صدر ۔ وزیر اعظم صاحب اور اُن کے حواریوں نے سرائیکی صوبہ کا واویلا اس قدر مچا رکھا ہے جیسے سرائیکی صوبہ بننے سے پاکستانیوں کے تمام مسائل حل ہو جائیں گے اور تمام مشکلات دُور ہو جائیں گی ۔ بجلی دُور دراز ہر گاؤں کو ملنے لگے گی ۔ بجلی ۔ پٹرول ۔ گیس اور دیگر اشیاء ضروریہ اتنی ارزاں ہو جائیں گی کہ غریب مزدور بھی نہال ہو جائیں گے
البتہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک ایسا صوبہ جس کیلئے اُس علاقے کے مکینوں نے کبھی آواز نہیں اُٹھائی وہ ان صاحبان کا محبوب کیوں بن گیا ہے سوائے اس کے کہ یہ لوگ اس شور شرابے سے عوام کی توجہ اپنی نا اہلی اور بدعنوانیوں سے ہٹانے کی کوششِ لاحاصل کر رہے ہیں ۔ ہزارہ صوبہ جس کیلئے وہاں کے مکینوں نے جلوس نکالے اور کراچی تک جا کر جلسے بھی کئے اُس کا نام نہیں لیا جا رہا ۔ یا پھر ان کے پاس پنجاب حکومت کے خلاف کچھ اور نہیں رہ گیا تو یہی سہی
اگر انتظامی بہتری کیلئے چھوٹے صوبے بنانا ضروری ہوں تو الگ بات ہے لیکن لسانی بنیادوں پر ایک نیا صوبہ اگر بنا دیا گیا تو پھر مزید صوبوں کیلئے اُٹھنے والی آوازوں کو کون روکے گا ؟ مزید یہ کہ سرائیکی بولنے والے صرف صوبہ پنجاب میں نہیں رہتے بلکہ خیبر پختونخوامیں ڈیرہ اسمٰعیل خان اور صوبہ سندھ میں پنجاب کی سرحد سے شکارپور تک سرائیکی علاقہ ہے ۔ اگر بنیاد سرائیکی ہے تو پھر ڈیرہ اسمٰعیل خان اور شکار پور تک کا سارا علاقہ بھی اس نئے صوبے میں شامل ہونا چاہیئے
اگر تاریخی حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو بہاولپور کا علاقہ پاکستان بننے سے قبل ایک علیحدہ ریاست تھی جس کے پاکستان میں شامل ہونے کے وقت اس علاقے کا علیحدہ تشخص قائم رکھنے کا وعدہ کیا گیا تھا اور یہ وعدہ قائد اعظم نے کیا تھا ۔ بہاولپور کا علاقہ 19 اپریل 1951ء کو ایک صوبہ قرار دیا گیا ۔ 1952ء میں وہاں اسی بنیاد پر انتخابات ہوئے اور صوبائی حکومت قائم ہوئی ۔ پاکستان کے آئین کا جو مسؤدہ 1954ء میں تیار ہوا اُس میں بھی بہاولپور کو ایک علیحدہ صوبہ دکھایا گیا تھا ۔ 1955ء میں وَن یونٹ (One Unit) کا اعلان کر کے بہاولپور کو مغربی پاکستان کا حصہ بنا دیا گیا مگر اُس وقت بھی بہاولپور کو ایک وفاقی اکائی (Federal Unit) ظاہر کیا گیا تھا ۔ 1970ء میں فوجی آمر نے سیاسی رہنماؤں بشمول ذوالفقار علی بھٹو کے دباؤ میں آکر مغربی پاکستان کے 4 صوبے بنائے اور بہاولپور کو پنجاب کا حصہ بنا دیا ۔ اس کے بعد سے وہاں کے مکین گاہے بگاہے علیحدہ صوبہ بہاولپور کیلئے آواز اُٹھاتے رہے ہیں مگر وہ پنجاب سے علیحدہ ہو کر بہاولپور کی بجائے کسی اور صوبے کا حصہ نہیں بننا چاہتے
صدر ۔ وزیر اعظم اور پی پی پی کے وزراء بار بار آئین کی حکمرانی کا دعوٰی کرتے رہتے ہیں ۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 239 (4) کے مطابق کسی صوبے کی حدود بدلنے کیلئے لازم ہے کہ متعلقہ صوبے کی اسمبلی کی کم از کم دو تہائی اکثریت مجوزہ تبدیلی کی منظوری دے ۔ متعلقہ صوبہ پنجاب ہے جہاں پی پی پٌی کے پاس ایک تہائی نشستیں بھی نہیں ہیں ۔ پی پی پی کے بڑے اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں پھر بھی سرائیکی صوبے کا شور مچائے جا رہے ہیں ۔ اس طرح مقصد صرف عوام کو بیوقوف بنانے کے اور کیا ہو سکتا ہے ؟
