Category Archives: تجزیہ

مُفلِسی کیوں ؟

بجٹ 2012ء ۔ 2013ء میں وفاقی حکومت کے اخراجات 32 کھرب (3200000000000) روپے ہیں
جبکہ کُل متوقع آمدن 23 کھرب روپے ہے
چنانچہ 9 کھرب روپے کی کمی کو پورا کرنے کیلئے اُدھار ۔ خیرات یا ڈاکہ ضروری ہے
عوام کی یلغار سے بچنے کیلئے اس کمی کو 3 ارب (3000000000) روپے مالیت کے نوٹ روزانہ پورا سال چھاپے جاتے ہیں

متذکرہ نقصان کا کم از کم آدھا حصہ سرکاری ادارے مُفت کا مال سمجھ کر اُڑا رہے ہیں جن کے سربراہان کی تقرریاں سیاسی بنیادوں پر کی گئی ہیں ۔ یہ لوگ سارا سال روزانہ ڈیڑھ ارب (1500000000) روپیہ کے حساب سے دولت اُڑا رہے ہیں

پچھلے لگ بھگ 5 سال میں حکومت نے اپنے پسندیدہ لوگوں کو 7 کھرب (700000000000) روپے کی ٹیکس کی معافی دی
جبکہ آئی ایم ایف سے 6 کھرب (600000000000) روپیہ ادھار لیا
یعنی اپنی سیاست چمکانے کیلئے یہ غیر منصفانہ چھوٹ نہ دی جاتی تو قرض لینے کی ضرورت نہ پڑتی

حکومتی پارٹی کے رُکن قومی اسمبلی جمشید دستی نے انکشاف کیا کہ اسمبلیوں کے اراکین کو دیئے جانے والے ڈویلوپمنٹ فنڈ کے ایک کروڑ (10000000) روپیہ میں سے 60 لاکھ یعنی 60 فیصد کمیشن ہوتا ہے
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی تعداد 1100 ہے ۔ باقی حساب خود لگا لیجئے

بجلی کے محکمہ میں نقصان ایک ارب (1000000000) روپیہ روزانہ ہے یعنی سال میں 3 کھرب 65 ارب (365000000000) روپے سالانہ
نیپرا کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت کی ملکیت 3 بجلی کمپنیوں سے 26 ارب (26000000000) روپے مالیت کا فرنس آئل چوری ہوتا ہے ۔ اس کے علاوہ بہت سے ٹرانسفارمر اور کیبلز چوری ہوتے ہیں جو کہ بڑے شہروں میں سستے داموں بیچے جاتے ہیں
لائین لاسز (Line losses) 40 فیصد تک پہنچ چکی ہیں جن میں سے اصل لائن لاسز 6 سے 7 فیصد ہوں گی باقی بجلی چوری ہوتی ہے اور چوری کرنے والوں کو حکمرانوں کی پُشت پناہی حاصل ہے

حکومت کے حساب میں بجلی کے محکمہ کو حکومت 360 ارب یا زیادہ امداد (subsidy) دیتی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں حکومت چوری ۔ ہیرا پھیری اور لُوٹ مار کی امداد کر رہی ہے

وزیر اعظم سیکرٹیریئٹ کا روزانہ خرچ 2008ء میں 6 لاکھ 41 ہزار 3 سو 6 (641306) روپے تھا جو 2012ء ۔ 2013ء کے بجٹ میں 19 لاکھ 52 ہزار 2 سو 22 (1952222) روپے ہو گیا ہے یعنی 3 گُنا سے بھی زیادہ ۔ اسی طرح کیبنٹ ڈویژن کا روزانہ خرچ 2008ء میں 40 لاکھ (4000000) روپے تھا جو اب بڑھ کر 80 لاکھ (8000000) روپے روزانہ ہو گیا ہے یعنی 2 گُنا

حال ہی میں وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف اپنی بیوی بیٹے بہو اور دوسرے عزیز و اقارب کے ساتھ 4 دن کے دورے پر برطانیہ گئے تھے ۔ یہ سب لوگ لندن کے علاقہ نائٹس برِج میں واقع برکلی ہوٹل میں ٹھہرے جس میں 6 کمرے فی کمرہ 1200 پاؤنڈ روزانہ اور 20 کمرے فی کمرہ 800 پاؤنڈ روزانہ پر حاصل کئے گئے ۔ اس طرح صرف ہوٹل کا کرایہ ایک کروڑ 46 لاکھ (14600000) روپیہ ادا کیا گیا ۔ مزید یہ کہ کرایہ پر لی گئی 28 مرسڈیز بینز گاڑیاں استعمال کی گئیں جن پر خرچ اس کے علاوہ تھا ۔ کھانوں کے ساتھ بھی کچھ کم نہ کیا ہو گا ۔ یہ سب گُلچھڑے عوام سے نچوڑے ٹیکسوں کے پیسے پر اُڑائے گئے

ایوانِ صدر کے اخراجات معلوم نہیں ہو سکے ۔ شاید اُنہیں دیکھنے کیلئے پہلے مقویِ قلب ٹیکہ لگوانا پڑے گا

غریبوں اور شہیدوں کی سیاست کرنے والی حکمران جماعت کا ایک اور کرشمہ یہ ہے کہ 2008ء میں اِن کی حکومت قائم ہونے سے قبل مُلک کا ہر فرد (یعنی میں اور آپ سب بشمول بوڑھے جوان اور چند گھنٹوں کی عمر والے بچوں کے) 30000 روپے کا مقروض تھا مگر یکم فروری 2013ء کو ہر ایک 76000 روپے کا مقروض ہو گیا اور اُمید کی جا رہی ہے کہ 30 جون 2013ء تک ہر ایک 83000 روپے کا مقروض ہو جائے گا ۔ یہ رقم اُس قرض کے علاوہ ہے جو کسی نے ذاتی طور پر اپنے کار و بار یا گھریلو اخراجات کیلئے لیا ہوا ہے

