Category Archives: تجزیہ

عقل اور سمجھ ؟

عقل اور سمجھ دونوں ہی لطیف یعنی نہ نظر آنے والی چیزیں ہیں اور انہیں دوسرے عوامل کی مدد سے پہچانا اور ان کا قیاس کیا جاتا ہے ۔ عام طور پر انسان ان دونوں کو آپس میں گُڈ مُڈ کر دیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں بالکل مُختلٍف عوامل ہیں ۔ عقل بے اختیار ہے اور سمجھ اختیاری ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ عقل آزاد ہے اور سمجھ غلام

عقل وہ جنس ہے جسے اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے ہر جاندار میں کم یا زیادہ رکھا ہے ۔ عقل کی نشو و نما اور صحت ۔ ماحول اور تربیت پر منحصر ہے ۔ سازگار ماحول اور مناسب تربیت سے عقل کی افزائش تیز تر اور صحتمند ہوتی ہے ۔ جس کی عقل پیدائشی طور پر یا بعد میں کسی وجہ سے مفلوج ہو جائے ایسے آدمی کو عام زبان میں پاگل کہا جاتا ہے ۔ عقل اگر کمزور ہو تب بھی جتنا کام کرتی ہے وہ درست ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بظاہر جسے لوگ پاگل کہتے ہیں وہ بعض اوقات بڑے عقلمند لوگوں کو مات کر دیتے ہیں ۔ کسی زمانہ میں برطانیہ کے ذہنی بیماریوں کے ہسپتال کا ایک واقعہ بہت مشہور ہوا تھا ۔ ایک دن دماغی امراض کا ماہر ڈاکٹر اپنے کام سے فارغ ہو کر گھر جانے لگا تو اُس نے دیکھا کہ اُس کی کار کے ایک پہیئے کی چاروں ڈھِبریاں [nuts] نہیں ہیں ۔ وہ پریشان کھڑا تھا کہ ایک پاگل نے ہسپتال کی کھڑکی سے آواز دی “ڈاکٹر ۔ کیا مسئلہ ہے ؟” ڈاکٹر نے بتایا تو پاگل کہنے لگا “باقی تین پہیئوں سے ایک ایک ڈھِبری اُتار کر اس پہیئے میں لگا لیں اور راستے میں کسی دکان سے 4 ڈھِبریاں لے کر لگا لیں”

عقل جانوروں کو بھی تفویض کی گئی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی جانور نسل در نسل انسانوں کے درمیان رہے [چڑیا گھر میں نہیں] تو اس کی کئی عادات انسانوں کی طرح ہو جاتی ہیں ۔ اصلی سیامی بِلی اس کی مثال ہے جو بدھ مت کے شروع میں بکشوؤں نے اپنا لی اور پھر نسل در نسل وہ انسانوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے انسانوں کے کچھ اشاروں اور باتوں کو سمجھنے لگی ۔ ہم نے ایک اصل سیامی بلی پالی تھی جو بستر پر سوتی تھی تکیئے پر سر رکھ کر ۔ بلی کی یہ نسل دورِ حاضر میں بہت کم رہ گئی ہے جس کا ذمہ دار انسان ہی ہے

کچھ جانور انسان کے کچھ عوامل کی نقل کر لیتے ہیں مثال کے طور پر بندر ۔ شِمپَینزی [chimpanzee] ۔ طوطا ۔ مینا ۔ وغیرہ ۔ ایسا اُن کی عقل ہی کے باعث ہوتا ہے جو کہ اُن میں انسان کی نسبت کم اور محدود ہوتی ہے اسی لئے جانور انسان کی طرح ہمہ دان یا ہمہ گیر نہیں ہوتے

عقل پر ابلیس براہِ راست حملہ آور نہیں ہو سکتا چنانچہ اسے بیمار یا لاغر کرنے کی غرض سے وہ ماحول کا سہارا لیتا ہے ۔ لیکن یہ کام ابلیس کیلئے کافی مشکل ہوتا ہے ۔ آدمی اپنی عقل کو عام طور پر ابلیس کے حملے سے معمولی کوشش کے ساتھ محفوظ رکھ سکتے ہیں

