Category Archives: تجزیہ

میری ڈائری ۔ تکمیل خواہشات

یکم جون 1962ء کو میری ڈائری میں مرقوم ہے

انسان کے دل میں بہت سی خواہشات اُبھرتی رہتی ہیں
اگر یہ تمام خواہشات ایک حقیقت بن سکتیں تو نظامِ عالم کا برقرار رہنا بہت مُشکل بلکہ ناممکن ہو جاتا اور خود اِس انسان کیلئے نتیجہ مُضر ہو سکتا تھا
اسلئے ہر خواہش کی تکمیل کی اُمید رکھنا عقل سے بعید فعل ہو گا

شرم و حیاء کیا ہوتی ہے

عمران اقبال صاحب کے بلاگ پر ”کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیاء ہوتی ہے“ کے عنوان سے مانو بلی کے نام سے ایک مضمون لکھا گیا ۔ میں عمران اقبال صاحب سے معذرت خواہ ہوں کہ اُن کی مہمان لکھاری کی معلومات پر اعتراض کی جسارت کر رہا ہوں ۔ اگر عُمر میں لکھاری محترمہ مجھ سے بڑھی ہیں تو اُن سے بھی معذرت ۔ مجھے لکھنے کی جراءت محترمہ کی تحریر کے آخر میں مرقوم اِس ”نوٹ“ سے ہوئی ۔ ۔ ۔ ” اگر کسی دوست کو اختلاف ہو یا ذہن میں کوئی سوال آئے تو میں جواب دینے کیلئے حاضر ہوں ۔ اگر میں نے کہیں کوئی واقعہ مسخ کرکے لکھا ہو تو نشاندہی ضرور کیجیئے گا”۔

محترمہ نے دعوٰی کیا ہے ۔ ۔ ۔ ” اتنا دعوی ضرور کرتی ہوں کہ جو تاریخی حقائق بیان کرونگی من و عن کرونگی“۔
محترمہ شاید بے پَر کے اُڑتی خبروں سے محسور ہو گئی ہیں اور پاکستان کی تاریخ کا علم بھی کم عُمری کے باعث کم ہی رکھتی ہیں

قارئین اور بالخصوص محترمہ کے عِلم کیلئے عرض کر دوں کہ تاریخ کچھ یوں ہے
قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنے ۔ ایک گہری سازش کے تحت 16 اکتوبر 1951ء کو قائدملت لیاقت علی خان کو قتل کروا دیا گیا ۔ خواجہ ناظم الدین کو بہلا پھُسلا کر وزیراعظم بنا دیا گیا اور سابق سیکریٹری فنانس غلام محمد (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) گورنر جنرل بنا جو سازش کی ایک کڑی تھی ۔ خواجہ ناظم الدین کی کابینہ نے آئین کا مسؤدہ تیار کر لیا اور پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی پاکستان کیلئے منتخب کردہ اسمبلی میں پیش ہوا ہی چاہتا تھا کہ غلام محمد نے 17 اپریل 1953ء کو خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر کے پاکستان کے امریکہ میں سفیر محمد علی بوگرہ (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) کو وزیراعظم بنا دیا ۔ محمد علی بوگرہ نے آئین کا ایک متبادل مسؤدہ تیار کرایا جو اسمبلی کو منظور نہ تھا ۔ فیصلہ کیا گیا کہ قائداعظم کی ھدایات کی روشنی میں تیار کیا گیا آئین وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی مرضی کے بغیر اسمبلی سے منظور کرا لیا جائے ۔ جسے روکنے کیلئے غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954ء کو پاکستان کی پہلی مُنتخب اسمبلی توڑ دی ۔ سپیکر مولوی تمیزالدین نے چیف کورٹ (اب ہائی کورٹ) میں اس کے خلاف درخواست دی جو منظور ہوئی مگر غلام محمد نے فیڈرل کورٹ (اب سپریم کورٹ) میں اپیل دائر کی جہاں غلام محمد کا ہم نوالہ و ہم پیالہ چیف جسٹس منیر احمد (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) تھا ۔ اُس نے ملک کے مستقبل پر اپنی یاری کو ترجیح دی ۔ نظریہءِ ضرورت ایجاد کیا اور اپیل منظور کر لی ۔ نظریہءِ ضرورت پہلا مرض ہے جو پاکستان کو لاحق ہوا ۔ محمد علی بوگرہ نے غلام محمد کی منشاء کے مطابق نام نہاد ٹیکنوکریٹ حکومت تشکیل دی اور فوج کے سربراہ (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) کو وردی میں وزیر دفاع بنا دیا یعنی پاکستان کا عنانِ حکومت مکمل طور پر سفید اورخاکی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں چلا گیا ۔ یہ دوسرا مرض ہے جو پاکستان کو لاحق ہوا ۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل عنوان پر کلِک کر کے ایک دستاویزی ثبوت کا حوالہ دیکھیئے
خُفیہ کتاب کا ایک ورق

غلام محمد پر فالج کا حملہ ہوا ۔ سیکریٹری دفاع سکندر مرزا (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ جسے قائداعظم محبِ وطن نہیں جانتے تھے) ڈپٹی گورنر جنرل بن گیا ۔ عملی طور پر وہ گورنر جنرل ہی تھا کیونکہ غلام محمد کچھ لکھنے یا بولنے کے قابل نہ تھا ۔ سکندر مرزا جب سیکریٹری دفاع تھا خود ہی نوٹیفیکیشن جاری کر کے میجر جنرل کا لاحقہ لگا لیا تھا ۔ 8 اگست 1955ء کو غلام محمد کو برطرف کر کے سکندر مرزا پکا گورنر جنرل اور پھر صدر بن گیا ۔ سکندر مرزا نے 11 اگست 1955ء کو چوہدری محمد علی کو وزیراعظم بنا دیا ۔ 30 ستمبر 1955ء کو مغربی پاکستان کو وَن یونٹ بنا کر مغربی پاکستان کا سربراہ ڈاکٹر عبدالجبّار خان المعروف ڈاکٹر خان صاحب (عبدالغفّار خان کے بڑے بھائی یعنی اسفندیار ولی کے دادا کے بھائی) کو بنا دیا گیا جو کانگرسی اور نظریہ پاکستان کا مخالف تھا ۔ پاکستان بننے سے پہلے جب پاکستان کیلئے ووٹنگ ہوئی تھی تو ڈاکٹر خان صاحب شمال مغربی سرحدی صوبہ (اب خیبر پختونخوا) کا قابض حکمرانوں کی طرف سے حاکم تھا اور اس نے پوری کوشش کی تھی کہ صوبے کے مسلمان کانگریس کے حق میں ووٹ ڈالیں لیکن ناکام رہا تھا ۔ مگر اسے سکندر مرزا کا اعتماد حاصل تھا ۔ ڈاکٹر خان صاحب نے بتدریج مُخلص مسلم لیگیوں کو فارغ کر کے اُن کی جگہ دوغلے یا اپنے ساتھی رکھ لئے ۔ چوہدری محمد علی نے بوگرہ کے تیار کروائے ہوئے آئین کے مسؤدے میں کچھ ترامیم کر کے 23 مارچ 1956ء کو آئین منظور کرا لیا۔ ڈاکٹر خان صاحب کی مہربانی سے حکومت میں اکثریت نظریہ پاکستان کے مخالفین کی ہو چکی تھی جس کے نتیجہ میں چوہدری محمد علی 8 ستمبر 1956ء کو مجبوراً مُستعفی ہو گئے

