Category Archives: تجزیہ

مرد ۔ ۔ ۔ ظُالم ہوتے ہیں ؟

بہت سوں نے سُن یا پڑھ رکھا ہو گا کہ ” ماؤں ۔ بيويوں اور لڑکيوں کے آلام و مصائب کا سبب ظالم مرد ہوتے ہيں”
يہ وقت ہے کہ مرد کے متعلق جانا جائے کہ وہ ہے کيا چيز ؟

مرد اللہ کی ايک عمدہ تخليق ہے

کيسے ؟

چھوٹی سی ہی عمر ميں وہ حالات سے مصالحت کرنا شروع کر ديتا ہے
بہنوں کيلئے اپنی چاکليٹ ۔ دوسری اشياء اور وقت کی قربانی ديتا ہے

جوان ہونے پر والدين کے چہرے پر مُسکراہٹ ديکھنے کی غرض سے اپنی محبت اور آسائش کی قربانی ديتا ہے

اپنے بيوی بچوں کی خاطر زيادہ محنت اور زيادہ وقت کام کر کے اپنا آرام قربان کرتا ہے
بيوی بچوں کے بہتر مستقبل کی خاطر قرض تک اُٹھاتا ہے اور پھر اس کی ادائيگی کيلئے اپنا چين قربان کرتا ہے

اسی طرح وہ اپنی جوانی بغير شکائت کئے قربان کر ديتا ہے

بے تحاشہ محنت اور کوشش کے باوجود اُسے ماں ۔ بيوی اور باس [boss] کی طرف سے سرزنش ۔ طعن و تشنيع برداشت کرنا پڑتی ہے اور پھر بھی اُنہيں شکائت ہی رہتی ہے
يہيں بس نہيں ہوتا اُس کی بيوی دوسروں کی خوشی کيلئے مصالحت کرنے لگتی ہے جس کا بوجھ خاوند يعنی مرد کو ہی اُٹھانا پڑتا ہے

مرد بھی جذبات رکھتے ہيں اور ان کے احترام کے مستحق ہيں

ہو سکے تو شدتِ دباؤ اور کھينچا تانی ميں گھِرے اس انسان کی جسے مرد کہا جاتا ہے اُس کی زندگی ميں کچھ قدر کيجئے
جب وہ شدتِ حالات کے نرغے ميں ٹُوٹ رہا ہو تو اس کی مدد کی کوشش کيجئے

(آزاد خیال ملک کے باشندے کے انگريزی ميں لکھے مضمون کا ترجمہ)

بلی کھمبا نہيں نوچتی

ایک نہایت اہم خبر جس کا تعلق ڈاکٹر سلیم اختر سے ہے جنہیں بلی نے کاٹ لیا ہے ۔ ڈاکٹر سلیم اختر کو تو آپ جانتے ہی ہوں گے ۔ اردو کے ممتاز نقاد ۔ ماہر اقبالیات ۔ افسانہ نگار اور اردو کی مختصر ترین تاریخ کے مؤلف ۔ انہوں نے مجھے فون پر بتایا کہ ایک کالی بلی ان کے گھر میں گھس آئی اور اس نے ان کے باورچی خانے کو اپنا باورچی خانہ سمجھنا شروع کردیا چنانچہ اسے پکڑنے کے لئے ساری کھڑکیاں دروازے بند کردئیے گئے اور آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ جب سارے راستے مسدود کردئیے جائیں تو بلی پنجہ تومارتی ہے چنانچہ ڈاکٹر صاحب اگرچہ بلی کو پکڑنے میں کامیاب ہوگئے مگر اس نے جاتے جاتے موصوف کی انگلیاں فگار کرڈالیں ۔ سو آج کل ڈاکٹر صاحب ٹیکے لگوارہے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب کو بھی احساس ہونا چاہئے تھا کہ اب ان کی عمر”بلیوں“ کے پیچھے بھاگنے کی نہیں، اللہ اللہ کرنے کی ہے لیکن وہ غلطی کر بیٹھے اور اب کسی کو بتاتے بھی نہیں ۔ صرف مجھے بتایا کہ جانتے ہیں کہ میں اس طرح کی بات آگے نہیں کیا کرتا ۔ اللہ تعالیٰ انہیں جلد از جلد صحت یاب کرے تاہم ڈاکٹر صاحب کو چاہئے کہ اگر بلی کو بھی ٹیکوں کی ضرورت ہے تو اپنی جان کے صدقے میں اسے بھی لگوادیں ،رام بھلی کرے گا

