Category Archives: تجزیہ

اسرائیل جھوٹ کی بنیاد پر قائم ہوا ۔ فلسطین کا خاتمہ خام خیالی ہے

اسرائیل جھوٹ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے، غزہ پر اسرائیلی بمباری میں امریکہ برابر کا شریک ہے،فلسطینیوں کو بمباری سے ختم کرنا خام خیالی ہے،بی بی سی غیر جانبدارانہ پالیسی کا معیار ختم کرچکا ہے، عوام اسرائیل نواز نشریاتی اداروں کا بائیکاٹ اورغزہ کیلئے امدادی قافلے کی بھرپور مدد کریں۔ ہماری پارٹی فلسطینیوں کا ساتھ دیگی، یہودی اور صہیونیت میں فرق ہے۔ ان خیالات کا اظہار ریسپکٹ پارٹی کے سربراہ اور رُکن برطانوی پارلیمنٹ جارج گیلووے نے اجتماعات سے خطاب میں کیا۔ بشکریہ جنگ

گریٹر مانچسٹر کے دورے میں مانچسٹر اور بولٹن میں سٹاپ دی وار کے تعاون سے غزہ کی آزادی کے لئے منعقدہ اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے جارج گیلووے نے کہا ہے کہ اسرائیل کی ریاست جھوٹ کی بنیاد پر قائم کی گئی اور آج بھی جھوٹ کی بنیاد پر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے۔ غزہ میں نہتے فلسطینیوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں امریکہ برابر کا شریک ہے۔ فلسطین کے عوام کے حوصلے بلند ہیں۔ اسرائیل یا انکے حواری اگر یہ خیال کرتے ہیں کہ فلسطینی عوام پر بمباری کر کے انہیں ختم کر دیا جائے گا تو یہ انکی خام خیالی ہے۔ دنیا میں جب تک ایک فلسطینی بھی زندہ ہے مسئلہ فلسطین کی اہمیت اُجاگر رہے گی اور ہماری جماعت ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔

انہوں نے اعلان کیا کہ وہ آئندہ 30 دنوں کے اندر سو گاڑیوں پر مشتمل ایک امدادی قافلہ لندن سے غزہ تک لیکر جائیں گے۔ زمینی قافلے کو اگر کسی جگہ روکنے کی کوشش کی گئی تو اس کی مذمت کی جائے گی۔ انہوں نے انتہائی جذباتی انداز میں مصری حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اگر مصر کے حکمرانوں نے اس قافلے کو روکا تو وہ حسنی مبارک کے گھر کو بھی تباہ کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ سیاست کے دُہرے معیار کے باعث دنیا میں غیر یقینی کی فضا پیدا ہو گئی ہے۔ انہوں نے برٹش میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بی بی سی اپنی غیر جانبدارانہ پالیسی کا معیار ختم کر چکا ہے غزہ میں مظالم کی بھرپور ترجمانی نہیں کی جا رہی اور اگر بی بی سی نے اپنا رویہ نہ بدلا تو گلاسگو کی طرح مانچسٹر اور دیگر سنٹروں پر بھی احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ برطانیہ کی بین الاقوامی شہرت یافتہ خیراتی تنظیموں کو جس میں آکسفام، انٹرپال، سیو دی چلڈرن جس کی چیف پیٹرن ہانسی شہزادی این ہیں، کو امدادی رقوم جمع کرنے سے انکار کا مقصد بی بی سی کی اسرائیل پسندانہ کارروائیوں کی غمازی کرتا ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ بی بی سی اور دیگر اسرائیل نواز نشریاتی اداروں کا بائیکاٹ کریں۔

انہوں نے اجتماعات میں عوام سے اپیل کی کہ غزہ کے مجبور عوام کے لیے لے جانے والے امدادی قافلے کی بھرپور مدد کریں۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی طور پر بولٹن سے دو ایمبولینس اور مانچسٹر سے فائر بریگیڈ جیکٹس کے علاوہ بہت سارا امدادی سامان عطیہ کے طور پر دیا گیا ہے۔ انہوں نے فائر بریگیڈ یونین کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ امدادی قافلے کے لیے دس لاکھ پونڈ کا ٹارگٹ رکھا گیا ہے۔ عوام کے تعاون سے اسے حاصل کر لیا جائے گا۔ اجتماعات میں چالیس ہزار پونڈ امدادی رقم کے طور پر اکٹھے کئے گئے۔

قبل ازیں فلسطینیوں سے اتحاد کی چیئرپرسن لنڈا کلیئر جو یہودی النسل ہے نے کہا کہ یہودیت اور صہیونیت میں واضح فراق ہے۔ فلسطین میں ہونے والی ظلم و زیادتی صہیونیت کی وجہ سے ہے جبکہ یہودیوں کی اکثریت اس دہشت گردی کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہودیوں نے صہیونیت کے خلاف ایک عالمی تنظیم قائم کی ہے جس کے نتیجے میں یہودی مسائل کا پرامن حل چاہتے ہیں اور صہیونیت کی مذمت کرتے ہیں۔

اس موقع پر فلسطین کے رہنما عقیل مجددی جن کا تعلق غزہ سے ہے انتہائی جذباتی انداز میں غزہ کی تازہ ترین صورتحال پر اظہار خیال کیا۔ آخر میں جارج گیلووے نے عوام کے سوالوں کے جوابات دیئے۔ دونوں اجتماعات میں پاکستانیوں اور کشمیریوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی جبکہ انڈین مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جن میں خواتین بھی شامل تھیں نے شرکت کی

