کسی بھی مُلک ۔ قوم یا تحریک کو صحیح خطوط پر چلانے میں ذرائع ابلاغ اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ اِس کیلئے خلوص اور بے لوث خدمت لازمی ہوتی ہے اور ذرائع ابلاغ کا غلط کردار مُلک یا قوم کو تباہی کے کھڈ کے کنارے پہنچا دیتا ہے ۔
آجکل چار ذرائع ابلاغ ہیں ۔ 1 ۔ اخبار ۔ رسالے اور کتابیں ۔ 2 ۔ ریڈیو ۔ 3 ۔ ٹی وی 4 ۔ انٹرنیٹ ۔
تحقیق بتاتی ہے کہ
صرف آنکھوں سے دیکھی ہوئی چیز یعنی پہلی قسم کا 10 فیصد دماغ میں محفوظ ہوتا ہے ۔
سُنی ہوئی بات یعنی دوسری قسم کا 20 فیصد یاد رہتا ہے ۔
جو سنا جائے اور دیکھا بھی جائے یعنی تیسری قسم کا 30 فیصد یاد رہتا
چوتھی قسم یعنی انٹرنیٹ جدید اور اچھوتا ہونے کے باعث انسان اسے زیادہ انہماک سے دیکھتا۔ پڑھتا ۔ سُنتا ہے دیگر جو کچھ بھی ہو وہ چونکہ انٹر نیٹ پر موجود رہتا ہے اور بار بار دیکھا نہ جائے تو بھی دل کو تسلی ہوتی ہے کہ کسی وقت دیکھا جا سکتا ہے سو ماہرین بتاتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر لکھے گئے یا دکھائے گئے کا 50 فیصد انسان کے ذہن میں رہتا ہے ۔
ان تمام ذرائع میں سے زیادہ تر پر ایک خاص قسم کے لوگوں کا قبضہ ہے جن کو صرف دولت جمع کرنے سے غرض ہے ۔ وہ اپنا اُلو سیدھا رکھتے ہیں اور ہر طرح سے مال کماتے ہیں ۔ کسی کی جان جائے اُن کی بلا سے ۔ کوئی شہر اُجڑے اُنہیں کیا ۔ کوئی قوم تباہ ہو اُنہیں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ چنانچہ مالدار اور طاقتور آج کی دنیا میں سچا ثابت کیا جاتا ہے اور سچے عام آدمی کو جھوٹا ۔
ذرائع ابلاغ دن کو رات اور اندھیرے کو اُجالا ثابت کرنے کا کمال رکھتے ہیں ۔
جارج واشنگٹن اپنے وطن کیلئے غیرمُلکی قابضوں سے لڑا اور اُسے دہشتگرد قرار دیا گیا پھر وہی جارج واشنگٹن آزاد امریکہ کا پہلا صدر بنا تو دہشتگرد قرار دینے کی وجہ بننے والے کردار ہی کے باعث ہیرو بنا دیا گیا ۔
نیلسن منڈیلا اپنے وطن اور قوم کیلئے غیرمُلکی قابضوں سے لڑا اور اُسے دہشتگرد قرار دے کر 25 سال قید میں رکھا گیا گیا ۔ پھر وہی نیلسن منڈیلا اپنے مُلک کا صدر بن گیا اور اُسے دہشتگرد قرار دینے والوں نے ہی اُسی جدوجہد کی بنا پر جس کی وجہ سے 25 سال قید کاٹی تھی نوبل کا امن انعام دیا ۔
سن 1965ء کی جنگ میں جب بھارتی فوجوں نے اچانک پاکستان پر یلغار کی تو ذرائع ابلاغ ہی تھے جنہوں نے عوام کو یقین دِلانے کی کوشش کی کہ پاکستان کے فوجی اپنے سینوں سے بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے اور مُلک کو بچا لیا ۔ ایک شاعر صاحب نے اس پر ایک نظم بھی داغ دی جو پی ٹی وی پر بجائی جاتی رہی ۔ یہ سب من گھڑت کہانی تھی اور فوج یا حکومت کی طرف سے نہیں پھیلائی گئی تھی ۔ ایک آدھ اخبار میں اس من گھڑت کہانی کی تردید چھپی لیکن جمہوریت کا شور کرنے والے اکثریت کی بات مانتے ہیں چاہے غلط ہو
مندرجہ بالا کے علاوہ کم از کم دو ایسے انفرادی قسم کے واقعات ۔ ایک راولپنڈی میں اور ایک اسلام آباد میں ۔ میری نظروں کے سامنے ہوئے ۔ ہر ایک کے اگلے دن اخبارات میں جو کہانیاں چھپیں اُن کا حقیقت سے رَتی بھر بھی تعلق نہ تھا
یہ بھی ذرائع ابلاغ ہی کا کرشمہ ہے کہ دوسروں کو ان کے گھر میں جا کر ہلاک کرنے والے اور دوسروں کو اُن کے گھروں سے نکال کر اُن کے گھروں پر قبضہ کرنے والے تو جمہوریت پسند اور انسان دوست کہلاتے ہیں اور مظلوموں اور محروموں کو انتہاء پسند اور دہشتگرد قرار دیا جاتا ہے ۔ قبائلی علاقوں کے خلاف جو پروپیگنڈہ پچھلے چھ سات سال سے کیا جا رہا ہے اُس میں حقیقت بہت کم ہے اور غیر مُلکی پروپیگنڈہ کے تحت جھوٹ بہت زیادہ ۔
