پاکستان کے قومی ترانہ کی دھُن دنیا کی 3 بہترین دھُنوں میں سےہے
دنیا کی دوسری سب سے اُونچی چوٹی K 2 اور نویں بلند ترین پہاڑ (نانگا پربت) پاکستان میں ہیں
دنیا میں سب سے چھوٹی عمر میں Certified Microsoft Expert ایک پاکستان لڑکی عارفہ کریم ہے
پاکستان ایک ایسا مُلک ہے جہاں 60 مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں
دنیا کا سب سے بڑا earth-filled dam (تربیلہ) پاکستان میں ہے
ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان دنیا کا سب سے وسیع ایمبولنس نیٹ ورک چلا رہی ہے
پچھلے 6 سالوں میں پاکستان میں خواندگی کی شرح میں 250 فیصد اضافہ ہوا ہے
انجنیئروں اور سائنسدانوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے
پاکستان میں دنیا کا چوتھا سب سے بڑا broad band internet ہے
BRICS نے پاکستان کو ایسے 11 ممالک میں شمار کیا ہے جو اکیسویں صدی میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں
قراقرم ہائی وے انسان کی بنائی ہوئی دنیا کی بلند ترین سڑک ہے جو پاکستان اور چین کو ملاتی ہے
پاکستان کی کھیوڑہ میں نمک کی کان دنیا کی دوسری سب سے بڑی نمک کی کان ہے
پاکستان دنیا میں چاول کی بہترین قسم (باسمتی) دریافت کرنے اور اُگانے والا واحد مُلک ہے
پاکستان میں اُگنے والی کپاس دنیا کی دوسری سب سے اچھی کپاس ہے ۔ سب سے اچھی کپاس مصر میں ہوتی ہے
پاکستان میں دنیا کے دو بہترین آم (چونسہ اور انور رٹول) اُگائے جاتے ہیں
دنیا میں بننے والے کُل فٹ بالوں کا 50 فیصد پاکستان میں بنتے ہیں
پاکستان کی بندرگاہ گوادر دنیا کی سب سے بڑی گہرے سمندر کی بندرگاہ ہے
پاکستان دنیا کی سب سے پرانی تہذیب (موہنجو ڈرو) والا ملک ہے
دنیا ک بلند ترین پولو گراؤنڈ شاندر پاکستان میں ہے جس کی بلندی 3700 میٹر (12139 فٹ) ہے
دنیا کا سب سے بڑا آب پاشی کا نظام پاکستان میں ہے
پاکستان 1994ء میں 4 بین الاقوامی کھیلوں (کرکٹ ۔ ہاکی ۔ سکواش ۔ سنُوکر) کے ورلڈ کپ میچ ایک ہی وقت میں کروا کر دنیا کا پہلا ایسا مُلک بنا
پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی کا شمار دنیا کی بہترین ٹیکنالوجیز میں ہوتا ہے
دنیا کے بہترین جیٹ فائٹرز میں سے ایک پاکستان میں بنتا ہے
دنیا میں سب سے زیادہ جراحی کے آلات بنانے اور برآمد کرنے والے ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے
ایئر کموڈور محمد محمود عالم نے 1965ء ک جنگ میں ایک منٹ سے کم وقت میں بھارت کی ہوائی فوج کے 5 لڑاکا طیارے مار گرائے جن میں 4 پہلے 30 سیکنڈ میں گرائے ۔ اس ریکارڈ کو آج تک کوئی نہیں پہنچ سکا
پاکستان کی ہوائی فوج کا شمار دنیا کی بہترین تربیت یافتہ ہوائی افواج میں ہوتا ہے
پاکستان کے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوجی طاقت ہے
پاکستان پہلا اور صرف ایک اسلامی ملک ہے جس نے نیوکلیئر بم بنایا
Category Archives: تاریخ
پہلا یومِ آزادی