بے چارہ روپیہ

قدر و قیمت کا محاورہ تو سب نے سُن رکھا ہو گا لیکن بہت کم ہوں گے جنہوں نے اس کے معنی پر غور کیا ہو گا (شاید اسلئے کہ پچھلی 4 دہائیوں سے ہمارے تعلیمی ادارے غور کرنے کی تربیت سے عاری ہیں)۔ کسی چیز کی ایک تو قیمت ہوتی ہے جسے جنسِ مبادلہ کہا جا سکتا ہے اور ایک قدر ہوتی ہے ۔ قدر کا تعلق قیمت سے نہیں ہوتا بلکہ قیمت سے مبرّا دوسرے اوصاف سے ہوتا ہے جو قیمت سے کہیں زیادہ اہم ہوتے ہیں ۔ قدر قیمت کے برابر ۔ قیمت سے کم یا قیمت سے زیادہ ہو سکتی ہے اور بعض اوقات قیمت سے بہت زیادہ ہوتی ہے ۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جس کے پاس زر کی فراوانی ہو وہ بیش قیمت چیز کی بھی قدر نہ کرے

آمدم بر سرِ مطلب ۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد پاکستانی ایک روپیہ بھارت کے ایک روپے کے برابر تھا ۔ چند سال بعد پاکستانی روپے کی قدر بڑھنے لگی اور ایک دہائی بعد پاکستانی ایک روپیہ بھارت کے ایک روپیہ 15 پیسے کے برابر ہو گیا اور یہ تناسب کم از کم 1969ء تک قائم رہا ۔ البتہ کھُلے بازار میں (open market) ایسا وقت بھی آیا تھا کہ ایک پاکستانی روپے کے بھارتی ایک روپیہ 30 پیسے تک مل جاتے تھے

پاکستان بننے سے قبل سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں ہندوستان کا روپیہ اُن کے مقامی سکوں کی طرح چلتا تھا ۔ پاکستان بنا تو اس کی جگہ پاکستانی روپے نے لے لی ۔ پہلی ایک دہائی میں پاکستانی روپے کی قدر اتنی بڑی کہ ایک پاکستانی روپے کا سوا سعودی ریال ملتا تھا اور خلیجی ریاستوں میں اس سے بھی زیادہ درہم ملتے تھے

آجکل ہر طرف ڈالر کا رَولا ہے ۔ ماضی میں پاکستانی روپیہ بھی امریکی ڈالر اور برطانوی پاؤنڈ کی طرح قابلِ قدر تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے کرنسی نوٹ پر گورنر بینک دولتِ پاکستان کی طرف سے لکھا ہوتا تھا ”میں وعدہ کرتا ہوں کہ حاملِ ھذا کو جس دارالاِجراء سے وہ چاہے عندالطلب مبلغ ۔ ۔ ۔ روپیہ ادا کروں گا“۔ دیکھیئے 1972ء سے پہلے کے 10 اور 100 روپے کے نوٹ

یہاں ”جس دارالاجراء سے وہ چاہے“ کا مطلب ہے کہ جس مُلک کی کرنسی میں وہ مانگے ۔ یہی وجہ تھی کہ اُس دور میں یعنی 1971ء تک اگر کسی غیر ملک میں جانا ہو تو غیر ملکی زرِ مبادلہ ڈالر یا پاؤنڈ وغیرہ حاصل کرنے کا کوئی چکر نہیں ہوتا تھا ۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ مشرق وسطہ میں دُکاندار اپنے مال کے عوض روپے کے نوٹ پوری قیمت پر لے لیتے تھے ۔ یورپ میں خاص خاص دُکاندار بھی ایسا ہی کرتے تھے اور کسی بنک میں جا کر روپے دے کر اس کے بدلے بغیر کسی نقصان کے مقامی کرنسی حاصل کی جا سکتی تھی

یہ سلسلہ بوجوہ 1972ء میں ختم ہو گیا اور پاکستانی کرنسی پر تحریر امتیازی وعدہ بھی چھپنا بند ہو گیا ۔ موجودہ کرنسی کے نوٹ دیکھیئے جن میں سے 100 اور 500 روپے کے نئے نوٹوں کی تصاویر نچے دی گئی ہیں

ان پر لکھا ہے ”حاملِ ھذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا“۔ اس میں ایک تو صرف روپے ہی ادا کرنے کا وعدہ ہے اور دوسرے واضح نہیں کہ کون ادا کرے گا ؟
اگر مُلک کے حکمران مُلک کی آمدن سے کم خرچ کریں تو کرنسی کی قدر بڑھتی ہے ۔ ایسی کرنسی کو مضبوط کرنسی کہا جاتا ہے ۔ کرنسی کی قدر کے ساتھ اس کی قیمت بھی بڑھنے لگتی ہے جیسا کہ پاکستان بننے کے بعد 2 دہائیوں تک ہوا ۔ اگر مُلک کے حکمران مُلک کی آمدن سے زیادہ خرچہ کریں تو کرنسی کی قدر کم ہوتی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہنے سے کرنسی کی قیمت گرتی جاتی ہے ۔ حکمران مُلک کو جتنا زیادہ نقصان پہنچائیں گے کرنسی کی قیمت اتنی ہی تیزی سے گرے گی ۔ پاکستانی روپیہ قیمت کے لحاظ سے تو اب بھی 100 پیسے کے برابر ہے ۔ نظر ڈالتے ہیں اس کی قدر کے سفر پر

پاکستان بننے سے لے کر 1972ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت بننے تک ساڑھے 23 سال (باوجود امریکی ڈالر کی قدر بڑھنے کے) ایک امریکی ڈالر 4.75 روپے کے برابر رہا

ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1972ء میں اچانک روپے کی قیمت کم کر دی اور ایک امریکی ڈالر 11 روپے کا ہو گیا ۔ پھر چند ماہ بعد دوبارہ تبدیلی کر کے ایک امریکی ڈالر 9.90 روپے کا کر دیا گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 48 پیسے رہ گئی

ضیاء الحق کی حکومت کے دوران 1988ء تک 11 سال میں ایک امریکی ڈالر 17 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 28 پیسے رہ گئی

بینظیر بھٹو کی حکومت کے پہلے دور میں 1990ء تک 2 سال میں ایک امریکی ڈالر 22 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 21.6 پیسے رہ گئی