جو بوئے گا سو کاٹے گا

مثل مشہور ہے “جو بوئے گا سو کاٹے گا ” اور پنجابی میں کہتے ہیں “مُنجی بیج کے کپاہ نئیں اُگدی “۔ مطلب یہ ہے کہ جیسا کوئی عمل کرتا ہے ویسا ہی اسے بدلہ ملتا ہے ۔ کچھ بزرگ کہا کرتے تھے “یہ سودا نقد و نقد ہے ۔ اِس ہاتھ سے دے اُس ہاتھ سے لے”۔ دنیا میں ایسے عظیم لوگ بھی اللہ کے فضل سے ہیں جو اس عمل کو سمجھتے ہوئے پوری کوشش کرتے ہیں کہ اُن کے کسی عمل سے دوسرے کو تکلیف نہ پہنچے ۔

قانون کے مطابق میں نے 4 اگست 1999ء کو ملازمت سے ریٹائر ہونا تھا لیکن ذاتی وجوہ کے باعث 3 مئی 1991ء کو ریٹائرمنٹ کیلئے درخواست دے دی اور چھٹیاں گذار کر 3 اگست 1992ء کو ریٹائر ہو گیا ۔ ریٹائر ہونے کے کچھ سال بعد میں کسی کام کے سلسلہ میں ڈائریکٹر ایڈمن کے پاس گیا اور کہا”جناب ۔ میں آپ کے کام میں مُخل ہو رہا ہوں ۔ آپ میرا یہ کام کروا دیں تو میں آپ کا مشکور ہوں گا”۔ ڈائریکٹر ایڈمن ملازمت کے لحاظ سے مجھ سے جونیئر تھے ۔ وہ میرے طرزِ تخاطب پر برہم ہو گئے ۔ میں نے وضاحت کی کوشش کی “میں ریٹائرڈ آدمی ہوں اور اب آپ میرے افسر ہیں”۔ وہ کہنے لگے “دیکھئیے اجمل صاحب ۔ یہ دنیا مکافاتِ عمل ہے ۔ آپ اب بھی ہمارے محترم ہیں ۔ آپ دوسرے ریٹائرڈ لوگوں کے ساتھ اپنے آپ کو نہ ملائیں ۔ جو اُنہوں نے بویا وہ کاٹیں گے اور جو آپ نے کیا اُس کا صلہ اللہ آپ کو دے گا”۔

آجکل وزیرِ اعظم کے سابق مشیر برائے قومی تحفظ ریٹائرڈ میجر جنرل محمود علی درانی صاحب کے بیانات آ رہے ہیں کہ اُنہیں جلدبازی میں برطرف کر دیا گیا اور جس طرح اُنہیں بر طرف کیا گیا اُس سے اُنہیں دُکھ پہنچا ۔ میں نے 4 اگست 1992ء سے 3 اگست 1994ء تک میجر جنرل محمود علی درانی صاحب کے ماتحت بطور ڈائریکٹر پی او ایف ویلفیئر ٹرسٹ کنٹریکٹ پر کام کیا ۔ یہ ادارہ نجی نوعیت کا تھا ۔

میجر جنرل محمود علی درانی صاحب وسط 1992ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز کے چیئرمین مقرر ہوئے ۔ اس تقرری کی مدت تین سال ہوتی ہے ۔ مجھے اپنی کنٹریکٹ کی ملازمت کے دوران 1994ء کے کم از 2 ایسے واقعات یاد ہیں جن میں میجر جنرل محمود علی درانی صاحب نے اپنے ماتحت افسروں کو بغیر کسی جواز کے صرف اور صرف اپنی انا کی خاطر بغیر کوئی نوٹس دیئے ملازمت سے نکال دیا تھا حالانکہ وہ اچھا بھلا اور محنت سے کام کر رہے تھے ۔ اب اتفاق سے وہی کچھ اُن کے ساتھ ہوا ہے تو بار بار شکایت کر رہے ہیں ۔

کاش لوگ اُس وقت سوچا کریں جب وہ خود کسی کے ساتھ بُرا سلوک کرتے ہیں

امریکہ ٹوٹنے کی طرف گامزن

دنیا میں بڑی بڑی سلطنتیں بنیں ۔ جن میں عاد و ثمود ۔ کسرٰی ۔ نمرود اور فرعون مشہور ہیں ۔ ان کے دور کے متعلق جو معلومات ہمیں ملتی ہیں یہی ہیں کہ ان لوگوں نے بہت ترقی کی اور آرام و آسائش کے بہت سے وسائل حاصل کئے ۔ یہ حُکمران اتنے طاقتور ہو گئے کہ اپنے آپ کو نعوذ باللہ من ذالک خدا سمجھ بیٹھے ۔ جو اُن کا باجگذار نہ بنتا اُس پر ظُلم کرتے ۔ وہ مِٹ گئے اور اُن کی سلطنتیں جن پر اُنہیں گھُمنڈ تھا اُن کا بھی نام و نشان مٹ گیا سوائے فرعون کے جس کے متعلق مالک و خالقِ کائنات کا فیصلہ تھا کہ رہتی دنیا تک اُسے عبرت کا نشان بنایا جائے گا ۔ سو فرعون کی حنوط شُدہ نعش ۔ ابوالہول کا مجسمہ اور احرامِ مصر آج بھی موجود ہیں ۔

ایک صدی قبل تک مسلمانوں کی سلطنت دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی مگر اللہ کے احکامات کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے 1915ء میں بکھر گئی ۔ مسلمانوں کی سلطنت بکھرنے کے بعد روسی اشتراکی جمہوریتوں کا اتحاد اور ریاستہائے متحدہ امریکہ طاقت پذیر ہوئے اور اپنے آپ کو سُپر پاور کا خطاب دے دیا ۔

