کر جرائم پیشہ لوگ کھُل کر کھیلنے لگے ہیں اور ان جرائم پیشہ میں سے جب کوئی پکڑا جاتا ہے تو وہ بیان دیتا ہے یا اُس سے بیان دلوایا جاتا ہے کہ اُس کا تعلق طالبان یا فلاں اسلامی تحریک سے ہے ۔ یعنی ایک تیر سے دو نشانے لگائے جاتے ہیں ۔ ایسے آدمیوں کو کبھی کھُلی عدالت میں بیان دینے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ اگر گڑبڑ کا خدشہ ہو یا پکڑا جانے والا مطلب کا بیان نہ دے تو جعلی پولیس مقابلہ میں اُسے ہلاک کر دیا جاتا ہے ۔

بینظیر بھٹو کے قتل میں بیت اللہ محسود کے نام کی ایف آئی آر کاٹ دی گئی ۔ ثبوت کیلئے کچھ دن بعد ایک 15 سالہ لڑکا کہیں سے اُٹھا کر اسے ماسٹر مائنڈ قرار دے دیا اور بتایا گیا کہ وہ لڑکا بیت اللہ محسود کا آدمی ہے ۔ (میں نہیں کہتا کہ بیت اللہ محسود اچھا آدمی ہے)
بینظیر کے قتل کے چند گھنٹوں کے اندر موقع سے تمام ثبوت غائب کر کے ساری جگہ کی دُھلائی بھی کر دی گئی تھی
ڈاکٹروں کو بینظیر اور 22 دوسرے مرنے والوں کا باقاعدہ معائنہ کر کے صحیح رپورٹ تیار نہ کرنے دی گئی
تمام مرنے والوں کو جلد دفنانے پر زور دیا اور دفنا دیا گیا
قانون کے مطابق وقوعہ کے بعد فوری طور پر وقوعہ کے عینی شاہدوں کے بیانات قلمبند کر کے وقوعہ کے وقت سے دو ہفتے کے اندر تفتیشی رپورٹ عدالت میں پیش کرنا ہوتی ہے ۔ رپورٹ تو کُجا کسی عینی شاہد کا آج تک بیان قلمبند نہیں کیا گیا جبکہ عینی شاہد معروف تھے ۔
بیت اللہ محسود یا اُس کے کسی معتبر ساتھی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی نہ گئی حالانکہ اُسے ملزم ٹھہرایا گیا تھا ۔
انٹرپول کی ٹیم آئی اور غریب ہموطنوں کا مال کھا کر کوئی اہم کاروائی کئے بغیر چلی گئی ۔

کیا متذکرہ سب قانونی کاروائیاں بیت اللہ محسود یا اُسکے آدمیوں نے کروائیں یا رُکوائیں ؟

کوئی انصاف پسند اگر ہے تو بتائے کہ ایک شخص کے اپنے گھر پر کوئی آ کر حملہ کرے اور اُس کے خاندان کے کئی افراد جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہوں ہلاک کر دے یا اُن کے ہاں شادی ہو رہی ہو اور سب رشتہ دار اور دوست جمع ہوں اور ان پر حملہ کر کے لوگوں کو ہلاک اور زخمی کر دے یا اُن کے بچے مدرسہ میں پڑھنے گئے ہوں اور اُنہیں میزائل مار کر ہلاک کر دیا جائے اور پھر بڑے طمطراک سے اعلان کیا جائے کہ دہشتگرد مار دیئے تو کیا مرنے والوں کے رشتہ دار اور دوست حملہ آور کو پھولوں کے ہار پہنائیں گے ؟

کیا افغانستان میں امریکا اس سے زیادہ ظُلم نہیں کر رہا اور کیا پاکستان کے قبائلی علاقہ میں امریکا اور وطنِ عزیز کے حُکمران ایسا ہی ظُلم نہیں کرتے آ رہے ؟

کمال یہ ہے کہ ہر شہری دھماکہ کو دھماکہ ہوتے ہی خُودکُش قرار دیدیا جاتا ہے ۔ پھر اُسی دن یا چند دن بعد خُودکُش حملہ آور کا سر مل جاتا ہے اور ڈی این اے ٹسٹ کا اعلان کر دیا جاتا اور دھماکہ کا تعلق طالبان یا انتہاء پسند جنگنوؤں کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ۔ اس پر اکتفاء کر کے حکومت کے متعلقہ محکموں کے اہلکار اپنی ذمہ داری سے اپنے آپ کو سُبکدوش سمجھتے ہیں ۔ اگر کبھی یہ لوگ اپنے دماغوں کو صاف کر کے درست طریقہ سے تحقیق کرتے تو یقینی طور پر معلوم ہو چکا ہوتا کہ اسلام کی آڑ میں اسلام کو کون بدنام کرنے کی کوشش کر رہا ہے

