Category Archives: تجزیہ

ہم کیا چاہتے ہیں ؟

تانیہ رحمان صاحبہ جو شاید ملک سے باہر رہائش پذیر ہیں نے حُب الوطنی کے زیرِ اثر اُڑتی خبروں سے پریشان ہو کر ایک تحریر لکھی ہے جس پر مختصر تبصرہ بھی طوالت کا متقاضی ہے اسلئے میں نے اسے اپنے بلاگ پر شائع کرنا مناب سمجھا ۔ اُمید ہے کہ اس سے دوسرے قارئین بھی مستفید ہو سکیں گے ۔

میری ہر لکھاری سے درخواست ہے کہ لکھنے سے قبل دوسروں کی دی ہوئی خبروں کی بجاۓ اپنے طور پر حاصل کردہ معلومات پر انحصار کیا کیجئے ۔ اس سے اپنی اور قومی صحت بُرے اثرات سے بچی رہے گی

ویسے تو ہر سکول ۔ مدرسہ ۔ جامعہ یا یونیورسٹی میں پڑھنے والے کو فارسی میں طالب کہتے ہیں جس کی جمع طالبان ہے لیکن جن کو پہلی بار سیاسی طور پر طالبان قرار دیا گیا ۔ ان کی ابتداء خواتین پر ظُلم بلکہ سنگین جرائم کے خلاف تحریک کے طور پر ہوئی چونکہ اس تحریک کو شروع کرنے والے لوگوں میں ایک مُلا عمر اُستاد تھا اور باقی آٹھ دس طالبان تھے اسلئے افغانستان کے لوگوں نے انہیں طالبان کا نام دے دیا ۔ ان طالبان کی نیک نیّتی کا نتیجہ تھا کہ افغانستان کے 85 فیصد علاقہ پر بغیر کسی مزاحمت کے ان کی حکومت قائم ہو گئی تھی ۔ افغانستان منشیات کا گڑھ تھا اور 1988ء میں سوویئٹ فوجوں کے انخلاء کے بعد سے بدترین خانہ جنگی کا شکار تھا ۔ حکومت سنبھالنے کے بعد مُلا عمر نے افغانستان میں امن قائم کیا اور منشیات کا خاتمہ کر دیا ۔ یہ وہ کام ہیں جو ان کے علاوہ آج تک اور کوئی نہ کر سکا

عام تآثر یہی دیا جا رہا ہے کہ طالبان ضیاء الحق نے بنائے ۔ ضیاء الحق 17 اگست 1988ء کو ہلاک ہو گئے تھے جبکہ طالبان ضیاء الحق کی وفات کے چھ سات سال بعد بینظیر بھٹو کے دوسرے دورِ حکومت [19 اکتوبر 1993ء تا 5 نومبر 1996ء] میں نمودار ہوۓ ۔ ضیاء الحق نے افغانستان میں انجنیئر گلبدین حکمت یار اور یُونس خالص وغیرہ کی مدد کی تھی جن کا مُلا عمر اور نام نہاد پاکستانی طالبان سے کوئی تعلق نہ ماضی میں تھا اور نہ اب ہے ۔ اصل طالبان اور نام نہاد پاکستانی طالبان میں ایک واضح فرق ہے ۔ اصل طالبان کی اکثریت کے پاس کوئی سواری نہیں ہے اور کچھ موٹر سائکل یا پک اُپ پر سفر کرتے ہیں جبکہ نام نہاد طالبان یعنی بیت اللہ محسود وغیرہ اور ان کے ساتھی قیمتی گاڑیوں پر گھومتے ہیں

حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے کسی علاقے میں کوئی طالبان نہیں ہیں اور نہ پاکستان میں کی گئی کسی کاروائی سے طالبان کا تعلق ہے ۔ طالبان صرف افغانستان میں ہیں اور اُن کی تمام کاروائیاں افغانستان تک محدود ہیں اور وطن پر غیرمُلکی قابضوں کے خلاف ہیں ۔ پاکستان کے بیت اللہ محسود اور دیگر لوگ طالبان نہیں ہیں ۔ نہ اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ یہ لوگ کبھی مدرسہ میں گئے تھے اور یہ لوگ قرآن شریف پڑھنا جانتے بھی ہیں یا نہیں ۔ ان کو طالبان کا نام کسی طاقت نے اپنے کسی مزموم مقصد کیلئے دیا اور پھر ان کا بُت دیو ہیکل بنانے میں مصروف ہے ۔ اس سب کی آڑ میں نجانے کونسی گھناؤنی منصوبہ بندی ہے
دو وجوہ جو میری سمجھ میں آتی ہیں یہ ہیں
ایک ۔ اصل طالبان اور اسلام کو کو بدنام کرنا
دو ۔ پاکستان میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنا تاکہ بڑی طاقت مداخلت کا جواز بنا کر پاکستان کے مغربی حصہ پر قبضہ کر لے تاکہ وسط ایشیائی ریاستوں کی معدنیات کی ترسیل کے راستہ پر اُس طاقت کا قبضہ ہو جائے

امریکا بغیر ہوا باز کے ہوائی جہازوں سے مزائل چلا کر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہزار سے زیادہ لوگوں کو ہلاک کر چکا ہے ۔ امریکا کا ہر بار یہ دعوٰی ہوتا ہے کہ وہاں فلاں فلاں ہائی ویلیو ٹارگٹ [high value target] تھا جسے ہلاک کیا گیا ۔ پھر کیا وجہ ہے کہ امریکا بقول اُمریکا ہی کے اتنے بڑے دہشتگرد بیت اللہ محسود پر مزائل حملہ نہیں کرتا جس کے سر کی قیمت امریکہ نے پچاس ملین ڈالر مقرر کر رکھی ہے ؟