سرائیکی لوگوں نے جو ابھی تک سرائیکی علاقہ میں مقیم ہیں بتایا کہ اگر سرائیکی علاقہ کے مکینوں کی رائے لی جائے تو علیحدہ صوبے کے حق میں بہت ہی کم رائے آئے گی ۔ جو چند لوگ سرائیکی صوبے کا راگ الاپ رہے ہیں اُس کا سبب یہ ہے کہ پچھلی آدھی صدی میں رُکن اسمبلی یا وزیر بن کر جتنا وہ لوٹتے رہے ہیں وزیر اعلٰی اور گورنر بن کر اور زیادہ لوٹنے کے خواہشمند ہیں اور عوام کو اپنا غلام بنانے کی سوچ رہے ہیں
زمینی حقائق کے مطابق مجوزہ سرائیکی صوبہ میں قدرتی وسائل بہت کم ہوں گے ۔ صنعت مفقود ہے ۔ اس کی آمدن صرف زرعی پیداوار ہو گی جو کہ بہت کم ہے ۔ چنانچہ اس مجوزہ صوبے کے عوام خوشحال ہونے کی بجائے مزید بدحال ہو جائیں گے ۔ آخر کیا بات ہے کہ حکمرانی کے 4 سال گذرنے کے بعد زرداری کو اچانک یہ صوبہ بنانے کا خیال آیا ؟ اس کی تین وجوہات ہو سکتی ہیں
1 ۔ بیرونی طاقتوں کی خوشنودی جنہوں نے زرداری کو گدی نشین کیا ۔ اُنہوں نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے بعد کراچی کا حال تو خراب کر ہی رکھا ہے ۔ اب پنجاب باقی رہتا ہے جو ہے بھی اصل خطرے کا سبب کیونکہ ایٹم بم اور فوجی ہیڈ کوارٹر دونوں پنجاب میں ہیں
2 ۔ تاریخ کی ستم ظریفی کے تحت مجوزہ صوبہ کے لوگوں کی خصلت میں وڈیروں کی تابعداری شامل ہو چکی ہے چنانچہ چند وڈیروں کو فائدہ پہنچا کر یہاں کی آبادی کو غلام بنایا جا سکتا ہے جس کے بعد معاشی بدحالی کو دُور کرنے کا لالچ دے کر مجوزہ صوبے کو صوبہ سندھ کے ساتھ ملا کر دریائے سندھ پر مکمل کنٹرول حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ راوی ۔ چناب اور جہلم پر پچھلی حکومت کی مہربانی سے بھارت کئی ڈیم بنا چکا ہے اور ایک اور بڑا ڈیم (بگلیہار) موجودہ حکومت کی مہربانی سے تیار ہونے کو ہے ۔ اس کے نتیجہ میں پنجاب پانی سے محروم ہو کر دوسرے صوبوں کے سامنے بھکاری بن سکتا ہے ۔ گیلانی جیسے رہنما جو مُلک سے زیادہ آقا کے خیر خواہ ہیں کی موجودگی میں یہ عمل بہت آسان ہو گا
3 ۔ ایم کیو ایم زرداری اینڈ کمپنی کے پاؤں میں چُبھنے والا ایسا کانٹا ہے جسے فی الوقت نکالنا خطرناک ہو سکتا ہے ۔ جبکہ مجوزہ صوبہ کو صوبہ سندھ میں شامل کر کے ایم کیو ایم کی حیثیت اقلیتی بنائی جا سکتی ہے اور اس کانٹے کو نکال پھینکا جا سکتا ہے
مندرجہ بالا منصوبہ پر عمل کرنے کے بعد زرداری قائدِ سندھ بن سکتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد اس کی اولاد گدی نشین ہو سکتی ہے
(مندرجہ بالا مضمون اس سلسلے میں شائع ہونے والے متعدد تجزیوں کا خلاصہ ہے)
اللہ وہ وقت نہ لائے کیونکہ وہ وقت محبِ وطن پاکستانیوں بالخصوص پنجابیوں اور مہاجروں کیلئے بہت بُرا دن ہو گا اور سب سے بڑھ کر اس مُلک پاکستان کیلئے بُرا ہو گا جس کیلئے ہمارے بزرگوں نے جان و مال کی بے بہا قربانیاں دیں تھیں اور ہم لوگ لُٹے پُٹے قافلوں میں اپنے گھروں اور اپنے عزیز و اقارب کی لاشوں کو پیچھے چھوڑ کر اس وطن کو آباد کرنے آئے تھے
زندہ رہے گا پاکستان تو زندہ رہے گا
اِن شاء اللہ پاکستان زندہ رہے گا
یہ مُلک پاکستان جو کُل کائنات کو پیدا کرنے اور اس کا نظام چلانے والے اللہ وحدہُ لا شریک لہ نے ہمیں عطا کیا تھا وہی اس کی حفاظت کرے گا