حسین شہید سہروردی ڈاکٹر خان صاحب کی پارٹی سے اتحاد کر کے 12 ستمبر 1956ء کو وزیراعظم بنے لیکن بیوروکریسی کی سازشوں کا مقابلہ نہ کر سکے اور عزت بچانے کیلئے 10 اکتوبر 1957ء کو مُستعفی ہو گئے ۔ ان کی جگہ آئی آئی چندریگر کو قائم مقام وزیراعظم بنا دیا گیا ۔ وہ صرف 2 ماہ رہے ۔ 16 دسمبر 1957ء کو ملک فیروز خان نون وزیراعظم بنے ۔ اُس وقت تک مُلکی حالات نے مغربی پاکستان میں خان عبدالقیوم خان کی سربراہی میں مسلم لیگ اور مشرقی پاکستان میں حسین شہید سہرودری کی سربراہی میں عوامی لیگ کو مضبوط کر دیا تھا ۔ یہ دونوں بڑی جماعتیں متحد ہو گئیں اور ملک فیروز خان نون کو سہارا دیا جس سے سکندر مرزا کو اپنی کرسی خطرے میں نظر آئی اور اُس نے جون 1958ء میں کانگرسی لیڈر خان عبدالغفار خان (جو نہ صرف پاکستان بنانے کے مخالف تھے بلکہ قائداعظم کے بھی مخالف تھے) سے مدد کی درخواست کی اور مشرقی پاکستان میں گورنر کے ذریعہ حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ میں پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا ۔ آخر 7 اور 8 اکتوبر 1958ء کی درمیانی رات سکندر مرزا نے فوج کے سربراہ اور وزیر دفاع جنرل محمد ایوب خان کو آگے بڑھنے کا کہا ۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب جانتے ہیں

محترمہ مزید لکھتی ہیں ”پاکستان میں فرقہ وارا نہ دہشتگردی کو فروغ اور عوام خاص طور پر پنجاب میں انتہاپسندی کا جو بیج ضیا نے بویا اسکی آبیاری کے علاوہ تو مجھے ‘شہید’ کا کوئی اور مشن سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ یہی ایک کام میاں صاحب نے بخوبی کیا۔ آج بھی دہشتگرد تنظیموں کو پیغام بھیجے جاتے ہیں کہ پنجاب کو چھوڑ کر کہیں بھی دہشتگردی پر انہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا“۔

محترمہ کا مندرجہ بالا بیان بے بنیاد اور لَغو ہے ۔ محترمہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ پورے پاکستان میں ہر قسم کے دہشتگردوں کے خلاف بلاامتیاز فوجی کاروائی کا فیصلہ نواز شریف ہی نے کیا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے دہشتگردی کے واقعات تو 1972ء سے ہوتے چلے آرہے تھے جن میں کچھ اضافہ 1977ء کے بعد ہوا جب 2 نام ”ہتھوڑا گروپ“ اور ”الذوالفقار“ زبان زدِ عام ہوئے تھے ۔ الذوالفقار والے پی آئی اے کا ایک جہاز اغواء کر کے افغانستان لے گئے تھے اور اس جہاز میں سوار ایک شخص کو ہلاک بھی کیا تھا
دہشتگردی کے بڑے واقعات ستمبر 2001ء کے بعد شروع ہوئے جب پرویز مشرف نے پاکستان کی بجائے امریکہ کی مکمل تابعداری اختیار کی ۔ ان میں شدت اُس وقت آئی جب 13 جنوری 2006ء کو امریکی ڈرون نے باجوڑ کے علاقہ ڈماڈولا میں ایک مدرسے کو میزائل مار کر درجنوں معصوم بچوں کو ہلاک کر دیا اور پرویز مشرف نے کہا کہ ”یہ حملہ ہمارے گن شپ ہیلی کاپٹر نے کیا ہے“۔ اگر بات کراچی کی ہے تو وہاں کے رہنے والے ہی اس کا سبب ہیں
ضیاء الحق نے 3 ماہ کا کہہ کر حکومت سنبھالی اور پھر 11 سال چپکا رہا اس وجہ سے وہ مجھے پسند نہیں لیکن ضیاء الحق پر جس فرقہ واریت ۔ دہشتگردی ۔ کلاشنکوف کلچر اور افغانستان میں دخل اندازی کا الزام لگایا جاتا ہے اُس کی پنیری ذوالفقار بھٹو نے لگائی تھی ۔ ملاحظہ ہو

1 ۔ صوبہ سندھ میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے بے بنیاد زہرآلود تقاریر کیں اور وہ سندھی جنہوں نے قائد اعظم کا ساتھ دیا تھا اور پاکستان کیلئے ہونے والی ووٹنگ میں شاہنواز بھٹو (ذوالفقار علی بھٹو کے والد) کے خلاف قائداعظم کے نام زد کردہ سکول ٹیچر کو جتوا دیا تھا اُن کو پنجابی اور اُردو بولنے والوں کا دشمن بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ مزید کالا باغ ڈیم بنانے کی مکمل تیاری ہو چکی تھی ۔ کنسٹرکشن کمپنی کا چناؤ ورلڈ بنک نے کرنا تھا اسلئے کسی پاکستانی کی جیب میں ناجائز پیسہ جانے کی اُمید نہ تھی ۔ مال کمانے کی خاطر ذوالفقار علی بھٹو نے صوبہ سندھ سوکھنے کا شوشہ چھوڑ کر کالا باغ کے خلاف سندھ میں فضا ہموار کی اور پاکستان انجنیئرنگ کانگرس (جس میں اراکین کی اکثریت صوبہ سندھ سے تھی) کی مخالفت کے باوجود تربیلہ ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا ۔ کالا باغ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے آج تک پاکستان کی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے

2 ۔ فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) بنائی جس میں جیب کُترے ۔ جوئے باز اور دیگر آوارہ جوانوں کو بھی بھرتی کر کے اُنہیں آٹومیٹک رائفلیں دے دیں ۔ انہیں نہ صرف سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا بلکہ اپنی ہی پارٹی میں جس نے اختلاف کیا اُسے بھی پٹوایا یا ھلاک کیا گیا ۔ اس کی اہم مثال احمد رضا قصوری کے والد کی ہلاکت ہے جو بھٹو صاحب کو تختہ دار پر لے گئی

3 ۔ آئی ایس آئی پاکستان کا مُخلص اور محافظ ادارہ تھا ۔ اس میں سیاسی شاخ بنا کر آئی ایس آئی کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جو بعد میں رواج پکڑ گیا اور آئی ایس آئی سیاست میں بھرپور طور پر ملوّث ہو گئی

مزید مندرجہ ذیل عنوانات پر کلِک کر کے پڑھیئے
4 ۔ دہشتگردی کا ذمہ دار کون
5 ۔ سرکاری دفاتر میں دھونس اور دھاندلی کیسے شروع ہوئی

محترمہ نے آگے چل کر لکھا ہے ”نواز شریف ایک اوسط درجے کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انکے والد صاحب کی ایک چھوٹی سی فاؤنڈری تھی جو بھٹو کے زمانے میں قومیائی گئی اور ضیاالحق نے واپس دی ۔ اس کی تفصیلات اگلے مضمون میں لکھوں گی

مجھے نواز شریف نے نہ کچھ دیا ہے اور نہ کچھ ملنے کی کبھی اُمید ہوئی ۔ لیکن سچ لکھنا میرا حق ہے ۔ نواز شریف کے والد میاں محمد شریف اور برادران (کُل 6 بھائی) نے 1930ء میں فاؤنڈری بنائی ۔ جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا تو 1958ء یا 1959ء میں ہماری کلاس کو اتفاق فاؤنڈری کے مطالعاتی دورے پر لیجایا گیا تھا ۔ اُن دنوں بھی یہ فاؤنڈری چھوٹی نہ تھی ۔ ہمارے پروفیسر صاحب نے اتفاق فاؤنڈری جاتے ہوئے ہمیں بتایا تھا کہ ”پہلا بڑا کام اس فاؤنڈری نے پاکستان بننے کے چند سال بعد کیا کہ جن شہروں میں ہندو جاتے ہوئے بجلی گھروں کو آگ لگا گئے تھے اُن کیلئے چھوٹے چھوٹے بجلی گھر تیار کر کے ان شہروں میں نصب کئے ۔ اگر یہی پاور سٹیشن درآمد کئے جاتے تو دوگُنا خرچ ہوتا“۔ اُس دور میں پاکستان میں کوئی فاؤنڈری سوائے اس کے نہ تھی ۔ چھوٹا چھوٹا ڈھالنے کا کام ہو تو اُسے بھی فاؤنڈری کہہ دیا جاتا ہے مگر ان میں نہ تو پیداوار کا خاص معیار ہوتا ہے اور نہ ہی یہ بڑا کام کر سکتی ہیں
ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دورِ حکومت سے قبل اتفاق فاؤنڈری کی جگہ اتفاق گروپ آف انڈسٹریز لے چکا تھا جو بغیر معاوضہ قومیا لیا گیا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد جن کارخانہ داروں نے چارہ جوئی کی اُنہیں اُن کے کارخانے واپس دے دیئے گئے تھے کیونکہ وہ خسارے میں جا رہے تھے

محترمہ نے مزید لکھا ہے ”بینظیر کی حکومت گرانے کیلئے اسامہ بن لادن سے پیسے لینے والے میاں صاحب
یہ خبر کسی محلہ اخبار میں چھپی ہو تو معلوم نہیں البتہ کسی قومی سطح کے اخبار میں نہیں چھپی اور نہ ہی پیپلز پارٹی (جو مسلم لیگ نواز کی مخالف سب سے بڑی اور پرانی جماعت ہے) کے کسی سرکردہ لیڈر کے منہ سے سُنی گئی ہے ۔ پکی بات ہے کہ کم از کم 2001ء تک اوسامہ بن لادن افغانستان میں تھا ۔ اگر امریکہ نے 2 مئی 2011ء کو اُسے ایبٹ آباد میں ہلاک کیا تو وہاں وہ پرویز مشرف یا آصف علی زرداری کے دورِ حکومت میں آیا اور رہائش رکھی ۔ اس لحاظ سے تو پرویز مشرف اور آصف علی زرداری اوسامہ بن لادن کے دوست ہوئے

بینظیر بھٹو صاحبہ سیاسی لحاظ سے جو کچھ تھیں وہ ایک طرف لیکن میں اُن کا احترام اسلئے کرتا ہوں کہ اُنہیں اپنے مُلک کی مٹی سے پیار تھا اور اسی وجہ سے میں محمد نواز شریف کو بھی اچھا سمجھتا ہوں
ایک اہم حقیقت جسے ہمارے ذرائع ابلاغ نے اہمیت نہیں دی یہ ہے کہ لیاقت علی خان ۔ ضیاء الحق اور بینظیر بھٹو کو ہلاک کرانے کے پیچھے ایک ہی ہاتھ تھا اور ہماری ناعاقبت اندیشی کہیئے یا بدقسمتی کہ میرے پڑھے لکھے ہموطنوں کی اکثریت اُس دُشمنِ پاکستان کو اپنا دوست بنانے یا کہنے میں فخر محسوس کرتی ہے ۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے ناجائز قتل کی وجہ سے دوسرے واقعات میڈیا نے پسِ پُشت ڈال دیئے تھے ۔ محترمہ بینظیر بھٹو سے قبل محمد نواز شریف پر کامیاب قاتلانہ حملہ ہوا ۔ ابھی اُن کی موت نہیں لکھی تھی اسلئے بچ گئے تھے ۔ ہوا یوں تھا کہ اسلام آباد آتے ہوئے جب وہ روات پہنچے تو چوہدری تنویر نے محمد نواز شریف کو زبردستی اپنی گاڑی میں بٹھا لیا تھا ۔ جب حملہ ہوا تو محمد نواز شریف کی گاڑی میں بیٹھے اُن کے سب محافظ ہلاک ہو گئے تھے ۔ چنانچہ ہلاک کروانے والا دراصل پاکستان کا دشمن ہے