بہت دُور کی بات نہیں کہ ان میں سے ایک سُپر پاور روس نے طاقت کے بل بوتے قریبی ریاستوں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور پولینڈ ۔ بیلارس ۔ لتھوانیا ۔ ایسٹونیا ۔ لیٹویا ۔ سلوواکیا ۔ چیک ۔ کروشیا ۔ سربیا ۔ رومانیہ ۔ بوسنیا ۔ ہرزیگووینا ۔ بلغاریہ اور مالدووا پر قبضہ کر کے مسلمانوں اور مذہبی عیسائیوں کو اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور کیا اور جس نے ایسا نہ کیا اسے جان سے مار ڈالا یا کال کوٹھڑی میں ڈال دیا اور اس طرح روسی اشتراکی جمہوریتوں کا اتحاد قائم کیا ۔ یہیں بس نہ کیا بلکہ یورپ سے باہر بھی اپنا عمل دخل بڑھانا شروع کر دیا اور اسی عمل میں افغانستان پر قبضہ اس سُپر پاور کے ٹوٹنے کا بہانہ بنا ۔

روسی اشتراکی جمہوریتوں کا اتحاد ٹوٹنے کے بعد ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حُکمران جو پہلے ہی کئی ممالک پر قبضہ کر چکے تھے مزید خُودسَر ہو گئے اور مسلمانوں کو تیزی سے ختم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے تاکہ ان کے مقابل کوئی کھڑا نہ ہو سکے ۔ اس پر عمل درآمد کیلئے پہلے ڈبلیو ایم ڈی کا بہانہ گھڑ کر عراق پر حملہ کیا پھر افغانستان پر حملہ آور ہوا ۔ افغانستان پر حملہ سے پہلے خود ہی ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو اسلئے گرا دیا کہ دنیا کی ناجائز حمائت حاصل کی جائے ۔

امریکی حکمرانوں کی ہوّس اور بے حِسی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ وہ اپنی خواہش کی تکمیل کیلئے لاکھوں بے کس لوگوں کو بے گھر کرنے اور اں کے ہاتھ سے رزق چھننے اور ہزاروں لوگوں کے جسموں کے چیتھڑے اُڑانے میں بھی دریغ نہیں کرتے ۔ اب اُن کی آنکھیں واحد مسلم ایٹمی طاقت پر گڑی ہیں ۔ اُن کا مقصد دنیا میں غیر مسلموں کے مکمل غلبے کے سوا کچھ نہیں

اس خود غرضی کی جنگ میں امریکی عوام بُری طرح سے جکڑے جا چکے ہیں ۔ امریکی عوام کو شاید اب تک سمجھ نہیں آئی کہ اُن کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ۔ اُن کے حکمرانوں کی بنائی ہوئی نام نہاد “دہشتگردی کے خلاف جنگ” نے جو تحفے امریکی عوام کو دیئے ہیں وہ ہیں ۔ عراق میں 5000 کے قریب امریکی فوجی ہلاک ۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب فوجی زخمی اور 167 امریکی فوجی خود کشی کر کے ہلاک ۔ امریکی عوام میں بے چینی کو بڑھنے سے روکنے کیلئے امریکی حکمرانوں نے افغانستان میں ہونے والے نقصانات کو ظاہر نہیں ہونے دیا لیکن وہاں بھی عراق سے کم نقصان نہیں ہوا ۔ معاشی لحاظ سے اس خودغرضی کی جنگ نے ریاستہائے متحدہ امریکہ کو کھوکھلا کر دیا ہے ۔ اب تک اس جنگ میں 10 کھرب یعنی ایک ٹریلین ڈالر جھونکا جا چکا ہے ۔ اور امریکیوں کو بونس کے طور پر دنیا کے لوگوں کی اکثریت کی نفرت ملی ہے ۔ اس سب نقصان کے بعد صورتِ حال یہ ہے کہ بظاہر پورے عراق پر امریکہ کی حکمرانی ہے مگر افغانستان میں کابل سے باہر مُلا عمر کا سکہ چلتا ہے ۔

ایک حقیقت جو ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حکمرانوں نے پیشِ نظر نہیں رکھی وہ قانونِ قدرت ہے جس پر عمل ہوتا آیا ہے اور قیامت تک ہوتا رہے گا ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جس نے خلقِ خدا کو ناحق قتل کیا یا برباد کیا وہ خود بھی برباد ہوا اور اُس کا نام و نشان مٹ گیا

دنیاوی طور پر دیکھا جائے تو کوئی شخص پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کے بعد وہا ں زیادہ وقت قیام نہیں کر پاتا اور اُسے نیچے اُترنا پڑتا ہے خواہ وہ جہاں سے اُوپر گیا تھا اُسی طرف اُترے یا پہاڑ کے دوسری طرف ۔ انسان کو ہی دیکھ لیں پہلے بچہ ہوتا ہے پھر جوان اور پھر بوڑھا یعنی کمزور سے طاقتور بننے کے بعد کچھ عرصہ طاقتور رہتا ہے اور پھر کمزور ہو جاتا ہے ۔ فارسی کا ایک قدیم مقولہ ہے “ہر کمالے را زوالے”۔ یعنی کمال حاصل کرنے کے بعد زوال لازم ہے ۔

