Category Archives: تجزیہ

کوئی ہے جو بتائے مجھ کو

سوچ سوچ کے میں مر جاؤں
اس گتھی کو سلجا نہ پاؤں
بات سمجھ نہ آئے مجھ کو
کوئی ہے جو بتائے مجھ کو

لبرٹی حملہ کے بارے میں جُوں جُوں حالات سامنے آ رہے ہیں معاملہ اُلجھتا ہی جا رہا ہے ۔ کچھ حقائق میں کل لکھ چکا ہوں ۔ مشیرِ داخلہ تو بھارت کا نام لینے سے ڈرتے ہیں اور اس واقعہ کا ذمہ دار جماعت الدعوہ ۔ طالبان یا القاعدہ کو ٹھہرانے کی پوری کوشش میں ہیں لیکن حالات و واقعات اس میں حکومتی مشینری کے کسی کل پُرزے کے ان ملک دُشمن سرگرمی میں منسلک ہونے کی طرف جا رہیں اور رحمان ملک ایسے معاملات کے ماہر تصور کئے جاتے ہیں

مجھے کل بھی کسی نے بتایا تھا لیکن بات ہی کچھ ایسی تھی کہ میری سمجھ میں نہ آ سکی بلکہ کوئی اور بھی ہوتا تو نہ سمجھ پاتا ۔ حملہ شروع ہونے کے بعد ہوا یوں کہ کچھ کھلاڑی زخمی ہوئے لیکن بس کا ڈرائیور بچ گیا اور وہ بس کو چلا کر بحاظت سٹیڈیم پہنچ گیا ۔ کھلاڑیوں کی بس کے پیچھے پولیس کی گاڑی تھی جس میں سوار پولیس کے نوجوان پیچھے آنے والے ایمپائروں اور صحافیوں کی جان بچاتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گئے

ایمپائروں کی گاڑی کے ڈرائیور کی گردن میں گولی لگی اور وہ شہید ہو گیا ۔ ایک نوجوان سپاہی جس کی ٹانگ میں گولی لگ چکی تھی وہ ایمپائروں کی گاڑی فرسٹ گیئر میں جتنا تیز ہو سکا چلا کر سٹیڈیم کی طرف روانہ ہوا کیونکہ بائیں ٹانگ زخمی ہونے کی وجہ سے گیئر تبدیل نہ کر سکا ۔ سٹیڈیم کے گیٹ کے قریب پہنچ کر اُسے ایک اور گولی لگی اور وہ شہید ہو گیا ۔ یہ گولی ہاکی سٹیڈیم کی چھت سے آئی تھی جو کرکٹ سٹیڈیم کے قریب ہے

یعنی کرکٹ سٹیڈیم کے بالکل قریب ہی ہاکی سٹیڈیم کی چھت پر حملہ آوروں میں سے کم از کم ایک موجود تھا ۔
یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا ؟

اس سلسلہ میں نواز شریف کا یکم مارچ کا بیان اہم بن جاتا ہے جو جیو نیوز کے حامد میر کے مطابق اُس نے اُسی دن صدر آصف زرداری کو پہنچا دیا تھا اور زرداری صاحب نے مسترد کر دیا تھا ۔ نواز شریف نے کہا تھا کہ لیاری کراچی کے مشہور رحمان ڈکیت کا تربیت یافتہ گروہ پنجاب میں داخل ہو چکا ہے جو کوئی ایسا بڑا واقعہ کر سکتے ہیں جس سے لانگ مارچ کو روکنے کا جواز پیدا ہو ۔ نواز شریف کے مطابق اُن کا ہدف وہ خود بھی ہو سکتے ہیں

لبرٹی حملہ

لبرٹی حملہ کے مصدقہ واقعات مختصر طور پر لکھ دیتا ہوں ۔ قارئین سے التماس ہے کہ اپنے ذہنوں کو ہر خبر اور تبصرہ سے صاف کر کے اسے پڑھیں اور پھر نیچے درج شدہ میرے سوالات کا جواب دیں

1 ۔ جب بھارت سمیت تمام ممالک نے پاکستان میں آ کر کھیلنے سے انکار کر دیا تھا تو سری لنکا کی ٹیم نے پاکستان آ کر کھیلنے کا اعلان کیا ۔ بھارت نے سری لنکا پر بہت زور ڈالا کہ ٹیم پاکستان نہ بھیجے کیونکہ وہاں ان کی جان کو خطرہ ہو گا لیکن سری لنکا نے بھارت کا مشورہ نہ مانا

2 ۔ صدرِ پاکستان نے سری لنکا کو یقین دلایا کہ سری لنکا کی ٹیم کو وہ سکیورٹی مہیا کی جائے گی جو صدرِ پاکستان کو مہیا کی جاتی ہے

3 ۔ لاہور میں ایک روزہ میچ 25 جنوری کو تھا پھر ٹیسٹ میچ مارچ کے پہلے ہفتہ میں ہونا تھا

4 ۔ پاکستان کے ایک خفیہ ادارے کو اطلاع ملی کہ بھارت کی راء نے سری لنکا کی ٹیم پر حملہ کی منصوبہ بندی کی ہے اور حملہ ہوٹل سے سٹیڈیم جاتے ہوئے ہو گا چنانچہ اس ادارے کے سربراہ ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل پولیس نے 22 جنوری کو تحریری طور پر مندرجہ ذیل اعلٰی عہدیداروں کو اس سے آگاہ کیا
مرکزی حکومت کے سیکریٹری داخلہ
پنجاب کے چیف سیکریٹری ۔ سیکریٹری داخلہ ۔ وزیرِاعلٰی کے سیکریٹری اور انسپیکٹر جنرل پولیس
لاہور کے کمشنر اور سی سی پی او

5 ۔ وزیرِ اعلٰی پنجاب نے 23 جنوری کو اعلٰی سطح کا اجلاس بُلایا جس میں اس صورتِ حال پر غور کر کے لائحہ عمل تیار کیا گیا اور متعلقہ عہدیداروں نے مجوزہ ہوٹل سے سٹیڈیم تک کا جائزہ لے کر مناسب انتظامات کئے

6 ۔ خاطر خواہ حفاظتی تدابیر کے باعث 25 جنوری کو سری لنکا کے ساتھ ایک روزہ میچ خیر خیریت سے ہوا

7 ۔ صدر نے 25 فروری کو پنجاب میں گورنر راج نافذ کر کے اسمبلی کی تالہ بندی کر دی جس سے پورے پنجاب اور سب سے زیادہ لاہور میں زبردست کھلبلی مچ گئی ۔ ارکان اسمبلی اور سینکڑوں دوسرے افرادکو گرفتار کرنے کے باعث بحران مزید بڑھ گیا

8 ۔ گورنر نے 27 فروری تک پنجاب بالخصوص لاہور کی انتظامیہ اور پولیس کے تمام اعلٰی افسران بشمول تھانیداروں کو تبدیل کر دیا جن میں سے کئی کو او ایس ڈی بنا دیا ۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے لیڈر پنجاب اسمبلی کے 371 اراکان میں سے 250 ارکان کی حمائت کا دعوٰی کر کے گورنر پنجاب اور ایک گمنام قسم کے سینیٹر کی سربراہی میں ارکان پنجاب اسمبلی کے گھیراؤ ۔ ڈراؤ ۔ خرید اور جوڑ توڑ میں مشغول ہو گئے

9 ۔ پنجاب کا گورنر راج پورے انہماک اور جانفشانی سے مسلم لیگ ن کا ساتھ دینے والے ارکان پنجاب اسمبلی کو توڑنے کی ناکام کوشش میں گم تھا کہ لاہور میں سری لنکا اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ شروع ہو گیا

10 ۔ بروز منگل بتاریخ 3 مارچ 2009ء سری لنکا کا پاکستان کے ساتھ میچ کا تیسرا دن تھا ۔ سری لنکا کی کرکٹ ٹیم ہوٹل سے روانہ ہوئی ۔ پچھلے دنوں کے بر عکس مقررہ راستہ کو نمعلوم کس کی ہدائت پر تبدیل کر دیا گیا اور بجائے تیز رفتار راستہ یعنی فیروز پور روڈ سے آنے کے ٹیم کو گلبرگ مین بلیوارڈ سے لایا گیا جس کے نتیجہ میں رفتار تیز نہ ہو سکی اور پھر لبرٹی چوک کے بہت بڑے دائرے [round-about] کے گرد بہت سُست ہونا لازمی تھا جہاں اُنہیں 90 درجے سے زیادہ کا زاویہ بناتے ہوئے مُڑنا بھی تھا

11 ۔ لبرٹی مارکیٹ صبح 10 بجے کے بعد کھُلنا شروع ہوتی ہے اور دوپہر 12 بجے تک پوری کھُلتی ہے ۔ یہاں دفاتر بھی 9 اور 10 بجے کے درمیان کھُلتے ہیں