موجودہ حالات کی جڑ کہاں ہے ؟

اگر آپ کو پاکستان سے ذرا سا بھی لگاؤ ہے تو کچھ وقت نکال کر مندرجہ ذیل اقتباس پڑھ کر اندازہ لگایئے کہ ہمارا یہ مُلک موجودہ حال کو کیسے پہنچا اور فکر کیجئے کہ اسے درست کیسے کرنا ہے
خیال رہے کہ بنی عمارت کو گرانا آسان ہوتا ہے لیکن نئی عمارت کی تعمیر وقت اور محنت مانگتی ہے اور گری عمارت کی بحالی کیلئے زیادہ وقت ۔ زیادہ محنت اور استقلال ضروری ہوتا ہے
مت بھولئے کہ آپ کا مُستبل آپ کے ہاتھ میں ہے اور اسے آپ ہی نے بنانا ہے

لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شاہد عزیر (جو نہ صرف پرویز مشرف کو قریب سے جانتے تھے بلکہ اُس دور میں روشن خیالی کے نام پر اس بے غیرتی اور بے ہودگی کے وجوہات سے بھی واقف تھے) لکھتے ہیں

میری ریٹائرمنٹ کے بعد مارچ 2006ء میں، جن دنوں میں نیب (NAB) میں تھا، امریکہ کے صدر حضرت جارج بُش اسلام آباد تشریف لائے۔ رات کو پریزیڈنٹ ہاؤس میں کھانا ہوا اور ایک ثقافتی پروگرام پیش کیا گیا۔ پروگرام میں پاکستان کی تہذیب پر ایک نگاہ ڈالی گئی کہ ہماری تہذیب پر تاریخ کے کیا اثرات رہے
پہلی تصویر ہمارے معاشرے کی موہنجو ڈارو کے ادوار کی پیش کی گئی۔ نیم عریاں لڑکیوں نے ناچ کر ہمیں سمجھایا کہ ہماری ثقافت کی ابتداء کہاں سے ہوئی
پھر بتایا گیا کہ الیگزینڈر کے آنے سے ہم نے ایک نیا رنگ حاصل کیا۔ اس رقص میں فیشن بدل گیا اور لباس بھی مزید سکڑ گئے
پھر اگلا رقص عکاسی کرتا تھا ہندوانہ تہذیب کی برہنگی کا جس کا اثر ہماری تہذیب پر رہا

جب لباس غائب ہونے لگے تو میں ڈرا کہ آگے کیا آئے گا لیکن پھر
کافرستان کی رقاصائیں آ گئیں کہ یہ اب بھی یہاں ناچتی ہیں۔ صرف اس پیشکش میں کچھ ملبوس نظر آئے
اگلے رقص میں چھتریاں لئے برطانیہ کی میم صاحبائیں دکھائی گئیں جنہوں نے چھتریوں کے علاوہ دستانے بھی پہنے تھے اور کچھ رومالیاں ہاتھوں سے باندھی ہوئی تھیں
پھر اگلے رقص میں پاکستان کی موجودہ تہذیب کی عکاسی میں لڑکوں اور لڑکیوں نے مل کر، خفیف سے ملبوس میں جنسی کنائیوں (sexual innuendoes) سے بھرپور رقص پیش کر کے حاضرین کو محظوظ کیا
آخر میں ایک اور انوکھا رقص پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ وہ مستقبل ہے جس کی طرف ہم رواں ہیں ۔ اسٹیج پر برہنہ جانوروں کی مانند بل کھاتے، لپٹتے ہوئے اپنے مستقبل کی تصویر دیکھ کر جی چاہا شرم سے ڈوب مروں، مگر حیوانیت نے آنکھیں بند نہ ہونے دیں

بچپن میں سنا تھا کہ یہاں کبھی محمد بن قاسم بھی آیا تھا اور بہت سے بزرگان دین بھی مگر شاید اُن کا کچھ اثر باقی نہ رہا تھا
جب ہم اپنا تماشا دکھا چکے اور حضرت بش اُٹھ کر جانے لگے تو تمام مجمع بھی اُن کے پیچھے دروازے کی طرف بڑھا۔ وہ دروازے پر پہنچ کر رُک گئے پھر ہماری طرف مُڑے تو سارا مجمع بھی ٹھہر گیا۔ دانت نکال کر اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے، گھُٹنے جھُکا کر کو لہے مٹکائے، دونوں ہاتھوں سے چٹکیاں بجائیں اور سر ہلا کر تھوڑا اور مٹک کر دکھایا جیسے کہہ رہے ہوں، ”ہُن نَچو“۔
جس کی خوشی کے لئے ہم نے قبلہ بدل لیا، اپنی تاریخ جھٹلا دی، اپنا تمدن نوچ کر پھینک دیا، وہ بھی لعنت کر گیا

روشن خیالی کے نام پر بے شرمی اور بے غیرتی کے اس واقعہ کو بیان کرنے سے پہلے جنرل شاہد عزیز لکھتے ہیں

سی جی ایس (CGS) کی کرسی پر دو سال مجھ پر بہت بھاری گزرے۔ سب کچھ ہی غلط ہوا۔ افغانستان پر غیر جانبداری کا جھانسا دے کر امریکہ سے گٹھ جوڑ کیا اور مسلمانوں کے قتل و غارت میں شامل ہوئے۔ نئے نظام کے وعدے پر آنے والا ڈکٹیٹر ریفرنڈم کے جعلی نتیجے کے بل بوتے پر پانچ سال کے لئے صدر بنا، نااہل اور کرپٹ سیاستدانوں کی حکومت فوج کے ہاتھوں قائم کی گئی، امریکہ کے دباؤ پر کشمیر کو خیرباد کہا، بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی آگ لگائی گئی، کاروباری ٹی وی چینلز کھولنے کا فیصلہ کر کے قوم کی فکریں بھی منڈی میں رکھ دیں۔ پھر ”سب سے پہلے پاکستان“ کا دوغلا نعرہ لگایا اور دین کو روشن خیالی، اعتدال پسندی (enlightened moderation) کا نیا رنگ دیا— ”دین اکبری“ سے آگے نکل کر ”دین پرویزی“۔

