Category Archives: تاریخ

اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں

بنيادی طور پر ہند و پاکستان کی آزادی کا جو منصوبہ تھا اُس میں صوبوں کی بنياد پر تقسيم ہونا تھی مگر ہندو رہنماؤں کی ايماء پر صوبوں کی بجائے ضلعوں کی بنياد پر تقسيم کا فيصلہ کر ديا گيا اس طرح دو صوبے بنگال اور پنجاب کو تقسيم کر ديا گيا ۔ ہندو رہنماؤں نے کمال مکاری کرتے ہوئے لارڈ مؤنٹ بيٹن کو بننے والے بھارت کا پہلا گورنر جنرل مان ليا ۔ پھر جواہر لال نہرو کی ليڈی مؤنٹ بيٹن سے دوستی رنگ لائی اور حکومتِ برطانيہ کے منظور شدہ فيصلہ کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے ریڈکلف اور ماؤنٹ بیٹن نے خفيہ طور پر بھاری مسلم اکثريت والے ضلع گورداسپور کو تقسيم کر ديا اور جس کا اعلان پاکستان بننے کے چند دن بعد کيا گيا

بھارت کو جموں کشمیر سے ملانے والی واحد سڑک ضلع گورداس پور کے قصبہ پٹھانکوٹ سے جموں کے ضلع کٹھوعہ میں داخل ہوتی تھی جسے بھارت ميں شامل کر کے بھارت کو جموں کشمير جانے کا راستہ مہياء کر ديا گيا تھا ۔ پھر جب 24 اکتوبر 1947ء سے جموں کشمير کی آزادی کی جنگ لڑنے والے جموں کشمير کے باشندے جنوری 1948ء ميں ضلع جموں ميں اکھنور کے قريب پہنچ گئے تو بھارت نے خطرہ کو بھانپ لیا کہ مجاہدین نے اگر مزيد آگے بڑھ کر کٹھوعہ پر قبضہ کر لیا تو بھارت کے لاکھوں فوجی جو 27 اکتوبر 1947ء کو جموں کشمیر میں زبردستی داخل ہو گئےتھے محصور ہو جائیں گے ۔ چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو فوراِ امريکا پہنے اور اقوام متحدہ سے رحم کی بھیک مانگی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا ۔ پنڈت نہرو نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ امن قائم ہوتے ہی اقوامِ متحدہ کے زيرِ اہتمام عام رائے شماری کرائی جائے گی اور جو فیصلہ جموں کشمير کے عوام کریں گے اس پر عمل کیا جائے گا اور اس بناء پر فوری جنگ بندی کی درخواست کی ۔ اس معاملہ میں پاکستان کی رائے پوچھی گئی ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہیں تھے مگر وزیرِ خارجہ سر ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوری 1948ء میں جنگ بندی کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور کی کہ اس کے بعد جلد حالات بہتر کر کے رائے شماری کرائی جائے گی اور عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان یا بھارت سے ریاست کا الحاق کیا جائے گا ۔ پھر یکے بعد دیگرے کئی قرار دادیں اس سلسلہ میں منظور کی گئیں ۔ مجاہدین جموں کشمیر نے پاکستان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی ۔ بعد میں نہ تو بھارت نے یہ وعدہ پورا کیا نہ اقوام متحدہ کی اصل طاقتوں نے اس قرارداد پر عمل کرانے کی کوشش کی

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل اور اقوامِ متحدہ کے کميشن کی قرارداديں جو چيخ چيخ کر دنيا سے انصاف کا تقاضہ کر رہيں ہيں مندرجہ ذيل ہيں ۔ متعلقہ قرارداد اس پر کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل کی قرارداد 21 اپريل 1948ء

اقوامِ متحدہ کے کميشن کی قرارداد 13 اگست 1948ء

اقوامِ متحدہ کے کميشن کی قرارداد 5 جنوری 1949ء

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل کی قرارداد 14 مارچ 1950ء

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل کی قرارداد 30 مارچ 1951ء

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل کی قرارداد 24 جنوری 1957ء

اقوامِ متحدہ کی سکيوريٹی کونسل کی قرارداد 20 ستمبر 1965ء

ایٹم بم بنانے کا بنیادی کام کس نے کیا ؟

تعلیم یافتہ لوگوں نے تو انشقاق یا انفجار [Fission] کا نام سنا ہو گا اور کچھ ایٹمی ہتھیار بنانے میں اس عمل کی اہمیت سے واقف ہوں گے لیکن عوام اس کی تاریخ یا اہمیت سے زیادہ واقف نہیں