ریڈیو جس سے پہلے سُنا کرتے تھے ”یہ آل اِنڈیا ریڈیو لاہور ہے“ سے 14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی رات 11 بج کر 57 منٹ پر آواز آئی ”یہ ریڈیو پاکستان لاہور ہے“
فضا نعرہءِ تکبِیر الله اکبر اور پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گُونج اُٹھی تھی
اب وہ جوش و جذبہ ناجانے کہاں دفن ہو چکا ہے
15 اگست 1947ء کی صبح ريڈيو پاکستان سے یہ ترانہ بجايا گيا تھا
توحید کے ترانہ کی تانیں اڑائے جا
مَطرب تمام رات یہی نغمہ گائے جا
ہر نغمہ سے خلا میں ملا کو ملائے جا
ہر زمزمہ سے نُور کے دریا بہائے جا
ایک ایک تیری تال پہ سُر جھومنے لگيں
ایک ایک سُر سے چوٹ جگر پہ لگائے جا
ہر زیر و بم سے کر تہہ و بالا دماغ کو
ہر گٹکری سے پیچ دلوں کے گھمائے جا
ناسوتیوں سے چھین کے صبر و قرار و ہوش
لاہوتیوں کو وجد کے عالم میں لائے جا
تڑپا چُکیں جنھیں تیری رنگیں نوائیاں
ان کو یہ چند شعر میرے بھی سنائے جا
اے رَہ نوردِ مرحلہ ہفت خوانِ عشق
اِس مرحلہ میں ہر قدم آگے بڑھائے جا
خاطر میں لا نہ اس کے نشیب و فراز کو
جو سختیاں بھی راہ میں آئیں اٹھائے جا
رکھتا ہے لاکھ سر بھی اگر اپنے دوش پر
نامِ محمدِ عربی صلعم پر اسے کٹائے جا
وہ زخم چُن لیا جنہیں پُشتِ غیر نے
حصے میں تیرے آئیں تو چہرے پہ کھائے جا
کرتا رہ استوار اساسِ حریمِ دیں
اور ساتھ ساتھ کُفر کی بنیاد ڈھائے جا
چھلکائے جا پیالہ شرابِ حجاز کا
دو چار گھونٹ اس کے ہمیں بھی پلائے جا
سر پر اگر ہو تاج تو ہو دوش پر گلیم
دُنیا کو شان یثربیوں کی دکھائے جا
رکھ مسندِ رسول کی عزت برقرار
اسلام کے ہلال کا پرچم اُڑائے جا
یہ مولانا ظفر علی خان کا کلام ہے جو بعد میں مجموعہءِ کلام ”چمنستانِ حجاز“ میں شائع ہوا
پاکستان کیوں بنا ؟
فی زمانہ لوگ بے بنیاد باتیں کرنے لگ گئے ہیں جو پاکستان کی بنیادیں کھوکھلا کرنے کی نادانستہ یا دانستہ کوشش ہے ۔ دراصل اِس قبیح عمل کی منصوبہ بندی تو پاکستان بننے سے قبل ہی ہو گئی تھی اور عمل قائد اعظم کی 11 ستمبر 1948ء کو وفات کے بعد شروع ہوا جس میں لیاقت علی خان کے 16 اکتوبر 1951ء کو قتل کے بعد تیزی آ گئی تھی ۔ اب مُستنَد تاریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھتے ہیں کہ پاکستان کیسے بنا ؟
برطانوی حکومت کا نمائندہ وائسرائے دراصل ہندوستان کا حکمران ہی ہوتا تھا ۔ آخری وائسرائے ماؤنٹ بيٹن نے انتہائی جذباتی مرحلے پر 21 مارچ 1947ء کو ذمہ داری سنبھالنے کیلئے 3 شرائط پيش کيں تھیں جو برطانیہ کے اس وقت کے وزیر اعظم کليمنٹ ايٹلی نے منظور کر لی تھیں
1 ۔ اپنی پسند کا عملہ
2 ۔ وہ ہوائی جہاز جو جنگ میں برما کی کمان کے دوران ماؤنٹ بيٹن کے زيرِ استعمال تھا
3 ۔ فيصلہ کرنے کے مکمل اختيارات
ماؤنٹ بيٹن نے دہلی پہنچنے پر سب سے پہلے مہاراجہ بيکانير سے ملاقات کی اور دوسری ملاقات پنڈت جواہر لال نہرو سے کی
