Category Archives: تاریخ

میری کہانی ۔ لالٹین اور جاتکو

جی نہیں ۔ یہ وہ کہانی نہیں ۔ نہ تو یہ جیو کہانی ہے اور نہ وہ جس کا گانا محمد رفیع نے 6 دہائیاں قبل گایا تھا بلکہ میری سر گذشت ہے جس سے کچھ اقتباسات پیش کرنے کا آخر ارادہ کر ہی لیا ہے

سن 1948ء میں شاید نومبر یا دسمبر میں ہم نے راولپنڈی جھنگی محلہ کی سرکلر روڈ سے نکلتی ایک گلی میں ایک مکان کی 2 کمروں باورچی خانہ غُسلخانہ اور بڑے سے صحن پر مُشتمل پہلی منزل کرایہ پر لی ۔ دوسری منزل میں مالک مکان ۔ اُس کی بیوی اور والدہ ررہتے تھے ۔ گھر بالکل نیا بنا تھا لیکن گھر میں نہ پانی تھا نہ بجلی ۔ مالک مکان نے اپنا بندوبست کرنے تک ایک لالٹین عنائت کی جو ہم بچوں نے پہلی بار دیکھی تھی ۔ میرا سوا سالہ بھائی رونے لگا تو والدہ محترمہ نے لالٹین کمرے میں لانے کو کہا ۔ میں جو لالٹین اُٹھا کر چلا تو اُس کا شعلہ پھپ پھپ کی آواز کے ساتھ اُچھلنے لگا اور کمرے میں پہچنے تک لالٹین بُجھ گئی ۔ میری پھوپھو جی جو بیوہ تھیں اور ہمارے ساتھ ہی رہتی تھیں نے لالٹین جلا کر دی مگر پھپ پھپ کرتی پھر بُجھ گئی ۔ پھوپھو جی جلاتیں اور وہ پھر بُجھ جاتی ۔ یہ عمل بڑوں کیلئے تو شاید پریشانی کا باعث ہوا ہو لیکن میں ۔ میری بہن اور ایک 8 سالہ بھائی ہنس ہنس کر بے حال ہو گئے ۔ اگلی صبح پھوپھو جی لالٹیں دوسری منزل پر لے گئیں تو مالک مکان کی والدہ نے درست کر دی اور بتایا کہ آرام سے لالٹین اُٹھائیں ورنہ تیل اُوپر موہرے میں چڑھ جاتا ہے تو پھپ پھپ کرتی ہے

ہم 2 بھائیوں کو چھوٹی چھوٹی بالٹیاں خرید دی گئیں کہ روزانہ گلی کے نلکے سے پانی بھر کر لایا کریں ۔ پہلے میں نلکا کھول کر بالٹی میں پانی بھرتا پھر چھوٹا بھائی بالٹی بھر کے نلکا بند کرتا ۔ ایک دن بھائی نلکا کھُلا چھوڑ آیا ۔ جب ہم دوبارہ پانی لینے گئے تو ایک عورت بولی ”جاتکو ۔ ٹُوٹی کھُلی کیئوں چھوڑ وَینے او“۔ ہم نے گھر جا کے کہا کہ ”ایک عورت نے ہمیں ڈانٹا ہے اور گالیاں دی ہیں ۔ اب ہم پانی لینے نہیں جائیں گے“۔ اگلے روز ہماری پھوپھو نے ملک مکان کی والدہ سے ذکر کیا تو اُنہوں نے بتایا کہ اس کا مطلب ہے ”بچو ۔ نلکا کھُلا کیوں چھوڑ دیتے ہو“۔

پاکستان کا مطلب کیا

شاید ہی کوئی پاکستانی ایسا ہو گا جس نے ” پاکستان کا مطلب کیا ۔ لا الہ الا اللہ“ نہ سُنا ہو ۔ ویسے چند لوگوں کو اس سے کچھ چِڑ بھی ہے کہ اُن کے خیال کے مطابق پاکستان شاید موج میلہ کرنے کیلئے بنایا گیا تھا جہاں دین اسلام کا عمل دخل نہ ہو ۔ خیر مجھے اس سے بحث نہیں ہے لیکن اتنا واضح کر دوں کہ یہ جُملہ سامنے آتے ہی جنگل کی آگ سے بھی زیادہ تیزی سے ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گیا تھا اور ہر مسلمان عورت مرد لڑکی اور لڑکے کی زبان پر رواں ہو گیا تھا کیونکہ تمام مسلمان پاکستان کا مطلب یہی لیتے تھے