1932ء میں انگریز سائنسدان جیمز چیڈوِک [James Chadwick] نے ایٹم کے قلب [Nucleus] میں ایک نیوٹرل یعنی غیر برقی چارج والا ذرّہ [Neutron] دریافت کیا تھا یہ پہلے سے وہاں مثبت چارج والے ذرّہ پروٹون [Proton] کے علاوہ تھا۔اس ذرّہ کی موجودگی کی پیشگوئی دوسرے انگریز سائنسدان رَدرَفورڈ [Rutherford] نے 1920ء میں کر دی تھی لیکن اسی رَدرَفورڈ نے ایٹمی قوت کے سول مقاصد کے استعمال کے نظریہ کو احمقانہ خیال قرار دیا تھا

اس دریافت کے بعد یورپ و امریکہ میں سائنسدانوں نے مختلف اقسام کے ایٹموں پر نیوٹران مارنے اور اس کے اثرات کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا

اٹلی کے مشہور نوبل انعام یافتہ فرمی[Fermi]نے یورینیم کے ایٹم پر جب نیوٹران مارے تو معلوم ہوا کہ کئی دوسرے اقسام کے ایٹم [دھات] بن جاتے ہیں اس نے غلطی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یورینیم خود سے زیادہ بھاری دھات میں تبدیل ہو گیا ہے لیکن اسی وقت برلن میں اْوٹوہان [Otto Hahn]جس کو 1944ء میں نوبل انعام ملا تھا اور اس کے ساتھی شٹراسمن [Strassmann]نے نہایت جامع اور صحیح کیمیائی طریقے سے معلوم کیا کہ بیریم [Barium] دھات بن گئی تھی اور فرانس میں ایرینے جولیو کیوری [Irene Joliot-Curie] نے ایسے ہی تجربہ میں لنتھالم [Lanthalum] دھات دریافت کی

اسی دوران اْوٹوہان کی پرانی طویل رفیقہءِ کار لیزے مائٹنر [Lize Meitner] اور اس کا بھانجا اْوٹو فِرِش [Otto Frisch] ہٹلر کی یہود نسل کشی پالیسی سے ڈر کرسوئیڈن اور ڈنمارک بھاگ گئے تھے

اْوٹوہان نے اپنے تجربوں کے نتائج سے لیزے مائٹنر کو آگاہ کیا ۔ چند دن بعد ہی کرسمس کی تعطیل میں اْوٹوفِرِش اپنی خالہ کے پاس گیا تو دونوں نے ان نتائج پر غور شروع کر دیا اور فوراً اس اہم نتیجے پر پہنچے کہ نیوٹران کے ٹکراؤ سے یورینیم کا قلب تقریباً دو برابر ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا تھا [جو مختلف دھاتیں تھیں] اور ان کا مجموعی وزن یورینیم کے قلب کے اصل وزن سے 20 فیصد کم تھا دونوں نے نہایت اہم نتیجہ اخذ کیا کہ یہ غائب شدہ وزن قوت یعنی انرجی میں تبدیل ہو گیا تھا جو بہت زیادہ تھی ۔ لیزے مائٹنر نے یہ بھی فوراً حساب لگا کر معلوم کر لیا کہ یہ تقریباً دو سو ملین الیکٹران وولٹ [Mev 200]کے برابر ہوتی ہے

بس یوں سمجھ لیں کہ یہیں سے ایٹمی دور شروع ہوا تھا۔ اْوٹوہان اور شٹراسمن کے تجربے اور نتائج سے واقف ہو کر ایک اور مشہور جرمن خاتون سائنسدان ایڈانوڈک[Ida Noddak] نے فوراً یہ تشریح پیش کی کہ ہان اور شٹراسمن نے غالباً یورینیم کے قلب کو نیوٹران سے دولخت کر دیا ہے یہ 1934ء کی بات ہے

جرمنوں کی بدقسمتی اور مغربی ممالک کی خوش قسمتی تھی کہ ہان اور شٹراسمن اور دوسرے جرمنوں نے اس صحیح تشخیص پر دھیان نہیں دیا اگر وہ اس کو سمجھ کر کام شروع کرتے تو دوسری جنگ عظیم سے پہلے یا اس کے شروع ہونے تک جرمن سائنسدان ہائزین برگ [Heisinberg] اور اس کے ساتھی ایٹم بم بنا لیتے