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو سے قائد اعظم کے متعلق دريافت کيا
جواہر لال نہرو نے کہا “مسٹر جناح سياست ميں بہت دير سے داخل ہوئے ۔ اس سے پہلے وہ کوئی خاص اہميت نہيں رکھتے تھے” ۔
مزید کہا کہ “لارڈ ويول نے بڑی سخت غلطی کی کہ مسلم ليگ کو کابينہ ميں شريک کرليا جو قومی مفاد کے کاموں ميں رکاوٹ پيدا کرتی ہے” ۔
ماؤنٹ بيٹن نے تيسری ملاقات قائد اعظم محمد علی جناح سے کی ۔ ماؤنٹ بيٹن نے قائد اعظم سے پنڈت جواہر لال نہرو کے متعلق دريافت کيا ۔ قائد اعظم نے برجستہ فرمايا ” آپ تو ان سے مل چکے ہيں ۔ آپ جيسے اعلی افسر نے ان کے متعلق کوئی رائے قائم کرلی ہوگی”۔
ماؤنٹ بيٹن اس جواب پر سمجھ گيا کہ اس ليڈر سے مسائل طے کرنا ٹيڑھی کھير ہے
ماؤنٹ بيٹن نے پنڈت جواہر لال نہرو کے مشورے سے آئی سی ايس افسر کرشنا مينن کو اپنا مشير مقرر کيا ۔ اگرچہ تقسيم فارمولے ميں بھی کرشنا مينن کے مشورے سے ڈنڈی ماری گئی تھی ليکن کرشنا مينن کا سب سے بڑا کارنامہ جموں کشمير کے مہاراجہ ہری سنگھ سے الحاق کی دستاويز پر دستخط کرانا تھےجبکہ مہاراجہ جموں کشمير (ہری سنگھ) پاکستان سے الحاق کا بيان دے چکا تھا ۔ پھر جب مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے الحاق نہ کیا توکرشنا مينن کے مشورے پر ہی جموں کشمير پر فوج کشی کی گئی تھی
انگريز کو ہندوؤں سے نہ تو کوئی سياسی پَرخاش تھی نہ معاشی ۔ مسلمانوں سے انگریز اور ہندو دونوں کو تھی ۔ انگريز نے اقتدار مسلمانوں سے چھينا تھا اور ہندو اقدار حاصل کر کے اکھنڈ بھارت بنانا چاہتا تھا
حقيقت يہ ہے کہ کانگريس نے کيبنٹ مشن پلان کو اس نيت سے منظور کيا تھا کہ مسٹر جناح تو پاکستان سے کم کی بات ہی نہيں کرتے لہٰذا اقتدار ہمارا (ہندوؤں کا) مقدر بن جائے گا ۔ قائد اعظم کا کيبنٹ مشن پلان کا منظور کرنا کانگريس پر ايٹم بم بن کر گرا
صدرکانگريس پنڈت جواہر لال نہرو نے 10جولائی کو کيبنٹ مشن پلان کو يہ کہہ کر سبوتاژ کرديا کہ کانگريس کسی شرط کی پابند نہيں اور آئين ساز اسمبلی ميں داخل ہونے کے لئے پلان ميں تبديلی کرسکتی ہے ۔ چنانچہ ہندو اور انگريز کے گٹھ جوڑ نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کرديا ۔ قائد اعظم نے بر وقت اس کا احساس کر کے مترادف مگر مضبوط لائحہ عمل پیش کر دیا تھا ۔ آسام کے چيف منسٹر گوپی چند باردولی نے کانگريس ہائی کمانڈ کو لکھا” رام اے رام ۔ يہ تو ايک ناقابل تسخير اسلامی قلعہ بن گيا ۔ پورا بنگال ۔ آسام ۔ پنجاب ۔ سندھ ۔ بلوچستان ۔ صوبہ سرحد”۔
کيبنٹ مشن کے سيکرٹری (Wood Rowiyt) نے قائد اعظم سے انٹرويو ليا اور کہا ” مسٹر جناح ۔ کیا یہ ایک مضبوط پاکستان کی طرف پیشقدمی نہیں ہے ؟”
قائد اعظم نے کہا ”بالکل ۔ آپ درست سمجھے“۔
مگر جیسا کہ اُوپر بیان کیا جا چکا ہے کرشنا مینن کے فارمولے پر عمل کرتے ہوئے باہمی فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انگریز نے بڑی عیّاری سے پنجاب اور بنگال دونوں کو تقسیم کر دیا اور آسام بھی بھارت میں شامل کر دیا