بر سبیلِ تذکرہ ایک اور بات یاد آئی ۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ ضیاء الحق نے پاکستان میں کلاشنکوف کلچر کو فروغ دیا ۔ ضیاء الحق نے ایسا کیا یا نہیں میں اس پر بات نہیں کروں گا ۔ میں صرف کلاشنکوف اور کلاشنکوف برداروں کی بات کروں گا ۔ کلاشنکوف [Kalashnikov Submachine Gun] ایک اسالٹ رائفل [Assault Rifle] ہے جو دنیا کی 50 افواج کے زیرِ استعمال ہے جن میں پاکستان شامل نہیں ہے ۔ یہ چیکوسلواکیا میں پہلی بار 1947ء میں تیار ہوئی اسلئے اسے اے کے 47 [A K 47] کہا جاتا ہے ۔ 1974ء میں اس میں کچھ ترامیم کے بعد اسے اے کے 74 کا نام دیا گیا ۔ اے کے 47 سوویٹ یونین کی فوج کے زیرِ استعمال تھی اور افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد اُنہوں نے اپنے زیرِ کمان آنے والے افغان فوجیوں کو بھی دی تھیں

رہے کلاشنکوف بردار تو پاکستان کے قبائلی علاقوں کی یہ ثقافت بہت پرانی ہے کہ ہر مرد اور بہت سی خواتین بھی بندوق یا دوسرا اسلحہ استعمال کرنا سیکھتے ہیں ۔ جب گھر سے باہر نکلیں تو مرد اور بعض اوقات خواتین بھی اپنے ساتھ اسلحہ رکھتے ہیں ۔ اس کی وجہ مختلف قبیلوں کے باہمی تنازعات بھی ہو سکتے ہیں اور باہر کے دُشمن بھی ۔ قبائلی علاقوں میں بہت سے گھر اسلحہ کے کارخانے بھی ہوتے تھے جن کا میں خود شاہد ہوں ۔ اللہ کے فضل سے پاکستان میں رائفل جی تھری اور مشین گن ایم جی فارٹی ٹُو [Rifle G 3 and Machine Gun MG 42 Model MG1A3P] نے میرے زیر نگرانی پرورش پائی لیکن میں آفرین کہہ اُٹھا تھا جب میں نے 1974ء میں ان قبائلیوں کے گھروں میں صرف مردوں کو ہی نہیں خواتین ۔ نابالغ لڑکوں اور نابالغ لڑکیوں کو لکڑی کی چارپائی کے پائے بنانے والی ہاتھ سے چلنے والی خراد پر بندوق کی نالی [Barrel] بناتے دیکھا تھا ۔ اب شاید یہ کارخانے ختم ہو چکے ہوں کیونکہ بڑی طاقتیں اپنے مزموم مقاصد کیلئے ہر قسم کا اسلحہ مُفت تقسیم کرتی رہتی ہیں جو کبھی کبھی اُن کے اپنے لئے مشکلات پیدا کرتا ہے

آج جسے دیکھو معاندانہ افواہ سازی کا شکار ہوا نظر آتا ہے کہ “وہ مدرسوں میں قرآن پڑھتے ہیں اور مدرسے اسلحہ کا گھڑ بن چکے ہیں”۔ کاش یہ افواہیں پھیلانے والے اور انہیں دہرانے والے کم از کم پاکستانی مسلمان کبھی ان مدرسوں میں سے کم از کم ایک کا چکر لگا کر خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ وہاں کیا ہوتا ہے اور وہاں اسلحہ ہوتا بھی ہے یا نہیں

اللہ مجھے اور میرے ہموطنوں کو سوچنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

ثقافت ۔ مفروضے اور حقیقت

ثقافت کے بارے میں اخبارات ۔ رسائل اور ٹی وی پر لوگوں کے خیالات پڑھے یا سنے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ بھی نہیں جانتے کہ ثقافت کیا ہوتی ہے جن میں وہ بھی شامل ہیں جو ہر وقت ثقافت کی رَٹ لگائے رکھتے ہیں

ثقافت کیا ہوتی ہے ؟ جاننے کی جُستجُو مجھے اُنہی دنوں ہوئی تھی جب میری عمر سولہ سترہ سال تھی اور میں گارڈن کالج راولپنڈی میں پڑھتا تھا ۔ میں نے اُنہی دنوں کے حوالہ سے ثقافت کے سلسلہ میں 30 جون 2006ء کو اپنی ایک تحریر شائع کی تھی جس میں ایک چُبھتا ہوا فقرہ ” اُہُوں ۔ کلچر کیا تھا ۔ نیم عریاں طوائفوں کا ناچ تھا” لکھا تھا ۔ اس تحریر کو 132 بار دیکھا یا پڑھا گیا لیکن حیرت کی بات ہے کہ کسی نے اپنا اظہارِ خیال نہ کیا ۔ بہر کیف یہ حقیقت ہے کہ اُس نوجوانی کے زمانہ سے سالہا سال بعد تک کی تگ و دو اور مطالعہ نے مجھے اس قابل کیا کہ سمجھ سکوں کہ ثقافت کس بلا کا نام ہے

پچھلی دو صدیوں مین لکھی گئی کُتب کی طرف رُخ کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ ثقافت کسی قوم ملت یا قبیلہ کی مجموعی بود و باش سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ ایک عادت یا عمل سے ۔ نہ کچھ لوگوں کی عادات سے ۔ مزید یہ کہ ثقافت میں انسانی اصولوں پر مبنی تعلیم و تربیت کا عمل دخل لازم ہے ۔ ثقافت کے متعلق محمد ابراھیم ذوق ۔ الطاف حیسن حالی ۔ علامہ اقبال ۔ اکبر الٰہ آبادی اور دیگر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن میں اسے دہرانے کی بجائے صرف لُغت سے استفادہ کروں گا

فیروز اللُغات کے مطابق ” ثقافت ” کے معنی ہیں ۔ عقلمند ہونا ۔ نیک ہونا ۔ تہذیب

ایک انگریزی سے اُردو ڈکشنری کے مطابق کلچر [Culture] کا مطلب ہے ۔ ترتیب ۔ تہذیب ۔ پرورش کرنا ۔ کاشت کرنا

چند مشہور انگریزی سے انگریزی ڈکشنریوں کے مطابق ثقافت یا کلچر [Culture] کے معنی ہیں