ذرائع ابلاغ کا کردار اُس زمانہ میں بھی مؤثر رہا جب صرف چند اخبار اور رسالے ہوا کرتے تھے مگر فی زمانہ پوری دنیا کے انسانوں کی اکثریت ذرائع ابلاغ کی پیروکار ہے ۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ ذرائع ابلاغ کی شائع کردہ معلومات کو قرآن شریف کی آیات کا درجہ دیتے ہیں اور کچھ اس سے بھی زیادہ مستند سمجھتے ہیں ۔ حقائق کو ذاتی طور پر جاننے کی بجائے اخبار ۔ ٹی وی ۔ انٹرنیٹ کی نوشت کی بنیاد پر تحقیقی مقالے لکھتے ہیں ۔ کوئی اپنے ذاتی مشاہدے کے مطابق اظہارِ خیال کرے تو اُس کو حوالہ [اخبار یا انٹرنیٹ کا] دینے کا کہا جاتا ہے ۔ کیا اخبار یا انٹرنیٹ والوں کے پاس اللہ کی وحی آتی ہے جو غلط نہیں ہو سکتی ؟
صحافی ۔ مصنف اور شاعر ذرائع ابلاغ کے مائی باپ ہوتے ہیں ۔ پاکستان بننے کے بعد جو لوگ مشہور ہوئے ان کی اکثریت افسانہ نویس ہے یعنی اُنہوں نے دلچسپ کہانی لکھنا ہوتی ہے کہ کتاب ۔ رسالہ یا اخبار زیادہ بِکے اور ان کی جیب میں بھی زیادہ مال جائے ۔
ایک صاحب اسلامی تاریخی ناول نگاری میں مشہور ہوئے اور اسلام کے نام کے غلط استعمال سے مال کمایا ۔
سن 1965ء کی جنگ کے بعد جب بھارت کے شاعر ۔ آرام ہے حرام بھارت کے نوجوانوں ۔ شمع کے پروانوں اور اُس مُلک کی سرحد کو کوئی چھُو نہیں سکتا ۔ جس مُلک کی سرحد کی نگہبان ہوں آنکھیں ۔ لکھ کر اپنی قوم میں عزم و ولولہ پیدا کر رہے تھے ۔ وطنِ عزیز کے شاعر ۔ لالہ جی جان دیو ۔ لڑنا کی جانو تُسی مُرلی بجاون والے ۔ اور میریا ڈھول سپاہیا اور میرا ساجن رنگ رنگیلا نی جرنیل نی کرنیل نی ۔ لکھ کر اور فتح کے شادیانے بجا کر قوم کو سونے کیلئے محسور کر رہے تھے
پاکستان ایک خاص نظریہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا ۔ ایک نظریاتی مُلک کی اس سے بڑھ کر بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے اپنے ذرائع ابلاغ کی اکثریت مُلک کے نظریہ کی عملی صورت کی مخالف ہو ؟
اس سے بھی دو قدم آگے وطنِ عزیز کے اربابِ اختیار ہیں جو اتنا سچ نہیں بولتے جتنا جھوٹ بولتے ہیں ۔ ان کی خود غرضی نے ایک ایسے مُلک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے جس کی پہلی حکومت نے بے سر و سامان ہوتے ہوئے نہ صرف بھارت سے زبردستی نکالے گئے لاکھوں لُٹے پُٹے مہاجرین کو خود کفیل ہونے میں مدد دی بلکہ ملک کو تیز رفتار ترقی کی شاہراہ پر ڈال دیا تھا ۔ وہ مُلک جو خوراک میں نہ صرف خود کفیل تھا بلکہ خوراک برآمد کرتا تھا آج گندم ۔ دالیں ۔ آلو ۔پیاز اور پھل درآمد کر رہا ہے ۔ آج سے 40 سال قبل ایک امریکی ڈالر 4 پاکستانی روپے میں ملتا تھا اور اچھا آٹا ایک روپے کا ساڑھے تین کلو گرام تھا ۔ آج پاکستانی روپے کی قدر اتنی کم ہوئی کہ 72 روپے میں ایک امریکی ڈالر مل رہا ہے ۔ آٹا اُس معیار کا تو دیکھنے کو ترس گئے ہیں اور جو ملتا ہے وہ 26 روپے کا ایک کلو گرام ہے ۔
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے پیارے رسول سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی حدیث ہے کہ ایک آدمی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ایک بات سُنے اور بغیر تصدیق کئے آگے بیان کر دے ۔
کبھی کسی نے سوچا کہ جھوٹ بولنا تمام بُرائیوں کی جڑ ہے ؟
اور میرے ہموطن جھوٹ بولنے والے کو ہوشیار [tactful] کہتے ہیں ۔ اللہ ہمیں سیدھی راہ دکھائے ۔ آمین ۔