12 ۔ صدر کے سری لنکا سے کئے ہوئے وعدے کے برعکس سری لنکا کے کھلاڑیوں کو عام بس پر لایا گیا جس کے آگے ایک موٹر سائکل سوار ٹریفک وارڈن تھا ۔ اس کے پیچھے بند گاڑی کے اندر اے ایس پی اور تین پولیس والے بیٹھے تھے ۔ بس کے پیچھے ایک اور پولیس کی بند گاڑی تھی جس میں پانچ پولیس والے بیٹھے تھے ۔

13 ۔ لبرٹی چوک پر صرف ایک ٹریفک وارڈن موجود تھا جو حملہ شروع ہوتے ہی زمین پر لیٹ گیا اور پھر ایک ستوپے کے پیچھے چھُپ کر جان بچائی ۔ اس کے علاوہ وہاں کوئی وردی والا یا بغیر وردی پولیس یا خُفیہ ادارے کا اہلکار موجود نہ تھا جبکہ ایسے مواقع پر درجنوں کی تعداد میں وردی اور بغیروردی والے اس جگہ موجود ہوتے ہیں

14 ۔ یہ قافلہ صبح 8 بج کر 42 منٹ پر چوک میں داخل ہوا تو لبرٹی چوک کے درمیانی دائرے میں اور سڑک کے دوسری طرف 8 حملہ آور جو تین تین اور دو کی ٹولیوں میں اپنی خودکار بندوقیں سنبھالے گھات لگائے بیٹھے تھے نے تین اطراف سے اس پر حملہ کر دیا جس کی ابتداء کھلاڑیوں کی بس پر دو گرینیڈ پھینک کر کی گئی لیکن یہ بس کو نہ لگے پھر گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی ۔ پہلا شہید ٹریفک وارڈن تھا ۔ جو سب سے آگے تھا ۔ اُس کے پیچھے اے ایس پی کی گاڑی کے ٹائر میں گولی لگی لیکن گاڑی روکی نہ گئی ۔ بس پر ایک راکٹ چلایا گیا جو بس کو چھوتا ہوا ایک دکان کو جا لگا ۔ اتنی دیر میں بس کے پیچھے آنے والی پولیس کی گاڑی سامنے آ گئی ۔ ایک پولیس جوان جونہی باہر نکلا وہ گولیوں کا نشانہ بنا ۔ یہ پانچوں پولیس والے شہید ہو گئے

15 ۔ بس ڈرائیور نے پہلے بس روکی پھر اُس نے بس بھگائی اور سٹیڈیم کی طرف مُڑ گیا ۔ حملہ آوروں نے بس کا پیچھا کیا ۔ سٹیڈیم کی طرف سے پولیس کا ایگل سکواڈ آیا اور فائرنگ کا جواب دیا اور وہ بھی زخمی ہوئے ۔ حملہ آوروں میں سے کوئی زخمی تک نہ ہوا

16 ۔ فائرنگ کا سلسلہ 25 منٹ جاری رکھنے کے بعد حملہ آور لبرٹی چوک کے بازو والی ایک سڑک کی طرف گئے جہاں وہ بڑے اطمینان سے ٹہلتے ہوئے اپنے تین موٹر سائکلوں تک پہنچے اور یکے بعد دیگرے روانہ ہو گئے ۔ صرف دو نے اپنے تھیلے پھینک دیئے باقی نے نہیں پھنکے ۔ ہر موٹر سائکل پر ایک یا دو کے ہاتھوں میں خود کار بندوقیں موجود تھیں جو صاف نظر آ رہی تھیں ۔ جب تیسرا موٹر سائکل سٹارٹ ہوا تو صبح کے 9 بج کر 44 منٹ ہوئے تھے

17 ۔ جب حملہ آور اپنی 25 منٹ کی کاروائی کے بعد لبرٹی چوک سے روانہ ہو رہے تھے تو یکے بعد دیگرے پولیس کی دو گاڑیا لبرٹی چوک پہنچیں جن میں سے ایک لبرٹی مارکیٹ کی طرف مڑ گئی اور حملہ آوروں کے بالکل قریب سے گذرتی ہوئی گئی ۔ دوسری جدھر سے آئی تھی واپس مُڑ کر اُدھر ہی چلی گئی

سوال

1 ۔ ملکی حالات ٹھیک نہیں ہیں ۔ خفیہ ادارے کی رپورٹ بھی سامنے آ چکی تھی ۔ ایک غیر ملکی ٹیم آئی ہوئی تھی ۔ ویسے بھی سٹیڈیم میں اتنا ہجوم شائقین کا ہونا تھا تو اردگرد کے علاقہ میں پولیس اور خفیہ کے اہلکار کیوں تعینات نہ کئے گئے ؟

2 ۔ کھیل کے تیسرے دن کھلاڑیوں کو لیجانے کیلئے تیز رفتار راستہ چھوڑ کر اچانک سُست پُرہجوم ایسا راستہ کیوں اختیار کیا گیا جس میں ایک گلگوٹ [bottle neck] لبرٹی چوک کا دائرہ [round-about] بھی تھا ؟

3 ۔ کھلاڑیوں کے آگے اور پیچھے چلنے والی پولیس بند گاڑیوں میں بیٹھنے کی بجائے کھُلی گاڑیوں میں تیار حالت [ready to attack position] میں کیوں نہ تھی ؟

4 ۔ اس طرح کا حملہ ہونے کے بعد پولیس اور ایجنسیوں کے اہلکار 15 منٹ میں پورے علاقے کو چاروں طرف سے گھیر لیتے ہیں ۔ اس واقعہ میں حملہ آوروں نے 25 منٹ کاروائی جاری رکھی جس کے بعد اطمینان سے مزید 37 منٹ جائے واردات کے قریب رہے اور آسانی سے فرار ہو گئے جبکہ پولیس تھانہ بھی وہاں سے قریب ہی تھا اور یقینی طور پر تھانے میں فائرنگ کی آواز سُنی گئی ہو گی ۔ ایسا کیوں کر ہوا ؟

5 ۔ پولیس کی جو دو گاڑیاں حملہ آوروں کے فرار ہوتے وقت لبرٹی چوک میں پہنچیں اُن میں بیٹھی پولیس نے حملہ آوروں کو پکڑنے یا اُن کا تعاقب کرنے کی کوشش کیوں نہ کی ؟

لبرٹی حملہ نااہلی تھا یا ملی بھگت

سری لنکا کے کھلاڑیوں پر حملہ کے بعد 24 گھنٹوں کے اندر میں جو کچھ سن چکا تھا دل و دماغ اسے ماننے کیلئے تیار نہ تھا ۔ میں آج دو پہ اور پھر سہ پہر کو یعنی دو بار لکھتے لکھتے ڈر کر رُک گیا کہ قارئین کہیں مجھ پر حملہ کر کے میرا منہ ہی نہ نوچ ڈالیں ۔ اب کہ جیو ٹی نے وہ وڈیو چلا دی ہے جس سے میری سنی ہوئی باتیں درست ثابت ہو گئی ہیں تو لکھنے کی ہمت ہوئی ہے ۔

گذشتہ رات سلمان تاثیر اور رحمان ملک سمیت سرکاری اہلکاروں نے بلند بانگ دعوے کئے تھے اور حملہ آور 12 بتائے تھے ۔ اُن کی کارکردگی کا پول لاہور والوں کے سامنے تو کل ہی کھُل گیا تھا اور مجھے بھی کسی نے بتا دیا تھا ۔ حملہ آور جو کُل 8 تھے اور تین تین اور دو کی ٹولیوں میں حملہ آور ہوئے تھے ۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ کل صبح 8 بج کر 42 منٹ پر حملہ شروع ہوا اور 25 منٹ جاری رہا ۔ اس کے بعد حملہ آور بڑے اطمینان سے ٹہلتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوئے اور ایک قریبی سڑک پر جا کر موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر فرار ہوئے ۔ جب تیسری ٹولی موٹر سائکل پر روانہ ہوئی اس وقت 9 بج کر 44 منٹ ہوئے تھے

لاہور کے لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ رحمان ملک کی زیرِ نگرانی ہوا ہے ورنہ ایسے ہو ہی نہیں سکتا کہ حملہ ہونے کے بعد پولیس اور ایجنسیاں پورے علاقے کو چاروں طرف سے نہ گھیر لیتیں اور نہ حملہ آور اس آسانی سے فرار ہو سکتے تھے ۔ خیال رہے کہ حملہ سے ایک دن قبل یعنی پیر کے روز رحمان ملک لاہور میں سلمان تاثیر کے ساتھ خصوصی میٹنگ گر کے آئے تھے