ایک تعلیم یافتہ شخص جس کا تعلق جموں کشمیر کے اُس علاقہ سے تھا جس پر 1947ء سے بھارت کا غاصبانہ استبدادی قبضہ ہے اور جس نے افغانستان پر سوویٹ یونین کے قبضہ کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا کو اُس کے علم اور تجربہ کی بنیاد پر گیارہ سال قبل ایک مجلس میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کیلئے مدعو کیا گیا ۔ اُس نے افغانستان میں جنگِ آزادی کے متعلق اپنے تجربات اور مشاہدات کا ذکر کرنے کے بعد کہا “آپ نے دیکھا کہ سوویٹ یونین جیسی سُپر پاور ٹوٹ گئی ۔ ایسا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا ۔ اب سوویٹ یونین کا کام بھی امریکہ نے سنھال لیا ہے ۔ آپ نوٹ کر لیجئے کہ آج سے 14 سال کے اندر امریکی ایمپائر ٹوٹ جائے گی”۔

روسی پروفیسر اِیگور پانارِن [Igor Panarin] نے کئی سال قبل پیشگوئی کی تھی کہ 2010ء میں امریکہ میں خانہ جنگی کے بعد موجودہ ریاستہائے متحدہ امریکہ کی سلطنت ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گی ۔

آج ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حکمران اس ترجیح پر عمل پیرا ہیں کہ “ہم ایک ایمپائر ہیں ۔ جب ہم قدم اُٹھاتے ہیں تو اپنی پسند کی حقیقت کو جنم دیتے ہیں ۔ لوگ ابھی اس حقیقت کے مطالعہ میں لگے ہوتے ہیں کہ ہم قدم بڑھا کر نئے حقائق پیدا کر دیتے ہیں ۔ بیشک لوگ اُن کا بھی مطالعہ کریں ۔ ہم تاریخ ساز ہیں اور باقی سب لوگ صرف ہماری بنائی ہوئی تاریخ کو پڑھنے کیلئے ہیں”

لیکن آنے والے کل کی کسی کو کیا خبر ۔ البتہ دیکھنے والی آنکھیں دیکھ رہی ہیں اور سوچنے والے دماغ سمجھ چکے ہیں کہ مستقبل قریب میں کیا ہونے والا ہے ۔

پچھلے نو سال کی اس مہم جوئی کے نتیجہ میں امریکی معیشت خطرناک حد غوطہ لگا کر کساد بازاری کا شکار ہے اور مزید اخراجات کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ ساتھ ہی بے روزگاری نئی بلندیوں کو چھُو رہی ہے ۔ اگر امریکی حکمرانوں کے یہی طور رہے تو وہ وقت دُور نہیں جب امریکی عوام احتجاج پر مجبور ہو جائیں گے اور مر جاؤ یا مار دو کے ارادوں سے سڑکوں پر نکل آئیں گے ۔ عوامی حقوق کی یہ جد و جہد خانہ جنگی کی صورت اختیار کر کے واحد سُپر پاور کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر سکتی ہے ۔ لگتا ہے کہ حکمران اس صورتِ حال کی توقع رکھتے ہیں اسی لئے 2008ء کے اواخر میں 20000 فوجیوں کا چناؤ کیا جا چکا ہے جنہیں اگلے تین سال میں شہریوں کے بلووں سے نپٹنے کی تربیت دی جائے گی

مسلمانوں کا المیہ

حقائق پر مبنی تحریر جو مسلمانوں بالخصوص پاکستانیوں کیلئے ایک تازیانے سے کم نہیں

ممبئی میں حالیہ دہشتگردی کے واقعات کے بعد بھارت کی ایما پر امریکہ نے پاکستان کو بغیر کوئی عذر دیئے اپنی کٹھ پتلی اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے ذریعے جماعت الدعوة اور دو دوسری پاکستانی رفاہی اور دینی تنظیموں کو دہشتگردقرار دے دیا جبکہ ان تنظیموں سے منسلک کچھ افراد کو عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں بھی شامل کر دیا ۔ اقوام متحدہ کی اس کارروائی کے ساتھ ہی حکومت پاکستان نے ان تنظیموں بالخصوص جماعت الدعوة کے دفاتر کو ملک بھر اور آزادجموں کشمیر میں مقفل کر دیا اور اس کے کئی عہدیداروں اور رہنماؤں کو گھروں میں نظر بند کر دیا یا گرفتار کرلیا اور ان کے بنک اکاؤنٹس بھی منجمد کر دیئے گئے۔

ہمارے صدر، وزیراعظم اور دیگر اعلیٰ حکومتی اہلکار بار ہا یہ بات کہہ چکے ہیں کہ ابھی تک بھارت نے ہمیں ممبئی دہشتگردی کے حوالے سے ایسے شواہد فراہم نہیں کئے جن سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ پاکستان کی کوئی تنظیم ان واقعات میں ملوث ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ کی طرف سے کوئی ایسے شواہد پیش کئے گئے۔ لیکن ہم نے بغیر کوئی ثبوت دیکھے جماعت الدعوة جو پاکستان بھر میں اپنے رفاہی کاموں کی وجہ سے اچھی شہرت رکھتی ہے اور جس نے خاص طور پر زلزلہ زدہ علاقوں بشمول آزادکشمیر، بالاکوٹ، مانسہرہ اور بلوچستان میں کافی کام کیا ہے اس طرح دھاوا بول دیا جیسے ہمیں یقین ہے کہ یہ ایک دہشتگرد تنظیم ہے۔ ہمارے وزیر دفاع کا کہنا ہے کہ اگر حکومت پاکستان جماعت الدعوة کے خلاف ایکشن نہ لیتی تو خطرہ تھا کہ پاکستان کو ہی دہشتگرد ملک قرار دے دیا جاتا۔ کیا جناب احمد مختار ضمانت دے سکتے ہیں کہ اب پاکستان کو دہشتگرد ممالک میں فہرست میں شامل نہیں کیا جائے گا۔