مریم ویبسٹر ڈکشنری
1 ۔ زراعت ۔ کاشت کاری
2 ۔ شعوری اور اخلاقی استعداد کا افشا بالخصوص علم کے ذریعہ
3 ۔ ماہرانہ فکر اور تربیت
4 ۔ شعوری اور جمالیاتی تربیت سے حاصل کردہ بصیرت اور عُمدہ پسندیدگی
5 ۔ پیشہ ورانہ اور فنی استعداد سے ماوراء فنونِ لطیفہ ۔ انسانیات اور سائینس کی وسیع ہیئت سے شناسائی
6 ۔ انسانی معلومات کا مرکب مجسمہ ۔ اعتقاد اور چال چلن جس کا انحصار سیکھنے کی وسعت اور آنے والی نسلوں کو علم کی مُنتقلی پر ہو
7 ۔ کسی گروہ کے رسم و رواج ۔ باہمی سلوک اور مادی اوصاف
8 ۔ کسی گروہ یا ادارے کا باہمی رویّہ ۔ ترجیحات ۔ مقاصد اور عمل
9 ۔ ترجیحات ۔ رواج ۔ باہمی عمل ۔ طور طریقے کا مجموعہ ۔
10 ۔ کسی جاندار مادہ [جرثومہ ۔ وائرس] کی ایک خاص ماحول میں افزائش

کومپیکٹ آکسفورڈ ڈکشنری
1 ۔ خیالی یاشعوری فَن یا ہُنر کے ظہُور جو اجتمائی نشان ہو یا اس کی ایک خالص فِکر یا قدر دانی
2 ۔ کسی قوم ۔ مِلّت یا گروہ کی رسوم ۔ ادارے اور کامرانی
3 ۔ پودوں کی کاشت ۔ جانوروں کی پرورش یا مادی تخلیق
4 ۔ طِب میں کلچر کے معنی یہ ہیں ۔ ایک خاص افزائشی ماحول میں خُلیہ یا جرثُومہ کی پرورش

کیمبرج بین الاقوامی انگریزی کی ڈکشنری
1 ۔ کسی قوم ۔ مِلّت یا گروہ کے کسی خاص دور میں بود و باش کا طریقہ بالخصوص عمومی عادات ۔ رسوم ۔ روایات اور عقائد
2 ۔ اگر صرف فَنون سے متعلق ہو تو موسیقی ۔ ہُنر ۔ ادبی علوم یا تمثیل گھر

اینکارٹا ورلڈ انگلش ڈکشنری
کسی قوم یا گروہ کی / کے مشترکہ
1 ۔ مجموعی طور پر فن یا ہُنر جس میں فنونِ لطیفہ ۔موسیقی ۔ ادب ۔ ذہنی چُستی شامل ہوں
2 ۔ آگہی ۔ آمیزش اور بصیرت جو تعلیم کے ذریعہ حاصل ہو
3 ۔ رائے ۔ وصف ۔ رسم و رواج ۔ عادات ۔ باہمی طور طریقے
4 ۔ شعور یا ہُنرمندی یا فنی مہارت کی نشو و نما

مندرجہ بالہ معلومات پر معمولی غور سے واضح ہو جاتا ہے کہ ثقافت صرف عادات و رسوم کا ہی نہیں بلکہ صحتمند عادات و رسوم کے مجموعہ کا نام ہے جن کی بنیاد تعلیم پر ہو ۔ یعنی بُری عادات کو ثقافت کا حصہ نہیں سمجھا جا سکتا ۔ ہر چند کہ کسی گروہ یا قبیلہ کے لوگ کچھ قباحتیں بھی رکھتے ہوں لیکن ان بُری عادات کو ان کی ثقافت کا حصہ نہیں سمجھا جائے گا

جاری ہے ۔ ۔ ۔

ہوش سے ۔ نہ کہ جوش سے

سوات میں نوجوان لڑکی کو کوڑوں کی سزا کی ویڈیو پر جو بحث چل نکلی ہے اس کھیل کی منصوبہ بندی کرنے والے یا والوں کا مدعا کامیاب ہوتا نظر آ رہا ہے ۔

مباحثہ اب شاید جلد ٹھنڈا نہ پڑے اور اس کے نتائج بھی شاید بہت دور رس برآمد ہوں لیکن اس ویڈیو کی حقیقت جاننے کیلئے ہمیں چند برس پیچھے اور پاکستان سے کچھ دور ایک اور مسلم مُلک عراق میں جانا ہوگا اور پھر شاید یہ تسلیم کرنا پڑے کہ یہ ویڈیو پاکستان میں خانہ جنگی کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں

سال 2003ء میں عراق پر امریکی حملے سے قبل اس ملک کے لوگ عشروں سے صدام حسین کی مطلق العنان حکومت کے زیر سایہ زندگی گزار رہے تھے ۔ صدام کی حکومت قائم کرنے کے وقت کی خون ریزی کے بعد عراق میں مختلف مسالک کے لوگوں کے درمیان خونریزی کا سبب بننے والے اختلافات سامنے نہیں آئے تھے ۔ صدام حسین خود اور اس کی حکومت کے بیشتر عہدیدار اگرچہ سُنی تھے لیکن اس کی حکومت کے دوران عراق میں اہل تشیع کو آزادی رہی اور مُلک میں تعلیمی اور معاشرتی ترقی جاری رہی

امریکی حملے کے کچھ ہی عرصے بعد مغربی خبررساں اداروں نے یہاں کی آبادیوں کو شیعہ اور سنی میں تقسیم کرکے پکارنا شروع کردیا۔ لکھا جاتا کہ فلاں جگہ اتنے شیعہ جنگجو مارے گئے اور وہاں سنی عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں حالانکہ یہ دونوں ہی امریکی فوج کے خلاف لڑ رہے ہوتے تھے ۔ ان مفروضہ واقعات کی کچھ وڈیو بھی ٹی وی چینلز پر چلائی گئیں ۔ اس صورتحال میں شیعہ سنی کی تقسیم عام لوگوں کو بے معنی اور غیر ضروری لگتی تھی لیکن کچھ عرصہ بعد اس نے رنگ دکھایا ۔ عراق میں شیعہ اور سنی ملیشیا بنیں ۔ پھر ان میں تصادم شروع ہوا ۔ لوگ مسلک کی بنیاد پر اپنے اپنے علاقوں تک محدود ہوگئے اور نوگو زونز [No-go Zones] بن گئے ۔ آئے دن خبر دی جاتی کہ بظاہر مسلکی اختلاف پر قتل کیے جانے والے درجنوں افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں ۔ ایسے واقعات ہونا شروع ہوئے کہ ایک جگہ مسلح افراد نے مسافر بس روکی ۔ لوگوں کی شناختی دستاویزات دیکھیں اور پھر ایک فرقے کے لوگوں کو چھوڑ کر دوسروں کو مار ڈالا ۔ ان واقعات کا نتیجہ یہ نکلا کہ عراق میں امریکی فوج کیخلاف براہ راست مزاحمت میں کمی آ گئی ۔ تیل کی پائپ لائنیں اڑانے کے واقعات بھی کم ہوگئے جو امریکہ کے مفادات پر کاری ضرب لگا رہے تھے