یہاں یہ بات زيرِنظر رہے کہ اْوٹو فِرِش نے ایٹم کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کو انشقاق [Fission] کا نام دیا تھا انہوں نے یہ تشبیہ بیالوجی میں ایک سیل [Cell] کے دو حصوں میں بٹ جانے سے مستعار لی تھی۔ اوٹو فِرِش نے امریکہ میں ایٹم بم کی تیاری میں نمایاں کردار ادا کیا اور بعد میں انگلینڈ میں پروفیسر کے فرائض انجام دیئے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسی اوٹو فِرِش اور ایک اور جرمن مہاجر سائنسدان پروفیسر روڈولف پائیرلس[Rudolf Peierls] نے حساب لگا کر سب سے پہلے ایٹم بم کی تیاری کے امکان پر ایک رپورٹ حکومت برطانیہ کو کوڈ نام [Maud Report] سے پیش کی تھی جس کے بعد ہی حکومت نے سنجیدگی سے اس اہم کام پر کام شروع کر دیا تھا۔

اوٹوفِرِش 1933ء میں بذریعہ ٹرین برلن سے ماسکو جا رہے تھے جہاں انہیں ایک کانفرنس میں شرکت کرنا تھی ۔ اسی ڈبہ میں ہومی بھا بھا جو بعد میں انڈین اٹامک کمیشن کے چیئرمین بنے، بھی بیٹھے تھے ۔ راستے میں جان پہچان ہو گئی اور انہوں نے ماسکو میں ایک ہی ہوٹل میں قیام کیا۔ ایک روز بھا بھا نے اوٹو فِرِش کو بتلایا کہ وہ واپس لندن جا کر ہندوستان روانہ ہو جائے گا جہاں وہ ٹاٹا ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا سربراہ بنے گا، ساتھ ہی اس نے پوچھا کہ کیا فِرِش

اس کو گائگر کاؤنٹر [Geiger Counter] استعمال کرنا سکھا سکتا ہے ؟ فِرِش کے تعجب کی انتہا نہ رہی کہ کیمبرج یونیورسٹی سے فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری والا

ایک چھوٹا سا آلہ استعمال کرنا نہیں جانتا ۔ یہ آلہ تابکار شعاعوں [Radioactivity] یا ذرات کی موجودگی کا پتہ دیتا ہے اور کوٹ کی جیب میں رکھا جا سکتا ہے۔

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ محکمانہ انصاف

روائت ہے کہ دوسری جنگ عظيم ميں برطانيہ فاتح تو رہا مگر مُلکی معيشت کا ديواليہ نکل گيا تھا ۔ چند فکر رکھنے والے لوگوں نے وقت کے وزيرِ اعظم کے پاس جا کر اپنی تشويش ظاہر کی

وزيرِ اعظم نے پوچھا “سرکاری محکمے انصاف کر رہے ہيں ؟”
وہ بولے “ايسا ہو رہا ہے”
پھر وزيرِ اعظم نے پوچھا “لوگ سمجھتے ہيں کہ انصاف مل رہا ہے ؟”
وہ بولے ” جی ۔ بالکل”
وزيرِ اعظم نے کہا ” پھر کوئی فکر کی بات نہيں سب ٹھيک ہو جائے گا”

تاريخ گواہ کہ سب ٹھيک ہو گيا ۔ يہ کرامت ہے جمہوريت کی ۔ ہمارے ملک ميں بھی سُنا ہے کہ جمہوريت ہے ۔ ميں نے تو بہت تلاش کی مگر وہ شايد مجھ سے پردہ کرتی ہے اسلئے نظر نہيں آئی ۔ ليکن ميں بات کروں کا “اصلی تے وڈی” جمہوريت کی جس کا نام عوامی جمہوريت تھا اور جس کی عظمت کے نعرے آج بھی لگائے جاتے ہيں

خود ساختہ قائدِ عوام نے1973ء ميں انتظامی اصلاحات [Admnistrative Reforms] کے نام پر سرکاری ملازمين کيلئے نئے قوانين نافذ کئے ۔ نعرہ لگايا گيا تھا کہ” ڈکٹيٹروں نے 4 کلاسز [Classes] بنا رکھی ہيں ۔ ميں سب کو ايک کلاس کر دوں گا اور پھر چپڑاسی بھی فيڈرل سيکريٹری بن سکے گا”۔ مگر 4 کی بجائے 23 کلاسز بنا دی گئيں ۔ چپڑاسی تو کيا فيڈرل سيکريٹری بنتا ۔ ڈپٹی سيکريٹری کيلئے بھی فيڈرل سکريٹری بننا مشکل بنا ديا گيا ۔ البتہ بادشاہ سلامت جب چاہتے جسے چاہتے چپڑاسی کی کرسی سے اُٹھا کر فيڈرل سيکريٹری بنا ديتے اور جو فيڈرل سيکٹری حکم عدولی کرتا اسے ايسا ہٹاتے کہ نہ پنشن نہ گريچوئيٹی ملتی ۔ چنانچہ ايک ايسے ہی فيڈرل سيکريٹری نے بھوک ننگ سے تنگ آ کر اپنے بيوی بچوں کو ہلاک کرنے کے بعد خود کُشی کر لی ۔ يہ تو بڑی بڑی باتيں ہيں ۔ انتظامی اصلاحات نافذ ہونے والے بے شمار واقعات ميں سے ميں اُس ادارے کے اعلٰی انصاف کے صرف 3 واقعاتِ سپردِ قلم کر رہا ہوں کہ ميں جس ميں ملازم تھا ۔ ان ميں سے تيسرا واقعہ سب سے بُلند ہے