سری لنکا کے کھلاڑوں پر حملہ ۔ ایک تجزیہ

میں قارئین کا شکرگذار ہوں جنہوں نے میری صبح کی تحریر پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے ۔ میں صبح کچھ سودا سلف لینے گیا تھا ۔ واپس پہنچا تو میری ایک بھتیجی آئی بیٹھی تھی جو اسلام آباد ہی میں رہتی ہے ۔ اُس نے بتایا کہ” لاہور میری بھانجی کے گھر کے قریب فائرنگ ہو رہی ہے”۔ قذافی سٹیڈیم کے قریب میرا ایک پھوپھی زاد بھائی بھی رہتا ہے ۔بھانجی سے رابطہ کیا تو اُس نے بتایا کہ اُس کا خاوند بچی کو صبح سکول چھوڑنے نکلا تو کوئی 15 منٹ بعد دو گرینیڈ چلنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی متواتر فائرنگ شروع ہو گئی جو کہ 25 منٹ جاری رہی ۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے”۔ اس کے بعد ہم ٹی وی دیکھنے لگ گئے ۔

اب تک جو کچھ مختلف ٹی وی چینلز پر دکھایا اور کہا گیا ہے اس سے مندجہ ذیل عمل واضح ہوتے ہیں

1 ۔ حملہ آور 25 منٹ منظر پر موجود رہے اور پوری تسلی سے کاروائی کرتے رہے ۔ پھر فرار ہو گئے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ کوئی حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے اور نہ ایسے واقعات سے نبٹنے کی کوئی تیاری تھی ۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ حکومت کا کہیں وجود ہی نہیں ہے

2 ۔ پنجاب میں اپنے ہی پیدا کردہ بحران پر غور کرنے کیلئے گورنر ہاؤس میں روزانہ رات گئے تک اجلاس ہوتے رہے مگر اس میں کرکٹ ٹیموں اور شائقین کی حفاظت کے بندوبست کا ذکر تک نہ آیا

3 ۔ صدر ۔ گورنر پنجاب اور اُن کے حواری صوبائی اسمبلی کے ارکان کی جوڑ توڑ اور سرکاری اہلکاروں کی اُکھاڑ پچھاڑ میں اس قدر محو تھے کہ اُن میں سے کسی کو لاہور میں ہونے والے کرکٹ میچ کی سکیورٹی کا خیال ہی نہ آیا

4 ۔ سب کچھ ہو جانے کے بعد بیان دیئے جا رہے ہیں کہ حملہ آوروں کو جلد زندہ یا مردہ گرفتار کر لیا جائے گا ۔ کسی مسکین غریب کی شامت آئی لگتی ہے ۔ جو حکومتی اہلکار 25 منٹ کی کاروائی ڈالنے والوں کا کچھ نہ بگاڑ سکے وہ غائب ہو جانے والوں کو کہاں سے پکڑ لائیں گے ؟
5 ۔ حسب سابق اسلحہ کے ساتھ کچھ خودکُش حملہ میں استعمال ہونے والی جیکٹیں برآمد کی گئی ہیں ۔ کیا یہ قرینِ قیاس ہے کہ جو جیکٹیں استعمال ہی نہ کرنا تھیں کیونکہ پہنی ہوئی نہ تھیں وہ حملہ آور ساتھ کیوں لائے تھے ۔ کیا اپنا بوجھ بڑھانے کیلئے یا پولیس کو تحفہ دینے کیلئے ؟ نمعلوم کب تک ہمارے نااہل حکمران ہمیں اور اھنے آپ کو دھوکہ دیتے رہیں گے

6 ۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ جن شخص کو سلمان تاثیر نے زرداری کی منظوری سے پنجاب کا انسپیکٹر جنرل پولیس لگایا ہے یہ وہی شخص ہے جو اُن دنوں گوجرانوالہ کا ڈپٹی انسپیکٹر جنرل پولیس تھا جب نانو گورایہ نے ٹھگی کا بازار گرم کر رکھا تھا اور یہ صاحب اس لوٹ مار کے حصہ دار بھی تھے ۔ یہ تو گیدڑ کو چوزوں کی رکھوالی پر لگانے کے مترادف ہے

7 ۔ اگر ممبئی حملوں سے اب تک کے بھارتی حکومت کے وزراء اور دوسرے اہلکاروں کے بیانات پر غور کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ یہ کام بھارتی حکومت کے علاوہ کسی کا نہیں ہے لیکن ہماری حکومرانوں کے پاجامے اور پتلونیں خراب ہوئی جا رہی ہیں

کیا گورنر راج کا جواز ہے ؟

گونر راج کا نفاذ آئین کی شق 234 کے تحت کیا گیا ہے جو نیچے نقل کی گئی ہے ۔ یہ شق صرف ایمرجنسی کی صورت میں نافذ ہو سکتی ہے جب صوبے کی حکومتی میشینری ناکام ہو جائے جبکہ پنجاب میں ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوئی تھی صرف وزیر اعلٰی کو نااہل قرار دیا گیا تھا ۔ آئین کی رو سے سینئر وزیر جو کے پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتا تھا فوری طور پر وزیر اعلٰی کا عہدہ سنبھال سکتا تھا اور پنجاب اسمبلی کا اجلاس بلا کر نئے وزیر اعلٰی کا انتخاب 7 دن کے اندر کرنا تھا ۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ پنجاب کی اسمبلی کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے جو کہ آئین کی اسی شق یعنی 234 کی خلاف ورزی ہے [Article 234 (1) (a)
]
کچھ حقائق
پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ [ن] کے 171 ارکان ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے 107 اور مسلم لیگ [ق] کے 85 ہیں ۔ ارکان کی کل تعداد 370 ہے اسلئے اکثریت بنانے کیلئے 186 ارکان کی ضرورت بنتی ہے ۔

حکومت بنانے کیلئے مسلم لیگ [ن] کو مزید 14 ارکان کی حمائت چاہیئے ۔ پہلے ہی سے مسلم لیگ فنکشنل کے 3 اور متحدہ مجلس عمل کے تین ارکان اُن کے ساتھ ہیں ۔ صدارتی الیکشن میں مسلم لیگ [ن] کے اُمید وار کو 201 ووٹ ملے تھے جبکہ مسلم لیگ [ق] کا اُمیدوار بھی میدان میں تھا ۔ اس کا مطلب ہوا کہ مسلم لیگ [ن] کو مسلم لیگ [ق] کے کم از کم 24 ارکان کی پہلے سے ہی حمائت حاصل ہے اور سننے میں آیا ہے کہ یہ تعداد اب بڑھ چکی ہے ۔

پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کیلئے مزید 79 ارکان کی ضرورت ہے جو کہ 5 آزاد اور 85 مسلم لیگ [ق] کے ارکان میں سے پورے کرنا تھے ۔ مسلم لیگ [ق] کے کم از کم 24 ارکان مسلم لیگ [ن] کے حمائتی ہو جانے کے بعد 61 ارکان بچتے ہیں ان میں سے بھی کئی پیپلز پارٹی کی حمائت کیلئے راضی نہیں ۔ اگر پیپلز پارٹی کسی طرح 5 آزاد ارکان کو اپنے ساتھ ملا لے پھر بھی اُسے مزید 74 ارکان کی ضرورت ہے جو کہ فی الحال ناممکن ہے ۔

اسی وجہ سے گورنر راج نافذ کیا گیا ہے ۔ دیگر اسمبلی کو آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس لئے کام کرنے سے روکا گیا ہے کہ اجلاس ہونے کی صورت میں وہ اپنا وزیر اعلٰی چن لیں گے جو مسلم لیگ [ن] کا ہی ہو گا اور شہباز شریف کو عدالت کے ذریعہ نااہل قرار دلوانے کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا ۔

234. Power to issue Proclamation in case of failure of constitutional machinery in a Province.
(1) If the President, on receipt of a report from the Governor of a Province or otherwise, is satisfied that a situation has arisen in which the Government of the Province cannot be carried on in accordance with the provisions of the Constitution, the President may, or if a resolution in this behalf is passed at a joint sitting shall, by Proclamation,
(a) assume to himself, or direct the Governor of the Province to assume on behalf of the President, all or any of the functions of the Government of the Province, and all or any of the powers vested in, or exercisable by, any body or authority in the Province, other than the Provincial Assembly;
(b) declare that the powers of the Provincial Assembly shall be exercisable by, or under the authority of, Parliament; and
(c) make such incidental and consequential provisions as appear to the President to be necessary or desirable for giving effect to the objects of the Proclamation, including provisions for suspending in whole or in part the operation of any provisions of the Constitution relating to any body or authority in the Province:
Provided that nothing in this Article shall authorize the President to assume to himself, or direct the Governor of the Province to assume on his behalf, any of the powers vested in, or exercisable by, a High Court, or to suspend either in whole or in part the operation of any provisions of the Constitution relating to High Courts.