عراق سے بہت قبل غیرمُلکی منصوبہ بندی کے تحت اس وقت کے مشرقی پاکستان میں یہ وڈیو کا عمل بڑے کامیاب طریقہ سے کیا گیا تھا پھر مئی 2007ء میں کراچی میں ایک تنظیم نے وڈیو کھیل کھیلنے کی کوشش کی مگر ناکام رہی ۔ اب کوڑوں کی سزا کی جو ویڈیو سامنے آئی ہے اس کے بارے میں بھی کچھ باتیں اہم ہیں ۔ اس ویڈیو کے بارے میں بی بی سی کی ابتدائی خبر جمعرات کی شام آئی جو تمام اخبارات اور ٹی وی چینلز میں پہنچی ۔ اخبارات نے اسے مناسب اہمیت دی ۔ اس پر بس نہ کیا گیا اور اگلے روز منظم طریقے سے اس ویڈیو کی نقول مختلف ٹی وی چینلز کو پہنچائی گئیں اور پھر اس کے بار بار نشر ہونے کا سلسلہ چل پڑا۔ باوجود اس کے کہ یہ ویڈیو منقش مواد [Graphic Content] کے زمرے میں آتی ہے اور اس کی اصلیت [Authenticity] پر سوالیہ نشانات موجود ہیں ۔

نوعمر لڑکی کو کوڑے مارنے کے دومنٹ کی یہ وڈیوبلاشبہ نہایت دلدوز ہے مگر اس حقیقت کو بھی ماننا چاہئے کہ پاکستان میں مختلف رحجانات رکھنے والے لوگ اس ملک کے قیام کے وقت سے بستے آرہے ہیں جو ایک دوسرے سے سو فیصد متفق کبھی نہیں ہوسکتے لیکن ماضی میں ان کے درمیان ایک دوسرے کے احترام کا رشتہ رہا ہے ۔ جمعہ کو ٹی وی چینلز سے نشر کی گئی ویڈیو نے اس رشتے میں بچا رہا سہا احترام ختم کردیا ۔ اب دونوں طرف کے پڑھے لکھے لوگ بھی بحث کرتے ہوئے انتہائی جذباتی ہو رہے ہیں اور ایک دوسرے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔

ان حالات کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ ویڈیو کے ذریعے پاکستانیوں کو صف آراء کرنے والوں نے اس ملک کے عوام میں موجود اصل خطِ نقص [fault line] کو خوب پرکھا ہے ۔ وقت ہے کام لینے کا ہوش سے ۔ نہ کہ جوش سے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمیں جذبات کی رو میں بہہ جانے سے بچائے اور درست راستہ کی طرف ہماری رہنمائی فرمائے ۔ آمیں ثم آمین یا رب العالمین

سورت ۔ 5 ۔ الْمَآئِدَہ ۔ آیت ۔ 8 ۔ ۔ يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّہِ شُھَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ ھُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

اے ایمان والو! اﷲ کے لئے مضبوطی سے قائم رہتے ہوئے انصاف پر مبنی گواہی دینے والے ہو جاؤ اور کسی قوم کی سخت دشمنی [بھی] تمہیں اس بات پر برانگیختہ نہ کرے کہ تم [اس] سے عدل نہ کرو ۔ عدل کیا کرو [کہ] وہ پرہیزگاری سے نزدیک تر ہے ۔ اور اﷲ سے ڈرا کرو ۔ بیشک اﷲ تمہارے کاموں سے خوب آگاہ ہے

بشکریہ ۔ ضمیمہ ۔ مزید قابلِ فہم بنانے کیلئے عبارت میں کچھ رد و بدل کیا گیا

قصور مُلّا کا یا ؟ ؟ ؟

دوسروں کو اپنی غلطی کا بھی قصوروار ٹھہرانا میرے ہموطنوں کی خاصی بڑی تعداد کی صفتِ خاص بن چکی ہے اور اس کا سب سے زیادہ ہدف مُلّا کو ٹھہرایا جاتا ہے ۔ قصور کا تعیّن کرنے کیلئے پہلے مُلّا کی اقسام بیان کرنا ضروری ہیں

پہلی قسم جو ہر جگہ دستیاب ہے یعنی جس نے ڈاڑھی رکھ لی ۔ لوگ ان کو مُلّا کہنا شروع کر دیتے ہیں ۔ پھر ایک دن اُس کی دنیاوی ہوّس ظاہر ہو جاتی ہے یا جب اُس کا کوئی عمل پسند نہ آئے تو اُس کی عیب جوئی شروع کر دی جاتی ہے اور نام مُلّا کا بدنام ہوتا ہے

دوسری قسم میں وہ لوگ ہیں جنہیں لوگ اُن کے علم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنی غرض یا دین سے لاپرواہی کی وجہ سے کسی مسجد کا امام بنا دیتے ہیں اور ان کے عمل پر آنکھیں بند رکھی جاتی ہیں تا وقتیکہ وہ کوئی بڑی مُخربِ اخلاق حرکت کر بیٹھے یا اُن کی مرضی کے خلاف کوئی عمل کر بیٹھے

تیسری قسم دین کا عِلم رکھنے والے ہیں جن میں سے کچھ امام مسجد بھی ہیں ۔ ان میں دینی مدرسہ سے فارغ التحصیل لوگ بھی شامل ہیں اور ان کی اکثریت مختلف پیشوں سے منسلک ہے یعنی ان میں سرکاری یا نجی اداروں کے ملازم بھی ہیں ۔ تاجر یا دکاندار بھی اور کچھ تدریس کا پیشہ اختیار کرتے ہیں

درحقیقت متذکرہ بالا تیسری قسم میں سے بھی آخرالذکر اصل مُلّا ہیں ۔ تیسری قسم میں سب کو مُلا کہہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ متذکرہ بالا پہلی دو قسمیں مُلا نہیں ہیں بلکہ وہ مُلا کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ۔ ان کو مُلّا نہیں کہنا چاہیئے اور نہ اُن کو امام مسجد جیسا پاک رُتبہ دینا چاہیئے