بغیر کسی منطق اور جواز کے ہم کتنی آسانی سے ہر بیرونی حُکم کی بجا آواری کرتے جا رہے ہیں۔ 9/11 کے بعد پہلے ہی ہم نے اپنی قومی عزتِ نفس کو تار تار کرتے ہوئے امریکہ بہادر کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سب کچھ کر ڈالا خواہ وہ قانونی تھا یا غیر قانونی خواہ وہ پاکستان دشمنی اور اسلام دشمنی کے مترادف تھا یا کہ نہیں اور اب ہم ماضی سے کچھ سبق سیکھے بغیر سب کچھ بھارت کے لئے کرنے پر تیار ہیں۔یہ سب کرنے کے باوجود امریکہ ہم سے آج تک خوش نہیں ہوا جبکہ بھارت نے ابھی سے do more-do more کی رٹ لگا رکھی ہے۔ اگر سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو نجانے ہمارا کل کیسا ہو گا۔ پہلے ہی امریکہ کی نظر میں پاکستان دنیا بھر کے لئے دہشت گردوں کا ٹھکانہ ہے۔ آج بھارت بھی امریکہ کی زبان بولتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردوں کا مرکز [epicentre] گردانتا ہے۔ بیرونی قوتوں کے کہنے پر اگر ہم آج اپنی تنظیموں اور اپنے لوگوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کریں گے تو کیا اس سے ہم آنے والے خطرات سے جان چھڑا پائیں گے۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکہ بھارت اور اسرائیل کا اصل نشانہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ہے، کیا ہم بھول گئے کہ یہی ممالک ہمارے ملک کی فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف انتہائی سنگین الزامات لگاتے رہے ہیں اور اب بھی لگا رہے ہیں تا کہ ان اداروں کو کمزور کر کے اس ملک میں انتشار کی صورتحال پیدا کی جائے جس سے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر بیرونی قبضے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔ اپنی نااہلی اور بزدلی کی وجہ سے یقیناً ہم اپنے ملک کو دشمن قوتوں کے پھیلائے گئے جال میں آہستہ آستہ پھنسا رہے ہیں۔المیہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی امریکہ بھارت اور اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی اور اس کے نتیجے میں لاکھوں مسلمانوں کی عراق، افغانستان، کشمیر، فلسطین اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شہادت پر انگلی نہیں اٹھاتا۔ اس ریاستی دہشت گردی پر تو اقوام متحدہ بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے جبکہ تمام اسلامی ممالک کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ اتحاد و یگانگت سے بیگانہ سب ایک دوسرے کی تباہی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ کوئی بھارت سے نہیں پوچھتا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود وہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیونکر جمائے ہوئے ہے۔ امریکہ افغانستان اور عراق میں لاکھوں مسلمانوں کی جانیں لینے کے باوجود ابھی بھی مسلمانوں کے خون کا پیاسا ہے۔ مگر اب بھی مسلمانوں کی آنکھیں بند ہیں اور ان کی عقل پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔

ہم زبان سے تو اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مانتے ہیں اور اسی سے ڈرنے کا اظہار کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ہمارے دلوں میں امریکہ کا خوف اور ڈر بیٹھا ہوا ہے۔ ہم دنیا کو اور حتٰی کہ اپنے آپ کو اور اپنے لوگوں کو امریکہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ آج ہم اپنے مذہب کے متعلق اس حد تک معذرت خواہانہ رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے جھجھکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کی بجائے ہم اپنی مسلمانیت کو اس طرح پیش کرنے کے جتن کر رہے ہیں جس سے امریکہ ہم سے خوش ہو جائے۔ لیکن یہ کبھی نہیں ہو سکتا کیونکہ یہی میرے اللہ کا وعدہ ہے۔ اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور اس کی کتاب قرآن پاک پر ایمان رکھتے ہیں تو اپنے رب کے واضح احکامات کے باوجود ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ کافر اور یہود و نصاریٰ مسلمانوں کے دوست اور خیرخواہ ہو سکتے ہیں۔ ہم جو یہود و نصاریٰ کو راضی کرنے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کا وہ فرمان بھول گئے جس کا مفہوم ہے یہ [یہودونصاریٰ اور کفار] تم [مسلمانوں] سے اس وقت راضی ہوں گے جب تم اپنے دین پر اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے یعنی کہ دین اسلام کو چھوڑ دو گے۔ کیا ہم قرآن کی اس بات کو بھول سکتے ہیں کہ ان [یہودونصاریٰ اور کفار] کی زبانوں سے کہیں زیادہ ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف بغض چھپا ہوا ہے۔

دین اسلام کی نظر میں جو ہمارے خیر خواہ نہیں ہو سکتے جو ہمارے بدترین دشمن ہیں انہی کو ہم نے اپنا آقا تسلیم کر لیا ہے اور ان کے ہر حکم پر اپنا سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جن قوموں کو مغضوب [ہمیشہ غضب میں رہنے والی] اور بھٹکے ہوئے کہا ہم آج کے مسلمان ان کی پیروی پر لگے ہوئے ہیں۔ کل افغانستان میں روسی فوجوں کے خلاف جنگ کو جہاد اور اس میں حصہ لینے والوں کو مجاہدین کہنے والوں نے آج افغانستان میں قابض امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف برسرپیکار طالبان کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دے دیا اور ہم مسلمان بھی انہی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ جہاد چاہے وہ افغانستان، کشمیر یا عراق میں ہو اس کو ہم نے دہشت گردی سے جوڑ دیا ہے۔ ان حالات میں مسلمان کے مقدر میں ذلت اور رسوائی کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔
انصار عباسی نے جنگ کیلئے لکھا اور 15 دسمبر 2008ء کو شائع ہوا