یہ جو خبر میں نے آپ کو سنائی ہے اس سے ایک نتیجہ بھی نکلتا ہے اور وہ یہ کہ بلی کی طرح کسی سیاسی جماعت کو بھی اتنا زچ نہیں کردینا چاہئے کہ وہ پنجہ مارنے پر مجبور ہوجائے ۔ امید ہے ہماری اسٹیبلشمنٹ اس نکتے پر ضرور غور کرے گی

عمران خان اور ان کے دوستوں کو ایک مفت مشورہ ضرور دینا چاہتا ہوں جس پر عمل کرنے سے انہیں ثواب دارین حاصل ہوگا اور وہ یہ کہ عمران خان کے کسی بھی اقدام کا موازنہ کسی بھی صورت اور کسی بھی شکل میں اللہ کے آخری رسول اور صحابہ کرام کے کسی عمل کے ساتھ نہ کیا جائے کہ ”چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک”

دوسرا مشورہ(یہ بھی سنّت ہے) کہ عمران خان شوکت خانم ہسپتال کو اپنی سیاست چمکانے کے لئے استعمال نہ کریں کہ یہ ہسپتال قوم نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے بنایا ہے ۔ چنانچہ بار بار اس کے تذکرہ سے اس اعلیٰ درجے کے فلاحی کام کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ نیز کل کلاں ڈاکٹر امجد ثاقب بھی میدان میں آجائیں گے جو غریب عوام کو اپنے پاؤں پرکھڑا کرنے کے لئے اپنی تنظیم کی طرف سے ابھی تک ایک ارب روپے تقسیم کرچکے ہیں ۔ جنرل(ر) مقبول میر بھی سیاست میں آنے کی سوچیں گے کہ جن کے فائیو اسٹار سطح کے سکول میں رکشہ ڈرائیوروں ۔ مالیوں اور گھریلو ملازموں کے بچے ایچی سن کالج ایسے ماحول میں نہ صرف یہ کہ مفت تعلیم حاصل کررہے ہیں بلکہ انہیں اعلیٰ درجے کا یونیفارم اور کتابیں بھی مفت دی جاتی ہیں ۔ ان جیسے سینکڑوں اور بھی پاکستانی ہیں جنہوں نے اس طرح کی نیکیاں کرکے دریا میں ڈال دی ہیں اور اس کا اجر اقتدار کی صورت میں نہیں صرف روز حساب نجات کی صورت میں اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں

ایک مشورہ اور…اور وہ یہ کہ پاکستان کے لئے ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان کو سلام لیکن اس سلام کے کچھ بچے کھچے حصے ان کھلاڑیوں میں بھی راہ مولا نذر حسین تقسیم کردیں جو اس جیت میں برابر کے شریک تھے ۔ اسی طرح شارجہ کے میدان میں آخری بال پر جاوید میاں داد کے چھکے کو بھی یاد رکھیں اور کبھی کبھی اس کی داد بھی دے دیا کریں کہ کہیں ایک دن جاوید میاں داد بھی اس چھکے کے صدقے میں اقتدار کا طالب نظر نہ آئے

اور آخر میں صرف ایک مشورہ اور…اور وہ یہ کہ اگر کوئی مجھ ایسا بے وقوف اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی کسی جماعت سے اختلاف کرے اور لوگوں کو خبردار کرنے کی کوشش کرے تو اسے برداشت کرلیا کریں اور اس پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع نہ کریں

یہ درخواست محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے علاوہ عرفان صدیقی ، نصرت جاوید، مشتاق منہاس، مہر بخاری، ثناءبُچہ، حامد میر، جاوید چودھری، ابصار عالم، سلیم صافی اور دوسرے اینکر پرسنز کی طرف سے بھی ہے کہ یقین رکھیں یہ سب لوگ بھی ملک و قوم کی خیر خواہی میں جس بات کو صحیح سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں…اور وہ لوگ بھی ملک و قوم کے خیر خواہ ہیں جو تحریک انصاف اور اس کے لیڈر کو پاکستانی قوم کا نجات دہندہ سمجھ کر دامے درمے سخنے اس کی مدد کررہے ہیں، سوائے اسٹیبلشمنٹ کے کہ پاکستان میں کوئی مقبول سیاسی جماعت انہیں”وارا“ نہیں کھاتی اور وہ ان کا زور توڑنے میں لگی رہتی ہے