پہلا واقعہ ۔ سعودی عرب کے ايک اعلٰی عہديدار 1970ء کی دہائی کے اوائل ميں گريڈ 18 کے کچھ انجنير ہمارے ادارے سے لينے کيلئے آئے ۔ اُنہيں انٹرويو نہ کرنے ديا گيا اور کچھ گريڈ 19 اور ايک گريڈ 17 کا انجينئر دے ديا گيا ۔ ان ميں سے ہر ايک نے ملازمت کے ذاتی کنٹريکٹ پر دستخط کئے اور تين تين سال کی بغير تنخواہ چھٹی لے کر چلے گئے جس کی بعد ميں ناجانے کس قانون کے تحت 9 سال تک روسيع ہو گئی ۔ سعودی عرب ميں يہ لوگ سعودی انٹظاميہ کے ماتحت تھے اور سعودی عرب سے ہی براہِ راست تنخواہ ليتے تھے ۔ اس کے باوجود گريڈ 17 والے انجنيئر وہيں بيٹھے گريڈ 18 اور پھر گريڈ 19 ميں ترقی پا گئے اور 9 سال بعد واپس آنے پر انہيں گريڈ 20 پر ترقی دے دی گئی ۔ قانون يہ ہے کہ جو شخص ملک سے باہر ہو اس کی ترقی واپس آنے پر ہو گی

دوسرا واقعہ ۔ 4 انجنيئروں کو 1976ء ميں لبيا بھيجا گيا جن ميں ايک گريڈ 17 کا اور باقی 3 گريڈ 18 کے تھے ۔ انہيں تنخواہ پاکستان کا سفارتخانہ ديتا تھا جس ميں سے جی پی فنڈ ۔ پنشن کنٹری بيوشن اور سروس چارجز کاٹ لئے جاتے تھے ۔ يہ لوگ انتظامی لحاظ سے پاکستان ميں اپنے ادارے کے ماتحت تھے جو سفارتخانے کی معرفت انہيں احکامات بھيجتا تھا ۔ ان ميں جو انجيئر سب سے سينئر تھا اُسے يہ کہہ کرترقی نہ دی گئی کہ مُلک سے باہر ہے جب واپس آئے گا تو ديکھا جائے گا اور اس طرح 6 سال کے اندر 24 اس سے جونيئر انجيئروں کو ترقی دے دی گئی ۔ بايں ہمہ جو انجيئر گريڈ 17 ميں تھا اسے لبيا ميں بيٹھے بٹھائے پہلے گريڈ 18 اور پھر گريڈ 19 ميں ترقی دے دی گئی اور وہ اپنی ٹيم کے سب سے سينئر سے سينئر ہو گيا

تيسرا واقعہ اور بھی نرالا ہے ۔ ايک گريڈ 16 کے افسر چھٹی لے کر گئے اور واپس نہ آئے ۔ کئی سال اُن کو بُلايا جاتا رہا مگر کوئی جواب نہ آيا ۔ وہ ليبا چلے گئے ہوئے تھے اور وہاں کسی پرائيويٹ کمپنی کی ملازمت کر رہے تھے ۔ کيس چلتا رہا اور کوئی جواب نہ آنے پر اُنہيں مفرور [absconder] قرار دے ديا گيا [وزارتِ دفاع کا مفرور] ۔ مزيد چند سال گذر گئے تو اُن کی گريڈ 17 ميں ترقی کا نوٹی فيکيشن جاری ہو گيا جبکہ اُس وقت بھی وہ مفرور تھے

سُنا تھا کہ “جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے”۔ ہمارے مُلک ميں “انصاف وہ جو سر پھوڑ کے بولے”