(2) The Provisions of Article 105 shall not apply to the discharge by the Governor of his functions under clause (1).

(3) A Proclamation issued under this Article shall be laid before a joint sitting and shall cease to be in force at the expiration of two months, unless before the expiration of that period it has been approved by resolution of the joint sitting and may by like resolution be extended for a further period not exceeding two months at a time; but no such Proclamation shall in any case remain in force for more than six months.

(4) Notwithstanding anything contained in clause (3), if the National Assembly stands dissolved at the time when a Proclamation is issued under this Article, the Proclamation shall continue in force for a period of three months but, if a general election to the Assembly is not held before the expiration or that period, it shall cease to be in force at the expiration of that period unless it has earlier been approved by a resolution of the Senate.

(5) Where by a Proclamation issued under this Article it has been declared that the powers of the Provincial Assembly shall be exercisable by or under the authority of Parliament, it shall be competent-
(a) to Parliament in joint sitting to confer on the President the power to make laws with respect to any matter within the legislative competence of the Provincial Assembly;
(b) to Parliament in joint sitting, or the President, when he is empowered under paragraph (a), to make laws conferring powers and imposing duties, or authorizing the conferring of powers and the imposition of duties, upon the Federation, or officers and authorities thereof;
(c) to the President, when Parliament is not in session, to authorize expenditure from the Provincial Consolidated Fund, whether the expenditure is charged by the Constitution upon that fund or not, pending the sanction of such expenditure by Parliament in joint sitting; and
(d) to Parliament in joint sitting by resolution to sanction expenditure authorized by the President under paragraph (c).

(6) Any law made by Parliament or the President which Parliament or the President would not, but for the issue of a Proclamation under this Article, have been competent to make, shall, to the extent of the incompetency, cease to have affect on the expiration of a period of six months after the Proclamation under this Article has ceased to be in force, except as to things done or omitted to be done before the expiration of the said period.

پہاڑوں پر لگی آگ

پہاڑوں پر لگی آگ تو اچھی لگتی ہے
اپنے گھر کی لگی کچھ اور ہوتی ہے

کم عقلی یہ ہے کہ اکثر ہموطن اپنے مُلک کو اپنا گھر نہیں سمجھتے ۔ پچھلے ایک ہفتہ میں اخبارات اور رسائل میں چھپنے والے مضامین اور خطوط اور مختلف ٹی مذاکرات میں ناقدوں کے مندرجہ ذیل خدشات کا اظہار کیا

1 ۔ طالبان کی بات مان کر اُنہیں شہ دی گئی ہے اب جو کوئی [غُنڈہ] اُٹھے گا اسی طرح اپنی بات منوا لے گا
2 ۔ وہ [طالبان] پورے پاکستان میں اپنی حکومت بنانے کے خواب دیکھیں گے
3 ۔ پورے پاکستان میں لڑکیوں اور عورتوں کو گھروں میں بند کر دیا جائے گا یا غلام بنا لیا جائے گا
4 ۔ کونسی شریعت نافذ کریں گے ۔ ہر مسجد کی علیحدہ شریعت ہے
5 ۔ طالبان کا اسلام نافذ کیا جا رہا ہے
6 ۔ ریاست کے اندر ریاست بنائی جا رہی ہے ۔ حکومت کی عملداری کو للکارا جا رہا ہے

سوات کے موجودہ حالات کا پس منظر میں کل بیان کر جکا ہوں ۔ اخبارات اور رسائل میں چھپنے والے مضامین اور خطوط اور مختلف ٹی وی چینلز پر مذاکروں پر غور کرتے ہوئے مجھے دو پرانے واقعات یاد آ گئے

سوا 43 سال قبل جب بین الاقوامی پروازیں صرف کراچی آتی جاتی تھیں جرمنی جا تے ہوئے میں دو دن پی ای سی ایچ ایس کراچی میں اپنے ماموں کے ہاں ٹھہرا ۔ شام کو ماموں کچھ بڑے کاروباری لوگوں سے ملنے جا رہے تھے مجھے بھی ساتھ لے گئے ۔ وہاں تین چار بزرگان تھے جو خاصے پڑھے لکھے لگتے تھے ۔ ماموں نے میرا تعارف کرایا تو اُن میں سے ایک بولے “اچھا اُس فیکٹری میں کام کرتے ہو جہاں لِپ سٹِک [Lip stick] بنتی ہے”۔ اور پھر مُسکرا کر جُملہ کسا “اور کچھ تو بنا نہیں سکے”۔ اُس وقت صرف اُس فیکٹری میں جس میں میں اسسٹنٹ ورکس منیجر تھا میں اور میرے ساتھی اللہ کے فضل سے رائفل جی تھری ڈویلوپ [develop] کر کے اُس کی ماس [mass] پروڈکشن شروع کروا چکے تھے اور مجھے کارکردگی کی بناء پر جرمن مشین گن کی پلاننگ اور ڈویلوپمنٹ کیلئے چُنا گیا تھا اور میں اسی سلسلہ میں جرمنی جا رہا تھا ۔ چنانچہ سمجھتے ہوئے کہ موصوف پاکستان آرڈننس فیکٹری کی الف بے بھی نہیں جانتے اور ایسے ہی یاوا گوئی کر رہے ہیں میں خاموش رہا کیونکہ وہ بزرگ تھے اور ماموں کے جاننے والے تھے اور میں نوجوان ۔ دوسرے اُن دنوں میرا اپنی حیثیت اور کام بیان کرنا قرینِ محب الوطنی نہ تھا

دوسرا واقعہ ۔ پینتیس چھتیس سال پیچھے کا ہے جب میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز کی پانچ بڑی فیکٹریوں میں سے ایک ویپنز فیکٹری میں دس گیارہ سال نہ صرف گذار چکا تھا بلکہ اللہ کے فضل سے اُسے سمال آرمز گروپ سے ویپنز فیکٹری بنانے میں میرا بہت بڑا حصہ تھا اور اُن دنوں ویپنز فیکٹری کا قائم مقام سربراہ [Acting General Manager] تھا ۔ ایک دن میں ایک عوامی جگہ [public place] پر بیٹھا تھا ۔ میرے قریب ایک شخص بڑی سنجیدگی سے ویپنز فیکٹری کے متعلق اپنی معلومات کے خزانے اپنے دو ساتھیوں پر لُٹا رہا تھا اور وہ بڑے انہماک کے ساتھ سُن رہے تھے ۔ اُس شخص کی یاوہ گوئی جب ناممکنات کی حد پار کر گئی تو مجھ سے نہ رہا گیا ۔ میں نے معذرت طلب کرتے ہوئے مداخلت کی اور کہا “بھائی صاحب ۔ ایسا ممکن نہیں ہے”۔ وہ شخص بڑے وثوق سے بولا “جناب ۔ آپ کو نہیں معلوم میں سب جانتا ہوں ۔ بالکل ایسا ہی ہے”۔ میں نے اُسے پوچھا “آپ فیکٹری میں ملازم ہیں ؟” جواب ملا “نہیں”۔ میں نے پوچھا “آپ کا کوئی قریبی عزیز فیکٹری میں ملازم ہے ؟” جواب ملا “نہیں”۔

ہمارے اکثر ہموطنوں کا خاصہ ہے کہ جو کچھ اُنہوں نے دیکھا ہو اُس کے متعلق وہ کچھ جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں لیکن جو اُنہوں نے نہیں دیکھا اُس کے متعلق وہ سب کچھ جانتے ہیں ۔ بقول شخصے بند لفافے کے اندر پڑے خط کا مضمون پڑھ لیتے ہیں ۔ سوات کے معاملہ میں بھی بالکل ایسا ہی ہو رہا ہے ۔ جو لوگ سوات میں رہتے ہیں اور وہاں کے حالات سے واقف ہیں اُن بیچاروں کی آواز بے بنیاد غُوغا میں گُم ہو کر رہ گئی ہے

متذکرہ بالا خدشات کی عمومی وضاحت یہ ہے

1 ۔ طالبان کی بات کسی نے نہیں مانی اور نہ شہ دی ہے جو کام سالوں پہلے ہو جانا چاہیئے تھا وہ ہونے کی اُمید ہے ۔ اللہ کرے کہ ایسا ہو جائے اور ہمارا ملک خانہ جنگی سے بچ جائے ۔ مذاکرات تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سربراہ صوفی محمد کے ساتھ امن اور سوات میں اسلامی نظامِ عدل کے نفاذ کے متعلق ہوئے ہیں ۔ صوفی محمد کو یہ کام سونپا گیا ہے کہ پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کر کے اُنہیں امن قائم کرنے پر آمادہ کریں ۔ اس کے عِوض سوات میں اسلامی نظامِ عدل کا نفاذ کر دیا جائے گا ۔ کام بہت دشوار ہے ۔ اللہ بہتری فرمائے ۔ “جو کوئی اُٹھے گا بات منوالے گا” کا جہاں تک تعلق ہے اُس کی اس سلسلہ میں تو کم اُمید ہے البتہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں کراچی ہو یا لاہور کوئٹہ ہو یا اسلام آباد بات اُسی کی مانی جا رہی ہے جو طاقتور ہے اور عوام پِس رہے ہیں ۔ پھر ایسا سوال صرف قبائلی علاقہ کیلئے کیوں اُٹھایا جاتا ہے ؟