تحرير ۔ عطا الحق قاسمی

ہم ترقی چاہتے ہيں ؟؟؟

آج بلکہ يوں کہنا چاہيئے کہ پچھلی کئی دہائيوں سے ہم لوگ مُلک و قوم کے دن بدن رُو بتنزل ہونے کا ہر محفل ميں رونا روتے ہيں ۔ تنزل کا مُوجب کوئی سياستدانوں کو قرار ديتا ہے تو کوئی فوجی آمروں کو اور کچھ ايسے بھی ہيں جو مُلا يا مُلا کے پڑھائے ہوئے اُن 18 فيصد افراد کو قرار موردِ الزام ٹھہراتے ہيں جنہوں نے مُلک ميں خواندگی کی شرح کو 17 سے 35 فيصد بنايا ہوا ہے ۔ آخرالذکر ميں اپنے کو زيادہ ذہين سمجھنے والےکچھ ايسے افراد بھی ہيں جو مروجہ بدحالی کا سبب دين اسلام کو قرار ديتے ہيں

ہموطنوں ميں پڑھے لکھوں سميت اکثريت کا يہ حال ہے کہ انہيں مطالعہ کا شوق نہيں ۔ وہ صرف نصاب کی کتب پڑھتے ہيں اسناد حاصل کرنے کيلئے اور بعض تو نصاب کی کُتب بھی پوری نہيں پڑھتے ۔ تعليميافتہ بننے يا اچھی عملی زندگی گذارنے کيلئے نصابی کُتب کے ساتھ ساتھ تاريخ ۔ معاشرتی اور معاشی علوم کا مطالعہ ضروری ہوتا ہے اور يہ عادت نمعلوم کيوں ہموطنوں کی بھاری اکثريت ميں نہيں ملتی ۔ ہماری قوم کی ريخت و ناکامی کا يہی بڑا سبب ہے

دُور کيوں جايئے ۔ پڑھے لکھے ہموطنوں کی بھاری اکثريت کو 6 دہائياں پرانی اپنے ہی مُلک کی تاريخ کا ہی عِلم نہيں تو اور کيا توقع کی جائے ۔ اسی لئے يہ لوگ شکائت کرتے ہيں کہ مُلک ميں کسی نے 64 سال سے کچھ نہيں کيا ۔ صرف معاشی پہلو ہی کو ديکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ہماری دِگرگوں حالت ہموطنوں کی بلاجواز شاہانہ عادات کا نتيجہ ہے ۔ آج کے دور ميں کسی سرکاری دفتر ميں چلے جائيے اور صرف قلم اور کاغذ کے استعمال کا تخمينہ لگايئے ۔ پھر اس کا مقابلہ کيجئے اُن لوگوں کے طريقے سے جنہوں نے اس مُلک کو حاصل کيا اور ترقی کی راہ پر ڈالا تھا

ميں نے پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں يکم مئی 1963ء ميں ملازمت شروع کی ۔ مجھے اُس وقت کے سمال آرمز گروپ [جو 1967ء ميں ويپنز فيکٹری بنا] ميں تعينات کيا گيا ۔ سمال آرمز گروپ کے سربراہ ورکس منيجر تھے جن کے ماتحت ميرے سميت 2 اسسٹنٹ ورکس منيجر اور ايک سيکشن آفيسر ايڈمن تھے ۔ سيکشن آفيسر کے برابر عہدے کے 8 فورمين متذکرہ 2 اسسٹنٹ منيجرز کے ماتحت تھے پھر اُن کے ماتحت اسسٹنٹ فورمين ۔ چارجمين ۔ سپروائزر اور ورکمين وغيرہ تھے

ميں نے ديکھا کہ ہمارے دفاتر ميں کوئی ايسا کاغذ جس کے ايک طرف لکھا ہوا ہو اور اس کی ضرورت نہ رہی ہو تو اُسے ضائع نہيں کيا جاتا تھا بلکہ لکھائی پر صرف ايک کاٹا لگا کر اس کے دوسری طرف لکھنے کيلئے استعمال کی جاتی تھی ۔ اسی طرح جو لفافہ ڈاک ميں موصول ہو اُس پر جہاں پتہ لکھا ہوتا تھا ايک پرچی چپکا کر لفافہ دوبارہ استعمال کيا جاتا تھا ۔ کاغذوں کو نتھی کرنے کيلئے لوہے کے پِن کی بجائے کانٹے استعمال کئے جاتے تھے جو قريب ہی اُگے کيکر کے درخت سے اُتارے جاتے تھے ۔ ہماری فيکٹری ميں صرف ايک ٹائپسٹ تھا اور ايک ہی ٹائپ رائٹر اسلئے کئی خطوط نب ہولڈر يا پکی پنسل سے ہی لکھے جاتے تھے