نواز شریف کی حکومت کے پہلے دور میں 1993ء تک ایک امریکی ڈالر 25.69 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 18.5 پیسے رہ گئی

بینظیر بھٹو کی حکومت کے دوسرے دور میں 1996ء تک ایک امریکی ڈالر 40.22 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 11.8 پیسے رہ گئی

نواز شریف کی حکومت کے دوسرے دور میں 1999ء تک ایک امریکی ڈالر 51.75 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 9 پیسے رہ گئی

پرویز مشرف کی حکومت میں 2008ء تک ایک امریکی ڈالر 62 روپے کا ہو گیا ۔ یعنی روپے کی قدر 7.6 پیسے رہ گئی

آصف علی زرداری کی پونے 5 سالہ دورِ حکومت میں ایک امریکی ڈالر 97.75 روپے کا ہو گیا ہے ۔ یعنی روپے کی قدر 4.8 پیسے سے بھی کم رہ گئی ہے

یعنی 1971ء میں جس چیز کی قیمت ایک روپیہ تھی وہ چیز اب کم از کم 21 روپے کی ہے

میرا خیال ؟

جی ۔ پوچھا گیا ہے کہ جو لانگ مارچ جمعرات 17 جنوری کو اسلام آباد میں ختم ہوا اس کے بارے میں میرا کیا خیال ہے ؟

جب دوسرے لوگ اسے امریکا یا کسی اور بڑے کی منصوبہ بندی قرار دے رہے تھے میرا اُس وقت جو خیال تھا لانگ مارچ ختم ہو جانے کے بعد آج بھی وہی خیال ہے اور وہ یہ کہ منصوبہ بندی خواہ کسی کی ہو اس کا مقصد زرداری کو فائدہ پہنچانا اور طاہر القادری کا سیاسی بُت جو قریب المرگ تھا اس میں کچھ جان ڈالنا تھا

صرف چیدہ چیدہ واقعات پر غور کیا جائے تو میرا خیال درست نظر آ سکتا ہے

معاہدہ جو طے پایا ہے اس میں سوائے ایک نقطے کے باقی سب کچھ آئین اور قانون میں موجود ہے ۔ ذرائع ابلاغ اور سیاستدان بھی ان کی تعمیل پر زور دیتے رہتے ہیں ۔ اب کونسی طاقت آئے گی جو ان کی تعمیل کرائے گی

نیا نقطہ یہ ہے کہ انتخابات سے قبل اُمیدواروں کو آئین کی دفعات 62 اور 63 پر پرکھا جائے اور ایسا کرنے کیلئے انتخابات کا انعقاد 90 دن بعد اسطرح سے ممکن بنایا جائے گا کہ اسمبلیاں وقت (16 مارچ) سے پہلے تحلیل کر دی جائیں گی ۔ اگر اسمبلیاں 15 مارچ کو تحلیل کر دی جائیں تو انتخابات 13 جون تک کرائے جا سکتے ہیں ۔ اگر اسمبلیاں تحلیل نہ کی جائیں تو 16 مارچ کو خود بخود تحلیل ہو جائیں گی اور انتخابات 15 مئی تک کرانے ہوں گے

طاہر القادری جنہیں چور ۔ اُچکے ۔ بدمعاش ۔ بددیانت ۔ جاگیردار ۔ سرمایہ دار وغیرہ کہہ رہے تھے اُن کے ساتھ مل بیٹھے ہیں اور اس طرح اپنے پیروکاروں کو زرداری کی جھولی میں ڈال دیا ہے

وفاقی حکومت نے طاہر القادری کو لانگ مارچ کیلئے ہر ممکن سہولت دی حتٰی کہ ڈی چوک میں دھرنا لگانے دیا جبکہ پچھلے 4 سال سے اسلام آباد کا شہری ہوتے ہوئے مجھے کبھی اپنی کار بھی وہاں سے گذارنے نہیں دی گئی

سردی میں عوام ٹھٹھرتے رہے ۔ طاہرالقادری اپنے ڈبے میں محفوظ رہے ۔ اختتام پر خود چلے گئے اور عوام سے کہا کہ اُن کے بندوبست کا ناظمِ اعلٰی اعلان کریں گے ۔ تین چار گھنٹے دیر ہو جائے گی مگر سب کا بندوبست ہو جائے گا

عام لوگ

آج کا دن عام لوگوں کے نام جو میری طرح نام نہیں کام کیلئے کام کرتے ہیں ۔ میری یاد داشت چونکہ بہت گڑبڑ ہو چکی ہے اسلئے جس کا نام لکھنے سے رہ گیا وہ اپنے آپ کو شامل سمجھے

عام لوگ عام ہی ہوتے ہیں ۔ یہ باتیں کم اور عمل زیادہ کرتے ہیں ۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اَنٹ شَنٹ باتیں کرتے رہتے ہیں لیکن دل میں سب کی قدر کرتے ہیں اور عمل میں منہمک ہوتے ہیں ۔ ان عام لوگوں کے نام اخبارات میں نہیں چھَپتے اور نہ ٹی چینلز والے انہیں بلاتے ہیں ۔ یہ لوگ خاموشی سے بڑے بڑے کام کرتے جاتے ہیں ۔ میں آج چند ایسے ہی لوگوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں

1 ۔ شروع شروع میں اُردو چابی تختہ میرے پاس نہیں تھا میں بڑی مشکل سے اپنے بلاگ پر لکھتا تھا ۔ میری اس تکلیف کو ایک نوجوان نے بھانپ لیا اور ایک اُردو کا چابی تختہ بھیج دیا جسے انسٹال کر کے میں بلا دقت اُردو لکھنے لگا ۔ یہ نوجوان (جو اب شاید جوان کہلاتا ہو گا) ہے حارث بن خُرم

