سب سے زیادہ وزنی چیز جو انسان اُٹھا سکتا ہے ۔ عناد ہے
ایک چیز جو دینے کے بعد بھی آپ کے پاس رہتی ہے وہ زبان ہے
سب سے زیادہ وزنی چیز جو انسان اُٹھا سکتا ہے ۔ عناد ہے
ایک چیز جو دینے کے بعد بھی آپ کے پاس رہتی ہے وہ زبان ہے
اسلام کی عظمت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اللہ کا آخری پیغام ہے بلکہ اس کی عظمت یہ بھی ہے کہ اسلام بیک وقت قدیم بھی ہے اور جدید بھی۔ اس کے قدیم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کے عقائد ازلی و ابدی ہیں ۔ اس کی عبادات کا نظام مستقل ہے اور اس کا اخلاقی بندوبست دائمی ہے
اس کے جدید ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے زمانے یعنی اپنے عصر سے متعلق رہتا ہے۔ اس کے مسائل و معاملات پر نگاہ رکھتا ہے ۔ اس کے چیلنجوں کا جواب دیتا ہے اور اس طرح اپنے پیروکاروں کو ایمان و یقین کی دولت سے کبھی محروم نہیں ہونے دیتا۔ اسلام دائمی طور پر زمانوں کے درمیان پُل کا کام انجام دیتا رہتا ہے۔ چنانچہ اسلام کے دائرے میں ایک زمانہ دوسرے زمانے سے متصل منسلک اور مربوط رہتا ہے اور زمانی تسلسل برقرار رہتا ہے۔ یوں اسلام کی فکری کائنات میں قدیم اور جدید کے درمیان خلیج حائل نہیں ہوتی
کہنے کو عیسائیت بھی ایک الہامی مذہب ہے لیکن عیسائیت نہ اپنے عقائد کو اصل حالت میں محفوظ رکھ سکی ۔ نہ اس کے دائرے میں عبادات کا نظام اپنی حقیقی صورت میں باقی رہا اور نہ ہی عیسائیت ایک وقت کے بعد خود کو عصر سے مربوط کر سکی ۔ نتیجہ یہ کہ عصر سے عیسائیت کا تعلق ٹوٹ کر رہ گیا۔ عیسائیت کی تاریخ میں جدید و قدیم کے درمیان خلیج حائل ہو گئی اور عیسائیت ماضی کی چیز بن کر رہ گئی۔ عیسائیت نے اپنی تاریخ کے ایک مرحلے پر اسلامی علوم سے زبردست فائدہ اٹھایا۔ امام عزالیؒ نے عیسائیت کے علم کلام پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ابن رُشد مغرب میں مستقل حوالہ بن کر رہ گئی
مسلم سائنسدانوں کے نظریات ڈیڑھ دو صدی تک مغرب کی جامعات میں پڑھائے جاتے رہے۔ اس صورت حال کا مفہوم یہ ہے کہ عیسائیت نے اسلامی فکر سے استفادہ کر کے خود کو عصر سے مربوط کیا۔ خود کو اس کے چیلنجوں کا جواب دینے کے قابل بنایا لیکن مغرب میں جدید علوم بالخصوص سائنس کا آغاز ہوا تو عیسائیت ان کے ساتھ صحت مند تعلق استوار کرنے میں ناکام ہو گئی۔ ابتدا میں چرچ نے جدید سائنسی نظریات کو کفر قرار دے کر مسترد کر دیا۔ کئی سائنس دانوں کو کافرانہ فکر رکھنے کے الزام میں زندہ جلا دیا گیا۔ لیکن جدید علوم کا سفر جاری رہا اور انہیں عوام میں پذیرائی حاصل ہونے لگی تو عیسائیت نے اپنا رویہ یکسر تبدیل کر لیا۔ عیسائیت نے اپنے عقائد کو سائنسی نظریات کے مطابق بنانا شروع کر دیا اور اس طرح ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف نکل گئی۔ اگر چہ یہ عیسائیت کی جانب سے خود کو عصر سے مربوط کرنے کی کوشش تھی مگر یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی بلکہ اس سے عیسائیت کے وقار اور عظمت کو ناقابل تلافی
نقصان پہنچا ۔ یہاں تک کہ جدید فکر نے عیسائیت کو یکسر رد کر دیا اور عصر سے عیسائیت کا تعلق ٹوٹ کر رہ گیا
ہندو ازم دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک ہے۔ اس کی تاریخ 6000 سال پرانی ہے۔ ہندوﺅں کی مقدس کتابوں ویدوں، مہابھارت اور گیتا میں الہامی شان ہے۔ ہندو ازم کے پاس ایک خدا کا تصور ہی، رسالت کا تصور ہے۔جنت، دوزخ کا تصور ہے۔ لیکن ہندو ازم کی گزشتہ ایک ہزار