گليوں اور سڑکوں پر لگی بتياں کوئی توڑتا نہيں تھا ۔ نہ کوئی دوسری املاک کو نقصان پہنچاتا تھا ۔ طلباء اور طالبات اپنی چھٹيوں کے دوران دشمن کے ہوائی حملے سے بچنے اور اس کے بعد پيدا ہونے والی صورتِ حال سے نپٹنے ۔ ابتدائی طبی امداد اور دوسرے فلاحی کورس کرتے تھے ۔ اس کے ساتھ ساتھ معلوماتِ عامہ کے امتحاں پاس کرتے تھے

ہماری فيکٹری ميں سيکشن آفيسر ايڈمن 50 سالہ اشرف علی صاحب تھے جو 1947ء ميں وسط بھارت سے ہجرت کر کے آئے تھے ۔ چونکہ وہاں پر وہ سرکاری سيکرٹيريئٹ کے ملازم تھے اسلئے پاکستان پہنچنے پر اُنہيں کراچی ميں سيکرٹيريئٹ ميں ملازمت دی گئی ۔ وہاں سے 1953ء ميں اُن کا تبادلہ پاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں ہوا تھا ۔ ميں نے اشرف علی صاحب کو ديکھا کہ ردّی کاغذ کی نلکی بنا کر ايک چھوٹی سی پنسل کے پيچھے لگا کر اسے لمبا کيا ہوا تھا کہ لکھنے کيلئے ہاتھ ميں آ سکے ۔ مجھے کام شروع کرنے کيلئے ايک ماہ کيلئے 2 پنسليں ملی تھيں ۔ ميرے پاس لکھنے کا کام کم تھا سو ميں نے ان ميں سے ايک اشرف علی صاحب کو پيش کی تو اُنہوں نے مسکراہٹ کے ساتھ يہ کہا “بھائی ميں چند سال ميں ريٹائر ہونے والا ہوں اور اپنی عادت خراب نہيں کرنا چاہتا کہ ريٹائرمنٹ کے بعد مجھے صرف پنشن پر گذر کرنا ہے”۔

اس کے بعد اُنہوں نے جو کچھ کہا وہ دورِ حاضر کے ہموطنوں کو اگر ہوش ميں نہ لائے تو پھر وہ اسی کے مستحق ہيں جو کچھ آجکل ہو رہا ہے ۔ اور عمران خان تو کيا شايد کوئی فرشتہ بھی آ کر اس مُلک و قوم کو درست نہ کر سکے ۔ اشرف علی صاحب نے مجھے جو بتايا تھا اُس کا خلاصہ يہ ہے

“جب پاکستان بنا تو ہم سی پی سے لُٹے پُٹے کراچی پہنچے سرحد پر نام اور دوسرے کوائف درج کئے جاتے تھے سو ہم نے لکھوا ديا ۔ کچھ دن ہميں کراچی مہاجرين کيمپ ميں رکھا گيا ۔پھر جوں جوں ضرورت ہوتی آدميوں کو ان کی تعليم اور تجربہ کے مطابق چھوٹی موٹی ملازمت دے دی جاتی سو ہميں بھی سيکرٹيريئٹ ميں ملازمت مل گئی ۔ وہاں نہ کوئی کرسی تھی نہ کوئی ميز ۔ کچھ کاغذ جن کی ايک طرف کچھ لکھا تھا اور ايک پکی پنسل دے دی گئی ۔ ايک ساتھی جو پہلے سے موجود تھے اور ايک پيٹی [wooden crate] کو ميز بنائے بيٹھے تھے کہنے لگے کہ آج چھٹی کے بعد ميرے ساتھ چليں ۔ وہ چھٹی کے بعد مجھے کيماڑی لے گئے ۔ وہاں خالی پيٹياں پڑی تھيں ۔ ہم نے ايک چھوٹی اور ايک بڑی اُٹھا لی ۔ اگلے روز ہم دفتر ميں ميز لگا کر کرسی پر بيٹھے ۔ ہميں 3 ماہ تنخواہ پيسوں ميں نہيں ملی بلکہ چاول ۔ آٹا اور دال وغيرہ دے ديا جاتا تھا اور سب خوش تھے ۔ اپنا کام بڑے شوق اور انہماک سے کرتے تھے ۔ ايک دوسرے کا خيال بھی رکھتے تھے ۔ کسی کو کوئی پريشانی نہ تھی ۔ ہم پيدل ہی دفتر آتے جاتے تھے ۔ جن لوگوں کی رہائش دور تھی وہ صبح تڑکے گھر سے نکلتے تھے ۔ ہميں جو پنسل ملتی تھی اُسے ہم آخری حد تک استعمال کرتے تھے ۔ کوئی 6 ماہ بعد ہميں سياہی کا سفوف ۔ دوات ۔ نب اور ہولڈر مل گئے ۔ ليکن پکی پنسل ساتھ ملتی رہی کيونکہ نب سے کاپياں نہيں بن سکتی تھيں”۔