سمجھ وہ جنس ہے جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے صرف انسان کو تفویض کی ہے ۔ سمجھ جانوروں کو عطا نہیں کی گئی ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے انسان کو اس کی افزائش ۔ صحت اور استعمال کی آزادی دے رکھی ہے ۔ ابلیس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ وہ انسان کی سمجھ کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لے ۔ انسان کی فطری خود پسندی اور مادی ہوّس کو استعمال میں لا کر کُل وقتی نہیں تو جزو وقتی طور پر یا عارضی طور پر ابلیس اس میں عام طور پر کامیاب رہتا ہے ۔ اگر ابلیس انسان کی سمجھ کو اپنے قابو میں کرنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر متعلقہ انسان کو ہر چیز یا عمل کی پہچان ابلیس کے ودیعت کردہ اسلوب کے مطابق نظر آتی ہے ۔ اسی عمل کو عُرفِ عام میں آنکھوں پر پردہ پڑنا کہتے ہیں کیونکہ آدمی دیکھ کچھ رہا ہوتا ہے اور سمجھ کچھ رہا ہوتا ہے

اُخروی سزا و جزا کا تعلق عقل سے نہیں ہے بلکہ سمجھ سے ہے ۔ سمجھ مادی جنس نہیں ہے اور میرا مفروضہ ہے کہ سمجھ انسان کے جسم میں موجود روح کی ایک خُو ہے ۔ سمجھ کی جانوروں میں عدم موجودگی کی وجہ سے جانوروں کو اچھے بُرے کی تمیز نہیں ہوتی اسی لئے اُنہیں اپنے عمل کے نتیجہ میں آخرت میں کوئی سزا یا جزا نہیں ہے ۔ اُن کی زندگی میں غلطیوں کی سزا اُنہیں اسی دنیا میں مل جاتی ہے اور اس کا تعلق ان کے جسم سے ہوتا ہے

مندرجہ بالا تحریر میری ساری زندگی کے مشاہدوں اور مطالعہ کا نچوڑ ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمیں درست سوچنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری سمجھ کو ابلیس سے محفوظ رکھے

ملک بچانا ہے تو کچھ کیجئے

ہمارا مُلک اس وقت آفات میں گھِرا ہوا ہے ۔ ہر چند اس کی وجہ قسمت نہیں ہے بلکہ ہماری بحثیت قوم کوتاہیاں ہیں ۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم کوتاہ اندیشی کی وجہ سے اختیار کردہ اپنی ذاتی خودغرضیاں چھوڑ کر باہمی مفاد کا سوچیں اور اللہ کی طرف رجوع کریں ۔ باعِلم اور باعمل بزرگوں کی نصیحت ہے کہ سورت الشمس اور آیت کریمہ کی تلاوت کم از کم 70000 بار کی جائے ۔ ویسے جتنی زیادہ بار کی جائے اتنا ہی بہتر ہو گا ۔ میری تمام قارئین سے درخواست ہے کہ اپنے مُلک کی خاطر بلکہ اپنے خاندان اور بالخصوص خود اپنی خاطر بھی ان کا وِرد کریں اور اپنے عزیز و اقارب کو بھی یہی ترغیب دیجئے ۔ اور ہر گھرانہ 2000 بار سورت الشمس اور 2000 بار آیت کریمہ پڑھے اس کے ساتھ ساتھ ہر بُرے کام سے بچنے کی پوری کوشش کیجئے

سُورة ۔ 91 ۔ الشَّمْس
وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا 0 وَالْقَمَرِ إِذَا تَلَاهَا 0 وَالنَّهَارِ إِذَا جَلَّاهَا 0 وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَاهَا 0 وَالسَّمَاء وَمَا بَنَاهَا 0 وَالْأَرْضِ وَمَا طَحَاهَا 0 وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاهَا 0 فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا 0 قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا 0 وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا 0 كَذَّبَتْ ثَمُودُ بِطَغْوَاهَا 0 إِذِ انبَعَثَ أَشْقَاهَا 0 فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ نَاقَةَ اللَّهِ وَسُقْيَاهَا 0 فَكَذَّبُوهُ فَعَقَرُوهَا فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُم بِذَنبِهِمْ فَسَوَّاهَا 0 وَلَا يَخَافُ عُقْبَاهَا 0