2 ۔ حدیث کی اہمیت پر لکھنا چاہ رہا تھا لیکن جس کتاب کا میں مطالعہ کرنا چاہتا تھا وہ مجھے اسلام آباد میں نہ ملی ۔ میں نے پوچھا ”کہاں سے ملے گی” تو میرے گھر کا پتہ پوچھا گیا
کچھ دن بعد ایک پارسل ملا جس میں مطلوبہ کتاب کے ساتھ چند اور چھوٹی چھوٹی کُتب تھیں ۔ بھیجنے والے ہیں خاور بلال صاحب جو اُن دنوں کراچی میں تھے ۔ اُن کا ٹیلیفون نمبر لیا ۔ کچھ دن بعد نذرانہ عقیدت پیش کرنے کی غرض سے ٹیلیفون کیا تو جواب ملا ”نہیں ہیں“۔ نمبر کسی دفتر کا تھا ۔ چند دنوں کے وقفے سے ٹیلیفون کرتا رہا مگر بات نہ ہو سکنے پر تشریح چاہی ۔ بتایا گیا کہ وہ ملازمت چھوڑ کر جا چکے ہیں

3 ۔ پھر ایک دن نعیم اختر (الف نظامی) صاحب نے آ کر دروازے کی گھنٹی بجائی اور میرے گھر کو رونق بخشی ۔ کچھ کُتب تحفہ کر کے میرے کندھوں پر وزن اور بڑھا گئے ۔ کچھ روز بعد اُن کے درِ دولت پر نیاز پیش کرنے کیلئے راولپنڈی گیا ۔ گو میں راولپنڈی میں 16 سال رہا ہوں مگر اس علاقے میں پہلی بار جانے کا اتفاق ہوا تھا ۔ میں کوشش کے باوجود الف نظامی صاحب کی رہائش گاہ تک نہ پہنچ سکا

4 ۔ ستمبر 2010ء میں جاپان کی بنی ہوئی ایک پرانی گاڑی خرید لی ۔ اس کے ساتھ صرف ایک چابی ملی ۔ میں احتیاطی آدمی ہوں اسلئے دوسری چابی کیلئے کوشش کی تو معلوم ہوا اس کی نقل شاید نہ بن سکے ۔ جاپان میں کچھ لوگوں سے صرف بلاگی تعارف تھا ۔ اُنہیں درخواست کی ۔ یاسر صاحب نے ریموٹ چابی بھیج دی جو جیب میں ہو تو کار چلائی جا سکتی ہے ۔ قیمت پوچھی تو جواب ملا ”کچھ خیرات کر دیں”۔ سُبحان اللہ ۔ دسمبر 2012ء میں چاپان سے آئے تو ملنے بھی آ گئے

5 ۔ جب بلاگسپاٹ پر حکومت نے پابندی لگائی تو میں نے اپنا بلاگ ورڈ پریس پر منتقل کیا ۔ ملتان والے قدیر صاحب نے زور دار طریقے سے پیشکش کر دی ”انکل ۔ میں آپ کو ایک تھیم اُردوا کر دیتا ہوں وہ لگائیں“۔ پیشکش معصومانہ تھی اسلئے ٹھکرانا مناسب نہ سمجھا ۔ گو اُس تھیم کو اپنے بیٹے زکریا کی مدد سے بہت تبدیل کر چکا ہوں مگر اس کی سی ایس ایس میں قدیر صاحب کا نام قائم رکھا ہوا ہے ۔ 2011ء میں ایک دن قدیر صاحب نے ٹیلیفون پر پتہ پوچھا اور بتایا کہ اسلام آباد آئے ہوئے ہیں ۔ میں نے کہا ”کہاں ہیں ؟ میں لینے آ جاؤں“۔ کہنے لگے ”کافی دور ہوں ۔ میں خود آتا ہوں”۔ اور آگئے

6 ۔ خرم صاحب امریکا میں ہوتے ہیں انہوں نے میرا پتہ پو چھا ۔ پھر ایک دن ٹیلیفون آیا کہ لاہور سے بس میں اسلام آباد آ رہے ہیں ۔ کہنے لگے ”آپ تکلیف نہ کریں ۔ میں خود آ جاؤں گا ” بہر کیف میں اُنہیں پشاور موڑ سے لے آیا ۔ پشاور موڑ میرے گھر سے 2 کلومیٹر ہے اور بس کا اڈا 20 کلو میٹر ۔ مجھے ملنے کے بعد وہ واپس لاہور کی بس پر سوار ہو گئے ۔ یعنی صرف مجھ سے ملاقات کیلئے اسلام آباد آئے تھے ۔ میری اتنی زیادہ عزت افزائی !

7 ۔ پچھلے سال سعد صاحب نے مطلع کیا کہ تعلیم کے سلسلہ میں اسلام آباد آ چکے ہیں اور ملنا چاہتے ہیں ۔ قیام عارضی طور پر سیکٹر جی 9/2 میں بتایا جو کہ ہمارے گھر سے 2 کلو میٹر ہے ۔ پیدل یا ٹیکسی پر آنا چاہتے تھے ۔ میں نے اَن سُنی کی اور جا کر اُنہیں لے آیا ۔ خود بولتے نہ تھے اور مجھے بُلواتے رہے ۔ جب میری باتیں ختم ہو گئیں تو واپس چھوڑ آیا ۔ پھر ایک دن اطلاع دی کہ کوئی تقریب ہو رہی ہے جس سے اُردو بلاگنگ کا تعلق ہے اور داخلہ کھُلا ہے ۔ سو ان کے ساتھ میں بھی گیا ۔ وہاں بڑے بڑے لوگوں یعنی شاکر قادری ۔ امجد علوی ۔ ایم بلال ایم ۔ الف نظامی صاحبان اور کئی دوسرے مہربانوں سے ملاقات ہوئی ۔ سعد صاحب نہ بتاتے تو میں محروم رہ جاتا