يہاں يہ ذکر بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان بننے کے بعد بھارت ميں گندم کی شديد قلت پيدا ہوئی تو مہاتما کرم داس موہن چند گاندھی نے پورے بھارت کا دورہ کيا اور خود آلو کی روٹی کھا کر عوام کو بھی آلو کی روٹی کھانے کی ترغيب دی تھی جو آج کی اُن کی ترقی کا پيش خيمہ ثابت ہوئی

ملک فيروز خان نون 1957ء ميں پاکستان کے وزير اعظم رہے ہيں ۔ اُن کا گھر ميں دفتر ايک چھوٹی سی ميز اور ايک کرسی پر مشتمل تھا جو اُنہوں نے اپنے سونے کے کمرے ہی ميں لگائی ہوئی تھی ۔ ايک دن ان کی بيوی بيگم وقارالنساء نون نے ذاتی خط لکھا اور اُسی ميز پر رکھ ديا ۔ جب وقت کے پاکستان کے وزير اعظم گھر آئے تو بيوی نے کہا يہ خط ڈاکخانے ميں ڈال آئيں
وزير اعظم نے پوچھا “يہ کاغذ کہاں سے ليا ہے ؟”
بيوی “آپ کی ميز سے”
وزير اعظم “اور يہ سياہی”
بيوی ” آپ کی ميز سے”
وزير اعظم غصے ميں” نہ يہ کاغذ تمہارے خاوند کا ہے اور نہ سياہی ۔ يہ دونوں بلکہ يہ دفتر وزيرِ اعظم پاکستان کا ہے ۔ اب يہ کمی پوری کرنا ہو گی”

کاش کہ تيرے دِل ميں اُتر جائے ميری بات

مصائب کا حل ؟

اگر انڈہ بيرونی طاقت سے ٹوٹے تو اس ميں زندگی کی اُميد نہيں رہتی

اگر انڈہ اندرونی طاقت سے ٹوٹے تو زندگی شروع ہوتی ہے

معاملہ ايک فرد کا ہو يا پوری قوم کا
ہميشہ اندر سے شروع ہونے والی تبديلی فعال ۔ مفيد اور پائيدار ہوتی ہے

لڑکپن ۔ بھَولپن يا ظالم دور

ايک پرانا مقولہ ہے ” جس نے جوانی ۔ دولت اور طاقت کی گرمی سہہ لی وہ کامياب ہو گيا”

ميرا مشاہدہ اور مطالعہ بتاتا ہے کہ اس “جوانی” کے پيچھے کارساز دور دراصل “لڑکپن” کا ہوتا ہے اور کسی بھی مرد يا عورت کيلئے يہ بہت اہم دور ہے ۔ عام طور پر لڑکا يا لڑکی اسی دور کے حالات و اثرات سے بنتے يا بگڑتے ہيں ۔ لڑکا لڑکی اسی دور ميں اچھی يا بُری عادات اپناتے ہيں جو بعد ميں اُن کی خصلت بن جاتی ہيں ۔ سگريٹ پينا ۔ چوری کرنا ۔ جھوٹ بولنا اسی دور کی عِلتيں ہيں ۔ اسی دور ميں عصمت لُٹنے کا زيادہ خدشہ ہوتا ہے ۔ اگر اس دور ميں درست رہنمائی مل جائے تو آدمی انسان بن جاتا ہے ۔ بصورتِ ديگر بھٹکنے کا ہر دم احتمال رہتا ہے اور جو بھٹکتے ہيں وہ اس دور کا پھل عام طور پر عمر بھر کاٹ رہے ہوتے ہيں ۔ اللہ جب چاہے کسی کو ھدائت دے دے وہ الگ بات ہے