ترجمہ
سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی 0 اور چاند کی جب اس کے پیچھے نکلے 0 اور دن کی جب اُسے چمکا دے 0 اور رات کی جب اُسے چھپا لے 0 اور آسمان کی اور اس ذات کی جس نے اسے بنایا 0 اور زمین کی اور اس کی جس نے اسے پھیلایا 0 اور انسان کی اور اس کی جس نے اس (کے اعضا) کو برابر کیا 0 پھر اس کو بدکاری (سے بچنے) اور پرہیزگاری کرنے کی سمجھ دی 0 کہ جس نے (اپنے) نفس (یعنی روح) کو پاک رکھا وہ مراد کو پہنچا 0 اور جس نے اسے خاک میں ملایا وہ خسارے میں رہا 0 ثمود نے اپنی سرکشی کے سبب (پیغمبر کو) جھٹلایا 0 جب ان میں سے ایک نہایت بدبخت اٹھا 0 تو خدا کے پیغمبر (صالح) نے ان سے کہا کہ خدا کی اونٹنی اور اس کے پانی پینے کی باری سے عذر کرو 0 مگر انہوں نے پیغمبر کو جھٹلایا اور اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں تو خدا نے ان کے گناہ کے سبب ان پر عذاب نازل کیا اور سب کو (ہلاک کر کے) برابر کر دیا 0 اور اس کو ان کے بدلہ لینے کا کچھ بھی ڈر نہیں 0

سُورة ۔ 21 ۔ آیت ۔ 87 کا جزو ۔ المعروف ۔ آیت کریمہ
لَّا إِلَهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ

ترجمہ
تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے (اور) بیشک میں قصوروار ہوں

آستین کے سانپ

افغانستان کے راستے سے پاکستان میں آکر نفاذ شریعت کے نام پر قتل عام کرنے والوں کو بھارتی اسلحہ اور روپیہ دیا جارہا ہے اور اس کھیل میں کراچی کے کچھ بڑے سیٹھ بھی ملوث ہیں ۔ ہمارے حکمران مولانا فضل اللہ کو تو کوستے ہیں لیکن بھارت کے بارے میں خاموش ہیں ۔ کچھ دانشور بھی اُچھل اُچھل کر کہتے ہیں کہ طالبان اور پاکستان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے لیکن جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان میں آگ لگانے والے طالبان کو بارود اور روپیہ کون دے رہا ہے ؟ تو یہ دانشور کھسیانی بلی بن جاتے ہیں

راولپنڈی سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی حنیف عباسی ایک ایسے شخص کو جانتے ہیں جس کی تین بیٹیاں ہیں ۔ ایک دن اسلحہ بردار اس کے گھر پہنچے اور مطالبہ کیا کہ وہ اپنی تینوں بیٹیوں کا نکاح ان نام نہاد مجاہدین کے ساتھ کردے ۔ اس شخص نے حکمت سے کام لیتے ہوئے کہا کہ اسے شادی کی تیاری کیلئے ایک دن دیا جائے ۔ اسلحہ بردار دوبارہ شادی کیلئے آئے تو ان کی تاک میں بیٹھے ہوئے مقامی لوگوں نے انہیں گولیوں سے بھون ڈالا ۔ مولانا فضل اللہ ان غنڈوں کے سامنے بے بس تھے یا پھر ان کی ملی بھگت سے یہ سب ہو رہا تھا ؟

پاکستان کے آئین سے انکار کرنے والے طالبان ہمارے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں لیکن ہمیں ایسے دانشوروں اور ریٹائرڈ جرنیلوں سے بھی ہوشیار رہنا ہے جو پاکستانی سرزمین پر امریکی ڈرون حملوں کی حمایت کرتے ہیں ۔ کیا امریکی ڈرون حملے ریاست کے آئین اور ریاستی عملداری کیلئے خطرہ نہیں ؟ ان دانشوروں اور ریٹائرڈ جرنیلوں کے ماضی کو کریدیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے تانے بانے بھی دہلی کے ساتھ ملتے ہیں

