Category Archives: تاریخ

قطب مینار

میں نے ڈائری میں 31 مارچ 1958ء کو لکھاQutub Minar Delhi
یوں تو دنیا کے مختلف شہروں میں بہت سے بلند و بالا مینار ہیں جو اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے کچھ کم شاندار نہیں مگر سنگین مینار چوٹی سے زمین تک خوبصورت اور بلند اور قدیم سوائے قطب مینار کے اور کوئی نہیں ۔ قطب مینار خالص پتھر کا بنا ہوا ہے ۔ اس کی بلندی 238 فٹ ہے ۔ مینار میں چوٹی تک 378 سیڑھیاں ہیں ۔ اس مینار کا پہلا درجہ اگرچہ رائے پتھورا کے زمانہ کا بنا ہوا ہے مگر 1193ء میں اسلامی فتوحات مکمل ہو جانے پر سُلطان قطب الدن ایبک نے اس پر چار درجوں کا اضافہ کرایا اور اس مینار کو مازنہ قرار دے کر اس نسبت سے ایک عالیشان مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد قوت الاسلام کے نام سے معروف ہوئی ۔ جس مسجد کا ماذنہ اتنا بُلند ہو اس کی وسعت کا کیا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ بت خانہ کے صحن میں ماذنہ اور مسجد کا ہونا اور بت خانہ کا بھی قائم رہنا اور لوہے کی لاٹ ہندو راج کا نشان سب کا ملا جُلا ایک جگہ ایک ہزار سال قائم رہنا یہ نظارہ سوائے دہلی کے اور کسی جگہ نظر نہیں آئے گا ۔ اب حال یہ ہے کہ نہ بُت خانہ میں پوجا ہوتی ہے نہ مسجد میں نماز نہ ماذنہ سے اذان

سُلطان قطب الدین ایبک کے انتقال کے بعد سلطان شمس الدین التمش 627 ھ بمطابق 1229ء میں مسجد قوت الاسلام میں تین درجوں کا اضافہ کیا جس پر اسلامی پرچم نہائت شان سے لہرایا کرتا تھا اور اسلام کے شیدائی شمس الدین التمش نے ہر درجہ پر جلی حروف میں آیاتِ قرآنی کندہ کروائیں ۔ قطب مینار نیچے سے 48 فٹ گول ہے اور اُوپر تک گاؤ دُم ہوتا چلا گیا ہے ۔ یہ ایسی خوبصورتی سے بنایا گیا ہےکہ تحریر سے باہر ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسی بڑی بڑی سِلیں اس زمانہ میں جبکہ آلاتِ جرثقیل اور سائنٹفک آلات موجود نہ تھے تو کس طرح اس بلندی پر پہنچ کر لگائی گئی تھیں کہ آج ایک ہزار سال ہو گئے لیکن اُکھڑنے کا نام نہیں لیتیں ۔ قطب مینار کی بنیاد کس ساعتِ سعید میں رکھی گئی ہو گی کہ ہندوؤں کے زمانہ میں اس کا پہلا درجہ بنا ۔ مسلمانوں نے اسے سربلند کیا ۔ ان کے عروج و کمال کو دیکھا ۔ پھر ان کے زوال کو بھی دیکھا اور نجانے کب تک انقلابِ لیل و نہار کا مشاہدہ کرتا رہے گا

اہم بات
جب 1950ء کی دہائی کے آخری سالوں میں اٹلی میں موجود پِسا (Pisa) کے مینار کے تِرچھا یعنی ایک طرف کو جھُکا ہوا ہونے کا چرچا ہو رہا تھا والد صاحب نے ہمیں بتایا تھا کہ قطب مینار شروع دن سے ہی عمودی نہیں بلکہ کچھ تِرچھا بنا ہوا ہے جبکہ پِسا کا مینار تعمیر کی خامی کی وجہ سے جھُکنا شروع ہو گیا ہے ۔ مزید قطب مینار کی اُونچائی پِسا کے مینار سے 53 فٹ زیادہ ہے اور قطب مینار کی عمر پِسا کے مینار سے 180 سال زیادہ ہے مگر پروپیگنڈہ کے ذریعہ پِسا کے مینار کو عجوبہ قرار دیا جا رہا ہے اور قطب مینار کا نام کوئی نہیں لیتا

ہرن مینار اور قلعہ شیخو پورہ

میری ڈائری میں 3 مارچ 1957ء کی تحریر

ہرن مینار
مُغل بادشاہ سلیم جہانگیر نے 1606ء میں تالاب بنوایا جس کی لمبائی 892 فٹ چوڑائی 750 فٹ اور درمیان میں گہرائی 18 فٹ ہے
1606ء میں ہی تالاب کے قریب اپنے پسندید ہرن منسراج کی قبر پر ایک مینار تعمیر کرایا ۔ اس مینار کی اُونچائی 125 فٹ ہے اور اس کی چھت پر جانے کیلئے سیڑھیوں کی تعداد 106 ہے
1611ء میں دولت خانہ بنوایا گیا جو دو منزلہ ہے اور تیسرا گنبد ہے