سال کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ہندو ازم اس طویل مدت میں خود کو عصر سے مربوط نہیں کر سکا۔ مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی اور اس عرصے میں ہندو ازم اسلامی تہذیب کے اثرات قبول کرتا رہا۔ مسلمانوں کے بعد انگریز آگئے اور 200 سال تک بھارت پر راج کرتے رہے۔ اس عرصے میں ہندوﺅں کے موثر طبقات کی کوشش یہ رہی کہ وہ جہاں تک ممکن ہو سکے خود کو مغربی تہذیب اور قانون و سیاست سے ہم آہنگ کرتے رہیں
راجہ رام موہن رائے ہندوﺅں کے سرسید تھے مگر راجہ رام موہن رائے کی تحریک سرسید کے مقابلے میں بہت زیادہ کامیاب ہوئی۔ ہندو راجہ رام موہن رائے اور ان جیسے لوگوں کی تحریکوں کے زیر اثر زیادہ سے زیادہ جدید ہوتے گئے مگر اس جدیدیت کا ہندو ازم کے بنیادی تصورات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہندو ازم کوئی اور چیز تھا اور جدیدیت کوئی اور شے
مسلمانوں کی تاریخ میں عصر کا سوال سب سے پہلے امام غزالیؒ کے زمانے میں اٹھا۔ اس زمانے میں یونانی علوم مسلمانوں میں تیزی کے ساتھ پھیل رہے تھے اور سوال پیدا ہو رہا تھا کہ ان علوم کا مسلمانوں کے بنیادی عقائد سے کیا تعلق ہے ؟ امام غزالیؒ نے تن تنہا اس سوال کا جواب دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے یہ طریقہ کار اختیار کیا کہ یونانی علوم پر انہی کے اصولوں کی روشنی میں تنقید لکھی اور ان علوم کے داخلی تضادات کو نمایاں کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی غزالیؒ نے یہ بھی دکھا دیا کہ ان علوم کا مسلمانوں کے بنیادی اصولوں سے کیا تعلق ہے ؟ غزالی کی تنقید نے مسلمانوں کو یونانی علوم کے اثرات سے محفوظ کر دیا
مسلمانوں کی تاریخ میں زمانہ یا عصر کا سوال دوسری مرتبہ اُنیسویں اور بیسویں صدی میں اہم بن کر سامنے آیا۔ برصغیر میں اقبال پہلی شخصیت تھے جو اس سوال سے نبرد آزما ہوئے۔ انہوں نے اپنی بے مثال شاعری میں اس سوال کی جزیات تک کو کھول کر بیان کر دیا اور بتا دیا کہ اسلام کا جواب اس سلسلے میں کیا ہے ؟ اقبال عصر کے چیلنج سے گھبرائے نہیں بلکہ انہوں نے چیلنج سے قوت کشِید کی اور اسے اپنے لئے قوتِ محرکہ بنا لیا۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا
مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
اقبال نے جو کام شاعری میں کیا مولانا مودودیؒ نے وہی کام نثر میں کیا۔ اس طرح کے کاموں میں شاعری پر نثر کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس میں بات کو زیادہ کھول کر بیان کیا جا سکتا ہے۔ اور اسے زیادہ سے زیادہ دلائل سے آراستہ کیا جا سکتا ہے۔ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کے کام کی اہمیت یہ ہے کہ ان کے کام کی روشنی میں اسلام بیسویں صدی میں اسی طرح متعلق (relevant) نظر آیا جس طرح غزالیؒ یا ان سے پہلے کے زمانے میں تھا
اس کام کی اہمیت دوسرے مذاہب کی تاریخ کی روشنی میں نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے جنہوں نے یا تو عصر کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے یا اس کی طرف پیٹھ کر کے کھڑے ہوگئے۔ ظاہر ہے یہ دونوں مثالیں عصر کے ہاتھوں مذہب کی شکست کی مثالیں ہیں