یہ شواہد بھی سامنے آنے لگے کہ یہ غیر مقامی اسلحہ بردار باجوڑ کے ہمسائے میں واقع افغان صوبے کنڑ سے رقم اور افرادی قوت حاصل کرتے ہیں اور مولانا فضل اللہ نے انہی عناصر کے دباؤ پر مولانا صوفی محمد اور سرحد حکومت کے درمیان امن معاہدے کو ناکام بنایا ۔ دوسری طرف افغان طالبان کے رہنما مُلّا محمد عمر نے خوست کے راستے سے شمالی وزیرستان کے عسکریت پسندوں کو حال ہی میں پیغام بھیجا کہ پاکستانی فوج کے خلاف لڑنا جہاد نہیں ہے اگر انہیں لڑنا ہے تو افغانستان آکر امریکی فوج سے لڑیں ۔ القاعدہ کی حکمت عملی بھی یہی ہے کہ پاکستان میں لڑنے کی بجائے افغانستان پر توجہ دی جائے

یہ کھیل 1947ء سے جاری ہے ۔ 1947ء میں نفاذ شریعت کیلئے فقیر ایپی کا نام استعمال ہوا اور 2009ء میں مولانا فضل اللہ کا نام استعمال ہوا ۔ دونوں مرتبہ فساد کی جڑ بھارت ہے ۔ تقسیم ہند کے فوری بعد بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے افغانستان کے راستے پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مداخلت شروع کردی تھی ۔ کابل میں بھارتی سفارتخانے کی طرف سے کچھ قبائلی عمائدین کے ذریعے انگریزوں کے خلاف تحریک آزادی کے ہیرو فقیر ایپی کیساتھ رابطہ قائم کیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے نہ چہرے پر داڑھی ہے اور نہ اسلام کے بارے میں کچھ جانتے ہیں لہٰذا آپ وزیرستان کو افغانستان میں ضم کردیں یا علیحدہ ریاست کے قیام کا اعلان کردیں

دوسری طرف 17 اپریل 1948ء کو پشاور میں قبائلی علاقوں کے عمائدین کا ایک جرگہ منعقد ہوا جس میں قائد اعظم محمد علی جناح کے سامنے اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ قبائل کشمیر کی آزادی کیلئے جہاد کریں گے۔ اس جرگے میں قائد اعظم سے درخواست کی گئی کہ قبائلی علاقوں کو براہ راست مرکزی حکومت کے تابع رکھا جائے ۔ قائد اعظم نے یہ درخواست تسلیم کرلی ۔ اس دوران بنوں میں فقیر ایپی کے نام سے یہ پمفلٹ تقسیم ہوا کہ جہاد کشمیر حرام ہے بلکہ قائد اعظم کے خلاف جہاد کیا جائے جنہوں نے پاکستان میں شریعت نافذ نہیں کی

اس کے بعد 29 جون 1948ء کو پاکستانی اخبارات میں خبر شائع ہوئی کہ ایک 35 سالہ قبائلی اول حسین کو گرفتار کرلیا گیا ہے جو فقیر ایپی کے نام پنڈت نہرو کا ایک خطہ دہلی سے لا رہا تھا۔ گیارہ ستمبر 1948ء کو قائد اعظم وفات پا گئے ۔ نہرو کا خیال تھا کہ پاکستان چھ ماہ میں ٹوٹ جائے گا

یہ اقتباس ہے حامد میر کی تحریر قلم کمان سے جو یہاں کلک کر کے پوری پڑھی جا سکتی ہے
بشکریہ ۔ جنگ