پاکستان نہیں بننا چاہیئے تھا؟

دنیا کا سب سے بڑا مذہب غربت ہے ۔ یقین نہیں آتا تو اس عورت کا تعاقب کر کے دیکھیں جو سامنے ایک بھارتی شہر کے ریلوے سٹیشن پر گھوم رہی ہے ۔ وہ ایک مسلمان عورت ہے جس کا نام بیگم ہے ۔ تھوڑی دیر بعد وہ ریلوے اسٹیشن کے ٹوائلٹ میں داخل ہوگی اور جب باہر آئے گی تو اس کا نام بیگم کی بجائے لکشمی ہو گا، ماتھے پر سندور ہوگا ، ہاتھ میں چوڑیاں ،گلے میں منگل سوتر اور بدن پر ساڑھی…اللہ کے نام والا تعویز اس کے بازو پر نہیں ہوگا۔ اب وہ ایک روایتی شادی شدہ ہندو عورت ہے لیکن صرف صبح 9 سے شام 5 بجے تک ۔گھر واپس جا کر وہ دوبارہ اپنے مذہب میں ”داخل“ ہو جائے گی ۔ بیگم سے لکشمی تک کا سفر میرے اور آپ کے لئے تو شائد حیرت اور تکلیف کا باعث ہو مگر اس مسلمان عورت کے لئے نہیں جو ”سیکولر“ بھارت میں رہتی ہے اور جسے اپنا پیٹ پالنے کے لئے ایک نوکری کی تلاش ہے ۔کئی برس ٹھوکریں کھانے کے باوجود جب بطور مسلمان اسے نوکری نہیں ملی تو اس کے غریب ذہن نے سمجھایا کہ اب ذرا ہندو بن کر بھی کوشش کرو ، اس نے یہی کیا اور کام بن گیا ۔ آج کل وہ ایک ہسپتال میں آیا ہے ۔ حال ہی میں ہسپتال کی انتظامیہ نے اسے کہا ہے کہ” انہیں چند مزید لڑکیوں کی بھی ضرورت ہے مگر وہ مسلمان نہ ہوں ۔ اگر انہیں پتہ چل گیاکہ میں مسلمان ہوں تو وہ فوراً مجھے نوکری سے نکال دیں گے“۔

اس کے باوجود ہمارے سیکولر طبقے کا خیال ہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا

جس ملک میں عورتیں خود کو زندہ رکھنے کے لئے اتنی مجبور ہوں کہ اپنا ہونے والا بچہ ”ایڈوانس“ پکڑ کر بیچ دیں اور یہ آپشن وہ تب استعمال کرتی ہوں جب ان کا اپنا خریدار کوئی نہ رہے،اس ملک میں کسی مسلمان عورت کا معمولی سی نوکری کی خاطر بھیس بدلنا تعجب کا باعث نہیں ہونا چاہئے ۔بھارت میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 13فیصد ہے جبکہ انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس میں مسلمان صرف 3 فیصد ہیں ،انڈین فارن سروس میں 1.8 فیصد اور انڈین پولیس سروس میں 4 فیصد ۔ بھارتی ریلویز میں 14لاکھ افراد کام کرتے ہیں جن میں صرف 64,000 مسلمان ہیں جو 4.8 فیصد بنتا ہے اور اس میں سے بھی 98.7 فیصد وہ ہیں جو نچلے درجے کے ملازمین میں شمار ہوتے ہیں ۔ پھر بھی ،پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا

حال ہی میں بھارت نے ایک مسلمان سید آصف ابراہیم کو انٹیلیجنس بیورو کا چیف مقرر کیا ۔ اس اقدام نے ہمارے ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے دانشوروں کو بھنگڑے ڈالنے کا ایک اور موقع فراہم دیا اور ان کی زنبیل میں ایک اور دلیل کا اضافہ ہو گیا ۔ بھارت کا (سابقہ) صدر مسلمان ، آئی بی کا چیف مسلمان ، فلم انڈسٹری کا بادشاہ مسلمان ۔ ”اب بھی کہتے ہو کہ پاکستان بننا چاہئیے تھا۔ you loosers “

بھارتی صدر تو خیر ایک رسمی سا عہدہ ہے جس کی اہمیت صرف اتنی ہے کہ بھارت اس عہدے کو اپنا سیکولر امیج بہتر بنانے کے لئے استعمال کرتا ہے ۔ بھارت کے جاسوسی ادارے میں مسلمان سربراہ کی تعیناتی 125 سال میں پہلی مرتبہ عمل میں آئی ہے اور اس کا مسلمانیت سے کتنا تعلق ہے ، اس بات کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کی مختلف سیکورٹی ایجنسیوں میں 90 لاکھ افراد کام کرتے ہیں جن میں دفاع کی تینوں ایجنسیاں بھی شامل ہیں ۔ ان میں سے جب 5 لاکھ 20 ہزار افراد کا ڈیٹا کھنگالا گیا تو معلوم ہوا کہ ان ایجنسیوں میں مسلمان عہدے داروں کا تناسب فقط 3.6 فیصد ہے جبکہ نچلے درجے کے ملازمین میں سے 4.6 فیصد مسلمان ہیں ۔ اوررہی بات فلم انڈسٹری کی تو جو لوگ شاہ رخ خان ،عامر خان اور سلمان خان کو سچ مچ کا مسلمان سمجھتے ہیں ان کے حق میں علامہ طاہر القادری سے دعا ہی کروائی جا سکتی ہے