رہی سہی کسر رَیڈ کلِف ایوارڈ نے ضلع گورداسپور کو تقسیم کر کے پوری کر دی اور بھارت کو جموں کشمیر میں داخل ہونے کا راستہ مل گیا ۔ رَیڈ کلِف نے مزید عیّاری یہ کی کہ ایوارڈ کا اعلان پاکستان بننے کے 3 دن بعد 17 اگست 1947ء کو کیا
مولانا ابوالکلام آزاد اپنی تصنیف (INDIA WINS FREEDOM) کے صفحہ 162 پر تحرير کرتے ہيں کہ اپنی جگہ نہرو کو کانگريس کا صدر بنانا ان کی زندگی کی ايسی غلطی تھی جسے وہ کبھی معاف نہيں کرسکتے کيونکہ انہوں نے کيبنٹ مشن پلان کو سبوتاژ کيا ۔ مولانا آزاد نے تقسيم کی ذمہ داری پنڈت جواہر لال نہرو اور مہاتما گاندھی پر ڈالی ہے ۔ يہاں تک لکھا ہے کہ 10 سال بعد وہ اس حقيقت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہيں کہ جناح کا مؤقف مضبوط تھا
کچھ لوگ آج کل کے حالات ديکھ کر يہ سوال کرتے ہيں کہ ” پاکستان کيوں بنايا تھا ؟ اگر يہاں يہی سب کچھ ہونا تھا تو اچھا تھا کہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قول کے مطابق ہم متحدہ ہندوستان ميں رہتے”۔
کانگريس ہندوستان ميں رام راج قائم کرنا چاہتی تھی ۔ چانکيہ تہذيب کے پرچار کو فروغ دے رہی تھی ۔ قائد اعظم کی ولولہ انگيز قيادت اور رہنمائی ميں ہندوستان کے 10کروڑ مسلمانوں نے بے مثال قربانياں دے کر پاکستان حاصل کیا ۔ اس پاکستان اور اس کے مقصد کے خلاف بات کرنے والے کسی اور نہیں اپنے ہی آباؤ اجداد کے خون پسینے کو پلید کرنے میں کوشاں ہیں
یومِ یکجہتیءِ کشمیر کیوں اور کیسے
آج یومِ یکجہتیءِ کشمیر ہے ۔ یہ دن پہلی مرتبہ 5 فروری 1990 کو منایا گیا ۔ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے دوسری مسلح جدوجہد 1989 میں شروع ہوئی ۔ اس تحریک کا آغاز کسی منصوبہ بندی کا نتیجہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ کسی باہر کے عنصر کی ایما پر شروع کی گئی تھی ۔بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہر دن کے مظالم سے مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان تنگ آ چکے تھے اور سب سے مایوس ہونے کے بعد پاکستان سے بھی مایوسی ہی ملی – بےنظیر بھٹو نے 1988 میں حکومت سنبھالتے ہی بھارت سے دوستی کی خاطر نہ صرف جموں کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ دغا کیا بلکہ بھارت کے ظلم و ستم کے باعث سرحد پار کر کے پاکستان آنے والے بے خانماں کشمیریوں کی امداد بند کر دی ۔ اِس صورتِ حال کے پیشِ نظر پاکستان کی چند سیاسی جماعتوں نے جن میں جماعتِ اسلامی پیش پیش تھی جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ ہمدردی کے اِظہار کے لئے 5 فروری 1990 کو یومِ یکجہتیءِ کشمیر منانے کا فیصلہ کیا جو اُس وقت کی حکومت کی مخالفت کے باوجود عوام نے بڑے جوش و خروش سے منایا ۔