2 ۔ قبائلی علاقہ سے باہر آنے کی طالبان کو ضرورت نہیں ۔ یہاں اُن جیسے لاکھوں کو چکر دینے والا ایک سے ایک بڑھ کر ہزاروں موجود ہیں

3 ۔ غُصہ اور ردِعمل یا انتقام میں کئے گئے فیصلے درست نہیں ہوتے ۔ سکولوں کو تباہ کرنا غلط عمل ہے اس کی حمائت کوئی نہیں کرے گا ۔ اگر طالبان کا منصوبہ سکولوں کو تباہ کرنا ہوتا تو ایسا کیوں ہوا کہ ایک سال قبل تک مرکزی حکومت کے زیرِانتظام قبائلی علاقہ میں ایک بھی سکول تباہ نہیں ہوا تھا جبکہ وہ علاقہ پاکستانی طالبان کا منبع ہے اور طالبان کی تعداد بھی وہاں بہت زیادہ ہے اور وہاں طالبان کے خلاف فوجی کاروائی 2004ء سے جاری ہے ۔ پچھلے ایک سال میں باجوڑ میں 34 اور مالا کنڈ میں 200 کے قریب لڑکوں اور لڑکیوں کے سکول تباہ ہوئے ہیں ۔ شمالی اور جنوبی وزیرستان جو طالبان کا گڑھ ہیں میں کوئی سکول تباہ نہیں ہوا ۔ طالبان کا دعوٰی ہے کہ وہ سکول تباہ کیا جاتا ہے جہاں سیکیورٹی فورسز اپنا مورچہ بناتی ہیں ۔ جہاں تک عورتوں کو بند کرنے کا تعلق ہے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جنوبی پنجاب اور اس سے بڑھ کر سندھ میں کیا ہو رہا ہے ۔ لڑکیوں کی نعوذ باللہ قرآن سے شادی ۔ لڑکیوں کی مرضی کے خلاف شادی ۔ لڑکیوں کو سکول نہ بھیجنا یا پرائمری سے زیادہ پڑھنے نہ دینا ۔ کیا یہ سب کچھ یہاں نہیں ہو رہا ؟ کیا اس کی وجہ اسلامی شریعت ہے ؟

4 ۔ اوّل تو اسلامی شریعت نافذ کرنے کی فریقین میں بات ہی نہیں ہوئی ۔ اسلامی نظامِ عدل مکمل اسلامی شریعت نہیں ہے گو کہ یہ اسلامی شریعت کے بنیادی خوائص میں سے ہے ۔ دیگر مجوزہ نظامِ عدل ریگولیشن مکمل اسلامی نہیں ہے ۔ بہت افسوس ہوتا ہے ایسے مفکّروں پر جنہوں نے شاید قرآن شریف کو بھی غور سے نہیں پڑھا اور ہر مسجد کی علیحدہ شریعت بناتے پھر رہے ہیں ۔ تفصیل میں جائے بغیر میں عرض کر دوں کہ اسلامی شریعت صرف ایک ہی ہے اور اس کی بنیاد ۔ اوّل قرآن ۔ دوم سُنت ۔ سوم اجماع اور آخر قیاس ہے جس پر تمام آئمہ کرام متفق ہیں ۔ یقین نہ ہو تو سُنی اور شیعہ دونوں مسالک کے مُستند عالِموں سے پوچھ لیجئے یا اس سلسلہ میں کسی جامع کتاب کا سے استفادہ حاصل کر لیجئے

5 ۔ غیر تو غیر ہوئے اپنوں کا بھی چارہ نہ ہوا ۔ میرے ہموطن اتنا شیطان کو بدنام نہیں کرتے جتنا خود اپنے دین اسلام کی دھجیاں بکھیرتے رہتے ہیں اور اس پر انواع و اقسام کے سرنامے [labels] لگاتے رہتے ہیں ۔ اسلام اللہ کا دین ہے اور تمام انبیاء علیہم السلام اس دین کے تابع تھے ۔ دین اسلام ایک مکمل ضابطہِ حیات ہے اور قیامت تک کیلئے ہے ۔ اسلام کسی فرد کی ملکیت نہیں اور نہ کسی فرد کو اس میں تحریف کی اجازت ہے ۔ فرقہ بندی ذاتی اغراض کی بنا پر ہے دین میں اس کی گنجائش نہیں ۔ بہرکیف اسلامی سلطنت کے بنیادی اصولوں جن کی بنیاد اسلامی شریعت ہے میں کسی کو اختلاف نہیں ۔ طالبان کا بنایا ہوا اسلام ذرائع ابلاغ کے پروپیگنڈہ کے علاوہ کچھ نہیں

6 ۔ آئین کی شقات 246 اور 247 جو نیچے نقل کی گئی ہیں کے مطابق مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں کی ضروریات اور امن قائم کرنے کی خاطر مُلک کے دوسرے علاقوں میں نافذ قوانین سے مختلف قوانین وضع اور نافذ کئے جا سکتے ہیں ۔ اسلئے ریاست کے اندر ریاست کا تصور کم عِلمی پر مبنی ہے

246. Tribal Areas.
In the Constitution,
(a) “Tribal Areas” means the areas in Pakistan which, immediately before the commencing day, were Tribal Areas, and includes:
(i) the Tribal Areas of Baluchistan and the North-West Frontier Province; and
(ii) the former States of Amb, Chitral, Dir and Swat;

247. Administration of Tribal Areas.

(4) Notwithstanding anything contained in the Constitution, the President may, with respect to any matter within the legislative competence of Parliament, and the Governor of a Province, with the prior approval of the President, may, with respect to any matter within the legislative competence of the Provincial Assembly make regulations for the peace and good government of a Provincially Administered Tribal Area or any part thereof, situated in the Province.

(5) Notwithstanding anything contained in the Constitution, the President may, with respect to any matter, make regulations for the peace and good Government of a Federally Administered Tribal Area or any part thereof.

(7) Neither the Supreme Court nor a High Court shall exercise any jurisdiction under the Constitution in relation to a Tribal Area, unless Parliament by law otherwise provides

وزیراعظم پاکستان نے بھی وضاحت کی ہے کہ

سوات معاہدہ آئین کے مطابق ہے اور صدر آصف علی زرداری معاہدے کی توثیق کر دیں گے ۔ سوات میں ماضی میں بھی شریعت نافذ رہی ہے ۔ برطانوی دور میں بھی یہاں خصوصی ریگولیشنز رہے ہیں

جہاں تک حکومت کی عملداری [writ] کا تعلق ہے وہ تو پورے مُلک میں کہیں نظر نہیں آتی خواہ اجناس خوردنی [edibles] کی کمرتوڑ مہنگائی پر نظر ڈالیں یا قابلِ استفادہ خدمات [utility services] کے بحران پر یا امن و امان کی صورتِ حال پر ۔ سب جگہ ایک ہی اصول نظر آتا ہے “جس کی لاٹھی اُس کی بھینس”۔ بلوچستان میں خواتین کو زندہ دفن کیا جائے ۔ سندھ میں کاری کہہ کر قتل کر دیا جائے ۔ جنوبی پنجاب یا صوبہ سرحد میں کم سِن بچیاں ونی یا سوارا کہہ کر اپنے جُرم کی بھینٹ چڑھا دی جائیں ۔ کراچی شہر میں کھُلے بندوں میدانِ جنگ بنیں اور لاشیں گریں ۔ پورے پاکستان میں برسرِعام موبائل فون ۔ نقدی یا گاڑی چھینی جائے ۔ دن دہاڑے گھروں دکانوں یا بنکوں پر ڈاکے ڈالے جائیں ۔ لڑکیوں یا عورتوں کی عزتیں لوٹی جائیں ۔ سب جگہ حکومت کی عملداری کی بجائے بے بسی ہی نظر آتی ہے

پاکستان کے آئین کی جن شقات کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اُن کے علاوہ نیچے درج شقات 2 اور 31 کے مطابق تو پورے مُلک میں دین اسلام مخالف تمام قوانین رد کر کے اُن کی جگہ اسلامی قوانین نافذ ہونے چاہئیں یعنی دوسرے الفاظ میں پورے مُلک میں اسلامی شریعت کا نفاذ ہونا چاہیئے ۔ چلئے ابھی اتنا ہی غنیمت ہے کہ صرف اسلامی نظامِ عدل کا تجربہ مالاکنڈ اور کوہستان کے 8 اضلاع میں کر لیں ۔ تجربہ کامیاب ہو تو پورے پاکستان میں پہلے اسلامی نظامِ عدل نافذ کریں اور پھر پوری اسلامی شریعت ۔ دعا ہے کہ اللہ ہمارے مُلک میں اسلامی نظامِ حکومت کے نفاذ کی صورتیں پیدا فرمائے

2 Islam shall be the State religion of Pakistan
2A The principles and provisions set out in the objectives Resolution reproduced in the Annex are hereby made substantive part of the Constitution and shall have effect accordingly

31.Islamic way of life.
(1) Steps shall be taken to enable the Muslims of Pakistan, individually and collectively, to order their lives in accordance with the fundamental principles and basic concepts of Islam and to provide facilities whereby they may be enabled to understand the meaning of life according to the Holy Quran and Sunnah.