پاکستان میں دین کا رجحان ختم کرنے کے لئے یہ نسخہ امریکہ کا تجویز کردہ تھا۔ قبلہ واشنگٹن کی طرف موڑ نے کے بعد آہستہ آہستہ لوگوں کے ذہنوں کو قابو کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ تمام ٹی وی چینلز پیش پیش رہے۔ ایک سے ایک عالم اور فقیہ خریدے گئے۔ فرقہ وارانہ تنظیموں کے گند کو اُچھال اُچھال کر اُسے جہادیوں سے جا ملایا۔ پھر مُلا کی جہالت کو مروڑ کر دین کو بدنام کیا اور اُسے نیا رنگ دے کر، نئی اصلاحات پیش کی گئی۔ اسلام کے قواعد پر چلنے کو ”بنیادپرستی“ کہا گیا، پھر اُسے ”شدت پسندی“ سے جا ملایا یعنی ”مُلا کی جہالت کو چھوڑ دو اور اصل اسلام پر آ جاؤ، وہ یہ ہے جو میں بتا رہا ہوں“ ۔ کچھ سچ میں تمام جھوٹ ملا کر، ڈھولک کی تھاپ پر ایک ناچتا ہوا معاشرہ سیدھی راہ بتائی گئی۔ جہاں ہر شخص کو اللہ کی رضا چھوڑ کر اپنی من مانی کی چھُوٹ ہو۔ جب منزل دنیا کی رعنائیاں ہو اور دھَن دولت ہی خدا ہو، تو پھر یہی سیدھی راہ ہے

جنرل شاہد عزیر مزید لکھتے ہیں

پھر عورتوں پر معاشرے میں ہوتے ہوئے مظالم کو دینی رجحان سے منسلک کیا گیا اور حقوق نسواں کو آزادی نسواں کا وہ رنگ دیا گیا کہ عورت کو عزت کے مرتبے سے گرا کر نیم عریاں حالت میں لوگوں کے لئے تماشا بنایا

ایک مرتبہ کور کمانڈر کانفرنس میں کور کمانڈروں نے ملک میں پھیلتی ہوئی فحاشی پر اظہار تشویش کیا تو مشرف ہنس کر کہنے لگے ”میں اس کا کیا کروں کہ لوگوں کو ایک انتہا سے روکتا ہوں تو وہ دوسری انتہا کو پہنچ جاتے ہیں” اور پھر بات کو ہنسی میں ٹال دیا مگر حقیقت مختلف تھی۔ صدر صاحب کی طرف سے باقاعدہ حوصلہ افزائی کی گئی اور پشت پناہی ہوئی تو بات یہاں تک پہنچی۔ اس سلسلے میں کئی این جی اوز (NGOs) بھی کام کر رہی تھیں اور بے بہا پیسہ خرچ کیا جا رہا تھا۔ یہ سب کی آنکھوں دیکھا حال ہے۔

جنرل شاہد عزیر آگے لکھتے ہیں

جی ایچ کیو آڈیٹوریم (GHQ Auditorium)میں جنرلوں کو فوجی سیریمونیل لباس (ceremonial dress) میں، جو خاص احترام کے موقع پر پہنا جاتا ہے، بٹھا کر گانوں کی محفلیں سجائی گئیں

عرضِ بلاگر
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم اپنے دین حتٰی کہ اپنی ثقافت سے منہ موڑ کر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں ؟
اور بجائے اپنی درستگی کے ۔ ہمارے دن رات دوسروں پر الزام تراشی کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں گذرتے ہیں

نہ مانیئے لیکن غور ضرور کیجئے

٭ عراق پر قبضے کے بعد 2003 میں امریکی صدر بش نے جہادی اسلام کے مقابلے میں لبرل اسلام کو فروغ دینے کیلئے مسلم ورلڈ آوٹ ریچ (Muslim World Outreach) پروگرام شروع کیا ۔ اس کیلئے ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر مختص کئے ۔ اس پروگرام کے تحت جن ممالک پر خصوصی توجہ دینی تھی ان میں پاکستان سرفہرست تھا۔ 2003 میں یہ پروگرام شروع ہوا اور 2004 میں علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اچانک اور پراسرار طور پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی حالانکہ 1989 میں سیاست کے آغاز کے بعد وہ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں پہنچے تھے ۔ مسلم ورلڈ آوٹ ریچ پروگرام کے تحت امریکہ نے نئے تعلیمی ادارے اور مدرسے کھولنے تھے اور ڈاکٹر قادری کے مخالف کہتے ہیں کہ اگلے تین سالوں میں منہاج القرآن کے تحت پنجاب میں سینکڑوں تعلیمی ادارے قائم کئے گئے جبکہ وہ خود کینیڈا میں مقیم ہوگئے

٭ برطانیہ میں مقیم متنازعہ مذہبی عقائد کے حامل اور خانہ کعبہ کو گالیاں دینے والے فتنہ بردار یونس الگوہر (خانہ کعبہ اور پاکستانی سیاسی رہنمائوں کے بارے میں ان کے خرافات کی ویڈیو یوٹیوب پر دیکھی جاسکتی ہے) کی طرف سے ڈاکٹر طاہرالقادری اورعمران خان کی حمایت کے اعلان اور پی ٹی آئی کے دھرنے میں ان کے پیروکاروں اور بینرز کی موجودگی حیران کن اور پریشان کن ہے ۔

٭ کچھ عرصہ قبل عمران خان اور طاہرالقادری کو ایک ساتھ ڈیووس میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم میں ایک ساتھ بلانے اور پھر دھرنوں کی منصوبہ بندی کے لئے لندن میں ان کی خفیہ ملاقات کرانے (جس کو خان صاحب نے اپنی کور کمیٹی سے بھی چھپا کے رکھا) سے بھی پتہ چلتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے

٭ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے کم وبیش تمام ارکان اور رہنمائوں نے متعلقہ فورمز پر دھرنوں اور استعفوں کی مخالفت کی اور صرف اور صرف شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی طرف سے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ مل جانے پر اصرار سے بھی پتہ چلتا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے ۔ واضح رہے کہ امریکیوں نے پاکستان اور افغانستان میں جو صوفی کانفرنس منعقد کرنا تھی افغانستان میں اس کا انتظام رنگین دادفر سپانتا جبکہ پاکستان میں اسےشاہ محمود قریشی نے کرنا تھا ۔ ہیلری کلنٹن سے شاہ محمودقریشی کی قربت اور امریکی ا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں اپنے بیٹے کو تربیت دلوانے کے عمل کو پیش نظر رکھا جائے تو کڑیاں مزید مل جاتی ہیں

٭ امریکہ نے پہلی بار پاکستان میں لبرل اور صوفی اسلام کو فروغ دینے کے عمل کا آغاز جنرل پرویز مشرف کی سرکردگی میں کیا تھا ۔ تب سے اب تک صوفی کانگریس کے سرپرست چوہدری شجاعت حسین ہیں ۔ اب یہ عجیب تقسیم نظر آتی ہے کہ ڈاکٹر قادری صاحب کے ایک طرف یہی چوہدری شجاعت حسین دوسری طرف پرویز مشرف کے وکیل قصوری نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح عمران خان کو بھی جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے پرویز مشرف کے سابق ساتھیوں کے نرغے میں دے دیا گیا ہے ۔ پرویز مشرف کے دور کے ریٹائرڈ افسران کو بھی بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ دونوں کیمپوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ۔ کورٹ مارشل ہونے والے گنڈا پور یا پھر ائرمارشل (ر) شاہد لطیف جیسے طاہرالقادری کے ساتھ لگا دئیے گئے ہیں جبکہ بریگیڈئر (ر) اعجاز شاہ اور بریگیڈئر (ر) اسلم گھمن جیسے لوگ عمران خان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے وزیر خاص شیخ رشید احمد کو عمران خان صاحب اپنا ملازم رکھنے پر بھی راضی نہ تھے لیکن آج نہ صرف وہ ان کے مشیر خاص بن گئے ہیں بلکہ تحریک انصاف کاا سٹیج پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی بجائے ان کو میّسر رہتا ہے

٭ اس وقت اسلام آباد میں درجنوں کی تعداد میں برطانیہ ۔ کینیڈا اور امریکہ سے آئے ہوئے خواتین و حضرات مقیم ہیں ۔ ان میں سے بعض تو کبھی کبھار دھرنوں کے کنٹینروں پر نظر آجاتے ہیں لیکن اکثریت ان میں ایسی ہے جو مختلف گیسٹ ہائوسز یا ہوٹلوں میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے رہنمائوں کے ساتھ خلوتوں میں سرگوشیاں کرتی نظر آتی ہے

٭ وہ لبرل اور سیکولر اینکرز اور دانشور جو پچھلے سالوں میں عمران خان کو طالبان خان کہتے تھے اور جن کی شامیں عموماً مغربی سفارتخانوں میں مشروب مغرب سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گزرتی ہیں اس وقت نہ صرف عمران خان کے حق میں بھرپور مہم چلا رہے ہیں بلکہ مدرسے اور منبر سے اٹھنے والے علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو مسیحا کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔ یہ لوگ جماعت اسلامی ۔ جے یو آئی ۔ جے یو پی اور اسی طرح کی دیگر جماعتوں کے تو اس بنیاد پر مخالف تھے اور ہیں کہ وہ سیاست میں اسلام کا نام کیوں لیتے ہیں لیکن اپنی ذات اور سیاست کے لئے بھرپور طریقے سے اسلام کے نام کو استعمال کرنے والے طاہرالقادری ان کے پیارے بن گئے ہیں جبکہ گزشتہ سات سالوں میں اپنی سیاست کو طالبان کی حمایت اور ڈرون حملوں کی مخالفت کی بنیاد پر چمکانے والے عمران خان ان کو اچھے نظرآتے ہیں ۔ عمران خان کی طرف سے ڈرون حملوں کی مخالفت اور طالبان کی حمایت اچانک اور مکمل طور پر ترک کردینے اور لبرل اینکرز اور دانشوروں کی طرف سے اچانک ان کے حامی بن جانے کے بعد شاید اس بات کو سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہیئے کہ ڈوریں مغرب سے ہل رہی ہیں ۔

٭ ہم جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم ایک لمبے عرصے تک عمران خان کی نشانہ نمبر ون تھی ۔ انہوں نے اپنی جماعت کی خاتون لیڈر کے قتل کاالزام الطاف حسین پر لگایا۔ ان کے خلاف وہ برطانیہ کی عدالتوں تک بھی گئے ۔ سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کی صلح اس وقت پر کس نے اور کیوں کرائی ۔ دوسری طرف میاں نوازشریف قادری صاحب کے دشمن نمبر ون ہیں لیکن جب وہ لاہور میں جہاز سے اتر رہے تھے تو انہوں نے پورے پاکستان میں صرف اور صرف میاں نوازشریف کے چہیتے گورنر پنجاب چوہدری سرور کو اپنے اعتماد کا مستحق سمجھا (اگرچہ گورنر چوہدری سرور اس طرح کی سازش میں شمولیت کے حوالے سے بڑی پرجوش تردید کرچکے ہیں)۔ اب چوہدری سرور میں اس کے سوا اور کیا خوبی ہے کہ وہ برطانوی سیٹیزن ہیں اور وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہیں۔ نہ صرف منصوبہ بندی لندن میں ہوئی تھی بلکہ اب تنازعے کو ختم کرنے کے لئے چوہدری سرور اسلام آباد آنے کی بجائے الطاف حسین کے پاس لندن جاپہنچے ہیں

ماخذ ۔ جرگہ

شیطانی چرخہ اور اس کا سبب

جب 1964ء میں پاکستان میں پہلا ٹی وی چینل (پی ٹی وی) لاہور میں شروع ہوا تو چند عُلماء کے اسے شیطانی چرخہ کہنے پر روشن خیال لوگوں نے شور برپا کر دیا اور عُلماء کو جاہل ۔ ترقی کے دُشمن ۔ مُلک کے دُشمن اور جو کچھ اُن کے منہ میں آیا قرار دے دیا تھا ۔ آج میں اُس دور کا سوچتا ہوں تو کہنے پر مجبور ہو جاتا ہوں کے وہ عُلماء کتنے بارِیک بِین اور دُور اندَیش تھے کہ بالکل درست بات کہی تھی