مشقِ لاحاصل

قومی کانفرنس تمام ہوگئی ۔ 43 چھوٹی بڑی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔ سب کو اظہار خیال کا موقع ملا ۔گھنٹوں مباحثہ ہوا ۔ حکومت کی تیار کردہ قرارداد میں ترامیم ہوئیں ۔ ایک متفقہ قرارداد کا متن تیار ہوا ۔ اس پر تمام جماعتوں کے عمائدین نے دستخط ثبت فرمائے ۔ اس 16نکاتی اعلامیے میں سب کچھ ہے لیکن کہیں ”فوجی آپریشن“ کے الفاظ استعمال نہ ہوئے اور نہ ہی زعمائے ملت نے یک زبان ہو کر نعرہ لگایا کہ باجوڑ کے شدت پسندوں کو زبردست فوجی قوت کے ساتھ کچل دیا جائے ۔ منظور کردہ قرارداد میں ”طالبان“ کا لفظ بھی موجود نہیں ۔ عمومی اندازوعظ و تلقین اور دعوت و ارشاد کا سا ہے ۔ کوئی ایک بھی ٹھوس، جامع اور متعین بات نہیں کی گئی اور نہ ہی کوئی ایسا میکانزم تجویزکیا گیا ہے جو اس کانفرنس کی منظور کردہ قراردادکو عملی جامہ پہنانے کا اہتمام کرے گا ۔ سب کچھ ایک بار پھر اسی حکومت پر چھوڑدیا گیا ہے جس کی ناک میں امریکہ کی نکیل پڑی ہے اور جو مشرف کے اس فلسفے کو ایمان کا درجہ دیئے بیٹھی ہے کہ اقتدار پر قابض رہنے کے لیے شہنشاہ عالم پناہ کی خوشنودی کی ضرورت ہے

کانفرنس نے اکتوبر 2008ء میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی منظور کردہ قراردادوں کی حمایت کی ۔ آئین اور ریاستی خودمختاری کے تحفظ کا عہد کیا ۔ قانون کی بالادستی قائم رکھنے کیلئے ریاستی رٹ پر زور دیا ۔ آئین اور ریاست کی اتھارٹی کو چیلنج کرنے کی مسلح کوششوں کی مذمت کی ۔ فوجیوں اور معصوم شہریوں کے جانی نقصان پر دکھ کا اظہار کیا ۔ عام شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے کہا ۔ بے گھر ہوجانے والے افراد کی ہرممکن امداد اور بحالی کا عزم ظاہر کیا ۔ قوم سے اپیل کی کہ وہ اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کیلئے اٹھ کھڑی ہو ۔ ایک متحرک اور فعال جمہوری نظام کو ناگزیر قرار دیا ۔ پورے یقین کے ساتھ دنیا کو باور کرایا کہ پاکستان کے جوہری اثاثے ایک موثر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے تحت ہیں ۔ زور دے کر کہا کہ اہم قومی دفاعی معاملات اور فوج کی مختلف مقامات پر تعیناتی صرف پاکستان کا کام ہے ۔ کہا گیا کہ پاکستانی قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو اقتصادی ، سیاسی اور جانی قربانیاں دی ہیں ان کی نظیر کوئی دوسرا ملک پیش نہیں کرسکتا ۔ پاکستان کی سیاسی ، معاشی اور علاقائی خودمختاری کے خلاف کارروائیوں بالخصوص ڈرون حملوں کی شدید مخالفت کی گئی اور قرار دیا گیا کہ پاکستان ایک آزادوخودمختار ملک ہے اور اسے دی جانے والی اقتصادی اور فوجی امداد کو شرائط میں جکڑنے کے منفی اثرات برآمد ہوں گے

یہ ایک لحاظ سے وعظ و نصیحت کا وہ پرچہ ہے جو آپ کو کبھی کبھار ڈاک میں موصول ہوتا ہے اور جس کے کنارے پہ لکھا ہوتا ہے کہ اگر تم نے اس کی مزید دس کاپیاں تیار کرکے تقسیم نہ کیں تو تم پر شدید عذاب نازل ہوگا۔ ممکن ہے یہ تاثر مبنی برحقیقت نہ ہو لیکن قیاس یہی ہے کہ قومی کانفرنس کے باوجود صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔ فوجی آپریشن اسی انداز میں چلتا رہے گا، گناہ گاروں اور بے گناہوں کی تمیز کے بغیر لاشیں گرتی رہیں گی ۔ بے خانماں ہونے والوں کی تعداد بڑھتی رہے گی