گاندھی ۔ نہرو ۔ پٹيل اور جنرل گريسی

وسط اکتوبر 1947ء ميں موہن داس کرم چند گاندھی ۔ جواہر لال نہرو اور سردار ولبھ بھائی پٹیل کٹھوعہ کے راستے جموں پہنچے اور مہاراجہ ہری سنگھ پر مختلف طریقوں سے بھارت کے ساتھ الحاق کے لئے دباؤ ڈالا ۔ مسلمانوں کی طرف سے قرارداد الحاق پاکستان پہلے ہی مہاراجہ کے پاس پہنچ چکی تھی ۔ مہاراجہ ہری سنگھ نے مُہلت مانگی ۔ تین دن کے متواتر کوشش کے بعد کانگرسی لیڈر بھارت واپس چلے گئے اور عید الاضحے کے دوسرے دن یعنی 27 اکتوبر 1947ء کو بھارتی فوج سے لدھے ہوائی جہازوں نے بغير اطلاع اور اجازت کے جموں ایئر پورٹ پر دھڑا دھڑ اُترنا شروع کر دیا ۔ جلد ہی بھارتی فوج جموں میں پھیلنے کے علاوہ جموں کشمیر کی سرحدوں پر بھی پہنچ گئی ۔ بھارتی فوج میں زیادہ تعداد گورکھا اور نابھہ اور پٹیالہ کے فوجیوں کی تھی جو انتہائی ظالم اور بے رحم مشہور تھے ۔ بھارتی فوج کی پشت پناہی سے راشٹریہ سیوک سنگ ۔ بھارتیہ مہاسبھا اور سکھوں کی اکالی دل کے مسلح جتھے بھاری تعداد میں گورداسپور کے راستے پہلے ہی جموں پہنچنا شروع ہو چُکے تھے

پاکستان کے کمانڈر انچیف کی حکم عدولی

جب بھارت نے فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 27 اکتوبر 1947ء کو جموں کشمیر میں فوجیں داخل کر دیں تو قائداعظم نے پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل سر ڈگلس ڈيوڈ گریسی [Sir Douglas David Gracey] کو جموں کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حُکم دیا ۔ اس نے یہ کہہ کر حُکم عدولی کی کہ میرے پاس بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے سازوسامان نہیں ہے ۔ اگر وہ بھارت کے ساتھ ملا ہوا نہ ہوتا تو ايسا نہ کرتا اور بھارت جموں کشمير پر قبضہ نہ کر پاتا کيونکہ پاکستانی فوج کے جموں کشمير کے داخل ہونے کی خبر سنتے ہی پہلے سے جنگ آزادی لڑنے والے رياستی باشندوں کا ساتھ دينے کيلئے بڑی تعداد ميں رياستی باشندے اُٹھ کھڑے ہوتے

نظامِ حکومت

يہ تحرير ميں نے فروری 2010ء کے شروع ميں لکھی تھی مگر ميری غلطی کی وجہ سے کہيں اِدھر اُدھر ہو گئی اور شائع ہونے سے رہ گئی ۔ اس کی اہميت آج بھی اتنی ہے جتنی دس ماہ قبل تھی اسلئے شائع کر رہا ہوں

عدالتِ عظمٰی میں کچھ اعلٰی سرکاری ملازمین کی درخواست زیرِ سماعت تھی کہ اُنہیں نظرانداز کرتے ہوئے کچھ دوسرے حضرات کو فیڈرل سیکریٹری بنا دیا گیا ہے جو اُن سے جُونیئر تھے ۔ 2 جنوری 2010ء کو حکومت کی طرف سے جواب داخل کیا گیا جس میں دعوٰی کیا گیا تھا کہ اعلٰی عہدوں پر تقرری کا کُلی اختیار وزیرِ اعظم کے پاس ہے اور وزیرِ اعظم ہی نے ان لوگوں کا تقرر کیا ہے اسلئے اس کے خلاف چارہ جوئی نہیں ہو سکتی ۔ اس پر کچھ پڑھے لکھے حضرات [بلاگر نہیں] نے تعجب کا اظہار کیا تو صورتِ حال کو واضح کرنے کا خیال آیا

ہمارے مُلک میں زیادہ تر قوانین تو جیسا سب جانتے ہیں وہی چل رہے ہیں جو ہندوستان پر قابض انگریزوں نے بنائے تھے ۔ 1955ء میں سرکاری ملازمت کے قوانین بنائے گئے تھے جن کی چار اہم خصوصیات تھیں