اگراب بھی کسی سیکولر بھائی کا یہ خیال ہے کہ پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا تو انہیں چاہئیے کہ فوراً ممبئی میں اپنا ایک فلیٹ بک کروا لیں لیکن خیال رکھیں کہ اس فلیٹ میں ٹوائلٹ کی سہولت موجود ہو کیونکہ ودیا بالن کے بھارت کی کل آبادی لگ بھگ ایک ارب 20 کروڑ ہے جن میں سے نصف کو ٹوائلٹ کی سہولت ہی میسر نہیں ا ور مسز بالن اس ضمن میں بہت پریشان ہیں ۔ انہوں نے بھارتیوں کو شرم دلانے کے لئے ایک مہم بھی چلائی مگر بے سود ۔ بھارت ماتا میں 60کروڑ لوگ بغیر ٹوائلٹ کے زندگی گزارتے ہیں ۔ جھارکنڈ، اڑیسہ اور بہار میں یہ شرح 75فیصد سے بھی زیادہ ہے اور ان تینوں ریاستوں کی کل آبادی پورے پاکستان کے برابر ہے ۔ بنگلور جسے بھارت کی سِلیکون ویلی کہا جاتا ہے ، بھارت کے ماتھے کا سندور ہے ۔ رات گئے جب 60 لاکھ آبادی کا یہ شہر سو جاتا ہے تو نچلی ذات کے ہندو جنہیں اچھوت یا دلت کہا جاتا ہے 15000 کی تعداد میں نکلتے ہیں اور 60 لاکھ شہریوں کا گند صاف کرتے ہیں ۔ پورے بھارت مہان میں یہ کام کرنے والوں کی تعداد سرکار کے مطابق 3 لاکھ جبکہ اصل میں 10 لاکھ کے قریب ہے اور یہ لوگ اوسطً 4 ڈالر یومیہ سے بھی کم کماتے ہیں ۔ بھارتی شہروں میں مسلمانوں کی غربت ان اچھوتوں سے بھی بڑھ کر ہے ۔ بھارت کے وہ چھوٹے دیہات جہاں مسلمانوں کی آبادی نسبتاً زیادہ ہے (اکثریت نہیں ہے) ان میں سے ایک تہائی ایسے ہیں جہاں سرے سے کوئی سکول ہی نہیں ہے ۔ اور ایسے بڑے دیہات جہاں مسلمان بستے ہیں ، ان میں سے 40 فیصد میں کسی بھی قسم کی کوئی صحت کی سہولت میسر نہیں ۔ یہ بیان مجھ جیسے کسی تنگ نظر مسلمان کا نہیں بلکہ بھارت کی مشہور زمانہ سچر کمیشن رپورٹ کا نتیجہ ہے ۔مگر کیا کریں . پاکستان نہیں بننا چاہئیے تھا ؟

پاکستان اور بھارت کا مقابلہ کرنا مقصد ہے اور نہ مجھے اس بات پر ڈھول بجانے کا شوق ہے کہ اگر ہمارے ہاں 22.6 فیصد افراد 73 پنس یومیہ سے بھی کم آمدن رکھتے ہیں تو کیا ہوا، بھارت میں یہی شرح 41.6 فیصد ہے ۔ یہاں اگر بچے غذائی کمی کا شکار ہو کر مرتے ہیں تو بھارت میں یہ شرح دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے لہذا ہمیں گھوڑے بیچ کر سو جانا چاہئے ۔ اگر پاکستان میں بچے 5 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کسی بیماری کی وجہ سے مر جاتے ہیں تو بھارت میں سالانہ 21 لاکھ بچے ایسے ہیں جو under weight پیدا ہوکر مرجاتے ہیں لہذا ہم پھر جیت گئے

جی نہیں ، ایسی جیت پر لعنت اور ایسا سوچنا پرلے درجے کی حماقت ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس بنیاد پر پاکستان بنا کیا وہ نظریہ درست تھی ؟ نظریہ بڑا سادہ تھا کہ اگر مسلمان متحدہ ہندوستان میں رہے تو بطور اقلیت انہیں ان کے حقوق نہیں ملیں گے ۔ اس بات کا تعین کرنے کا سادہ ترین طریقہ یہ ہے کہ دیکھا جائے کہ کیا بھارت کا ایک عام مسلمان پاکستانی مسلمان سے بہتر حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے ؟ پاکستان کی تمام جملہ خرابیوں کے باوجود ،جن میں زیادہ تر حصہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کا ہے اورجو فوجی آمریتوں کی دین ہے ، ایک عام پاکستانی کے حالات بھارتی مسلمان سے کہیں بہتر ہیں ۔ ہمیں صرف بھارتی فلم اور میڈیا کی چکا چوند دکھائی دیتی ہے، یہ پتہ نہیں چلتا کہ سیکولر بھارت میں فقط ہندو ہی ”دبنگ“ ہیں ۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ قوم دھنیا پی کر سو جائے

جتنا جذبہ ہم بھارت کو کرکٹ کے میدان میں ہرانے کے لئے بروئے کار لاتے ہیں اگر اس کا 10 فیصد بھی ہم دیگر شعبوں میں استعمال کریں تو
ہمارا بین الاقوامی امیج بھارت سے بہتر ہو جائے گا۔ بھارت کا امیج اس کی ”The Dirty Picture“کی وجہ سے بہتر ہے جبکہ ہم اپنے ملک کی dirtiest pictureپینٹ کرتے ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کے وجود پر معذرت خواہانہ رویہ اپنا لیتے ہیں ، لاحول ولا۔

تحریر ۔ یاسر پیرزادہ

ڈھائی لاکھ کا مقروض ہو گیا ۔ بچاؤ

اچھی طرح تحقیق یا تفتیش کر لیجئے میں نے ساری زندگی کبھی کسی سے قرض نہیں لیا لیکن کل یعنی 15 نومبر 2012ء کو مجھے معلوم ہوا کہ میں 242683 روپے کا مقروض ہوں یعنی میری بیوی ۔ بیٹی اور مجھ پر فی کس 80894 روپے قرض چڑھ چکا ہے ۔ کیا یہ ظُلم نہیں ؟

آپ کیوں بغلیں بجا رہے ہیں ؟ اگر آپ پاکستانی ہیں تو آپ پر بھی 80894 روپے قرض چڑھ چکا ہے اور آپ کے گھر کے ہر فرد پر بھی اتنا ہی اور ہاں اتنا ہی ہر بچے پر بھی خواہ وہ ایک دن کا ہو

پاکستان کی اگست 1947ء میں آزادی سے لے کر جون 2008ء تک یعنی پیپلز پارٹی کی رواں حکومت بننے سے پہلے 60 برس میں مجموعی قرضے اور واجبات 6691 ارب روپے تھے جو پیپلز پارٹی کے موجودہ 4 سالہ دور میں بڑھ کر 14561 ارب روپے ہو گئے ہیں ۔ مطلب حکمران پیپلز پارٹی کے رواں دور حکومت میں قرضوں کے بوجھ میں 7870 ارب روپے کا اضافہ ہوا

ان اعداد و شمارکی روشنی میں پاکستان کی 18کروڑ کی آبادی جس میں شیر خوار بچے بھی شامل ہیں کا ہر فرد 80894 روپے کا مقروض ہے۔
جبکہ پیپلز پارٹی کے موجودہ دور سے قبل قرضوں کا یہ بوجھ 37172 روپے فی کس تھا