آج صرف یہ تاریخی حقیقت ایک بار پھر آشکار کرنا ہے کہ یہ نعرہ جس نے ہندوستان کے مسلمانوں کے اندر ایک نئی روح پھونک دی تھی اور جو پاکستان بننے پر مُنتج ہوا ۔ معرضِ وجود میں کیسے آیا تھا ؟

پروفیسر اصغر سودائی نے 1944ء میں اپنی طالب علمی کے دور میں تحریک پاکستان کے دوران ایک نظم کہی تھی ”ترانۂ پاکستان”۔ یہ بے مثال طرح مصرع اسی نظم کا ہے ۔ یہ نعرہ ہندوستان کے طول و عرض میں اتنا مقبول ہوا کہ پاکستان تحریک اور یہ نعرہ لازم و ملزوم ہو گئے ۔ اسی لئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ تحریکِ پاکستان میں 25 فیصد حصہ اصغر سودائی کا ہے ۔ اصغر سودائی 1926ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم کو اپنا پیشہ بنایا اور علامہ اقبال کالج سیالکوٹ کے پرنسپل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ۔ لوگ اُنہیں “تحریک پاکستان کا چلتا پھرتا انسائیکلو پیڈیا” بھی کہتے تھے ۔ اُنہیں ایک بار پوچھا گیا تھا کہ ”یہ مصرع کیسے آپ کے ذہن میں آیا ؟“ تو آپ نے فرمایا کہ “جب لوگ پوچھتے کہ مسلمان پاکستان کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن پاکستان کا مطلب کیا ہے ؟ تو میرے ذہن میں آیا کہ سب کو بتانا چاہیئے کہ پاکستان کا مطلب کیا ہے“۔

ترانۂ پاکستان

شَب ظُلمت میں گزاری ہے ۔ اُٹھ وقتِ بیداری ہے
جنگِ شجاعت جاری ہے ۔ ۔ ۔ آتش و آہن سے لڑ جا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

ہادی و رہبر سرورِ دیں ۔ ۔ ۔ صاحبِ علم و عزم و یقیں
قرآن کی مانند حسیں ۔ ۔ ۔ احمد مُرسل صلی علی
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

چھوڑ تعلق داری چھوڑ ۔ اُٹھ محمود بُتوں کو توڑ
جاگ اللہ سے رشتہ جوڑ ۔ ۔ ۔ غیر اللہ کا نام مٹا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

جُرأت کی تصویر ہے تو ۔ ہمت عالمگیر ہے تو
دنیا کی تقدیر ہے تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آپ اپنی تقدیر بنا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

نغموں کا اعجاز یہی ۔ ۔ ۔ دل کا سوز و ساز یہی
وقت کی ہے آواز یہی ۔ ۔ ۔ وقت کی یہ آواز سنا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

پنجابی ہو یا افغان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ مل جانا شرط ایمان
ایک ہی جسم ہے ایک ہی جان ۔ ایک رسول اور ایک خدا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

تجھ میں ہے خالد کا لہو ۔ تجھ میں ہے طارق کی نمُو
شیر کے بیٹے شیر ہے تُو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیر بن اور میدان میں آ
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

مذہب ہو ۔ تہذیب کہ فن ۔ تیرا جُداگانہ ہے چلن
اپنا وطن ہے اپنا وطن ۔ ۔ ۔ غیر کی باتوں میں مت آ
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

اے اصغر اللہ کرے ۔ ۔ ۔ ننھی کلی پروان چڑھے
پھول بنے خوشبو مہکے ۔ وقتِ دعا ہے ہاتھ اٹھا
پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ

تحریک آزادی کشمیر کے خلاف سازش

جموں کشمیر میں آزادی کی مسلحہ تحریک 24 اکتوبر 1947ء کو شروع ہوئی تھی ۔ اس حوالے سے ایک مضمون

ایک مجاہد کا خط

جناب ڈاکٹر صفدر محمود
سلام مسنون
آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کشمیر کے بغیر ہر حوالے سے نامکمل ہے۔ اب پاکستان کو نامکمل رکھنے کے لئے ہمارے دشمن پاکستان کو تحریک آزادی کشمیر سے الگ کرنے کی گہری چال چل رہے ہیں۔ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پاکستان کشمیر کے محاذ پر ناکام ہوا ہے۔ اس پروپیگنڈے کا مقصد پاکستان میں کشمیر کے حوالے سے بے بسی کے احساس کو جنم دے کر جوش عمل ٹھنڈا کرنا ہے۔ ورنہ حقائق اس کے برعکس ہیں

کشمیر کے محاذ پر تحریک پاکستان کے دور سے لے کر آج تک کی تاریخ پاکستان کی زبردست کامیابی اور برہمن عزائم کی مسلسل شکست سے عبارت ہے۔ کانگریس نے ہر ممکن کوشش کی کہ قیام پاکستان سے پہلے ہی پوری ریاست جموں و کشمیر بھارت کا حصہ بن جائے۔ انگریزوں نے ہر مرحلے پر ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس مقصد کے لئے پہلے ماؤنٹ بیٹن اور پھر گاندھی نے تقسیم ہند سے ذرا پہلے کشمیر کا دورہ کیا بعدمیں جب بھارت نے فوجی جارحیت کے ذریعے کشمیر کو ہڑپ کرنا چاہا تو ہم نے کم و بیش نصف ریاست یعنی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو زور بازو سے آزاد کر لیا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ مقبوضہ وادی کشمیر کی علامتی و سیاسی اہمیت گو کہ زیادہ ہے مگر اقتصادی امکانات کے لحاظ سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی اہمیت اور افادیت اس سے بھی زیادہ ہے۔ وادی کشمیر پر پاکستان کا اپنا برحق دعویٰ برقرار رکھنا اور وہاں پر بھارت کے خلاف مزاحمت کا مسلسل کسی نہ کسی صورت جاری رہنا ہماری کامیابی اور بھارت کی ناکامی اور پسپائی کی دلیل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر آج تک بین الاقوامی قانون کی رو سے متنازع علاقوں میں شمار ہوتا ہے اور جب تک پاکستان کشمیر پر اپنے دعوے پر ڈٹا رہے گا کشمیر ہرگز بھی بھارت کا قانونی حصہ نہیں بن سکے گا۔

مجرمانہ قومی غفلتوں سے ہم نے پاکستان کا جو حشر کیا ہے اس کی وجہ سے ہم اب تک مقبوضہ کشمیر کو آزاد نہیں کروا سکے اور نہ اس وقت تک کروا سکتے ہیں جب تک پاکستان اقتصادی اور عسکری میدانوں میں بھرپور خود کفالت کی منزل کو نہیں پالیتا۔ خود کفیل، باعزم اور توانا پاکستان ہی بھارت اور اس کے مغربی حواریوں سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے اور کشمیر کو حاصل کرنے کے لئے فیصلہ کن اقدام کرنے کے قابل ہوگا۔

یہ پروپیگنڈہ بھی کیا جا رہا ہے کہ وادی کشمیر کے مسلمان پاکستان سے کشمیر کا الحاق نہیں چاہتے اس جھوٹی مہم کا مقصد پاکستان کی رائے عامہ کو فریب دینا ہے۔ کشمیر کے زمینی حقائق پر طائرانہ نظر ہی اس پروپیگنڈے کو جھٹلانے کے لئے کافی ہے۔ کشمیر قیام پاکستان سے پہلے ہی نظریہ پاکستان پر ایمان کا مضبوط قلعہ بن چکا تھا۔ وہاں کی مسلمان اکثریت کی پاکستان سے پختہ نظریاتی اور جذباتی وابستگی میں کبھی بھی ضعف نہیں آیا۔ امریکی دباؤ میں آکر طول اقتدار کے لئے فوجی آمر جنرل مشرف نے کامیابیوں کی طرف گامزن 90ء کی دہائی کی آزادی کشمیر کے لئے جاری خونین مزاحمت کی حمایت سے دست برداری کا اعلان کیا۔ اس مجرمانہ فعل سے مسلح مزاحمت کا گلا گھونٹا گیا۔ ان حالات میں پاکستان دشمن اور بھارت نواز الحادی عناصر کے لئے مسلمانان کشمیر کو پاکستان سے بدظن کرنے کے لئے موزوں ماحول میسر رہا۔ وادی کشمیر کی بابصیرت مسلم رائے عامہ نے ان حوصلہ شکن حالات میں بھی ہر موقع پر پاکستان سے اپنی لازوال وابستگی کا بھرپور اظہار کیا۔ 2008ء میں ہندو مذہبی استھانوں کو زمین کی منتقلی کے خلاف احتجاج سے شروع ہونے والی پرامن تحریک آزادی کے دوران لاکھوں مظاہرین کے اجتماعات میں لہرائے جانے والے سبز ہلالی پرچم اور بلند ہونے والے نعرے عوام کے دلی رجحانات کی ترجمانی کرنے کے لئے کافی تھے۔ پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الا اللہ، تیری منڈی، میری منڈی، راولپنڈی، راولپنڈی اور یہ تو بہانہ ہے راولپنڈی جانا ہے جیسے نعروں سے وادی کی فضائیں گونج رہی تھیں۔

2010ء میں پرامن عوامی مزاحمت کی آگ ایک بار پھر بھڑک اٹھی۔ چار ماہ تک لوگ اس تحریک کو بھرپور انداز سے چلاتے رہے۔ قابض انتظامیہ کے پاس کرفیو لگانے کے علاوہ کوئی راستہ نہ بچا تھا۔ عید رمضان کے دن قابض انتظامیہ نے یہ سوچ کر کرفیو اٹھایا کہ لوگ عید کی نماز کے بعد گھروں کا رخ کریں گے۔ آزادی کے جذبوں سے لبریز کشمیر کے مسلمان سری نگر کے مرکز لال چوک کی طرف گامزن ہوئے اور لاکھوں کے اجتماع میں سبز ہلالی پرچم اور پاکستان سے وابستگی کی خواہش کی ترجمانی کرنے والے فلک شگاف نعروں سے مقبوضہ فضاؤں پر لرزہ طاری ہوگیا۔ عید کی چھٹی کے بعد جب پاکستان میں اخبارات چھپے تو ایک انگریز اخبار میں لال چوک کے اس اجتماع کی تصویر بھی چھپی تھی جس میں گھنٹہ گھر پر آویزاں بڑے پاکستانی پرچم کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ہاتھوں میں لہراتے ہوئے پاکستانی پرچموں کی بہار تھی۔ یہ تصویر اپنی بغل میں چھپی اس شہ سرخی کو جھٹلا رہی تھی کہ (دس میں سے ایک بھی کشمیری پاکستان سے الحاق نہیں چاہتا ہے) ناقابل یقین اور حیرت ناک جھوٹ ٹائمز آف انڈیا اخبار کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں کرائے گئے نام نہاد سروے میں بیان ہوئی تھی۔ اس دوران یہ خبر بھی اخبارات کی زینت بنی کہ بھارتی خاتون صحافی ارونا دھتی رائے جب سرینگر میں اہل دانش وبینش کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب کر رہی تھیں تو سامعین نے نعرے بلند کئے: ”بھوکا ننگا ہندوستان، جان سے پیارا پاکستان“۔

دراصل تحریک آزادی کشمیر کے خلاف خطرناک سازش ہو رہی ہے اس سازش کا مقصد تحریک کو اس بنیاد سے محروم کرنا ہے جس پر یہ کھڑی ہے۔ مزاحمتی تحریکوں کی مضبوطی سخت جانی اور پائیداری ان کی نظریاتی بنیادوں میں پنہاں ہوتی ہے۔ جس مزاحمت کی نظریاتی بنیاد گہری، مضبوط اور شکست نا پذیر ہو اسے وقتی طور پر تو دبایا جاسکتا ہے مگر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ آزادی کشمیر کے لئے جاری مزاحمت کی نظریاتی بنیاد جغرافیہ، سیاست، تاریخ اور دین و مذہب کے اٹل حقائق پر استوار ہے۔ اس نظریاتی بنیاد سے جدوجہد آزادی کو محروم کرنا اسے موت کے گھاٹ اتارنے کے برابر ہے۔ دراصل اس نظریاتی بنیاد میں تحریک آزادی کی روح بسی ہے۔ تحریک آزادی کی اس روح کا نام پاکستانیت ہے اور جب تک یہ تحریک حسب روایت پاکستانیت سے عبارت ہے اسے ختم کرنا یا اس کا استحصال کرنا خارج از امکان ہے۔

دنیا میں ریاست یا ملک انسانی اجتماعیت کی سب سے منظم، فعال اور طاقتور صورت کا نام ہے۔ پاکستانیت کی بنیاد پر کھڑی آزادیٴ کشمیر کی جدوجہد کا والی اور وارث بیس کروڑ افراد پر مشتمل پاکستان ہے۔ پاکستانیت سے تحریک آزادیٴ کشمیر کو وہ تزویراتی گہرائی میسر ہے جس کا خاتمہ دشمن کے بس کی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک سے جان چھڑانے اور اس کی جڑوں پر تیشہ چلانے کے لئے چالاکی سے اس تحریک کا پاکستانیت سے رشتہ توڑنے کے منصوبے پر کام ہور ہا ہے۔
تاریخی طور پر اس نامسعود سلسلے کا آغاز امریکہ نے کیا تھا۔ یاد رہے کہ امریکہ عالمی سیاست میں دوسری عالمی جنگ کے بعد اس برطانیہ کا جانشین بن کر سامنے آیا جس نے کشمیر پر بھارتی قبضے کے راستے ہموار کئے تھے۔ 18اکتوبر 1968ء کے دن صدر ایوب خان نے پاکستان میں متعین امریکی سفیر جو بھارت اور مقبوضہ کشمیر کادورہ کرکے آیا تھا سے ملاقات کا احوال اپنے روزنامچہ/ ڈائری میں درج کیا ہے۔ اس ملاقات میں امریکی سفیر ایوب خان سے تاکید کے ساتھ کہتا ہے کہ پاکستان کو انڈی پینڈیٹ کشمیر کے لئے کام کرنا چاہئے اور دلیل یہ دی ہے کہ اس طرح اسے عالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔ انڈی پینڈنٹ کشمیر کو عالمی حمایت کے حاصل ہونے والی بات پر ذراساغور وخوض ہی ہمیں اس کے برعکس نتیجے کے برآمد ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت اور عالمی اہمیت صرف اور صرف پاکستان کا جموں و کشمیر کے دعویٰ دار ہونے کی وجہ سے رہی ہے۔ حیدر آباد دکن پر بھارت نے فوجی کارروائی کرکے قبضہ کیا۔ اس ریاست کے نمائندے نے اقوام متحدہ میں اس کے خلاف درخواست دائر کی تھی جس کی آج تک شنوائی نہیں ہوئی۔ کشمیر کے برعکس حیدر آباد دکن کا پاکستان ہمسایہ تھا نہ دعویدار اور مددگار۔ نہ رہا بانس نہ بجی بانسری۔

یاد رہے کہ انڈی پینڈنٹ کشمیر کا عملی قیام امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کا ہرگز بھی مقصد نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ عملی دنیا میں اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ دراصل بھارت کشمیر سے اس طرح پاکستان کو الگ کرکے اسے آسانی سے ہضم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے لئے انڈی پینڈنٹ کشمیر کے تصور کا قابل قبول بن جانے کا منطقی نتیجہ تحریک آزادی کشمیر کے لئے پیغام موت ہوگا۔ انڈی پینڈنٹ کشمیر کے تصور کو قبول کرنے کا معنی یہ ہوگا کہ پاکستان وادی کشمیر کے بغیر ادھورا یا نامکمل نہیں ہے۔ وہ پاکستان جو خود کو وادی کشمیر کے بغیر مکمل تصور کرے گا اس کا ”قومی مفاد“ یہ کہنے لگے کا کہ اتنے چھوٹے سے کشمیر کے لئے اتنے بڑے بھارت سے پنگا لینے کی کیا ضرورت ہے اور یوں بھارت سے کشمیر کو آزاد کرنے کی تحریک تاریخ کے قبرستان میں دفنائی جائے گی۔ خدا نہ کرے ۔ خدارا آنکھیں کھولئے اور اس سازش کو سمجھئے۔

آپ کانیازمند…خواجہ شجاع عباس

بشکریہ ۔ جنگ

کيا ميں بھول سکتا ہوں ؟

کيا ميں بھول سکتا ہوں ستمبر 1965ء سے دسمبر 1971ء کے اپنے تجربوں کو ؟

ستمبر 1965ء
جب ميں نے سب پاکستانيوں کو جذبہ جہاد ميں سرشار ديکھا تھا
جب لاہوريئے پلاؤ کی ديگيں پکوا کر محاذ پر اپنے فوجی بھائيوں کو پہنچاتے تھے
جب گورنر کے صرف ايک بار کہنے پر گوالوں نے دودھ ميں پانی ملانا چھوڑ ديا تھا اور بازاروں ميں تمام اشيائے ضرورت ارزاں ملنے لگيں تھیں
جب ميں خندق کھودنے لگا تو کارکنوں نے مجھے پکڑ ليا اور کہا ”آپ کا جو کام ہے وہ ہم نہيں کر سکتے ۔ يہ کام ہم کر سکتے ہيں ہميں کرنے ديں“۔
خطرے کا سائرن بجنے پر کارکن ورکشاپوں سے باہر نہ نکلے ۔ میں نے اندر جا کر اُنہیں باہر نکلنے کا کہا تو جواب ملا ”سر مرنا ہوا تو باہر بھی مر جائیں گے ۔ ہمیں کام کرنے دیں ہماری فوج کو اسلحے کی ضرورت ہے“۔
جب اپنے ملک کے دفاع کيلئے ميں نے 15 يوم دن رات کام کيا تھا اور اس دوران روزانہ صرف ايک وقت کھانا کھايا تھا اور میں اکیلا نہیں تھا
جب ہر پاکستانی صرف پاکستانی تھا ۔ نہ بنگالی ۔ نہ مہاجر ۔ نہ سندھی ۔ نہ بلوچ ۔ نہ پٹھان ۔ نہ پنجابی بلکہ صرف اور صرف پاکستانی

پھر ناجانے کس کی بُری نظر یا جادو کام کر گیا اور ۔ ۔ ۔

ملک میں ایک جاگیردار وڈیرے نے مزدروں کو روٹی کپڑا اور مکان کا لالچ دے کر ایسا اُبھارا کہ دنیا بدل گئی
خاکروبوں نے سرکاری کوٹھیوں پر نشان لگانے شروع کئے کہ یہ میری ہو گی یہ تیری ہو گی
سکول کالج کے اساتذہ اور سرکاری محکموں کے افسروں کی بے عزتی کرنا آزادی کا نشان بن گیا
کالجوں میں داخل لڑکوں نے پڑھائی پر جلوسوں کو ترجیح دی ۔ ٹوٹی ٹریفک لائیٹس ۔ سٹریٹ لائیٹس اور گھروں یا دکانوں کے شیشے اُن کی گذرگاہ کا پتہ دیتے

دسمبر 1971ء
دسمبر 1971ء میں بھارت نے پھر پاکستان پر حملہ کر دیا
کارکنوں کے ساتھ مل کر خندقیں کھودنے کی پیشکش کی تو جواب ملا ”آپ خود کھودیں یا ٹھیکے پر کھدوائیں ۔ یہ ہمارا کام نہیں ہے”۔
دوسرے دن صبح اکثر کارکنوں نے یہ کہہ کر کام کرنے سے انکار کر دیا کہ اُن کی جان کو خطرہ ہے ۔ اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی تو ان کا ایک نام نہاد نمائندہ بولا ”افسر دولتمند ہیں ۔ مر جائیں گے تو بیوی بچوں کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی ۔ ہم مر گئے تو ہمارے بچوں کا کیا بنے گا ۔ آپ کام کریں ہم ورکشاپ کے اندر نہیں جائیں گے“۔

فی زمانہ تو حالات مزید دِگرگوں ہو چکے ہیں

يا اللہ ۔ وہ ستمبر 1965ء والے دن پھر سے لادے
یا اللہ ۔ میرے ہموطنوں کو عقلِ سلیم عطا فرما دے
يہ تيرے اس کمزور بندے ہی کی نہيں تيرے بہت سے بندوں کی التجاء ہے

یومِ فضائیہ

آج کا دن پاکستان میں بجا طور پریوم فضائیہ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے ۔M M Alam 7 ستمبر 1965ء کو پاکستان کے شاہینوں نے دنیا کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کرتے ہوئے جارح بھارت کی ہوائی فوج کو اپاہج بنا دیا تھا ۔ بالخصوص اسکورڈن لیڈر محمد محمود عالم المعروف ایم ایم عالم نے دشمن کے9 جنگی طیارےمار گرائے جن میں 5 لڑاکا طیارے ایک منٹ سے بھی کم وقت میں تباہ کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ۔ کمال یہ کہ بھارت کے 2 انجنوں والے کینبرا طیاروں کے مقابلہ میں ایم ایم عالم چھوٹا سا ایک انجن والا سَیبر ایف 86 (Sabre F 86) طیارہ اُڑا رہے تھے ۔ ایم ایم عالم کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے زندہ دِلانِ لاہور نے گلبرگ (لاہور) کی ایک شارع عام کو ان کے نام سے منسوب کر دیا