بيٹی 10 سال کی ہو جائے تو سمجھدار مائيں اُسے اپنے بھائی کے کمرے ميں بھی نہيں سونے ديتيں اور دن کے وقت بھی اگر بہن بھائی کسی کمرے ميں الگ بيٹھے ہوں تو کسی نہ کسی بہانے جھانکتی رہتی ہيں ۔ دو بھائی اس عمر کے اس دور ميں عليحدہ کمرے ميں ہوں تو سمجھدار مائيں اُن پر بھی نظر رکھتی ہيں

استثنٰی تو ہر جگہ اور ہر صورت ميں ہوتا ہے ليکن بات عام طور سے 66 فيصد کے متعلق کی جاتی ہے ۔ مختلف ممالک ميں اور مختلف ادوار ميں جنسی اور نفسياتی لحاظ سے لڑکپن کے دورانيے ميں تھوڑا بہت فرق ہے ۔ ميرے مشاہدہ اور مطالعہ کے مطابق وطنِ عزيز ميں لڑکے کيلئے يہ دور 12 سال کی عمر 18 سال کی عمر تک ہوتا ہے اور لڑکی کيلئے 10 سال سے 19 سال کی عمر تک

اس دورانيے ميں لڑکا سمجھتا ہے کہ سب اُس کی طرف ديکھ رہے ہيں اور اُس کی خواہش بھی يہی ہوتی ہے ۔ لڑکی کا بھی يہی حال ہوتا ہے ايک اضافے کے ساتھ کہ کوئی اُسے محبت کی نظر سے ديکھے ۔ يہ خواہش تو کسی حد تک ہر انسان کے دل ميں ہوتی ہے ليکن لڑکپن ميں يہ خواہش لڑکی کے ذہن پر سوار ہو کر اچھے بُرے يا سچے جھوٹے کی تميز سے اُسے بے نياز کر ديتی ہے ۔ نتيجہ لڑکی کيلئے اچھا نہيں ہوتا

لڑکی کی ايک اور فطری کمزوری يہ ہے کہ ہر 4 ہفتوں ميں چند دن ايسے ہوتے ہيں کہ لڑکی جذبات سے مغلوب ہوتی ہے ۔ اگر اس دوران اُسے کسی لڑکے کا قُرب حاصل ہو جائے تو جلد زِير ہو جانے کا خدشہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ لڑکيوں کو لڑکوں کی نسبت زيادہ متانت ۔ بُردباری اور احتياط کی ضرورت ہوتی ہے ۔ عمر کے اسی دور کی لغزش لڑکی کو خود کُشی کی طرف ليجاتی ہے

لڑکے اسی عمر ميں اپنی طرف توجہ مبزول کرانے کيلئے سگريٹ نوشی يا دوسری عِلت شروع کرتے ہيں اور پھر اس عِلت ميں پھنس کر رہ جاتے ہيں

يہ خيال رہنا چاہيئے کہ دودھ زمين پر گر جائے تو اُٹھايا نہيں جا سکتا اسلئے کوشش ہونا چاہيئے کہ دودھ گرنے نہ پائے

لڑکی خواہ کس عمر کی بھی ہو [بلکہ عورت کو بھی] چاہيئے کہ کسی بھی جگہ نامحرم لڑکے يا مرد کے ساتھ اکيلی نہ ہونے پائے ۔ نامحرم لڑکے يا مرد سے کسی دفتری يا اخلاقی مجبوری کے تحت تعلقات بڑھائے تو ايک ہاتھ کا فاصلہ رکھ کر يعنی مناسب جسمانی اور سماجی فاصلہ قائم رکھے

لڑکا بھی اگر احتياط نہ کرے تو بعض اوقات لڑکی کے ہاتھوں خواہشات کا شکار ہو جاتا ہے ۔ گو اُسے نقصان لڑکی کی مانند نہيں ہوتا ليکن اُس کے غلط راہ پر چل نکلنے کا دروازہ کھُل جانے کا انديشہ ہوتا ہے يا بعض اوقات وہ نفسياتی دباؤ کا شکار ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ 8 سے 16 سال کے لڑکے کے لئے بھی ضروری ہے کہ کسی بھی جگہ نوجوان لڑکی کے ساتھ اکيلا نہ ہونے پائے