ایک ایسا ملک جہاں خود حکومت کی رپورٹ کے مطابق غربت کی شرح آبادی کا 58 فیصد ہو گئی ہے اور اسے خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا ہے ۔ یہ مزید بوجھ ملک کی آئیندہ نسلوں کیلئے مصائب اور مشکلات میں مزید اضافہ کردیگا۔ حکومت جو روزانہ کی بنیاد پر بینکوں سے اربوں روپے کے قرضے لے رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے خدشہ ہے کہ مجموعی قرضے اور واجبات 16000 ارب روپے سے تجاوز کرجائیں گے۔ گزشتہ مالی سال 12۔2011 کے دوران حکومت نے 2000 ارب روپے کے قرضے لئے جو یومیہ 5.5 ارب روپے بنتے ہیں

ان 14561 ارب روپوں میں سے حکومت کا مقامی روپوں میں قرضہ 7638 ارب روپے اور بیرونی یعنی زرِ مبادلہ کا قرضہ 4365ارب روپے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضہ 694 ارب روپے ۔ بیرونی واجبات 227 ارب روپے ۔ نجی شعبے میں بیرونی واجبات 575 ارب روپے ۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائز بیرونی قرضہ 144ارب روپے ۔ پبلک سیکٹر انٹرپرائز مقامی قرضہ 281ارب روپے اور کموڈٹی آپریشنز 438 ارب روپے ہیں

ماہرین کے خیال میں کرپشن ۔ خراب حکمرانی ۔ بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری اور ناقص اقتصادی طرزِ عمل کی وجہ سے موجودہ دور حکومت میں قوم پر قرضوں کا غیر معمولی بوجھ پڑا

رواں مالی سال کیلئے حکومت نے وفاقی بجٹ میں صرف قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے 926 ارب روپے مختص کئے ہیں۔ تاہم خدشہ ہے کہ سود کی یہ رقم مالی سال کے اختتام تک بڑھ کر 1100 ارب روپے تک پہنچ جائے گی

ماخذ ۔ اسٹیٹ بینک کی مالیاتی پالیسی کا خلاصہ

کوئی جمہوریت کا بِلکنا دیکھے

عصرِ حاضر میں سائنس کی ترقی عروج پر ہے جس کے باعث کُرّہءِ ارض ایک گاؤں کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ گھر بیٹھے یا جہاں کہیں بھی ہو آدمی دو چار بار انگلیاں ہلا کر پوری دنیا کے حالات سے واقف ہو سکتا ہے ۔ معلوماتی گرم بازاری (Information boom) کے نتیجہ میں فرضی حُبِ جمہوریت نے گھر گھر میں جھنڈے گاڑے ہوئے ہیں مگر جمہوریت ہے کہ بِلک رہی ہے

کوئی تو ایسا شہر ہوتا جہاں میرا دلدار مل جاتا
ہیں آمریت کے بدلے چہرے جہاں دیکھوں جدھر جاؤں

”جمہوریت“جسے آج دنیا کا بہترین نظام کہا جاتا ہے موجودہ حالت میں ایک کامل نظام نہیں ہے اور اسی بناء پر انسانی بہتری کیلئے نہ صرف یہ کہ یہ ممد نہیں بلکہ قانون کے تابع اور محنتی دیانتدار آدمی کیلئے نقصان دہ ہے ۔ اسی لئے انسانیت کے اصولوں کو سمجھنے والوں نے اسے ابتداء ہی میں مسترد کر دیا تھا ۔

عظیم مفکّر سقراط (469 تا 399 قبل مسیح) نے کہا تھا ”جمہوریت کی سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ یہ عوام کے مستقبل کو ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیتی ہے جو نہ تو علم رکھتے ہیں ۔ نہ حکمرانی کا تجربہ اور نہ وہ عدل و انصاف کی اہمیت سے واقف ہوتے ہیں ۔ ان کا انتخاب بھی غیرمنطقی مساوات کے تحت وہ لوگ کرتے ہیں جو خود اپنی بہتری کے عمل سے ناواقف ہوتے ہیں“۔ سقراط کے بیان پر اجارا داروں کو اپنی حکمرانی خطرے میں محسوس ہوئی اور انہوں نے سقراط کو موت کی سزا سُنا کر اس پر فوری عمل کیا ۔ اُن اجاراداروں کو آج کوئی نہیں جانتا مگر سقراط کا نام آج بھی زندہ ہے

ایک اور عظیم مفکّر ارسطو (384 تا 322 قبل مسیح) کے مطابق جمہوریت ہوتی تو عوام الناس کی حکومت ہے لیکن اکثریت کی حکومت ہونے کی وجہ سے یہ صالح یا نیکوکار حکومت نہیں ہو سکتی کیونکہ عوام الناس کی اکثریت صالح یا نیکوکار نہیں ہوتی

”جمہوریت“ بظاہر ایک آسان سا لفظ ہے ۔ جمہوریت طرزِ حکمرانی کے حق میں دلائل تو جتنے چاہیں مل جائیں گے کیونکہ کُرّہ ارض پر کہیں بھی چلے جائیں سرمایہ دارانہ نظام کی حکمرانی ہے اور تعلیم سمیت آدمی کی ہر سہولت سرمایہ داروں کی مرہونِ منت ہے ۔ آج کے دور میں کسی شخص سے (خواہ وہ پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ) پوچھا جائے تو وہ ”جمہوریت“ کا مطلب سمجھنے کا دعوٰی کرتا پایا جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب ”جمہوریت“ کا مطلب اپنی ضروریات و خواہشات کے مطابق بتاتے ہیں چنانچہ مختف گروہوں اور مختلف ادوار میں ”جمہوریت“ کا مطلب مختلف ہوتا ہے ۔ ہر حکمران جمہوریت کی تفصیل اپنے مقاصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بیان کرتا ہے ۔ سرماداری نظام کے حامی جمہوریت کی تاویل آزاد تجارتی نظام بیان کرتے اور آزاد جمہوریت و معاشیاتی کُلیات جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں ۔ وطنِ عزیز جیسے غریب ممالک میں عوامی حکومت اور عوامی نمائندے جیسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں اور لوگوں کو محصور کرنے کیلئے نت نئی امدادی گٹھریوں (packages) کا اعلان کیا جاتا ہے جیسے بلوچستان پیکیج ۔ بینظیر انکم سپورٹ فنڈ جن کے خرچ ہونے کے بعد جن کیلئے تھا وہ چیخ رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں ملا