1 ۔ پرِیویلج لِیو [privilege] کا مطلب اختیاری چھٹی نہیں بلکہ استحقاقی رُخصت ہے جس کا ملازم کو حق ہے اور سوائے غیرمعمولی حالات کے ملازم کو یہ چھٹی دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا
2 ۔ کسی عہدیدار کی سالانہ رپورٹ جس عہدیدار کے ماتحت وہ کام کر رہا ہے اُس کا اعلٰی عہدیدار لکھے گا تاکہ ذاتی چپقلش اور عناد کے اثر کو روکا جائے
3 ۔ سالانہ رپورٹ لکھتے ہوئے درجن بھر خصوصیات کی تشخیص لکھنا ہوتی تھی ۔ اگر کوئی کمی لکھی جائے تو اس کی وجوہات لکھنا ہوتی تھیں جن کی پڑتال کی جا سکتی تھی ۔ مرتبات صرف تین ہوتے تھے اوسط سے کم ۔ اوسط اور اوسط سے زیادہ ۔ اوسط عہدیدار کو بھی قابل اور ترقی کا اہل سمجھا جاتا تھا ۔ اِن قوانین کے دیباچہ میں لکھا تھا کہ عام آدمی اوسط ہوتے ہیں ۔ اوسط سے اُوپر اور نیچے صرف چند ہوتے ہیں ۔ اگر صلاحیت کے خانے میں ناقابل لکھ دیا جائے تو اُس کی مضبوط وجوہات لکھنا ہوتی تھیں
4 ۔ تمام عہدیداروں کی ترقی اس کی سینیاریٹی اور قابلیت [Seniority cum fitness] کی بنا پر ہوتی

ایک عوامی دور آیا جس میں سارا نظام بدلا گیا اور 1973ء میں انتظامی اصلاحات [Administrative Reforms] کے نام پر نئے قوانین بنائے گئے جن کے تحت مندرجہ بالا قوانین کی شکل کچھ یوں ہو گئی

1 ۔ چُھٹی صرف بڑے افسر کی مہربانی یا زور دار کا حق بن گیا ۔ استحقاق والی بات ختم ہو گئی
2 ۔ عہدیدار کی سالانہ رپورٹ جس عہدیدار کے ماتحت وہ کام کر رہا ہے اُسی کو لکھنے کا اختیار دے دیا گیا
3 ۔ سالانہ رپورٹ میں خصوصیات تو درجن سے زیادہ کر دی گئیں لیکن ترقی کیلئے صرف آخری خانہ جس میں ترقی کی اہلیت لکھنا ہوتی ہے حتمی قرار دیا گیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساری رپورٹ میں عہدیدار کا کام بہت عمدہ لکھ کر قابلیت کے خانہ میں ناقابل لکھ دیا جائے تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔ مرتبات تین سے بڑھا کر چھ کر دیئے گئے ۔ اوسط سے کم ۔ اوسط ۔ اوسط سے زیادہ ۔ اچھا ۔ بہت اچھا اور بے مثال ۔ چنانچہ جن کی سفارش جتنی بڑی ہوتی یا جو اپنے صاحب کی ذاتی خدمت سب سے زیادہ کرتا ہے اُسے اتنا اچھا لکھ دیا جاتا ہے ۔ باقیوں کو اوسط جس کا عِلم متعلقہ عہدیدار کو اُس وقت ہوتا ہے جب اس کی ترقی رُک جاتی ہے ۔ جس عہدیدار کو تین بار اوسط لکھ دیا جائے پھر چاہے وہ بہتر رپورٹیں لیتا رہے اُس کی ترقی اگلے دس سال میں ممکن نہیں ہوتی
4 ۔ فیڈرل سیکریٹری اور فیڈرل ایڈیشنل سیکریٹری اور ان کے متوازی عہدوں کو مکمل طور پر سربراہِ حکومت کے اختیار میں دے دیا گیا کہ جسے چاہے ان عہدوں پر بٹھا دے ۔ باقی عہدیداروں کی ترقی کیلئے بھی سینیاریٹی کو ثانوی حیثیت دے دی گئی
5 ۔ ایک بغلی داخلہ [lateral entry] کا قانون بھی بنایا جس کے تحت جسے حکمران چاہیں سڑک سے اُٹھا کر کسی بھی سرکاری عہدے پر بٹھا دیں

انتظامی اصلاحات 1973ء کی بدولت نااہليت اور اقرباء پروری نے روز افزوں ترقی کی اور اب يہ حال ہے کہ اکثر ذہین محنتی لوگ سرکاری ملازمت کرنا نہیں چاہتے