تحریر ۔ شاہ نواز فاروقی
یہ تحریر میں نے اخبار جسارت میں پڑھی تھی لیکن وہاں سے ہٹا دی گئی ہے اور اب یہاں موجود ہے
ہمارے اربابِ اختيار انگريزی دانی پر تُلے رہتے ہيں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ انگريزی کے بغير ترقی نہيں ہو سکتی ۔ ہم لوگ “اپنے ملک پر انگریزوں کے قبضہ سے پہلے کے نظام” کو کوستے اور “ہمارے لئے انگریزوں کے قائم کردہ تعلیمی نظام” کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے ۔ زیادہ تر تو کہتے ہیں کہ مسلمان مقبرے بناتے رہے اور انگریز یونیورسٹیاں ۔ حقیقت یہ ہے کہ قدیم نظام کے مطابق مسجد ہی علم کا گھر ہوا کرتی تھی ۔ مسجد ہی میں دین اور دنیاوی علم سیکھائے جاتے تھے ۔ جس مسجد میں اعلٰی تعلیم اور تحقیق کا کام ہوتا تھا اسے جامعہ یعنی یونیورسٹی کہا جاتا تھا ۔ حکومتِ وقت ان مساجد کے نام جاگیریں کر دیتی تھی تا کہ جامعات خود کفیل ہوں ۔ حاکم تحائف بھی دیتے تھے اور جو دولتمند طالب علم آتا وہ اپنی خوشی سے بھاری معاوضہ دیتا جسے فی زمانہ ہم فِیس کہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ نویں سے چودہویں صدی کے مسلمان سائنس دان دینی عالم بھی تھے ۔ ماضی قریب میں یونانی طِب کے معروف ماہر حکیم اجمل خان (1868ء تا 1927ء) نے بھی پہلے مسجد میں تعلیم حاصل کی جس میں اسلامی تعلیم مع حفظِ قرآن اور عربی شامل تھے ۔ پھر اپنے خاندانی علم یونانی طِب کی طرف راغب ہوئے ۔ خیال رہے کہ ہندوستان میں 1857ء میں انگریزوں کی حکومت قائم ہو گئی تھی ۔ لیکن حکیم اجمل خان نے انگریزوں کے بنائے نصاب کے مطابق تعلیم حاصل نہیں کی تھی
گرجا جسے انگریزی میں چرچ کہتے ہیں بھی کسی زمانہ میں تعلیم کا گھر تھا ۔ جب سرمایہ داروں کی حکمرانی ہو گئی تو گرجا سے علم کی روشنی چھین لی گئی تھی ۔ یقین نہ آئے تو تیرہویں سے اٹھارہویں صدی کے عیسائی سائنس دانوں کی سوانح کا مطالعہ کیجئے
اب ملاحظہ ہو ایک تاریخی حقیقت جو شائد صرف چند ایک پاکستانیوں کے علم میں ہو گی ۔ ہندوستان کے گورنر جنرل کی کونسل کے پہلے رُکن برائے قانون لارڈ میکالے (Lord Macaulay) کے برطانیہ کی پارلیمنٹ کو 2 فروری 1835ء کے خطاب سے اقتباس
” میں ہندوستان کے طول و عرض میں گیا ہوں ۔ میں نے ایک بھی آدمی نہیں دیکھا جو گداگر ہو یا چور ہو ۔ ایسی خشحالی میں نے اس ملک میں دیکھی ہے ۔ لوگوں کے اخلاق بہت بلند ہیں ۔ ایسے اعلٰی معیار کے لوگ ہیں کہ ہم انہیں کبھی مغلوب نہیں کر سکتے جب تک ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی کو نہیں توڑ دیتے جو کہ ان کی روحانی اور ثقافتی اساس ہے ۔ چنانچہ میں تجویز کرتا ہوں کہ ان کے قدیم تعلیمی نظام کو تبدیل کر دیا جائے کیونکہ اگر لوگ سمجھیں کہ وہ سب کچھ جو غیرملکی اور انگلش ہے وہ ان کے اپنے نظام سے بہتر ہے تو خوداعتمادی اور فطری ثقافت کو چھوڑ دیں گے اور وہ وہی بن جائیں گے جو ہم بنانا چاہتے ہیں یعنی ایک صحیح معنوں میں مغلوب قوم“ ۔