بغیر پارلیمنٹ یا حلیف جماعتوں کے سربراہوں کو اعتماد میں لئے جون کے آخری ہفتہ میں پشاور کے قریب باڑہ کے علاقہ میں جو فوجی کاروائی کی گئی اس کی افادیت کسی کی سمجھ میں نہیں آئی ۔ عام خیال یہی ہے کہ امریکا کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ رچرڈ باؤچر کی پاکستان آمد سے پہلے یہ کاروائی اپنی وفاداری کے ثبوت کے طور پر کی گئی کیونکہ پچھلی یعنی پرویز مشرّف حکومت کے دور میں ہمیشہ امریکا کے کسی بڑے کی پاکستان آمد سے پہلے کسی نہ کسی قبائلی علاقہ پر یلغار کی جاتی رہی ہے اور قبائلی مع بیوی بچوں کے ہلاک ہوتے رہے ہیں ۔ اس کاروائی کی اہم حقیقت یہ ہے کہ جن کے خلاف کاروائی کی گئی تھی وہ بغیر ایک گولی چلائے علاقہ خالی کر گئے تھے لیکن اپنے آقا امریکا کی ایما پر کاروائی جاری رکھی گئی ۔ نتیجہ میں قبائیلی ہلاک ہونا شروع ہوئے تو اُنہوں نے بھی ردِ عمل شروع کیا جس میں ہلاک ہونے والوں میں وطنِ عزیز کے سپاہییوں کی تعداد ہلاک ہونے والے قبائیلیوں سے زیادہ ہے ۔ دونوں طرف غریب پاکستانی مر رہے ہیں ۔ اس کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے ؟ جرنیل اور حکمران تو اپنے ایئرکنڈیشنڈ گھروں میں آرام فرما رہے ہیں یا پھر دوسرے ممالک کی سیر و سیاحت کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔

جون کے آخری ہفتہ میں پاکستان کے ایک سابق سفیر ایاز وزیر نے قبائلی علاقہ پر طاقت کے استعمال کی پُرزور مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مقامی جرگہ سسٹم بحال کیا جائے اور مشاورت سے تنازعات حل کئے جائیں ۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ آج تک حکومت نے قبائلی علاقہ میں کوئی ترقیاتی عمل نہیں کیا ۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ طالبان نام کی کوئی تحریک وزیرستان میں نہیں ہے اور اگر ہے تو پھر ڈاکٹر بھی طالبان ہے انجنیئر بھی طالبان ہے میں بھی طالبان ہوں اور آپ بھی طالبان ہیں ۔

اُنہی دنوں میں خیبر ایجنسی کے پولٹیکل ایجنٹ جو کہ سرکاری ملازم ہوتا ہے نے کہا کہ جمرود کے علاقہ میں لڑائی ہو یا قبائلی اور پُرامن شہری علاقوں میں دھماکے ہیروئین کے بادشاہ کرواتے ہیں ان کا وزیرستان یا سو ات سے کوئی تعلق نہیں ۔ اُس نے مزید کہا کہ اس بدامنی سے فائدہ اُٹھا کر افغانستان میں تیار ہونے والی ہیروئین کی پاکستان کے راستے دوسرے مُلکوں کو ترسیل ممکن بنائی جاتی ہے ۔

طالبان اور پاکستان قسط5 ۔ ہیروئین کا کاروبار

میں 13 دسمبر 2005ء کو لکھ چکا ہوں کہ بیسویں صدی میں پوست کے پودے سے یورپی سائنسدانوں نے ہیروئین بنائی اور اس کے کارخانے افغانستان کے دشوار گذار پہاڑی علاقوں میں لگائے ۔ اِن کارخانوں کی معمل [laboratories] یورپی ممالک سے بن کر آئے تھے ۔ مزید یہ کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ جب افغانستان پر مُلا عمر کا حُکم چلتا تھا تو ہیروئین کی افغانستان میں پیداوار صفر ہو گئی تھی ۔

چند ماہ سے امریکا اور اُس کے حواریوں کا شور و غُوغا ہے کہ طالبان ہیروئین کا وسیع پیمانے پر کاروبار کر رہے ہیں اور اس کی کمائی سے اسلحہ خریدتے ہیں ۔ اس کی سچائی ناپنے کیلئے افغانستان میں اُس علاقہ جس پر طالبان کا کنٹرول ہے کا مطالعہ ضروری ہے ۔ طالبان کا علاقہ پورے افغانستان کے 20 فیصد سے بھی کم ہے اور اس کی چوڑائی بہت کم ہے ۔ یہ تین اطراف سے امریکا اور اُس کی اتحادی افواج کے گھیرے میں ہے ۔ چوتھی طرف وطنِ عزیز کے حکمرانوں نے امریکا کی تابعداری میں فوجی چوکیاں بنا رکھی ہیں جن پر بھاری نفری تعینات ہے ۔ امریکی سیٹیلائٹ کے علاوہ امریکا کے ہیلی کاپٹر اور بغیر پائلٹ کے ہوائی جہاز طالبان کے علاقہ پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ مزید آئے دن طالبان کے ٹھکانوں یا گھروں پر میزائل اور بم پھینکے جاتے ہیں جس سے بوڑھے ۔ جوان ۔ بچے ۔ عورتیں ۔ بچیاں ہلاک ہوتے رہتے ہیں ۔

امریکا کا دعوٰی ہے کہ امریکا سیٹیلائیٹ اور بغیر پائلٹ کے جاسوس طیاروں کی مدد سے زمین پر پڑی ٹیبل ٹینس کی گیند دیکھ لیتا ہے اور کنکریٹ کے بنکر کے اندر پڑی اشیاء بھی اُسے نظر آ جاتی ہیں ۔ عراق کے ایک گنجان آباد شہر میں ایک مکان کے اندر پڑی ہوئی وڈیو کیسٹ بھی نظر آ گئی تھی جس میں اوسامہ بن لادن نے ورڈ ٹریڈ سینٹر کو گرانے کا اقبالِ جُرم کیا ہوا تھا (وِڈیو کیسٹ والی بات امریکہ کا سفید جھوٹ تھی کیونکہ امریکہ نے طالبان کے خلاف رائے عامہ بنانا تھی) ۔ اتنی زبردست ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ طالبان کے علاقہ میں امریکا کو ہیروئین کی لیباریٹریاں نظر نہیں آتیں ؟ تا کہ وہ اُنہیں تباہ کر سکے ۔