دينی اور سماجی حدود کو غير مسلموں نے ترقی اور آزادی کے نام پر توڑا اور عورت کو چکمہ دے کر مردوں کی جنسی تسکين کا کھلولنا بنا ديا ۔ دُور کے ڈھول سُہانے کے مصداق ہمارے ہاں بھی عورت کی اِس نام نہاد آزادی کا نعرہ کبھی کبھی سننے ميں آتا ہے ۔ حال يہ ہے کہ جنہيں ديکھ کر نقل کی کوشش کی جاتی ہے وہاں آج کے دور ميں سمجھدار عورتيں پرانے ادوار کو حسرت سے ياد کرتی ہيں اور چاہتی ہيں کہ عورت کا اصلی رُوپ واپس آ جائے ليکن عمارت کو گرانا تو آسان ہے مگر اُنہی بنيادوں پر دوبارہ بنانا بہت مُشکل ہوتا ہے

دماغ کيلئے نقصان دہ عادات

1 ۔ ناشتہ نہ کرنے يا بہت دير سے کرنے سے خون ميں شکر کی سطح [blood sugar level] معمول سے کم ہو جاتی ہے جس کے نتيجہ ميں دماغ کو افزائشی مواد [nutrients] ميں کمی ہو جاتی اور دماغ ميں بگاڑ [brain degeneration] پيدا ہوتا ہے

2 ۔ زيادہ کھانے [overeating] سے دماغ کی شريانيں [brain arteries] سخت ہو جاتی ہيں جس کے نتيجہ ميں دماغی صلاحيت کو بيماری لاحق ہو جاتی ہے

3 ۔ تمباکو نوشی [Smoking] متعدد دماغی سُکڑاؤ [multiple brain shrinkage] پيدا کرتی ہے جس کے نتيجہ ميں الزائمر کی بيماری [Alzheimer disease] ہو سکتی ہے

4 ۔ زيادہ شکر والی خوراک کے استعمال کی زيادتی سے خون ميں شکر کی سطح مطلوب مقدار سے بڑھ جاتی ہے جو لحميات اور افزائشی مواد [proteins and nutrients] کے انجذاب [absorption] کو روکتی ہے جس سے اصل غذائيت ميں کمی [malnutrition] ہوتی ہے اور اس کا دماغ کی نشو و نما پر بُرا اثر پڑتا ہے

5 ۔ انسان کے بدن ميں دماغ باقی عضاء کی نسبت زيادہ آکسيجن ليتا ہے ۔ آلودہ ہوا ميں سانس لينے سے دماغ آکسيجن کی مطلوبہ مقدار سے محروم رہتا ہے جس کے نتيجہ ميں دماغ کی صلاحيت يا کارکردگی ميں کمی آتی ہے

6 ۔ مناسب نيند کرنے سے دماغ کو آرام ملتا ہے اور اس کی افزائش مناسب ہوتی ہے ۔ نہ سونا يا بہت کم سونا دماغ کے خُليئوں کے فنا ہونے ميں سُرعت پيدا کرتا ہے

7 ۔ 6 سے 8 گھنٹے رات ميں اور ايک گھنٹہ دن ميں سونا بہت ہوتا ہے ۔ زيادہ سونے سے جسم اور پھر دماغ پر چربی چڑھ جاتی ہے جو دماغ کو کمزور کرتی ہے

8 ۔ بيماری کے دوران دماغ کا زيادہ استعمال يعنی زيادہ باتيں کرنے يا کتاب پڑھتے رہنے سے دماغ کی تاثير [effectiveness] کم ہوتی ہے اور دماغ پر مزيد بُرے اثرات مرتب ہو سکتے ہيں

9 ۔ نشاط انگيز [stimulation] غور و فکر دماغ کی غذا ہے ۔ اس سے احتراز دماغ کو سُکيڑ ديتا ہے

بجلی کا بل زيادہ کيوں ؟

ہمارے موجودہ حکمران اتنے زيادہ عوامی اور حق پرست ہيں کہ ارد گرد وقوع پذير ہونے والے بھيانک مناظر سے عوام کی توجہ ہٹانے کيلئے گھر بيٹھے بٹھائے اُن پر بجلی کے بلوں کے ذريعہ اُنہيں مدہوش رکھتے ہيں تاکہ ان کی صحت پر ارد گرد کے ماحول کا بُرا اثر نہ ہو