وہ بولاسب مرگئےاور بےہوش ہوگیا

نہرمیں خون

ہمارے ساتھ جموں چھاؤنی میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ رہا تھا ۔ ہم کل 5 لڑکے تھے ۔ سب سے بڑا 18 سال کا اور سب سے چھوٹے میں اور کرنل عبدالمجيد صاحب کا بيٹا 10 سال کے ۔ نلکے میں پانی بہت کم آتا تھا اس لئےجمعرات 6 نومبر 1947ء کو بعد دوپہر ہم لڑکے قریبی نہر پر نہانے گئے ۔ ہم نے دیکھا کہ نہر کے پانی میں خون اور خون کے لوتھڑے بہتے جا رہے ہیں ۔ ہم ڈر گئے اور اُلٹے پاؤں بھاگے ۔ ہمارے واپس پہنچنے کے کوئی ایک گھنٹہ بعد کسی نے بڑے زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ خاتون خانہ نے خواتین اور لڑکیوں کو اندر بھیج دیا پھر ایک ڈنڈا اُنہوں نے اٹھایا اور ہم لڑکوں نے اُن کی تقلید کی ۔ دوبارہ زور سے دستک ہوئی ۔ خاتون خانہ نے مجھے کُنڈی کھولنے کا اشارہ کیا ۔ جونہی میں نے کُنڈی کھولی ایک 6 فٹ کا نوجوان دروازے کو دھکا دیکر اندر داخل ہوا اور سب مر گئے کہہ کر اوندھے منہ گرا اور بیہوش ہو گیا ۔ سب ششدر رہ گئے ۔ اسے سیدھا کیا تو لڑکوں میں سے کوئی چیخا “بھائی جان ؟ کیا ہوا ؟” اُس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔ وہ ہوش میں آ کر پھر چیخا سب مر گئے اور دوبارہ بیہوش ہو گیا ۔ ہم سمجھ گئے کہ ہمارے عزیز و اقارب سب مار دیئے گئے ہیں سو سب زار و قطار رونے لگ گئے ۔ پھر اُسے اٹھا کر اندر لے گئے ۔ وہ لڑکا خاتون خانہ کے جیٹھ اور ہمارے ساتھی لڑکوں کے تایا کا بیٹا تھا

مسلمانوں کو پاکستان پہنچانے کے بہانے قتلِ عام

ہوش میں آنے پر اُس نوجوان نے بتایا کہ ہمارے جموں سے نکلنے کے بعد گولیاں چلتی رہیں اور جو کوئی بھی چھت پر گیا کم ہی سلامت واپس آیا ۔ جموں کے نواحی ہندو اکثریتی علاقوں سے زخمی اور بے خانماں مسلمان جموں پہنچ رہے تھے اور مسلمانوں کے ہندوؤں سکھوں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں بیہیمانہ قتل کی خبریں سنا رہے تھے ۔ جموں کے دو اطراف درجن سے زیادہ گاؤں جلتے رات کو نظر آتے تھے ۔

نیشنل کانفرنس کے کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کی طرف سے 4 نومبر 1947ء کو سارے شہر میں اعلان کیا گیا کہ جس نے پاکستان جانا ہے وہ پولیس لائنز پہنچ جائے وہاں بسیں پاکستان جانے کے لئے تیار کھڑی ہیں ۔ 24 اکتوبر 1947ء کو مسلمانوں کی طرف سے جنگ آزادی کے شروع ہونے کی خبر بھی پھیل چکی تھی ۔ مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ بندوبست مسلمان شہریوں کی حفاظت کے لئے ہے ۔ دوسرے مسلمانوں کے پاس راشن تقریبا ختم تھا ۔ سو جموں شہر کے مسلمان پولیس لائنز پہنچنا شروع ہو گئے ۔

بسوں کا پہلا قافلہ بُدھ 5 نومبر کو روانہ ہوا اور دوسرا 6 نومبر کو صبح سویرے ۔ وہ نوجوان اور اس کے گھر والے 6 نومبر کے قافلہ میں روانہ ہوئے ۔ جموں چھاؤنی سے آگے جنگل میں نہر کے قریب بسیں رُک گئیں وہاں دونوں طرف بھارتی فوجی بندوقیں اور مشین گنیں تانے کھڑے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد جے ہند اور ست سری اکال کے نعرے بلند ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں مسلحہ ہندوؤں اور سکھوں نے بسوں پر دھاوہ بول دیا ۔ جن مسلمانوں کو بسوں سے نکلنے کا موقع مل گیا وہ اِدھر اُدھر بھاگے ان میں سے کئی بھارتی فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بنے اور بہت کم زخمی یا صحیح حالت میں بچ نکلنے میں کامیاب ہو ئے ۔ وہ جوان اور اس کے گھر والے بس کے دروازے کے پاس بیٹھے تھے اس لئے بس سے جلدی نکل کر بھاگے کچھ نیزوں اور خنجروں کا نشانہ بنے اور کچھ گولیوں کا ۔ اس جوان نے نہر میں چھلانگ لگائی اور پانی کے نیچے تیرتا ہوا جتنی دور جا سکتا تھا گیا پھر باہر نکل کر بھاگ کھڑا ہوا ۔ کچھ دیر بعد اسے احساس ہوا کہ وہ جموں چھاؤنی سے دور بھا گ رہا تھا ۔ وہ اُلٹے پاؤں واپس بھاگنا شروع ہو گیا اور جس جگہ حملہ ہوا تھا وہاں پہنچ گیا ۔ حملہ آور جا چکے تھے ۔ اس نے اپنے گھر والوں کو ڈھونڈنا شروع کیا مرد عورت بوڑھوں سے لے کر شیرخوار بچوں تک سب کی ہزاروں لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں ۔ بسیں خون سے لت پت تھیں ان کے اندر بھی لاشیں تھیں ۔ اسے اپنے والدین کی خون آلود لاشیں ملیں ۔ اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا ۔ ہوش آیا تو اپنے باقی عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنے لگا اتنے میں دور سے نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور اس نے پھر بھاگنا شروع کر دیا ۔ نہر کے کنارے بھاگتا ہوا وہ ہمارے پاس پہنچ گیا ۔ ہم دو دن رات روتے رہے اور کچھ نہ کھایا پیا ۔ آخر تیسرے دن خاتون خانہ نے خالی چاول اُبالے ۔ ہم سب بچوں کو پیار کیا اور تھوڑے تھوڑے چاول کھانے کو دیئے