امریکی اداروں کا ہی دعوٰی ہے کہ دنیا میں ہیروئین کی کُل پیداواری مقدار کا 70 فیصد سے زائد افغانستان میں تیار ہو رہی ہے ۔ ہیروئین کی اتنی بڑی مقدار پیدا کرنے کیلئے پوست کے کھیت تو مِیلوں میں پھیلے ہوئے ہونا چاہئیں ۔ امریکا کو اپنی اعلٰی ٹیکنالوجی کی آنکھ سے پوست کے اتنے وسیع کھیت کیوں نظر نہیں آتے ؟ جبکہ گوگل ارتھ کی مدد سے مجھے اسلام آباد میں اپنے گھر کی چھت پر بنی 6 فُٹ چوڑی اور 7 فُٹ لمبی پانی کی ٹینکی بھی صاف نظر آ جاتی ہے ۔

یہ بھی کیونکر ممکن ہے کہ امریکا افغانستان میں چاروں طرف سے دشمنوں میں گھِرے ہوئے طالبان کو پوست کی کاشت کرنے سے روک نہیں سکتا ؟ کیا پوست بونا ۔ فصل کا تیار ہونا اور کاٹنا اتنے کم وقت میں ہوتا ہے کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چلتا ؟ اور کیا پوست کی اتنی بڑی مقدار کی کھیت سے لیبارٹری تک نقل و حمل اُسے انرجی میں تبدیل کر کے فائبر آپٹکس کے ذریعہ کی جاتی ہے اور دوسرے سرے پر اُسے واپس پوست بنا لیا جاتا ہے کہ پوست کی اتنی بڑی مقدار کسی کو نظر ہی نہیں آتی ؟

متذکرہ بالا صورتِ حال سے تو یہ تآثر اُبھرتا ہے کہ ہیروئین کے کاروبار میں امریکی حکومت کے چہیتے ملوث ہیں اور پوست کی کاشت امریکا کے زیرِ اثر علاقہ میں ہوتی ہے اور ہیروئین بنانے کی لیبارٹریاں بھی امریکا کے زیرِ اثر علاقہ میں ہیں ۔ رہا پروپیگنڈہ کہ طالبان وسیع پیمانے پر ہیروئین بنا رہے ہیں اور اس کی کمائی سے دہشتگردی کر رہے ہیں ۔ یہ امریکا کی اپنے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی مذموم بھیانک کوشش ہے

طالبان اور پاکستان قسط 4 ۔ جنہیں طالبان کا نام دیا گیا

امریکا جو کہ پسِ پردہ سوویٹ فوجوں کے خلاف افغان مجاہدین کی مدد کر رہا تھا کو اُس وقت پریشانی لاحق ہوئی جب اسلامی حکومت قائم کرنے کا نعرہ بلند کرنے والے افغان مجاہدین بظاہر کامیاب نظر آنے لگے ۔ اس وقت امریکا نے یکدم ہاتھ کھینچ لیا کہ کہیں مسلمانوں کی ایک اور حکومت قائم نہ ہو جائے ۔ 10 اپریل 1988ء کو ہونے والا مشہور اوجڑی کیمپ راولپنڈی کا حادثہ جس میں مسلم لیگ نواز کے لیڈر اور منیجنگ ڈائریکٹر ایئر بلیو شاہد خاقان عباسی کے والد محمد خاقان عباسی سمیت بہت سے پاکستانی شہری ہلاک ہوئے امریکہ کی مہربانی کا نتیجہ تھا کیونکہ پنٹیگون نے افغان مجاہدین کی امداد بند کرنے کا حُکمنامہ جاری کر دیا تھا مگر بغیر وار ہیڈ کے دُور مار کرنے والے راکٹ لے کر امریکا کے 2 سی130 پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہو چکے تھے ۔

امریکا نے اُس وقت بھی خیبر ایجنسی کے مقام جمرود میں دو گروہوں کی لڑائی کا بہانہ بنا کر جنرل ضیاء الحق کو مجبور کیا کہ یہ راکٹ راولپنڈی ہی میں کہیں رکھ دیئے جائیں اور بتایا کہ راکٹ بغیر وار ہیڈ کے ہیں اسلئے ان سے کوئی خطرہ نہیں ۔ کوئی اور جگہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ راکٹ اوجڑی کیمپ کی متروکہ بیرکوں میں وقتی طور پر رکھ دیئے گئے ۔ پھر کسی طرح سے اس راکٹس کے انبار میں دھماکہ کیا گیا جس سے وہ راکٹ یکے بعد دیگرے ہوائیاں بن کر اِدھر اُدھر اُڑنے لگے ۔ خیال رہے کہ اوجڑی کیمپ اُس وقت کئی سال سے خالی پڑا تھا اور بیروکوں کے اندر کوئی ایسی چیز نہ تھی جو آگ لگنے یا دھماکہ کا سبب بنتی ۔ البتہ ذرائع ابلاغ میں یہ خبر آئی تھی کہ بعد ميں رات کے پچھلے پہر امریکا کا ایک ہوائی جہاز بغیر شیڈول کے پہنچا تھا جس سے کچھ اسلحہ رات کی تاریکی ہی میں اوجڑی کیمپ پہنچایا گیا تھا ۔ اُس رات کے اگلے دن ہی دس بجے کے قریب اوجڑی کیمپ میں دھماکا ہوا تھا ۔

دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی دھمک میں نے اوجڑی کیمپ سے 40 کلو میٹر دُور واہ چھاونی میں اپنے دفتر میں بیٹھے محسوس کی تھی ۔ ہلاکتیں اور دوسرا نقصان ان راکٹوں کے براہِ راست ٹکرانے سے ہوا تھا کیونکہ وار ہیڈ ساتھ لگے نہ ہونے کی وجہ سے آگ لگنے پر راکٹ صرف اُڑ سکتے تھے پھٹ نہیں سکتے تھے یا اگر راکٹ کسی شعلہ آور شئے کے پاس گرا اور علاقہ میں آگ لگ گئی ۔ ایک راکٹ سٹیلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں ہمارے گھر میں بھی گرا تھا اور برآمدے میں لگی چِخوں اور لکڑی کے چوکھٹوں کو آگ لگ گئی تھی ۔ ہمارا گھر اوجڑی کیمپ سے 2 کلو میٹر کے ہوائی فاصلہ پر تھا ۔ اُس وقت کے وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کو اس سانحہ کی حقیقت کی کچھ سُدھ بُدھ ہو گئی تھی جس کے نتیجہ میں اُن کی حکومت توڑ دی گئی تھی حالانکہ یہ حکومت خود جنرل ضیاء الحق نے بنائی تھی اور محمد خان جونیجو کو بھی خود جنرل ضیاء الحق نے چُنا تھا ۔

اسی پر بس نہ ہوا بلکہ افغان مُسلم سلطنت کو بننے سے روکنے کیلئے امریکہ نے افغانیوں کے مختلف گروہوں کو آپس میں لڑانے کی منصوبہ بندی کی ۔ پہلے ڈالر سے متحارب گروہ پیدا کئے اور پھر اسلحہ اور ڈالر سے ان کی پُشت پناہی کی ۔ امریکہ کی پشت پناہی سے شروع کی گئی خانہ جنگی میں 1994ء تک افغانستان میں افغانیوں کیلئے حالات اتنے بگڑ گئے کہ لوٹ مار ۔ اغواء اور زنا روزانہ کا معمول بن گیا ۔ ایسے میں ایک بوڑھی عورت نے ایک گاؤں میں مسجد کے امام اور دینی اُستاد مُلا عمر کو اپنی بپتا سُنا کر جھنجوڑ دیا ۔ اُس نے اپنے پاس کھڑے شاگردوں کی طرف دیکھا جنہوں نے ہاں میں سر ہلایا اور مُلا عمر اپنے آٹھ دس شاگردوں کے ہمراہ بوڑھی عورت سے یہ کہتا ہوا مسجد سے نکل گیا ”مُلا عمر اُس وقت تک واپس نہیں آئے گا جب تک تمہاری جوان بیٹیوں پر ہونے والے ظُلم کا بدلا نہ لے لے“۔ یہ ایک نئے جہاد کا آغاز تھا جو صرف سولہ سترہ افغانیوں نے شروع کیا اور بڑی تیزی سے بڑھتا گیا ۔ عام لوگ لوٹ مار اور ظُلم سے تنگ آ چکے تھے ۔ وہ جوق در جوق مُلا عمر کے جھنڈے تلے جمع ہوتے گئے اور بہت کم مدت میں افغانستان کے 85 فیصد سے زائد علاقے پر مُلا عمر کی حُکمرانی ہو گئی ۔ افغانستان جہاں کسی کا مال محفوظ رہا تھا نہ کسی عورت کی عصمت وہاں اللہ کے فضل سے یہ حال ہوا کہ عورت ہو یا مرد دن ہو یا رات مُلا عمر کے زیرِ اثر افغانستان میں بلا خوف و خطر سفر کرتا تھا ۔ اس زمانہ میں اسلام آباد کے کچھ لوگ افغانستان کی سیر کر کے آئے تھے اور مُلا عمر کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے تھے ۔

مُلا عمر کا قائم کردہ امن و امان امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھایا اور ایک بار پھر کچھ دولت پرست افغانیوں کو ڈالروں سے مالا مال کرنے کے بعد زر خرید جنگجوؤں کو شمالی افغانستان میں مُلا عمر کے خلاف لڑایا ۔ دوسری طرف مُلا عمر سے مذاکرات جاری کئے کہ جھیل کیسپین کے ارد گرد ممالک سے آنے والی معدنیات کی ترسیل کے افغانستان والے حصہ کا ٹھیکہ امریکی کمپنی کو دیا جائے ۔ امریکی کمپنی کے مقابلہ میں ارجنٹائینی کمپنی کی پیشکش زیادہ مفید ہونے کے باعث ٹھیکہ ارجنٹائنی کمپنی کو دے دیا گیا ۔ اس پر مذاکراتی ٹیم نے مُلا عمر کو بُرے نتائج کی دھمکی دی اور امریکی ٹیم کے واپس جاتے ہی امریکہ نے افغانستان پر حملہ کی منصوبہ بندی کر لی ۔ یہ جون جولائی 2001ء کا واقعہ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس مذاکراتی ٹیم میں ایف بی آئی کے لوگ شامل تھے ۔