قلعہ شیخو پورہ
موجودہ شیخو پورہ مغل باسدشاہ جہانگیر کی شکار گاہ تھی
بادشاہ جہانگیر نے اپنے نام سے منصوب ایک گاؤں جہانگیر آباد اس جگہ آباد کیا ۔ بادشاہ جہانگیر کو شیخو بھی کہا جاتا تھا چنانچہ بعد میں یہ شیخو پورہ کے نام سے معروف ہوا
بادشاہ جہانگیر نے اس جگہ 1907ء میں ایک قلعہ تعمیر کرایا جو موجوددہ شہر شیخو پورہ کے جنوب مشرق میں ہے ۔ اس قلعے کی پہلی منزل کی 27 سیڑھیاں ہیں ۔ دوسری کی 58 ۔ تیسری کی 16 اور چوتھی یی بھی 16 سیڑھیاں ہیں
بعد میں مغل بادشاہ شاہجہاں نے ایک نئی عمارت بنوائی جس کا کوئی نشان نہیں ملتا ۔ خیال ہے کہ شاید متذکرہ بالا دولت خانہ کی جگہ بنائی گئی ہو گی

پاکستان کیسے بنا ؟

11012966_10153118779653214_9222380873510174951_n11817059_10153118777063214_3021858139480196679_n11825166_10153118778203214_3128428457947206585_n11825665_10153118776268214_740562706423065721_n11828562_10153118777433214_928922430999369107_n11873423_10153118776053214_6951817530271428303_n11831689_10153118780843214_2477181436196316706_n11828703_10153118776648214_7369052121881447292_n11836904_10153118776488214_3557432899146615455_n11855680_10153118779183214_6839381318611571948_n11863380_10153118782053214_2846821582218262537_n11870633_10153118776043214_4847740213467946779_n11828603_10153118777713214_2155622792486963207_n11870907_10153118775908214_6303597753657785213_n11873636_10153118778863214_1949104587780971030_n یہ چند جھلکیاں اُس سزا کی ہیں جو 1947ء میں مسلمانانِ ہند کو تحریکِ آزادی چلانے اور اپنا مُلک پاکستان بنانے کے سبب دی گئی

مغربی پاکستان کے قریبی ہندوستان کے علاقوں سے جذبہ ءِ آزادی سے سرشار سوا کروڑ سے زائد مسلمان عورتیں ۔ مرد ۔ بوڑھے ۔ جوان اور بچے پاکستان کی طرف روانہ ہوئے ۔ انہیں راستہ میں اذیتیں پہنچائی گئیں اور تہہ تیغ کیا گیا ۔ 50 لاکھ کے لگ بھگ جوان عورتوں اور لڑکیوں کو اغواء کر لیا گیا ۔ ہجرت کرنے والے اِن مسلمانوں میں سے آدھے بھی زندہ پاکستان نہ پہنچ پائے اور جو بے سر و سامان ۔ بھوکے پیاسے پاکستان پہنچے ان میں بھی بہت سے زخمی تھے

کیا ہم اتنے ہی بے غیرت و بے حمیّت ہو چکے ہیں کہ اس مُلک کے حصول کیلئے اپنے آباؤ اجداد کی بے شمار اور بے مثال قربانیوں کو بھی بھُلا دیں ؟

میرے پاکستانی بہنو ۔ بھائیو ۔ بھانجیو ۔ بھانجو ۔ بھتیجیو ۔ بھتیجو
ہوش میں آؤ
آپا دھاپی چھوڑ کر اس مُلک کیلئے خلوصِ نیّت اور محنت سے کام کرو
جس نے ہم سب کو ایک منفرد شناخت بخشی ہے

ہم اُن لوگوں کی اولاد ہیں جنہوں نے حوصلے اور صبر کے ساتھ سو سال جانی اور مالی نقصانات برداشت کرتے ہوئے پُر امن اور مہذب جد و جہد کر کے کُرّہءِ ارض پر ایک نیا مُلک بنایا
اس مُلک کا نام پاکستان ہے یعنی پاک لوگوں کی رہائشگاہ
اسلئے
ہمیں تمام الائشوں سے پاک ہو کر محنت کے ساتھ زندگی کا سفر طے کرنا ہے
اور
اس مُلک کو مُسلمانوں کا ایک خوشحال اور مضبوط قلعہ بنانا ہے

یومِ آزادی اور ہمارا کردار

Flag-1 عصرِ حاضر میں یہ روائت بن گئی ہے کہ شاید اپنے آپ کو اُونچا دکھانے کیلئے اپنے وطن پاکستان کو نِیچا دکھایا جائے
یہ فقرے عام سُننے میں آتے ہیں