عرفان صدیقی کے مضمون کا بقیہ یہاں کلک کر کے پڑھیئے
بشکریہ ۔ جنگ

طویل المعیاد امریکی حکمتِ عملی

افغانستان میں امریکی موجودگی دراصل ایک طویل المعیاد امریکی فوجی حکمتِ عملی کا حصہ ہے جس کے تحت امریکہ اپنی دیرینہ معاشی اور حُکمرانی کے خواب پورا کرنا چاہتا ہے ۔ پڑھیئے ایک ہوشرُبا تجزیہ ۔ مندرجہ ذیل عنوانات پر دی ہوئی ترتیب سے باری باری کلِک کر کے
1 ۔ ذرخیز مشرق پر امریکی قبضہ کا منصوبہ
2 ۔ عزائم کی تکمیل میں امریکی خوش قسمتی ۔ پاکستان میں تابعدار فوجی آمر کی موجودگی
3 ۔ دراصل امریکہ طالبان کی مالی امداد کر رہا ہے
4 ۔ امریکہ کا منصوبہ طالبان کو فتح کرنا نہیں بلکہ اس سے بہت بڑا مقصد ہے

آپریشن جاری ہے

آہ ظالم ڈاکٹر شاہد مسعود ۔ کیوں پھر یاد کرا دیا مجھے وہ وقت جب میں دس دن اور دس رات بالکل نہ سویا تھا اور پھر آخری دن 16 دسمبر 1971ء کو ٹرین میں کراچی سے راولپنڈی جاتے ہوئے ریڈیو سنتے مجھے یوں محسوس ہوا تھا جیسے کسی نے بہت بلند ہوائی جہاز سے بغیر پیراشوٹ کے مجھے زمین پر پھینک دیا ہو ۔ اب تو 1970ء کا ایک ایک منظر آنکھوں کے سامنے گذرنے لگا ہے اور کتنی مماثلت ہے آج کے دور کی اس دور کے ساتھ

ڈاکٹر شاہد مسعود کی تحریر سے اقتباسات
ہم خود فریبی اور منافقت کے نتیجے میں آدھا ملک گنوادینے اور گزرے باسٹھ برسوں کے دوران بارہا اپنے ہی ہم وطنوں کو فتح کر لینے کی ناکام کوششوں کے باوجود، دُنیا بھر میں ذلیل و خوار اپنا کشکول لے کر گھومنے اور جہاں کی پھٹکار سننے کے بعد یہاں تک تو فخریہ اعلان کرنے کو تیار ہیں کہ ”میں طویل غیر ملکی دورے پر زیادہ بھیک مانگنے گیا تھا!!“ لیکن کوئی واضح راہ متعین کرنے، نظریہ تراشنے یا حکمتِ عملی طے کرنے کو تیار نہیں

صوبہ سرحد پختونخواہ میں بھر پور عسکری کارروائی جاری ہے! سینکڑوں شدت پسندوں کے مارے جانے اور لاکھوں انسانوں کے بے گھر ہو جانے کی خبریں ہیں! یہ ”شدت پسند“ کون ہیں ؟ میں نہیں جانتا کیونکہ کچھ عرصہ قبل یہ افغانستان میں قائم بھارتی قونصل خانوں سے مدد لیتے ملک دشمن عناصر تھے ! پھر اچانک ممبئی پر ہوئے حملوں کے بعد اِن ”بھارتی ایجنٹوں“ نے کسی بھی جارحیت کی صورت بھر پور ملکی دفاع کا اعلان کرتے، پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کا اعلان کردیا تھا۔ پھر یہی طے ہوا تھا کہ مطالبہ صرف عدل و انصاف کی فراہمی ہے، اس لئے صرف مفاہمت ہی بہترین حکمت عملی ہے! اور واحد رستہ چونکہ معاہدہ ہے، اس لئے بھر پور ”قومی یکجہتی“ کا اُسی طرح مظاہرہ کرتی قوم کی منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر انتہائی سرعت سے معاہد ہ پر دستخط کردیئے تھے جس طرح اب سر جھکائے ایک بار پھر ”اعلیٰ قومی مفاد کے تقاضوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے “اور” سیاسی بلوغت کا اظہار“ کرتے ، اُس کے خلاف عسکری کارروائی کی حمایت کردی ہے!