امریکہ نے باقی دُنیا کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے نیویارک کے ورڈ ٹریڈ سینٹر کو تباہ کرنے کا منصوبہ بڑی کامیابی کے ساتھ انجام تک پہنچایا اور اس کا الزام نام نہاد القاعدہ پر لگا کر اُسامہ بن لادن کو القاعدہ کا سربراہ قرار دیا ۔ یہاں یہ بنا دوں کہ امریکا نے اُسامہ کا اُن 2000 کے قریب گوریلہ جنگجوؤں کا سالار بننا قبول کيا تھا جنہیں امریکہ نے تربیت دی تھی ۔ لیکن اُسامہ کے مطالبہ پر کہ امریکا عرب دنیا سے چلا جائے امریکا اوسامہ کا دشمن ہو گیا تھا اور اُسے دہشتگرد قرار دے دیا تھا ۔

امریکا نے افغانوں کی رسم کہ ان کے ہاں دُشمن بھی پناہ لے لے تو وہ اُس کے محافظ کا کردار ادا کرتے ہیں سے استفادہ کرتے ہوئے اُسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا جس پر انکار ہونا ہی تھا ۔ چنانچہ افغانستان پر امریکا اور اُس کے اتحادیوں نے 7 اکتوبر 2001ء کو بھرپور حملہ کر دیا ۔ یہ دنیا کے بدترین ظُلم ۔ قتل و غارتگری کی مثال تھا جو اب تک جاری ہے ۔ امریکا بدترین دہشتگردی کرتے ہوئے اپنا دفاع کرنے والوں کو دہشتگرد قرار دیتا ہے ۔ ذرا سا غور کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام کے نام لیواؤں کو ختم کرنے کیلئے یہ دوسرا مگر بہت بڑا اور دہشتناک کروسیڈ ہے ۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی نام نہاد مسلمان حکمران صرف اپنی کُرسی بچانے کیلئے اس قتل و غارتگری میں امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں یا اُس کے خلاف آواز اُٹھانے سے ڈرتے ہیں ۔ نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کا تاریک ترین پہلو پرویز مشرف کا کردار ہے جس نے امریکا کے اس بیہیمانہ قتلِ عام میں پاکستانی قوم کی خواہش کے خلاف نہ صرف تعاون کیا بلکہ پاکستان کی سرزمین امریکا کو اس مُسلم کُش جنگ میں استعمال کرنے کی کھُلی چھُٹی دے دی ۔ اور آج تک پرویز مشرف امریکی حکومت کے ہاتھ میں کھلونا بنا ہوا ہے ۔ پاکستان کی سر زمین پر تاحال امریکی فوجی موجود ہیں ۔ پاکستان کے دورہ پر آئے ہوئے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ رچرڈ باؤچر نے یکم جولائی 2008ء کو اس کا اقرار کیا ۔ پرویز مشرف قوم کے سامنے متواتر جھوٹ بولتا رہا ہے ۔ اندیشہ کیا جا رہا ہے کہ خدانخواستہ موجودہ حکمران آصف زرداری بھی امریکا کے ہاتھ میں کھیل رہا ہے ۔

طالبان اور پاکستان قسط 3 ۔ افغان جہاد

ظاہر شاہ یورپ کی سیر پر تھا جب 17 جولائی 1973ء کو محمد داؤد خان نے اس کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور افغانستان کو جمہوریہ قرار دے کر خود صدر بن گیا ۔ دو تین سال بعد داؤد خان نے نئے آئین کا اعلان کیا جس میں عورتوں کے حقوق بھی شامل تھے ۔ لباس میں اُس نے یورپ کی تقلید بھی شروع کی ۔ تاثر یہی تھا کہ داؤد خان روس نواز ہے لیکن 1977ء کے آخر یا 1978ء کے شروع میں داؤد خان نے اپنے غیرمُلکی دورے کے دوران ایک تقریر میں اسلامی سلطنت کا ذکر کر کے دنیا کو حیران کر دیا ۔ میں اُن دنوں لیبیا میں تھا ۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا تھا “اب اس کی خیریت نہیں”۔ پسِ منظر اُس وقت کے افغانستان میں حالات تھے ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ سوویٹ یونین ہو یا امریکہ جب بھی انہیں کوئی اپنے ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوا وہ کم ہی زندہ بچا ۔

روس افغانستان میں متواتر درپردہ کاروائیاں کرتا آ رہا تھا اور 1965ء میں زیرِ زمین ایک افغان کمیونسٹ پارٹی تشکیل دی تھی جن کے بنیادی ارکان میں ببرک کارمل بھی شامل تھا ۔ اس پارٹی نے ظاہر شاہ کی حکومت کا تختہ اُلٹنے میں داؤد خان کی مدد کی تھی ۔
جولائی 1973ء میں محمد داؤد کے افغانستان کا حکمران بن جانے پر ببر کامل پر واضح ہوا کہ محمد داؤد کیمیونسٹ ایجنڈے پر نہیں چلے گا تو اُس نے محمد داؤد کے خلاف کاروائی کیلئے زیرِ زمین جنگجو اکٹھے کرنا شروع کر دیئے ۔ چنانچہ 1975ء میں ببرک کارمل کے جنگجوؤں نے (جنہیں اسلامی کا نام دیا گیا تھا) محمد داؤد کی حکومت ختم کرنے کی کوشش کی مگر یہ سازش کامیاب نہ ہوئی