امام مسجد کا قصور ؟

امام مسجد جس سے عام لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سے کردار کی توقع رکھنا شروع کر دیتے ہیں اُس بیچارے کی معاشی اور معاشرتی بشمول عِلمی محرومیوں پر لاکھوں میں ایک ہو گا جو نظر ڈالتا ہو گا ۔ میں مسجد مجددیہ ۔ پارک روڈ ۔ ایف 2/8 ۔ اسلام آباد میں نماز پڑھتا ہوں ۔ یہ مسجد علاقہ کے لوگوں نے تعمیر کروائی ہوئی ہے اور وہی اس کا خرچ چلاتے ہیں لیکن امام مسجد اور مؤذن کا تقرر وزارتِ مذہبی امور کرتی ہے ۔ 1998ء سے اس کے امام محمد فاروق صاحب ہیں ۔ انہوں نے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد دس سالہ قرآن ۔ حدیث ۔ فقہ اور تاریخِ اسلام کا حکومت کا منظور شُدہ کورس کیا ہوا ہے اور راولپنڈی اسلام آباد کے چند مُفتی صاحبان میں سے ہیں ۔ اسی مسجد میں 1998ء تک عبدالعزیز صاحب امام تھے جنہیں والد کے قتل کے بعد مرکزی جامعہ مسجد المعروف لال مسجد کا امام بنا دیا گیا اور لال مسجد پر فوجی کاروائی کے دوران سے اب تک قید میں ہیں ۔ عبدالعزیز صاحب فاروق صاحب سے بھی زیادہ تعلیم یافتہ اور علم والے ہیں

بہت کم مساجد ہیں جن میں پڑھے لکھے امام ہیں ۔ اس کی وجہ ان کا بہت ہی کم مشاہرہ اور واجب احترام کا نہ ہونا ہے ۔ اسی لئے دینی مدارس سے فارغ التحصیل لوگ مسجد کا امام بننا پسند نہیں کرتے اور دوسرے ذرائع معاش اختیار کرتے ہیں ۔ مُفتی محمد فاروق صاحب کو محکمہ کی طرف تنخواہ کا سکیل 10 دیا گیا ہوا ہے اور کُل 6000 روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے ۔ گھر کا خرچ وہ تعلیمی اداروں میں پڑھا کر پورا کرتے ہیں ۔ آٹھویں جماعت کے بعد کسی بھی دوسرے مضمون میں 8 سال پڑھائی کرنے والے کیلئے حکومت نے تنخواہ کا سکیل 17 رکھا ہوا ہے ۔ اسلام آباد میں سب سے بڑی سرکاری مسجد ہے مرکزی جامعہ مسجد المعروف لال مسجد جس کے امام کو تنخواہ کا سکیل 12 دیا گیا ہے ۔ سرکاری ریکارڈ میں امام کیلئے خطیب کا لفظ استعمال کیا گیا ہے

یہ تو اسلام آباد کا حال ہے باقی جگہوں پر حالات دِگرگوں ہیں ۔ اور جس کو دیکھو اُس نے اپنی بندوق کا منہ مُلّا کی طرف کیا ہوتا ہے اور معاشرے کی ہر بُرائی کسی نہ کسی طرح مُلّا کے سر تھوپ دی جاتی ہے ۔ حالات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قصور وار مُلّا نہیں بلکہ مّلّا کو قصور وار ٹھہرانے والے ہیں

کیا مُلا لوگوں سے زبردستی غلط کام کرواتے ہیں ؟
کیا مسجد میں جانے والوں نے کبھی سوچا کہ جس کے پیچھے وہ نماز پڑھتے ہیں اُس نے دین کی تعلیم حاصل بھی کی ہے یا نہیں ؟

جب مُلا کسی کی دلپسند بات نہ کہے تو مُلا کو بُرا سمجھا جاتا ہے ویسے چاہےمُلا غلط بات یا کام کرتا رہے کسی کو پروہ نہیں ہوتی ۔ لمحہ بھر غور کرنے پر ہی واضح ہو جاتا ہے کہ قصور مقتدیوں کا ہے امام کا نہیں ۔ ایسے امام کو پسند کیا جاتا ہے جو ہر جائز و ناجائز بات کی اگر حمائت نہیں تو اس پر چشم پوشی کرے

عوامی طرزِ عمل ہر شعبہ میں واضح ہے ۔ سیاسی رہنما چُنتے ہوئے بھی یہی طرزِ عمل اختیار کیا جاتا ہے ۔ پھر مُلا ہو یا سیاسی رہنما اُن کو کوسنا بھی اپنا فرض سمجھا جاتا ہے ۔ اُن کو منتخب کرتے ہوئے اُن کی اچھی بُری عادات کا خیال کیوں نہیں رکھا جاتا ؟ مُلا ہو یا سیاسی رہنما قوم کی اکثریت کو درست انتخاب میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ سمجھا جاتا ہے کہ ان کا فرض صرف دوسروں کو بُرا کہنا ہے ۔ اسی لئے انتخابات کے دن چھٹی ہونے کے باوجود اکثر لوگ ووٹ ڈالنے نہیں جاتے ۔ ایسے لوگوں نے کبھی سوچا کہ اُن کی اس حرکت کی وجہ سے غلط لوگ مُنتخب ہوتے ہیں جن کو وہ بعد میں کوستے رہتے ہیں ؟

پڑھنا کب بہتر

شعیب سعید شوبی صاحب نے لکھا تھا “امریکہ کے ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ علی الصباح بیدار ہو کر مطالعہ کرنے والے کالج یا یونیورسٹی کے طلبا رات گئے پڑھنے والے طلبا کی نسبت امتحانات میں اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں”