اہل کشمیر سے یکجہتی کا اظہار محض روایتی نوعیت کی اخلاقی ہمدردی کا مسئلہ نہیں، کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے برطانوی حکومت نے 1947 میں پاکستان اور بھارت کی آزاد مملکتوں کے قیام کے ساتھ ہی پوری منصوبہ بندی کے تحت یہ مسئلہ پیدا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد کوئی ایسی دشواری نہیں تھی جو برطانوی حکومت اور برصغیر میں اس کے آخری وائسرائے نے ہمارے لئے پیدا نہ کی ہو اور سب سے زیادہ کاری ضرب جو پاکستان پر لگائی جاسکتی تھی وہ مسئلہ کشمیر کی صورت میں لگائی گئی۔ کشمیر کا مسئلہ دو مملکتوں کے درمیان کسی سرحدی تنازع کا معاملہ نہیں بلکہ کشمیریوں کی ”حق خودارادیت“ کی جدوجہد پاکستان کی بقا کی جنگ ہے ۔ کشمیر کا مسئلہ برطانوی حکومت نے پیدا کرایا ۔ وہ برصغیر سے جاتے جاتے کشمیر کو بھارت کی جارحیت کے سپرد کر گئے اور اس سروے میں مِڈل مَین کا کردار برصغیر میں برطانیہ کے آخری وائسرائے اور آزاد بھارت کے پہلے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ادا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی اس مملکت کے جسم پر ایک ناسور بنا دیا جائے اور اُس کے بعد بھارت محض اسلحہ کی طاقت کے زور پر کشمیریوں پر اپنی بالادستی قائم رکھے ہوئے ہے ۔
قوموں کی زندگی میں ایک وقت فیصلہ کا آتا ہے کہ “جھُکے سر کے ساتھ چند روز عیش قبول کرلیں” یا “سرفروشی کے ساتھ سرفرازی کی راہ اپنائیں”۔ جَبَر کرنے والے اذِیّتوں سے اور موت سے ڈراتے ہیں۔ اِیمانی توانائی موت سے نبرُد آزما ہونے کی جرأت عطا کرتی ہے۔ موت میں خوف نہیں ہوتا بکہ لذت ہوتی ہے اور جذبہءِ ایمانی کا کَیف اس لذّت کو نِکھارتا ہے۔ اہل کشمیر اب اس لذّت سے سرشار ہو چکے ہیں ۔ یہ اللہ کا کرم ہے اہل کشمیر پر اور اہل پاکستان پر بھی ۔ اہل کشمیر صرف کشمیرکیلئے حق خودارادیت کی جنگ نہیں لڑ رہے ہیں وہ پاکستان کے استحکام کی جنگ بھی لڑ رہے ہیں۔ حُرِیّت کی داستانیں اِسی طرح رَقَم ہوتی ہیں۔ بھارت کی جارحانہ طاقت اس جذبے کا مقابلہ کب تک کرے گی ۔ بھارتی فوج پوری طرح مسلح ہے لیکن وہ انسانی قدروں سے نہ صرف محروم بلکہ ان سے متصادم ہے اس لئے ناکامی اس کا مقدر ہے ۔ بھارت کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حصول کی جنگ کو ”دہشت گردی“ کہتا جبکہ خود بھارت انسانیت کو پامال کر رہا ہے ۔
لیاقت علی خان پر بہتان ۔ اور حقیقت ۔ قسط ۔ 2
کچھ لوگ کہتے ہیں “جب نواب آف جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں پاکستان کے تب کے وزیرِ اعظم سے پچاس ہزار بندوقوں کا مطالبہ کیا جو اس وقت پورا کرنا چنداں مشکل نہ تھا مگر نوابزادہ لیاقت علی خان کو یہ بات اس لئے گوارہ نہیں تھی کہ اس طرح پاکستان میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے لئے اقتدار و اختیار کو ایک بہت بڑے نواب ( آف جوناگڑھ) کی صورت میں خطرہ لاحق ہو جاتا