چھوٹی چھوٹی باتيں ۔ ياديں

انسان اپنی زندگی ميں بہت سے مشاہدات اور حادثات سے دوچار ہوتا ہے مگر يہ سب وقت کے ساتھ ذہن سے محو ہو جاتے ہيں ۔ ليکن ايسا بھی ہوتا ہے کہ اپنے ظہور کے وقت غير اہم محسوس ہونے والا کوئی واقعہ انسان کے لاشعور ميں نقش ہو جائے ۔ پھر ذہن کی ہارڈ ڈرائيو [Hard Drive] چاہے کريش [crash] ہو جائے يہ واقعہ ريم [RAM] ميں موجود ڈاٹا [data] کی طرح گاہے بگاہے مونيٹر [Monitor] کی سکرين [Screen] پر نمودار ہوتا رہتا ہے

آج جبکہ ميں عمر کی 7 دہائياں گذار چکا ہوں بچپن ميں سُنی ايک آواز ہے جو ميرے کانوں ميں گاہے بگاہے گونجتی رہتی ہے اور مجھے سينکڑوں ہمرکابوں اور درجنوں اتاليقوں کی ياد دلاتی رہتی ہے ۔ يہ چار بچوں کی آواز کے بعد سينکڑوں بچوں کی ہم سُر آواز ہے ۔ ميں ايسی صورت ميں موجودہ دنيا سے گُم ہو جاتا ہوں اور اُس دنيا ميں پہنچ جاتا ہوں جس ميں محبت اور ہمدردی چار سُو چھائے ہوئے تھے ۔ آج کی طرح ہر طرف خودغرضی بُغز اور نفرت نہيں تھی بلکہ ان کی معمولی جھلک بھی اُن دنوں پريشان کر ديتی تھی

اپريل 1950ء سے مارچ 1953ء تک ميں مسلم ہائی سکول نزد اصغر مال راولپنڈی ميں زيرِ تعليم تھا ۔ وہاں صبح پڑھائی شروع ہونے سے قبل ہم دعا پڑھتے تھے اس طرح کہ چار اچھی آواز والے لڑکے سارے سکول کے لڑکوں کے سامنے کھڑے ہوتے ۔ وہ بآوازِ بلند ايک مصرع پڑھتے ۔ ان کے بعد سکول کے تمام لڑکے پورے جوش سے ايک آواز ميں اسے دہراتے ۔ آج سکولوں کے بڑے بڑے اور غيرملکی نام ہيں ۔ عصرِ حاضر کے طالب علم سے اس دعا کا ذکر کيا جائے تو وہ مبہوت ہو کر تکنے لگتا ہے ۔ ہاں ان سے غير ملکی گانے سُنے جا سکتے ہيں

ميں سوچتا ہوں کہ شايد اسی دعا کی بدولت جو ہفتے ميں 6 دن ہم سکول ميں صبح سويرے مانگتے تھے ہم لوگوں کے دل ميں سے خودغرضی کُوچ کر جاتی تھی

شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا لازوال تحفہ

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا ميری ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی شمع کی صورت ہو خدايا ميری
دُور دنيا کا ميرے دم سے اندھيرا ہو جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر جگہ ميرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے

ہو ميرے دم سے يونہی ميرے وطن کی زينت۔ ۔ جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زينت
زندگی ہو ميری پروانے کی صورت يا رب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت يا رب

ہو ميرا کام غريبوں کی حمايت کرنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دردمندوں سے ضعيفوں سے محبت کرنا
ميرے اللہ! ہر برائی سے بچانا مجھ کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نيک جو راہ ہو اس راہ پہ چلانا مجھ کو