امریکی ماہرین نفسیات نے درست کہا ہے لیکن شاید ایک صدی یا زیادہ تاخیر سے ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے کئی اساتذہ نے یہ ہدائت ہمیں سکول کے زمانہ میں کی تھی کہ رات کو عشاء کے بعد سو جایا کریں اور صبح سویرے اُٹھ کر تھوڑی سی سیر کریں اور پھر نہا کر پڑھا کریں ۔ دوپہر کے بعد آدھ گھنٹہ آرام کریں پھر بیٹھ کر پڑھیں ۔ میرے اساتذہ کے مطابق رات آرام کرنے کے بعد صبح آدمی تازہ دم ہوتا ہے ۔ دوسرے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے دن رات کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ صبح سویرے تازہ ہوا ہوتی ہے جو دماغ کو تازگی بخشتی ہے ۔ اسلئے جو سبق یاد کرنے میں رات کو تین گھنٹے لگتے ہیں وہ صبح ایک گھنٹہ میں یاد ہو جاتا ہے ۔ میں نے مَیٹرک 1953ء میں پاس کیا تھا

ہماری پہلی یا دوسری جماعت کی کتاب میں ایک نظم ہوا کرتی تھی جس میں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے سادہ اوصاف بیان کرتے ہوئے لکھا تھا “دن بنایا محنت کرنے کو اور رات بنائی آرام کرنے کو ۔

میرے والد صاحب[اللہ بخشے] کہا کرتے تھے

Early to bed, early to rise
healthy wealthy and wise

سردیاں ہوں یا گرمیاں میرے والد صاحب سورج طلوع ہونے سے ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے اُٹھ جاتے اور نہا کر اپنا کاروباری لکھنے پڑھنے کا کام کر کے پھر ناشتہ کرتے ۔ میں اور میرے چند ہم جماعت اندھیرے منہ اُٹھ کر اکٹھے دو کلو میٹر دور شہر سے باہر کی طرف جاتے وہاں سے پھلائی کی ٹہنی کاٹ کر واپسی پر داتن کرتے آتے ۔ گھروں میں پہنچ کر نہا کر پڑھنے بیٹھ جاتے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے اس کی مرضی ہے لیکن میں ایف ایس سی پاس کرنے تک کبھی عشاء کی نماز کے بعد جاگتا نہیں رہا ۔ اس کے باوجود اللہ کی مہربانی سے میرا شمار اچھے طلباء میں رہا ۔ آٹھویں جماعت کے دوران صرف ایک دن صبح نہیں اُٹھ سکا تھا تو میری والدہ [اللہ جنت نصیب کرے] نے کہا “مسلمان کا بچہ سورج نکلنے کے بعد نہیں اُٹھتا”۔ یہ جُملہ میں کبھی نہیں بھُلا سکتا

رات کو پڑھنے والے صبح سویرے پڑھنے کی افادیت کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ اُنہیں مختلف وجوہ نے رات دیر تک جاگنے کا عادی بنا دیا ہوتا ہے ۔ اس میں موجودہ جوان نسل کی نسبت اُن کے والدین کا زیادہ قصور ہے جو فطری نظام کے خلاف رات گئے تک فلمیں یا ڈرامے دیکھنے اور محفلیں سجانے کے عادی ہو گئے ہیں ۔ گوروں کی نقالی جو ہماری قوم نے لباس اور زبان میں کرنے کی پوری کوشش کی رات کو دیر تک جاگنا بھی اسی طرح کی کوشش تھی

صرف چار دہائیاں پیچھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں تمام سکول اور دکانیں گرمیوں میں صبح 7 بجے اور سردیوں میں صبح 8 بجے کھُلتے تھے ۔ دکانیں شام 7 بجے بند ہونا شروع ہو جاتیں اور سب دکانیں 8 بجے تک بند ہو جاتیں ۔ رات کا کھانا سب لوگ سورج چھُپنے کے بعد جلد کھا لیتے ۔ گرمیوں میں صبح ناشتہ دوپہر اور رات کو کھانا کھاتے جبکہ سردیوں میں لوگ صبح اور رات کو کھانا اوربعد دوپر کچھ ہلکا پھُلکا کھا لیتے جسے ناشتہ یا چائے کا نام دیا جاتا ۔ اب کیا ہے ۔ کوّا گیا تھا مور بننے ۔ نہ مور بنا اور نہ کوّا ہی رہا

جن لوگوں کو رات کو جاگنے کی عادت پڑ چکی ہے اگر وہ مسلمان ہیں تو انہیں چاہیئے کہ پہلے صبح سویرے اُٹھ کر نہانے اور فجر کی نماز اوّل وقت میں پڑھنے کی عادت ڈالیں ۔ نماز کے بعد صبح ناشتہ کرنے تک جو سب سے مشکل سبق سمجھیں اسے پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں ۔ جب عادت ہو جائے پھر مزید جلدی اُٹھنا زیادہ مشکل نہیں ہو گا ۔ صبح سویرے نہانے سے آدمی سارا دن تازہ دم رہتا ہے اور صحت بھی اچھی رہتی ہے ۔

نوکری ۔ جنگلی پودا جب درخت بن جائے

نوکری ۔ چاکری یا ملازمت ۔ کچھ کہہ لیجئے ۔ ویسے آجکل رواج جاب [job] کہنے کا ہے ۔ ملازمت نجی ادارے کی ہو یا سرکاری محکمہ کی اس کے کچھ اصول و قوانین ہوتے ہیں جن کی پاسداری ہر ملازم کا فرض ہوتا ہے ۔ دورِ حاضر میں ہماری قوم کی خواری کی بنیادی وجہ ادارے کے قوانین کی بجائے حاکم کی ذاتی خواہشات کی تابعداری ہے جس کی پنیری 1973ء میں لگائی گئی تھی اور اب یہ جنگلی پودا تناور درخت بن چُکا ہے

میں نے جب 1962ء میں ملازمت اختیار کی تو سرکاری ملازمین پر 1955ء میں شائع کئے گئے اصول و ضوابطِ ملازمت کا اطلاق ہوتا تھا ۔ اس میں قائداعظم کی 25 مارچ 1948ء کو اعلٰی سرکاری عہدیداروں کو دی گئی ہدایات پر مبنی اہم اصول یا قوانین مندرجہ ذیل تھے