اول ۔ یہ بالکل غلط ہے کہ نواب جونا گڑھ نے پچاس ہزار بندوقیں مانگی تھیں ۔ نواب جونا گڑھ کے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کرتے ہی بھارت نے اپنی فوج جونا گڑھ میں داخل کر دی اور نواب جونا گڑھ کو مدد مانگنے کی مُہلت نہ ملی
دوم ۔ جونا گڑھ کے بعد جب بھارت نے جموں کشمیر میں زبردستی اپنی فوجیں داخل کر دی تھیں تو قائد اعظم نے پاکستانی افواج کے کمانڈر اِن چِیف جنرل گریسی کو بھارتی افواج کو روکنے کا حُکم دیا تھا ۔ اگر پاکستان کے پاس پچاس ہزار تو کیا اُس وقت دس ہزار رائفلیں بھی ہوتیں تو قائدِ اعظم کے حُکم کی خلاف ورزی کرنے کی بجائے اُس کی تعمیل کر کے جنرل گریسی ایک ہمیش زندہ شخصیت اور صاحب کے تمام پاکستانیوں کا ہِیرو بن جاتا
کچھ لوگ نظامِ حکومت سے بھی بے بہرہ ہیں ۔ حکومت چلانا گورنر جنرل کا کام نہیں تھا بلکہ وزیرِ اعظم کا تھا مگر آج تک کسی نے کوئی ایسی مثال پیش نہیں کی جس سے ثابت ہو کہ شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان نے کوئی کام قائدِ اعظم سے مشورہ کئے بغیر سرانجام دیا ہو
قائدِ اعظم کو ڈاکٹر کی سخت ہدائت پر زیارت لے جایا گیا تھا ۔ یہ شہیدِ مِلّت نوابزادہ لیاقت علی خان کی سازش نہ تھی ۔ قائد اعظم کے معالجِ خاص کرنل الٰہی بخش کی لکھی کتاب پڑھ لیں
آٹھ سال آئین بننے نہ دینے” کی بات کرتے ہوئے لوگ بھُول جاتے ہیں کہ شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کو پاکستان بننے کے چار سال بعد ہلاک کر دیا گیا تھا
مختصر بات یہ ہے کہ آئین اُس وقت کے پاکستان میں موجود آئی سی ایس افسروں (جن میں غلام محمد جو بعد میں غیر ملکی پُشت پناہی سے گورنر جنرل بن بیٹھا تھا بھی شامل تھا) نے نہ بننے دیا ۔ ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ دستور ساز ی کیلئے جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس کے ارکان کا بار بار اِدھر اُدھر تبادلہ کردیا جاتا تھا ۔ اُس دور میں ہر افسر کو ٹرین پر سفر کرنا ہوتا تھا ۔ یہاں یہ بھی بتا دوں کہ آئی سی ایس افسران حکومتِ برطانیہ کی پُشت پناہی سے سازشوں کا جال نوابزادہ لیاقت علی کی شہادت سے قبل ہی بُن چُکے تھے
آج کا دن اہم کیوں ؟
آج 24 اکتوبر ہے ۔ يہ دن کيوں اہم ہے ؟ اس کا پس منظر اور پيش منظر ميں اِن شاء اللہ ايک ہفتہ تک بيان کروں گا آج کی تحرير صرف 24 اکتوبر کے حوالے سے
ٹھیک آج سے 64 سال قبل جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے وطن پر بھارت کے طاقت کے زور پر ناجائز قبضہ کے خلاف اعلانِ جہاد کیا جو کہ ایک لاکھ سے زائد جانوں کی قربانی دینے کے باوجود آج تک جاری ہے ۔ انشاء اللہ یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی
کہتے ہیں ہر دم یہ جموں کشمیر کے مسلماں
اے وطن تیری آزادی تک چین سے نہ بیٹھیں گے
اعلانِ جہاد ۔ بھارتی فوج اور برطانوی فضائیہ کے حملے