(2) The state shall endeavour, as respects the Muslims of Pakistan:

(a) to make the teaching of the Holy Quran and Islamiat compulsory, to encourage and facilitate the learning of Arabic language and to secure correct and exact printing and publishing of the Holy Quran;
(b) to promote unity and the observance of the Islamic moral standards; and
(c) to secure the proper organisation of zakat, ushr, auqaf and mosques.

مختصر حقیقت یہ ہے کہ جنگ بندی کے بعد سوات کے عوام کو کچھ چین ملا ہے ۔ پچھلے پونے دو سال میں فوجی کاروائیوں نے نہ صرف اُن کے ذرائع روزگار تباہ کر دیئے بلکہ اُن کے عزیز و اقارب بھی ہلاک ہوئے اور جائیدادیں بھی تباہ ہوئیں ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سوات کے زیادہ تر عوام کی مالی حالت پہلے ہی کمزور تھی اور اب ابتر ہو گئی ہے ۔ وہ نہ تو مُلک میں نافذ انگریزی قانون کے مطابق چلنے کیلئے وکیلوں کی فیسیں دے سکتے ہیں اور نہ دس پندرہ سال عدالتوں کی پیشیاں بھُگتنے کیلئے اپنی روزی پر لات مار سکتے ہیں

کسی ملک کے استحکام اور ترقی کیلئے امن و امان بنیادی ضرورت ہے ۔ گذشتہ کئی سالوں میں پہلے بلوچستان اور پھر صوبہ سرحد کے قبائلی علاقوں میں فوجی کاروئی کے نتیجہ میں افراطِ زر اور کساد بازاری انتہائی بلندیوں کو چھو رہے ہیں ۔ مالی خسارہ کھربوں تک پہنچ چکا ہے اور عوام کا بال بال غیر مُلکی قرضوں میں جکڑا گیا ہے اور ملک عدمِ استحکام کا شکار ہونے کو ہے ۔ غیروں کی جنگ لڑتے لڑتے ہم نے اپنے قومی فرائض نظر انداز کر دیئے ۔ فوجی کاروائیوں کے نتیجہ میں امن قائم ہونے کی بجائے حالات اور بگڑتے گئے ۔ اب اس کے سوا چارہ کار کیا ہے کہ ان جنگجوؤں کے ساتھ مل بیٹھ کر بات کی جائے ؟ آخر وہ اسی مُلک کے باشندے ہیں ۔ اگر کسی شریف آدمی کا بیٹا اوباش ہو جائے تو کیا وہ اُسے سمجھانے کی بجائے گولی مار کر ہلاک کر دیتا ہے ؟

پاکستان اور صوبہ سرحد میں سیکولر جماعتوں کی حکومت ہے ۔ اے این پی اُن لوگوں کی جماعت ہے جو نظریہ پاکستان کے خلاف رہے ہیں اور اب بھی اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں ۔ اب اگر ایسی جماعت اسلام کے نام لیواؤں سے مذاکرات اور معاہدے کی بات کرتی ہے اور اس کی تائید مُلک کی ایک بڑی سیکولر جماعت پیپلز پارٹی کر رہی ہے تو مجوزہ معاہدے کی بنیاد کوئی حِکمت اور افادیت ضرور ہو گی ۔ وہ لوگ جنہیں اندرونی حالات کا کوئی ادراک نہیں ہلکان کیوں ہوئے جا رہے ہیں ؟ کیا عورتوں کو زندہ دفن کر کے ہلاک کرنے والوں یا جوان عورت کو خونخوار کُتوں کے آگے ڈال کر ہلاک کرنے والوں یا ذاتی انا کے خلاف بات کرنے والی عورت کو کاری قرار دے کر ہلاک کرنے والوں کو گولی تو کیا کسی نے ایک تھپڑ بھی مارا ہے ؟ مُلک میں ہزاروں قاتل دنداتے پھر رہے ہیں ۔ اُن کے خلاف کوئی فوجی کاروائی ہوئی ہے ؟ اُن میں سے بعض کو تو انعام سے نوازہ جاتا ہے کسی کو گورنر اور کسی کو وزیر بنا دیا جاتا ہے

اصل مسئلہ امن قائم کرنے کا ہے جو طاقت کے ذریعہ قائم نہیں ہو سکا ۔ بلا شُبہ اس علاقہ میں شر پسند عناصر یا دشمن کے ایجنٹوں نے موقع سے بھرپور فائدہ اُٹھا کر حالات کو سنگین بنایا ہے ۔ اگر مذاکرات اور ایک محدود علاقہ میں جہاں ماضی میں کئی صدیاں اسلامی نظامِ عدل قائم رہنے سے کوئی گڑبڑ نہ ہوئی تھی وہاں دوبارہ اسلامی نظامِ عدل قائم کر دیا جائے تو پھر حکومتی اہلکاروں کو فتنہ پرور لوگوں سے نبٹنے کیلئے نہ صرف وقت بلکہ سہولت بھی میسّر ہو گی ۔ اس علاقہ میں امن کوششوں کیلئے صوفی محمد جسے قبل ازیں دو بار آزمایا جا چکا ہے سے زیادہ قابلِ اعتماد اور مؤثر اور کوئی شخص نہیں ہو سکتا تھا ورنہ حکومت اُسے یہ کام نہ سونپتی ۔ صوفی محمد کا 23 فروری کو حکومت کی جانب سے شریعت کے عملی نفاذکے اعلان اورچیک پوسٹیں ختم کرنے پران کے شکریہ ادا کرتے ہوئے حکومت ۔ حکومتی اہلکاروں اورتحریک طالبان سوات سے اپیل کی

حکومت فوج کو اسکولوں ۔ مکانات ۔ اسپتالوں اور دیگر عمارتوں سے ہٹا کر محفوظ مقامات پرمنتقل کرے اورتمام رکاوٹیں ختم کرے تاکہ لوگوں کی تکالیف ختم ہوسکیں ۔ حکومت تمام پولیس ۔ ایف سی اور لیویز کے معزول اور قید اہلکاروں کوبحال کرے اور عوام کے تمام نقصانات کاازالہ کیاجائے

تحریک طالبان سوات کے قائدین اپنے ساتھیوں کو فی الفورحکم دیں کہ وہ ناکے ختم اورتلاشی کاسلسلہ بندکردیں اورمسلح چلنا پھرنا اور دیگرکارروائیاں فی الفورختم کردیں ۔ راشن لے جانے والی گاڑیوں اور فوج کے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کے دوران کسی قسم کی رکاوٹ نہ ڈالیں ۔ انتظامیہ اورپولیس کے امورمیں مداخلت نہ کریں ۔

تمام پولیس ۔ ایف سی اورلیویز اہلکار اپنے فرائض انجام دینے کیلئے ڈیوٹی پر حاضرہوجائیں ۔

انہوں نے کہا وزیراعلیٰ امیرحیدرخان ہوتی کے اعلان کے مطابق کام شروع کیاجائے اوروزیراعلٰی خودسوات کادورہ کرکے اس نیک کام کاافتتاح کریں

میں یہ نہیں کہتا کہ صوفی محمد یا اُس کا داماد فضل اللہ عالِمِ دین ہیں یا متقی و پرہیزگار ہیں اور نہ ہی میں اس کا اُلٹ کہہ سکتا ہوں ۔ لیکن بنیادی بات جو زیرِنظر رہنی چاہیئے وہ یہ ہے کہ
ا ۔ اچھا عمل اچھا ہی ہوتا ہے چاہے اُسے کوئی بھی کرے ۔
ب ۔ دینی لحاظ سے کوئی بھی مسلمان شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کر سکتا ہے چاہے اُس کا اپنا عمل قرآن و سُنّت کے عین مطابق نہ ہو
ج ۔ پاکستان کے آئین کی پاسداری کرتے ہوئے کوئی بھی پاکستانی خواہ وہ غیر مُسلم ہی ہو پاکستان میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرسکتا ہے