” اس مُلک نے ہمیں کیا دیا ہے “۔
”کیا رکھا ہے اس مُلک میں“۔

بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مُلک کے اندر ہی نہیں مُلک کے باہر بھی میرے کچھ ہموطن اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کو بُرا کہتے ہیں ۔ وہ بھی صرف آپس میں نہیں بلکہ غیر مُلکیوں کے سامنے بھی ۔ حقیقت میں ایسے لوگ عقلمند نہیں بلکہ بیوقوف ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ خود اپنے آپ کو بدنام کر رہے ہیں

اس مُلک پاکستان نے ہمیں ایک شناخت بخشی ہے
اس سے مطالبات کرنے کی بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہیئے
کہ
ہم نے اس مُلک کو کیا دیا ہے اور کیا دینا ہے
ہم نے ہی اس مُلک کو بنانا ہے اور ترقی دینا ہے جس کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے ۔ اسی میں ہماری بقاء ہے

یہ وطن پاکستان اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ کا عطا کردہ ایک بے مثال تحفہ بلکہ نعمت ہے
میرے وطن پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں
دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ۔ ہر وقت برف پوش رہنے والے پہاڑ ۔ سرسبز پہاڑ اور چٹیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفع ۔ سرسبز میدان اور صحرا
چشموں سے نکلنے والی چھوٹی ندیوں سے لے کر بڑے دریا اور سمندر بھی
ہر قسم کے لذیز پھل جن میں آم عمدگی اور لذت میں لاثانی ہے
بہترین سبزیاں اور اناج جس میں باسمتی چاول عمدگی اور معیار میں لاثانی ہے
میرے وطن پاکستان کی کپاس مصر کے بعد دنیا کی بہترین کپاس ہے
میرے وطن پاکستان میں بننے والا کپڑا دنیا کے بہترین معیار کا مقابلہ کرتا ہے
میرے وطن پاکستان کے بچے اور نوجوان دنیا میں اپنی تعلیمی قابلیت اور ذہانت کا سکّہ جما چکے ہیں
پاکستان کے انجنیئر اور ڈاکٹر اپنی قابلیت کا سکہ منوا چکے ہیں
سِوِل انجنیئرنگ میں جرمنی اور کینیڈا سب سے آگے تھے ۔ 1961ء میں پاکستان کے انجنیئروں نے پری سٹرَیسڈ پوسٹ ٹَینشنِنگ ری اِنفَورسڈ کنکرِیٹ بِیمز (Pre-stressed Post-tensioning Re-inforced Concrete Beams) کے استعمال سے مری روڈ کا نالہ لئی پر پُل بنا کر دنیا میں اپنی قابلیت ۔ ذہانت اور محنت کا سکہ منوا لیا تھا ۔ اس پُل کو بنتا دیکھنے کیلئے جرمنی ۔ کینیڈا اور کچھ دوسرے ممالک کے ماہرین آئے اور تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے ۔ یہ دنیا میں اس قسم کا پہلا تجربہ تھا ۔ یہ پُل خود اپنے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ پچھلے 54 سال میں اس پر ٹریفک زیادہ وزنی اور بہت زیادہ ہو چکی ہے لیکن اس پُل پر بنی سڑک میں بھی کبھی ہلکی سی دراڑ نہیں آئی

آیئے آج یہ عہد کریں کہ
ہم اپنے اس وطن کو اپنی محنت سے ترقی دیں گے اور اس کی حفاظت کیلئے تن من دھن کی بازی لگا دیں گے
اللہ کا فرمان اٹل ہے ۔ سورت ۔ 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39

وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی

(اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)

سورت ۔ 13 ۔ الرعد ۔ آیت ۔ 11

إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ

( اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے

آج کے دن


آج کے دن کم از کم مندرجہ ذیل اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے

1 ۔ انسانیت سے دوستی کا ڈنڈورہ پیٹنے والے امریکہ نے ہروشیما کی شہری آبادی پر ایٹم بم گرایا جس سے 2555000 کی آبادی میں سے 66000 انسان ہلاک اور 69000 زخمی ہوئے ۔ یعنی 26 فیصد مر گئے اور مزید 27 فیصد زخمی ہوئے ۔ صرف 47 فیصد بچے ۔ زخمیوں میں سے بہت سے اپاہج ہو گئے

2 ۔ پی آئی اے کی قاہرہ مصر کے لئے پہلی آزمائشی پرواز نمعلوم وجوہات کی بناء پر قاہرہ کے قریب صحرا میں گر کر تباہ ہو گئی اور 200 کے قریب لوگ ہلاک ہو گئے

3 ۔ پی آئی اے کا فوکر فرینڈشپ طیارہ راولپنڈی سے لاہور جاتے ہوئے روات کے قریب گر کر تباہ ہو گیا اور 25 لوگ ہلاک ہو گئے ۔

میں زوڈیاک سائینز میں یقین نہیں رکھتا لیکن جو اس کا شوق رکھتے ہیں ان کے لئے لکھ دیتا ہوں کہ چھ اگست کے لئے زوڈیآک سائین اسد یا لیو ہے اور اس کے ساتھ لکھا ہے ۔

Warm, generous, open spirit; strong leaders, readily noticed whenever they enter a room; enjoy being center stage; regal appearance and often a dramatic personality; strong pride and occasionally arrogant; susceptible to flattery and easily embarrassed; good follow-through, will see a project to its conclusion; often artistic and creative; natural understanding of children; loyal and ardent lovers; may make fun of themselves, but won’t appreciate others doing so.