آرمی چیف نے وزیرِ اعظم سے ملاقات کی ۔ ملاقات کے بعد ترجمان وزیر اعظم ہاؤس نے بتایا کی سکیورٹی اور موجودہ حالات پر بات ہوئی ۔ رات کو طاہر القادری نے اپنے ساتھیوں کو خوشخبری سُنائی کہ ”حکومت کے کہنے پر فوج نے ثالث اور ضامن بننا قبول کر لیا ہے ۔ مجھے آرمی چیف نے بُلایا “۔ اس کے بعد عمران خان بھی اسی پٹڑی پر چڑھ دوڑا ۔ میڈیا شاید بریکنگ نیوز کے چارے کو ترس رہا تھا۔ تمام ٹی وی چینلز پر کہرام مچ گیا اور اس حوالے سے نواز شریف اور اُس کی حکومت کو ہارا ہوا کھلاڑی ثابت کرنے میں ایک نے دوسرے پر بازی لے جانے کی کوششیں شروع کر دیں ۔ اگلا سارا دن اسی میں گذر گیا

بات قومی اسمبلی تک پہنچی جہاں اپوزیشن لیڈر نے ناراضگی کے ساتھ ساتھ جمہوریت اور آئین کے خلاف ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے اور وزیر اعظم کی مکمل حمائت کا اعلان کیا ۔ میڈیا نے تھوڑا سا بیان بدلا اور کہنا شروع کر دیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ حکومت نے آرمی چیف کو مصالحت کا کہا ہے ۔ طاہر القادری نے اپنا دستور جاری رکھتے ہوئے اور اور تقریر کر ڈالی کہ ”نواز شریف حکومت کا اخلاقی جواز ہی باقی نہیں رہا ۔ اب تو فوج نے نواز شریف کا جھوٹ کا پول کھول دیا“۔

وزیرِ داخلہ کا قومی اسمبلی میں بیان قارئین نے ٹی وی سے سُن لیا ہو گا یا اخبار میں پڑھ لیا ہو گا ۔ ذرا دیکھیئے کہ حقیقت کیا ہے ۔ ڈی جی ایس پی آر نے صرف ٹویٹر پر یہ لکھا
Tweet ISPR
ترجمہ ۔ آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم سے گزشتہ روز وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات کے دوران آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے موجودہ بحران کے حل کے لئے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کا کہا

According to Merriam Webster dictionary, “facilitate”, means to make (something) easier, to help cause (something), to help (something) run more smoothly and effectively

اُردو ترجمہ facilitate کا ۔ سہولت پیدا کرنا ۔ آسان بنانا ۔ معاملہ حل کرنے میں مدد کرنا ۔ آسان یا مؤثر بنانے میں مدد کرنا
اس کا مطلب کسی طرح بھی ثالثی (moderatorship) یا مصالحت (mediatorship) یا ضمانتی (Sponsor, Surety) نہیں بنتا
It neither means “rapprochement” or “reconcilement”. Nor it means “moderatorship”, “mediatorship”, Sponsor, Surety
طاہر القادری اور عمران خان نے لفظ ”ثالث“ اور “ضامن“ کا بار بار استعمال کیا اور میڈیا ان کے بیانات کو مسلسل اُچھالتا رہا ۔ ٹی وی چینلز میں غلط خبریں دینے اور اشتعال انگیزی میں اے آر وائی سب سے آگے رہا اور اے آر وائی میں بھی لُقمان مبشّر نے جیسے قسم کھا رکھی ہے کہ اس مُلک پاکستان میں تباہی پھیلانا ہے ۔ جب عمران اور طاہر القادری کے حُکم پر اُن کے پیروکار پارلیمنٹ اور وزیرِ اعظم ہاؤس کی طرف بڑھے اور پولیس پر لاٹھیاں اور غلیلوں کے ساتھ شیشے کی گولیوں اور شیشے کے ٹکڑوں کی بارش کر دی تو بجائے درست صورتِ حال بتانے کے اے آر وائی سے 100 فیصد جھوٹ پھیلایا گیا کہ مظاہرین میں سے ایک عورت سمیت 7 آدمی ہلاک ہو گئے ہیں ۔ اس خبر کے سُنتے ہی جو مظاہریں پہلے تشدد پر نہیں اُترے تھے وہ بھی تشدد پر اُتر آئے

درحقیقت موجودہ بحران میڈیا ہی کا پیدا کردہ ہے اور میڈیا ہی اسے بد سے بدتر کی طرف لے جانے میں کوشاں ہے ۔ لیکن میڈیا کاروباری ادارہ ہے اور کوئی کام بغیر منافع کے نہیں کرتا جس میں جائز منافع ہوتا ہے اور ناجائز بھی ۔ زیادہ معاوضہ ناجائز کاموں میں ملتا ہے
دیکھنا یہ چاہیئے کہ منافع کے پیچھے کون ہے ؟

موجودہ صورتِ حال میں طاہر القادری اور عمران خان سامنے نظر آتے ہیں لیکن عام طور پر سامنے نظر آنے والا یا والے کسی اور کے ہاتھ میں کھیل رہے ہوتے ہیں یعنی کسی اور کے روبوٹ بنے ہوتے ہیں جس کا ثبوت یہ بھی ہے کہ جب مذاکرات کامیاب ہو چکے تھے ۔ معاہدہ لکھ کر دستخط ہونا تھے تو تحریکِ انصاف کی کور کمیٹی کے فیصلہ سے متفق ہونے کے بعد کہ آگے نہیں بڑھا جائے گا اچانک عمران خان نے آگے بڑھنے کا حُکم دے دیا

اے اہلِ وطن ۔ کبھی سوچا آپ نے ؟

Flag-1یہ وطن پاکستان اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ کا عطا کردہ ایک بے مثال تحفہ بلکہ نعمت ہے
پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں
دنیا کی بلند ترین چوٹیاں
بلند ہر وقت برف پوش رہنے والے پہاڑ ۔ سرسبز پہاڑ اور چٹیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفع ۔ سرسبز میدان اور صحرا
چشموں سے نکلنے والی چھوٹی ندیوں سے لے کر بڑے دریا اور سمندر تک
ہر قسم کے لذیز پھل جن میں آم عمدگی اور لذت میں لاثانی ہے ۔ بہترین سبزیاں اور اناج جس میں باسمتی چاول عمدگی اور معیار میں لاثانی ہے ۔ پاکستان کی کپاس مصر کے بعد دنیا کی بہترین کپاس ہے