اخبارات ميں چھپ رہا تھا مگر جب ہفتہ قبل بجلی کا بل ماہِ جون کا آيا تو يہی سوچتے رہے کہ ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ہے کيونکہ حکمران تو غلطی کر نہيں سکتے ۔ يہ الگ بات ہے کہ اُنہيں نہ کوئی کرايہ دينا پڑتا ہے اور نہ گيس ۔ ٹيليفون يا بجلی کا بل اور نہ پٹرول کی قيمت ۔کھانے پينے سميت اُن کے سب اخراجات عوام کی جيبوں سے نکالے پيسوں سے ادا ہو جاتے ہيں ۔ 3 دن مدہوش رہنے کے بعد خيال آيا کہ وجہ پچھلے بِلوں ميں تلاش کی جائے

موازنہ ۔ حال اور ماضی
اطلاع ۔ مندرجہ ذيل قيمتيں بشمول ٹيکس اور سرچارج ہيں

بجلی کے يونٹ ۔ ۔ ۔ ۔ جولائی 2005ء ۔ ۔ ۔ جولائی 2008ء ۔ ۔ ۔ جولائی 2011ء
پہلے 100 يونٹ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 284.51 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 354.20 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 533.45 روپے
بعد کے 200 يونٹ ۔ ۔۔ 775.34 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 938.40 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 1612.10 روپے
بعد کے 400 يونٹ ۔ ۔۔ 2263.20 ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ 2838.00 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 5005.52 روپے
بعد کے 300 يونٹ ۔ ۔۔ 1697.40۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2128.50۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4684.74 روپے
بعد کے 100 يونٹ ۔ ۔۔ 680.40۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 709.50۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1561.58 روپے
1100يونٹ کی قيمت ۔ 5700.85۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 4968.60۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 13397.39 روپے

دوسرا گورکھدہندہ کہ بجلی کی يونٹيں يکدم اتنی زيادہ کيسے ہو گئيں ؟

يونٹوں کی تعداد اسلئے ڈيڑھ گُنا ہو گئی ہے کہ پوٹينشل ڈِفرينس جسے عام زبان ميں وولٹيج کہا جاتا ہے وہ پچھلے ايک ماہ ميں 180 سے 150 وولٹ تک رہی جبکہ 240 سے 220 وولٹ تک ہونا چاہيئے ۔ مطلب يہ ہوا کہ پاور فَيکٹر جو 0.9 ہونا چاہيئے بہت کم رہا ۔ جتنا پاور فيکٹر کم ہو گا ميٹر اتنا ہی تيز چلے گا ۔ سادہ الفاظ ميں اگر کسی نے حقيقت ميں 1000 يونٹ کی بجلی استعمال کی تو 180 سے 150 وولٹيج ہونے کی وجہ سے ميٹر ريڈنگ 1335 سے 1600 يونٹ ہو گی ۔ اس کُليئے کے تحت ہمارے جون 2011ء کے بل ميں جو ہميں ہفتہ قبل موصول ہوا 1535 يونٹ لکھے گئے ہيں ۔ اگر وولٹيج درست يعنی 240 سے 220 تک ہوتی تو ہمارے يونٹ 1000 کے قريب ہوتے

بجلی کم سپلائی کيوں ؟

کيپکو کے ايم ڈی نے بتايا ہے کہ بجلی پيدا کرنے کی صلاحيت طلب کو پوراکر سکتی ہے ۔ پيداوار ميں کمی کا سبب واجبات نہ ادا کرنا ہے جو کہ کھربوں روپے ہيں جس کے نتيجے ميں کيپکو بجلی پيدا کرنے والے اداروں کو ادائيگی نہيں کر پاتی اور بجلی پيدا کرنے والے استداد کے مطابق پيداوار نہيں کر سکتے ۔ ايک عرصہ سے مندرجہ ذيل حکومتوں اور اداروں کے ذمہ 4 کھرب 23 ارب يعنی 423000000000 روپے کيپکو کا واجب الادا ہے جو عوام کی مصيبتوں کا اصل سبب ہے

وفاقی حکومت اور اس کے ماتحت ادارے ۔ 3 کھرب يعنی 300000000000 روپے
حکومت پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 9 ارب ۔ يعنی 9000000000 روپے
حکومت سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ 39 ارب يعنی 39000000000روپے
حکومت خيبر پختونخوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 39 ارب يعنی 39000000000روپے
کراچی اليکٹرک سپلائی کمپنی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 36 ارب يعنی 36000000000روپے