آج کے دن جموں شہر میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام ریاست حیدر آباد کے کسی حساب دان نے اس کی پیدائش کے سال کی بنیاد پر افتخار اجمل رکھا

قرآن شریف کا قدیم ترین نُسخہ برمنگھم یونیورسٹی میں دریافت

سُبحان اللہ ۔ نہ مُلک مسلمانوں کا ۔ نہ یونیورسٹی مسلمانوں کی ۔ نہ محقق مُسلم ۔ اور ثبوت کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے زمانہ سے آج تک قرآن کی عبارت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ تفصیل کچھ یوں ہے

اتحادیوں کی سلطنت عثمانیہ پر 1908ء سے 1918ء تک یلغار کے نتیجہ میں شرق الاوسط (مشرقِ وسطہ) اتحادیوں کے قبضہ میں چلا گیا ۔ آج کا عراق اُن دنوں تعلیم کا گڑھ تھا ۔ 1920ء میں کلدائی قوم کا ایک پادری (بابل کا باشندہ) الفانسو مِنگانا (Alphonse Mingana) مُوصل سے عربی کے 3000 قلمی نُسخے برطانیہ لے کر گیا تھا ۔ یہ نُسخے 95 سال سے مِنگانا کا ذخیرہ (Mingana Collection) کے نام سے برمنگھم یونیورسٹی کی لائبریری میں گُمنام حیثیت میں پڑے تھے اور کسی کے عِلم میں نہ تھا کہ ان میں قرآن شریف کا دنیا کا قدیم ترین نُسخہ بھی ہے

قرآن شریف کے اس نُسخے کی عمر کا تعین ریڈیو کاربن ڈیٹنگ (Radiocarbon dating) یعنی جدید سائنسی طریقہ کے ذریعہ کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ نسخہ کم از کم 1370 سال پرانا ہے ۔ چنانچہ یہ قرآن شریف کے دنیا میں اب تک حاصل کئے گئے قدیم ترین نسخوں میں سے ایک ہے ۔ برطانیہ کے لائبریری ماہر ڈاکٹر محمد عیسٰے والے کا کہنا ہے کہ یہ ایک حیران کُن دریافت ہے جس سے مسلمانوں کو مُسرت ہو گی
1یہ اوراق بھیڑ یا بکرے کی کھال کے ہیں

پرانے ترین نُسخے
جب پی ایچ ڈی کرنے والے محقق البا فیڈیلی (Alba Fedeli) ان اوراق کی باریک بینی کی تو ان کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور نتیجہ حیران کن نکلا ۔ ٹیسٹ کرنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ایکسلریٹر یونٹ (Oxford University Radiocarbon Accelerator Unit) نے بتایا کہ بھیڑ اور بکرے کی کھال پر لکھے گئے قرآن شریف کے نسخے بہت پرانے ہیں ۔ یونیورسٹی کے مخصوص مخازن کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ہم نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ یہ نسخہ اتنا پرانا ہو گا
2

برمنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ تھامس (Prof David Thomas) جو اسلام اور عیسائیت کے پروفیسر ہیں نے کہا ”جس کسی نے بھی اسے لکھا ہو گا وہ ضرور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو قریب سے جانتا ہو گا اور اُس نے اُنہیں بولتے ہوئے بھی سُنا ہو گا ۔ ان ٹیسٹوں سے جو 95 فیصد درست ہوتے ہیں قرآن شریف کے نسخے کے مختلف اوراق کی تاریخیں 568ء اور 645ء کے درمیان نکلتی ہیں ۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ اس کی لکھائی طلوعِ اسلام کے چند سال کے اندر شروع ہوئی“۔

پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے مزید کہا ”مسلمانوں کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم پر قرآن شریف کا نزول 610ء اور 632ء کے درمیان ہوا جبکہ 632 اُن کے وصال کا سال ہے“۔
3

پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے بتایا کہ قرآن شریف کے کچھ حصے کھال کے بنے کاغذ ۔ پتھر ۔ کھجور کے پتوں اور اونٹ کے کشانے کی چوڑی ہڈی پر بھی لکھے گئے تھے ۔ ان سب کو کتابی شکل لگ بھگ 650ء میں دی گئی تھی ۔ متذکرہ نسخے کی عبارت تقریباً وہی ہے جو آج کے قرآن شریف کی ہے ۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے قرآن شریف میں کوئی تحریف نہیں ہوئی یا بہت ہی کم تبدیلی ہوئی ہے“۔

حجازی رسم الخط میں لکھا ہوا قرآن شریف کا نسخہ سب سے پرانے نسخوں میں سے ایک ہے ۔ برمنگھم یونیورسٹی میں موجود نسخہ زیادہ سے زیادہ 645ء کا ہو سکتا ہے