موجودہ جمہوریت کے مطابق وہ اُمیدوار منتخب ہوتا ہے جو مقابلہ میں آنے والے ہر ایک اُمیدوار سے زیادہ ووٹ حاصل کرے ۔ اگر ایک علاقہ میں امیدوار 2 سے زیادہ ہوں تو 50 فیصد سے کم ووٹ لینے والا کامیاب ٹھہرتا ہے ۔ ایسے کامیاب اُمیدواروں کی حکومت بنے تو وہ عوام کی اکثریت کی نمائندہ نہیں ہوتی ۔ اگر اُمیدوار 4 یا زیادہ ہوں تو پھر کیا صورتِ حال ہو گی ؟

جمہوریت کی ایک بڑی خامی یہ بھی ہے کہ اکثریتی پارٹی حکومت بنانے کے بعد اپنی توجہ اور قوت زیادہ تر یہ ثابت کرنے پر صرف کرتی ہے کہ مخالف پارٹی حکومت کرنے کی اہل نہیں اور اس سلسلہ میں عوام کا پیسہ بے دریغ خرچ کرنے سے بھی نہیں چوکتی ۔ چھوٹے ممالک ہی میں نہیں امریکا جیسی بڑی جمہوریت کے اندر بسنے والے لوگوں کو مساوی حقوق حاصل نہیں جس کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جسے جمہوریت کا نام دیا گیا ہے

آج کی دنیا کی بڑی قوّتیں جو اپنے تئیں ترقی یافتہ ہیں بشمول بہتاتی عالمی قوّت (World Super Power)، کے جمہوریت قائم کرنے کی دعویدار اور انسانیت سے محبت کی علمبردار بنی پھرتی ہیں ۔ عمل اِن حکومتوں کا یہ ہے کہ ”جو میں کہوں وہ درست اور جو وہ کہے وہ میری مرضی کا تابع یعنی مجھے پسند ہو تو درست ورنہ غیر اخلاقی اور بعض اوقات غیرانسانی یا دہشتگردی“۔ ایک طرف قانون کہ جو شخص ہالوکاسٹ کو غلط کُجا مبالغہ آمیز بھی کہے (جو کہ وہ ہے) تو کہنے والا امریکا اور عالمی قوّتوں کا مُجرم اور اسے سزا دینے کیلئے ہر ممکن قدم اُٹھایا جائے گا اور انہی ممالک کے سہارے پلنے والے اسرائیل کو حق حاصل کہ کہنے والے کو جہاں کہیں بھی ہو اغواء کر کے لیجا کر قتل کر دے ۔ وجہ یہ کہ یہودیوں کی دل آزاری ہوتی ہے جبکہ یہودی دنیا کی آبادی کا صرف 0.19 فیصد ہیں ۔ اس کے مقابلہ میں مسلمان جو دنیا کی آبادی کا 28 فیصد سے زائد ہیں اُن کے محبوب نبی ﷺ جو کہ اللہ کے پیغمبر ہیں کی ناموسِ مبارک پر حملہ کیا جائے تو اِسے آزادیءِ اظہار کا نام دیا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے ملعون کی زبانی مذمت تک نہیں کی جاتی

اپنے ملک کا یہ حال ہے کہ 30 سے 40 فیصد لوگ ووٹ ڈالنے جاتے ہیں جن میں سے نصف سے زیادہ جس اُمیدوار کو ووٹ ڈالتے ہیں اس کے کردار سے واقف نہیں ہوتے اور نہ واقف ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ باقی نصف ذاتی وقتی ضروریات کے حصول کی تمنا لئے ووٹ ڈالتے ہیں ۔ 60 سے 70 فیصد لوگ جو ووٹ نہیں ڈالتے ان میں سے نصف سے زائد شاید ووٹ ڈالنے جانا ذاتی توہین سمجھتے ہیں اور باقی یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ سب اُمیدوار ان کے ووٹ کے اہل نہیں ۔ اس کے ساتھ ہی اگر 21 ستمبر 2012ء کو ملک کے بڑے شہروں بالخصوص کراچی اور پشاور میں ہونے والے واقعات پر نظر ڈالی جائے تو جمہوریت کی کیا شکل بنتی ہے ۔ کیا یہی اُودھم مچانے والے لوگ نہیں ہیں جو ووٹ ڈالنے بھی جاتے ہیں ایک وقت پلاؤ ملنے یا ویگن پر مُفت سفر کے عوض ؟

نتیجہ سب کے سامنے ہے کہ حکومت بننے کے بعد جہنیں لوٹ مار میں حصہ مل جاتا ہے وہ مزے اُڑاتے ہیں اور باقی لوگ تین چار سال حکمرانوں کو کوستے ہیں اور اگلے انتخابات کے وقت پھر وہی ہوتا ہے جو پہلے ہو چکا ہوتا ہے ۔ جمہوریت ( Democracy) کا مطالبہ کرنے والے اس حقیقت سے صرفِ نظر کرتے ہیں کہ جو جمہوریت وہ دیکھتے آئے ہیں وہ دراصل جمہور کی حکمرانی نہیں بلکہ انبوہ کی حکمرانی یا انبوہ گردی (mobocracy) ہے

کیوں نا ہم اپنے دماغ کو ارفع اور اعلٰی سمجھنے کی بجائے خالقِ حقیقی کی طرف رجوع کریں جو سب کچھ جانتا ہے اور کُل کائنات کا نظام چلا رہا ہے اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر ہم عوام الناس کی بہتری کا بندوبست کریں ۔ اللہ ہمیں سیدھے راستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے