Category Archives: تاریخ

اُردو قومی زبان کیسے بنی ۔ بہتان اور حقیقت

آج 21 مارچ ہے ۔ 66 سال قبل آج کے دن ایک واقعہ ہوا تھا جسے درست بیان کرنے کی بجائے نامعلوم کس مقصد کیلئے قوم کو خود تراشیدہ کہانیاں سنائی جاتی رہی ہیں اور اب تک سنائی جاتی ہیں ۔ جن صاحب نے سب سے پہلے خود تراشیدہ کہانی کو کتابی صورت میں پیش کیا وہ عطا ربانی صاحب (میاں رضا ربانی کے والد) تھے ۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا

” قائداعظم نے مارچ 1948ء میں اپنے دورۂ مشرقی پاکستان کے دوران مشرقی بازو کی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا جو محض 2 فیصد آبادی کی زبان تھی اور وہاں ہنگامہ ہوگیا جس میں 3 طلباء مارے گئے“۔

عطا ربانی صاحب نے جو لکھا وہ حقیقت کے منافی ہے۔ وہ ڈھاکہ کے اس جلسے میں بطور اے ڈی سی قائداعظم کے ساتھ نہیں تھے۔ وہ سات ماہ قائداعظم کے ساتھ رہے اور 19 مارچ 1948ء کو واپس ایئرفورس میں چلے گئے تھے جبکہ قائداعظم نے ڈھاکہ کے جلسہ سے 21 مارچ 1948ء کو خطاب کیا۔ مزید یہ کہ اس جلسہ میں کوئی ہنگامہ نہیں ہوا تھا

قائداعظم کی اس جلسہ میں تقریر کا پس منظر اور پیش منظر منیر احمد منیر صاحب نے اپنی کتاب ’’ قائداعظم، اعتراضات اور حقائق‘‘ میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ قائداعظم نے ڈھاکہ میں جو اعلان کیا وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا اکثریتی فیصلہ تھا۔ 25 فروری 1948ء کو کراچی میں دستور ساز اسمبلی میں مشرقی پاکستان سے کانگریس کے ہندو رُکن دھرنیدر ناتھ دتہ نے بنگالی کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ قائداعظم نے اسمبلی کے سپیکر کے طور پر اس مطالبے کو رد کرنے کی بجائے اس پر بحث کرائی۔ کانگریسی رُکن اسمبلی نے کہا ”ریاست کے 6 کروڑ 80 لاکھ باشندوں میں سے 4 کروڑ 40 لاکھ باشندے بنگالی بولتے ہیں اس لئے قومی زبان بنگالی ہوگی“۔ ایک اور کانگریسی رُکن پریم ہری ورما نے اس مطالبے کی حمایت کی ۔ لیکن مشرقی پاکستان کے بنگالی ارکان مولوی تمیز الدین اور خواجہ ناظم الدین نے اس مطالبے کی مخالفت کی۔ لیاقت علی خان نے وضاحت کی کہ ہم انگریزی کی جگہ اُردو کو لانا چاہتے ہیں اس کا مطلب بنگالی کو ختم کرنا نہیں۔ کافی بحث کے بعد متذکرہ مطالبہ مسترد کردیا گیا ۔ یہ مطالبہ مسترد کرنے والوں میں بنگالی ارکان حسین شہید سہروردی ۔ نور الامین ۔ اے کے فضل الحق ۔ ڈاکٹر ایم اے مالک اور مولوی ابراہیم خان بھی شامل تھے ۔ چنانچہ اُردو کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ قائداعظم کا نہیں دستور ساز اسمبلی کا فیصلہ تھا

قائداعظم نے 21 مارچ 1948ء کی تقریر میں یہ بھی کہا تھا آپ اپنے صوبے کی زبان بنگالی کو بنانا چاہتے ہیں تو یہ آپ کے نمائندوں کا کام ہے ۔ بعدازاں صوبائی حکومت نے اُردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا تو یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا لیکن تاخیر سے کیا گیا اور اس تاخیر کا پاکستان کے دشمنوں نے خوب فائدہ اٹھایا

بنگالی عوام قائداعظم سے ناراض ہوتے تو 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں جنرل ایو ب خان کے مقابلے میں قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت نہ کرتے ۔ محترمہ فاطمہ جناح ڈھاکہ میں جیت گئی تھیں جہاں اِن کے چیف پولنگ ایجنٹ شیخ مجیب الرحمان تھے“۔

میری کہانی 4 ۔ باس

میں نے اپنے ہر باس کی انکساری اور بُردباری کے ساتھ تابعداری کی سوائے اس کے کہ باس کے حُکم کی بجا آوری سے قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہو یا ادارے یا مُلک کو نقصان پہنچتا ہو ۔ میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں مختلف اوقات میں 5 باسِز کے ماتحت کام کیا ۔ جن میں سے 2 کے ماتحت صرف کچھ ماہ کام کیا اسلئے پہلے اُن کا ذکر جن کی ماتحتی میں زیادہ عرصہ گذارا

میرے پہلے باس ہر دل عزیز تھے (اپنی یا اپنے باس کی نظر میں) ۔ پائپ منہ میں رکھ کر بات کرتے تھے ۔ غصہ اُنہیں انگریزی میں آتا تھا ۔ فیکٹری میں کام 7 بجے شروع ہوتا تھا ۔ وہ ساڑھے سات بجے تشریف لاتے تھے ۔ ساڑھے نو بجے وہ اپنی کار پر چلے جاتے اور 12 بجے کے قریب لوٹتے ۔ ساڑھے بارہ بجے کھانے کیلئے ایک گھنٹہ کی چھٹی ہوتی تو وہ پھر چلے جاتے اور دو ڈھائی بجے لوٹتے ۔ اگر اس معمول میں کوئی رکاوٹ پیش آ جاتی تو مزاج چڑچڑا ہو جاتا ۔ بات بات پر بھڑنے کو تیار رہتے ۔ دو گالیاں کسی کو غائبانہ دیتے اور ایک آدھ اپنے آپ کو بھی کہ ساری دنیا کا کام اُنہیں ہی کرنا پڑ گیا ہے
ایک دن مجھے حُکم دیا ” یہ سارے پھوہڑ (چٹایاں) جلا دو”۔ میں نے کہا ”دوپہر ایک گھنٹہ کے وقفے میں لوگ ان پر نماز پڑھتے ہیں اور میں بھی نماز پڑھتا ہوں ۔ میں ان کو جلا نہیں سکتا“۔ تو کہتے ہوئے چلے گئے ”ایوب خان جتنا بڑا مسلمان کوئی نہیں ۔ اُس نے نماز پڑھنے کا وقت نہیں دیا تو میں کیسے دے سکتا ہوں ۔ میں خود جلوا دوں گا“۔ مگر جلائے تو نہیں تھے
بہت دلیر اور نڈر مشہور تھے لیکن ایک واقعہ ایسا پیش آیا کہ باس کی بزدلی مجھ پر عیاں ہوئی ۔ اللہ کی کرم نوازی کہ میرے ہاتھوں اُس معاملہ میں اُنہیں بچا دیا
اُن کا ایک راز دان چپڑاسی تھا جس سے سب ڈرتے اور اس کا کہا مانتے سوائے مجھ گستاخ کے ۔ لیکن ناجانے وہ چپڑاسی مجھ سے کیوں مانوس ہوتا گیا اور ایک دن ایسا آیا کہ اس نے باس کی ذاتی زندگی کے کئی راز تنہائی میں میرے سامنے اُگل دیئے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے توفیق دی اور میں نے وہ راز ہمیشہ کیلئے دفن کر دیئے . ایک بتا دیتا ہوں جو مجھ سے متعلق تھا ۔ اُس زمانہ میں واہ میں قدرتی گیس مہیاء نہیں کی گئی تھی ۔ سردیوں میں انگیٹھی میں کوئلہ یا لکڑی جلاتے تھے ۔ ہماری فیکٹری میں بندوق کے بٹ اور فور آرم بننے کے بعد اخروٹ کی لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بچتے تھے ۔ اخروٹ کی لکڑی جلنے پر دھواں نہیں دیتی . یہ سکریپ کے طور پر ہماری فیکٹری کے ملازمین کو بیچے جاتے تھے ۔ ایک ملازم ایک سال میں صرف ایک بار لے سکتا تھا ۔ یہ باس میرے نام پر وہ لکڑی 5 سال نکلواتے اور مجھے لکڑی نہ ملتی رہی ۔ مجھے یہی بتایا جاتا رہا کہ لکڑی نہیں ہے
باس شاید اُس وقت تک باس نہیں ہوتا جب تک کسی بے قصور کو نقصان نہ پہنچائے ۔ چنانچہ جہاں تک اُن سے ممکن ہو سکا مجھے نقصان پہنچایا ۔ 1983ء میں لبیا سے واپسی پر مجھے پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تعنات کیا گیا تھا ۔ کسی کام سے پرنسپل کو ملنے آئے ۔ مجھے بیٹھا دیکھ کر حیرت سے کم از کم ایک منٹ منہ کھلا رہا اور کچھ بول نہ سکے اور کام بتائے بغیر چلے گئے

میرے جو دوسرے باس بنے وہ زبردست حکائت گو تھے اور اس فن سے واقف تھے کہ اپنے باس کے سامنے کونسی حکائت بیان کرنا ہے اور ماتحت کے سامنے کونسی ۔ خواتین کے جھُرمٹ میں گھُس کر کھِل اُٹھتے تھے ۔ اپنے گھر چائے پر جوان جوڑوں کو بُلایا ۔ میں اکیلا گیا کہ میری بیوی گو پردہ نہیں کرتی مگر مخلوط محفل میں جانا پسند نہیں کرتی تھی ۔ مجھے کہا ”واپس جاؤ اور بیگم کو لے کر آؤ“۔ میں نے پس و پیش کیا تو ایک ہمدرد نے علیحدہ لیجا کر کہا ”اس طرح بدتمیزی گِنا جائے گا ۔ بھابھی کو لے آؤ ۔ وہ ایک طرف کھڑی رہے باقی خواتین کے جھرمٹ میں نہ جائے ۔ سو ایسا ہی کیا گیا ۔ میری بیوی کو ایک اور اپنے جیسی مل گئی ۔ دونوں ایک طرف کھڑی گپ لگاتی رہیں اور چائے تک نہ پی ۔ باس اپنی چہک میں رہے اور اُنہیں اس کا احساس نہ ہوا
ایک دن مجھ سے کہنے لگے ”میں نے اپنی بیوی کو تسلی دے رکھی ہے کہ تو فکر نہ کر میں گھر دوسری کو لے کر نہیں آؤں گا“۔
ایک دن فرمانے لگے ”تم بہت غیر سماجی (unsocial) ہو ۔ بیگم کو ساتھ لے کر بڑے افسروں کے گھر جایا کرو“۔ میں ٹھہرا دو جماعت پاس ناتجربہ کار ۔ جواب دیا ”حضور ۔ اس ادارے کا ملازم میں ہوں میری بیوی نہیں“۔ اس پر لمبی تقریر جھاڑ دی
اپنے پی اے کے ہاتھ مہینے دو مہینے کی اکٹھی کی ہوئی اپنی ساری ڈاک میرے دفتر میں اس پیغام کے ساتھ بھجوا دیتے کہ ”ارجنٹ ہے ۔ جلدی سے ساری نپٹاؤں“۔
ایک پریس شاپ میں شاید ایک دہائی کام کیا تھا اور دعوے سے کہا کرتے ”I know nuts and bolts of presses (میں پریسوں کی ڈھِبریاں کابلے جانتا ہوں)“۔ ہم جرمنی گئے ہوئے تھے وہاں جرمن انجیئروں کے سامنے بھی یہ فقرہ کہا کرتے تھے ۔ ایک دن میرے ساتھ اس بات پر اُلجھ پڑے کہ میں کرینک (crank) پریس اور ایکسَینٹرِک (accentric) پریس کو فرق فرق سمجھتا ہوں ۔ جرمن انجنیئر سے کہا ”اپنے دوست اجمل کو سمجھاؤ“۔ وہ جرمن بہت تیز تھا بولا ”پریس ورکشاپ جا کر فورمین سے پوچھتے ہیں ۔ جب وہاں جا کر فورمین سے بات کی تو وہ اُچھل پڑا ”کون جاہل کہتا ہے کہ یہ دونوں ایک ہیں“۔ باس تو وہاں سے بھاگ لئے ۔ واپسی پر جرمن انجنیئر نے شریر مسکراہٹ کے ساتھ کہا ”ہاں ۔ باس ڈھبریاں اور کابلے جانتے ہیں“۔ مزے کی بات کہ انگریزی میں کہنا ہو کہ اُسے کچھ نہیں آتا تو کہا جاتا ہے ”He knows nuts and bolts (اسے ڈھبریوں اور کابلوں کا پتہ ہے)“۔
انہی صاحب نے مجھے وفاداری کا سبق بھی پڑھایا تھا

میرے تیسرے باس بڑے مسلمان تھے ۔ کم از کم اُن کا اندازِ گفتگو یہی بتاتا تھا ۔ بڑے انصاف پسند بھی تھے ۔ جو اُن کا دعوٰی تھا ۔ ہر ماتحت کا تمسخر اُڑانا تو مزاح کی خاطر ہوتا تھا لیکن اُن پر کوئی ہلکی سی بھی تنقید کرے تو بپھر جاتے اور ہمیشہ کیلئے دل میں رکھتے
لطیفے سناتے ہوئے (نعوذ باللہ من ذالک) اللہ کی حیثیت ہی بھول جاتے
جو ماتحت اُن کی ذاتی خدمت عام کرے وہ بغیر سرکاری کام کے جس کی وہ تنخواہ پاتا ہو یا وہ جو بڑی سرکار کا منظورِ نظر ہو تو عمدہ رپورٹیں پاوے ۔ جو محنت اور ذہانت کے ساتھ اپنی تنخواہ حلال کرے مگر اول الذکر خوبی نہ رکھتا ہو اُس کی نہ صرف رپورٹ خراب کرتے بلکہ ہر محفل میں اُس کی نالائقی کا پرچار بھی کرتے
میں 1971ء میں پروڈکشن منیجر تھا تو میرے باس بنے ۔ وسط 1966ء سے میرے کام میں مشین گن کی پلاننگ اور ڈیویلوپمنٹ کے ساتھ ساتھ نہ صرف جرمن لوگوں کے ساتھ ڈیل کرنا تھا بلکہ اُن کے ذاتی معاملات میں اپنے وقت میں مدد دینا اور چھُٹی کے دن سیر و سیاحت پر لیجانا بھی شامل تھا ۔ اسلئے میں جرمن کافی بولنے لگ گیا تھا ۔ 1971ء کی سالانہ رپورٹ میں ایک سوال تھا کہ کون کون سی زبان بولنا ۔ لکھنا ۔ پڑھنا جانتے ہو ۔ میں نے لکھا کہ جرمن بولنا جانتا ہوں ۔ ایک ماہ بعد باس نے بلا کر کہا ”تم نے کونسا سرٹیفیکیٹ لیا ہوا ہے اس میں کاٹو اسے اور دستخط کرو“ ۔ مجھے بُرا تو لگا مگر نقصان نہ سمجھتے ہوئے کاٹ کر دستخط کر دیئے ۔ چند دن بعد ایک افسر جو چند ماہ قبل تک میرے ماتحت اسسٹنٹ منیجر تھا اور منیجر ہو گیا تھا میرے پاس آیا ۔ میں نے پوچھا ”کیسے آئے“۔ بولا ”باس نے بُلایا تھا“۔ میں نے پوچھا ”کیوں ؟“ بولا ”کہاتھا کہ یہاں لکھو کہ جرمن بولنا ۔ لکھنا اور پڑھنا آتی ہے ۔ میں نے لکھ دیا کہ مجھے کیا فرق پڑتا ہے“۔ میں نے اپنا واقعہ بتایا تو ہنس دیا ۔ عقدہ بعد میں کھُلا ۔ اُس زمانہ میں ہمارے پروجیکٹ کے سلسلہ میں میری ہی سطح کا ایک افسر جرمنی میں بطور ٹیکنیکل اتاشی ہوتا تھا ۔ مجھ سے ایک سنیئر 3 سال گذار کر آ چکے تھے ۔ دوسرے کے 3 سال 1972ء میں پورے ہونا تھے ۔ اُن کے بعد میری باری تھی ۔ سلیکشن کے وقت میرا نام آیا تو موصوف نے بحث کی کہ اسے جرمن بالکل نہیں آتی جب کے جونیئر جرمن بولتا ۔ پڑھتا اور لکھتا ہے ۔ چنانچہ مجھے روک کر اُسے جرمنی بھیجا گیا ۔ وہ افسر انگریزی بھی روانی سے نہیں بول سکتا تھا ۔ اس کی سفارش کہیں بہت اُوپر سے آئی تھی
اسسٹنٹ منیجر ہفتہ کی پروڈکشن رپورٹ لے کر آیا ۔ میں نے جائزہ لے کر کہا ” کیا صرف گذشتہ رات میں پروڈکشن اتنی زیادہ ہو گئی ۔ کل چھُٹی تک تو کم تھی ؟“ وہ بولا باس نے کہا تھا ”جو رائفلیں اور مشین گنیں ابھی تیار نہیں ہوئیں اور ان کیلئے پرزے پورے ہیں اُنہیں بھی رائفلیں اور مشین گنیں گن لو“۔ میں نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا ۔ بعد میں باس نے بلا کر دستخط کرنے کو کہا تو میں نے کہا ”جناب ۔ جو رائفلیں اور مشین گنیں ابھی تک تیار ہی نہیں ہوئیں ۔ میں اُنہیں تیار کیسے سمجھ لوں ؟“۔ بولے ”بن ہی جائیں گی نا“۔ میں نے کہا ”جب بن جائیں گی تو رپورٹ میں بھی آ جائیں گی اور میں دستخط بھی کر دوں گا “۔ اُس دن کے بعد ہر جگہ ہر محفل میں جہاں میں موجود نہ ہوں میری مفروضہ نالائقی کے قصے بیان ہونے لگے
ذہین مسلمان ہونے کے دعویدار لیکن کوئی 5 وقت کی نماز مسجد میں پڑھنے والا ہو یا داڑھی سنّت سمجھ کر رکھی ہو تو اُسے جاہل سمجھتے
یہی صاحب بحیثیت ممبر پی او ایف بورڈ 1984ء میں میرے باس بنے جب میں پرنسپل ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ تھا ۔ پاکستان میں سب سے پہلے یعنی 1968ء میں پی او ایف میں کمپیوٹرائزڈ نُومَیرِکل کنٹرول مشینز المعروف سی این سی مشینز (Computerised Numerical Control Machines) میں نے متعارف کرائیں تھیں اسلئے انسٹیٹیوٹ کو جدید سائنسی خطوط پر استوار کرنے کا کام میرے ذمہ کیا گیا تھا ۔ ورکشاپس کے ساتھ ساتھ نئے نصاب بھی تیار کئے ۔ باس کا حُکم آیا کہ کھیلوں کے 60 نمبر بھی نصاب میں شامل کئے جائیں ۔ اس طرح کل نمبر 1160 بن گئے ۔ اسے 1200 بنانے کیلئے میں نے 10 (واہ کی سطح کا) سے 40 (ملکی سطح کا) بہترین قاری ہونے کیلئے شامل کر دیئے ۔ جب باس کو دکھایا تو بولے ”ابھی سے ان کو مکاری سکھا دو“۔ خیال رہے کہ اس زمانہ میں سکولوں میں قرآن شریف ناظرہ پڑھانا لازمی تھا

میری تحریر ”احتساب“ میں درج واقعات میں سے کچھ انہی حضرات کے کارنامے ہیں

باس سب خراب نہیں ہوتے ۔ میرے 2 ایسے باس بھی رہے جن میں سے ایک صرف 2 ماہ (نومبر دسمبر 1963ء) جن کا نام فیض الرحمٰن صدیقی تھا اور دوسرے شاید 1970ء میں 6 ماہ کیلئے جن کا نام حسن احتشام ہے ۔ ان حضرات کے ساتھ بھی میرا تکنیکی یا ذاتی اختلاف ہوا اور بحث بھی ہوئی لیکن یہ دونوں کام کرنے والے ماتحتوں کی بہت قدر کرتے تھے ۔ اس کا عِلم مجھے اُن کے ماتحت کام کرنے کے بعد ہونے والے واقعات سے ہوا ۔ اللہ کریم نے انہی 2 افسران کو میرا شفیع بنایا اور میں اللہ کے فضل و کرم سے بدیر سہی لیکن ریٹائرمنٹ لینے کے وقت گریڈ 20 میں تنخواہ کی زیادہ سے زیادہ سطح پر پہنچا

نئے سال کا خاندان

فیس بُک پر کچھ روز قبل دیکھا کہ بڑے جوش سے اظہار کیا جا رہا تھا کہ سن 2014ء بالکل ویسا ہی ہے جیسا سن 1947ء تھا ۔ بات درست ہے لیکن ایک 1947ء ہی نہیں بہت سے اور سال بھی 2014ء پر منطبق ہیں

سال 2014ء کے 365 دن ہوں گے ۔ سال 1947ء کے بھی 365 دن تھے
سال 2014ء بدھ کے روز شروع ہوا ہے ۔ سال 1947ء بھی بدھ کے روز شروع ہوا تھا
نیچے سال 1900ء کے بعد سے 2014ء پر منطبق ہونے والوں کی فہرست ہے
خیال رہے کے چھُٹیاں منطبق نہیں ہوتیں
سال پر کلک کر کے پورے سال دیکھا جا سکتا ہے

سال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2014ء سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ درمیانی مدت
1902 ۔ ۔ ۔ ۔ 112 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
1913 ۔ ۔ ۔ ۔ 101 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1919 ۔ ۔ ۔ ۔ 95 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
1930 ۔ ۔ ۔ ۔ 84 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1941 ۔ ۔ ۔ ۔ 73 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1947 ۔ ۔ ۔ ۔ 67 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
1958 ۔ ۔ ۔ ۔ 56 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1969 ۔ ۔ ۔ ۔ 45 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1975 ۔ ۔ ۔ ۔ 39 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
1986 ۔ ۔ ۔ ۔ 28 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
1997 ۔ ۔ ۔ ۔ 17 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال
2003 ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال قبل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 سال
2014 ۔ ۔ ۔ ۔ موجودہ سال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 11 سال

قائد اعظم پر تہمت

آج 25 دسمبر ہے ۔ اس دن معمارِ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح آج سے 137 سال قبل کراچی میں پیدا ہوئے تھے ۔ گو اس موضوع پر میں بہت پہلے بھی لکھ چکا لیکن آج خیال آیا کہ قائد اعظم کے اس خطاب کے اس حصہ کی مزید وضاحت کی جائے جسے بنیاد بنا کر اپنے آپ کو روشن خیال اور عالِم سمجھنے والے کچھ لوگ عرصہ ایک دہائی سے قائد اعظم پر تہمت لگاتے ہیں کہ اُنہوں نے پاکستان کو ایک لادینی (Secular) ریاست بنایا تھا

کسی نے صرف دس جماعتیں ہی پڑھی ہیں تو یہ کہانی ضرور پڑھی یا سُنی ہو گی کہ کسی زمانہ میں بندرگاہ پر تعینات ایک اہلکار رشوت لئے بغیر کسی جہاز کو لنگر انداز نہیں ہونے دیتا تھا ۔ ایک جہاز کے کپتان نے انکار کیا اور اپنا اہلکارا بادشاہ کے پاس بھیج دیا ۔ بادشاہ نے لکھ کر دیا ” روکو مت آنے دو “۔ اُس اہلکار نے پڑھا تو کہنے لگا ” دیکھو ۔ لکھا ہے روکو ۔ مت آنے دو“۔اِن پڑھے لکھے روشن خیال ہموطنوں کا استدلال بھی کچھ اسی طرح ہے

پاکستان کی پہلی اسمبلی سے قائد اعظم کے پہلے خطاب (11 اگست 1947ء) کا متعلقہ حصہ من و عن نقل کر رہا ہوں ۔ اسے غور سے پڑھ کر دیکھیئے کہ اس میں پاکستان لادینی ریاست ہونا کہاں سے آ گیا ؟ مکمل تقریر یہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے اور آخر میں قائد اعظم کا واضح بیان بھی پڑھ لیجئے

Para 6. I know there are people who do not quite agree with the division of India and the partition of the Punjab and Bengal. Much has been said against it, but now that it has been accepted, it is the duty of everyone of us to loyally abide by it and honourably act according to the agreement which is now final and binding on all. But you must remember, as I have said, that this mighty revolution that has taken place is unprecedented. One can quite understand the feeling that exists between the two communities wherever one community is in majority and the other is in minority. But the question is, whether it was possible or practicable to act otherwise than what has been done, A division had to take place. On both sides, in Hindustan and Pakistan, there are sections of people who may not agree with it, who may not like it, but in my judgement there was no other solution and I am sure future history will record its verdict in favour of it. And what is more, it will be proved by actual experience as we go on that it was the only solution of India’s constitutional problem. Any idea of a united India could never have worked and in my judgement it would have led us to terrific disaster. Maybe that view is correct; maybe it is not; that remains to be seen. All the same, in this division it was impossible to avoid the question of minorities being in one Dominion or the other. Now that was unavoidable. There is no other solution. Now what shall we do? Now, if we want to make this great State of Pakistan happy and prosperous, we should wholly and solely concentrate on the well-being of the people, and especially of the masses and the poor. If you will work in co-operation, forgetting the past, burying the hatchet, you are bound to succeed. If you change your past and work together in a spirit that everyone of you, no matter to what community he belongs, no matter what relations he had with you in the past, no matter what is his colour, caste or creed, is first, second and last a citizen of this State with equal rights, privileges, and obligations, there will be no end to the progress you will make.

Para 7. I cannot emphasize it too much. We should begin to work in that spirit and in course of time all these angularities of the majority and minority communities, the Hindu community and the Muslim community, because even as regards Muslims you have Pathans, Punjabis, Shias, Sunnis and so on, and among the Hindus you have Brahmins, Vashnavas, Khatris, also Bengalis, Madrasis and so on, will vanish. Indeed if you ask me, this has been the biggest hindrance in the way of India to attain the freedom and independence and but for this we would have been free people long long ago. No power can hold another nation, and specially a nation of 400 million souls in subjection; nobody could have conquered you, and even if it had happened, nobody could have continued its hold on you for any length of time, but for this. Therefore, we must learn a lesson from this. You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed that has nothing to do with the business of the State. As you know, history shows that in England, conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some States in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class. Thank God, we are not starting in those days. We are starting in the days where there is no discrimination, no distinction between one community and another, no discrimination between one caste or creed and another. We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one State. The people of England in course of time had to face the realities of the situation and had to discharge the responsibilities and burdens placed upon them by the government of their country and they went through that fire step by step. Today, you might say with justice that Roman Catholics and Protestants do not exist; what exists now is that every man is a citizen, an equal citizen of Great Britain and they are all members of the Nation.

Para 8. Now I think we should keep that in front of us as our ideal and you will find that in course of time Hindus would cease to be Hindus and Muslims would cease to be Muslims, not in the religious sense, because that is the personal faith of each individual, but in the political sense as citizens of the State.

پاکستان کا نظام حکومت ۔ قائداعظم

سانحہ مشرقی پاکستان کی بنیادی وجہ

سوال یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سانحے کا ’’ڈائریکٹر‘‘ کون تھا مشرقی پاکستان کی علیحدگی کس کی سرپرستی مدد اور مداخلت سے عمل میں آئی؟ اس کا ہرگز مطلب اپنی سیاسی غلطیوں، کوتاہیوں، مختلف حکومتوں، حکمرانوں اور فوجی راج کے پیدا کردہ احساس محرومی پر پردہ ڈالنا نہیں کیونکہ وہ سب کچھ بہرحال تلخ حقیقتیں ہیں اور انہیں تسلیم کرنا پڑے گا

اسی سے دوسرا سوال جنم لیتا ہے کہ کیا اس قسم کی محرومیاں ،کوتاہیاں، غیر دانشمندانہ پالیسیاں اور بے انصافیاں صرف پاکستان میں ہی روا رکھی گئیں؟ کیا صوبائی کشمکش علاقائی آزادی کی تحریکیں اور نفرتیں صرف پاکستان کی سیاست کا ہی حصہ تھیں؟ نہیں ہرگز نہیں،

اسی طرح کی صورتحال بہت سے نوآزاد یا ترقی پذیر ممالک کے علاوہ بعض ترقی یافتہ ممالک میں بھی موجود ہے۔ وہاں بھی وفاقی یا مرکزی حکومت پر بے انصافی کے الزامات لگے رہتے ہیں، بہت سے نو آزاد ممالک کے صوبوں میں رسہ کشی اور نفرت بھی رنگ دکھاتی ہے، بعض اوقات حکمران اور حکومتیں غلط فیصلے بھی کرتی ہیں لیکن ان تمام عوامل کے باوجود وہ ممالک اندرونی طور پر تقسیم ہونے کے باوجود ٹوٹتے نہیں۔ ان کے کچھ علاقے یا صوبے آزادی کا نعرہ بھی لگاتے ہیں، علیحدگی کا مطالبہ بھی کرتے ہیں جیسا کہ خود ہندوستان میں کوئی درجن بھر علیحدگی کی تحریکیں جاری و ساری ہیں لیکن کبھی یہ نہیں ہوا کہ کسی علاقے کو فوجی قوت کی بناء پر الگ ہونے کی اجازت دی جائے۔ ہندوستان کے کئی صوبوں میں علیحدگی پسندی اور آزادی کی تحریکوں کے ساتھ ساتھ گوریلا جنگ بھی جاری ہے، حکومت کی بعض علاقوں میں رٹ بھی موجود نہیں لیکن اس کے باوجود وہاں کوئی صوبہ یا علاقہ نہ ہندوستان سے علیحدہ ہوا ہے اور نہ ہی آزاد۔ سکھوں نے آزادی کی تحریک چلائی تو ہندوستان نے اسے کچل کر رکھ دیا مقبوضہ کشمیر میں مظالم کے پہاڑ تو ڑے جارہےہیں پھر پاکستان ہی کو کیوں اس قیامت صغریٰ سے گزرنا پڑا؟

ایک بار پھر میں ببانگ دہل تسلیم کرتا ہوں کہ مشرقی پاکستان سے بے انصافیاں ہوئیں، ان کا معاشی حصہ انہیں اس قدر نہ ملا جس قدر ان کا حق تھا،مشرقی پاکستان آبادی میں 56 فیصد تھا اس لئے جمہوری اصولوں کی روشنی میں پیرٹی یا برابری بھی ان کے ساتھ زیادتی تھی۔
یہ الگ بات کہ ہمارے وہ دانشور جو آئین میں پیرٹی پر احتجاج کرتے اور اسے ہمالیہ جیسی غلطی قرار دیتے ہیں جذبات کی رومیں بہہ کر یہ بھول جاتے ہیں کہ جغرافیائی فاصلے کو حقیقت تسلیم کرتے ہوئے برابری یا پیرٹی کا اصول سب سے پہلے محمد علی بوگرہ کے آئینی فارمولے میں آیا تھا جس کی بنیاد پر 1954ء میں دستور بنایا جانا تھا لیکن غلام محمد نے اسمبلی برخاست کرکے دستور سازی کی بساط لپیٹ دی

اس سے قبل خواجہ ناظم الدین فارمولے میں بھی برابری کا مقصد ایک اور طریقے سے حاصل کیا گیا تھا جس کی تفصیل میری کتاب ”پاکستان تاریخ و سیاست“ میں موجود ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آئین میں برابری کا اصول بنگالی سیاستدانوں نے خوش دلی سے تسلیم کیا تھا۔ سولہ دسمبر کے حوالے سے پروگراموں میں1956ء کے آئین میں طے کردہ پیرٹی کے اصول کو خوب رگڑا دیا گیا۔ رگڑا دینے والوں کو علم نہیں تھا کہ1956ء کا آئین جناب حسین شہید سہروردی کا کارنامہ تھا اور وہ نہ ہی صرف بنگالی تھے بلکہ شیخ مجیب الرحمن کے استاد، سیاسی رہنما اور گُرو بھی تھے

دراصل اب یہ ساری باتیں خیال رفتہ (After thought) ہیں، اگر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش نہ بنتا پھرتو یہ باتیں کسی کو یاد بھی نہ ہوتیں اور نہ ہی موضوع گفتگو ہوتیں۔ یہ بھی درست ہے کہ مشرقی پاکستان میں سیاسی احساس محرومی کو ایوبی مارشل لاء اور فوجی طرز حکومت نے ابھارا اور اسے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل دی۔ پارلیمانی جمہوریت میں بنگالیوں کو اقتدار ملنے کی توقع تھی، وہ جانتے تھے کہ کسی بھی چھوٹے صوبے کو ساتھ ملا کر پیرٹی کے باوجود وہ اقتدار حاصل کرسکیں گے لیکن ایوبی مارشل لاء نے ان کی امید کی یہ شمع بھی بجھا دی اور انہیں یقین دلادیا کہ اب کبھی بھی ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، پھر ایوبی مارشل لاء کی آمرانہ سختیوں، میڈیا، سوچ اور اظہار پر شدید پابندیوں اور سیاسی مخالفوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی کارروائیوں نے بنگالیوں پر یہ بھی واضح کردیا کہ ان کا سیاسی مستقبل تاریک ہے۔’’پاکستان سے بنگلہ دیش‘‘ نامی کتاب میں سابق بنگالی سفیر اور کرنل شریف الحق نے بالکل درست لکھا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے1969ء میں علیحدگی کا فیصلہ کرلیا تھا۔ کرنل شریف الحق بنگلہ دیش کی تحریک آزادی اور 1971ء کی جنگ کے ہیرو ہیں۔ وہ بنگلہ دیش کے سابق سفیر اور شیخ مجیب الرحمن کے خلاف بغاوت کرنے والوں میں شامل تھے، چنانچہ ان کا لکھا ہوا مستند ہے ۔ شیخ مجیب الرحمن جب 1972ء میں رہائی پاکر لندن پہنچا تو اس نے بی بی سی کے انٹرویو میں یہ تسلیم کیا کہ وہ عرصے سے بنگلہ دیش کے قیام کے لئے کام کررہا تھا

16 نومبر2009ء کو بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمن کی بیٹی حسینہ واجد نے انکشاف کیا کہ وہ 1969ء میں لندن میں اپنے والد کے ساتھ تھی جہاں شیخ مجیب الرحمن نے ہندوستانی ایجنسی’’را‘‘ کے افسران سے ملاقاتیں کیں اور بنگلہ دیش کے قیام کی حکمت عملی طے کی۔ حسینہ واجد کا بیان عینی شاہد کا بیان ہے۔ اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں، اس الجھی ہوئی کہانی کو سمجھنے کے لئے اس پہلو پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ جب 1956ء کے آئین میں بنگالی لیڈر شپ نے پیرٹی کا اصول مان لیا تھا تو پھر یحییٰ خان نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی اس اصول کو کیوں ختم کردیا اور کس اتھارٹی کے تحت ون یونٹ ختم کرنے اور ون مین ون ووٹ کا اصول نافذ کرنے کا اعلان کیا کیونکہ یہ فیصلے تو نئی دستور ساز اسمبلی نے کرنے تھے۔ دراصل یحییٰ خان صدارت پکی کرنے کے لئے مجیب الرحمن سے ساز باز کرنے میں مصروف تھا اور یہ دو بنیادی فیصلے اسی ہوس اقتدار کے تحت کئے گئے تھے

یہ بات بھی سو فیصد درست ہے کہ انتخابات کروانے کے بعد اقتدار منتقل نہ کرنا پاکستان کو توڑنے کے مترادف تھا۔سیاسی بصیرت اور ملکی اتحاد کا تقاضا تھا کہ اقتدار اکثریتی پارٹی کے حوالے کیا جاتا۔ اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کے نتیجے کے طور پر مشرقی پاکستان میں بغاوت ہوئی جسے کچلنے کے لئے آرمی ایکشن کیا گیا۔ گولی سیاسی مسائل کا کبھی بھی حل نہیں ہوتی ،چاہے وہ مشرقی پاکستان ہو یا بلوچستان۔ سیاسی مسائل ہمیشہ سیاسی بصیرت سے ہی حل ہوتے ہیں۔ آرمی ایکشن نے بظاہر پاکستان کو بہت کمزور کردیا تھا

16 دسمبر کے سانحے کا تجزیہ کرتے ہوئے ہم ایک بنیادی پہلو اور اہم ترین فیکٹر کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ”وہ بنیادی حقیقت ہے۔ بھارت کی ہمسائیگی اور بھارت کے ساتھ دو تہائی بارڈر کا مشترک ہونا“۔

فرض کیجئے کہ مشرقی پاکستان بھارت کا ہمسایہ نہ ہوتا تو کیا بنگالی برادران کو کہیں سے اتنی مالی اور سیاسی مدد ملتی، اگر وہ بڑی تعداد میں ہجرت بھی کر جاتے تو کیا دوسرا ہمسایہ ملک انہیں وہاں جلا وطن حکومت قائم کرنے دیتا، ان کے نوجوانوں کو مکتی باہنی بنا کر رات دن فوجی تربیت اور اسلحے سے لیس کرکے گوریلا کارروائیاں کرنے کی اجازت دیتا، آرمی ایکشن کی زیادتیوں کو نہایت طاقتور میڈیا کے ذریعے پوری دنیا میں پھیلاتا اور پاکستان کی کردار کشی کرتا، روس جیسی سپر پاور کو اندرونی معاملے میں شا مل کرتا اور روس سے بے پناہ فوجی اسلحہ لے کر اپنے ہمسایہ ملک پر چڑھ دوڑتا۔ اگر یہ مکتی باہنی کی فتح تھی تو پھر پاکستان کی فوج نے ہندوستان کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے؟ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ ہندوستان کا کیا دھرا تھا، ہندوستان نے بنگالیوں اور مکتی باہنی کی آڑ میں اپنے انتقام کی آگ ٹھنڈی کی ورنہ آرمی ایکشن سری لنکا میں بھی ہوتے رہے، ہندوستان میں بھی سکھوں کا قتل عام ہوا کیا وہ علاقے اپنے ملکوں سے الگ ہوئے؟ اسی لئے سولہ دسمبر 1971ء کو اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے ہندوستان ماتا کی تقسیم کا بدلہ لے لیا اور نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا

بلاشبہ غلطیاں، زیادتیاں اور بے انصافیاں ہوئیں جن کا جتنا بھی ماتم کیا جائےکم ہے۔ اس طرح کی غلطیاں اور بے انصافیاں بہت سے ممالک میں ہوتی رہی ہیں لیکن ان کے استحکام پر زد نہیں پڑی۔ دراصل ہمارے اس سانحے کا ڈائریکٹر ہندوستان تھا اور یاد رکھیئے اسے آئندہ بھی موقع ملا تو باز نہیں آئے گا ۔ یہ بھی یقین رکھیئے میں نے یہ الفاظ کسی نفرت کے جذبے کے تحت نہیں لکھے بلکہ میرے ان احساسات و خدشات کے سوتے ملک کی محبت سے پھوٹے ہیں۔ میں ہمسایہ ممالک بشمول ہندوستان سے اچھے دوستانہ روابط قائم کرنے کے حق میں ہوں جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں۔ امن ہماری ضرورت ہے لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ تاریخ کو بھلادیا جائے کیونکہ جو قومیں اپنی تاریخ فراموش کردیتی ہیں ان کا جغرافیہ انہیں فراموش کردیتا ہے

تحریر ۔ ڈاکٹر صفدر محمود

میری کہانی ۔ مالیات

والد صاحب نے1948ء میں راولپنڈی فائر کلے برکس (Fire clay bricks) کا ایک کارخانہ لگایا ۔ جموں کشمیر کے مہاجر ہونے کی وجہ سے ہمیں پاکستان کی شہریت حاصل نہ تھی چنانچہ کارخانہ کیلئے زمین 25 فیصد منافع کا حصہ دار بنانے کی شرط پر ایک مقامی شخص کی استعمال کی گئی ۔ والد صاحب نے پاکستان بننے سے کچھ قبل یورپ میں اس کام کا مطالعہ اور عملی مشاہدہ کیا تھا ۔ ان اینٹوں کیلئے پاکستان میں مٹی کی تلاش کی اور مختلف علاقوں سے نمونے لے کر جرمنی بھیجے جن میں سے داؤد خیل کا نمونہ سب سے اچھا پایا گیا ۔ اواخر 1949ء میں پیداوار شروع ہوئی تو پاکستان میں پہلی ہونے کے باعث بہت سے آرڈر ملنے شروع ہو گئے جس نے زمین کے مالک کو چُندیا دیا اور اُس نے منافع میں 50 فیصد کا مطالبہ کر دیا ۔ ایسا نہ ہونے پر اپنی زمین سے کارخانہ اُٹھانے کا نوٹس دے دیا ۔ والد صاحب کا منیجر نمعلوم کیوں اُن کے ساتھ مل گیا اور تمام دستاویزات اُن کے حوالے کر دیئے ۔ چنانچہ والد صاحب کو کارخانہ چھوڑنا پڑا ۔ منہ کے بل تو پاکستان بننے پر گرے تھے لیکن اُٹھنے کے بعد پاکستان میں ہمیں پہلی زوردار ٹھوکر یہ لگی

والد صاحب نے 1950ء کے شروع میں ایک دکان کرایہ پر لی اور کار و بار شروع کیا ۔ وہ صبح پونے 8 بجے گھر سے جاتے اور شام 7 بجے لوٹتے ۔ جمعہ کو چھٹی ہوتی مگر ہر ماہ 2 بار جمعرات کی رات لاہور مال لینے جاتے اور جمعہ کی رات کو واپس پہنچتے ۔ یکم اپریل 1950ء کو والد صاحب نے مجھے 500 روپے دے کر کہا کہ ”پورے ماہ کا خرچ ہے ۔ اگر مہینہ ختم ہونے سے پہلے ختم کر دو گے تو باقی دن بھوکے رہیں گے اور اگر کچھ بچا لو گے تو اگلے ماہ بہتر کھا لیں گے”۔ میری اصلی عمر اُس وقت ساڑھے 12 سال تھی (سرکاری ساڑھے 11 سال) اور میں ساتویں جماعت کے بعد آٹھویں میں بیٹھا ہی تھا ۔ یہ رقم کھانے پینے کی و دیگر اشیاء ضروریہ ۔ جلانے کی لکڑی ۔ بجلی اور پانی کا بل ۔ سکول کی فیسیں ۔ کتابیں ۔ کاپیاں وغیرہ سب کیلئے تھی

چھوٹا موٹا سودا تو پہلے بھی میں لاتا رہتا تھا لیکن اب پورا سودا لانا میرے ذمہ ہو گیا ۔ میں ہفتہ میں تین چار بار سبزیاں راجہ بازار کے بازو والی سبزی منڈی سے اور پھل گنج منڈی کے اُس سرے سے لاتا جو رتہ امرال کی طرف ہے ۔ دالگراں بازار سے چاول اور دالیں مہینہ میں ایک بار لاتا ۔ 4 سال یہ سب کام پیدل ہی کرتا رہا

اپریل 1950ء میں 2 بہنیں مجھ سے بڑی اور چھوٹے 2 بھائی اور ایک بہن تھے جبکہ اپریل 1953ء تک چھوٹی 2 بہنیں اور 3 بھائی ہو گئے تھے ۔ کہا گیا کہ ایک بڑی بہن ۔ ایک چھوٹی بہن اور 2 چھوٹے بھائیوں کو جیب خرچ دیا کروں جو میں نے دینا شروع کر دیا ۔ ایک دن کوئی چیز خریدنے کو میرا دل چاہا تو رات کو والد صاحب سے پوچھا ”میں بھی جیب خرچ لے لوں ؟“ جواب ملا ”سارے پیسے تمہارے پاس ہوتے ہیں ۔ خود کھاؤ یا گھر کا خرچ چلاؤ ۔ تمہاری مرضی“۔ اکتوبر 1956ء میں انجنیئرنگ کالج لاہور چلے جانے پر میری یہ ذمہ داری تو ختم ہو گئی لیکن یکم اپریل 1950ء کے بعد ساری عمر مجھے جیب خرچ نہ کبھی ملا اور نہ پھر مانگنے کی جراءت ہوئی

دسمبر 1962ء میں ملازمت شروع ہوئی تو چھوٹے بہنوں بھائیوں کی تعلیم کا خرچ میرے ذمہ ہوا ۔ اس کے علاوہ اُن کی شادیوں کے اخراجات میں والد صاحب کی مدد بھی لازم تھی ۔ نومبر 1967ء میں میری شادی ہوئی ۔ جنوری 1968ء میں والدین کی ھدائت پر میں بیوی کو لے کر واہ چھاؤنی میں سرکاری رہائشگاہ میں منتقل ہو گیا ۔ 7 دسمبر 1970ء کو جس دن پاکستان میں انتخابات ہو رہے تھے اللہ کریم نے مجھے بیٹا (زکریا) عطا کیا ۔ فروری 1975ء ختم ہونے تک اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے ایک بیٹی اور 2 بیٹوں کا باپ بنا دیا تھا

مئی 1976ء میں مجھے حکومت نے لبیا بھیج دیا جہاں سے یکم فروری 1983ء کو واپسی ہوئی ۔ درمیان میں ہر 2 سال بعد 2 ماہ کی چھٹی گذارنے راولپنڈی آتے رہے ۔ 29 جون 1980ء کو والدہ محترمہ اچانک فوت ہو گئیں تو میں اکیلا ہی آ سکا ۔ 1982ء میں ہم راولپنڈی آئے ہوئے تھے تو والد صاحب نے کہا ”اب تم مجھے کوئی پیسہ نہ بھیجنا”۔ لیکن یہ ذمہ داری اکتوبر 1984ء میں ختم ہوئی جب میں دوبارہ واہ چھاؤنی میں رہائش پذیر ہوا

میں نے واہ میں سرکاری رہائشگاہ والد صاحب کے اصرار پر لی کیونکہ والد صاحب کی خواہش تھی کہ میری سب سے چھوٹی بہن راولپنڈی سیٹیلائٹ ٹاؤن والے مکان میں رہے ۔ میں والد صاحب کو ساتھ واہ لیجانا چاہتا تھا لیکن وہ اپنا گھر چھوڑ کر جانے پر راضی نہ ہوئے ۔ والد صاحب پر 1987ء میں فالج کا حملہ ہوا تو میں اپنی سب سے بڑی بہن کی مدد سے اُنہیں اپنے پاس واہ چھاؤنی لے گیا ۔ گھر میں والد صاحب کی خدمت کیلئے وقت اور محنت درکار تھی ۔ دفتر میں ایک محکمہ کا سربراہ ہونے کی ذمہ داری کے ساتھ عیاریوں اور منافقتوں کا ماحول تھا ۔ میں نے باپ کی خدمت کو درست جانتے ہوئے قوانین کے مطابق 1990ء میں یکم مارچ 1991ء سے سوا سال کی چھٹی کے ساتھ 3 اگست 1992ء سے ریٹائرمنٹ کی درخواست دے دی تھی ۔ والد صاحب کو علاج کیلئے کبھی ہفتہ کبھی 2 ہفتے بعد اسلام آباد لانا پڑتا تھا جس سے والد صاحب بہت تھک جاتے تھے ۔ میں نے اپنے سب سے چھوٹے بھائی کو جو سرجن ہے اور اُن دنوں انگلستان میں تھا کہا کہ واپس آ جائے اور اسلام آباد اپنے مکان میں رہ کر والد صاحب کو اپنے پاس رکھے ۔ وہ 1990ء میں آ گیا اور میں نے والد صاحب کو اُس کے پاس چھوڑ دیا ۔ جون 1991ء کے آخر میں چھوٹا بھائی اپنا سامان لینے انگلستان گیا تو میں والد صاحب کو پھر اپنے پاس واہ لے گیا ۔ 2 جولائی کو والد صاحب اچانک فوت ہو گئے

اللہ کی کرم نوازی ہمیشہ شامل حال رہی اور میرا دل یا پاؤں کبھی نہ ڈگمگائے ۔ اس کیلئے میں اپنے پیدا کرنے اور پالنے والے کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے ۔ سچ ہے کہ اللہ بے نیاز ہے اور بے حساب نوازشات کرتا ہے