مجھے اس حوالے سے ایک واقعہ یاد آیا ۔ جسٹس اے آر کارنیلیس جو اُن دنوں پاکستان کے چیف جسٹس تھے ایک بین الاقوامی چیف جیورسٹس کانفرنس میں شریک تھے تو ایک سوال پوچھا گیا کہ بہترین نظامِ عدل و انسانیت کونسا ہے ؟ سب چیف جسٹس صاحبان کچھ نہ کہہ سکے آخر میں جسٹس اے آر کارنیلیس کی باری آئی تو اُنہوں نے کہا “اسلام کا نظام” اور کسی کو اس کی نفی کی جراءت نہ ہوئی ۔ جسٹس اے آر کارنیلیس مسلمان نہیں تھے

اگر حکومت آئین کے مطابق کام کرے تو خون خرابے اور کسی قسم کی بدامنی کی نوبت نہ آئے ۔ جب احتجاج کرنے والے عوام پر فوجی کاروائی کی جائے تو وہ ہتھیار اُٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ ایسی صورتِ حال مُلک کیلئے سودمند نہیں ہوتی ۔ آئین کے بار بار توڑے جانے اور حکومت پر غاصبانہ قبضہ کے باوجود آئین کی جن بنیادی شقات کا میں نے اُوپر حوالہ دیا ہے ہمیشہ سے آئین میں موجود رہیں لیکن ان بنیادی شقات پر عمل کی کوشش نہیں کی گئی ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان شقات پر عمل کرنے سے مُلک کے سیاست دانوں اور حُکمرانوں کی اکثریت میدان سے باہر ہو جائے گی

میرے اللہ آپ ربِ ارض و سماء و دیگر کُل مخلوقات ہو اور سارا نظام آپ کے حُکم کے تابع ہے ۔ ہماری بے راہ روی کی طرف نہ دیکھئے ۔ آپ رحیم و کریم ہو ۔ ہم پر فضل کیجئے ۔ ہمیں حق کو سمجھنے اور حق کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائیے

سوات ۔ طالبان اور حُکمران ۔ قصور کس کا ؟

کچھ قابلِ قدر قارئین نے پُرزور فرمائش کی کہ میں سوات میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا پسِ منظر اور تاریخ بیان کروں ۔ ہرچند کہ میں تاریخ دان نہیں ہوں لیکن اپنے مُلک کے متعلق تھوڑا بہت علم حاصل کرنے کا ہمیشہ سے شوق رہا ہے ۔

میرے خالق و مالک ۔ میرے لئے میرا سینہ کشادہ فرما دے اور میرا کام میرے لئے آسان فرما دے اور میری زبان کی گرہ کھول دے کہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ۔ آمین

ہمارے نویں دسویں جماعت میں تاریخ کے اُستاذ سبغت اللہ قریشی کہا کرتے تھے “ہماری قوم کی تاریخ بڑی کمزور ہے”۔ جب ہم نے میٹرک پاس کر لیا اور سکول شاباشیں لینے گئے ہوئے تھے تو ایک ساتھی نے اُستاذ سے پوچھا “ہماری قوم کی تاریخ کیسے کمزور ہے ؟” اُستاذ مُسکرا کر بولے “جب میری عمر کو پہنچو گے تو معلوم ہو جائے گا”۔ درُست کہا تھا اُنہوں نے ۔ ہماری قوم کی اکثریت کو تاریخ تو کیا کل کی بات یاد نہیں رہتی

جب انگریز ہندوستان چھوڑنے پر راضی ہو گئے تو اُنہوں نے جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہندوستان کے اندر داخلی طور پر خودمختار ریاستوں کا فیصلہ اُن کے حاکموں پر چھوڑ دیا کہ اپنے عوام کی رائے کے مطابق پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کریں ۔ چالبازی یہ کی گئی کہ پاکستان کو نہ دولت اور اثاثوں کا حصہ دیا گیا اور نہ اسلحہ کا ۔ مسلمان فوجیوں کو پہلے ہی سے مجوزہ پاکستان سے دور علاقوں میں تعینات کر دیا گیا تھا ۔ وہیں اُنہیں غیر مسلحہ کر کے گھروں کو جانے کا حُکم دیا گیا ۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ پاکستان بنا تو نہ اس کے پاس حکومت چلانے کو کچھ تھا اور نہ اپنا دفاع کرنے کا سامان ۔ اس صورتِ حال سے مکمل فائدہ اُٹھاتے ہوئے بھارت نے بھارت کے اندر یا بھارت سے ملحق تمام ریاستوں کو بھارت کے ساتھ الحاق کا حُکم دیا ۔ جن چار ریاستوں [گجرات کاٹھیاواڑ ۔ منادور ۔ حیدآباد دکھن اور جموں کشمیر] نے لیت و لعل کیا اُن پر یکے بعد دیگرے فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا ۔ اس کے بر عکس پاکستان کی حکومت نے پاکستان کے اندر ریاستوں کو داخلی خود مختاری دیئے رکھی جب تک کہ وہ ریاستیں خود ہی پاکستان میں ضم نہ ہوئیں ۔

چنانچہ ریاست سوات نے 1969ء میں پاکستان میں ضم ہونے کا اعلان کیا ۔ اُس وقت تک وہاں اسلامی نظامِ عدل رائج تھا ۔ یہ نظام ہندوستان پر انگریزوں کے صد سالہ دورِ حکومت کے دوران بھی رائج تھا ۔ 1973ء کے آئین کے نفاذکے بعد وہاں کا مروجہ نظام ختم کر کے انگریزوں کا بنایا ہوا عدالتی نظام قائم کر دیا گیا جس کے کچھ سال بعد قتل کی سالانہ وارداتیں جو کبھی دہائی کے ہندسہ میں نہ پہنچی تھیں سینکڑے کے ہندسہ میں پہنچ گئیں ۔ قانونی چارہ جوئی جو پہلے 3 سے 6 ماہ میں فیصل ہو جاتی تھی وہ سالوں تک بغیر کسی نتیجہ کے جاری رہنا شروع ہو گئی ۔ سوات کے لوگ اس صورتِ حال سے پریشان ہو کر احتجاج کرتے رہے اور اُنہیں 1973ء کے آئین کی وہ شِقیں دکھا کر چُپ کرایا گیا جن کے تحت مُلک میں کوئی قانون اسلام کے منافی نہیں بنایا جا سکتا اور اسلام کے منافی موجود قوانین کو کلعدم قرار دیا جائے گا ۔ 1977ء میں مارشل لاء لگ گیا اور اسلام کا نام لیا جانے لگا ۔ پھر افغانستان میں روسی تسلط کے خلاف جنگ شروع ہو گئی جس سے وقتی طور پر سواتیوں کا مطالبہ دب گیا

افغانستان سے روسوں کے انخلاء کے بعد پھر سواتیوں کا زبانی احتجاج شروع ہوا اور بالآخر 1994ء میں جب ملک میں پھر پیپلز پارٹی کی حکومت تھی مطالبہ زور پکڑ گیا جسے پولیس اور ریجرز کے ذریعہ فوجی کاروائی سے دبانے کی کوشش کی گئی تو تحریک نفاذ شریعت محمدی جس کے سربراہ صوفی محمد تھے نے ہتھیار اُٹھا لئے ۔ سوات ۔ شانگلہ ۔ دیر ۔ کوہستان اور مالاکنڈ کے دیگر علاقوں میں چوٹیوں پر مورچے قائم کرلئے اور ان علاقوں کو جانے والے تمام راستے بلاک کر دیئے ۔ 70 کے قریب سرکاری اہلکار جن میں پولیس کے افسران اور جج بھی شامل تھے یرغمال بنا لئے اور سیدو شریف کی ایئرپورٹ پر قبضہ کر لیا ۔ اپنی دال گلتی نہ دیکھ کر پیپلز پارٹی کی حکومت نے صوبہ سرحد کے وزیر اعلٰی آفتاب شیر پاؤ کی سربراہی میں ایک وفد کو صوفی محمد سے مذاکرات کا کہا ۔ صوفی محمد سے وعدہ کیا گیا کہ امن کی صورت میں اُن کے علاقہ میں اسلامی شریعت نافذ کر دی جائے گی