ممبئی دہشتگردی ۔ اصل مُجرموں کی پردہ پوشی

مندرجہ ذیل خبروں سے ثابت ہوتا ہے کہ ممبئی میں جو ڈرامہ بظاہر 26 نومبر 2008 کو شروع ہوا اُس کی تیاری 15 نومبر سے بھی پہلے شروع ہو چکی تھی اور یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ دہشتگرد کون تھے ؟ ان حقائق کی نظر سے دیکھا جائے تو کوئی بھارتی خفیہ ادارہ بھی اس میں ملوث ہو سکتا ہے ۔ اسی لئے حقائق پر پردہ ڈال کر سارا ملبہ پاکستان پر گرایا جا رہا ہے تاکہ عوام کا دھیان اس دہشتگردی کے حقائق کی طرف نہ جانے پائے جس میں بھارتی پولیس کا ایک زیرک اعلٰی عہدیدار بھی مارا گیا ۔

سی بی سی نیوز [کنیڈین برادکاسٹنگ کارپوریشن]
ایک آزاد صحافی ارون اشتھانا نے نریمان گیسٹ ہاؤس کے باہر سے سی بی سی سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے کہا “کہا جاتا ہے کہ عسکریت پسندوں نے حملوں سے 15 یوم قبل گیسٹ ہاؤس میں قیام کیا اور اُن کے پاس بہت زیادہ بارود اسلحہ اور خوراک تھی”

برطانیہ کا گارجین یا گارڈین
مقامی لوگوں نے بتایا کہ نریمان ہاؤس کے مالک ایک اسرائیلی یہودی خاندان ہے جو اس کے فلیٹ مذہبی یہودیوں کو کرائے پر دیتے تھے”

مِڈ ڈے نیوز
اس حملہ ڈرامہ میں نریمان ہاؤس کا کردار پریشان کن ہے ۔ گذشتہ رات [نریمان ہاؤس کے] رہائشیوں نے لگ بھگ 100 کلو گرام گوشت اور کھانے کی دوسری اشیاء منگوائیں جو کہ ایک فوج کیلئے یا پھر چند لوگوں کی 20 دن کیلئے کافی تھا ۔ اس کے کچھ دیر بعد 10 کے قریب عسکریت پسند [نریمان ہاؤس میں] داخل ہوئے ۔ ظاہر ہے کہ یہ اشاء خوردنی اُن کی آمد کو مدِ نظر رکھکر منگوائی گئی تھیں

ڈی این اے انڈیا
موکوند شلکے جو کولابا مارکیٹ میں دکاندار ہے نے بتایا کہ اُن لوگوں نے نریمان ہاؤس میں داخل ہونے سے قبل کافی خوردنی سامان خریدا جو ان کیلئے 3 ہفتوں کیلئے کافی تھا ۔ اُنہوں نے دو پیٹیاں مرغی کا گوشت کوئی 25000 روپے کی شراب کولابا کی دو دکانوں سے خریدے ۔

مِڈ ڈے نیوز
اس علاقہ کے ایک ماہی گیر وِتھال ٹنڈل نے کہا “بدھ [26 نومبر] کے روز شام کے وقت میں نے چھ سات کشتیاں آتے دیکھیں جن میں سے کوئی دس آدمی بہت زیادہ سامان کے ساتھ اُترے اور اُن کو آہستہ آہستہ نریمان ہاؤس کے اندر لے گئے ۔ اس عمارت [نریمان ہاؤس] میں کافی کمرے ہیں جو مسافروں کیلئے گیسٹ ہاؤس کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔ ہم میں سے کسی کو اُن لوگوں کے نام معلوم نہیں ہیں ۔

ایک ٹی وی صحافی ورندرا گھناوت بدھ سے نریمان ہاؤس پر نظر رکھے ہوئے تھا ۔ پولیس والے بھی اس سلسلہ میں گم سم تھے

برطانیہ کا گارجین یا گارڈین
وہ سمندر کے راستے سے آئے اور اندھیرے میں قدیم کولابا کی تنگ گلیوں سے گذرتے ہوئے چہ منزلہ عمارت نریمان ہاؤس میں چلے گئے ۔ یہ بندوق بردار لوگ وہاں رہے اور بعد میں اندر سے محاصرہ کر لیا

دی نیو یارک ٹائیمز
جب دہشتگرد دھانور کی کشتی کے قریب اُترے تو وہ نریمان ہاؤس کی تنگ گلی سے صرف تین عمارتیں دور تھے ۔ پانچ منزلہ عمارت نریمان ہاؤس جس میں ایک جوان ربی گافریل ہولٹسبرگ اور اس کی بیوی رفقہ جو نیو یاکر سے آئے ہوئے ہیں ایک یہودی سینٹر چلاتے ہیں

برطانیہ کا گارجین یا گارڈین
ایک پولیس مین جس نے نریمان ہاؤس میں داخل ہونے کی کوشش کی بتایا ۔ گذشتہ رات میں عمارت کے اندر گیا ۔ میں یہ جان کر دنگ رہ گیا کہ وہ لوگ سفید فام ہیں ۔ میرا خیال تھا کہ وہ ہماری طرح کے ہوں گے ۔