محمد داؤد خان کے مُلک میں واپس آنے کے کچھ عرصہ بعد 1978ء میں کمیونسٹ پارٹی جو خفیہ طور پر پرورش پا چکی تھی اور زرخرید افغان فوجیوں کی خاصی تعداد اپنے ساتھ ملا چکی تھی نے شب خون مار کر حکومت پر قبضہ کر لیا ۔ داؤد خان اور اس کے بہت سے ساتھی مارے گئے ۔ تریکی کو صدر اور کارمل کو وزیرِاعظم بنا دیا گیا ۔ بے شمار افغانوں کو گرفتار کر کے اذیتیں دی گئیں ۔ افغانستان کا جھنڈا بدل دیا گیا ۔ تریکی نے سویٹ یونین کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا ۔

خیال رہے کہ جون 2008ء میں افغانستان میں اتفاقیہ طور پر دو اجتمائی قبریں ملی ہیں جن میں سے ایک میں 16 اور دوسری میں 12 انسان دفن کئے گئے تھے ۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لاشیں محمد داؤد خان ۔ اُس کے رشتہ داروں اور ساتھیوں کی ہیں ۔

سویٹ یونین نے سمجھا کہ ان کا مدعا پورا ہو گیا لیکن وہ افغانوں کو سمجھ نہ سکے تھے ۔ اُن کی اس یلغار اور بیہیمانہ قتل و غارت نے افغان گوریلا جنگ کو جنم دیا جو جون 1978ء میں شروع ہوئی اور پہلی بار افغانوں نے اپنی جدوجہد آزادی میں شامل لوگوں کو مجاہدین کا نام دیا ۔ یہ جنگ افغانستان پر قابض ہر غیر مُلکی استبداد کے خلاف تھی ۔ دسمبر 1979ء میں سوویٹ یونین کی باقاعدہ فوج افغانستان میں داخل ہو گئی اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری شروع کی ۔ حکمران پر حکمران قتل ہوتے رہے ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مجاہدین کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور حملوں میں بھی شدت آتی گئی ۔ ہوتے ہوتے پورا افغانستان میدانِ کارزار بن گیا ۔ اور سوویٹ فوجوں کو بھاری نقصان پہنچتا رہا ۔

جب افغان مجاہدین سوویٹ یونین اور اس کی کٹھ پُتلی حکومت کے خلاف خاصی کامیابی حاصل کرنے لگ گئے تو باوجود اس کے کہ مجاہدین کے شروع کے حملوں ہی میں امریکی سفیر بھی مارا گیا تھا اپنے دیرینہ حریف سوویٹ یونین کو نیچا دکھانے اور وسط ایشیا کے معدنی وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے امریکا نے پاکستان کی فوجی حکومت کے ذریعہ افغانوں کو اسلحہ فراہم کیا اور جہاد کے نام پر مختلف ممالک سے 2000 کے قریب لوگ بھرتی کر کے اُنہیں گوریلا جنگ کی تربیت دے کر افغانستان بھجوایا ۔ ان لوگوں ميں چونکہ زيادہ تر عرب تھے سو انہوں نے اُسامہ بِن لادن کو اپنا کمانڈر بنا ليا

آخر کار سوویٹ یونین کو شکست ہوئی اور فروری 1989ء تک سوویٹ فوجیں افغانستان سے نکل گئیں ۔ کہا جاتا ہے افغانستان کی اس جنگ میں 50000 سے زائد سوویٹ فوجی مارے گئے ۔

طالبان اور پاکستان ۔ پیش لفظ

مجھے 23 جون 2008ء کو محمد سعد صاحب کا مندرجہ ذیل برقیہ ملا
میں افغانستان اور طالبان کے ماضی ۔ ان کی خوبیوں اور خامیوں کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں ۔ اس کے علاوہ یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ آج کل طالبان پر جو الزامات لگائے جاتے ہیں وہ کہاں تک درست ہیں ۔ اور اگر درست نہیں تو ان کی حقیقت کیا ہے ۔ کیا آپ میری کچھ رہنمائی کر سکیں گے؟ اگر اس سلسلے میں بلاگ پر ایک تحریر ہو سکے تو اور بھی اچھا ہے کہ کئی دوسرے لوگ بھی پڑھ لیں گے ۔ آپ کو تنگ کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس کی کہ میں نے سوچا کہ آپ کو ایسی بہت سی باتیں معلوم یا یاد ہونگی جو آج کل مغربی میڈیا کی مہربانیوں سے پسِ منظر چلی گئی ہیں ۔ امید ہے کہ آپ برا نہیں مانیں گے

محمد سعد صاحب کا شکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے مجھے اس قابل سمجھا گو مطالبہ ایک کتاب لکھنے کا کر دیا گیا ۔ میں انتہائی اختصار کے ساتھ صرف اُن لوگوں کے پسِ منظر اور کردار کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کروں گا جن کو طالبان کا نام دیا گیا ہے ۔ لیکن پھر بھی ایک نشست میں سب لکھنا نہ صرف میرے لئے مشکل ہو گا کیونکہ ذاتی مجبوری کے تحت میں زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتا بلکہ قارئین پر بھی اسے یکمُشت پڑھنا گراں گذرنے کا اندیشہ ہے ۔