پاکستان میں بننے والا کپڑا دنیا کے بہترین معیار کا مقابلہ کرتا ہے
میرے وطن پاکستان کے بچے اور نوجوان دنیا میں اپنی تعلیمی قابلیت اور ذہانت کا سکّہ جما چکے ہیں
پاکستان کے انجنیئر اور ڈاکٹر اپنی قابلیت کا سکہ منوا چکے ہیں
سِوِل انجنیئرنگ میں جرمنی اور کینیڈا سب سے آگے تھے ۔ 1961ء میں پاکستان کے انجنیئروں نے پری سٹرَیسڈ پوسٹ ٹَینشنِنگ ری اِنفَورسڈ کنکرِیٹ بِیمز (Pre-stressed Post-tensioning Re-inforced Concrete Beams) کے استعمال سے مری روڈ کا نالہ لئی پر پُل بنا کر دنیا میں اپنی قابلیت ۔ ذہانت اور محنت کا سکہ منوا لیا تھا ۔ اس پُل کو بنتا دیکھنے کیلئے جرمنی ۔ کینیڈا اور کچھ دوسرے ممالک کے ماہرین آئے اور تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے ۔ یہ دنیا میں ایسا پہلا تجربہ تھا ۔ یہ پُل خود اپنے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ پچھلے 53 سال میں اس پر ٹریفک زیادہ وزنی اور بہت زیادہ ہو چکی ہے لیکن اس پُل پر بنی سڑک میں بھی کبھی ہلکی سی دراڑ نہیں آئی

عصرِ حاضر میں یہ روائت بن گئی ہے کہ شاید اپنے آپ کو اُونچا دکھانے کیلئے اپنے وطن پاکستان کو نِیچا دکھایا جائے ۔ یہ فقرے عام سُننے میں آتے ہیں ”کیا ہے اس مُلک میں“۔ ”کیا رکھا ہے اس مُلک میں“۔
میں یورپ ۔ امریکہ ۔ افریقہ اور شرق الاوسط (مشرقِ وسطہ) سمیت درجن سے زیادہ ممالک میں رہا ہوں اور ان میں رہائش کے دوران اُن ممالک کے باشندوں سے بھی رابطہ رہا جہاں میں نہیں گیا مثال کے طور پر بھارت ۔ چین ۔ جاپان ۔ ملیشیا ۔ انڈونیشیا ۔ روس ۔ چیکو سلوواکیہ ۔ بلغاریہ ۔ اٹلی ۔ ہسپانیہ ۔ ایران ۔ مصر ۔ تیونس ۔ سوڈان ۔ وغیرہ ۔ اُنہوں نے ہمیشہ اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کی تعریف کی

بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مُلک کے اندر ہی نہیں مُلک کے باہر بھی صرف میرے کچھ ہموطن اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کو بُرا کہتے ہیں ۔ وہ بھی صرف آپس میں نہیں بلکہ غیر مُلکیوں کے سامنے

حقیقت یہ ہے کہ اس مُلک پاکستان نے ہمیں ایک شناخت بخشی ہے ۔ اس سے مطالبات کرنے کی بجائے ہم نے اس مُلک کو بنانا ہے اور ترقی دینا ہے جس کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے ۔ آیئے آج یہ عہد کریں کہ ہم اپنے اس وطن کو اپنی محنت سے ترقی دیں گے اور اس کی حفاظت کیلئے تن من دھن کی بازی لگا دیں گے
اللہ کا فرمان اٹل ہے
سورت ۔ 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39

وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی

(اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)
سورت ۔ 13 ۔ الرعد ۔ آیت ۔ 11

إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ

( اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے)

دیکھتا رہ جاتا ہوں

Flag-1زمانہ چلے ایک سے ایک نئی چال
میں دیکھتا رہ جاتا ہوں

پاکستان بننے کے بعد گذرے 20 سال پھر دوسرے اور پھر تیسرے 20 سال
ہو چکے شروع میرے چوتھے 20 سال
بدلتے زمانے کے رنگ
میں دیکھتا رہ جاتا ہوں

پہلے اور دوسرے 20 سالوں میں کوئی شخص مل جاتا کبھی کبھار
جو اکیلے سڑک پر چلتے بولتا اور ہسنتا کبھی کبھار
لوگ کہتے کہ یہ ہے دماغی بیمار
پھر زمانہ ترقی کی سیڑھیاں چڑھنے کی بجائے چڑھ گیا لفٹ سے سب منزلیں ایک ہی بار
نظر آنے لگے اکیلے ہی بولتے اور ہنستے کئی لوگ ہر بازار
کسی نے نہ کہا اُن کو ذہنی بیمار
میں دیکھتا رہ جاتا ہوں

پہلے 20 سالوں میں لوگ بات کرنے سے قبل سوچتے کئی بار
دوسرے 20 سالوں میں سوچ ہوئی کم اور کھُلنے لگے افواہوں کے بازار
یارو ۔ اب یہ کیسا زمانہ ہے آیا ؟
اپنے کو دیانتدار کہلوانے کیلئے کہتے ہیں سب کو دھوکے باز اور مکّار
میں دیکھتا رہ جاتا ہوں

کوئی دین کا لبادہ اَوڑھ کر ۔ قرآن و حدیث کے غلط حوالوں سے
بناتا ہے اپنے گرد مرد و زن کا حصار
انگریزی میں امن کا داعی بن کر اُردو میں دیتا ہے
اپنے مریدوں کو گھر بیٹھوں پہ ھدائتِ یلغار
میں دیکھتا رہ جاتا ہوں

میری عاجزانہ دعا ہے پیدا کرنے والے سے
یہ ملک تیرا ہی دیا تحفہ ہے اسے بچانے کیلئے
یا رب ۔ بنا دے ان فتنوں کے سامنے اِک حصار
ان حالات میں اے قادر و کریم و رحمٰن و رحیم
صرف تیری طرف ۔ میں دیکھتا رہ جاتا ہوں