بی بی سی
مشرہ کی یاد داشت کے مطابق “پھر غیر ملکی سفید فاموں نے مار دھاڑ جاری رکھی” ۔

مسٹر امیر نے کہا “وہ ہندوستانی نہیں لگتے تھے ۔ وہ غیر ملکی تھے ۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ایک سنہرے بالوں والا تھا ۔ دوسروں نے واہیات طریقہ سے بال بنائے ہوئے تھے”

ڈی این اے انڈیا
نریمان ہاؤس کے سامنے والی عمارت کے رہائشی انند راؤرین نے جب پولیس کے سربراہ [جو تفتیش کر رہا تھا] کے مارے جانے کی خبر ٹی پر آئی تو ہم نے فلیٹ [نریمان ہاؤس] سے شور سنا جیسے لوگ خوشی کا اظہار کرتے ہیں

یوروشلم پوسٹ
نینی [آیا] جس نے دوسالہ موشے ہولٹز برگ کو ممبئی کے چاباد ہاؤس سے جمعرات کو بچایا وہ جمعرات کو اسرائیل پہنچ رہی ہے ۔ اس نے خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ موشے کے ساتھ اس خصوصی پرواز پر اسرائیل واپس آنا چاہتی ہے جو اسرائیل کی فضائیہ نے بھیجی ہے ۔
بچہ جمعہ کو اپنے دادا دادی کے پاس پہنچ گیا ۔ اسرائیل کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ “اس کی وزارت آیا کو اسرائیل لانے کیلئے کام کر رہی تھی اور اس نے وزارتِ داخلہ کو درخواست کی ہے کہ آیا کو اسرائیل میں رہنے دیا جائے ۔

خیال رہے کہ جب نریمان ہاؤس بھارتی سکیورٹی فورسز کے محاصرہ میں تھا ۔ نریمان ہاؤس کے مالکوں کے بچے کی آیا [جو کہ بھارتی ہے] اُن کے بچے کو ساتھ لئے ہوئے باہر نکل آئی تھی جس پر یہی باور کیا جا سکتا ہے کہ اُسے بحفاظت باہر بھیجا گیا ۔

انڈین ایکسپرس
دو سالہ موشے اور اس کی آیا ساندرا سیموئل اپنے نانا نانی کے ساتھ اسرائیل کے خصوصی فوجی طیارہ میں آج رات اسرائیل چلے گئے

دی انڈیا ٹیلی گراف
یکم دسمبر ۔ اسرائیل بھارتی آیا کو رہائشی اجازت نامہ دے رہا ہے ۔ اسرائیل کے وزیرِ خارجہ نے کابینہ کو بتایا کہ اس کی وزارت آیا ساندرا سیموئل کو رہائشی ویزہ دلوانے کا انتظام کر رہا ہے ۔

دی انڈیا ٹیل گراف
اسرائیل نے بھارت سے درخواست کی ہے کہ نریمان ہاؤس میں مارے جانے والے اسرائیلی باشندوں کا پوسٹ مارٹم نہ کیا جائے ۔ اسرائیلی مشن کے مطابق مارے جانے والے 9 افراد میں سے 7 اسرائیلی تھے ۔

سوچنے کی بات ۔ دو تو نریمان ہاؤس کے مالک پولیس مقابلہ میں مارے گئے ہوں گے ۔ باقی 5 اسرائیلی کہاں سے آئے ؟
گذارش ۔ میں اُن نوجوانوں کا تہہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے یہ خبریں اکٹھا کرنے میں میری مدد کی ۔

ممبئی حملے ۔ ایک دلچسپ حقیقت

بھارت نے ممبئی میں دہشتگردی کا مرتکب پاکستان یا پاکستانیوں کو قرار دیا ہے جسے بھارت کا پیش کردہ واحد ٹھوس ثبوت ہی جھوٹا ثابت کرتا ہے ۔ ممبئی کے واقعہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ دہشتگردوں میں سے ایک نے بھارت کے ایک ٹی سٹیشن کو فون کیا اور صحافیوں سے بہت لمبی بات کی اور زیادہ تر بار بار دہرائی گئیں جو کہ دہشتگردوں کے رویہ کا غماز نہیں ۔

زیادہ اہم وہ گفتگو ہے جو عمران نامی دہشتگرد نے ٹی وی سٹیشن پر موجود صحافیوں سے کی ۔ نہ صرف عمران کا طرزِ گفتگو کسی پاکستانی علاق سے مماثلت نہیں رکھتا بلکہ اُس کے بولے ہوئے بہت سے الفاظ پاکستان کے کسی علاقہ میں نہیں بولے جاتے ۔ بقول عمران وہ نریمان ہاؤس میں موجود تھا ۔ عمران کی گفتگو سے سے لئے گئے کچھ الفاظ مندرجہ ذیل ہیں جو پاکستان کے کسی علاقہ کی زبان سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ کچھ ایسے ہیں جن کا مطلب کسی پاکستانی کو معلوم نہیں ہو گا