محمد محمود عالم 6 جولائی 1935ء کو کلکتہ (اب کولکتہ) میں پیدا ہوئے ۔ پاکستان بننے پر ان کا خاندان ہجرت کر کے مشرقی پاکستان میں آباد ہوا ۔ اکتوبر 1953ء میں پاک فضائیہ میں بطور فائٹر پائلٹ کمیشن حاصل کیا ۔ بہادری کے صلے میں انہیں 2 بار ستارہ جرات سے نوازاگیا ۔ 1982 میں ایئر کموڈور کے عہدے پر ریٹائر ہوئے ۔ اپنی شجاعت کے باعث عوام میں لِٹل ڈریگن (Little Dragon) کے لقب سے مشہور ہوئے

ریٹائرمنٹ کے بعد ایم ایم عالم کی زندگی مطالعہ کرنے میں گزری ۔ ان کا جذبہ اورپیشہ ورانہ مہارت پاک فضائیہ کے جوانوں کے لئے مشعل راہ ہے ۔ پاک فضائیہ کو بجا طور پر اپنے اس سپوت پر ہمیشہ فخر رہے گا ۔ اسکورڈن لیڈر محمد محمود عالم 18 مارچ 2013ء کو اس دنیا سے رحلت کر گئے لیکن ان کے کارنامے زندہ و جاوید اوریوم فضائیہ کا خاصہ رہیں گے

6 اگست ۔ ایک یاد گار دن

6 اگست کو بڑے اہم واقعات ہوئے ہیں ۔ سب سے اہم یہ کہ میں پیدا ہوا تھا ۔ دوسرا کہ اس دن ہیروشیما پر امریکہ نے ایٹم بم گرایا تھا ۔ خیر میں تو ایک گمنام آدمی ہوں گو میرے ڈیزائین کردہ بیرل بور والی مشین گن پاکستان جرمنی اور نجانے اور کتنے ممالک کی افواج استعمال کر رہی ہیں لیکن چِٹی چمڑی والا نہ ہونے کے باعث اسے میرے نام سے منسوب نہ کیا جا سکا تھا

لیکن میں بات کرنے لگا ہوں 6 اگست کو پیدا ہونے والے ایک ایسے شخص کی جس نے سائنس میں عروج حاصل کر کے اللہ کو پہچانا ۔ نام تھا ان کا الیگزنڈر فلیمنگ (Sir Alexander Fleming) جس نے 1928ء میں پنسلین دریافت کی ۔ اس دوا نے لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بچائیں ۔ ٹائم میگزین نے بیسویں صدی کے 100اہم ترین لوگوں کی فہرست میں اس عظیم شخص کو شامل کرتے ہوئے لکھا ”اس دریافت نے تاریخ کا دھارا تبدیل کر کے رکھ دیا“۔ الیگزنڈر فلیمنگ کو 1945ء میں طب کے شعبے میں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا

الیگزنڈر فلیمنگ نے پنسلین کی ایجاد کی تو دوا ساز کمپنیوں نے اُسے 10 فیصد رائلٹی کی پیشکش کی جو اُس نے کم سمجھ کر قبول نہ کی اُس کا خیال تھا کہ سارا کام تو اُس نے کیا جبکہ کمپنی اُسے فقط 10 فیصد پر ٹرخا نے کی کوشش کر رہی تھی تاہم جب الیگزنڈر فلیمنگ نے 10 فیصد رائلٹی کا تخمینہ لگوایا گیا تو پتہ چلا کہ وہ لاکھوں پاؤنڈ ماہانہ بنتے تھے ۔ اُس نے سوچا کہ اتنی رقم کو وہ کہاں سنبھال کر رکھے گا ۔ اس سلسہ میں اپنی نااہلی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اُس نے پنسلین کا نسخہ ایک فیصد رائلٹی کے عوض دوا ساز کمپنی کو اس شرط پر دینے کا فیصلہ کیا کہ معاہدے کی تمام شِقیں الیگزنڈر فلیمنگ کی منشا کے مطابق ہوں گی ۔کمپنی نے یہ بات مان لی

تاہم جب الیگزینڈر فلیمنگ شرطیں ٹائپ کرنے کے لئے بیٹھا تو اُسے لگا کہ ایک فیصد رائلٹی بھی اتنی زیادہ بن رہی تھی کہ وہ ساری عمر ختم نہ ہوتی جبکہ اس کی خواہش سوائے سیر و سیاحت اور تحقیق کے اور کچھ نہیں تھی ۔ یہ سوچ کر الیگزنڈر فلیمنگ نے آدھی رات کے وقت ایک معاہدہ ٹائپ کیا اور لکھا