اگر ترقی انگريزی پڑھنے سے ہو سکتی ہے تو پھر جرمنی ۔ فرانس ۔ چين ۔ جاپان ۔ ملائشيا وغيرہ نے کيسے ترقی کی ؟ وہاں تو ساری تعليم ہی ان کی اپنی زبانوں ميں ہے ۔ بارہويں جماعت ميں ہمارے ساتھ 5 لڑکے ايسے تھے جو کہ خالص انگريزی سکول سينٹ ميری (Saint Marry) ميں پڑھ کے آئے تھے ۔ ان ميں سے 3 لڑکے بارہويں کے امتحان ميں فيل ہوگئے ۔ اور باقی دو بھی انجنيئرنگ يا ميڈيکل کالج ميں داخلہ نہ لے سکے ۔ جب کہ ہمارے کالج کے اُردو ميڈيم والے 12 لڑکوں کو انجنيئرنگ کالجوں ميں داخلہ ملا ۔ ميڈيکل کالجوں ميں بھی ہمارے کالج کے کئی لڑکوں اور لڑکيوں کو داخلہ ملا جو سب اُردو میڈیم کے پڑھے ہوئے تھے ۔ کمال یہ کہ ان میں 2 لڑکے انگریزی کے مضمون میں بھی فیل ہوئے تھے
ہماری قوم کی پسماندگی کا اصل سبب ہر دوسرے تيسرے سال بدلتے ہوئے نظامِ تعليم کے علاوہ تعليم کا انتہائی قليل بجٹ اور ہمارے ہاں اساتذہ کی تنخواہيں باقی سب اداروں سے شرمناک حد تک کم ہونا ہے ۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور ميں سوائے غیر ملکی ملکیت میں چلنے والے تعلیمی اداروں کے سب تعليمی ادارے قوميا کر ان ميں سياست کی پنيری لگا دی گئی اور ملک ميں تعليم کا تنزل تیزتر ہو گيا ۔ پھر انگريزی اور بين الاقوامی معيار کے نام پر مہنگے تعليمی ادارے بننا شروع ہوئے اور سرکاری تعلیمی ادارے یتیم بنا دیئے گئے
انعام حاصل کرنے سے کہیں بڑا اعزاز اس کا مستحق قرار دیا جانا ہے
انعام صرف اور صرف اللہ کا کرم ہوتا ہے ۔ عزت بھی وہی دیتا ہے ذلت بھی وہی دیتا ہے
کبھی اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی عہدہ دے کر ذلیل و خوار کر دیتا ہے
اور
کبھی عہدہ دیئے بغیر عزت عطا کر دیتا ہے
کئی بڑے بڑے عہدیدار اور بلند مقامات پر فائز کرسی نشین نفرت کی علامت بن جاتے ہیں اور عزت کی بجائے ذلت کماتے ہیں
اقتدار کا رعب ۔ کرسی کا خوف اور دولت کی چمک اور شے ہے ۔ اس سے صرف خوشامدی ۔ مفاد پرست اور دولت کمانے والے درباری متاثر ہوتے ہیں اور انہیں فرشی سلام پیش کرتے ہیں
جبکہ
احترام اور عزت اور شے ہے جو دلوں میں گھر بناتی اور اشاروں سے اظہار پاتی ہے ۔ یہ اللہ کی دین ہوتی ہے اور مقام شکر کا درجہ رکھتی ہے
اگر آپ چند منٹ دے سکتے ہوں تو یہاں کلک کر کے ”سب کی خیر ۔ سب کا بھلا“
فیس بُک پر کچھ روز قبل دیکھا کہ بڑے جوش سے اظہار کیا جا رہا تھا کہ سن 2014ء بالکل ویسا ہی ہے جیسا سن 1947ء تھا ۔ بات درست ہے لیکن ایک 1947ء ہی نہیں بہت سے اور سال بھی 2014ء پر منطبق ہیں
سال 2014ء کے 365 دن ہوں گے ۔ سال 1947ء کے بھی 365 دن تھے
سال 2014ء بدھ کے روز شروع ہوا ہے ۔ سال 1947ء بھی بدھ کے روز شروع ہوا تھا
نیچے سال 1900ء کے بعد سے 2014ء پر منطبق ہونے والوں کی فہرست ہے
خیال رہے کے چھُٹیاں منطبق نہیں ہوتیں
سال پر کلک کر کے پورے سال دیکھا جا سکتا ہے
سال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2014ء سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ درمیانی مدت
1902 ۔ ۔ ۔ ۔ 112 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
1913 ۔ ۔ ۔ ۔ 101 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1919 ۔ ۔ ۔ ۔ 95 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
1930 ۔ ۔ ۔ ۔ 84 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1941 ۔ ۔ ۔ ۔ 73 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1947 ۔ ۔ ۔ ۔ 67 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
1958 ۔ ۔ ۔ ۔ 56 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1969 ۔ ۔ ۔ ۔ 45 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1975 ۔ ۔ ۔ ۔ 39 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