کسی زمانہ میں موجودہ پورا افغانستان ۔ ایران کا جنوبی حصہ پاکستا ن کا صوبہ سرحد ۔ ریاست جموں کشمیر مع شمالی علاقہ جات اور پورا پنجاب دہلی سمیت ایک مسلم سلطنت ہوا کرتی تھی لیکن مسلسل غیرملکی سازشوں اور اندرونی ناچاقی نے اس عظیم سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیا

دیگر جنوب مشرقی افغانستان اور شمال مغربی پاکستان میں رہنے والے لوگوں کی تاریخ ایک مسلسل جدوجہد کی داستان ہے ۔ ان لوگوں نے کبھی جبر کی حکمرانی کو نہیں مانا ۔ وسائل کم ہونے کی وجہ سے یہ لوگ مالدار نہیں ہوتے لیکن بڑے دل کے مالک ہوتے ہیں ۔ زرک خان اور اِیپی فقیر اسی علاقہ میں پیدا ہوئے جنہوں نے انگریزوں کو سالہا سال تگنی کا ناچ نچائے رکھا اور ان دونوں کو ان کی انسان دوست عادت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دھوکہ دہی سے گرفتار کیا گیا ۔

فی زمانہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں قدیم زمانہ سے جس پودے کی کاشت انسانی صحت کیلئے مفید بیج خشخاش یا خشخش حاصل کرنے کیلئے کی جاتی تھی ۔ انگریز سائنسدانوں نے اس پودے سے نشہ آور جنس افیون بنانے کی ترکیب ایجاد کی جس کے متعلق میں 13 دسمبر 2005ء کو لکھ چکا ہوں جس کا مختصر خُلاصہ یہ ہے :
”اٹھارہویں صدی میں سبز چائے نے انگریزوں کے بنیادی مشروب ایل یا آلے کی جگہ لے لی ۔ انیسویں صدی کے شروع تک سالانہ 15000 مِٹرک ٹن چائے چین سے انگلستان درآمد ہونا شروع ہو چکی تھی ۔ انگریز حکمرانوں کو خیال آیا کہ چین تو ہم سے بہت کم چیزیں خریدتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں نقصان ہو رہا ہے ۔ انہوں نے افیون دریافت کی اور چینیوں کو افیون کی عادت ڈالی جو کہ چائے کے مقابلہ میں بہت مہنگی بھی تھی ۔ پوست کی کاشت چونکہ ہندوستان میں ہوتی تھی اس لئے ہندوستان ہی میں افیون کی تیاری شروع کی گئی ۔ یہ سازش کامیاب ہو گئی ۔ اس طرح انگریزوں نے اپنے نقصان کو فائدہ میں بدل دیا ۔ انگریزوں کی اس چال کے باعث چینی قوم افیمچی بن گئی اور تباہی کے قریب پہنچ گئی“ ۔

بیسویں صدی میں پوست کے اسی پودے سے یورپی سائنسدانوں نے ہیروئین بنائی اور اس کے کارخانے افغانستان کے دشوار گذار پہاڑی علاقوں میں لگائے ۔ اِن کارخانوں کی معمل [laboratories] یورپی ممالک سے بن کر آئی تھیں ۔ یہ کاروائی دراصل اس علاقے کے صحتمند لوگوں کے خلاف ایک سازش تھی جس طرح کہ چینیوں کے خلاف سازش کی گئی تھی لیکن اللہ کا کرنا کیا ہوا کہ خطرناک نشہ آور مادہ کی مقامی منڈی میں کوئی خاص مانگ نہ ہوئی اور اس کی ترسیل یورپ اور امریکہ کی طرف ہونے لگی ۔ جب امریکہ کو اس خطرہ کا احساس ہوا تو اُنہوں نے پوست کی کاشت پر بین الاقوامی طور پر پابندی لگانے کی مہم شروع کر دی ۔ جس کے نتیجہ میں اس علاقہ کے لوگ ایک سستے اور آسان نُسخہِ صحت خشخاش سے محروم ہو گئے ۔ لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ جب افغانستان پر مُلا عمر کا حُکم چلتا تھا تو ہیروئین کی افغانستان میں پیداوار صفر ہو گئی تھی اور اب جبکہ وہاں امریکا کا حُکم چلتا ہے دنیا میں ہیروئین کی کُل پیداواری مقدار کا 70 فیصد سے زائد افغانستان میں تیار ہو رہی ہے ۔

سوال کا جواب ۔ دوسرا سوال اور ہماری باتیں

گلاس ایک خوبصورت اور لذیز پھل ہے جو جموں کشمیر ۔ شمالی علاقہ جات اور بلوچستان میں پایا جاتا ہے ۔ یہ کالے اور سُرخ رنگ میں ہوتا ہے ۔ کالا میٹھا ہوتا ہے اور سُرخ تُرش یا تُرشی مائل میٹھا ۔ اس پھل کو انگریزی میں چَیری [cherry] کہتے ہیں

دوسرا سوال یہ ہے کہ چکودرا کِسے کہتے ہیں ؟

ہموطنوں کی حالت یہ ہے کہ انگریزی سیکھتے سیکھتے اُردو سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور صحیح انگریزی بولنا یا لکھنا ابھی بھی ان سے بہت دُور ہے ۔ اکثریت کو اپنی زبان بھَونڈی لگتی ہے ۔ جو لفظ وہ اُردو میں بولنا بھونڈا سمجھتے ہیں اُس کا انگریزی ترجمہ فخریہ بولتے ہیں

ہماری قوم اتنی صُلح پسند ہے کہ تایا ۔ چچا ۔ پھُوپھا ۔ ماموں ۔ خالو سب کو ایک گھاٹ پانی پلا دیا ہے یعنی سب اَنکَل بنا دیئے ہیں ۔ اِن بزرگان کی خواتین کو آنٹی بنا کر خواتین میں بھی مساوات قائم کی گئی ہے ۔ یہی سلوک اِن اَنکلان یا آنٹیوں کی اولاد کے ساتھ کچھ بڑھ کر ہی برتا گیا ہے تاکہ ثابت ہو جائے کہ کم از کم نئی نسل میں عورت اور مرد سب برابر ہیں یعنی لڑکا ہو یا لڑکی سب کزن ۔ جس کِسی سے ان میں سے کسی کا تعارف کروایا جاتا ہے وہ بیچارہ یا بیچاری سوچتی ہی رہ جاتی ہے کہ موصوف دراصل ہیں کون ؟

مزید یہ کہ انگریزی زبان کو ترقی کی نشانی سمجھا جاتا ہے ۔ جیسے کسی نے کہا تھا کہ انگریزوں کی ترقی کے کیا کہنے ۔ اُن کا بچہ بچہ انگریزی بولتا ہے ۔ جن شعبوں میں ترقی ہونا ضروری ہے وہاں تو قوم تنزّل کا شکار ہے لیکن ایک لحاظ سے کافی ترقی کر لی ہے ۔ ملاحظہ ہو بتدریج ترقی

بیت الخلاء اور غسلخانہ یا حمام کو پہلے ٹائیلٹ [toilet] کہنا شروع کیا پھر باتھ روم [bathroom] اور اب واش روم [wash room] کہا جاتا ہے ۔ مزید ترقی کی گنجائش ہے کیونکہ امریکہ میں بیت الخلاء کو ریسٹ روم [rest room] کہا جاتا ہے ۔ ہو سکتا ہے سارے دن کی تھکی امریکی قوم بیت الخلاء میں آرام محسوس کرتی ہو

افسوسناک اعداد و شُمار

اصل تو اللہ بہتر جانا تا ہے ۔ سرکاری تحریر شُدہ اعداد و شمار یہ ہیں

علاقہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بدکاری کا نشانہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجتماعی بدکاری کا نشانہ
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1996 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 260
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 1509 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 233
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 170 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 27
سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 152
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 33
اسلام آباد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 76
شمالی علاقے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 20
آزاد جموں کشمیر ۔ ۔ ۔ 36

جنوری سے مارچ 2008ء کی صورتِ حال یہ ہے
علاقہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بدکاری کا نشانہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اجتماعی بدکاری کا نشانہ
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 428 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 330 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 28
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 32 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 14
سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 25
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3
اسلام آباد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 27
شمالی علاقے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2
آزاد جموں کشمیر ۔ ۔ ۔ 9

اغواء
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2007ء میں ۔ ۔ ۔ جنوری سے مارچ 2008ء
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2600 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 140
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 1998 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 47
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 391 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 57
سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 112 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ 5
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 41
اسلام آباد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ 8
شمالی علاقے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2
آزاد جموں کشمیر ۔ ۔ 50 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 1

گاڑیاں جو چھِینی یا چوری کی گئیں
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2007ء میں ۔ ۔ ۔ جنوری سے مارچ 2008ء
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 23144 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6229
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 13527 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3210
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 7562 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2453
سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 729 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 160
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 614 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 170
اسلام آباد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 537 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 179
شمالی علاقے ۔ ۔ ۔۔ 24 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8
آزاد جموں کشمیر ۔ ۔ 134 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 43

خُود کُشیاں 2007ء میں
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 232
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 8
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 199
سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 24
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0
اسلام آباد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0
شمالی علاقے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 0
آزاد جموں کشمیر ۔ ۔ 1

قتل
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2007ء میں ۔ ۔ ۔ جنوری سے مارچ 2008ء
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 10556 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2540
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 5083 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ 1170
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2277 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 612
سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2627 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ 588
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 399 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 109
اسلام آباد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 100 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 27
شمالی علاقے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 59 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5
آزاد جموں کشمیر ۔ ۔ 104 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 26

ٹریفک حادثات میں اموات
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2007ء میں ۔ ۔ ۔ جنوری سے مارچ 2008ء
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5485 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔1097
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 3288 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔645
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 930 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔187
سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 740 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 165
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 230 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 47
اسلام آباد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 121 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔28
شمالی علاقے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 40 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8
آزاد جموں کشمیر ۔ ۔ 133 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔17

بینک لوٹے گئے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2007ء میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنوری سے مارچ 2008ء میں
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 37 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 15 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 20 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6
سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1
شمالی علاقے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1

پٹرول پمپ لوٹے گئے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2007ء میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنوری سے مارچ 2008ء میں
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 79 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 28
پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ 37 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8
سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 41 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 20
بلوچستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1

سڑکوں پر ڈکیتی اور دوسرے جرائم
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2007ء میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنوری سے مارچ 2008ء میں
پورا پاکستان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 292962 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 76974

یہ اعداد و شمار دی نیوز میں چھپنے والی ایک رپورٹ سے لئے گئے