راشٹريہ سيوک سنگ ۔ ہندو مہاسبھا اور اکالی دَل نے ضلع جموں کے مضافات اور دو دوسرے ہندو اکثريتی اضلاع ميں مسلمانوں کا قتلِ عام اور اُن کی فصلوں اور گھروں کو جلانا تو پہلے ہی شروع کر رکھا تھا ۔ اکتوبر 1947ء کے شروع ہی ميں اُن کی طرف سے يہ اعلان بر سرِ عام کيا جانے لگا کہ “مُسلے [مسلمان] عيد پر جانوروں کی قربانی کرتے ہيں ۔ ہم اس عيد پر مُسلوں کی قربانی کريں گے”۔ چنانچہ جمعہ 24 اکتوبر 1947ء کو جس دن سعودی عرب میں حج ہو رہا تھا جموں کشمیر کے مسلمانوں نے اپنے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کا اعلان کر دیا اور مسلح تحریک آزادی شروع ہو گئی ۔ مجاہدین نے ایک ماہ میں مظفرآباد ۔ میرپور ۔ کوٹلی اور بھمبر آزاد کرا کے جموں میں کٹھوعہ اور کشمیر میں سرینگر اور پونچھ کی طرف پیشقدمی شروع کر دی ۔ یہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی کے لئے چوتھی مگر پہلی مسلح تحریک تھی
ان آزادی کے متوالوں کا مقابلہ شروع میں تو مہاراجہ ہری سنگھ کی ڈوگرہ فوج سے تھا مگر اکتوبر کے آخر میں بھارتی فوج بھی ان کے مقابلے پر آ گئی اور ہندوستان کے برطانوی وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے فضائی حملوں کے لئے برطانوی فضائیہ کو برما سے جموں کشمیر کے محاذ پر منتقل کروا دیا ۔ برطانوی فضائیہ کی پوری کوشش تھی کہ کشمير کو پاکستان سے ملانے والا کوہالہ پُل توڑ دیا جائے لیکن اللہ سُبْحَانہُ وَ تعالٰی کو یہ منظور نہ ہوا اور بمباری کے باوجود پُل محفوظ رہا
اس جنگ آزادی میں حصہ لینے والے کچھ مسلمان دوسری جنگ عظیم میں یا اس کے بعد برطانوی یا مہاراجہ کی فوج میں رہ چکے تھے اور جنگ کے فن سے واقف تھے ۔ باقی عام شہری تھے ۔ ان کے پاس زیادہ تر پہلی جنگ عظیم میں استعمال ہونے والی طرّے دار بندوقیں تھیں اور دوسری جنگ عظیم کے بچے ہوئے ہینڈ گرنیڈ تھے ۔ توپیں وغیرہ کچھ نہ تھا جبکہ مقابلہ میں بھارتی فوج ہر قسم کے اسلحہ سے لیس تھی اور برطانوی فضائیہ نے بھی اس کی بھرپور مدد کی
بے سروسامانی کی حالت میں صرف اللہ پر بھروسہ کر کے شہادت کی تمنا دل میں لئے آزادی کے متوالے آگے بڑھنے لگے ۔ وزیرستان کے قبائلیوں نے اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کے لئے جہاد کا اعلان کر دیا اور ان کے لشکر جہاد میں حصہ لینے کے لئے جموں کشمیر کے آزاد کرائے گئے علاقہ ميں پہنچنا شروع ہوگئے ۔ چند پاکستانی فوجی بھی انفرادی طور پر جہاد میں شامل ہو گئے ۔ اللہ کی نُصرت شامل حال ہوئی اور ڈوگرہ اور بھارتی فوجیں پسپا ہوتی گئيں یہاں تک کہ مجاہدین پونچھ کے کافی علاقہ کو آزاد کرا کے پاکستان کی سرحد کے ساتھ ساتھ جنوب کی طرف پیشقدمی کرتے ہوئے کٹھوعہ کے قریب پہنچ گئے
نغمہ ميرے وطن
پاکستان ريڈيو سے روزانہ سُنايا جانے والا نغمہ جو پچھلے 10 سال سے نہيں سُنايا جا رہا ۔ سُنئے پہلی اور اصل حالت ميں [The original version]جموں کشمير کے مناظر کے ساتھ
کرِيو مَنز جِرگاز جائے چمنو
ستم شعار سے تجھ کو چھڑائیں گے اک دن
میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن
پاکستان کیا ہے ؟
پاکستان کے قومی ترانہ کی دھُن دنیا کی 3 بہترین دھُنوں میں سےہے
دنیا کی دوسری سب سے اُونچی چوٹی K 2 اور نویں بلند ترین پہاڑ (نانگا پربت) پاکستان میں ہیں
دنیا میں سب سے چھوٹی عمر میں Certified Microsoft Expert ایک پاکستان لڑکی عارفہ کریم ہے
پاکستان ایک ایسا مُلک ہے جہاں 60 مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں
دنیا کا سب سے بڑا earth-filled dam (تربیلہ) پاکستان میں ہے
ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان دنیا کا سب سے وسیع ایمبولنس نیٹ ورک چلا رہی ہے
پچھلے 6 سالوں میں پاکستان میں خواندگی کی شرح میں 250 فیصد اضافہ ہوا ہے
انجنیئروں اور سائنسدانوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے
پاکستان میں دنیا کا چوتھا سب سے بڑا broad band internet ہے
BRICS نے پاکستان کو ایسے 11 ممالک میں شمار کیا ہے جو اکیسویں صدی میں دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں
قراقرم ہائی وے انسان کی بنائی ہوئی دنیا کی بلند ترین سڑک ہے جو پاکستان اور چین کو ملاتی ہے
پاکستان کی کھیوڑہ میں نمک کی کان دنیا کی دوسری سب سے بڑی نمک کی کان ہے
پاکستان دنیا میں چاول کی بہترین قسم (باسمتی) دریافت کرنے اور اُگانے والا واحد مُلک ہے
پاکستان میں اُگنے والی کپاس دنیا کی دوسری سب سے اچھی کپاس ہے ۔ سب سے اچھی کپاس مصر میں ہوتی ہے
پاکستان میں دنیا کے دو بہترین آم (چونسہ اور انور رٹول) اُگائے جاتے ہیں
دنیا میں بننے والے کُل فٹ بالوں کا 50 فیصد پاکستان میں بنتے ہیں
پاکستان کی بندرگاہ گوادر دنیا کی سب سے بڑی گہرے سمندر کی بندرگاہ ہے
پاکستان دنیا کی سب سے پرانی تہذیب (موہنجو ڈرو) والا ملک ہے
دنیا ک بلند ترین پولو گراؤنڈ شاندر پاکستان میں ہے جس کی بلندی 3700 میٹر (12139 فٹ) ہے
دنیا کا سب سے بڑا آب پاشی کا نظام پاکستان میں ہے
پاکستان 1994ء میں 4 بین الاقوامی کھیلوں (کرکٹ ۔ ہاکی ۔ سکواش ۔ سنُوکر) کے ورلڈ کپ میچ ایک ہی وقت میں کروا کر دنیا کا پہلا ایسا مُلک بنا
پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی کا شمار دنیا کی بہترین ٹیکنالوجیز میں ہوتا ہے
دنیا کے بہترین جیٹ فائٹرز میں سے ایک پاکستان میں بنتا ہے
دنیا میں سب سے زیادہ جراحی کے آلات بنانے اور برآمد کرنے والے ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے
ایئر کموڈور محمد محمود عالم نے 1965ء ک جنگ میں ایک منٹ سے کم وقت میں بھارت کی ہوائی فوج کے 5 لڑاکا طیارے مار گرائے جن میں 4 پہلے 30 سیکنڈ میں گرائے ۔ اس ریکارڈ کو آج تک کوئی نہیں پہنچ سکا
پاکستان کی ہوائی فوج کا شمار دنیا کی بہترین تربیت یافتہ ہوائی افواج میں ہوتا ہے
پاکستان کے پاس دنیا کی چھٹی بڑی فوجی طاقت ہے
پاکستان پہلا اور صرف ایک اسلامی ملک ہے جس نے نیوکلیئر بم بنایا