یہ معلومات سین کوفلان (Sean Coughlan) کے 22 جولائی 2015ء کو شائع ہونے والے مضمون سے لی گئیں

شرم و حیاء کیا ہوتی ہے

عمران اقبال صاحب کے بلاگ پر ”کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیاء ہوتی ہے“ کے عنوان سے مانو بلی کے نام سے ایک مضمون لکھا گیا ۔ میں عمران اقبال صاحب سے معذرت خواہ ہوں کہ اُن کی مہمان لکھاری کی معلومات پر اعتراض کی جسارت کر رہا ہوں ۔ اگر عُمر میں لکھاری محترمہ مجھ سے بڑھی ہیں تو اُن سے بھی معذرت ۔ مجھے لکھنے کی جراءت محترمہ کی تحریر کے آخر میں مرقوم اِس ”نوٹ“ سے ہوئی ۔ ۔ ۔ ” اگر کسی دوست کو اختلاف ہو یا ذہن میں کوئی سوال آئے تو میں جواب دینے کیلئے حاضر ہوں ۔ اگر میں نے کہیں کوئی واقعہ مسخ کرکے لکھا ہو تو نشاندہی ضرور کیجیئے گا”۔

محترمہ نے دعوٰی کیا ہے ۔ ۔ ۔ ” اتنا دعوی ضرور کرتی ہوں کہ جو تاریخی حقائق بیان کرونگی من و عن کرونگی“۔
محترمہ شاید بے پَر کے اُڑتی خبروں سے محسور ہو گئی ہیں اور پاکستان کی تاریخ کا علم بھی کم عُمری کے باعث کم ہی رکھتی ہیں

قارئین اور بالخصوص محترمہ کے عِلم کیلئے عرض کر دوں کہ تاریخ کچھ یوں ہے
قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل بنے ۔ ایک گہری سازش کے تحت 16 اکتوبر 1951ء کو قائدملت لیاقت علی خان کو قتل کروا دیا گیا ۔ خواجہ ناظم الدین کو بہلا پھُسلا کر وزیراعظم بنا دیا گیا اور سابق سیکریٹری فنانس غلام محمد (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) گورنر جنرل بنا جو سازش کی ایک کڑی تھی ۔ خواجہ ناظم الدین کی کابینہ نے آئین کا مسؤدہ تیار کر لیا اور پورے ہندوستان کے مسلمانوں کی پاکستان کیلئے منتخب کردہ اسمبلی میں پیش ہوا ہی چاہتا تھا کہ غلام محمد نے 17 اپریل 1953ء کو خواجہ ناظم الدین کو برطرف کر کے پاکستان کے امریکہ میں سفیر محمد علی بوگرہ (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) کو وزیراعظم بنا دیا ۔ محمد علی بوگرہ نے آئین کا ایک متبادل مسؤدہ تیار کرایا جو اسمبلی کو منظور نہ تھا ۔ فیصلہ کیا گیا کہ قائداعظم کی ھدایات کی روشنی میں تیار کیا گیا آئین وزیراعظم محمد علی بوگرہ کی مرضی کے بغیر اسمبلی سے منظور کرا لیا جائے ۔ جسے روکنے کیلئے غلام محمد نے 24 اکتوبر 1954ء کو پاکستان کی پہلی مُنتخب اسمبلی توڑ دی ۔ سپیکر مولوی تمیزالدین نے چیف کورٹ (اب ہائی کورٹ) میں اس کے خلاف درخواست دی جو منظور ہوئی مگر غلام محمد نے فیڈرل کورٹ (اب سپریم کورٹ) میں اپیل دائر کی جہاں غلام محمد کا ہم نوالہ و ہم پیالہ چیف جسٹس منیر احمد (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) تھا ۔ اُس نے ملک کے مستقبل پر اپنی یاری کو ترجیح دی ۔ نظریہءِ ضرورت ایجاد کیا اور اپیل منظور کر لی ۔ نظریہءِ ضرورت پہلا مرض ہے جو پاکستان کو لاحق ہوا ۔ محمد علی بوگرہ نے غلام محمد کی منشاء کے مطابق نام نہاد ٹیکنوکریٹ حکومت تشکیل دی اور فوج کے سربراہ (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ) کو وردی میں وزیر دفاع بنا دیا یعنی پاکستان کا عنانِ حکومت مکمل طور پر سفید اورخاکی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں چلا گیا ۔ یہ دوسرا مرض ہے جو پاکستان کو لاحق ہوا ۔ اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل عنوان پر کلِک کر کے ایک دستاویزی ثبوت کا حوالہ دیکھیئے
خُفیہ کتاب کا ایک ورق