(الف) ۔ ہر عہدیدار قوم کا حاکم نہیں بلکہ خادم ہے ۔ حکومت کا وفادار رہے گا اور اس سلسلہ میں دوسرے عہدیداران سے تعاون کرے گا
(ب) ۔ تعاون کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دوسرے عہدیدار کے ہر عمل میں تعاون کرےگا یا اپنے اعلٰی عہدیدار کے ہر حُکم کو مانے گا بلکہ اگر دوسرا عہدیدار کوئی کام مروجہ قانون کے خلاف کرے یا اعلٰی عہدیدار کوئی ایسا حُکم دے جو قانون کے مطابق نہ ہو تو ان سے عدمِ تعاون وفاداری اور تعاون ہو گا
(ج) ۔ اوسط کارکردگی ہی مطلوب ہے ۔ اس سے اُوپر اور نیچے معدودے چند ہوتے ہیں جن کی طلب نہیں ہے
(د) ۔ ترقی کیلئے کارکردگی کی سالانہ رپورٹ (Annual Confidential Report)کے تمام حصوں کو برابر التفات (consideration/ weightage) دی جائے
(قارئین کی سہولت کیلئے قائداعظم کے متذکرہ خطاب کا متن اس تحریر کے آخر میں بھی نقل کیا گیا ہے

زمیندار ۔کاشتکار ۔ باغبان اور وہ لوگ جنہوں نے اپنے گھر میں چھوٹے چھوٹے باغیچے بنا رکھے ہیں جانتے ہیں کہ اگر ایک جنگلی پودہ اُگ جائے اور اسے نکالا نہ جائے اور وہ بڑھتے بڑھتے درخت بن جائے تو پھر اسے تلف کرنا اگر ناممکن نہیں تو نہائت مُشکل ضرور ہو جاتا ہے ۔ اگر اس درخت کو کاٹ دیا جائے تو زیرِزمین اس کی جڑیں پھیلی ہونے کی وجہ سے کئی جگہ سے وہ پھوٹ پڑتا ہے اور ایک کے کئی درخت بن جاتے ہیں ۔ ہمارے مُلک میں اب یہی حالت ہو چکی ہے

ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کے 1973ء میں وضع کردہ انتظامی اصلاحات [Administrative Reforms] کے نفاذسے 1955ء کے سرکاری ملازمت کے قوانین کلعدم ہو گئے ۔ گو نئے قوانین کی روح بھی وہی ہے کہ سرکاری عہدیدار قوانین کے مطابق کام کرے گا لیکن اس کی تشریح اُس طرح نہیں کی گئی جس طرح 1955ء کے قوانین میں موجود تھی ۔ بالخصوص ترقی کیلئے جو اصول اُوپر (ج) کے تحت درج ہے کی بجائے کر دیا گیا
Below everage, Average, above Average, Good, Very Good, Exellant
اور ان کے نمبر رکھ دیئے گئے ۔ ترقی کیلئے جو نمبر رکھے گئے اُن کے مطابق اوسط (Average) رپورٹ پانے والا ترقی نہیں پا سکتا تھا ۔ اور ستم ظریفی یہ کہ متعلقہ افسر کو پرانے قوانین کے مطابق صرف Below Average رپورٹ کی اطلاع دی جاتی تھی چنانچہ افسر کو اپنی نااہلی کا اُس وقت پتہ چلتا ہے جب اُس کے جونیئر ترقی پا جاتے ہیں اور وہ بیٹھا رہ جاتا ہے ۔ ساتھ ہی یہ ستم بھی کہ بی پی ایس 19 کا افسر اگر 3 اوسط رپورٹیں پا لے تو وہ مستقبل میں گُڈ (Good) رپورٹیں لے کر بھی ترقی نہیں پا سکتا

(د) کے تحت لکھا گیا کی بجائے کر دیا گیا کہ
Grading and recommendation in the Fitness column given by the reporting officer shall be final

سرکاری عہدیداروں کی مُلک کے قوانین کی بجائے بڑے صاحب یا اس وقت کے حُکمران کی خوشنودی حاصل کرنے کا عمل شروع ہونے کی دوسری بڑی وجہ مُلکی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بغلی داخلہ (Lateral Entry) کے ذریعہ پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور دوسرے منظورِ نظر لوگوں کی سینکڑوں کی تعداد میں اعلٰی عہدوں پر بھرتی بھی ہے جو ذولفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں کی گئی ۔ پیپلز پارٹی کے جیالے وکیل ضلعی اور اعلٰی عدالتوں میں بھی جج بنائے گئے ۔ ان عہدیداروں اور ججوں میں سے کوئی دس فیصد ہوں گے جو متعلقہ عہدوں کے قابل ہو سکتے تھے باقی سب نااہل تھے ۔ ان لوگوں نے حکومتی مشینری اور عدلیہ کو ہر جابر حکمران کے ہاتھ کا کلپرزہ بنا دیا

متذکرہ بغلی داخلہ کے ذریعہ سے وفاقی حکومت میں بھرتی کئے گئے درجنوں ڈپٹی سیکریٹریوں اور جائینٹ سیکریٹریوں سے میرا واسطہ پڑا ۔ ان میں سے صرف ایک ڈپٹی سیکریٹری کو اپنے عہدے کے قابل پایا ۔ ایک ایسے ڈپٹی سیکریٹری سے بھی واسطہ پڑا جس سے ہر شخص نالاں تھا ۔ اُسے نہ بولنے کی تمیز تھی نہ کسی اور اداب کی ۔ ماتحتوں کو گالیاں بھی دیتا تھا ۔ نہ انگریزی درست بول یا لکھ سکتا نہ اُردو ۔ اُس کے پاس بی اے ایل ایل بی کی سند تو تھی لیکن کسی قانون کا اُسے علم نہ تھا ۔ ڈپٹی سیکریٹری بنائے جانے سے پہلے وہ فیصل آباد کے کسی محلہ میں پیپلز پارٹی کا آفس سیکریٹری تھا

میری قوم کب جاگے گی یا رب ۔ میرے مولٰی ۔ جھنجھوڑ دے میری قوم کو کہ وہ جاگ اُٹھے اور اپنی بھلائی کیلئے جدوجہد کرے

DO YOUR DUTY AS SERVANTS ADVICE TO OFFICERS
Address to the Gazetted Officers of Chittagong on 25th March, 1948

I thank you for giving me this opportunity to see you collectively. My time is very limited and so it was not possible for me to see you individually. I have told you two things: I have already said what I had to say to the Gazette Officers at Dhaka. I hope you should read an account of what I said there in the newspapers. If you have not I would request you to take the trouble of reading what I said there. One cannot say something new everyday. I have been making so many speeches and I expect each one of you to know my views by now.