1986 ۔ ۔ ۔ ۔ 28 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1997 ۔ ۔ ۔ ۔ 17 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
2003 ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
2014 ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ سال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
سوال یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے کا ’’ڈائریکٹر‘‘ کون تھا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کس کی سرپرستی مدد اور مداخلت سے عمل میں آئی؟ اس کا ہرگز مطلب اپنی سیاسی غلطیوں، کوتاہیوں، مختلف حکومتوں، حکمرانوں اور فوجی راج کے پیدا کردہ احساس محرومی پر پردہ ڈالنا نہیں کیونکہ وہ سب کچھ بہرحال تلخ حقیقتیں ہیں اور انہیں تسلیم کرنا پڑے گا
اسی سے دوسرا سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اس قسم کی محرومیاں ،کوتاہیاں، غیر دانشمندانہ پالیسیاں اور بے انصافیاں صرف پاکستان میں ہی روا رکھی گئیں؟ کیا صوبائی کشمکش علاقائی آزادی کی تحریکیں اور نفرتیں صرف پاکستان کی سیاست کا ہی حصہ تھیں؟ نہیں ہرگز نہیں،
اسی طرح کی صورتحال بہت سے نوآزاد یا ترقی پذیر ممالک کے علاوہ بعض ترقی یافتہ ممالک میں بھی موجود ہے۔ وہاں بھی وفاقی یا مرکزی حکومت پر بے انصافی کے الزامات لگے رہتے ہیں، بہت سے نو آزاد ممالک کے صوبوں میں رسہ کشی اور نفرت بھی رنگ دکھاتی ہے، بعض اوقات حکمران اور حکومتیں غلط فیصلے بھی کرتی ہیں لیکن ان تمام عوامل کے باوجود وہ ممالک اندرونی طور پر تقسیم ہونے کے باوجود ٹوٹتے نہیں۔ ان کے کچھ علاقے یا صوبے آزادی کا نعرہ بھی لگاتے ہیں، علیحدگی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں جیسا کہ خود ہندوستان میں کوئی درجن بھر علیحدگی کی تحریکیں جاری و ساری ہیں لیکن کبھی یہ نہیں ہوا کہ کسی علاقے کو فوجی قوت کی بناء پر الگ ہونے کی اجازت دی جائے۔ ہندوستان کے کئی صوبوں میں علیحدگی پسندی اور آزادی کی تحریکوں کے ساتھ ساتھ گوریلا جنگ بھی جاری ہے، حکومت کی بعض علاقوں میں رٹ بھی موجود نہیں لیکن اس کے باوجود وہاں کوئی صوبہ یا علاقہ نہ ہندوستان سے علیحدہ ہوا ہے اور نہ ہی آزاد۔ سکھوں نے آزادی کی تحریک چلائی تو ہندوستان نے اسے کچل کر رکھ دیا مقبوضہ کشمیر میں مظالم کے پہاڑ تو ڑے جارہےہیں پھر پاکستان ہی کو کیوں اس قیامت صغریٰ سے گزرنا پڑا؟
ایک بار پھر میں ببانگ دہل تسلیم کرتا ہوں کہ مشرقی پاکستان سے بے انصافیاں ہوئیں، ان کا معاشی حصہ انہیں اس قدر نہ ملا جس قدر ان کا حق تھا،مشرقی پاکستان آبادی میں 56 فیصد تھا اس لئے جمہوری اصولوں کی روشنی میں پیرٹی یا برابری بھی ان کے ساتھ زیادتی تھی۔
یہ الگ بات کہ ہمارے وہ دانشور جو آئین میں پیرٹی پر احتجاج کرتے اور اسے ہمالیہ جیسی غلطی قرار دیتے ہیں جذبات کی رومیں بہہ کر یہ بھول جاتے ہیں کہ جغرافیائی فاصلے کو حقیقت تسلیم کرتے ہوئے برابری یا پیرٹی کا اصول سب سے پہلے محمد علی بوگرہ کے آئینی فارمولے میں آیا تھا جس کی بنیاد پر 1954ء میں دستور بنایا جانا تھا لیکن غلام محمد نے اسمبلی برخاست کرکے دستور سازی کی بساط لپیٹ دی