تمام زمینی راستے بند ہونے کی وجہ سے ایک فوجی ہیلی کاپٹر میں میجر جنرل فضل غفور جو اُن دنوں فرنٹیئر کور کا انسپکٹرجنرل تھا کچھ سرکاری اہلکاروں اور صوفی محمد کو ساتھ لے کر روانہ ہوا ۔ ہیلی کاپٹر متذکرہ بالا اور دیگر علاقوں جہاں جہاں جنگجو موجود تھے باری باری اترتا رہا اور صوفی محمد اسلحہ برداروں کو سمجھاتا رہا کہ رینجر بھی مسلمان ہیں اور مسلمان بھائیوں کے خلاف لڑنا اسلامی شریعت کے خلاف ہے ۔ یہ ایک خطر ناک مُہِم تھی اور اس میں صوفی محمد کی اپنی جان کو بھی خطرہ تھا کیونکہ سارے اسلحہ بردار صوفی محمد کی تحریک سے تعلق نہ رکھتے تھے ۔ بہرحال صوفی محمد کی کوششوں سے ٹکراؤ ختم ہو گیا اور سب راستے کھول دیئے گئے اس وعدہ پر کہ علاقہ میں اسلامی شریعت کا قانون نافذ کیا جائے گا مگر حکومت نے مروجہ انگریزی قانون میں جج اور کورٹ کی بجائے قاضی اور قاضی کورٹ لکھ دیا اور اسی طرح کی اور لیپا پوتی [cosmetic changes] کر کے اُسے شریعت ریگولیشن کا نام دے دیا

پنجابی میں ایک محاورہ ہوا کرتا تھا “سیاسہ والا” یہ “سیاسہ” لفظ “سیاست” ہی ہے ۔ مطلب تھا۔ ہوشیار دھوکہ باز جو پکڑائی نہ دے ۔ یہ محاورہ ہمارےاکثر حُکمرانوں پر چُست بیٹھتا ہے جو قوم کو بار بار دھوکہ دینے کے باوجود عوامی رہنما کہلاتے ہیں

جب لوگوں کے عدالتی معاملات لٹکتے چلے گئے اور سالہا سال بغیر فیصلہ کے رہے تو لوگوں کو احساس ہوا کہ اُن کے ساتھ دھوکہ ہوا تھا ۔ صرف نام بدلے گئے تھے اور کچھ بھی نہ ہوا تھا ۔ اس پر پھر احتجاج شروع ہوا ۔ اُس وقت ملک میں مسلم لیگ کی حکومت تھی ۔ 1999ء تک بے اطمینانی تمام علاقہ میں پھیل گئی اور بدامنی کا احتمال ہوا تو مسلم لیگ کی حکومت نے پیپلز پارٹی کے بنائے ہوئے شریعت ریگولیشن میں کچھ تبدیلیاں کر کے نافذ کر دیا ۔ یہ بھی اسلامی نظامِ عدل تو کیا اُس نظامِ عدل کے بھی قریب نہ تھا جو 1973ء کے آئین سے قبل سوات میں رائج تھا

فطری طور پر کچھ عرصہ لوگ نئے شریعت ریگولیشن کے عملی پہلو کا جائزہ لیتے رہے ۔ 2001ء میں امریکہ اور اُس کے اتحادیوں نے افغانستان پر حملہ کر دیا اور سب کی توجہ اس بڑی آفت کی طرف ہو گئی ۔ 2002ء میں صوبہ سرحد میں متحدہ مجلسِ عمل کی حکومت آ گئی ۔ اُنہوں نے اسلامی شریعت کے حوالے سے تین سال میں حسبہ کے قانون کا مسؤدہ تیار کیا جو مرکزی حکومت نے نامنظور کر دیا تو لوگوں کو احساس ہوا کہ اُن کی اُمیدیں بے بنیاد تھی ۔

ان مذاق رات [مذاکرات] کے نتیجہ میں نافذ ہونے والے نام نہاد شریعت ریگولیشنز کی عملی صورت سے پریشان ہو کر تین سال قبل پھر احتجاج شروع ہوا ۔ کسی کے توجہ نہ کرنے کے نتیجہ میں سوات کے لوگوں نے تین ماہ بعد اپنی عدالتیں قائم کرنے کا اعلان کر دیا ۔ پھر خود ہی تاریخ مؤخر کرتے رہے ۔ آخر چھ ماہ بعد ایک قاضی مقرر کر دیا اور اپنے فیصلے خود کرنے کا عندیہ دیا ۔ دو سال قبل پچھلی حکومت نے امریکہ کے حُکم پر اُن کے خلاف فوجی کاروائی شروع کر دی ۔ موجودہ جمہوری حکومت نے امریکہ سے اپنی وفاداری جتانے کیلئے فوجی کاروائیوں میں شدت پیدا کر دی جس کے نتیجہ میں نہ صرف دونوں طرف کافی جانی نقصان ہوا بلکہ عوام بیچارے دونوں طرف کے حملوں کا نشانہ بنے ۔ اس کاروائی کے نتیجہ میں مرنے والے کم از کم 70 فیصد عام شہری ہیں جن میں بوڑھے جوان مرد عورتیں اور بچے شامل ہیں ۔ حکومت سوات کے لوگوں کو تحفظ مہیا نہ کر سکی نتیجہ یہ ہوا کہ سوات کے 80 فیصد علاقہ کے لوگ پاکستانی طالبان کے حمائتی ہو گئے ۔ ان حالات نے موجودہ حُکمرانوں کو امن کیلئے مذاکرات پر مجبور کر دیا

جس نظامِ عدل ریگولیشن پر اب اتفاق ہوا ہے سننے میں آیا ہے کہ یہ بھی اسلامی نظامِ عدل نہیں بلکہ 1999ء کے ترمیم شُدہ شریعت ریگولیشن میں کچھ اور ترامیم کی جا رہی ہیں ۔ اللہ کرے کہ موجودہ حکومت اس سلسلہ میں نیک نیتی برتے اور درست اسلامی نظامِ عدل نافذ کرے ۔ ویسے حالات کچھ سازگار نہیں لگتے ۔ حالیہ معاہدہ جو کہ صدر کی منظوری سے ہوا پر صدر کا دستخط کرنے کے عمل کو متاءخر کرنے اور کچھ مرکزی وزراء کے بیانات سے شبہات جنم لے چکے ہیں اور پاکستانی طالبان نے ہتھیار پھنکنے اور لڑکیوں کے سکول کھولنے کیلئے پہلے اسلامی نظامِ عدل نافذ کرنے کی شرط عائد کر دی ہے ۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے امن معاہدےکی خلاف ورزی کرتے ہوئے پشاور میں پاکستانی طالبان کے دو ساتھیوں کو گرفتار کر لیا تھا اور ایک کو دیر ضلع میں فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا ۔ تنبیہہ کے طور پر طالبان نے سوات میں نئے تعینات ہونے والے ڈی سی او خوشحال خان کو چھ ساتھیوں سمیت اغواء کر لیا تھا اور بعد میں رہا کر دیا

صوفی محمد مغربی طرز کے جمہوی نظام کو غیر اسلامی قرار دیتا ہے ۔ [اس پر انشاء اللہ پھر کبھی لکھوں گا] اس نظریہ اور متذکرہ خدشات کے باوجود وہ امن قائم کرنے اور حالات کو معمول پر لانے کیلئے تن من کی بازی لگائے ہوئے ہے ۔ صوفی محمد لڑکیوں کی تعلیم کے حامی ہیں ۔ اگر پھر 1994ء کی طرح صوفی محمد کے ساتھ دھوکہ کیا گیا تو نتیجہ بہت خطرناک ہو سکتا ہے ۔ نہ صرف موجودہ حُکرانوں کیلئے بلکہ مُلک کیلئے بھی ۔ یہ معاملہ صرف سوات کا نہیں ہے بلکہ پورے مالاکنڈ ۔ پورے دیر ۔ چترال ۔ شانگلہ ۔ بُنر اور کوہستان کا بھی ہے

عارضی امن کے نتیجہ میں سوات میں ایک عرصہ کے بعد کاروبارِ زندگی شروع ہو گیا ہے ۔ کل یعنی پیر 23 فروری سے سکول بھی کھُل گئے ہیں لیکن ہزاروں لوگ جو اپنے ہی مُلک میں مہاجر بن چکے ہیں وہ اس انتظار میں گھڑیاں گِن رہے ہیں کہ کب اسلامی نظامِ عدل نافذ ہو ۔ پائیدار امن معرضِ وجود میں آئے ۔ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹیں اور اُن کی کس مپُرسی ختم ہو

اس معاہدے جوکہ دراصل معاہدہ نہیں بلکہ باہمی اتفاق کی یاد داشت [Memorandum of understanding ] ہے کا خوشگوار اثر یہ بھی ہوا ہے کہ باجوڑ میں جنگجوؤں [طالبان] نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے ۔ مرکزی اور صوبائی تمام قبائلی علاقوں کے طالبان افغانستان کے مُلا عمر کو اپنا سُپریم کمانڈر کہتے ہیں ۔ مُلا عمر نے تمام طالبان کو کسی پاکستانی فوجی پر فائرنگ نہ کرنے کا کہا ہے

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی پاکستان کو محفوظ رکھے ۔ پاکستانیوں بالخصوص حُکمرانوں کو مُلک و قوم کی بھلائی سوچنے اور اس کیلئے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین

باقی اِنْ شَاء اللہ کل