Ladies and Gentlemen, I want you to realize fully the deep implications of the revolutionary change that has taken place. Whatever community, caste or creed you belong to you are now the servants of Pakistan. Servants can only do their duties and discharge their responsibilities by serving. Those days have gone when the country was ruled by the bureaucracy. It is people’s Government, responsible to the people more or less on democratic lines and parliamentary practices. Under these fundamental changes I would put before you two or three points for your consideration:

You have to do your duty as servants; you are not concerned with this political or that political party; that is not your business. It is a business of politicians to fight out their case under the present constitution or the future constitution that may be ultimately framed. You, therefore, have nothing to do with this party or that party. You are civil servants. Whichever gets the majority will form the Government and your duty is to serve that Government for the time being as servants not as politicians. How will you do that? The Government in power for the time being must also realize and understand their responsibilities that you are not to be used for this party or that. I know we are saddled with old legacy, old mentality, old psychology and it haunts our footsteps, but it is up to you now to act as true servants of the people even at the risk of any Minister or Ministry trying to interfere with you in the discharge of your duties as civil servants. I hope it will not be so but even if some of you have to suffer as a victim. I hope it will not happen –I expect you to do so readily. We shall of course see that there is security for you and safeguards to you. If we find that is in anyway prejudicial to your interest we shall find ways and means of giving you that security. Of course you must be loyal to the Government that is in power.

The second point is that of your conduct and dealings with the people in various Departments, in which you may be: wipe off that past reputation; you are not rulers. You do not belong to the ruling class; you belong to the servants. Make the people feel that you are their servants and friends, maintain the highest standard of honor, integrity, justice and fair-play. If you do that, people will have confidence and trust in you and will look upon you as friends and well wishers. I do not want to condemn everything of the past, there were men who did their duties according to their lights in the service in which they were placed. As administrator they did do justice in many cases but they did not feel that justice was done to them because there was an order of superiority and they were held at a distance and they did not feel the warmth but they felt a freezing atmosphere when they had to do anything with the officials. Now that freezing atmosphere must go and you must do your best with all courtesy and kindness and try to understand the people. May be sometimes you will find that it is trying and provoking when a man goes on talking and repeating a thing over and over again, but have patience and show patience and make them feel that justice has been done to them.

Next thing that I would like to impress upon you is this: I keep or getting representations and memorials containing grievances of the people of all sorts of things. May be there is no justification, may be there is no foundation for that, may be that they are under wrong impression and may be they are misled but in all such cases I have followed one practice for many years which is this: Whether I agree with anyone or not, whether I think that he has any imaginary grievances whether I think that he does not understand but I always show patience. If you will also do the same in your dealings with an individual or any association or any organization you will ultimately stand to gain. Let not people leave you with this bearing that you hate, that you are offensive, that you have insulted or that you are rude to them. Not one per cent who comes in contact with you should be left in that state of mind. You may not be able to agree with him but do not let him go with this feeling that you are offensive or that you are discourteous. If you will follow that rule believe me you will win the respect of the people.

With these observations I conclude what I had to say. I thank you very much indeed that you have given me this opportunity to say these few words to you and if you find anything good in it follow, if you do not find anything good in it do not follow.

Thank you very much.

Pakistan Zindabad

رہ گئی رسم اذاں

میری کل کی تحریر پر سب بہن بھائیوں نے بڑے خلوصِ شوق سے اپنے خیالات کا اظہار کیا جس کیلئے میں اُن کا مشکور ہوں اور سب کا انفرادی طور پر جواب نہ دینے پر معذرت خواہ ہوں ۔ احمد صاحب نے درست طور پر تاریخ مولدالنبی پر اختلاف کا ذکر کیا اور اس کیوجہ بھی یہی ہو سکتی ہے کہ پہلی چار صدیاں کسی نے اس کی طرف توجہ دینے کی بجائے پیغمبرِ اسلام رحمتً لِلعالَمِین سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی تعلیمات پر عمل کرنے پر توجہ مرکوز رکھی ۔ تاریخی کُتب مطابق 9 یا 12 ربی الاوّل میں سے ایک تاریخ ہے ۔ میں کسی زمانہ میں محفلِ میلاد میں جاتا رہا ہوں اور جلوس میں بھی شرکت کی لیکن جو کچھ میں نے وہاں ہوتے دیکھا اُس میں زیادہ تر صرف دکھاوا ہونے کے علاوہ جس سے محبت کے اظہار کیلئے اس کا اہتمام کیا جاتا ہے اُسی کی تعلیمات اور سُنت کی خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔

تمام تبصروں کا جواب میں حکیم الاُمت علّامہ محمد اقبال کے الفاظ میں لکھ رہا ہوں

تربيت عام تو ہے ۔ جوہر قابل ہی نہيں
جس سے تعمير ہو آدم کی يہ وہ گل ہی نہيں
ہاتھ بے زور ہيں الحاد سے دل خُوگر ہيں
امتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں
کس قدر تم پہ گراں صبح کی بيداری ہے
اللہ سے کب پيار ہے ہاں نيند تمھيں پياری ہے
طبع آزاد پہ قيد رمضاں بھاری ہے
تمھی کہہ دو يہی آئين و فاداری ہے؟
جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئی فن ۔ تم ہو
نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن ۔ تم ہو
بجلياں جس ميں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بيچ کھاتے ہيں جو اسلاف کے مدفن ۔ تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کيا نہ بيچو گے جو مل جائيں صنم پتھر کے ؟
منفعت ايک ہے اس قوم کی نقصان بھی ايک
ايک ہی سب کا نبی دين بھی ايمان بھی ايک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ايک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ايک
فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں
کيا زمانے ميں پنپنے کي يہی باتيں ہيں ؟
کون ہے تارکِ آئينِ رسولِ مختار ؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار؟
کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعارِ اغيار ؟
ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار ؟
قلب ميں سوز نہيں روح ميں احساس نہيں
کچھ بھی پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں
واعظِ قوم کی وہ پختہ خيالی نہ رہی
برق طبعي نہ رہی شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں روح بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گيا تلقين غزالی نہ رہی
وضع ميں تم ہو نصاریٰ ۔ تو تمدن ميں ہنُود
يہ مسلماں ہيں جنھيں ديکھ کے شرمائيں يہُود
يوں تو سيّد بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