اس سے قبل خواجہ ناظم الدین فارمولے میں بھی برابری کا مقصد ایک اور طریقے سے حاصل کیا گیا تھا جس کی تفصیل میری کتاب ”پاکستان تاریخ و سیاست“ میں موجود ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آئین میں برابری کا اصول بنگالی سیاستدانوں نے خوش دلی سے تسلیم کیا تھا۔ سولہ دسمبر کے حوالے سے پروگراموں میں1956ء کے آئین میں طے کردہ پیرٹی کے اصول کو خوب رگڑا دیا گیا۔ رگڑا دینے والوں کو علم نہیں تھا کہ1956ء کا آئین جناب حسین شہید سہروردی کا کارنامہ تھا اور وہ نہ ہی صرف بنگالی تھے بلکہ شیخ مجیب الرحمن کے استاد، سیاسی رہنما اور گُرو بھی تھے
دراصل اب یہ ساری باتیں خیال رفتہ (After thought) ہیں، اگر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا پھرتو یہ باتیں کسی کو یاد بھی نہ ہوتیں اور نہ ہی موضوع گفتگو ہوتیں۔ یہ بھی درست ہے کہ مشرقی پاکستان میں سیاسی احساس محرومی کو ایوبی مارشل لاء اور فوجی طرز حکومت نے ابھارا اور اسے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل دی۔ پارلیمانی جمہوریت میں بنگالیوں کو اقتدار ملنے کی توقع تھی، وہ جانتے تھے کہ کسی بھی چھوٹے صوبے کو ساتھ ملا کر پیرٹی کے باوجود وہ اقتدار حاصل کرسکیں گے لیکن ایوبی مارشل لاء نے ان کی امید کی یہ شمع بھی بجھا دی اور انہیں یقین دلادیا کہ اب کبھی بھی ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، پھر ایوبی مارشل لاء کی آمرانہ سختیوں، میڈیا، سوچ اور اظہار پر شدید پابندیوں اور سیاسی مخالفوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کارروائیوں نے بنگالیوں پر یہ بھی واضح کردیا کہ ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہے۔’’پاکستان سے بنگلہ دیش‘‘ نامی کتاب میں سابق بنگالی سفیر اور کرنل شریف الحق نے بالکل درست لکھا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے1969ء میں علیحدگی کا فیصلہ کرلیا تھا۔ کرنل شریف الحق بنگلہ دیش کی تحریک آزادی اور 1971ء کی جنگ کے ہیرو ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے سابق سفیر اور شیخ مجیب الرحمن کے خلاف بغاوت کرنے والوں میں شامل تھے، چنانچہ ان کا لکھا ہوا مستند ہے ۔ شیخ مجیب الرحمن جب 1972ء میں رہائی پاکر لندن پہنچا تو اس نے بی بی سی کے انٹرویو میں یہ تسلیم کیا کہ وہ عرصے سے بنگلہ دیش کے قیام کے لئے کام کررہا تھا
16 نومبر2009ء کو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نے انکشاف کیا کہ وہ 1969ء میں لندن میں اپنے والد کے ساتھ تھی جہاں شیخ مجیب الرحمن نے ہندوستانی ایجنسی’’را‘‘ کے افسران سے ملاقاتیں کیں اور بنگلہ دیش کے قیام کی حکمت عملی طے کی۔ حسینہ واجد کا بیان عینی شاہد کا بیان ہے۔ اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں، اس الجھی ہوئی کہانی کو سمجھنے کے لئے اس پہلو پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ جب 1956ء کے آئین میں بنگالی لیڈر شپ نے پیرٹی کا اصول مان لیا تھا تو پھر یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی اس اصول کو کیوں ختم کردیا اور کس اتھارٹی کے تحت ون یونٹ ختم کرنے اور ون مین ون ووٹ کا اصول نافذ کرنے کا اعلان کیا کیونکہ یہ فیصلے تو نئی دستور ساز اسمبلی نے کرنے تھے۔ دراصل یحییٰ خان صدارت پکی کرنے کے لئے مجیب الرحمن سے ساز باز کرنے میں مصروف تھا اور یہ دو بنیادی فیصلے اسی ہوس اقتدار کے تحت کئے گئے تھے
یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ انتخابات کروانے کے بعد اقتدار منتقل نہ کرنا پاکستان کو توڑنے کے مترادف تھا۔سیاسی بصیرت اور ملکی اتحاد کا تقاضا تھا کہ اقتدار اکثریتی پارٹی کے حوالے کیا جاتا۔ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کے نتیجے کے طور پر مشرقی پاکستان میں بغاوت ہوئی جسے کچلنے کے لئے آرمی ایکشن کیا گیا۔ گولی سیاسی مسائل کا کبھی بھی حل نہیں ہوتی ،چاہے وہ مشرقی پاکستان ہو یا بلوچستان۔ سیاسی مسائل ہمیشہ سیاسی بصیرت سے ہی حل ہوتے ہیں۔ آرمی ایکشن نے بظاہر پاکستان کو بہت کمزور کردیا تھا
16 دسمبر کے سانحے کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم ایک بنیادی پہلو اور اہم ترین فیکٹر کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ”وہ بنیادی حقیقت ہے۔ بھارت کی ہمسائیگی اور بھارت کے ساتھ دو تہائی بارڈر کا مشترک ہونا“۔
فرض کیجئے کہ مشرقی پاکستان بھارت کا ہمسایہ نہ ہوتا تو کیا بنگالی برادران کو کہیں سے اتنی مالی اور سیاسی مدد ملتی، اگر وہ بڑی تعداد میں ہجرت بھی کر جاتے تو کیا دوسرا ہمسایہ ملک انہیں وہاں جلا وطن حکومت قائم کرنے دیتا، ان کے نوجوانوں کو مکتی باہنی بنا کر رات دن فوجی تربیت اور اسلحے سے لیس کرکے گوریلا کارروائیاں کرنے کی اجازت دیتا، آرمی ایکشن کی زیادتیوں کو نہایت طاقتور میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں پھیلاتا اور پاکستان کی کردار کشی کرتا، روس جیسی سپر پاور کو اندرونی معاملے میں شا مل کرتا اور روس سے بے پناہ فوجی اسلحہ لے کر اپنے ہمسایہ ملک پر چڑھ دوڑتا۔ اگر یہ مکتی باہنی کی فتح تھی تو پھر پاکستان کی فوج نے ہندوستان کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے؟ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ہندوستان کا کیا دھرا تھا، ہندوستان نے بنگالیوں اور مکتی باہنی کی آڑ میں اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈی کی ورنہ آرمی ایکشن سری لنکا میں بھی ہوتے رہے، ہندوستان میں بھی سکھوں کا قتل عام ہوا کیا وہ علاقے اپنے ملکوں سے الگ ہوئے؟ اسی لئے سولہ دسمبر 1971ء کو اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے ہندوستان ماتا کی تقسیم کا بدلہ لے لیا اور نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا
بلاشبہ غلطیاں، زیادتیاں اور بے انصافیاں ہوئیں جن کا جتنا بھی ماتم کیا جائےکم ہے۔ اس طرح کی غلطیاں اور بے انصافیاں بہت سے ممالک میں ہوتی رہی ہیں لیکن ان کے استحکام پر زد نہیں پڑی۔ دراصل ہمارے اس سانحے کا ڈائریکٹر ہندوستان تھا اور یاد رکھیئے اسے آئندہ بھی موقع ملا تو باز نہیں آئے گا ۔ یہ بھی یقین رکھیئے میں نے یہ الفاظ کسی نفرت کے جذبے کے تحت نہیں لکھے بلکہ میرے ان احساسات و خدشات کے سوتے ملک کی محبت سے پھوٹے ہیں۔ میں ہمسایہ ممالک بشمول ہندوستان سے اچھے دوستانہ روابط قائم کرنے کے حق میں ہوں جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں۔ امن ہماری ضرورت ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ تاریخ کو بھلادیا جائے کیونکہ جو قومیں اپنی تاریخ فراموش کردیتی ہیں ان کا جغرافیہ انہیں فراموش کردیتا ہے
تحریر ۔ ڈاکٹر صفدر محمود