غلام محمد پر فالج کا حملہ ہوا ۔ سیکریٹری دفاع سکندر مرزا (غیرمُلکی قابضوں کا پالا بیوکریٹ جسے قائداعظم محبِ وطن نہیں جانتے تھے) ڈپٹی گورنر جنرل بن گیا ۔ عملی طور پر وہ گورنر جنرل ہی تھا کیونکہ غلام محمد کچھ لکھنے یا بولنے کے قابل نہ تھا ۔ سکندر مرزا جب سیکریٹری دفاع تھا خود ہی نوٹیفیکیشن جاری کر کے میجر جنرل کا لاحقہ لگا لیا تھا ۔ 8 اگست 1955ء کو غلام محمد کو برطرف کر کے سکندر مرزا پکا گورنر جنرل اور پھر صدر بن گیا ۔ سکندر مرزا نے 11 اگست 1955ء کو چوہدری محمد علی کو وزیراعظم بنا دیا ۔ 30 ستمبر 1955ء کو مغربی پاکستان کو وَن یونٹ بنا کر مغربی پاکستان کا سربراہ ڈاکٹر عبدالجبّار خان المعروف ڈاکٹر خان صاحب (عبدالغفّار خان کے بڑے بھائی یعنی اسفندیار ولی کے دادا کے بھائی) کو بنا دیا گیا جو کانگرسی اور نظریہ پاکستان کا مخالف تھا ۔ پاکستان بننے سے پہلے جب پاکستان کیلئے ووٹنگ ہوئی تھی تو ڈاکٹر خان صاحب شمال مغربی سرحدی صوبہ (اب خیبر پختونخوا) کا قابض حکمرانوں کی طرف سے حاکم تھا اور اس نے پوری کوشش کی تھی کہ صوبے کے مسلمان کانگریس کے حق میں ووٹ ڈالیں لیکن ناکام رہا تھا ۔ مگر اسے سکندر مرزا کا اعتماد حاصل تھا ۔ ڈاکٹر خان صاحب نے بتدریج مُخلص مسلم لیگیوں کو فارغ کر کے اُن کی جگہ دوغلے یا اپنے ساتھی رکھ لئے ۔ چوہدری محمد علی نے بوگرہ کے تیار کروائے ہوئے آئین کے مسؤدے میں کچھ ترامیم کر کے 23 مارچ 1956ء کو آئین منظور کرا لیا۔ ڈاکٹر خان صاحب کی مہربانی سے حکومت میں اکثریت نظریہ پاکستان کے مخالفین کی ہو چکی تھی جس کے نتیجہ میں چوہدری محمد علی 8 ستمبر 1956ء کو مجبوراً مُستعفی ہو گئے

حسین شہید سہروردی ڈاکٹر خان صاحب کی پارٹی سے اتحاد کر کے 12 ستمبر 1956ء کو وزیراعظم بنے لیکن بیوروکریسی کی سازشوں کا مقابلہ نہ کر سکے اور عزت بچانے کیلئے 10 اکتوبر 1957ء کو مُستعفی ہو گئے ۔ ان کی جگہ آئی آئی چندریگر کو قائم مقام وزیراعظم بنا دیا گیا ۔ وہ صرف 2 ماہ رہے ۔ 16 دسمبر 1957ء کو ملک فیروز خان نون وزیراعظم بنے ۔ اُس وقت تک مُلکی حالات نے مغربی پاکستان میں خان عبدالقیوم خان کی سربراہی میں مسلم لیگ اور مشرقی پاکستان میں حسین شہید سہرودری کی سربراہی میں عوامی لیگ کو مضبوط کر دیا تھا ۔ یہ دونوں بڑی جماعتیں متحد ہو گئیں اور ملک فیروز خان نون کو سہارا دیا جس سے سکندر مرزا کو اپنی کرسی خطرے میں نظر آئی اور اُس نے جون 1958ء میں کانگرسی لیڈر خان عبدالغفار خان (جو نہ صرف پاکستان بنانے کے مخالف تھے بلکہ قائداعظم کے بھی مخالف تھے) سے مدد کی درخواست کی اور مشرقی پاکستان میں گورنر کے ذریعہ حسین شہید سہروردی کی عوامی لیگ میں پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کی مگر ناکام رہا ۔ آخر 7 اور 8 اکتوبر 1958ء کی درمیانی رات سکندر مرزا نے فوج کے سربراہ اور وزیر دفاع جنرل محمد ایوب خان کو آگے بڑھنے کا کہا ۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب جانتے ہیں

محترمہ مزید لکھتی ہیں ”پاکستان میں فرقہ وارا نہ دہشتگردی کو فروغ اور عوام خاص طور پر پنجاب میں انتہاپسندی کا جو بیج ضیا نے بویا اسکی آبیاری کے علاوہ تو مجھے ‘شہید’ کا کوئی اور مشن سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ یہی ایک کام میاں صاحب نے بخوبی کیا۔ آج بھی دہشتگرد تنظیموں کو پیغام بھیجے جاتے ہیں کہ پنجاب کو چھوڑ کر کہیں بھی دہشتگردی پر انہیں کوئی اعتراض نہ ہوگا“۔