اور پھر یہ قومی علماء و مشائخ کانفرنس؟ سرکاری خزانے کا بے دریغ استعمال اور بے مقصد قرار دادیں اور اپیلیں! باسٹھ برسوں میں نہ ہم قائد اعظم کے افکار و خیالات کی دُرست تشریح پر اتفاق کرسکے اور نہ علامہ اقبال کے اشعار کے مفہوم پر اتحاد! قوموں، فرقوں اور مسالک کی تقسیم در تقسیم اور ہر دور کی نئی منطق! جنرل ضیاء الحق کے دور میں منعقد ہوتی علماء و مشائخ کانفرنسیں جہاد فی سبیل اللہ کا درس دیتی دُنیا کے ہر کونے میں باطل کو مٹادینے کیلئے پکارا کرتی تھیں اور اب یہی حکو متی سر پرستی میں ہوتی محافل اُس کے برعکس اقدام کو عین شریعت قرار دے رہی ہیں!! اور حیران کن امر یہ کہ ذرا … مدعوئین اورمقررین کے ناموں کی فہرستیں ملاحظہ کیجئے!

روئیداد خان نے کہا کہ برسوں پہلے اُنہوں نے ہجرت کرتے بنگالیوں کو بھارتی سرحد کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ جنرل حمید گل نے اِسی بات کو آگے بڑھاتے کہا کہ اگر آج بھی سرحد پار امریکہ نہ موجود ہوتا تو شاید پختون، ہماری عسکری کارروائی کے بعد سرحد کا ہی رُخ کرتے اور پھر … جنرل حمید گل نے ایک عجب جملہ کہا ”ہوسکتا ہے یہ ظلم آگے چل کر … کسی پختون مکتی باہنی کو جنم دے دے“۔

”آپر یشن جاری ہے ۔ لا تعداد شدت پسند مارے جاچکے ہیں۔ بے مثال کامیابی حاصل ہورہی ہے۔ دشمن کے دانت کھٹے کردیئے جائیں گے۔ قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔ تمام سازشیں ناکام بنادی جائیں گی۔ سیاسی قیادت متحد ہے،بھارت ہمارا دوست ہے۔ قوم بیدار ہے۔ علماء یکسو اور یکجا ہو چکے ہیں، ہر اُٹھنے والی آنکھ پھوڑ اور بڑھنے والا ہاتھ توڑ دیا جائے گا۔ سب ٹھیک ہے اور ایسا ہی رہے گا۔ جتنا زیادہ ہو سکے ، چندہ ، خیرات اور امداد دیں تاکہ آپ کے بھائیوں کی مدد ہوسکے“ ۔ مفتی رفیع عثمانی کو نہیں صاحبزادہ فضل کریم کو سنیے۔ ریڈیو پاکستان اب بھی یونہی گونج رہا ہے کہ آپریشن جاری ہے۔

یونہی خیال آ گیا

کچھ روز قبل ایک کتاب پڑھنے کے بعد میں نے جو کچھ پڑھا تھا بستر پر دراز اس کے متعلق سوچ رہا تھا تو میں اس دُنیا سے گُم ہو گیا ۔ جب واپسی ہوئی تو میرا تکیہ تر تھا ۔ اچانک میرے ذہن میں ان فقروں نے جنم لیا

پیار کو ہم نے سوچ کے اپنایا ہوتا
صرف آپ کو رہنما اپنا بنایا ہوتا
آج ہم بھی ہوتے اللہ کے پیاروں میں
گر آپ کو جان سے محبوب بنایا ہوتا

Click on “Reality is Often Bitter” to read my another blog with different posts and articles or write the following URL in browser and open http://iabhopal.wordpress.com