1 ۔ پری وار ۔ کون پاکستان میں یہ لفظ استعمال کرتا ہے ؟
2 ۔ جُلم ۔ پاکستان میں ظُلم کہا جاتا ہے
3 ۔ جیاتی ۔ پاکستان میں زیادتی کہا جاتا ہے
4 ۔ جِندگی ۔ پاکستان میں زِندگی کہا جاتا ہے
5 ۔ نَیتا ۔ پاکستان میں سیاستدان کہا جاتا ہے
6 ۔ اتہاس ۔ پاکستان میں تاریخ کہا جاتا ہے
7 ۔ شانتی ۔ پاکستان میں امان کہا جاتا ہے ۔ شانتی ہندو لڑکی کا نام سمجھا جاتا ہے
8 ۔ پرسارن ۔ کون پاکستان میں جانتا ہے کہ یہ کیا ہوتا ہے ؟
9 ۔ اتنک وادی ۔ کون پاکستان میں جانتا ہے کہ یہ کیا ہوتا ہے ؟
10 ۔ کھلنائک ۔ کون پاکستان میں جانتا ہے کہ یہ کیا ہوتا ہے ؟
11 ۔ انائے ۔ کون پاکستان میں جانتا ہے کہ یہ کیا ہوتا ہے ؟ البتہ آدھی صدی قبل امرتسر ریڈیو پر ایک گانا نشر ہوتا تھا ۔ حق دُوجے دا مار مار کے بن گئے لوک امیر ۔ میں ایہنوں کہندا انیائے لوکی کہن تقدیر ۔ اس سے لگتا ہے کہ انیائے کا مطلب گناہ یا ظُلم ہو گا
12 ۔ سکول کو پاٹ شالا کہا ۔ پاکستان میں سکول کو مدرسہ تو کہہ سکتے پاٹ شالا نہیں
13 ۔ شکشن ۔ پاکستان میں سیکشن کہا جاتا ہے
14 ۔ میرے کو ۔ پاکستان میں” مُجھے” کہا جاتا ہے
15 ۔ تمارے کو بول رہے ہیں نا ۔ پاکستان میں “تمہیں کہہ رہا ہوں نا” کہا جاتا ہے
16 ۔ مدھبھیر ۔ کون پاکستان میں جانتا ہے کہ یہ کیا ہوتا ہے ؟

اب متذکرہ گفتگو سُنیئے ۔ اس آڈیو ریکارڈ کی بھارتی حکومت کی طرف سے تردید نہیں کی گئی ۔
watch?v=QhO6rynb1C8

جتھے آوے دا آوا

پنجابی میں ایک کہاوت ہے “اٹ تے رہی اٹ جتھے آوے دا آوا ای وگڑیا ہوے اوتھے کوئی کی کرے”۔ یعنی بھٹے میں اگر کچھ اینٹیں خراب ہوں تو کوئی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے لیکن بھٹے کی سب اینٹیں ہی خراب ہوں تو بہتری کیسے ہو سکتی ہے . میں وطن عزیز کی ایک اعلی سطح کی نجی کمپنی کا حوالہ بطور نمونہ تاجراں دے چکا ہوں ۔ آج حکومت کے اعلی اہلکاروں کا ایک نمونہ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں لیکن پہلے گذشتہ حوالے کی مزید وضاحت ضروری سمجھتا ہوں ۔

میں نے 30 سال کی سرکاری ملازمت کے بعد 53 سال کی عمر ہونے سے قبل ملازمت چھوڑی اور بعد میں 5 سال دو مختلف نجی اداروں کی ملازمت کی اس کے علاوہ بہبود عامہ کے ایک ادارہ کا 16 سال بلامعاوضہ کام کیا ۔ اس سارے تجربہ نے مجھے سکھایا کہ کوئی اکیلا شخص خواہ وہ کتنا ہی بااثر ہو بڑے پیمانے پر غلط کام کر نہیں سکتا ۔ جو بھی روپیہ ملک سے باہر بھیجا گیا ہے ضروری ہے کہ اس میں اعلی عہدے پر فائیز سرکاری افسران اور بااثر سیاسی رہنما شامل ہوں گے   

خبر ۔ ذرائع کے مطابق سوئی ناردرن گیس میں گزشتہ ایک سال کے دوران گیس لاسز اوگرا کے دیئے گئے ہدف سے بڑھ گئے جس کے نتیجہ میں گزشتہ مالی سال میں 2 ارب روپے سے زائد کی گیس چوری ہو گئی ۔ اس صورتحال پر کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے گیس چوری پر قابو پانے اور گیس چوروں کے خلاف آپریشن کی ہدایت کی۔ جب سے ملک میں بڑی تعداد میں سی این جی اسٹیشن لگنا شروع ہوئے تب سے گیس چوری کے اعداد و شمار تیزی سے بڑھے ۔ بالعموم گیس سٹیشنوں کے مالکان حاضر سروس و ریٹائرڈ فوجی اور سول افسران اور سیاستدان ہیں جس کے باعث انہیں ہاتھ ڈالنا مشکل ہے۔ تاہم بگڑتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر کمپنی نے گیس چوری میں ملوث سی این جی سٹیشنوں اور دیگر صنعتی یونٹوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ اس دوران متعدد بار بااثر افراد کے سی این جی سٹیشنوں کے کنکشن کاٹ دیئے گئے جس پر سخت ردعمل سامنے آیا۔ آپریشن کے دوران شیخوپورہ میں سوئی ناردرن کے عملہ پر تشدد کیا گیا جبکہ ایک سابق ایم این اے کے سی این جی اسٹیشن کا کنکشن کاٹنے پر ایک وفاقی وزیر نے اس کا کنکشن بحال کرنے پر زبردست دباؤ ڈالا ۔ اس سلسلہ میں اب تک ہونے والے پرچے اور جرمانہ بھی واپس لینے کے لئے زبردست سیاسی دباؤ آ رہا ہے۔ دوسری طرف ہفتہ کے روز اس آپریشن کے انچارج افسر پر فائرنگ کے بعد کارکنوں نے کام کرنا چھوڑ دیا اور افسران نے اعلیٰ انتظامیہ سے تحفظ کا مطالبہ کر دیا