محترمہ کا مندرجہ بالا بیان بے بنیاد اور لَغو ہے ۔ محترمہ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ پورے پاکستان میں ہر قسم کے دہشتگردوں کے خلاف بلاامتیاز فوجی کاروائی کا فیصلہ نواز شریف ہی نے کیا ہے ۔ چھوٹے چھوٹے دہشتگردی کے واقعات تو 1972ء سے ہوتے چلے آرہے تھے جن میں کچھ اضافہ 1977ء کے بعد ہوا جب 2 نام ”ہتھوڑا گروپ“ اور ”الذوالفقار“ زبان زدِ عام ہوئے تھے ۔ الذوالفقار والے پی آئی اے کا ایک جہاز اغواء کر کے افغانستان لے گئے تھے اور اس جہاز میں سوار ایک شخص کو ہلاک بھی کیا تھا
دہشتگردی کے بڑے واقعات ستمبر 2001ء کے بعد شروع ہوئے جب پرویز مشرف نے پاکستان کی بجائے امریکہ کی مکمل تابعداری اختیار کی ۔ ان میں شدت اُس وقت آئی جب 13 جنوری 2006ء کو امریکی ڈرون نے باجوڑ کے علاقہ ڈماڈولا میں ایک مدرسے کو میزائل مار کر درجنوں معصوم بچوں کو ہلاک کر دیا اور پرویز مشرف نے کہا کہ ”یہ حملہ ہمارے گن شپ ہیلی کاپٹر نے کیا ہے“۔ اگر بات کراچی کی ہے تو وہاں کے رہنے والے ہی اس کا سبب ہیں
ضیاء الحق نے 3 ماہ کا کہہ کر حکومت سنبھالی اور پھر 11 سال چپکا رہا اس وجہ سے وہ مجھے پسند نہیں لیکن ضیاء الحق پر جس فرقہ واریت ۔ دہشتگردی ۔ کلاشنکوف کلچر اور افغانستان میں دخل اندازی کا الزام لگایا جاتا ہے اُس کی پنیری ذوالفقار بھٹو نے لگائی تھی ۔ ملاحظہ ہو

1 ۔ صوبہ سندھ میں ووٹ حاصل کرنے کیلئے بے بنیاد زہرآلود تقاریر کیں اور وہ سندھی جنہوں نے قائد اعظم کا ساتھ دیا تھا اور پاکستان کیلئے ہونے والی ووٹنگ میں شاہنواز بھٹو (ذوالفقار علی بھٹو کے والد) کے خلاف قائداعظم کے نام زد کردہ سکول ٹیچر کو جتوا دیا تھا اُن کو پنجابی اور اُردو بولنے والوں کا دشمن بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ مزید کالا باغ ڈیم بنانے کی مکمل تیاری ہو چکی تھی ۔ کنسٹرکشن کمپنی کا چناؤ ورلڈ بنک نے کرنا تھا اسلئے کسی پاکستانی کی جیب میں ناجائز پیسہ جانے کی اُمید نہ تھی ۔ مال کمانے کی خاطر ذوالفقار علی بھٹو نے صوبہ سندھ سوکھنے کا شوشہ چھوڑ کر کالا باغ کے خلاف سندھ میں فضا ہموار کی اور پاکستان انجنیئرنگ کانگرس (جس میں اراکین کی اکثریت صوبہ سندھ سے تھی) کی مخالفت کے باوجود تربیلہ ڈیم بنانے کا فیصلہ کیا ۔ کالا باغ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے آج تک پاکستان کی معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے

2 ۔ فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) بنائی جس میں جیب کُترے ۔ جوئے باز اور دیگر آوارہ جوانوں کو بھی بھرتی کر کے اُنہیں آٹومیٹک رائفلیں دے دیں ۔ انہیں نہ صرف سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا گیا بلکہ اپنی ہی پارٹی میں جس نے اختلاف کیا اُسے بھی پٹوایا یا ھلاک کیا گیا ۔ اس کی اہم مثال احمد رضا قصوری کے والد کی ہلاکت ہے جو بھٹو صاحب کو تختہ دار پر لے گئی

3 ۔ آئی ایس آئی پاکستان کا مُخلص اور محافظ ادارہ تھا ۔ اس میں سیاسی شاخ بنا کر آئی ایس آئی کو سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا جو بعد میں رواج پکڑ گیا اور آئی ایس آئی سیاست میں بھرپور طور پر ملوّث ہو گئی

مزید مندرجہ ذیل عنوانات پر کلِک کر کے پڑھیئے
4 ۔ دہشتگردی کا ذمہ دار کون
5 ۔ سرکاری دفاتر میں دھونس اور دھاندلی کیسے شروع ہوئی

محترمہ نے آگے چل کر لکھا ہے ”نواز شریف ایک اوسط درجے کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انکے والد صاحب کی ایک چھوٹی سی فاؤنڈری تھی جو بھٹو کے زمانے میں قومیائی گئی اور ضیاالحق نے واپس دی ۔ اس کی تفصیلات اگلے مضمون میں لکھوں گی