”میری یہ دریافت میری ذاتی ملکیت نہیں ۔ یہ ایک عطیہ ہے جو مجھے امانت کے طور پر ملا ہے ۔ اس دریافت کا عطا کنندہ خدا ہے اور اس کی ملکیت پوری خدائی ہے ۔ میں اس دریافت اور اس انکشاف کو نیچے دیئے گئے فارمولے کے مطابق عام کرتا ہوں اور اس بات کی قانونی ،شخصی،جذباتی اور ملکیتی اجازت دیتا ہوں کہ دنیا کا کوئی ملک ،کوئی شہر،کوئی انسان ، معاشرہ جہاں بھی اسے بنائے ، وہ اس کا انسانی اور قانونی حق ہوگا اور میرا اس پر کوئی اجارہ نہ ہوگا“۔

الیگزنڈر فلیمنگ سے پوچھا گیا کہ ”وہ کس بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ پنسلین کی ایجاد خدا کی طرف سے انہیں ودیعت کی گئی تھی؟“
الیگزنڈر فلیمنگ نے اس بات کا تاریخی جواب دیا
”میں اسے دنیا تک پہنچانے کا ایک ذریعہ یا ایک آلہ ضرور تھا لیکن میں اس کا مُوجد یا مُخترع نہیں تھا۔ صرف اس کا انکشاف کرنے والا تھا اور یہ انکشاف بھی میری محنت کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ خداوند کا کرم اور اس کی عنایت تھی ۔ اصل میں جتنے بھی انکشافات اور دریافتیں ہوتی ہیں وہ خدا کے حُکم سے اور خدا کے فضل سے ہوتے ہیں ۔ خدا جب مناسب خیال کرتا ہے اس علم کو دنیائے انسان کو عطا کر دیتا ہے ۔ نہ پہلے نہ بعد میں ، ٹھیک وقت مقررہ پر ، اپنے حکم کی ساعت کے مطابق ۔ میں نے اس اصول کو لندن کے ایک مقامی اسکول میں بچوں کی آسانی کے لئے یوں سمجھایا تھا کہ خدا کے آستانے پر ایک لمبی سلاخ کے ساتھ علم کی بے شمار پوٹلیاں لٹک رہی ہیں ۔ وہ جب چاہتا ہے اور جب مناسب خیال فرماتا ہے ۔ قینچی سے ایک پوٹلی کا دھاگا کاٹ کر حُکم دیتا ہے کہ سنبھالو عِلم آ رہا ہے ۔ ہم سائنسدان جو دنیا کی ساری لیبارٹریوں میں عرصے سے جھولیاں پھیلا کر اس علم کی آرزو میں سرگرداں ہوتے ہیں ۔ ان میں سے کسی ایک کی جھولی میں یہ پوٹلی گر جاتی ہے اور وہ خوش نصیب ترین انسان گردانا جاتا ہے“ ۔

نام کیسے پڑا ؟

سن 1400ء میں انگلستان میں ایک قانون بنایا گیا کہ خاوند اپنی بیوی کی پٹائی ایک چھڑی کے ساتھ کر سکتا ہے جو کہ ایک انگوٹھے جتنی موٹی ہو ۔ اس قانون نے انگوٹھے کے قانون (Thumb Rule) کی اصطلاح کو جنم دیا جو عام مستعمل ہوئی

عرصہ دراز گذرا کہ سکاٹ لینڈ میں ایک نیا کھیل دریافت کیا گیا جس کی شرط رکھی گئی
“صرف حضرات ۔ خواتین کی ممانعت (Gentlemen Only…Ladies Forbidden)
چنانچہ اس کھیل کا نام گولف (GOLF) مشہور ہوا

اپنے اردگرد نظر بلکہ عقل دوڑایئے ۔ کئی نام اسی طرح بنے نظر آئیں گے

میرا دوسرا بلاگ ”حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ Reality is often Bitter “ گذشتہ پونے 9 سال سے معاشرے کے مختلف پہلوؤں پر تحاریر سے بھرپور چلا آ رہا ہے اور قاری سے صرف ایک کلِک کے فاصلہ پر ہے ۔
بالخصوص یہاں کلک کر کے پڑھیئے The Killing Skies