مجھے نواز شریف نے نہ کچھ دیا ہے اور نہ کچھ ملنے کی کبھی اُمید ہوئی ۔ لیکن سچ لکھنا میرا حق ہے ۔ نواز شریف کے والد میاں محمد شریف اور برادران (کُل 6 بھائی) نے 1930ء میں فاؤنڈری بنائی ۔ جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا تو 1958ء یا 1959ء میں ہماری کلاس کو اتفاق فاؤنڈری کے مطالعاتی دورے پر لیجایا گیا تھا ۔ اُن دنوں بھی یہ فاؤنڈری چھوٹی نہ تھی ۔ ہمارے پروفیسر صاحب نے اتفاق فاؤنڈری جاتے ہوئے ہمیں بتایا تھا کہ ”پہلا بڑا کام اس فاؤنڈری نے پاکستان بننے کے چند سال بعد کیا کہ جن شہروں میں ہندو جاتے ہوئے بجلی گھروں کو آگ لگا گئے تھے اُن کیلئے چھوٹے چھوٹے بجلی گھر تیار کر کے ان شہروں میں نصب کئے ۔ اگر یہی پاور سٹیشن درآمد کئے جاتے تو دوگُنا خرچ ہوتا“۔ اُس دور میں پاکستان میں کوئی فاؤنڈری سوائے اس کے نہ تھی ۔ چھوٹا چھوٹا ڈھالنے کا کام ہو تو اُسے بھی فاؤنڈری کہہ دیا جاتا ہے مگر ان میں نہ تو پیداوار کا خاص معیار ہوتا ہے اور نہ ہی یہ بڑا کام کر سکتی ہیں
ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے دورِ حکومت سے قبل اتفاق فاؤنڈری کی جگہ اتفاق گروپ آف انڈسٹریز لے چکا تھا جو بغیر معاوضہ قومیا لیا گیا تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم ہونے کے بعد جن کارخانہ داروں نے چارہ جوئی کی اُنہیں اُن کے کارخانے واپس دے دیئے گئے تھے کیونکہ وہ خسارے میں جا رہے تھے

محترمہ نے مزید لکھا ہے ”بینظیر کی حکومت گرانے کیلئے اسامہ بن لادن سے پیسے لینے والے میاں صاحب
یہ خبر کسی محلہ اخبار میں چھپی ہو تو معلوم نہیں البتہ کسی قومی سطح کے اخبار میں نہیں چھپی اور نہ ہی پیپلز پارٹی (جو مسلم لیگ نواز کی مخالف سب سے بڑی اور پرانی جماعت ہے) کے کسی سرکردہ لیڈر کے منہ سے سُنی گئی ہے ۔ پکی بات ہے کہ کم از کم 2001ء تک اوسامہ بن لادن افغانستان میں تھا ۔ اگر امریکہ نے 2 مئی 2011ء کو اُسے ایبٹ آباد میں ہلاک کیا تو وہاں وہ پرویز مشرف یا آصف علی زرداری کے دورِ حکومت میں آیا اور رہائش رکھی ۔ اس لحاظ سے تو پرویز مشرف اور آصف علی زرداری اوسامہ بن لادن کے دوست ہوئے

بینظیر بھٹو صاحبہ سیاسی لحاظ سے جو کچھ تھیں وہ ایک طرف لیکن میں اُن کا احترام اسلئے کرتا ہوں کہ اُنہیں اپنے مُلک کی مٹی سے پیار تھا اور اسی وجہ سے میں محمد نواز شریف کو بھی اچھا سمجھتا ہوں
ایک اہم حقیقت جسے ہمارے ذرائع ابلاغ نے اہمیت نہیں دی یہ ہے کہ لیاقت علی خان ۔ ضیاء الحق اور بینظیر بھٹو کو ہلاک کرانے کے پیچھے ایک ہی ہاتھ تھا اور ہماری ناعاقبت اندیشی کہیئے یا بدقسمتی کہ میرے پڑھے لکھے ہموطنوں کی اکثریت اُس دُشمنِ پاکستان کو اپنا دوست بنانے یا کہنے میں فخر محسوس کرتی ہے ۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے ناجائز قتل کی وجہ سے دوسرے واقعات میڈیا نے پسِ پُشت ڈال دیئے تھے ۔ محترمہ بینظیر بھٹو سے قبل محمد نواز شریف پر کامیاب قاتلانہ حملہ ہوا ۔ ابھی اُن کی موت نہیں لکھی تھی اسلئے بچ گئے تھے ۔ ہوا یوں تھا کہ اسلام آباد آتے ہوئے جب وہ روات پہنچے تو چوہدری تنویر نے محمد نواز شریف کو زبردستی اپنی گاڑی میں بٹھا لیا تھا ۔ جب حملہ ہوا تو محمد نواز شریف کی گاڑی میں بیٹھے اُن کے سب محافظ ہلاک ہو گئے تھے ۔ چنانچہ ہلاک کروانے والا دراصل پاکستان کا دشمن ہے